2
2
2017
1682060030498_914
93-115
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/284/115
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/284
Shariah Maxims Modern Application Exceptional Cases Islamic Law of Medical shariah maxims modern application exceptional cases Islamic law of medical
تمہید
دین اسلام نے انسان کی صحت او ر تندرستی کا اہتمام کرتے ہوئے کسی مرض کی حالت میں علاج و معالجہ کی ترغیب دی ہے اور اسکی اہمیت مقاصد شرعیہ میں سے حفظ البدن اور حفظ النفس جیسے مقاصد کی حفاظت سے تعلق کی وجہ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ امراض اور حوادث کی کثرت کی وجہ سے دن بدن مختلف شعبہ جات میں ماہرین امراض کی بڑھتی ہوئی ضرورت نے جہاں حکومتوں کو میڈیکل اداروں کو ترقی دینے کی طرف متوجہ کیا ہے وہاں اس ترقی یافتہ دور کی ضروریات اور نت نئی بیماریوں کے علاج کو مد نظر رکھتے ہوئے جدید ترین طبی آلات اور مشینوں کو نصب کرنے کی ضرورت بھی پیش آئی ہے۔ علاج و معالجہ کی ضرورت کی غرض سے نت نئی امراض کے علاجات اور ادویہ سازی کے کاموں میں بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے کہ اب کوئی ایسی مرض نہیں جس کو لا علاج کہا جا سکے ، اور ایسی ادویہ تیار کر لی گئی ہیں کہ آج کا انسان ان کے بارے میں حیران ہے ۔ مثلا وہ ادویہ جن کو زہر کی مدد سے تیار کیا گیا ہے ، اسی طرح وہ ادویہ جن میں شراب ، خنزیر کا گوشت اور چربی شامل ہو، اور وہ ادویہ جن کو الکحل کی مدد سے تیار گیا ہو۔ اسی طرح علاج کے مختلف طریقے ہیں جن میں انسانی اعضاء کا ایک دوسرے کی طرف انتقال ہے، انسانی اعضاء کا ایک دوسرے کو ہدیہ کرنا، شامل ہے۔ اسی طرح ضرورت و حاجت کی صورتو ں میں عورۃ (ستر)کا ننگا کرنا، فوت ہونے والی حاملہ عورت کے پیٹ سے بچے کو نکالنا، مصنوعی پیدائش نسل کے طریقوں کو استعمال کرنا وغیرہ بھی ایسے طرق علاج ہیں کہ جنہیں اگر استعمال نہ کیا جائے تو مریض کو نقصان پہنچ سکتا ہے ، لہذا ایسی صورتوں مریض کے لیے آسانی کی تدابیر کیا ہو سکتی ہیں اور اس سے مشقت کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے ؟ انہیں صورتوں کے پیش نظر مریض کے نقصان کے ازالے کے لیے اور اسے آسانی دینے کے لیے جن فقہی اور شرعی قواعد کی مدد لی جا سکتی ہے ان کو بیان کیا جائے گا۔ ان شاء اللہ
چونکہ مریض کو ہونے والے نقصانات کسی مرض کی وجہ سے ہو سکتے ہیں اور ہر مرض کے علاج کے لیے دوائی ہے ، چنانچہ پہلے مرض کا مفہوم بیان کیا جائے گا اور پھر علاج معالجہ کی مشروعیت بیان کر کے طبی علاج معالجہ میں ہونے والے نقصانقت کے ازالے کے لیے اور مریض سے رفع الحرج کے لیے جن قواعد سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ان کو بیان کیا جائے۔
مرض کا لغوی معنی
الداء عربی زبان میں بیماری کو کہتے ہیں جس کا مادہ (د ۔و ۔ا )ہے ۔ الداء ایسا اسم ہے جو ہر قسم کی ظاہری اور باطنی مرض اور عیب کو شامل ہے۔چنانچہ بخیلی کو بھی سخت قسم کی بیماری شمار کیا گیا ہے[1]۔
مرض کا اصطلاحی مفہوم
قدیم فقہا میں سے بہت زیادہ فقہا نے مرض کا معنی بیان کیا ہے جن کا مقصد یہ ہے کہ انسانی جسم و بدن اپنی طبعی حالت سے نکل جائے ، اور علاج کا محتاج ہو تاکہ اپنی اصلی حالت میں واپس آجائے۔ چناچہ دو تعریفیں مندرجہ ذیل ہیں:
- "أن لا يقدر العضو على فعله الذي يخصه البتة، أو يقدر عليه قدرة ضعيفة ، أو يكون موجعا ، وإن كان يفعل فعله"[2] ( انسانی جسم کا کوئی عضو اپنے خاص کام کو کرنے کی قدرت نہ رکھے ، یا اس پر بہت کم قدرت ہو یا اگرچہ وہ کام کر رہا ہو مگر تکلیف کے ساتھ) ۔
- " قد علم أن الأطباء یقولون المرض هو خروج الجسم عن المجری الطبیعی والمداواة رده إليه"[3] (میڈیکل ڈاکٹرز کے ہاں مرض سے مراد یہ ہے کہ جسم کا اپنی طبعی حالت سے نکل جانا اور علاج معالجہ سے اسے اپنی اصلی حالت کی طرف لایا جاتا ہے)۔
علاج معالجہ کی مشروعیت
شریعت اسلامیۃ نے ہمیشہ ایسے علم نافع کی معرفت حاصل کرنے کی ترغیب دلائی ہے جس کی بنیاد دلائل اور براہین پر ہو۔ اسی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ انسان ایسا علم اور فن حاصل کرے جس سے پوری انسانیت فائدہ حاصل کرتے ہوئے اپنی صحت کی حفاظت کرے اور تمام قسم کی بیماریوں سے نجات حاصل کر سکے۔ اور بیماریوں سے علاج کے زریعے نجات حاصل کی جا سکتی ہے ۔ چنانچہ جمہور فقہاء [4]نے علاج معالجہ کی مشروعیت پر مندرجہ ذیل دلائل سے استدلال کیا ہے:
1۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ثُمَّ كُلِي مِنْ كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا يَخْرُجُ مِنْ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِلنَّاسِ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ﴾ [5]، (پھر تو کھا ہر قسم کے پھلوں سے (اور ان کے رس چوس)، پھر چل نکل اپنے رب کی ہموار کردہ راہوں پر (سو اس کے نتیجے میں) اس کے پیٹ سے پینے کی ایک ایسی (عظیم الشان) چیز نکلتی ہے جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اور اس میں شفاء ہے لوگوں کے لئے، بلاشبہ اس میں بڑی بھاری نشانی ہے ان لوگوں کے لئے جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں )۔تو یہ آیت واضح طور پر دوائی پی کر علاج کروانے کے جواز پر دلالت کر رہی ہے[6]۔
2۔ فرمان نبوی ﷺ ہے : " عن أسامة بن شريك، قال: أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وأصحابه كأنما على رءوسهم الطير، فسلمت ثم قعدت، فجاء الأعراب من ها هنا وها هنا، فقالوا: يا رسول الله، أنتداوى؟ فقال: تداووا فإن الله عز وجل لم يضع داء إلا وضع له دواء، غير داء واحد الهرم" [7](اسامہ بن شریک فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس حال میں کہ صحابہ کرام اس طرح خاموش بیٹھے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں پس میں نے سلام کیا اور بیٹھ گیا اچانک ادھر ادھر سے دیہاتی آنا شروع ہو گئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! کیا ہم علاج معالجہ کیا کریں؟ فرمایا کہ علاج معالجہ کیا کرو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری نہیں رکھی مگر یہ کہ اس کا علاج بھی رکھا ہے سوائے ایک بیماری کے (یعنی بڑھاپا) جس کا کوئی علاج نہیں۔) یہ حدیث بھی اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ طبی معائنہ کروانا اور علاج معالجہ کروانا درست اور جائز ہے ، اس میں کسی قسم کی کراہت نہیں ہے۔
3۔ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ "كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يأمرني أن أسترقي من العين" [8](نبی کریم ﷺ مجھے نظر بد کے علاج کے لیے دم کرنے کا حکم دیا کرتے تھے)۔
4۔اسی طرح یہ فرمان نبوی ﷺ ہے : " في الحبة السوداء شفاء من كل داء، إلا السام» قال ابن شهاب: والسام الموت" [9](کہ کلونجی میں ہر مرض کی شفا ہے سوائے سام کے ، ابن شہاب کہتے ہیں کہ سام سے مراد موت ہے)۔
طبی شعبہ میں ضرورت و حاجت سے متعلقہ قواعد : معاصر صورتوں میں ان کی تطبیق
قواعد فقہیہ کی معاصر جدید مسائل میں تطبیق پیش کرنے سے پہلے علم قواعد فقہیہ کے تعارف پر روشنی ڈالنا زیادہ موزوں محسوس ہوتا ہے تاکہ جدید مسائل میں ان کی تطبیق کے وقت ان کی اہمیت کا علم ہو سکے۔
علمِ قواعد فقہیہ کی اہمیت
قواعد فقہیہ کا علم ایک بہت اہم اور علوم شرعیہ کے عظیم ترین علوم میں سے ایک عظیم شاخ ہے جس کے ذریعے فقیہ ، مفتی ،قاضی ، مجتہد اور حاکم شرعی احکام کو آسانی کے ساتھ معلوم کر سکتے ہیں۔ کیونکہ ان قواعد کی وساطت سے فقہاء اور مجتہدین شرعی احکام کو معلوم کرنے کے طریقے جانتے ہیں ۔چنانچہ یوں کہا جا سکتا ہے کہ جو شخص ان قواعد کا احاطہ کرلیتا ہے اس کے لیے فقہ کا ایک وسیع باب کھل جاتا ہے جس کے ذریعے نت نئے پیش آنے والے مسائل کے شرعی حکم سے واقفیت حاصل کرتا ہے، کیونکہ نئے پیش آنے والے مسائل کسی نہ کسی ایسے مسئلے سے ضرور مطابقت رکھتا ہے جو مسئلہ پہلے کبھی پیش آ چکا ہوتا ہے، اور ماضی میں پیش آنے والے مسائل کو فقہی قواعد کے ذریعے جمع کیا جا سکتا ہے، کیونکہ یہ قواعد کسی ایک مسئلے کے لیے دیلی نہیں بنتے بلکہ ایک ایک قاعدے کے تحت کئی کئی اصولی اور ذیلی مسائل و فروعات کو جمع کیا جاتا ہے، چنانچہ ایک ہی قاعدہ جیسے عبادات میں کسی مسئلے کے شرعی حکم کو معلوم کرنے میں مدد دیتا ہے اسی طرح وہی قاعدہ معاملات میں بھی کسی مسئلے کے شرعی حکم کو جاننے میں مدد دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام سیوطی ؒ نے علم قواعد فقہیہ کو فقہ کی اجلّ اور اعلی قسم قرار دیا ہے[10]۔
چنانچہ اس علم کی اہمیت کی وجہ سے قدیم اور معاصر علماء و فقہاء نے اصولی اور فقہی قواعد پر بہت کام کیا ہے۔ کیونکہ جیسے مذاہب ایک سے زیادہ ہیں اسی طرح استنباط کے طریقے اور مناہج بھی بہت زیادہ ہیں ، جیسا کہ فقہی مسائل اور ان کی فروعات بھی بہت زیادہ ہیں، تاکہ ان فروعات کو جو مختلف مختلف مسائل کے ساتھ تعلق رکھتی ہیں اور مختلف مختلف نوعیت کی ہیں ان کو ایک ہی قاعدے کے تحت جمع کیا جا سکے۔چنانچہ اس عظیم مقصد کی تکمیل کے لیے اس طرف بہت زیادہ توجہ دی گئی اور خصوصا ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں یہ علم ایک باقاعدہ علم کی صورت اختیار کر گیا[11]۔
اور اب یہ علم جدید مسائل کے شرعی احکام کو جاننے کا ایسا مصدر بن چکا ہے کہ جس میں شریعت کی بقاء ، شرعی احکامات کی بقاء ، فقہ کی تجدید اور اس فقہ کو ہر زمان ومکان میں جاری و ساری رکھنے کی صلاحیت موجود ہے، امام قرافی نے اسی علم کی قدر و منزلت اور اہمیت کی خاطر کیا خوب بات کہی ہے :
" وهذه القواعد مهمة في الفقه عظيمة النفع وبقدر الإحاطة بها يعظم قدر الفقيه ويشرف ويظهر رونق الفقه ويعرف وتتضح مناهج الفتاوى وتكشف فيها تنافس العلماء وتفاضل الفضلاء" [12]
( یہ علم قواعد فقہ میں بہت اہم اور بہت بڑے فائدے کا سبب ہے، اور جس قدر کوئی عالم اس کا احاطہ کرے گا اسی قدر اسی عظمت اور جلالت بلند ہو گی ، اور فقہ کی رونق اور اس کی معرفت کا بھی یہ علم ایک سبب ہے، اور اسی علم کے تحت فتوی کے مخلف مناہج واضح ہوتے ہیں جیسا کہ اسی علم کی وجہ سے علماء کی ایک دوسرے سے مسابقت اور فضیلت ظاہر ہوتی ہے)۔
ایک علم کی حیثیت حاصل کرنے کے بعد ہر مذہب اور مکتبہ فکر میں اس مذہب کے اصول و قواعد کو مد نظر رکھتے اب کتب موجود ہیں ، چنانچہ اس علم میں جو کتب قدیم اور معاصر زمانہ میں لکھی گئی ہیں، جن میں فقہی قواعد کو پہلے قواعد فقہیہ کبری اور ان کے ما تحت ذیلی قواعد کو بیان کیا گیا ہے ، ان میں سے بعض کے نام مندرجہ ذیل ہیں[13]:
- ڈاکٹر محمد وائلی ، القواعد الفقہیہ تاریخہا و اثرہا (مطبعۃ الرحاب ، مدینۃ منورۃ،طبع اول 1407 ھ )،
- ڈاکٹر یعقوب باحسین ، القواعد الفقہیہ (مکتبۃ الرشید ،الریاض ، طبع اول ، 1418ھ،)،
- مجلۃ الاحکام العدلیۃ مجموعہ علما لدولہ عثمانیہ (دار ابن حزم) 1424
- ڈاکٹر محمد زحیلی ، القواعد الفقہیہ و تطبیقاتہا فی المذاہب الاربعۃ (دار الفکر : دمشق)،1428
- ڈاکٹر علی ندوی ، القواعد الفقہیہ (دار القلم) 1414
- ڈاکٹر روکی ، قواعد الفقہ الاسلامی (دار القلم) 1419
- احمد بن محمد زرقا ، شرح القواعد الفقہیہ للزرقا (دار القلم : دمشق) 1409
- ابن سبکی ،الاشباہ والنظائز ((دار الکتب العلمیہ : بیروت)1411
- جلال الدین سیوطی ،الاشباہ والنظآئر (دار الکتب العلمیہ : بیروت)1411
ضرورت و حاجت کا مفہوم اور دائرہ کار
ضرورت کا مفہوم
ضرورت اور اضطرار ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، جس سے مرادایسی مشقت و شدت کا سامنا کرنا ہے جس کے لیے کو ئی قوت مدافعت نہ ہو، اور انسان مجبور ہو جائے[14]۔ اور اصطلاحی طور ضرورت کی مختلف تعریفات کی گئی ہیں، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:
- علامہ جرجانی اپنی کتاب تعریفات میں یوں رقمطراز ہیں : "مشتقة من الضرر، وهو النازل مما لا مدفع له"[15] ( یہ لفظ ضرر سے بنا ہے جس کا معنی ہے کہ ایسی مصیبت کا نازل ہونا جس کی دفاعی وقت موجود نہ ہو)۔
- امام ابو بکر جصاصؒ کہتے ہیں : " الضَّرُورَةُ هِيَ خَوْفُ الضَّرَرِ بِتَرْكِ الْأَكْلِ إمَّا عَلَى نَفْسِهِ أَوْ عَلَى عُضْوٍ مِنْ أَعْضَائِهِ"[16] (ضرورت سے مراد یہ ہے کہ کھانا پینا چھوڑنے سے انسان کو اپنی جان یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہو)۔
- علامہ دردیرؒ کہتے ہیں کہ " وَهِيَ الْخَوْفُ عَلَى النَّفْسِ مِنْ الْهَلَاكِ عِلْمًا أَوْ ظَنًّا" [17](ضرورت سے مراد یہ ہے کہ انسان یقینی طور پر یا گمان کرتے ہوئے اپنی جان پر خطرہ محسوس کرے)۔
چنانچہ ان تعریفات پر نظر ڈالنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت ایک ایسی صورت ہے جس میں انسان اپنی جان یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خطرہ محسوس کرتا ہے۔ اور یہی ضرورت کا دائرہ کار ہے کہ ضرورت کی شرائط کے پائے جاے کے وقت ضروت کی وجہ سے انسان اپنی جان یا کسی عضو کو ہلاک ہونے سے بچانے کے لیے ضرورت کی بقدر کسی ایسے کام کا ارتکاب کر سکتا ہے جو بغیر ضرورت کے کرنا منع اور حرام ہو۔اور ضرورت کے وقوع کے لیے مندرجہ ذیل شروط کا پایا جانا ضروری ہے:
- انسانی جان یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خطرہ ہو۔
- ضرورت موجود ہو نہ کہ متوقع ہو۔
- نقصان کے ازالے کے لیے حرام کام کرنے کے علاوہ کوئی اور وسیلہ نہ ہو۔
- اس کے ازالے سے کسی اور کو نقصان کو نہ پہنچے[18]۔
ان شروط میں سے اگر ایک بھی شرط مفقود ہو گئی تو ضرورت کا وجود تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ضرورت کی مشروعیت : اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾[19] ( اور جو شخص مجبور ہو جائے ،نہ زیادتی کرنے والا ہو اور نہ عادت بنائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہے )۔
حاجت کا مفہوم
حاجت سے مراد یہ ہے کہ ایسی صورت کا پیش آنا کہ اگر اس کا ارتکاب نہ کیا گیا تو تنگی اور صعوبت کا سامنا کرنا پڑے گا، اگرچہ اس میں جان یا کسی عضو کے ہلاک ہونے کا خطرہ نہیں ہوتا[20]۔ اور اس کا دائرہ کار انسانی جان کی ہلاکت یا کسی عضو کی ہلاکت سے بچنا نہیں بلکہ کسی صعوبت یا تنگی سے بچنا اس کا دائرہ کار ہے۔ لیکن حاجت اس وقت شرعی احکام کے تغیر و تبدل میں مؤثر ہو گی جب مندرجہ ذیل شروط پائی جا گی:
- قرآن و سنت میں واضح نص موجود ہو جو اس حاجت کو معتبر قرار دے۔ جیسے بیع سلم کا جائز حاجت کی بنا پر ہے کیونکہ اس کی واجح دلیل حدیث میں ہے، ورنہ معدوم چیز کی بیع منع ہے۔
- نص غیر صریح ہو یا اس مین اجتہاد کیا جا سکتا ہو ، چنانچہ حاجت کی وجہ سے کسی جانب کو مباح قرار دیا جائے ، جیسے عورت کا اپنا چہرہ حج کے دوران نہ ڈھانپنا، اگرچہ عدم حجاب کی رائے فی الواقع مرجوح ہے مگر حاجت کی وجہ سے مباح ہے اور حاجت یہ ہے کہ حج میں اتنے رش کی وجہ سے اس کا اہتمام کرنا مشقت کا باعث ہے۔
اس کے علاوہ حاجت شرعی احکام میں تغیر و تبدل کا سبب نہیں بن سکتی[21]۔
ضرورت و حاجت کے قواعد فقہیہ کی معاصر طبی مسائل میں تطبیقات
شریعت اسلامیہ کے نزول کے بنیادی مقاصد میں یہ بات شامل ہے "درء المفاسد وجلب المصالح"کہ انسانیت سے نقصان دہ چیزوں کو دور کیا جائے اور انہیں مفید چیزیں مہیا کی جائیں۔ لہذا کوئی بھی نقصان کسی بھی صورت میں ہو اس کو ختم کرنا شریعت اسلامیہ کا بنیادی مقصد ہے، اور جب اس نقصان کا تعلق انسانی جسم و جان سے براہ راست ہو تو اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ چنانچہ جن قواعد فقہیہ کی بنیاد پر ان نقصانات کو ختم کیا جا سکتا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا قاعدہ: الضرر يزال
یہ قاعدہ کلی قواعد میں سے ہے اور اس کا فقہی ابواب میں بہت زیادہ اثر ہے، چنانچہ اسی ضمن میں علامہ سیوطی ؒ رقم طراز ہیں:
" اعلم أن هذه القاعدة ينبني عليها كثير من أبواب الفقه ، ويتعلق بها قواعد " [22]
(کہ فقہی کےابواب بہت زیادہ مسائل کی اس قاعدے پر بنیاد ہے اوراس قاعدے سے اور بھی بہت زیادہ قواعد تعلق رکھتے ہیں)۔
اور یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس قاعدے کو ان الفاظ کے ساتھ بہت زیادہ متقدمین اور معاصر فقہا نے قاعدہ "لا ضرر ولا ضرار" کے متبادل کے طور پر استعمال کیا ہے[23]۔ لیکن اس قاعدے کی جو قوت " لا ضرر ولا ضرار " والے الفاظ میں ہے وہ الضرر یزال میں نہیں ہے کیونکہ ایک تو ان الفاظ میں ابتدا نقصان سے بچنے کا معنی پایا جاتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ نقصان واقع ہونے کے بعد بھی اس کے ازالے کا اس میں معنی پایا جاتا ہے ، جبکہ الضرر یزال کاتعلق صرف نقصان کے واقع ہونے کے بعد اس کے ازالے سے ہے۔ ویسے بھی حدیث بھی لا ضرر ولاضرار کے الفاظ سے وارد ہوئی ہے چنانچہ جو دلیل قوت اس میں ہے وہ الضرر یزال میں نہیں ہے[24]۔
قاعدے کا مفہوم
اس قاعدے کا مفہوم یہ ہے جب کوئی نقصان واقع ہو جائے تو اسے ہر صورت ختم کیا جائے گا[25]۔
قاعدے کی شرعی حیثیت کے دلائل
جیسا کہ پہلے گزرا ہے کہ اس قاعدے کو لا ضرر ولا ضرار کے متبادل کے طور پر لیا گیا ہے اس لیے اس کی شرعی حیثیت پر بھی وہ دلائل دلالت کرتے جن سے قاعدہ لا ضرر ولا ضرار ثابت ہوتا ہے ، ان میں سے بعض دلائل یہ ہیں:
پہلی دلیل
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَبَلَغْنَ أَجَلَهُنَّ فَأَمْسِكُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوهُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلَا تُمْسِكُوهُنَّ ضِرَارًا لِتَعْتَدُوا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ﴾ [26]( اور جب تک طلاق دے چکے ہو اپنی بیویوں کو اور وہ اپنی عدت کے مکمل ہونے کو پہنچ جایئں تو یا تو انہیں اپنے پاس اچھے طریقے سے روک لو یا پھر انکو اچھے طریقے سے چھوڑ دو ، اور ان کو نقصان نہ پہنچاو ؛ اور جو شخص ایسا کام کرے گا یعنی نقصان پہنچائے گا وہ اپنی جان پر خود ظلم کرے گا )۔
چنانچہ پہلے لوگ اپنی بیوی کو طلاق دیتے اور جب وہ عدت پوری کر چکنے کے قریب ہوتی تو اس سے رجوع کر لیتے اور پھر طلاق دے کر اس وقت رجوع کر لیتے جب وہ عدت پوری کرنے کے قریب ہوتی ، مقصد صرف اس کو نقصان پہنچانا ہوتا تھا، تو اللہ تعالی نے اس طریقے سے منع فرما نے کے ساتھ ساتھ ایسا کرنے والے کو اپنی جان پر ظلم کرنے کے مترادف قرار دیا[27]۔
دوسری دلیل
: اللہ تعالی کر فرمان ہے : ﴿ لَا تُضَارَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ﴾ [28]( ماں کو اس بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے )۔ اس آیت میں بھی والدہ اور والد کو کسی بھی طرح کا نقصان دینے سے منع کیا گیا ہے[29]۔
تیسری دلیل
: اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ﴾ [30](اور نہ نقصان دیا جائے لکھنے والے کو اور نہ ہی گواہی دینے والے کو)۔ اس آیت میں بھی نقصان دینے سے منع کیا گیا ہے[31]۔ چنانچہ اسی طرح دوسری تمام آیات جن میں مطلقا نقصان دینے سے منع کیا گیا وہ تمام کی تمام آیات اس قاعدے کی حجیت کی دلیل ہیں۔
اور نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : " لا ضرر ولا ضرار" [32](نقصان نہ پہنچایا جائے اور نقصان واقع ہونے کے بعد اس کا ازالہ کیا جائے )۔
علاج معالجے میں اس قاعدے کی تطبیقات (Applications)
اس قاعدے کی سب سے اہم تطبیق یہ ہےکہ تمام امراض کو علاج معالجہ جائز و مباح ہے؛ کیونکہ مرض ایک نقصان ہے اور نقصان کا ازالہ اس قاعدے کا مقصد ہے اور وہ علاج معالجہ سے ہو گا۔ اور یہ علاج معالجہ کبھی تو شرعی رقی (دم جھاڑ)، سے ہوتا ہے اور کبھی مختف ادویہ کے استعمال سے اور کبھی میٖڈیکل آپریشن سے۔ اور علما نے دم جھاڑ سے طریقہ علاج کے شرعی ضوابط بیان کیے جن کا ذکر کرنا بہت ضروری ہے، جو کہ مندرجہ ذیل ہیں[33]:
- اس دم جھاڑ سے علاج کے لیے قرآن و سنت میں دلیل موجود ہو۔
- اس میں شرکیہ الفاظ کی امیزش نہ ہو۔
- دم جھاڑ جادو سے پاک ہو۔
- قابل مفہوم الفاظ پر مشتمل ہو۔
- اگر لکھ کر کیا جائے تو کسی طاہر چیز کے ساتھ لکھا جائے،ہر نجس چیز سے پاک ہو[34]۔
اسی طرح دم کرنے والے کے لیے بھی مندرجہ ذیل ضوابط ہیں:
- دم کرنے والا مسلمان ہو۔
- دین میں عدالت کے ساتھ معر وف ہو۔
- اس کو عقیدہ ہو کہ شافی صر ف اللہ کی ذات ہے۔
- دم کرنے والا شرعی دم جھاڑ کا طریقہ جاننے والا ہو [35]۔
اور اسی طرح اس طریقہ علاج میں مریض سے متعلقہ بھی کچھ ضوابط ہیںجوکہ مندرجہ ذیل ہیں:
- مریض کو یہ عقیدہ ہو کہ شفا دینے والی صرف اللہ کی ذات ہے
- اس دم کے الفاظ کی حفاظت کرے ، ان کو اہانت سے بچائے۔
- دوران علاج ہر قسم کی برائی سے بچے ، مثلا، میوزک سے بچے، سیگریٹ نوشی سے پرہیز کرے[36]۔
اور میڈیکل آپریشن سے متعلقہ مندرجہ ذیل ضوابط ہیں[37]:
- وہ میڈیکل آپریشن مشروع ہو ، اس میں کسی قسم کی غیر شرعی چیز نہ پائی جائے۔
- مریض کو اس کی احتیاج ہو۔ کیونکہ انسانی جسم کو بغیر کسی ضرورت کے زخم لگانا منع ہے ، چنانچہ ضرورت کے وقت ہی اس کا علاج کیا جائے گا۔
- مریض یا اس کا ولی اس آپریشن کی اجازت دے۔
- میڈیکل ڈاکٹر اور اس کے اسٹنٹ میں آپریشن کرنے کی صلاحیت پائے جانے کیساتھ ساتھ اس بات کا غالب گمان ہو کہ آپریشن کامیاب ہو گا۔
- آپریشن کے علاوہ کوئی اور علاج موجود نہ ہو اور مصلحت کے حصول کا یقین ہو۔
- اور آپریشن کی وجہ سے کوئی بڑا نقصان واقع ہونے کا خدشہ نہ ہو۔
اس قاعدے کی علاج معالجہ سے متعلقہ تطبیقات
پہلی تطبیق: ہاتھ میں زائد انگلی کا آپریشن (Removing an extra Finger) کے ذریعے ازالہ کرنا
فطرتی طور پر اللہ تعالی ہر انسان کو ایک ہاتھ میں پانچ انگلیاں عطا کی ہیں، لیکن یہ اس کی مرضی ہے کہ کسی کو پانچ سے زائد بھی عطا فرمادے، چنانچہ اس ہانچویں انگلی کی ظاہری طور پر کیا حکمت ہے اس کا ہمیں علم نہیں ہے ، البتہ پانچ انگلیوں کے مقابلے میں چھٹی انگلی کا ہونا ایک ضرر ہے اور اس قاعدے کے تحت اس کا ازالہ کرنا جائز ہے ، لیکن جن فقہا نے اس زائد انگلی کے ازالے کے جواز کی رائے اپنائی ہے ان کے ہاں اس کے ازالے کا امن سے مشروط ہونا ضروری ہے بصورت دیگر جائز نہیں ہے [38]۔
دوسری تطبیق : انسانی جلد کے اوپر پڑنے والے نشانات کا ازالہ کرنا
کسی مرض یا وبا کی وجہ سے انسانی جلد پر اگر کوئی بد نما داغ بن جائے ، جس سے جسم پر نقصان ہو سکتا ہے ، تو ایسے نشانات کا اس قاعدہ کے تحت ازالہ کرنا جائز ہے ، جس کے لیے مختلف طرق علاج کا انتخاب کیا جا سکتا ہے ، ایک ان میں سے لیزر (شعاوں) کا استعمال ہے۔ اسی طرح بعض بیوٹی پارلر ز میں بھی بعض روشنیوں کے ذریعے انسانی چہرے پر نمودار ہونے والے دانوں کا علاج کیا جاتا ہے ۔ ان شعاوں اور مختلف روشنیوں کے ذریعے علاج کرنے کے مندرجہ ذیل ضوابط ہیں:
- ان کے استعمال سے جسم کو مزید نقصان نہ ہو
- اس پر انسانی جلد پر بد نما داغ بننے کا اندیشہ نہ ہو[39]۔
تیسری تطبیق : عورت کا اپنے چہرے سے داڑہی اور مونچھوں کا ازالہ کرنا
عورت کے چہرے کا حسن داڑہی اور مونچھوں کے نہ ہونے میں ہے، چنانچہ اگر کسی عورت کے چہرے پر داڑہی اور مونچھوں کے بال نمودار ہوں تو اس کا اس قاعدے کے تحت ازالہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ یہ بال عورت کے حق میں نقصان کا باعث ہیں، چنانچہ اس نقصان سے ازالہ ضروری ہے جو کہ اس قاعدے کے تحت کیا جائے گا۔ اور اس سے مراد صرف داڑہی اور مونچھوں کے بال ہی نہیں بلکہ عورت کے چہرے پر اگنے والے تما م غیر معتاد، بال کا ازالہ کیا جا سکتا ہے[40]۔ اور اگر لیزر کا استعمال کیا جائے تو مذکورہ بالا قواعد کی روشنی میں کیا جائے گا۔
چوتھی تطبیق : انسانی جسم سے قطع شدہ عضو لگوانا
انسانی جسم میں ہر عضو کا اپنا ایک مقصد ہے اور ایک فنکشن ہے جو کسی دوسرے عضو سے نہیں لیا جا سکتا ، چنانچہ اگر کسی حادثے کی وجہ کوئی عضو کٹ گیا ہے تو اسے آپریشن سے لگوایا جا سکتا ہے۔ کیونکہ اس کے نہ لگوانے سے لگاتار نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
پانچویں تطبیق : سٹم سیلز (Stem cells)، کے ذریعے علاج کرنا
انسانی جسم کے اندر کوجود ہر عضو کے خلیے ہوتے ہیں جن میں مزید بڑھنے اور مختلف خلیوں میں تبدیل ہونے کی صلاحیت ہوتی ہے، ان کے ذریعے اسی عضو کے بے مقصد ہونے کے اس کو با مقصد بنانے کا علاج کیا جا سکتا ہے جس کے وہ خلیے ہیں، مثلا اگر کردے کے خلیے ہیں تو ان سے خلیے بنائے جا سکتے ہیں وغیرہ۔ چنانچہ جب کسی آدمی کے جسم کسے کوئی عضو ناکارہ ہو جائے تو اس کے اس عضو کے خلیوں سے علاج کیا جا سکتا ہے کیونکہ علاج نہ کرنے کی صورت میں مریض کو مسلسل نقصان کا سامنا کرنا پر سکتا ہے اور اس نقصان کا ازالہ اس قاعدے کے تحت کیا جائے گا۔
دوسرا قاعدہ : الضرر يدفع بقدر الإمكان
[41]
اس قاعدے کے مطلب یہ ہے کسی بھی نقصان کو واقع ہونے سے کلی طور پر ہر ممکن کوشش کی جائے گی ، ورنہ حسب استطاعت اس کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، اور دوسرے لفظوں میں یوں کہہ لیجیے کہ "الوقاية خير من العلاج"[42] ( کہ پرہیز کرنا علاج کروانے سے زیادہ بہتر ہے) ۔
قاعدے کی حجیت
قاعدے کی حجیت مختلف دلائل سے ثابت ہوتی ہے جن میں اختصار کے بعض ایک مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی دلیل
: اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿ وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ﴾[43]( اور ان کے مقابلے کے لیے ہر ممکن قوت تیار کرو)۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تعالی نے کفار کے شر سے بچنے کے لیے وقت سے پہلے ہر ممکن قوت تیار کرنے کا حکم دیا ہے ، جس کا واضح معنی یہ ہے ہر ممکن نقصان کو واقع ہونے سے روکا جائے۔[44]
دوسری دلیل
: اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿ وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ﴾[45] (اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی کا تمہیں خطرہ ہو ان کو وعظ و نصیحت کرو، ان کے بستر الگ کر دو یا پھر ان کو مناسب انداز میں مارو)۔ یہاں بھی اللہ تعالی نےجن عورتوں سے نافرمانی کا خطرہ ہو ان سے نمٹنے کے لیے تدابیر بتائی ہیں۔
تیسری دلیل
: اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : "من رأى منكم منكرا فليغيره بيده، فإن لم يستطع فبلسانه، فإن لم يستطع فبقلبه، وذلك أضعف الإيمان" [46]( جو شخص تم میں سے کوئی منکر ، بے حیائی کا کم دیکھے وہ اسے ہاتھ سے روکے ، اور عدم استطاعت کی صورت میں اپنی زبان سے روکے ، ورنہ دل سے اسے برا جانے ، اور یہ ایمان کا سب سے تک ترین درجہ ہے)۔ چنانچہ منکر کام کا واقع ہونا بھی ضرر ہے جس کو روکنے کے حتی الوسعہ کوشش کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
اس قاعدے کی علاج معالجہ میں معاصر تطبیقات
پہلی تطبیق : ویکسینیشن کا استعمال
اس قاعدے پر عمل کرتے ہوئے وبائی امراض کے واقع ہونے سے پہلے مخلف امراض کی ادویہ (Vaccination)، لینا ضروری ہے۔ جن میں ملیریا ، حیضہ، پولیو خسرہ جیسی امراض شامل ہیں۔ لہذا اگر ایسی امراض کے واقع ہونے کا اندیشہ ہو اور ویکسینیشن بھی غیر مضر ہو یعنی مستند ڈاکٹرز کی ٹیم اسے مطلوبہ امراض کے علاج کے مفید قرار دیں تو اس کا استعمال کرنا اس قاعدے کےتحت ضروری ہے۔ چنانچہ وہ اموات جو ان امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں ویکسینیشن کے ذریعے انہی قیمتی جانوں کا تحفظ کیا جا سکتا ہے[47]۔
دوسری تطبیق : متعدی مرض والے سے اجتناب کرنا
ایسا مریض جسے متعدی بیماری لگی ہوئی ہے اس سے اجتناب کرنا بھی اسی قاعدے کی تطبیق ہے۔ تا کہ اس مرض کے نقصان سے بچا جا سکے[48]۔ اور یہاں یہ بات یاد رہے کہ اس عمل کا اس حدیث سے کوئی تعارض نہیں ہے جس میں آپ ﷺ نے فرمایا :
"لا عدوى ولا صفر ولا هامة» فقال أعرابي: يا رسول الله، فما بال إبلي، تكون في الرمل كأنها الظباء، فيأتي البعير الأجرب فيدخل بينها فيجربها؟ فقال: "فمن أعدى الأول؟" [49]
(کہ مرض کا دوسرے کو لگنا اور صفر اور ہامہ کوئی چیز نہیں، ایک اعرابی نے عرض کیا یا رسول اللہ! پھر میرے ان اونٹوں کی ایسی حالت کیوں ہوتی ہے، کہ وہ ریت میں ہرنوں کی طرح ہوتے ہیں، ایک خارشی اونٹ آتا ہے اور ان میں داخل ہوجاتا ہے، تو ان سب کو خارشی بنا دیتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر پہلے کے پاس کہاں سے آئی تھی ؟)۔
کیونکہ اس حدیث میں زمانہ جاہلیت کے اعتقاد کی نفی کی گئی ہے جیسا کہ ان کا عقیدہ تھا کہ مرض طبعی طور پر اللہ کے ارادے بغیر ایک آدمی سے دوسرے کو لگ جاتی ہے ، جب کہ یہ بات غلط ہے ، تو اس حدیث کے تحت اس عقیدے کی نفی کی ہے ، ہاں جب اللہ تعالی چاہے تو مرض ایک سے دوسرے کو لگ جاتی ہے، جیسا حدیث کے اندر صحتمند اونٹوں کو مرض لگ گئی تھی [50]۔
اسی طرح ایسے مریض پر صحت مند لوگوں کے جانے کی پابندی بھی لگائی جا سکتی ہے جیسا کہ اس کو ایک الگ تھلگ قارڈ میں رکھ کر علاج کرنا چاہیے تاکہ اس مرض سے پاک مریض اس مرض میں مبتلا نہ ہو جائیں[51]۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے :
"فِرَّ مِنَ الْمَجْذُومِ فِرَارَكَ مِنَ الْأَسَدِ " [52](کوڑی والے مریض سے ایسے بچو جیسے شیر سے بچتے ہو)۔
یہ فرمان بھی اس تطبیق کی تائید کر رہا ہے جیسا کہ کہا گیا ہے کہ ایسے آدمی سے بچو جس کو کوڑی کی مرض لگی ہوئی ہے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس کے ساتھ ملنے جلنے کی وجہ سے اللہ کے ارادے سے کسی کو مرض لگ جائے اور اس کا یہ عقیدہ بن جائے کہ کوڑی والے مریض سے ملنے کی وجہ سے مرض خود بخود لگی ہے، جبکہ مرض اللہ کے ارادے کے بغیر نہیں لگتی۔ جیسا کہ اس معنی یہ بھی ہے کہ اس حدیث میں احتیاطی پہلو اختیار کرنے کی طرف ترغیب دی جا رہی ہے۔کہ احتیاط ایسے مریض کو نہ ملنے میں ہے[53]۔
اسی طرح سیدنا عمر – رضی اللہ عنہ - جب ملک شام کی طرف گئے تو راستے میں معلوم ہوا کہ وہاں تو وباء پھیلی ہوئی ہے ، چنانچہ مہاجرین و انصار سے مشورہ کیا ، پھر قریش کے کچھ لوگوں سے مشورہ کیا انہوں نے وہاں نہ جانے کا مشورہ دیا ، اتنے میں حضرت ابن عوف –رضی اللہ عنہ- بتایا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تھا : "إذا سمعتم به بأرض فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بأرض وأنتم بها فلا تخرجوا فرارا منه" [54](جب تمہیں یہ معلوم ہو کہ کسی جگہ وباء ہے تو اس علاقے کی جانب نہ جاو ، اور اگر تم اس وباء والی جگہ میں ہو تو اس سے نہ نکلو)۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ – نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپس چلے گئے۔ تو سیدنا عمر کے طرز عمل سے بھی یہی احتیاطی پہلو واضح ہوتا ہے ۔
تیسری تطبیق : جینیاتی علاج کروانا
میڈیکل شعبے میں ترقی کی وجہ سے ماہرین طب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ ایسی امراض کو مخفی ہوتی ہیں اور انسان کسی بھی وقت بڑھاپے میں ان میں مبتلا ہو سکتا ہے ، ان کو بھی دریافت کر لیا ہے اور ان کا علاج بھی دریافت کر لیا ہے جو کہ جینیاتی علاج ہے ۔ چنانچہ اگر میڈیکل ڈاکٹرز ایسی مرض مبتلا مریض کے لیے ایسا علاج تجویز کریں تو اس قاعدے کے تحت وہ علاج کرنا ضروری ہے تا کہ متوقع نقصان سے بچا جا سکے[55]۔
تیسرا قاعدہ : الضرر لا يزال بمثله
قاعدے کا مفہوم
یہ قاعدہ مذکورہ قاعدہ نمبر دو کے لیے ایک شرط کی حیثئت رکھتا ہے، تو مطلب یہ ہو گا کہ جب کسی نقصان کا ازالہ کیا جائے گا تو اس کا ازالہ اسی جیسے یا اس سے بڑے کسی نقصان سے نہیں کیا جائے گا ، ہاں اگر چھوٹے نقصان سے کسی نقصان کا ازالہ ممکن ہو تو کوئی حرج نہیں[56]۔
اور اس قاعدے کی حجیت کے وہی دلائل ہیں جو پہلے قاعدے "الضرر يزال" کی حجیت کے تھے۔
اس قاعدے کی تطبیقات
پہلی تطبیق: مریض کا آپریشن کرنا جس میں مزید نقصان کا اندیشہ ہو
ایسا علاج یا آپریشن جس کے کرنے سے مریض کو مزید بڑا یا اسی جیسا نقصان ہو سکتا ہو ، کرنا منع ہے۔ کیونکہ کسی نقصان کا ازالہ اسی جیسے یا اس سے بڑے نقصان سے نہیں کیا جا سکتا[57]۔
دوسری تطبیق : انسانی اعضا منتقل کرنا
اگر ایک زندہ انسان کے اعضا کسی مریض کو منتقل کرتے وقت اس عطیہ کرنے والے کو نقصان میں ڈال دیں تو ایسا علاج کرنا منع ہے[58]۔ مثلا گردے منتقل کرنا، آنکھیں منتقل کرنا وغیرہ۔ اور اسی پر ہی مجمع فقہ اسلامی کا فیصلہ ہے[59]۔
تیسری تطبیق : چہرے کی پیوند کاری کرنا
مردہ انسان کے جسم سے زندہ کے علاج کے لیے اعضا لینے کے جواز کے بارے میں ایک رائے ہے مگر اس کے مکمل چہرے کو لینا اور کسی آگ میں جھلسے ہوئے آدمی کے چہرے کی اس سے پیوندکاری کرنا درست نہیں ، کیونکہ یہ میت کے ساتھ مثلہ ہے جو کہ میت کو بڑا نقصان پہنچا کر زندہ کا علاج کرنا اسی قاعدے کے تحت جائز نہیں [60]۔
چوتھی تطبیق : تحسینی مقاصد کے لیے آپریشن کروانا
کسی ضروری یا حاجی مقصد کے مکمل کرنے کے لیے تحسینی اعمال کا سہارا لیا جا سکتا ہے ، البتہ ایسے آپریشن جن کا مقصد اللہ کی تخلیق میں تبدیلی ، حسن و جمال میں اضافہ ، کسی غیر مسلم کی نقالی کرنا مقصود وغیرہ ہو تا ایسی قاعدہ کے تحت جائز نہیں ہے[61]۔
چوتھا قاعدہ : الضرر الأشد يزال بالضرر الأخف
[62]
قاعدے کا مفہوم
تمام قسم کے نقصانات ایک ہی درجے کے نہیں ہوتے ، بلکہ مختلف نوعیت کے حامل اور مختلف اثرات کو مرتب کرتے ہیں۔ چنانچہ جب کوئی نقصان ہو اسے بغیر کسی نقصان کے ارتکاب کیے دور کرنا ضروری ہے ، لیکن جب کسی نقصان کے بغیر اسے ختم کرنا نا ممکن ہو جائے تو کسی دوسرے چھوٹے نقصان کے ارتکاب کے ساتھ بڑے نقصان کا ازالہ کیاجا سکتا ہے [63]۔
قاعدے کی حجیت
اس قاعدے کی حجیت مختلف دلائل سے ثابت ہے جو مندرجہ ذیل ہیں:
پہلی دلیل
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ﴾ [64](اور فتنہ قتل سے زیادہ سخت نتائج والا جرم ہے)
دوسری دلیل
اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ وَصَدٌّ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَكُفْرٌ بِهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَإِخْرَاجُ أَهْلِهِ مِنْهُ أَكْبَرُ عِنْدَ اللَّهِ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ [65]( اور آپ ﷺ سے حرمت والے مہینوں میں قتل کے بارے میں سوال کرتے ہیں، آپ ﷺ کہہ دیجیے ! کہ ان میں قتل کرنا بڑا گنا ہ ہے مگر اللہ کے راستے سے روکنا ، اللہ کے ساتھ کفر کرنا ، مسجد حرام سے روکنا اور اس کا باشندوں کو اس سے نکالنا اس سے بھی بڑا گناہ ہے اور فتنہ برپا کرنا قتل سے بھی زیادہ سنگین جرم ہے)۔
دونوں آیات میں اللہ تعالی نے بڑے نقصانات کی طرف توجہ دلائی ہے ، کہ بڑے نقصان کا ارتکاب کر کے چھوٹے نقصان سے بچنے کے بارے میں پوچھ رہے ہیں!!
تیسری دلیل : فرمان نبوی ﷺ
صحابہ کا بیان ہے:
" بينما نحن في المسجد مع رسول الله صلى الله عليه وسلم. إذ جاء أعرابي فقام يبول في المسجد، فقال أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: مه مه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تزرموه دعوه» فتركوه حتى بال، ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعاه فقال له: «إن هذه المساجد لا تصلح لشيء من هذا البول، ولا القذر إنما هي لذكر الله عز وجل، والصلاة وقراءة القرآن" [66]
( کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ اتنے میں ایک دیہاتی آیا اور مسجد میں پیشاب کرنے کھڑا ہو گیا تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ٹھہر جا ٹھہر جا! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس کو مت روکو اور اس کو چھوڑ دو پس صحابہ نے اس کو چھوڑ دیا یہاں تک کہ اس نے پیشاب کر لیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو بلوایا اور اس کو فرمایا کہ مساجد میں پیشاب اور کوئی گندگی وغیرہ کرنا مناسب نہیں یہ تو اللہ عزوجل کے ذکر اور قرآن کے لئے بنائی گئی ہیں )۔ چنانچہ اس واقعہ میں اگر اس اعرابی کے پیشاب کو بند کیا جاتا تو نقصان زیادہ تھا ، تو اسے پیشاب کرنے دیا تا کہ بڑے نقصان سے بچا جا سکے۔
اس قاعدے کی طبی شعبے میں تطبیقات
پہلی تطبیق : حاملہ عورت کا پیٹ چاک کرنا
اگر کوئی عورت نارمل ڈلیوری سے بچہ جنم نہ دے سکے ، جس کی بہت زیادہ وجوہات ہو سکتی ہیں، تو ایسی عورت کا آپریشن کر کے بچے کو پیٹ کو نکالنا ضروری ہو گا تاکہ ایک انسانی جان بچ سکے جس کا ضیاع عورت کے پیٹ کو چاک کرنے کے نقصان سے کم ہے[67]۔
دوسری تطبیق : حاملہ میت کا پیٹ چاک کرنا
اسی طرح اگر ایسی عورت فوت ہو گئی ہو تو اس کا پیٹ چاک کر کے بچے کو اسی قاعدے کے تحت نکالنا ضروری ہے، تاکہ ایک انسانی جان بچ سکے۔ اس میں چونکہ میت حرمت کو پامال کرنا بھی ہے جو کہ انسانی جان کے ضیاع سے چھوتا نقصان ہے اس کا ارتکاب کیا جائے گا تاکہ بڑے نقصان سے بچا جا سکے[68]۔
تیسری تطبیق : متضرر انسان کے جسم کا علاج اسی کے اعضا سے کرنا
اسی قاعدے کے تحت اگر کسی انسان کا جسم جھلس گیا ہے ، اور اسی کے جسم سے کوئی حصہ لیکر اس کا علاج کر لیا جائے جس سے چھوٹے نقصان کا ارتکاب اگرچہ ہو جائے مگر بڑانقصان نہ ہونے پائے، تو یہ کیا جا سکتا ہے۔ اور اسی کے مطابق مجمع فقہ اسلامی کا فیصلہ صادر ہوا ہے[69]۔
مریض کو آسانی دینے اور رفع الحرج سے متعلقہ قواعد
جس طرح مریض کو ہونے والے نقصان سے بچانا ضروری ہےاور اس سے مذکورہ بالا قواعد تعلق رکھتے ہیں اسی طرح کئی صورتوں میں مریض کو آسانی دینے اور اور اس سے ہر طرح کی حرج ، تکلیف دور کرنا بھی ضروری ہے جس سے چند فقہی قواعد تعلق رکھتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
پہلا قاعدہ : الضرورات تبيح المحظورات
قاعدے کا مفہوم
ضرورت کا مطلب ہے کہ ایسی صورت حال کو پہنچ جانا کہ اگر اس میں ممنوع چیز کو تناول نہ کیا گیا تو انسان کی موت یقینی ہے، اس کے مطابق قاعدے کو مفہوم یہ ہے کہ ایسی حالت کو پہنچنا جس سے بچنا صرف اور صرف ممنوع چیز کے استعمال میں ہے، ایسی صورت میں اس ممنوع چیز کا استعمال شرعا جائز ہو گا[70]۔
اس قاعدے کی حجیت
اس قاعدے کی حجیت مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہوتی ہے۔
پہلی دلیل : اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿وَقَدْ فَصَّلَ لَكُمْ مَا حَرَّمَ عَلَيْكُمْ إِلَّا مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَيْهِ ﴾ [71](اللہ تعالیٰ نے ان سب جانوروں کی تفصیل بتا دی ہے جن کو تم پر حرام کیا ہے (١) مگر وہ بھی جب تمہیں سخت ضرورت پڑ جائے تو حلال ہے)۔
دوسری دلیل : اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ [72](پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔)۔
تیسری دلیل : اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ [73](۔ پس جو شخص شدت کی بھوک میں بیقرار ہو جائے بشرطیکہ کسی گناہ کی طرف اس کا میلان نہ ہو تو یقیناً اللہ تعالیٰ معاف کرنے والا ہے اور بہت بڑا مہربان ہے )۔
چوتھی دلیل : اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ [74](پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔ )۔ چنانچہ ای تمام آیات میں اللہ تعالی نے تمام حرام چیزیں تفصیل سے بیان کر دی ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ بتا دیا کہ اگر کوئی بہت زیادہ مجبور ہو جائے کہ وہ ان چیزوں کو استعمال کیے بغیر زندہ نہ رہ سکے تو وہ ان حرام چیزوں کو استعمال کر کے اپنی جان بچا سکتا ہے۔
اس قاعدے کی طبی شعبے میں تطبیقات
پہلی تطبیق آپریشن کے دوران مریج کو نشہ آور اشیا دینا
میڈیکل ڈاکٹر آپریشن کے دوران مریض کی عدم حرکت اور سکون کو چاہتا ہے تا کہ اس کا علاج اچھی طرح کیا جا سکے، اور اس کے لیے وہ مریض کو نشہ آور ادویہ اسی قاعدے کے تحت دے سکتا ہے۔ اور کئی ایسی جگہیں ہیں جن میں ڈاکٹر بغیر نشہ آور دوائی دیے علاج نہیں کر سکتا ، جیسے دل کا آپریشن ہے، دماغ کا آپریشن ہے ، پیٹ کی امراض کا آپریشن ہے، چھاتی کا آپریشن ہے ، کان کا آپریشن ہے، چنانچہ ان میں اس قاعدے کے تحت مریض کو نشہ آور دوائی دی جا سکتی ہے تا کہ مریض کی موت سے بچا جا سکے[76]۔ ہاں جن امراض کے علاج کے لیے نشہ آور دوائی دینا ضروری نہیں ہے وہان اس سے اجتناب کر نا ضروری ہے۔
دوسری تطبیق : خنزیر کے مادے سے تیار شدہ انسولین سے علاج
شوگر کے مرض کے علاج کے لیے شوگر کے مریض انسولین کو استعمال کرتے ہیں۔ اور اس مرض کا انسان پر بہت زیادہ خطرناک نتائج ثابت ہوتے ہیں ، اس مرض کا علاج شروع شروع میں مختلف ادویہ سے کیا جا تا ہے البتہ جب یہ مرض بڑھ جائے تو اس کے لیے وہ انسولین تجویز کی جاتی ہے جو خنزیر کے مختلف مادوں سے تیار کی جاتی ہے۔ اور اکثر فقہا کے ہاں اسی قاعدے تحت اس کو استعمال کرنا جائز ہے اور اسی کے مطابق سعودی عرب کی کبار علما کی کمیٹی نے فیصلہ صادر کیا ہے[77]۔ اسی طرح کویت میں منعقد ہونے والی کانفرنس کے اندر بھی اسی بات کی تاکید کی گئی [78]۔
تیسری تطبیق : انسانی جلد کو خنزیر کی جلد سے پیوند کرنا
اسی قاعدے کے تحت خنزیر کی جلد سے انسانی جلد کو پیوند بھی کیا جا سکتا ہے۔ اصل میں خنزیر کے تمام جسم سے فائدہ حاصل کرنا حرام ہے ، مگر ضرورت کے وقت اسی قاعدے کے تحت اس سے فائدہ لیا جا سکتا ہے[79]۔
چوتھی تطبیق : ستر ننگا کرنا
علاج کے لیے ستر ننگی کرنا بھی اسی قاعدے کے تحت جائز ہے جو کہ عام حالات کے اندر جائز نہیں ہے[80]۔
دوسرا قاعدہ : ما أبيح للضرورة يقدر بقدرها
[81]
یہ قاعدہ پچھلے قاعدے کی شرط ہے اور معنی یہ ہو گا کہ جو چیز ضرورت کی بناپر جائز ہوئی ہے اس کو ضرورت کے بقدر کیا جائے گا۔ صرف اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے اس حرام کا ارتکاب کیا جائے گا۔ اور اس ضرورت سے زائد اس کو استعمال کیا جائے گا[82]۔ اسی طرح جب وہ ضرورت ٹل جائے گی تو اس حرام کام کی حرمت دوبارہ لوٹ آئے گی جس کو ضرورت کے وقت کرنا جائز کیا گیا تھا[83]۔
قاعدے کی حجیت
اس قاعدے کی حجیت مندرجہ ذیل دلائل سے ثابت ہوتی ہے:
پہلی دلیل :اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ﴾ [84](پھر جو مجبور ہو جائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔)۔
دوسری دلیل : اللہ تعالی فرمان ہے : ﴿فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ﴾ [85](پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔ )۔ چنانچہ ان آیات میں ضرورت کے وقت اس ضرورت کی بقدر حرام چیز کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے، اسی لیے غیر باغ ،ولا عاد کی قید لگائی گئی ہے[86]۔
اس قاعدے کی طبی شعبے میں علاج معالجہ کے اند تطبیقات
مذکورہ بالا قاعدے میں جن صورتوں میں حرام کاموں کے ارتکاب کی اجازت دی گئی ہے انہی کاموں کو ضرورت کے بقدر کرنا اس قاعدے کی تطبیقات میں شامل ہے، مثلا:
- آپریشن کے وقت نشہ آور دوائی بقدر ضرورت دی جائی گی۔ جو کہ مرض کی نوعیت اور مریض کی طبیعت کے مطابق ہو گی۔
- ستر کو کسی کے لیے ننگا کرنا حرام ہے لیکن ضرورت کے وقت جائز ہے مگر جتنی ضرورت ہے اتنا ہی ستر کو ننگا کیا جائے گا، اس سے زیادہ نہیں[87]۔ لیکن ستر کو ننگا کرنے کے ضوابط کا بھی خیا ل کیا جائے گا ، مثلا عورت عورت کا اور مرد مردکا علاج کرے اور جس قدر مقام ستر ظاہر کرنے کی ضرورت ہے ڈاکٹر اس کو سے تجاوز نہ کرے۔ اور یہ علاج خلوت میں نہ ہو، کوئی اور آدمی اس علاج کے لیے موجود نہ ہو، ڈاکٹر امانت دار ہو اور مقام ستر ننگا کرنے کی حقیقت میں ضرورت ہو[88]۔
- مرض کی تشخیص کے لیے ایکسرے مشین کا استعمال ضرورت کے بقدر ہو، کیونکہ اس کی شعایئں نقصان دہ ہوتی ہیں لہذا ان کا استعمال بقدر ضرورت ہو گا[89]۔
تیسرا قاعدہ : الحاجة تنزل منزلة الضرورة عامة كانت أو خاصة
[90]
حاجت سے مراد ایسی چیز کی عدم موجودگی ہے جس کے نہ ہونے آدمی کی موت تو واقع نہ ہو البتہ مشقت و تکلیف کا باعث ہو[91]۔
چنانچہ حاجت بھی ان شرعی اسباب میں سے جن کی وجہ سے استثنائی حالات میں حرام چیز کو مباح قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مقصد یہ نہیں کہ حاجت اور ضرورت میں کوئی فرق نہیں اور ان دونوں ایک جیسے احکام ہوں گے۔ بلکہ بعض حالات میں حاجت بھی استثنائی کی مشروعیت کا سبب بنتی ہے۔
قاعدے کی حجیت
اس قاعدے کی حجیت مختلف دلائل سے ثابت ہوتی ہے ۔
پہلی دلیل : اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ ﴾ [92](اللہ تعالی تمہیں حراج میں ڈالنے کا ارادہ نہیں رکھتے)۔ چنانچہ آیت میں پانی کی عدم موجوگی میں مٹی سے تیمم کرنے کا حکم آسانی کے لیے دیا ہے بصورت دیگر مشقت وحرج کا سبب ہوتا[93]۔
دوسری دلیل : اللہ تعالی کا فرمان ہے : ﴿ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ ﴾ [94](اور نہیں بنائی اللہ تعالی نے تمہارے لیے دین میں کوئی حرج)۔ اسی طرح اللہ تعالی نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اس نے لوگوں کے لیے دین میں کسی قسم کی کوئی حرج نہیں رکھی، بلکہ آسانیاں دی ہیں۔
تیسری دلیل : نبی کریم ﷺ نے " رخص النبي صلى الله عليه وسلم للزبير وعبد الرحمن في لبس الحرير، لحكة بهما" [95]( سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور سیدنا زبیر دونوں کو ریشم کا کپڑا پہننے کی اجازت دی ؛ کیونکہ ان کو خارش کی مرض تھی)۔ اور اس مرض میں ریشم کا کپڑا پہننے میں آسانی تھی چنانچہ اس کی اجازت دے دی۔
چوتھی دلیل : نبی کریم ﷺ "أن قدح النبي صلى الله عليه وسلم انكسر، فاتخذ مكان الشعب سلسلة من فضة" [96](کا پیالہ ٹوٹ گیا چنانچہ آپﷺ نے ٹوٹی ہوئی جگہ کو سونے کی تار سے جوڑا )۔ حالانکہ مردوں کے لیے سونا استعمال کرنا جائز نہیں ، مگر ضرورت کے وقت اس قدر استعمال کرنا جائز ہے۔
اس قاعدے کی تطبیقات
پہلی تطبیق : انسانی اعضا ہدیہ کرنا
اصل میں انسانی اعضا میں انسان کا تصرف کرنا جائز نہیں ہے ، لیکن ضرورت کے وقت جبکہ علاج کا تعین انہی سے ہو چکا ہو تو بقدر ضرورت و حاجت انسانی اعضا کا ہدیہ کیا جا سکتا ہے۔ سعودی عرب کی کبار علما کی کمیٹی نے بھی اس کی حمایت میں فتوی دیا ہے[97]۔ اور مجمع فقہ اسلامی نے بھی اپنے آٹھویں اجلاس میں یہی فیصلہ کیا تھا ، اور یہ اجلاس 28 /04/1405 سے 07/05/1405 تک جاری رہا[98]۔
دوسری تطبیق : حاجت کے وقت آپریشن کروانا
جب کسی انسان کو اپنی طبیعت کے میں احساس ہو کہ مرض بڑھتا جا رہا ہے اور مزید بڑھنے سے موت کا زندیشہ ہو سکتا ہے تو آپریشن کروا کر ایسی امراض کا علاج کروایا جا سکتا ہے۔ مثلا، دانت کو کیڑا لگ جائے ، جسم کے مختلف حصوں میں گلٹیوں کا بن جانا وغیرہ[99]۔
تیسری تطبیق : ٹیسٹ ٹیوب بے بی سے افزائش نسل کروانا
جب شادی کے بعد خاوند بیوی کے اولاد کے آثار نمایاں نہ ہوں اور میڈیکل ڈاکٹرز ان کے لیے ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا علاج تجویز کرے تو اس حاجت کے پیش نظر ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے شرعی ضوابط کے مد نظر رکھتے ہوئے یہ طریقہ علاج اپنایا جا سکتا ہے۔ اور بانجھ پن علاج بھی اسی میں ہے ، چنانچہ سب سے پہلا ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا کامیاب علاج یورپ کے اندر 1978 میں ہوا اور اس کے بعد پوری دنیا میں پھیل گیا[100]۔
خلاصہ بحث
کسی بھی مرض کا علاج معالجہ کرنا شرعا واجب اور ضروری ہے تا کہ انسانی جان کو پہچنے والے سے بچا جا سکے ، اور شریعت کے بنیادی مقاصد میں سے بھی ایک مقصد انسانی جان کی حفاظت کرنا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شریعت کا بنیادی مقصد انسانوں سے ہر نقصان کو ختم کرنا اور آسانیاں مہیا کرنا ہے ، چنانچہ اس ضمن میں شریعت نے وہ چیزیں جو عمومی حالات میں حرام ہیں لیکن مخصوص حالات کے اندر اگر امراض کے علاج کے لیے ان حرام کے ارتکاب کو کیے بغیر ان امراض کا علاج نا ممکن ہو تو بقدر ضرورت ان حرام کاموں کا ارتکاب کیا جا سکتا ہے اور جیسے ہی ضرورت مکمل ہو جائے گی ان کاموں کی حرمت والس لوٹ آئے گی، چنانچہ عمومی حالات میں ستر ننگا کرنا، نشہ آور چیز کھانا، ہاتھ کی انگلی کاٹنا، اپنے جسمانی اعضامیں تصرف کرنا ، یہ سب کام جائز نہیں ہیں، لیکن ضرورت و حاجت کے وقت مذکورہ بالا قواعد کی روشنی میں ان کاموں کو بقدر ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے اور نہین شریعت کا حسن ہے کہ یہ انسانی زندگی کے تمام پہلووں کو شامل ہے۔ بلکہ ضرورت سے کم تر چیز حاجت کو بھی کئی مرتبہ ضرورت کے قائم مقام کر کے حاجت کو استثنائی حالات کی مشروعیت کا سبب بنایا گیا ہے۔
This work is licensed under a Creative Commons Attribution 4.0 International License.
حوالہ جات
- ↑ References ۔ محمد بن أبي بكر بن عبد القادر الحنفي الرازي ،مختار الصحاح (الناشر: المكتبة العصرية ، بيروت ، الطبعة: الخامسة، 1999م) ، ج 1 ص 109؛ ابن منظور ،لسان العرب ، (الناشر : دار صادر – بيروت ، الطبعة الأولى)ج 1 ص 79۔ Al- Razi, Mukhtar al ṣeḥaḥ, (Beirut: al Maktabah al ‘ṣariyyah, 1999) 1:109 Ibn e Manzur, Lisan al ‘arab,1:79
- ↑ ۔احکام الادویہ فی الشریعۃ الاسلامیۃ ص 17Aḥkām al adwiyyah fi al shariyyat al islamiyah, 17
- ↑ ۔ أبو زكريا محيي الدين يحيى بن شرف النووي، المنهاج شرح صحيح مسلم بن الحجاج، (دار إحياء التراث العربي – بيروت، الطبعة: الثانية 1392ھ )، ج 14 ص 192Nawawi, Sharaḥ al Nawawi ‘ala ṣaḥyḥ muslim,14:192
- ↑ ۔ الہدایہ ج 4 ص 433 ؛ التمہید ج 5 ص 273 ؛ المجموع ج ص 98 ؛ الانصاف ج 2 ص 463 Al hidayah, 4:433 Al tamhyd, 5:273 Al majmoo‘ , 98 Al insaf, 2:463
- ↑ ۔ سورۃ نحل آیت 69 Surah naḥal, Verse No. 69
- ↑ ۔ القرطبي ،محمد بن أحمد بن أبي بكر، الجامع لاحکام القرآن ( دار الكتب المصرية – القاهرة، الطبعة: الثانية، 1964 م )سورۃ النحل ،آیت 69، ج 10 ص 138 Al jame‘ li aḥkām al Qurʼān, 10:138
- ↑ ۔ سنن ابو داود ، کتاب الطب ، باب فی الرجل یتداوی ، رقم 3855 ؛ سنن ترمذی ، کتاب الطب ، باب ما جا فی الدوا والحث علیہ ، رقم 2038۔ Sunan Abu dawood, kitab al ṭib, No.:3855 Sunan Tirmizy, kitab al ṭib, No.: 2038
- ↑ - صحیح مسلم کتاب الآداب ، باب استحباب الرقية من العين والنملة والحمة والنظرة حدیث 2195 Ṣaḥyḥ Muslim, kitab al ādab, No.:2195
- ↑ - صحیح بخاری کتاب الطب، باب الحبة السوداء، حدیث 5688 Ṣaḥiḥ Bukhari, kitab al ṭib, No.:5688
- ↑ - دیکھئے : جلال الدین سیوطی ،الاشباہ والنظائر (دار الکتب العلمیہ : بیروت،1411)،ص 26 Suyooti, al ashbaḥ wa al naẓaer, 26
- ↑ - دیکھئے : ڈاکٹر یعقوب باحسین ، القواعد الفقہیہ (مکتبۃ الرشید ،الریاض ، طبع اول ، 1418ھ،)، ص 235؛ ڈاکٹر محمد وائلی ، القواعد الفقہیہ تاریخہا و اثرہا (مطبعۃ الرحاب ، مدینۃ منورۃ،طبع اول 1407 ھ )، ص 21
- ↑ - شہاب الدین قرافی ، الفروق (تصویر عالم الکتب ، بیروت) 1/3
- ↑ - ان کتب کے نام بطور مثال دئے ہیں ، بطور حصر نہیں، ورنہ ایک لمبی لسٹ ہے جو کہ اسی علم میں لکھی جانے والی کتب پر مشتمل ہے۔اور چونکہ قواعد فقہیہ کی کتب کا تعارف کروانا مقصود نہیں اس لیے صرف ان کتب کا نام پیش کیا گیا یے۔
- ↑ - محمد بن أحمد بن الأزهري الهروي، أبو منصور ، تهذيب اللغة ( دار إحياء التراث العربي – بيروت ، الطبعة: الأولى، 2001م) 11/315
- ↑ - علي بن محمد بن علي الزين الشريف الجرجاني ،كتاب التعريفات( دار الكتب العلمية بيروت –لبنان ،الطبعة: الأولى 1983م)، 1/138
- ↑ - الأحمد بن علي أبو بكر الرازي الجصاص الحنفي، أحكام القرآن (دار إحياء التراث العربي – بيروت ،تاريخ الطبع: 1405ھ)، 1/160
- ↑ - محمد بن أحمد بن عرفة الدسوقي المالكي (المتوفى: 1230هـ)،حاشية الدسوقي على الشرح الكبير( دار الفكر)، 2/115
- ↑ - مولونا مفتی محمد تقی عثمانی، اصول الافتاء وآدابہ (مکتبہ معارف القرآن، کراچی، 2011) ص 268 - 269
- ↑ - سورۃ البقرۃ آیت نمبر 179 ۔ اسی طرح دوسری تمام آیات جو اسی معنی میں آئی ہیں وہ بھی ضرورت کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ مثلا: سورہ النحل آیت نمبر 115؛ سورۃ الانعام آیت نمبر 145 اور 119
- ↑ - ایضا
- ↑ - ایضا ص 269 - 272
- ↑ - دیکھئے : جلال الدین سیوطی ،الاشباہ والنظائر، (دار الکتب العلمیۃ ،1403)،ج1،ص 84 Syuooṭy Jalal al din, al ashbaḥ wa al naẓāer, 1:84
- ↑ - دیکھئے : سیوطی ، الاشباہ والنظائر ج 1، ص 83 – 84 ؛ ابن نجیم ، الاشباہ والنظائز ص 105؛ اور معاصرین میں سے دیکھئے : ڈاکٹر علی ندوی، القواعد الفقہیہ (دار القلم، 1414)ص 171، 205؛ ڈاکٹر عبد اللہ عجلان ، القواعد الکبری ص 83 ؛ ڈاکٹر روکی ، قواعد الفقہ الاسلامی، (دار القلم، 1419)،ص 160 Suyooti, al ashbaḥ wa al naẓaer, 83-84 Ibn e Nujyaim, al ashbaḥ wa al naẓaer, 105. & Dr. Ali Nadwi, al qawa‘id al fiqhiyyah, 171, 205 Dr Abdullah ‘ajlan, al qawa‘id al kubraʼ, 83. & Dr Rooki, qawa‘id al fiqah al islami,160
- ↑ - ڈاکٹر محمد صدقی ، الوجیز فی ایضاح القواعد الفقہ الکلیہ (موسسۃ الرسالہ: بیروت، 1416)،ص 251 Al wajyz fi eyḍaḥ al qawa‘id al fiqah al kulliyyah, 251
- ↑ - ایضا، ص 257 Ibid., 257
- ↑ - سورۃ بقرہ آیت نمبر 231 Surah baqarah, Verse No. 231
- ↑ - دیکھئے: قرطبی ، الجامع لاحکام القرآن 3/156 Qurtabi, aljame‘ le aḥkām al Qurʼān, 3:156
- ↑ - سورۃ بقرہ آیت نمبر 233 Surah baqarah, Verse No. 233
- ↑ - الجامع لاحکام القرآن 3/167 Aljame‘ le aḥkām al Qurʼān, 3:167
- ↑ - سورۃ بقرہ آیت نمبر 282 Surah baqarah, Verse No. 282
- ↑ - الجامع لاحکام القرآن 3/167 Aljame‘ le aḥkām al Qurʼān, 3:167
- ↑ - سنن ابن ماجہ کتاب الاحکام باب من بنى في حقه ما يضر بجاره حدیث 2340۔ یہ حدیث بہت زیادہ طرق سے وارد ہوئی ہے، اگرچہ تمام طرق ضعیف ہیں مگر تمام اسناد کو ملانے سے حدیث کو تقویت مل جاتی ہے اور صحیح کے درجے پر پہنچ جاتی ہے۔ Sunan Ibn e Majah, kitab al aḥkām, No.:2340
- ↑ - یہاں یہ بات یاد رہے کہ یہ ضوابط یہاں بہت اختصار کے ساتھ بیان کر رہا ہوں ، ورنہ ان میں بھی تفصیل ہے جو کہ اس جیسی بحث کے داےرہ کار سے باہر ہے۔ اور ان کو متعلقہ فقہی کتب میں دیکھا جا سکتا ہے۔
- ↑ - دیکھئے : ڈاکٹر محمد عثمان شبیر ، دراسات فقہیہ فی قضایا طبیۃ ضوابط التداوی بالرقی والتمائم فی الفقہ الاسلامی ص 496-506Dr Muḥammad Usman Shabir, Dirasat fiqhiyyah fi Qaḍaya ṭibbiyyah, 496-506
- ↑ - ایضا 507 – 516Ibid., 507-516
- ↑ - ایضا 517 – 520Ibid., 517-520
- ↑ - دیکھئے : ڈاکٹر محمد شنقیطی ، احکام الجراحۃ الطبیۃ ، (مکتبۃ الصحابہ : شارجہ، 1415 ),ص 104 ؛ ڈاکٹر صالح فوزان ، الجراحۃ التجمیلیۃ ، (دار التدمیریہ : ریاض، 1429)،ص 94 Dr Muḥammad Shanqyṭi, aḥkām al jiraḥa al ṭibbiyyah,104 Dr ṣaliḥ fozan, al jiraḥa al tajmiliyyah, 94
- ↑ - الجراحۃ التجمیلیۃ ص 447 – 448؛ یہاں یہ بات یاد رہے کہ فقہا نے زائد انگلی کو کاٹنے اور نہ کاٹنے کے بارے میں اختلاف کیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کیا اس کے جنایۃ کاٹنے کاٹنے والے پر دیت ہو گی یو نہیں؟ چونکہ بحث کا مقصد اس وقت ایسی صورت میں دیت کے احکام بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ قاعدے کی تطبیق بیان کرن مقصد ہے اس لیے اس تفصیل سے اجتناب کیا گیا ہے۔ Al jiraḥa al tajmiliyyah, 447-448
- ↑ - الجراحۃ التجمیلیۃ ص 233 – 234Al jiraḥa al tajmiliyyah, 234-233
- ↑ - الجراحۃ التجمیلیۃ ص 183 ؛ ڈاکٹر ازدہار مدنی ، احکام تجمیل النسا فی الشریعہ الاسلامیہ ص 372 Al jiraḥa al tajmiliyyah, 183 Dr Izdhaār madani, aḥkām tajmyel al nisa fi al shariya al islamiyyah, 372
- ↑ - دیکھیے: مجلۃ الاحکام العدلیہ ص 90 قاعدہ نمبر 31؛ شرح القواعد الفقہیہ للزرقا،(دار القلم : دمشق، 1409)، ص 207 ؛ الوجیز فی القواعد الکلیہ ص 256 Majallat al aḥkām al ‘adaliyyah
- ↑ - دیکھیے : ڈاکٹر محمد زحیلی ، القواعد الفقہیہ و تطبیقاتہا، (دار الفکر : دمشق،1428)، ص 1/208 ؛ الوجیز ص 256 Dr Muḥammad Zuḥaili, al qawa‘id al fiqhiyyah wa taṭbyqatuha, 1:208. & Al wajyz, 256
- ↑ - سورہ انفال آیت 60 Surah anfal, Verse No. 60
- ↑ - الوجیز ص 256 Al wajyz, 256
- ↑ - سورۃ نسا آیت 34 Surah nisa, Verse No. 34
- ↑ - صحیح مسلم ، کتاب الایمان ، باب بيان كون النهي عن المنكر من الإيمان، وأن الإيمان يزيد وينقص حدیث 49؛ سنن ابن ماجہ کتاب الفتن ، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر حدیث 4013 Ṣaḥyḥ muslim, kitab al ʼiman, No.: 49 Sunan Ibn e Majah, Kitab al fitan, No.: 4013
- ↑ - دیکھے : ڈاکٹر قرہ علی داغی اور ڈاکٹر علی محمدی ، فقہ القضایا الطبیہ المعاصرہ ، (دار البشائر : بیروت، 1427 )،ص 173 Dr Qurrah ‘aly, Dr ‘aly Muḥammady, fiqhu al qaḍaya al ṭibbiyyah al mu‘aṣarah, 173
- ↑ - الجراحہ التجمیلیہ ص 114 Al jiraḥa al tajmiliyyah, 114
- ↑ -ٍ صحیح بخاری ، کتاب الطب باب لا صفر، وهو داء يأخذ البطن حدیث 5717؛ صحیح مسلم کتاب الآداب باب لا عدوى، ولا طيرة، ولا هامة، ولا صفر، حدیث 2220 Ṣaḥiḥ Bukhari, Kitab al ṭib, No.: 5717 Ṣaḥyḥ Muslim, Kitab al ʼādab, No.:2220
- ↑ - امام نووی ؒ نے بھی اس کی یہی توجیہ بیان کی ہے۔ دیکھیے: امام نوننی ، شرح صحیح مسلم 213 -214 Nawawi, sharaḥ ṣaḥyḥ muslim, 213-214
- ↑ - فقہ القضایا الطبیہ المعاصرہ ص 172 – 175 Fiqhu al qaḍaya al ṭibbiyyah al mu‘aṣarah, 172-175
- ↑ ۔ مسند احمد ، مسند ابو ہریرۃ ، حدیث 9722
- ↑ www.binbaz.org.sa/fatawa/237, Retrieved on : Aug 14, 2017
- ↑ - صحیح بخاری، کتاب الطب، باب ما يذكر في الطاعون حدیث 5729
- ↑ - ڈاکٹر علی محمدی ، بحوث فقہیہ فی مسائل طبیہ معاصرہ ص 177 Dr. ‘aly Muḥammady, Bohuth fiqhiyyah fi masael e ṭibbiyah mu‘aṣarah, 177
- ↑ - شرح القواعد الفقہیہ للزرقا، ص 207 ؛ الوجیز فی القواعد الکلیہ ص 256 Al Zarqā, Sharaḥ al qawa‘id al fiqhiyyah, 207 Al wajyz fi al qawa‘id al kulliyyah, 256 - دیکھیے : ڈاکٹر محمد زحیلی ، القواعد الفقہیہ و تطبیقاتہا ص 1/215 ؛ شرح القواعد الفقہیہ للزرقا،، ص 195 Dr. Muḥammad Zuḥaili, al qawa‘id al fiqhiyyah wa taṭbyqatuha, 1:215 Al Zarqā, Sharaḥ al qawa‘id al fiqhiyyah, 195
- ↑ - چنانچہ ایسا طریقہ علاج اختیار کرنا چاہیے جس میں نقصان بالکل نہ ہو یا پہلے سے کم نقصان ہو۔ احکام الجراحۃ الطبیہ ص 124 aḥkām al jiraḥa al ṭibbiyyah, 124
- ↑ - الجراحہ التجمیلیہ ص 115 Al jiraḥa al tajmiliyyah, 115.
- ↑ - دیکھیے: زندہ یا مردہ انسان کے اعضا سے فائدہ حاصل کرنے کے بارے میں مجمع فقہ اسلامہ کا فیصلہ نمبر 26 جو مجلہ فقہ اسلامی ، شمارہ نمبر 4 ، 1/89 میں شائع ہوا ہے۔ Journal Fiqh islami, Issue No.:4, 1:89
- ↑ - الجراحہ التجمیلیہ ص 389 – 390 Al jiraḥa al tajmiliyyah, 1389-390
- ↑ - ایضا ص 12 ، 212 ، 213 Ibid., 12,212,213
- ↑ - دیکھیے: مجلۃ الاحکام العدلیہ ص 90 قاعدہ نمبر 27؛ شرح القواعد الفقہیہ للزرقا،ص 199 Majallah al aḥkām al ‘adliyyah, 90, Rule No.:27 Al Zarqā, Sharaḥ al qawa‘id al fiqhiyyah, 199
- ↑ - ڈاکٹر علی ندوی ،القواعد الفقہیہ 1/219 Al qawa‘id al fiqhiyyah, 1:219
- ↑ - سورہ بقرہ آیت 191 Surah al baqarah, Verse No. 191
- ↑ - سورہ بقرہ آیت 217 Ibid., Verse No. 217
- ↑ - صحیح مسلم کتاب الطہارہ باب وجوب غسل البول وغيره من النجاسات إذا حصلت في المسجد حدیث 285 Ṣaḥyḥ Muslim, Kitab al Ṭaharah, No.:285
- ↑ - الممتع فی القواعد الفقہیہ ص 247 Al mumte‘ fi al qawa‘id al fiqhiyyah, 247
- ↑ - اشباہ و النظائز ، ابن نجیم ص 88 ؛ شرح القواعد الفقہیہ للزرقا،، ص 202 Ibn e Nujaim,Ashbāh wa al naẓaʼer, 88 Al Zarqā, Sharaḥ al qawa‘id al fiqhiyyah, 202
- ↑ - دیکھیے : مجلہ مجمع فقہ اسلامی ، شمارہ نمبر 4 ، 1/180 Majallah majma‘ fiqh islami, Issue No.:4, 1:180
- ↑ - دیکھیے : الوجیز ص 235 ؛ الممتع ص 192 Al wajyz, 235 Al mumte‘ fi al qawa‘id al fiqhiyyah, 192
- ↑ - سورہ انعام آیت 119 Surah an‘am, Verse No. 119
- ↑ - سورہ بقرہ آیت 173 Surah Baqarah, Verse No. 173
- ↑ - سورہ مائدہ آیت 03 Surah Maʼedah, Verse No. 03
- ↑ - سورہ انعام آیت 145 Surah an‘am, Verse No. 145
- ↑ - نشہ آور ادویہ استعمال کرنے کے حکم کے بارے میں فقہا کے ما بین اختلاد پا یا جاتا ہے ، یہاں وہ اختلا بیان کر نا مقصد نہیں ہے ، البتہ جن کے ہاں استعمال کیا جا سکتا ہے وہ اسی قاعدے کے تحت اس کا جواز پیش کرتے ہیں۔
- ↑ - احکام الجراحہ الطبیہ ص 282، 284 Aḥkām al jiraḥa al ṭibbiyyah, 282-284
- ↑ - یہ فیصلہ رایاض میں ہونے والی کانفرنس کئے بعد کیا گیا جو کہ 9/6/1407 میں ہوئی تھی۔
- ↑ - آٹھویں طبی علوم پر کانفرنس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ خنزیر کے مادوں سے تیار شدہ انسولین شرعی ضوابط کے ساتھ استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ کانفرنس 22-23/05-1995 میں ہوئی۔ مزید دیکھیے : فقہ القضآیا الطبیہ المعاصرہ ص 250 Fiqh al Qaḍāya al ṭibbiyah al mu‘aṣarah, 250
- ↑ - فقہ القضآیا اپطبیہ المعاصرہ ص 250 Fiqh al Qaḍāya al ṭibbiyah al mu‘aṣarah, 250
- ↑ - دیکھئے: احکام الجراحہ الطبیہ ص 223 -224 aḥkām al jiraḥa al ṭibbiyyah, 223-224
- ↑ - دیکھئے : الاشباہ والنظائر ، سیوطی ص 84 ؛ ابن نجیم ، اشباہ والنظائر ، ص 86 ؛ الوجیز ص 239 Suyooti, Al Ashbāh wa al naẓaʼer, 84. & Ibn e Nujaim, Ashbāh wa al naẓaʼer, 86 Al wajyz, 239
- ↑ - درر الحکام شرح مجلۃ الحکام 1/38 Durar al ḥukkam sharaḥ majallat al ḥukkam, 1:38
- ↑ -دیکھئے : شرح القواعد الفقہیہ للزرقا، ص 187 Al Zarqā, Sharaḥ al qawa‘id al fiqhiyyah, 187
- ↑ - سورہ بقرہ آیت 173 Surah Baqarah, Verse No. 173
- ↑ - سورہ انعام آیت 145 Surah an‘am, Verse No. 145
- ↑ - دیکھئے : الممتع فی القواعد الفقہیہ ص 196 Al mumte‘ fi al qawa‘id al fiqhiyyah, 196
- ↑ - دیکھئے : الفتاوی المتعلقہ بالطب واحکام المرضی 1/247Al fatawa al muta‘alliqah be ṭibbe wa aḥkām al marḍa, 1:247
- ↑ - دیکھئے : ڈاکٹر مساعد بن قاسم الفالح ، احکام العورۃ والنظر ،ص 344 - 348 Dr. Musa‘ed bin Qasim alfaliḥ , aḥkām al ‘orat wa al naẓar, 344-348
- ↑ - دیکھئے : الموسوعۃ الطبیۃ الحدیثۃ 6/1163Al mouso‘a al ṭibbiyyah al ḥadithiyyah, 6:1163
- ↑ - دیکھئے: الاشباہ والنظائر ، سیوطی ص 88 ؛ ابن نجیم ، اشباہ والنظائر ، ص 91 ؛ الوجیز ص 242 Suyooti, Al Ashbāh wa al naẓaʼer, 88. & Ibn e Nujaim,Ashbāh wa al naẓaʼer, 91. Al wajyz, 242
- ↑ - دیکھئے : الممتع ص 203 الوجیز ص 242 Al mumte‘ fi al qawa‘id al fiqhiyyah, 203
- ↑ - سورہ مائدہ آیت 06 Surah Maʼedah, Verse No. 06
- ↑ - احکام القرآن ، جصاص 2/396 Jaṣṣaṣ , Aḥkām al Qurʼān,
- ↑ - سورہ حج آیت 78 Surah Ḥajj, Verse No. 78
- ↑ - صحیح بخاری کتاب اللباس باب ما يرخص للرجال من الحرير للحكہ حدیث 5839 Ṣaḥiḥ Bukhari, Kitab al libas, No.: 5839
- ↑ - صحیح بخاری کتاب فرض الخمس باب ما ذكر من درع النبي صلى الله عليه وسلم، وعصاه، وسيفه وقدحه، وخاتمه حدیث 3109 Ṣaḥiḥ Bukhari, Kitab Farḍ al khumus, No.: 3109
- ↑ - دیکھئے : الفتاوی المتعلقہ بالطب واحکام المرضی ص 336 – 337 Al fatawa al muta‘alliqah be al ṭibbe wa aḥkām al marḍa, 336-337
- ↑ - دیکھئے : قرارات المجمع الفقہ الاسلامی ص 155 – 156 Qararat majma al ‘ fiqh al islami, 155-156
- ↑ - دیکھئے : احکام الجراحۃ الطبیۃ ص 140 Aḥkām al jiraḥa al ṭibbiyyah, 140
- ↑ - دیکھئے : ڈاکٹر محمد علی البار ، التلقیح الصناعی واطفال الانابیب ، یہ بحث مجلہ مجمع فقہ اسلامی میں شائع ہو چکی ہے۔ اس کے دوسرے اجلاس کے دوسرے دورے میں پہلی جلد کے صفحہ 269 پر دیکھا جا سکتا ہے۔ Majallah majma‘ fiqh islami, 1:269
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |