4
1
2019
1682060030498_865
69-83
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/66/42
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/66
Federal Ombudsman Seerah Individual Rights Public Complaints Government Initiatives federal ombudsman seerah individual rights public complaints government initiatives
تمہید:
عہدِ رسالت میں اگرچہ احتساب یا الحسبۃ کے نام سے باقاعدہ کوئی ادارہ موجود نہیں تھا لیکن اس عہد میں دوسرے کئی اداروں کی طرح ادارۂ احتساب بھی مسلّمہ اصولوں کے مطابق بعض انتظامی عہدوں سے عبارت تھا۔ حضورِ اکرم ﷺ نے ریاستِ مدینہ میں برائیوں کی روک تھام کے لئے مختلف باصلاحیت افراد کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے تعینات فرمایا تھا اور خود آپ ﷺ بطور "محتسبِ اعلیٰ" ان کی نگرانی کیا کرتے تھے۔بعد میں مختلف اسلامی ریاستوں نے اسی نہج اور طریقہ کار کو اپنا کر اپنے اپنے ادوار میں باقاعدہ احتسابی ادارے قائم کئے۔
پاکستان میں احتساب کا ادارہ ۱۹۸۳ء میں قائم کیا گیا۔ اسلامی دستور کے لئے وضع کردہ دفعات میں اس احتسابی ادارے کی بنیادی ذمہ داریوں میں حکومتی ملازمین کے خلاف عوامی شکایات کے ازالہ کے علاوہ یہ بھی لازم قرار دیا گیا تھا کہ پاکستان کا ادارۂ احتساب نیکیوں کو پروان چڑھائے گا اور برائیوں کا سدِ باب کرے گا۔
سابقہ تحقیقی کام کا جائزہ :
اکثر فقہی واسلامی تاریخ پر لکھی گئی کتا بوں میں اس موضوع پر مواد موجود ہے۔اس کے علاوہ الگ مستقل کتابیں بھی تحریر کی گئیں ہیں جن میں امام ابن تیمیہ کی کتاب "الحسبۃ فی الاسلام "،ضیا ءالدین السناسی کی نصاب "الاحتساب" سر فہرست ہیں نیز محمد غزالی کی "احیاءعلوم الدین"، ابن جوزی کی "منھاج القاصدین" اور علی الماوردی کی "الاحکام السلطانیہ"میں احتساب،محتسب اور دائرہ احتساب کے بارے میں مباحث موجود ہیں۔ اردو زبان میں ساجدالرحمٰن صدیقی کی "اسلام میں پولیس اور احتساب کا نظام "،مولانا سید محمد متین ہاشمی کی "اسلامی حدود اور ان کا فلسفہ مع اسلام کا نظام احتساب" بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔
اس مقالہ میں وفاقی ادارۂ احتساب کی بنیادی ذمہ داریوں کو زیرِ بحث لا تے ہوئے وضاحت کی گئی ہے کہ ادارہ ہذا کےبیان کردہ فرائض کی نظائر عہدِ رسالت میں بھی موجود ہیں یا نہیں؟ اس سے جہاں احتساب کے ادارے کی دورِ رسالت میں موجودگی یا عدم موجودگی کا مسئلہ منقح ہو کر سامنے آئے گا وہیں خلافتِ راشدہ میں قائم کردہ احتسابی اداروں کی پالیسیوں کی دورِ رسالت میں موجود اساس تک رسائی بھی حاصل ہو جائے گی۔
بنیادی سوالاتِ تحقیق:
مقالہ ہذا کے بنیادی سوالات مندرجہ ذیل ہیں:# پاکستان کے ادارۂ احتساب کے بنیادی فرائض کون کون سے ہیں؟
- کیا پاکستان کے ادارہ احتساب کی بنیادی ذمہ داریوں کے بارے میں عہدِ رسالت سے رہنمائی ملتی ہے؟
- پاکستان کا ادارہ احتساب احتسابی عمل میں شفافیت کے لئے سیرتِ طیبہ سے کس طرح استفادہ کر سکتا ہے؟
پاکستان کا نظامِ احتساب:
پاکستان کے دستور کو دیگر ممالک کے دساتیر پر اس اعتبار سے فوقیت حاصل ہے کہ اس میں ادارۂ احتساب کے قیام کا تصور موجود ہے جس پر عمل درآمد کے لئے وفاقی ادارۂ احتساب قائم کیا گیا۔ مختلف ادوار میں اس ادارے کے قیام کے لئے سفارشات مرتب کی گئیں۔۱۹۷۳ءکے آئین میں اس ادارے کے قیام کو دوبارہ ضروری قرار دیا گیا لیکن عملی کاروائی نہ ہونے کی بناء پر اس ادارے کا قیام دس سال تک تعطل کا شکار رہا۔ بالآخر ۱۹۸۳ء میں سابقہ سفارشات کی روشنی میں "وفاقی محتسب"کے قیام کے بعد "جسٹس سردار محمد اقبال" کا تقرر بطور "وفاقی محتسب" ۸ اگست ۱۹۸۳ء کوکیا گیا۔[1]
وفاقی محتسب پاکستان کا قیام:
وفاقی محتسب پاکستان کا قیام 24 جنوری 1983 کو صدارتی فرمان نمبر 1983 کے تحت ہوا ۔[2] اس صدارتی فرمان کے مطابق "اس حکم کا اطلاق پورے پاکستان پر ہوگا اور فوری طور پر نافذالعمل ہوگا۔"[3]
محتسب کی تقرری:
اس فرمان میں کہا گیا ہے کہ "صدر پاکستان محتسب کا تقرر کرے گا محتسب کے عہدے کی مدت عرصہ چار سال کے لیے صرف ایک مرتبہ ہوگی اور اس میں توسیع بھی نہیں ہوگی۔"[4]
شرائط تقرر محتسب:
اس فرمان میں کہا گیا ہے کہ "صدر کومحتسب کی ملازمت کی شرائط کے یقین کا حق حاصل ہے چنانچہ محتسب کی تنخواہ اور دیگر مراعات اس کی مدت ملازمت کے دوران تبدیل نہیں ہوں گی۔"[5]
برخاستگی:
محتسب کی برطرفی کا اختیار صدر پاکستان کے پاس ہے۔ برطرفی کی وجوہات میں غلط طرزِ عمل کا ارتکاب، ذہنی یا جسمانی معذوری داخل ہیں۔ محتسب اپنی برطرفی کو سپریم جوڈیشنل کونسل میں چیلنج کر سکتا ہے۔[6]
محتسب کے دفتر کے عملہ کا تقرر صدر یا اس کی طرف سے مقرر کردہ شخص کرسکتا ہے۔ 2002ء میں محتسب کے صدارتی فرمان کے ترمیم شدہ آرڈیننس کے مطابق وفاقی حکومت تمام عملہ کے تقرر کی اہلیت اور شرائط کے مقرر کرنے کا مجاز ہے۔[7]
شکایات درج کرنے کا طریقہ کار:
وفاقی محتسب پاکستان کو شکایات درج کرنے کے مختلف طریقے ہیں چنانچہ کوئی بھی شہری سادہ کاغذ پر اپنی شکایت اردو یا انگریزی زبان میں لکھ کر بھیج سکتا ہے شکایت کنندہ خود یا اپنے قریبی عزیز کے ذریعے براہ راست وفاقی محتسب یا اس کے کسی ایسے اہلکار جو اس کی طرف سے نامزد کردہ ہو درخواست دے سکتا ہے اس کے علاوہ شکایات ڈاک اور کورئیر سروس فیکس اور ای میل کے ذریعے بھی کی جاسکتی ہیں اور اب تو وفاقی محتسب پاکستان کی ویب سائٹ پر آن لائن درخواست بھی جمع ہو سکتی ہے۔[8] درخواست دیتے وقت بیان حلفی ،شکایت کرنے والے کا نام، پتہ اور قومی شناختی کارڈ کی فوٹو کاپی بھی ساتھ لگانا ضروری ہے۔[9]
وفاقی محتسب اسلام آباد کے دفتر کے علاوہ وفاقی محتسب کے علاقائی دفتر جن کی تفصیل ویب سائٹ پر موجود ہیں کو بھی شکایات بھیجی جاسکتی ہیں۔[10] شکایت کرنے والا تین ماہ کے اندر متعلقہ ادارے کے خلاف درخواست دے سکتا ہے ہاں اگر وفاقی محتسب ضروری سمجھے تو مقررہ وقت کے بعد بھی شکایات کی تفتیش کرسکتا ہے۔[11]
شکایات پر کارروائی کرنے کا طریقِ کار:
وفاقی محتسب درخواست کی وصولی کے ایک ماہ کے اندر شکایت کنندہ کو اطلاع دے گا یا تین ماہ کے اندر کم از کم ایک مرتبہ شکایت کنندہ کو اپنی شکایت کے بارے میں آگاہ کرے گا۔[12]محتسب کو اختیار ہے کہ وہ اکیلے تفتیش کرے یا مختلف لوگوں سے انٹرویوز اور انکوائریاں کروا لیں۔[13]
شکایت پر محتسب کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد وہ شکایت کنندہ اور متعلقہ ادارے کو آگاہ کرے گا۔ اس سلسلے میں محتسب اپنی تفتیش کے نتائج کاروائی کیلئے بھیج دے گا ۔محتسب کے تفتیشی نکات میں درج ذیل امور شامل ہوں گے:# بدانتظامی کی شکایت درست تھی یا نہیں؟
- شکایت درست ہو تو متعلقہ اہلکار کے خلاف تادیبی کاروائی کی جائے یا متعلقہ محکمہ اپنی کارکردگی بہتر بنائے۔
- جس معاملہ کے متعلق شکایت ہوتی ہے اس میں مزید غوروخوض کیا جائے۔[14]
محتسب کی بھیجی گئی سفارشات کی حکم عدولی:
اس صدارتی فرمان کے تحت اگر محتسب کی سفارشات پر عمل درآمد نہ کرنے کے سلسلے میں متعلقہ ادارہ مرتکب پایا گیا تو محتسب صدر پاکستان کے پاس معاملہ بھیج دے گا، صدر اپنے صوابدیدی اختیار پر ادارے کو سفارشات پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت کرے گا۔[15]
محتسب کے اختیارات:
اس صدارتی فرمان کے تحت محتسب کووہی اختیارات حاصل ہیں جو پاکستان کی دیوانی عدالتوں کو کوڈ آف سول پروسیجر مجریہ ( 1908) میں درج امور میں دیئے گئے ہیں۔ چنانچہ محتسب ابتدائی سمن جاری کرسکتا ہے شکایت سے متعلق کسی شخص کو حاضر کر سکتا ہے دستاویزات پیش کرنے پر مجبور کرسکتا ہے۔ حلف ناموں پر شہادت وصول کرسکتا ہے اورگواہوں سے شہادت کے لئے حکم جاری کرسکتا ہے۔[16]
محتسب کو یہ بھی اختیار حاصل ہے کہ اگر وہ شکایت کو غلطی یا نقصان دے پاتا ہے تو وہ ادارے یا اہلکار جن کیخلاف شکایت دائر کی گئی ہو کو مناسب معاوضہ دلاسکتا ہے۔[17]
اگر کوئی ادارہ یا سرکاری اہلکار محتسب کے احکامات کی تعمیل نہیں کر سکا تومحتسب اس کے خلاف انضباطی کاروائی کروانے کے لئے متعلقہ اتھارٹی کے پاس بھیج سکتا ہے۔[18]
اس صدارتی فرمان کی رو سے تو ہین محتسب پر وہی اختیارات حاصل ہیں جو سپریم کورٹ آف پاکستان کو توہین عدالت پر حاصل ہیں اور تو ہین محتسب توہینِ عدالت شمار کی جائے گی۔
وفاقی محتسب کا تنظیمی ڈھانچہ:
وفاقی محتسب کا مرکزی دفتر دارالحکومت اسلام آباد میں ہے جبکہ صوبائی دفاتر مختلف شہروں میں موجود ہیں۔ اس ادارہ میں بنیادی طور پر تین شعبہ جات ہیں: شعبۂ تفتیش، شعبۂ جائزہ اور شعبۂ رجسٹرار و قانون۔ شعبۂ تفتیش براہِ راست مرکزی دفترِ احتساب سے منسلک ہے جبکہ شعبہ جائزہ کے تحت صوبائی دفاتر آتے ہیں۔ صوبائی اور علاقائی دفاتر کے تحت متعدد تفتیشی افسران مامور ہوتے ہیں جو کسی بھی معاملہ کا جائزہ لیتے اور تفتیش کرتے ہیں۔
وفاقی محتسب کے تمام کام ایک سیکرٹری کے ذریعہ انجام پاتے ہیں۔ ادارہ کے دیگر شعبہ جات مثلاً شعبۂ انتظامی امور، شعبۂ تحقیق، شعبہ تنفیذ، شعبہ بین الاقوامی تعاون وغیرہ کے علاوہ صوبائی محتسب بھی سیکرٹری کے ماتحت ہوتے ہیں۔ وفاقی محتسب کے شعبہ جات اور بنیادی انتظامی ڈھانچہ کے لئے ذیل میں دیا گیا جدول ملاحظہ کریں۔
File:Picture 0.pngوفاقی ادارۂ احتساب کے فرائض:
اسلامی کونسل کے تیار کردہ اسلامی دستور کے باب ۶ کی دفعہ ۴۲ میں تصریح کر دی گئی تھی کہ ایک ادارہ احتساب (حسبہ) ہو گا، جس کی ذمہ داریاں حسبِ ذیل ہوں گی:# "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے اجراء و قیام کے لئے اسلامی اقدار کا تحفظ اور فروغ۔"
- "ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف افراد کی شکایات اور ان پر ظلم و زیادتی کی تفتیش اور چھان بین۔"
- "انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام۔"
- "ملازمین سرکار کے کام کا معائنہ اور ان کی بدانتظامی، بے پرواہی یا فرائض سے غفلت اور کوتاہی پر مبنی معاملات کی اصلاح۔"
- "انتظامی فیصلوں کے جواز کا جائزہ اور ان کی باقاعدہ نگرانی۔"[19]
صدارتی فرمان کے تحت محتسب بذات خود یا کسی شکایت کنندہ کی شکایت پر کسی بھی ایجنسی یا اس کے اہلکاروں کے خلاف بدانتظامی کی تفتیش کر سکتا ہے۔[20]
وفاقی محتسب کی پالیسی ہے کہ وہ کسی بھی وفاقی ادارے کی بدانتظامی کے خلاف عوام کی شکایات کی آزادانہ تفتیش بغیر کسی معاوضہ کے کرتی ہے تاہم جو ادارے وفاقی محتسب کے کنٹرول سے باہر ہیں جیسے وہ معاملات جو کسی عدالت میں زیر سماعت ہو ں،خارجی امور سے متعلق معاملات ،دفاع سے متعلق معاملات ،ملازمت سے متعلق معاملات اور فیڈرل پبلک سروس کمیشن سے متعلق امور وفاقی محتسب کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔[21]
گویا وفاقی ادارۂ احتساب کی بنیادی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی، سرکاری ملازمین کی نگرانی، انتظامی امور کی نگرانی، اداروں کے خلاف عوام کی شکایات سن کر ان کا ازالہ کرنا اور انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کرنا شامل ہیں۔
عہدِ رسالت میں احتساب کا طریقہ کار:
آنحضرت ﷺ کے دور میں احتسابی عمل کے لئے باقاعدہ کوئی ادارہ قائم نہیں کیا گیا تھا بلکہ آپﷺ کی ذاتِ گرامی ہی مرجعِ خلائق ہونے کے باعث اس ذمہ داری سے عہدہ برآ ہوتی تھی۔ تنظیمی ڈھانچہ کی عدم دستیابی کے باعث محتسب کا تقرر اور شکایات کے اندراج کا عمل بھی موجود نہیں تھا۔ اس لئے وفاقی محتسب میں ان معاملات کے لئے اختیار کردہ طریقہ کار پر بحث کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیوں کہ ادارہ جاتی امور میں انتظام و انصرام کے لئے زمانے کی رعایت رکھتے ہوئے شرائط اور طریقِ کار وضع کرنے کی گنجائش موجود ہے البتہ اس میں ان امور کی رعایت لازمی ہے جو عمومی ہیں۔
اس سلسلے میں آنحضرت ﷺ کا طرزِ عمل دیکھا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ آپ ﷺ نہ صرف محتسب کا فریضہ سرانجام دیتے تھے بلکہ منصبِ قضاء بھی آپ ﷺ ہی کے پاس تھا۔ اسلامی ریاست کی حدود وسیع ہونے پر آپ ﷺ نے مدینہ سے باہر مختلف صحابہ کرام کو منصبِ قضا پر فائر فرمایا۔[22] آپ ﷺ کے اس طرزِ عمل سے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ "محتسب" کے عہدے پر فائز کئے جانے والے شخص میں کم از کم وہ شرائط ضرور موجود ہونی چاہیئیں جو ایک قاضی میں موجود ہوتی ہیں لہذا محتسب کے منصب پر فائزکئے جانے والےشخص میں فقہاءِ اسلام کی بیان کردہ شرائطِ قضاء کی موجودگی ضروری ہے۔ اسی طرح محتسب کی معزولی میں بھی ان شرائط کو مدِ نظر رکھنا بے حد ضروری ہے تاکہ شفافیت کا عمل برقرار رہ سکے۔
شکایات کی محتسب تک رسائی کے لئے بھی سادہ اور عام فہم طریقہ کار کا موجود ہونا ضروری ہے جیسا کہ عہدِ رسالت ﷺ میں آنحضرت ﷺ کے طرزِ عمل سے واضح ہے کہ آپ ﷺ کے پاس شکایت لے کر آنے والوں کو اذنِ عام حاصل تھا۔ شکایت کنندہ کو آپ ﷺ تک رسائی حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہ آتی تھی نیز آپ ﷺ موقع محل کی مناسبت سے مناسب ہدایات جاری کر دیتے تھے۔ اس سلسلے میں جدید ذرائع مواصلات یعنی ڈاک، انٹرنیٹ اور ای میل وغیرہ کے ذریعے شکایات کی وصولیابی کا عمل یقیناً اس پہلو کو بطریقِ احسن پورا کر رہا ہے۔
محتسب کے فرائض اور سیرت ِ نبوی ﷺ میں اس کے نظائر:
وفاقی ادارۂ احتساب کی بنیادی ذمہ داریوں میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی انجام دہی، سرکاری ملازمین کی نگرانی، انتظامی امور کی نگرانی، اداروں کے خلاف عوام کی شکایات سن کر ان کا ازالہ کرنا اور انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام کرنا شامل ہیں۔ ان فرائض کے بارے میں عہدِ رسالت میں کیا طریقہ کار تھا؟ اس بارے میں تفصیلی گفتگو آئندہ سطور میں کی جا رہی ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر:
"امر بالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کا لفظ اپنے اندر انتہائی وسیع مفہوم رکھتا ہے اور ریاست کی عوام میں ان اعلیٰ اخلاقی اقدار کو پروان چڑھانے کی اہمیت کو بیان کرتا ہے جس کے ذریعے کسی جرم کا ارتکاب کرنے کی صورت میں فرد ندامت محسوس کرے اور خود کو احتساب کے لئے پیش کرے۔ اس سلسلے میں حضرت ماعز اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ[23] اور حضرت غامدیہ کی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان افراد کی تربیت اتنے عمدہ طور پر کی گئی تھی کہ انھوں نے رضا کارانہ طور پر خود کو احتساب کے لئے پیش کر دیا اور اپنے جرم کی مناسبت سے سزا کو ہنسی خوشی قبول کر لیا۔
"امر بالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کی مثالوں کے طور پر آپ ﷺ کی پوری زندگی کو پیش کیا جانا قطعی غلط نہ ہو گا کیوں کہ آپ ﷺ نے اپنی "حیاتِ طیبہ" میں ہر آن اس فریضہ کی ادائیگی کی اور فرد کی اصلاح کے لئے مختلف مواقع پر نصیحت فرمائی۔ مثلاً؛ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"أمرني رَبِّي بِتِسْع: خَشْيَةِ الله في السِّرِّ والعلانية، وكلمة العدل في الغضب والرضى، والقصد في الفقر والغنى، وأن أصَلَ مَنْ قَطَعَني، وأعطي مَنْ حَرَمَني، وأعْفُوَ عَمَّنْ ظَلَمَني، وأن يكون صَمْتي فِكْراً، ونُطْقي ذِكْراً، ونظري عبرة، وآمرُ بالعُرْف"[24]
"مجھے نو باتوں کا حکم دیا گیا ہے: (وہ یہ ہیں کہ میں) پوشیدہ اور علانیہ ہر حال میں اللہ سے ڈروں، غصہ اور رضامندی دونوں حالتوں میں حق بات کہوں، تنگدستی اور فارغ البالی میں میانہ روی اختیار کروں، تعلق توڑنے والے کے ساتھ صلہ رحمی کروں، محروم کرنے والے والے کو عطا کروں، ظلم کرنے والے کو معاف کر دوں، میری خاموشی غور و فکر کے لئے، میری گفتگو ذکر کرنے کے لئے اور میری نگاہوں کا (ادھر اُدھر) دیکھنا حصولِ عبرت کے لئے ہو، اور میں بھلائی کا حکم کروں۔"
آپ ﷺ کا یہ فرمان وفاقی ادارۂ احتساب کے سامنے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی مختلف جہات کو بے حد عمدہ پیرائے میں واضح کرتا ہے۔ اس ارشاد میں نہ صرف وفاقی محتسب کی ذات میں پائی جانے والی خصوصیات کا تذکرہ ملتا ہے بلکہ عوام میں پروان چڑھائے جانے والے اوصاف کا ذکر بھی موجود ہے نیز اس سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا دائرہ زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے۔
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے دائرہ کار کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
"مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ"[25]
"تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے روکے، اور اگر اس کی طاقت بھی نہ رکھتا ہو تو اپنے دل میں اسے برا سمجھے، اور یہ ایمان کا ادنٰی ترین درجہ ہے"
یہ حدیث تنفیذِ احکام کے متعلق ہدایات پر مبنی ہے اور برائی کے خلاف جنگ کے مختلف مراحل اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے عملی پہلو کی طرف اشارہ کر رہی ہے۔
"امر بالمعروف" اور "نہی عن المنکر" کے سلسلے میں آپ ﷺ کا عمل بے حد واضح تھا۔ ذیل میں چند روایات پیش کی جاتی ہیں جن میں لوگوں کو مختلف ناپسندیدہ امور سے منع کیا گیا ہے:* ایک شخص نے آپ ﷺ کو دروازے کی جھری سے جھانکا تو اسے بطور احتساب فرمایا:" اگر مجھے معلوم ہو جاتا کہ تو دیکھ رہا ہے تو تیری آنکھوں میں کنگا چبوا دیتا"[26]
- مسلمانوں کے معاشرہ میں قطع تعلق کے احتسابی وعید کے بارے میں فرمایا: "لا یدخل الجنة قاطع رحم"[27] (قطع رحمی کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا)
- جب حضرت حسان نے اعشیٰ کا قصیدہ کہ جس میں علقمہ کی برائی بیان کی گئی تھی، سنایا، تو آپ ﷺ نے برائی سننے، سنانے پر احتساب کرتے ہوئے فرمایا: "مجھے اس قسم کا شعر نہ سنانا۔"
- دینی معاملات میں کوتاہی پر سخت احتساب کیا، فرمایا: "میں ابھی تمہارے درمیان زندہ ہوں اور کتاب اللہ کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے۔"[28]
احتساب کی وجہ سے انسانی سماج پرکنٹرول رکھا جاسکتا ہے اس پر مؤثر عمل ہی کی وجہ سے تمام انسانیت اپنی مقررہ اخلاقی، دینی و مذہبی اور قانونی پابندیوں سے تجاوز نہیں کر سکتی۔ اس لیے آپ ﷺ نے ایک طرف دیانت داری ، عفودرگزر ،شفقت اور باہمی مشاورت کی تلقین فرمائی ہے۔ دوسری طرف آپ ﷺ نے کسی جان کا حق مارنا، ہر قسم کی بدکاری وفحاشی ،دھوکہ دہی اور مکرو فریب جیسی برائیوں سے منع فرمایا ہے تاکہ معاشرہ ہر قسم کی خرابیوں سے دور رہے۔
سرکاری ملازمین کی نگرانی:
وفاقی محتسب کی ایک اہم ذمہ داری سرکاری عمال کی نگرانی کرنا بھی ہے۔ اس بارے میں آنحضرت ﷺ کا طرزِ عمل بھی واضح ہے کہ آپ ﷺ صحابہ کرامؓ کو مختلف کام سونپنے کے بعد ان کی نگرانی بھی فرمایا کرتے تھے۔ آپ ﷺ اپنے کارندوں کو کسی کام کو متعین کرنے سے پہلے ان کی ذہن سازی فرماتے اور انھیں ترغیب دیتے کہ وہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں نیز ان کے دلوں میں اس بات کو راسخ فرماتے کہ ان کا محاسبہ بھی ہونا ہے۔ عمال اور نگرانوں کے جواب دہی کے بارے میں فرمایا :
"كُلُّكُمْ رَاعٍ فَمَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، فَالأَمِيرُ الَّذِي عَلَى النَّاسِ رَاعٍ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالرَّجُلُ رَاعٍ عَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُمْ، وَالمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ عَلَى بَيْتِ بَعْلِهَا وَوَلَدِهِ وَهِيَ مَسْئُولَةٌ عَنْهُمْ، وَالعَبْدُ رَاعٍ عَلَى مَالِ سَيِّدِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْهُ، أَلاَ فَكُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ"[29]
"خبردار! تم میں سے ہر ایک نگران ہے اور ہر ایک سے اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔مسلمانوں کا سربراہ جو حکمران ہو وہ بھی ذمہ دار ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جواب دہ ہے اور آدمی اپنے گھر والوں کار اعی ہے۔ وہ بھی اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے۔ عورت اپنے شوہر کے گھر والوں اور اس کی اولاد کی نگہبان ہے، اس سے اس بارے میں پوچھا جائے گا۔ آدمی کا غلام اور نوکراپنے مال اور آقا کے مال و دولت کا نگران ہے، اس سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ ہوگی۔ خبردار تم میں سے ہر ایک نگران ہے ۔اس سے اس کی ذمہ داریوں کے متعلق باز پرس ہوگی۔"
عمال کی نگرانی کے سلسلے میں درج ذیل حدیث ایک واضح دلیل ہے:
"نبی کریم ﷺ نے بنی سلیم کی زکٰوۃ وصول کرنے کے لئے عبداللہ بن اتیبہ کو بھیجا۔ جب وہ واپس ہوئے تو نبی کریم ﷺ نے ان سے زکوۃ کا حساب لیا۔ وہ کہنے لگے یہ زکوۃ کا مال ہے اور یہ مجھے ہدیہ کے طور پر ملا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:" اگر تو سچا ہے تو اپنے باپ یا ماں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ پھر تم کو یہ ہدایہ ملتے۔"[30]
اس روایت میں چند امور قابلِ غور ہیں:# آپ ﷺ نے اموالِ زکوٰۃ کو جمع کرنے کے لئے ایک صحابی کو متعین کیا۔ اس سے مختلف امور کی انجام دہی کے لئے افراد کے تعین کی طرف رہنمائی ملتی ہے۔
- متعین کردہ شخص سے اموالِ زکوٰۃ کا حساب کتاب لینا اس امر کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کسی شخص کو کوئی کام سونپنے کے بعد اس سے اس کام کے بارے میں پوچھ گچھ کرنا اور کام کے بارے میں مکمل رپورٹ طلب کرنا درست ہے۔ گویا یہ حدیث ملازمین کی نگرانی کرنے اور ان کے احتساب پر مبنی ہے۔
- صحابیٔ رسول ﷺ کا اموال کو دو حصوں میں تقسیم کرنا اور ایک کو مالِ زکوٰۃ قرار دے کر دوسرے حصہ کو ہدیہ قرار دینا ایک عمومی رویہ کی طرف اشارہ ہے کہ سرکاری امور کی انجام دہی کے دوران سرکاری عمال کو لوگوں کی طرف سے ہدایا دیئے جاتے ہیں، البتہ آنحضرت ﷺ کا اس پر ان الفاظ میں سرزنش کرنا کہ "اگر تو سچا ہے تو اپنے باپ یا ما ں کے گھر کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ پھر تم کو یہ ہدایہ ملتے" اس امر کا غماز ہے کہ سرکاری عہدوں پر فائز شخص کے لئے یہ روا نہیں ہے کہ وہ اپنے سرکاری کام کی انجام دہی کے دوران لوگوں سے ہدایا اور تحائف وصول کرے۔ اگر کسی شخص کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آ جائے تو اسے ان تحائف کو ذاتی استعمال میں لانا روا نہ ہو گا بلکہ وہ بھی سرکاری خزانے میں جمع کروائے جائیں گے۔
- اس حدیث کا اگلا ٹکڑا عمال کی سرزنش کے بارے میں آنحضرت ﷺ کے عمل کی وضاحت کرتا ہے، چنانچہ آگے مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے اسی وقت لوگوں سے خطاب فرمایا اور کہا: "میں تم میں سے کسی شخص کو کسی کام پر مامور کرتا ہوں تو وہ واپس آکر کہتا ہے کہ یہ مال تمہارا ہے اور یہ مجھے تحفۃً دیا گیا۔ وہ اپنے گھر میں ہی کیوں نہیں بیٹھا رہا کہ اس کے تحائف وہیں اس تک پہنچ جاتے۔" تنبیہ کا یہ انداز عہدہ داران کے اعمال کی کڑی نگرانی اور احتساب کی طرف واضح اشارہ ہے کہ آپ ﷺ نے اسی وقت دیگر لوگوں کے سامنے بھی اس عمل کے درست نہ ہونے کی وضاحت فرما دی تاکہ کوئی اور اس مغالطہ میں نہ پڑا رہے۔
خلاصۂ کلام یہ کہ حدیث بالا کی رو سے احتساب کرنے والے ادارے کو سرکاری ملازمین کی نگرانی کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے نیز دورانِ ملازمت مقرر کردہ مشاہرہ سے زائد کی وصولیابی پر اس فرد سے حساب لینے کا حق بھی حاصل ہے۔
انتظامی امور کی نگرانی:
معاشرے میں رہنے والے افراد کے باہمی تعامل کی وجہ سے کئی معاملات ایسے پیش آ جاتے ہیں جن میں دو فریق متفقہ موقف نہ رکھنے کی وجہ سے نزاع میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایسے معاملات میں انتظامی قوانین کے نفاذ اور مناسب ہدایات کے اجراء سے یہ معاملات حل ہو جاتے ہیں۔ سیرتِ نبوی ﷺ میں متعدد ایسے واقعات موجود ہوئے ہیں جن میں آپ ﷺ نے ایسے معاملات میں فوری احکامات صادر فرمائے ہیں۔ اس سلسلے میں چند احادیث درج ذیل ہیں:# "الجالب مرزوق والمحتکر ملعون" (رسد پہنچانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوز پر لعنت کی جاتی ہے)[31]
- "لا یحتکر الا خاطئ" (ذخیرہ اندوزی وہی کرتا ہے جو غلطی پر ہو)[32]
- "لا یمنعن جار جاره ان یغرز خشبه فی جداره" (کوئی بھی شخص اپنے پڑوسی کو اپنی دیوار میں لکڑی گاڑنے سے منع نہ کرے)[33]
- حضرت ابو ھریرہؓ روایت بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا غلہ کے ایک ڈھیر پر سےگزر ہوا ، اسے چیک کیا تو اس میں نمی محسوس ہوئی۔ آپ ﷺ نے اس کے مالک سے نمی کی وجہ پوچھی تو اس نے عذر پیش کیا کہ بارش کی وجہ سے غلہ بھیگ گیا تھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: "أفلا جعلته فوق الطعام کی یراه الناس؟ من غشّنا فلیس منا"[34] (تم نے نمی والے غلہ کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ بھی اسے دیکھ لیتے! جس نے دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں۔)
- اسی طرح آپ ﷺ نے تجارت میں تمام ناجائز ذرائع جیسےغش، تجنیس اور تدلیس[35] کو ممنوع قرار دیا ۔
- حضرت ابوھریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ بازار گیا، آپ ﷺ کپڑا فروشوں کے پاس جا بیٹھے اور چار درہم کے پاجامے خریدے۔پھر بازار میں وزن کرنے پر مامور شخص سے کہا: "اتّزن وارجح" (ٹھیک سے تولو اور پلڑا جھکا دیا کرو)۔ اس نے کہا کہ میں نے تو ایسی بات اس سے پہلے کبھی نہیں سنی۔ تو حضرت ابوھریرہؓ اسے بتایا کہ یہ اللہ کے رسول ﷺ ہیں جس پر وہ شخص اپنا ترازو پھینک کر آپ ﷺ کے ہاتھ چومنے لگا۔ آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اس سے چھڑایا اور فرمایا: "هذا إنما يفعله الأعاجم بملوكها، إنما أنا رجل منكم، فزن وأرجح" (یہ کام تو عجمی اپنے بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں، میں تمہارے جیسا ایک شخص ہی ہوں، بس تم وزن اچھی طرح کیا کرو اور پلڑا جھکنے دیا کرو)۔[36]
درج بالا احادیث میں سے ایک حدیث یعنی حدیث نمبر (3) پڑوسی سے متعلق ہے جبکہ باقی احادیث تجارتی امور اور بازار کے معاملات سے متعلق ہیں۔ پہلی حدیث میں ذخیرہ اندوزی کرنے پر اللہ کی رحمت سے دوری کا ذکر ہے جبکہ دوسری حدیث میں ذخیرہ اندوز کو غلطی کرنے والا ٹھہرایا گیا ہے۔ چوتھی حدیث میں دھوکہ دہی پر وعید مذکور ہے نیز معاملاتِ تجارت کا ایک اصول بھی ذکر کیا گیا ہے کہ فروخت کئے جانے والے اموال میں موجود نقص کو ظاہر کر دینا چاہیئے تاکہ خریدار دھوکہ میں نہ پڑے۔ پانچویں حدیث میں ناپ تول میں کمی سے بچنے کی طرف اشارہ ہے۔ اس حدیث میں ایک اور رہنمائی عہدہ داران کے ساتھ لوگوں کے برتاؤ کی طرف بھی لطیف اشارہ ہے کہ لوگ عہدہ کی وجہ سے غیر معمولی تعظیم و تکریم سے پیش آئیں گے لیکن ان کے اس رویہ سے متاثر ہو کر اپنی ذمہ داری کو پسِ پشت نہیں ڈالنا چاہیئے بلکہ اپنے کام کو اچھی طرح سرانجام دینا چاہیئے۔
اس طرح کے متعدد واقعات کتبِ سیرت میں موجود ہیں جن میں آپ ﷺ نے کسی خاص موقع پر کوئی حکم دیا ہو۔ ان تمام واقعات کو انتظامی امور کی نگرانی کے ضمن میں درج کیا جا سکتا ہے اور ان پر بحث و تمحیص کے بعد وفاقی محتسب کے لئے ان سے رہنما اصول اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
انفرادی حقوق کی خلاف ورزی کی روک تھام:
معاشرے میں اجتماعی حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ انفرادی حقوق کے تحفظ کی بھی بے حد اہمیت ہے۔ اس سلسلے میں سیرتِ طیبہ سے رہنمائی لی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں آپ ﷺ کے اقدامات بسا اوقات فیصلہ کی صورت میں ظاہر ہوتے تھے اور بعض اوقات صرف تنبیہ یا نصیحت کی حد تک رہتے جبکہ کبھی کبھار سزاؤں کا اجراء بھی کر دیا جاتا۔ اس بارے میں روایات پیش کی جاتی ہیں:# "عَنْ عُرْوَةَ، قَالَ: خَاصَمَ الزُّبَيْرَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «يَا زُبَيْرُ اسْقِ، ثُمَّ أَرْسِلْ»، فَقَالَ الأَنْصَارِيُّ: إِنَّهُ ابْنُ عَمَّتِكَ، فَقَالَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ: «اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ يَبْلُغُ المَاءُ الجَدْرَ، ثُمَّ أَمْسِكْ"[37] (حضرت عروہؓ سے روایت ہے کہ ایک انصاری سے زبیرؓ کا (کھیتوں کو پانی دینے کے معاملہ میں) نزاع ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "اے زبیر! پہلے تم کھیتوں کو پانی دے دیا کرو، اس کے بعد انصاری " اس پر انصاری کہنے لگے کہ (آپ نے ایسا اس لئے کہا کیوں کہ) وہ آپ ﷺ کا پھوپھی زاد ہے۔ (یہ بات آپ ﷺ کو ناگوار گزری) تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے زبیر! کھیتوں کو اتنا پانی دو کہ پانی دیواروں تک آ پہنچے، اس کے بعد رُک جانا)
- "عن سمرة بن جندب: أنه قال: كانت له عضد من نخل في حائط رجل من الأنصار، قال: ومع الرجل أهله، قال: فكان سمرة يدخل إلى نخله فيتأذى به، ويشق عليه، فطلب إليه أن يبيعه، فأبى، فطلب إليه أن يناقله، فأبى، فأتى النبي - صلى الله عليه وسلم - فذكر ذلك له، فطلب إليه النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يبيعه، فأبى، فطلب إليه أن يناقله، فأبى، قال: "فهبه له ولك كذا وكذا" أمرا رغبه فيه، فأبى، فقال: "أنت مضار" فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - للأنصاري: "اذهب فاقلع نخله"[38] (سمرہ بن جندبؓ سے مروی ہے کہ ایک انصاری کی زمین میں ان کا ایک درخت تھا، جس میں وہ انصاری اپنے اہل و عیال کے ساتھ رہتا تھا۔ سمرہؓ کے اس زمین پر آنے جانے کی وجہ سے اسے پریشانی ہوتی تھی جس پر انھوں نے سمرہؓ سے مطالبہ کیا کہ یا تو درخت مجھے بیچ دیں یا اسے اکھاڑ کر لے جائیں۔ سمرہؓ کے انکار پر انہوں نے آپ ﷺ سے شکایت کی تو آپ ﷺ نے سمرہؓ سے فرمایا: "یا تو درخت کی قیمت وصول کر لو یا اسے اکھاڑ لو"۔سمرہؓ نے انکار کیا تو آپ ﷺ نے انھیں اس درخت کو ہدیہ کرنے کی ترغیب دی لیکن انھوں نے اس سے بھی انکار کر دیا۔ تب آپ ﷺ نے فرمایا: تم ایک نقصان پہنچانے والے شخص ہو۔ اس کے بعد انصاری کو حکم دیا کہ جا کر اس درخت کو اکھاڑ پھینکو)۔
خلاصۂ بحث:
درج بالا بحث میں پاکستان کے ادارہ "وفاقی محتسب" کی تاریخ، تنظیمی ڈھانچہ، کام کرنے کا طریقہ، محتسب کے اختیارات اور فرائض پر گفتگو کرنے کے بعد سیرتِ رسول ﷺ سے محتسب کے فرائض کے بارے میں نظائر کو یکجا کرنے کے بعد ہر ایک پر مختصر تبصرہ کیا گیا ہے۔ تبصرہ میں ان نظائر سے اخذ ہونے والے نکات کو بھی بیان کیا گیا۔
نتائجِ بحث:
درج بالا بحث سے درج ذیل نتائج اخذ ہوتے ہیں:# ادارہ وفاقی محتسب کے ادارہ جاتی انتظام و انصرام میں شریعت کے مقرر کردہ امورِ عامہ کی رعایت رکھی جائے۔
- وفاقی محتسب کے تقرر اور معزولی کے لئے قاضی کے تقرر اور معزولی کے اصولوں کو مدِ نظر رکھا جائے۔
- شکایات کی بروقت اور بلا تعطّل وصولی کے لئے جدید ذرائع مواصلات انٹرنیٹ، ای میل اور ڈاک کا استعمال عوام کے لئے سہولت کا باعث ہے۔
- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بارے میں سیرتِ رسولﷺ میں بے شمار نظائر موجود ہیں جو اس امر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افراد کی تربیت کی جائے اور انھیں اعلیٰ اخلاقی اقدار کا حامل بنایا جائے تاکہ وہ بذاتِ خود احتسابی عمل کی ضرورت محسوس کریں۔
- سرکاری اداروں میں کام کرنے والے افراد کے کام کی نگرانی کرنا اور مکمل رپورٹ طلب کرنا حضرت محمدﷺ سے ثابت ہے نیز سرکاری ملازمین کے احتساب کا عمل کھلے عام ہونا چاہیئے تاکہ ہر خاص و عام کو اس کے بارے میں علم ہو جائے اور آئندہ کے لئے اس کا سدِّ باب ہو سکے۔
- سرکاری عہدوں پر فائز افراد کو ملنے والے تحائف ان کی ذاتی ملکیت نہیں ہیں بلکہ حکومتِ وقت کی ملکیت ہیں لہٰذا ان کو ذاتی یا نجی ملکیت سمجھنا تعلیماتِ نبوی سے انحراف ہے۔
- انتظامی امور کے ضمن میں احتساب کے دائرے میں ایسے تمام امور آتے ہیں جن کا تعلق معاشرتی زندگی سے ہے چنانچہ معاشرے کی عمومی برائیاں مثلاً ذخیرہ اندوزی، ملاوٹ، دھوکہ دہی وغیرہ امور پر وفاقی محتسب گرفت کر سکتا ہے اور ان میں ملوث افراد کو قرار واقعی سزا دے سکتا ہے۔
- عوام کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنے انفرادی معاملات بھی وفاقی محتسب کے سامنے پیش کر سکیں لیکن اس سلسلے میں پہلا قدم عدالتی کارروائی ہونا چاہیئے۔
سفارشات:
- حکومتی سطح پر قائم کردہ مختلف احتسابی اداروں کو وفاقی محتسب کے ماتحت کیا جائے اور ان پر لازم کیا جائے کہ وہ عوامی شکایات کے ازالے سے متعلقہ تمام کیسز کی ایک فائل وفاقی محتسب کے دفتر میں جمع کروائیں تاکہ وفاقی محتسب سابقہ کاروائی کی روشنی میں مزید اقدامات کر سکے۔
- وفاقی محتسب کا دائرہ کار آئینی طور پر بے حد مستحکم ہے لیکن عملی طور پر بے لاگ احتساب نظر نہیں آتا جو اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس ادارے کو ہر قسم کے سیاسی و غیر سیاسی دباؤ سے آزاد کیا جائے۔
- امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ترویج و اشاعت وفاقی محتسب کے ذریعے کی جائے اور اس سلسلے میں ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی جائے۔
- معاملات میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور تنازعات کے حل کے لئے عدالتیں موجود ہیں۔ وفاقی محتسب کے پاس ایسے معاملات آئیں تو انھیں عدالتوں میں بھیج دینا چاہیئے۔ عدالتوں سے آنے والے فیصلہ جات پر عدم اطمینان کی صورت میں وفاقی محتسب اس معاملہ کی شنوائی کرے۔
- اخلاقی جرائم کے سدِ باب کے لئے وفاقی محتسب کے کردار کو فعال کیا جائے تاکہ اس ادارے کا اصل مقصد "امر بالمعروف اور نہی عن المنکر" بطریقِ احسن انجام پا سکے۔
حوالہ جات
- ↑ == حوالہ جات (References) == اسلامی ریاست میں احتساب، ص: 325,326 Islamī Riyasat Me Iḥtisāb, p: 325,326
- ↑ دفتر وفاقی محتسب کا قیام، فرمان مجریہ1983، شائع کردہ وفاقی محتسب پاکستان Establishment of the Office of Wafaqi Mohtasib (Ombudsman) President’s Order, 1983, (Published by Wafaqi Mohtasib (Ombudsman), Pakistan)
- ↑ فرمان صدر نمبر1، فرمان مجریہ 1983، دفعہ 1، ذیلی دفعات1،2 President’s Order, 1983, Article 1, Sub Clause 1,2
- ↑ ایضاً، دفعہ 3،4، ذیلی دفعات 1،2 President’s Order, 1983, Article 3,4, Sub Clause 1,2
- ↑ ایضاً،، دفعہ 6، ذیلی دفعہ 1 President’s Order, 1983, Article 6, Sub Clause 1
- ↑ ایضاً، ،دفعہ 6، ذیلی دفعہ نمبر 2 President’s Order, 1983, Article 6, Sub Clause 2
- ↑ ترمیم شدہ آرڈیننس نمبر LXX11، 2002
- ↑ Wafaqi Mohtasib (Investigation and Disposal of Complaints) Regulations, 2013, (Islamabad: Wafaqi Mohtasib (Ombudsman)’s Secretariat), Chapter: II, p:2
- ↑ Ibid.
- ↑ Ibid.
- ↑ Ibid., p:3
- ↑ Ibid.
- ↑ صدارتی فرمان نمبر 1، دفعہ10، ذیلی دفعہ 5 President’s Order, 1983, Article 10, Sub Clause 5
- ↑ ایضاً، دفعہ 11، ذیلی دفعات 1President’s Order, 1983, Article 11, Sub Clause 1
- ↑ ایضاً، دفعہ 12، ذیلی دفعہ 1 President’s Order, 1983, Article 12, Sub Clause 1
- ↑ ایضاً،دفعہ 14، شق 1 President’s Order, 1983, Article 14, Sub Clause 1
- ↑ ایضاً،دفعہ 14، شق 4 President’s Order, 1983, Article 14, Sub Clause 4
- ↑ ایضاً،دفعہ 14،شق 6 President’s Order, 1983, Article 14, Sub Clause 6
- ↑ ایم ایس ناز ، ڈاکٹر ،اسلامی ریاست میں محتسب کا کردار ، ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی یونیورسٹی اسلام آباد،1999، ص : 366Dr. M. S. Naz, Islāmī Riyāsat me Muḥtasib ka Kirdār, (Islamabad: Islamic Research Institute, International Islamic University, 1999), pp: 366
- ↑ صدارتی فرمان نمبر 1، دفعہ 9، ذیلی دفعہ 1 President’s Order, 1983, Article 9, Sub Clause 1
- ↑ www.Mohtasib.gov.pk
- ↑ شہزاد اقبال شام، اسلام کا نظامِ احتساب، شریعہ اکیڈمی، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی، اسلام آباد، طبع پنجم،2006ء، ص:6 Shehzad Aḥmad Shām, Islām Ka Nizām e Iḥtisāb, (Islamabad: International Islamic University, 5th Edition, 2006), p:6
- ↑ بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح،، حدیث رقم: 5270
- ↑ ابن الأثير، مجد الدين أبو السعادات المبارك بن محمد بن محمد بن محمد ابن عبد الكريم الشيباني الجزري ، جامع الأصول في أحاديث الرسول، تحقيق : عبد القادر الأرنؤوط، بشير عيون ، مكتبة دار البيان، الطبعۃ الأولى،1972ء،حرف الیا، الفصل الأول: في لفظ اليمين وما يُحلَفُ به، نوع أول،حدیث رقم: 9317 Ibn al A’thīr, Mubarak bin Muḥammad bin Muḥammad bin ‘Abdul Karīm, Al Jazarī, Jami’ al Uṣuwl Fi Aḥādīth al Rasuwl, (Maktabah Dār ul Bayān, 1st Edition, 1972), Ḥadith # 9317
- ↑ القشیری، مسلم بن حجاج، ابو الحسن، الصحیح لمسلم، تحقیق: محمد فواد عبدالباقی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ط س ندارد، کتاب الایمان، باب کون النھی عن المنکر من الایمان، حدیث رقم: 49 Al Qushaīrī, Muslim bin Ḥajjāj, Abu al Ḥasan, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, (Beirut: Dār Iḥyā’ al Turath al ‘Arabī), Ḥadith # 49
- ↑ صحیح مسلم، کتاب الاداب، باب تحریم النظر فی بیت غیرہ، حدیث رقم: 2156Muslim bin Ḥajjāj, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, Ḥadith # 2156
- ↑ صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والادب، باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا، حدیث رقم: 2556 Muslim bin Ḥajjāj, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, Ḥadith # 2556
- ↑ سنن النسائی، کتاب الطلاق، باب الثلاث المجموع وما فیہ من التغلیظAl Nasa’ī, Al Sunan.
- ↑ بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، تحقیق: محمد زھیر بن ناصر، دار طوق النجاۃ، طبع اول، 1422ھ، کتاب العتق، باب العبد راع فی مال سیدہ، حدیث رقم: 2558 Al Bukhārī, Muḥammad bin Isma’īl, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, (Dār Tawq al Najah, 1st Edition, 1422), Ḥadith # 2558
- ↑ بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح، کتاب الاحکام، باب محاسبۃ الامام عمالہ، حدیث رقم:7197 Al Bukhārī, Muḥammad bin Isma’īl, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, Ḥadith # 7197
- ↑ ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، کتاب التجارات، باب الحکرۃ والجلب 2:748Ibn Majah, Sunan, 2:748
- ↑ صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ، باب تحریم الاحتکار فی الاقوات، 3:1228، ابی داؤد،سلیمان بن اشعث، السجستانی، سنن ابی داؤد، تحقیق: شعیب ارنؤوط، محمد کامل، دار الرسالۃ العالمیۃ، طبع اول، 2009ء، کتاب الاجارۃ، باب النھی عن الحکرۃ، 3:1157Muslim bin Ḥajjāj, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, 3:1228, Abu Daw’ud, Sulaimān bin Ash’ath, Sunan, (Dār al Risalah al ‘Āalamiyyah, 1st Edition, 2009), 3:1157
- ↑ صحیح بخاری، کتاب المظالم، باب لا یمنع جارہ ان یغرز خشبہ فی جدارہ، 2:879Al Bukhārī, Muḥammad bin Isma’īl, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, 2:879
- ↑ صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب قول النبی ﷺ: من غشنا فلیس منا، 1:99Muslim bin Ḥajjāj, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, 1:99
- ↑ ابن منظور کہتے ہیں کہ تدلیس دلس سے مشتق ہے ۔ مدلس کے معنی اندھیرا یا اندھیرے کی آویزش ہے۔ (ابن منظور ، محمد بن مکرم ، لسان العرب ، دارصادر بیروت ، س ن ، 6:86) یعنی دلس مطلق اندھیرے کو بھی کہتے ہیں ۔ اور روشنی و اندھیرے کے اختلاط کو بھی ۔ دلس فلان علی فلان کے معنی ہوتے ہیں فلاں شخص نے اپنے سامان کا عیب چھپایا گویا خریدار کو اندھیرے میں رکھا ۔ (علوی ، ڈاکٹر خالد ، اصول الحدیث الفیصل ، لاہور، 1998ء ،1:416)Ibn Manẓūr, Muḥammad bin Mukarram, Līsān al ‘Arab, (Beirut: Dār Ṣadir), 6:86, ‘Alvī, Khalid, Dr., Uṣūl al Ḥadith, (Lahore: Al Faisal Nashirān, 1998), 1:416
- ↑ الطبرانی، سلیمان بن احمد بن ایوب، ابو القاسم، المعجم الاوسط، دار الحرمین قاہرہ، باب المیم، من اسمہ محمد، حدیث رقم: 6954Al Ṭabrānī, Sulaimān bin Aḥmad bin Ayūb, Abū al Qāsim, Al Mo’jam al Awsaṭ, (Cairo: Dār al Ḥaramayn), Ḥadith # 6954
- ↑ صحیح بخاری، کتاب المساقاۃ، باب شرب الاعلی قبل الاسفل، حدیث رقم: 2361Al Bukhārī, Muḥammad bin Isma’īl, Al Jami’ al Ṣaḥīḥ, Ḥadith # 2361
- ↑ ابو داؤد، سنن ابی داؤد، کتاب الاقضیۃ، ابواب من القضاء، حدیث رقم: 3636Abu Dawū’d, Sunan, Ḥadith # 3636
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |