1
2
2016
1682060030498_981
75-91
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/download/140/68
https://jirs.uoh.edu.pk/index.php/JIRS/article/view/140
Sūrah Al Fātiḥa Qur‘an Umm Al Kitāb Worship Sūrah al Fātiḥa Qur‘ān Umm al Kitāb worship
سورت الفاتحہ کا مختصر تعارف
نام: اس سورت کے کئی ناموں میں سے چند ایک یہ ہیں:
الفاتحة، أم القرآن، السبع المثاني، القرآن العظیم، الشفاء، الرقية، الشافية، الکافية، سورة الصلوة، سورة الکنز، سورة الحمد والشکر والدعاء وغیره۔([1])
زمانہ نزول
اس سورت کی اہمیت کا اندازا اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ یہ دو مرتبہ نازل ہوئی ہے اوّلاً مکہ میں ، ثانیاً مدینہ میں۔([2])
قرآن وسنت میں فضیلت واہمیت
سورت الفاتحہ کی فضیلت کو خود اللہ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ۔([3])
"ہم نے تم کو سات ایسی آیتیں دے رکھی ہیں جو بار بار دہرائی جانے کے لائق ہیں اور تمہیں قرآن عظیم عطا کیا ہے "۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا:قسم ہےاس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہےکہ سورت فاتحہ کی نظیرنہ تورات میں نازل ہوئی نہ انجیل اور زبورمیں اورنہ خودقرآن کریم میں کوئی دوسری سورت اس کی مثل ہے۔ ([4]) یہ سورت امت ِ محمدیہ کی خصوصیت ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسt کے ایک اثر میں بیان ہوا ہے۔ آپt سے سَبْعُ الْمَثَانِي کےبارے میں پوچھا گیا تو آپ tنے فرمایا کہ اس سے مراد فاتحۃ الکتاب یعنی سورت ِ فاتحہ ہے جو آمت ِ محمدیہ کے لئے مستثنیٰ اور زخیرہ کرکے رکھا گیا ہے یہاں تک کہ قرآن مجید میں نازل فرمایا اور اس سے پہلے کسی کو نہیں دیا گیا([5])۔
یہ سورت اتنی اہمیت کےحامل ہےکہ اس کےبغیر نمازقبول ہی نہیں ہے۔([6])
فاتحہ اور قرآن کا تعلق
سورت فاتحہ قرآن کے ساتھ دباچے کی حیثیت رکھتاہے ۔دراصل یہ سورۃ ایک دعا ہےجوخدانےہرانسان کو سکھائی ہےجو اس کی کتاب کامطالعہ کر رہا ہو۔کتاب کی ابتدا میں اس کو رکھنے کا مطلب یہ ہےکہ اگرتم واقعی اس کتاب سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو پہلے خداوندِ عالم سےیہ دعاکرو ۔([7])
قرآن مجید کی آیت سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ سے قرآن اور فاتحہ کے آپس میں گہرے تعلق کا اندازا لگایا جا سکتا ہے۔ اس تعلق کے بارے میں سید مودودی hلکھتے ہیں کہ : "سورتِ فاتحہ ایک دعاء ہے جو بندے کے جانب سے اور قرآن اس کا جواب ہے خدا کی جانب سے۔بندہ دعاء کرتا ہے کہ اے پروردگار ! میری رہنمائی کر۔ جواب میں پروردگار پورا قرآن اس کے سامنے رکھ دیتاہے کہ یہ ہے وہ ہدایت وراہنمائی جس کی درخواست تو نے مجھ سے کی ہے" ۔([8])
حقیقت یہ ہے کہ سورت فاتحہ مختصر لیکن حقائق اور معانی سے لبریز ،دل نشین ودل آویز جلیل القدر سورت ہے جس سے اس مقدس آسمانی کتاب کا آغاز ہوتا ہے جس نے تاریخِ انسانی کا رخ مور دیا ۔ جس نے فکر ونظر میں انقلاب پیدا کردیا اور روح کو نئی زندگی بخش دی۔([9])
إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين اورقرآن سے تعلق
آیت کا ترجمہ : " اے پروردگار ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی ہی سے مدد مانگتے ہیں" ۔
امام ابن کثیربحوالہ ابن عباس آیت کامفہوم یوں لکھتے ہیں:
"إِيَّاكَ نَعْبُدُ : اے ہمارے رب ہم خاص تیرے ہی توحید مانتے ہیں اور تجھ سے ہی ڈرتے ہیں اور تیرے ہی ذات سے امید رکھتے ہیں ۔تیرے سوا کسی کی نہ ہم عبادت کریں ،نہ ڈریں اور نہ امید رکھیں۔ اور إِيَّاكَ نَسْتَعِين سے مراد ہے کہ ہم تیرے تمام اطاعت اور اپنے تمام کاموں میں تجھ سے مدد مانگتے ہیں"۔([10])
امام رازی لکھتے ہیں:
عبادت سے مراد اللہ کی حکم کی تعظیم اوراس کی مخلوق پرشفقت ہے ،جس پر تمام شرائع متفق ہیں۔ اس تفسیر کے بنیاد پر آیت کا مطلب تمام احکام ِ شریعت کی اطاعت ہے۔([11])
عبادت واستعانت اور فاتحہ کا تعلق
امام ابن کثیر لکھتے ہیں: بعض سلف کا قول ہے کہ سارے قرآن کا راز فاتحہ میں ہے اور پوری سورت)فاتحہ( کا راز اس آیت إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينمينہے۔([12])
اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ آیت کے پہلے حصے میں شرک سے بیزاری کا اعلان ہے اور دوسرے حصے میں تمام قوتوں کا انکار ہے اور اپنی تمام کاموں کی سپردگی اللہ کی طرف ہے۔خود سپردگی کے مضمون پر بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں، مثلا ً:
۱۔وَلِلّٰهِ غَيْبُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاِلَيْهِ يُرْجَعُ الْاَمْرُ كُلُّه فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ([13])
آسمانوں اور زمین میں جو کچھ چھپا ہوا ہے سب اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے اور سارا معاملہ اسی کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔
پس اے نبی ﷺ، تو اسی کی بندگی کر اور اسی پر بھروسا رکھ ۔
۲۔رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ فَاتَّخِذْهُ وَكِيْلًا ([14])
وہی مشرق اور مغرب کا مالک (ہے اور) اسکے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بناؤ ۔
مفسر ابن ِعاشوراس سلسلے میں لکھتے ہیں: سورت ِ فاتحہ تین مقاصد پر مشتمل ہے:
۱۔ اللہ تعالی ٰ کی ثناء جو تمام صفات ِ کمال پر مشتمل اور تمام نقائص سےپاک ہے۔اللہ کے لئے الوہیت کی اثبات ،بعث اور جزا وسزا کا اثبات جو ۔ الْحَمْدُ لِلَّهِ سے مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ۔ میں پوشیدہ ہے۔
2۔ اوامر ونواہی جو إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين سے صراط المستقیم ۔میں پنہاں ہے ۔
3۔وعد ووعید جو صراط الذین سے آخر تک پر مشتمل ہے۔ قرآن کے یہ تین بڑے مقاصد ہیں، باقی تکمیلات میں سے ہیں۔
مزید لکھتے ہیں: إِيَّاكَ نَعْبُدُ سے مراد احکام ِ شریعت ہے اوروَإِيَّاكَ نَسْتَعِين مراد احکام ِ عمل [اخلاص فی العمل ]ہے۔ اللہ کی طرف جانے والا راستہ ظاہر ہوگا یا باطن۔ ظاہر سے مراد عمل ِ بدنی ہے اور باطن سے مراد قلبی عمل ہے۔پس ظاہری بدنی عمل شریعت ہے اور باطن سے مراد حقیقت ہے اور شریعت وحقیقت سے مراد اللہ کی عبودیت کاقیام حقیقت پر مطلوب ہے، جو لفظ إ ِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينمين جمع کیا گیا ہے([15]) ۔
آیت میں حکمت ِ تقدیم وتاخیر
چونکہ دعاء میں استحضار اور خطاب اولی ٰ ہے اس لئےاصل الفاظ میں نَعْبُدُكَ وَ نَسْتَعِيْنُكَ کی جگہ إِيَّاكَ کومقدم کر کےإِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين فرمایا،تاکہ حصر ،یقین دہانی اور تاکید پیدا کی جائے۔ اوراسی طرح عبادت کو استعانت پر مقدم کیا ہے، حالانکہ استعانت عبادت پر مقدم ہے۔ یہ ترتیب اس لئے اختیار کیا ہے کہ استعانت عبادت کا ثمر ہ ہے اور وسیلہ کی تقدیم حاجت کی طلب سے پہلے ہوتا ہے تاکہ جواب یقینی ہوجائے ۔([16])
یہ بات پوری سورت ِ الفاتحہ میں بطور ِ تعلیم سمجھائی ہے کہ پہلے اپنے معبود ِ حقیقی کی ثناء وتوصیف کرو اور اس کے بعد اپنی حاجت پیش کرو۔ اللہ کی ثناء اور حمد عبادت ہے اس کے بعدفرمایا کہ ہم بندگی ،پرستش اور اطاعت وغلامی تیرے ہی کریں گے جو آپ کے استعانت کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس لئے بندہ کہتا ہے : اور ہم تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
سورت ِ فاتحہ میں اللہ کی عبادت اور اس سے استعانت کی خصوصی طلب ہے۔
آئیے ! دیکھتے ہیں ان دو مطالب کو قرآن کیسے بیان کرتا ہے ؟
عبادت کا مفہوم
لغت میں عَبَدَ کے معنی: عاجزی،انکساری ،تذلل،ملکیت،اطاعت وفرمان برداری،بندگی کرنا،غلام بنا لینا وغیرہ کےہیں۔جیسا کہ ایک حدیث میں آپ ﷺنے فرمایا ہے:
"كُلُّنَا لَكَ عَبْدٌ "ای العبد المطيع الخاشع"([17])
ہم سب آپ کے فرمان بردار اور عاجز بندے ہیں۔
تحفہ الاریب میں عبد کےمعنی غلام کے یوں بیان کئے گئے ہیں:
عبد: {عبدت}: اتخذت عبيدا " أي: خاضعون أذلاء"([18])
اس نے غلام بنا لیا ، میں نے غلام بنالئے ہیں ۔یعنی عاجز اور فرمان بردار
اور ا حادیث مباركہ میں عبد بمعنی بندگی اور غلامی کو یوں بیان کیا گیا ہے:
۱۔ كلاأى حقا أنی عبد الله فلا أعلم الغيب إلا بالوحى فلا تطرونى وثقوا بماأقول فى جميع الأخبار ([19])
"حقیقت یہ ہے کہ میں اللہ کا بندہ ہوں، اور غیب نہیں جانتا مگر وحی کے ذریعے، پس مجھے بڑھا چڑھا کر پیش نہ کرو اور میرے ان تمام باتوں پر مضبوطی سے کاربند رہو جو میں کہتا ہوں"۔
۲۔ عَنْ جَدَّتِهِ أُمِّ الْحُصَيْنِ قَالَتْسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ يَقُولُ إِنْ أُمِّرَ عَلَيْكُمْ عَبْدٌ حَبَشِىٌّ مُجَدَّعٌ فَاسْمَعُوا لَهُ وَأَطِيعُوا مَا قَادَكُمْ بِكِتَابِ اللَّهِ.([20])
"ام ِّحصین روایت کرتی ہے:میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے فرما رہے تھے"اگر تمہارے اوپر کوئی ناک کٹاحبشی غلام امیر مقرر کیا جائے پھر بھی اس کی سنو اور اس کی اطاعت کرو جب تک وہ تم کو کتاب اللہ کے اوپر چلائیں۔ "
3 ۔عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ r لُعِنَ عَبْدُ الدِّينَارِ لُعِنَ عَبْدُ الدِّرْهَمِ.([21])
" حضرت ابو ھریرہ روایت کرتے ہیں: "رسول اللہ نے فرمایا: لعنت کی گئی ہے دینار اور درہم کے غلام پر ۔"
ملا علی قاری لکھتے ہیں:
۴- عَبْدُ الشَّهْوَةِ أَذَلُّ مِنْ عَبْدِ الرِّق۔ ([22])
" شہوات کی غلامی جسمانی غلامی کے مقابلے میں ذلیل تر ہے "
5۔أن النبى أتى بهدية، قال: فنظر فلم يجد شيئا يضعها فيه، فقال: "ضعه بالحضيض، فإنما هو عبد يأكل كما يأكل العبد، ويشرب كما يشرب العبد".([23])
" آپ ﷺ کو ایک ہدیہ دیا گیا، راوی کہتاہے آپ ﷺ نےدیکھا لیکن کوئی چیز رکھنے کے لئے نہ ملی، تو فرمایا: اسے زمین پر رکھ دیں، پس میں ایک غلام ہوں ایسا کھاتا ہوں جیسے ایک غلام کھاتا ہے اور ایسے پیتا ہوں جیسے ایک غلام پیتا ہے "
سید مودودی لکھتے ہیں: عبادت کا لفظ عربی زبان میں تین معنو ں میں استعمال ہوتا ہے:
۱۔پوجا اور پرستش ۲۔ اطاعت اور فرمانبرداری۳۔ بندگی اور غلامی ۔
یہاں پر تینوں معنی بیک وقت مراد ہیں۔یعنی ہم تیرے پرستار بھی ہیں،مطیع فرمان بھی اور بندہ وغلام بھی ۔ ان تینوں معنوں میں سے کسی معنی میں بھی کوئی دوسرا ہمارا معبود نہیں ہے۔([24])
المعجم الوسیط لکھتا ہے:(الْعِبَادَة) الخضوع للإله على وَجه التَّعْظِيم والشعائر الدِّينِيَّة۔([25])
ترجمہ: عبادت کا معنی ہے: اللہ کی عظمت کی وجہ سے اطاعت اور دینی شعائر کی اتباع اختیار کرنا ۔
امام جرجانی رقمطراز ہے: خواہشات نفس کے الرغم مکلف کا فعل اپنے رب کی تعظیم کے لئے عبادت ہے۔([26])
عبادت کا وسیع مفہوم:
مذکورہ لغوی معنی کے بنیاد پر لفظ ِ عبادت تین مفاہیم پر مشتمل ہے: پرستش، غلامی اوراطاعت۔
اس سلسلے میں سید مودودی رقمطراز: خدا کے واحد پروردگار ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا شکر گزار ہو، اسی سے دعائیں مانگیں اور اسی کے آگے محبت وعقیدت سے سر جھکائے ۔یہ عبادت کا پہلا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد مالک و آقا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اسی کا بندہ وغلام بن کر رہے، اس کے مقابلہ میں خود مختارانہ رویّہ نہ اختیار کرے اور اس کے سوا کسی اور کی ذہنی یا عملی غلامی قبول نہ کرے۔ یہ عبادت کا دوسرا مفہوم ہے۔
خدا کے واحد پر مان روا ہونے سے لازم آتا ہے کہ انسان اس کےحکم کی اطاعت اور اس کے قانون کی پیروی کرے ،نہ خود اپنا حکمراں بنے اور نہ اس کے سوا کسی دوسرے کی حاکمیت تسلیم کرے۔ یہ عبادت کا تیسرا مفہوم ہے۔([27])
مذکورہ تینوں مفاہیم کے اعتبار سے بعض قرآنی آیات
عبادت بمعنی پوجا اور پرستش
پوجا اور پرستش کے لائق صرف اور صرف ایک ہی ذات اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے ۔ اس کے سوا کوئی اور اس کے لائق نہیں ہے ۔تمام انبیائے کرام نے اس کی طرف دعوت دی ہے اور قرآن مجید ان کے تعلیمات کا مہیمن ہے ۔قرآن مجیدکے کئی ایک آیات میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے ۔مثلا ً ارشاد باری تعالی ٰ ہے :
۱۔وَاِذْ اَخَذْنَا مِيْثَاقَ بَنِىْٓ اِسْرَآءِيْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ ([28])
اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے و عدہ لیا کہ تم اللہ کے سوا دوسرے کی عبادت نہ کرنا ۔
۲۔قُلْ اَتَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا ([29])
اِن سے کہو ، کیا تم اللہ کو چھوڑ کر اس کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہارے لیے نقصان کا اختیار رکھتا ہے نہ نفع کا؟
عبادت بمعنی اطاعت اور فرمانبرداری
اطاعت کے لائق ایک ہی ذات اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے ۔ جس نے اپنی اطاعت کے ساتھ اپنے رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور تمام انبیائے کرام نے یہی بات اپنی امتوں کو سمجھائی ہے ۔اس کے سوا کوئی اور اس قسم کے اطاعت کے لائق نہیں ہے ۔قرآن مجیدکے کئی ایک آیات میں یہ مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ٰ ہے :
اِنْ يَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِه اِلَّآ اِنَاثًا وَاِنْ يَّدْعُوْنَ اِلَّا شَيْطٰنًا مَّرِيْدًا ([30])
وہ اللہ کو چھوڑ کر دیویوں کو معبود بناتے ہیں ۔ وہ اس باغی شیطان کو معبود بناتے ہیں﴿وہ اس شیطان کی اطاعت کر رہے ہیں﴾
فَقَالُوْٓا اَنُؤْمِنُ لِبَشَرَيْنِ مِثْلِنَا وَقَوْمُهُمَا لَنَا عٰبِدُوْنَ ([31])
سو بولے کیا ہم مانیں گے اپنے برابر کے دو آدمیوں کو اور ان کی قوم ہمارے تابعدار ہیں۔
يٰٓاَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطٰنَ اِنَّ الشَّيْطٰنَ كَانَ لِلرَّحْمٰنِ عَصِيًّا ([32])
ابا جان، آپ شیطان کی بندگی) اطاعت( نہ کریں، شیطان تو رحمان کا نافرمان ہے۔
یعنی شیطان کی اطاعت کرنا دراصل اس کی عبادت کرنا ہے ،ور نہ معروف معنوں میں تو شیطان کی کوئی بھی عبادت نہیں کرتا، چونکہ اطاعت وہ شیطان کی کر رہے تھے۔ اس لئے حضرت ابراہیم نے ان کی اس اطاعت شیطان کو عبادت شیطان قرار دیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ عبادت محض پوجا اور پرستش ہی کا نام نہیں بلکہ اطاعت کا نام بھی ہے۔([33])
اَلَمْ اَعْهَدْ اِلَيْكُمْ يابَنِيْٓ آدَمَ اَنْ لَّا تَعْبُدُوا الشَّيْطٰنَ ۚ اِنَّه لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ([34])
آدم کے بچو، کیا میں نے تم کو ہدایت نہ کی تھی کہ شیطان کی بندگی نہ کرو، وہ تمہارا کھلا دشمن ہے ۔
مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں:کسی کی اطاعت مطلقہ کرنا کہ ہر کام ہر حال میں اس کا کہنا مانے اسی کا نام عبادت ہے چونکہ ان لوگوں نے ہمیشہ شیطانی تعلیم ہی کی پیروی کی، اس لئے ان کو عابد شیطان کہا گیا۔ جیسا کہ حدیث میں اس شخص کو جو مال یا بیوی کی محبت میں آ کر ہر وہ کام کرنے لگے جس سے مال بڑھے یا بیوی راضی ہو اگرچہ خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہو ایسے شخص کو حدیث میں عبدالدرہم اور عبدالزوجہ کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔([35])
عبادت بمعنی بندگی اور غلامی
کسی کی عبادت دراصل اس کی اطاعت کرنا ہے اور قرآن مجید میں اللہ نے بار بار اپنی مکمل غلامی اوربندگی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے ۔مثلاً ارشاد ِ باری تعالی ٰہے :
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّكُمُ الَّذِىْ خَلَقَكُمْ وَالَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ ([36])
لوگو، بندگی اختیار کرو اپنے اس رب کی جو تمھارا اور تم سے پہلے لوگ جو ہو گزرے ہیں ان سب کا خالق ہے۔
وَّنَحْنُ لَه عٰبِدُوْنَ ([37])
اور ہم اسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں ۔
سید مودودی لکھتے ہیں: مسیحیّت کے ظہُور سے پہلے یہُودیوں کے ہاں یہ رسم تھی کہ جو شخص اُن کے مذہب میں داخل ہوتا، اسے غُسل دیتے تھے اور اس غُسل کے معنی ان کے ہاں یہ تھے کہ گویا اس کے گناہ دُھل گئے اور اس نے زندگی کا ایک نیا رنگ اختیار کر لیا۔ یہی چیز بعد میں مسیحیوں نے اختیار کر لی۔ اس کا اصطلاحی نام ان کے ہاں اِسطباغ (بپتسمہ) ہے اور یہ اصطباغ نہ صرف اُن لوگوں کو دیا جاتا ہے جو اُن کے مذہب میں داخل ہوتے ہیں، بلکہ بچّوں کو بھی دیا جاتا ہے۔ اسی کے متعلق قرآن کہتا ہے ، اس رسمی اصطباغ میں کیا رکھا ہے؟ اللہ کا رنگ اختیار کرو، جو کسی پانی سے نہیں چڑھتا ، بلکہ اس کی بندگی کا طریقہ اختیار کرنے سے چڑھتا ہے([38])جو مومن کی زبانِ قال اور حال کی پکار ہے۔
اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰهَ ([39])
ہم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں ۔
ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ ۚ وَهُوَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ([40])
یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہذا تم اسی کی بندگی کرو ۔
اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰهَكَ وَاِلٰهَ اٰبَاىِٕكَ اِبْراهيم وَاِسْمٰعِيْلَ وَاِسْحٰقَ اِلٰــهًا وَّاحِدًا([41])
پھر کیا تم اس وقت موجو د تھے جب یعقوب علیہ السلام اس دنیا سے رخصت ہو رہے تھا؟ انہوں نے مرتے وقت اپنے بیٹوں سے پوچھا : بچو! میرے بعد تم کس کی بندگی کرو گے ؟ ان سب نے جواب دیا : ہم اسی ایک خدا کی بندگی کریں گے ، جسے آپ نے اور آپ کے بزرگوں ابراھیم ؑ، اسماعیل ؑ اور اسحاق ؑ نے خدا مانا ہے " ۔
عبادت اور شکر
اسی طرح کئی مقات پرقرآن مجید میں عبادت بمعنی شکر اور شکر بمعنی عادت بھی آیا ہے، گویا کہ شکر ایک قسم عبادت ِ الہی ہے ،تبھی تو اللہ تعالی ٰ نےشکر کو عبادت کے ساتھ بار بار ملایا ہے۔ مثلاً ارشاد ِ باری تعالی ٰ ہے:
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُلُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰكُمْ وَاشْكُرُوْا لِلّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ اِيَّاهُ تَعْبُدُوْنَ([42])
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ ہی کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں انہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَا يَمْلِكُوْنَ لَكُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰهِ الرِّزْقَ وَاعْبُدُوْهُ وَاشْكُرُوْا لَه ([43])
" درحقیقت اللہ کے سوا جن کی تم پرستش کرتے ہو وہ تمہیں کوئی رزق بھی دینے کا اختیار نہیں رکھتے۔ اللہ سے رزق مانگو اور اسی کی بندگی کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ ([44])
لوگوں کو چاہئے کہ (اس نعمت کے شکر میں) اس گھر کے مالک کی عبادت کریں ۔
ان جیسى قرآن مجیدکی کئی آیات میں یہ بات سمجھائی گئی ہے کہ اگر تم واقعی اللہ کا شکر کرنا چاہتے ہوتو اس کی مکمل اطاعت وبندگی اختیار کرو ۔
عبادت بمعنی ثلاثہ )پرستش، غلامی اوراطاعت (
اسی طرح قرآن جید کی کئی آیات میں بیک وقت عبادت کےمذکورہ تین معنیٰ مراد ہوتے ہیں، اس سلسلے میں درج ذیل جیسے آیات کا مطالعہ مفید ہوگا :
۱ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ ۚ لَآ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ ۚ خَالِقُ كُلِّ شَيْءٍ فَاعْبُدُوْهُ ۚ وَهُوَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ وَّكِيْلٌ([45])
یہ ہے اللہ تمہارا رب، کوئی خدا اس کے سوا نہیں ہے، ہر چیز کا خالق، لہذا تم اسی کی بندگی کرو اور وہ ہر چیز کا کفیل ہے۔
وَاِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰىِٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِيْسَ ۭ كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّه ([46])
یاد کرو، جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو انہوں نے سجدہ کیا مگر ابلیس نے نہ کیا۔ وہ جنوں میں سے تھا اس لیے اپنے رب کے حکم کی اطاعت سے نکل گیا۔
عبادت کےدرجات:
امام رازی عبادت کے تین درجات بیان کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔ ثواب کی امید اور عذاب کی خوف سے جو کمزور درجہ ہے۔
۲۔ اللہ کی عبادت کے ذریعے سے شرف حاصل کرنا جو پہلے درجے سے بہتر ہے۔
۳۔ اللہ کی عبادت اس لئے کی جائے کہ وہ خالق ہے اور عبادت کے مستحق ہے اور یہ اس کا بندہ اور غلام ہے۔یہ عبادت کا سب سے اعلی ٰ درجہ ہے۔([47])
مقامِ عَبْدِیَّتْ:
عبدیت بہت بلند مقام ہے یہی وجہ ہے اللہ نے اپنے حبیب ﷺ کو اس سے متصف کرکے فرمایا ہے:
سُبْحٰنَ الَّذِىْٓ اَسْرٰى بِعَبْدِه لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا([48])
پاک ہے وہ اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا ۔
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِىْٓ اَنْزَلَ عَلى عَبْدِهِ الْكِتٰبَ([49])
تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے سزاوار ہیں جس نے اپنے بندے پر یہ قرآن اتارا۔
احادیث میں بھی آپ ﷺ کے صفت ِعبدیت کا واضح تذکرہ یوں ملتا ہے:
۔عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال قال رسول الله r «من توضأ فأحسن الوضوء ثم قال أشهد أن لا إلهإلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله فتحت له ثمانية أبواب من الجنة يدخل من أيها شاء».([50])
" حضرت عمرسے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:جس نے اچھی طرح وضو کیاپھرکہاکہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کےبندے اور سول ہیں اس کے لئے جنت کے آٹھ دروازےکھول دیئے جائیں گے ہیں ،ان میں سےجس میں سے چاہے گا داخل ہوگا "۔
عن عبد الله قال علمنا رسول الله ﷺ« أن نقول إذا جلسنا فى الركعتين التحيات لله و الصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته سلام علينا وعلى عباد الله الصالحين أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله».([51])
" حضرت عبداللہ سے روایت ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے ہمیں دو رکعت کےبعد تشہدمیں بیٹھ کریہ سکھایا کہ ہم کہہ دیں :تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اور صلوٰۃ وسلام اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں اے اللہ کے رسولﷺ آپ پر ہوں اورسلامتی ہم پر اور اللہ کے تمام نیک بندوں پر ہوں۔اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اورمیں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد ﷺ اللہ کےبندے اور سول ہیں "۔
وفي صحيح البخارى عن عبدالله بن عمرو قال «قرأت فى التوراة صفة محمد محمد رسول الله عبدي ورسولي سميته المتوكل۔۔۔»([52])
اور صحیح بخاری میں عبداللہ بن عمر سے روایت ہےکہ میں نے تورات میں محمدالرسول اللہ ﷺکے صفت کو پڑھا ہے [اللہ نے فرمایا ہے کہ وہ]میرا بندہ اور رسول ہیں،جس کا نام میں نے متوکل [اللہ پر توکل کرنے والا]رکھا ہے ۔"۔
ان احادیث میں جس چیز کا واضح تذکرہ ہے وہ آپ ﷺ کی صفت ِ عبدیت اور توکل علی اللہ یعنی اللہ پر غیر متزلزل یقین واعتماد ہے۔مطلب یہ کہ آپ ﷺ نے اللہ تعالی ٰ کی بندگی وعبدیت کا حق ادا کردیا جس کا نتیجہ ہے کہ اللہ نے آپ ﷺ کو رسالت کے اعلی ٰ مرتبے پر فائز کرکے اپنى ملاقات کا شرف بخشنے کے لئے)واقعہ اسراء ومعراج میں (قریب [قاب قوسین سے بھی زیادہ قریب] بلایا۔
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰى ([53])
" پھر قریب ہوئے اور آگے بڑھےیہاں تک کہ دو کمانوں کے برابر یا اس سے بھی کچھ کم فاصلہ رہ گیا "۔
یہ وہ رتبہ اور مقام ہے جو محمد مصطفی ﷺ کے علاوہ کسی کو نہیں دیا گیا ، جہاں اللہ سے آپ ﷺ کےرازونیاز کے باتیں ہوئی ۔
عبدیت ایک اعلی ٰ صفت اور لقب ہے سب سے پہلے مستحق اگر اس کے ہیں تو وہ اللہ کےپیغمبر اور پرستادہ ہو سکتے ہیں۔ لہذا اللہ نے اس صفت سے تمام پیغمبروں کومتصف کیا ہے۔ اللہ نے فرمایا:
قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلى عِبَادِهِ الَّذِيْنَ اصْطَفٰى ([54])
تو کہہ دے کہ تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہے ۔
یعنی پیغمبر عبدیت کے اعلی ٰ اور چنیدہ مقام پر فائز ہیں ۔
اور اللہ تعالی ٰ نے اپنے نیک اور خاص مو من بندوں کواس صفت ِ عبدیت کو اختیار کرنے کی بنیاد پر جنت کی خوشخبری دی ہے فرمایا:
يُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰت ([55])
" اللہ اپنے بندوں کو خوشخبری دے دیتا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کیے"۔
لہذا اللہ کی بندگی وغلامی اور اطاعت کسی کو نصیب ہوجائے تو یہ ایک عظیم رتبہ ہے اور اسی پرقناعت اختیار کرنا بلند رتبے کی علامت ہے۔
استعانت ومدد:
یہ موضوع کا دوسرا نکتہ ہے ، جس کا لغوی معنی ہےکسی سے مدد طلب کرنا۔([56])
بندہ محض عبادت اللہ کے لئے خالص کرنے پر اکتفی نہیں کرتا بلکہ مزید یہ یقین دہانی بھی کرانا چاہتا ہے کہ خدا یا میں ہر معاملے میں مدد واستعانت تجھ ہی سے طلب کروں گا۔
پیر محمدکرم شاہ ازہری یہاں پر لکھتے ہیں: جیسے ہم عبادت صرف تیری ہی کرتے ہیں اسی طرح مدد بھی صرف تجھی سے طلب کرتے ہیں،تو ہی کار ساز حقیقی ہے تو ہی مالکِ حقیقی ہے۔ ہر کام میں ،ہر حاجت میں تیرے سامنے ہی دست ِ سوال دراز کرتے ہیں۔([57])
چونکہ تو ہی معبود حقیقی ہے، کائنات کی ساری نعمتیں ،ساری طاقتیں تیرے ہاتھ میں ہیں،لہذا تیری مد د ہی پر ہمارا اعتماد ہے۔ اسی بنا پر ہم اپنی یہ درخواست لے کر تیری خدمت میں حاضر ہو رہے ہیں۔([58])
ایک مسلمان عبادت اور استعانت کی جو بات کہہ رہا ہے اگر واقعی شعوری طور پر یہ سب کچھ کہہ رہا ہے تو یہ وہ مقام ہے کہ جس کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا :
«قَالَ اللهُ عَزَّ وَجَّلَ: قَسَمْتُ الصَّلاةَ بَيْنِى وَبَيْنَ عَبْدِى نِصْفَيْنِ، وَلِعَبْدِى مَا سَأَلَ وَإِذَا قَالَ: {إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ} قَالَ:هَذَا بَيْنِى وَبَيْنَ عَبْدِى، وَلِعَبْدِى ماَ سَأَلَ»۔([59])
اللہ تعالی ٰ فرماتے ہیں : میں نے نماز اپنے اور بندے کے درمیان تقسیم کردیا ہے۔ میرے بندے کے لئے وہ جو وہ چاہتا ہے ۔ جب وہ کہتا ہے[إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ] تو اللہ فرماتے ہیں یہ آیت میرے اورمیرے بندے کے درمیان مشترک ہے،اور میرے بندے نے جو مانگا ہےوہ اسے عطاء کیا جائے گا۔
اس عنوان سے متعلق چند آیات ۔
اللہ سے استعانت
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَةً ([60])
لوگو! اپنے رب سے عاجزی اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو۔
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِيْنَآ اَوْ أخْطَاْنَا ([61])
اے ہمارے رب اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا ۔
غیر اللہ سے استعانت کی حقیقت
قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ مِّنْ دُوْنِه فَلَا يَمْلِكُوْنَ كَشْفَ الضُّرِّ عَنْكُمْ وَلَا تَحْوِيْلًا ([62])
کہہ دیجئے کہ اللہ کے سوا جنہیں تم معبود سمجھ رہے ہو انھیں پکارو لیکن نہ تو وہ تم سے کسی تکلیف کو دور کر سکتے ہیں اور نہ بدل سکتے ہیں۔
اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ عِبَادٌ اَمْثَالُكُمْ فَادْعُوْهُمْ فَلْيَسْتَجِيْبُوْا لَكُمْ اِنْ صٰدِقِيْنَ ([63])
تم لوگ خدا کو چھوڑ کر جنہیں پکارتے ہو وہ تو محض بندے ہیں جیسے تم بندے ہو۔ ان سے دعائیں مانگ کر دیکھو، یہ تمہاری دعاؤں کا جواب دیں اگر ان کے بارے میں تمہارے خیالات صحیح ہیں ۔
غیر اللہ سے استعانت کا نتیجہ
۱اِنَّ الَّذِيْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ يَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَه وَاِنْ يَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَيْـــــًٔـالَّا يَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُ ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ([64])
جن معبودوں کو تم خدا کو چھوڑ کر پکارتے ہو وہ سب مل کر ایک مکھی بھی پیدا کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ بلکہ اگر مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے جائے تو وہ اسے چھڑا بھی نہیں سکتے۔ مدد چاہنے والے بھی کمزور اور جن سے مدد چاہی جاتی ہے وہ بھی کمزور۔
اِنَّ الَّذِيْنَ يَسْتَكْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِى ْ سَيَدْخُلُوْنَ جَهَنَّمَ دٰخِرِيْنَ([65])
جو لوگ گھمنڈ میں آ کر میری عبادت سے منہ موڑتے ہیں، ضرور وہ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ‘‘۔
لفظ استعانت کی جامعیت
مولانا امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں:
"ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں " کے الفاظ عام ہے، اس وجہ سے یہ طلب مدد خاص عبادت کے معاملے میں بھی ہوسکتی ہے اور زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی۔عبادت میں بندہ خدا کی مدد کا محتاجِ توفیق و رہنمائی اور ثبات واستقامت کے لئے ہوتا ہے کیونکہ عبادت بالخصوص جب کہ وہ زندگی کے ہر پہلو میں خدا کے اطاعت پر جب مشتمل ہو ایک بڑی آزمایش کی چیز ہے۔۔۔ یہاں حصر نے شرک کے تمام علائق کا ایک قلم خاتمہ کردیا کیونکہ اس اعتراف کے بعد بندے کے پاس کسی غیراللہ کو نہ کچھ دینے کو رہا اور نہ اس سے کچھ مانگنے کی گنجائش باقی رہی ۔([66])
چونکہ بعض مشرکین بتوں کی عبادت اصالۃ ً کیا کرتے تھے اور بعض ان کو معبود بناکر قرب کا ذریعہ بنا تے جیسا کہ قرآن بیان کرتا ہے: مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا لِيُقَرِّبُوْنَآ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰى۔([67])
" ہم تو ان کی عبادت صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ اللہ تک ہماری رسائی کرا دیں "۔
گویا وہ عبادت واستعانت کو جمع کرتے تھے لہذا اس طرز ِ عمل سے ایک مومن بریت کا اظہار کر تے ہوئے یقین دلاتا ہے کہ ہم ایسا نہیں کریں گے کہ عبادت واستعانت میں کسی اور کو شریک کریں ، بلکہ ہم ایک اللہ کی عبادت کریں گے اور اس سے ہی استعانت طلب کریں گے۔ یہ وہ مقام ہے جس کی طرف نبی کریم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عباس کی راہنمائی ان الفاظ میں فرمائی تھی:
«يَا غُلَامُ إِنّى أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ احْفَظْ اللَّهَ يَحْفَظْكَ احْفَظْ اللَّهَ تَجِدْهُ تُجَاهَكَ إِذَا سَأَلْتَ فَاسْأَلْ اللَّهَ وَإِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ بِاللَّهِ وَاعْلَمْ أَنَّ الْأُمَّةَ لَوْ اجْتَمَعَتْ عَلَى أَنْ يَنْفَعُوكَ بِشَيىءٍ لَمْ يَنْفَعُوكَ إِلَّا بِشَيىءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ لَكَ وَلَوْ اجْتَمَعُوا عَلَى أَنْ يَضُرُّوكَ بِشَيىءٍ لَمْ يَضُرُّوكَ إِلَّا بِشَيىءٍ قَدْ كَتَبَهُ اللَّهُ عَلَيْكَ»۔ ([68])
ترجمہ:اے لڑکے میں تجھے چند کلمات سیکھاتا ہوں: اللہ کے احکامات کوپیش ِ نظر رکھو ،اللہ آپ کی حفاظت کرے گااور تو اسے اپنے سامنے پائے گا۔اور جب تو کچھ مانگتا ہے تو اللہ سے مانگا کر،اور جب تو کوئی مدد طلب کرتا ہے تو اللہ سے مانگا کرو۔ یہ بات خوب سمجھ لو کہ اگر تما م لوگ جمع ہوجائے اور آپ کو کسی چیز کی نفع دینا چاہے تو نہیں دے سکتے اِلاَّ یہ کہ جو اللہ نے تیرے لئےلکھ لیا ہے۔ اسی طرح اگر وہ جمع ہوجائے اور آپ کو کوئی نقصان دینا چاہے تو نہیں دے سکتے اِلاَّ یہ کہ جو اللہ نے تیرے لئےلکھ لیا ہو۔
اسلام میں استعانت اور وسیلہ
اسلام میں نیک اعمال پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے اور یہ بات سجھائی گئی ہے کہ نیک اعمال مومن کے لئے باعث ِ استعانت اور وسیلہء نجات ہے۔ ارشاد باری تعالی ٰ ہے:
يٰٓاَيّها الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَابْتَغُوْٓا اِلَيْهِ الْوَسِيْلَةَ وَجَاهِدُوْا فِيْ سَبِيْلِه لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ([69])
" مسلمانو! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جہاد کرو تاکہ تمہارا بھلا ہو " ۔
گویا کہ اللہ کا قرب حاصل کرنے کےلئے نیک اعمال وسیلہ ہے اور بطور ِ مثال ایک بہترین نیک عمل کا تذکرہ فرمایا یعنی اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ۔امام ابن ِ کثیراس سلسلے میں لکھتے ہیں:
تقویٰ قربت الٰہی کی بنیاد ہے۔تقوے کا حکم ہو رہا ہے اور وہ بھی اطاعت سے ملا ہوا۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے منع کردہ کاموں سے جو شخص رکا رہے ، اوراللہ کاقرب تلاش کرے۔ وسیلے کے یہی معنی حضرت ابن عباس سے منقول ہیں۔ حضرت مجاہد ، حضرت وائل ، حضرت حسن ، حضرت ابن زید اور بہت سے مفسرین سے بھی یہی مروی ہے۔ قتادہ فرماتے ہیں اللہ کی اطاعت اور اس کی مرضی کے اعمال کرنے سے اس سے قریب ہوتے جاؤ۔پھرابن زید نے یہ آیت بھی پڑھی:
اُولٰىِٕكَ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ يَبْتَغُوْنَ اِلٰى رَبِّهِمُ الْوَسِـيْلَةَ اَيُّهُمْ اَقْرَبُ وَيَرْجُوْنَ رَحْمَتَه وَيَخَافُوْنَ عَذَابَه اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُوْرًا ([70])
" جنہیں یہ پکارتے ہیں وہ تو خود ہی اپنے رب کی نزدیکی کی جستجو میں لگے ہوئے ہیں۔کہ کون اس سے قریب تر ہو جائے اور وہ اس کی رحمت کے امیدوار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق"۔
ائمہ نے اس آیت کے ضمن میں وسیلے کے جو معنی بیان کئے ہیں اس پر سب مفسرین کا اجماع ہے ، اس میں کسی ایک کو بھی اختلاف نہیں۔ جس میں وسیلہ بمعنی قربت اور نزدیک ہونے کے مستعمل ہوا ہے۔ وسیلے کے معنی اس چیز کے ہیں جس سے مقصود کے حاصل کرنے کی طرف پہنچا جائے اور وسیلہ جنت کی اس اعلیٰ اور بہترین منزل کا نام ہے جو رسول کریم ﷺ کی جگہ ہے۔ عرش سے بہت زیادہ قریب یہی درجہ ہے۔ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے "جو شخص اذان سن کر دعا(اللهم رب هذه الدعوة التامة) الخ ، پڑھے اس کیلئے میری شفاعت حلال ہو جاتی ہے"۔([71])
سنن ابو داود کی روایت کردہ حدیث میں ہے "جب تم اذان سنو تو جو مؤذن کہہ رہا ہو ، وہی تم بھی کہو ، پھر مجھ پر درود بھیجو ، ایک درود کے بدلے تم پر اللہ تعالیٰ دس رحمتیں نازل فرمائے گا۔ پھر میرے لئے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کرو ، وہ جنت کا ایک درجہ ہے، جسے صرف ایک ہی بندہ پائے گا ، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں۔ پس جس نے میرے لئے وسیلہ طلب کیا ، اس کیلئے میری شفاعت واجب ہو گئی"۔([72])
مسند احمد کی روایت میں ہے "جب تم مجھ پر درود پڑھو تو میرے لئے وسیلہ مانگو ، پوچھا گیا کہ وسیلہ کیا ہے؟ فرمایا جنت کا سب سے بلند درجہ جسے صرف ایک شخص ہی پائے گا اور مجھے امید ہے کہ وہ شخص میں ہوں" ([73])پھرتقویٰ یعنی ممنوعات سے رکنے اور احکام کے بجا لانے کا حکم دے کر فرمایا "اس کی راہ میں جہاد کرو ، مشرکین و کفار کے ساتھ جو اس کے دشمن ہیں اس کے دین سے الگ ہیں ، اوراس کی سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں۔([74])
نیک اعمال کا وسیلہ راہ ِ نجات ہے۔آپ ﷺ نے گزشتہ کسی قوم کے تین افراد کا قصہ ایک طویل حدیث میں ذکر کیا ہے،جس میں نیک اعمال کے وسیلے کا ذکر ہے۔اس قصے)قصة أصحاب الغار الثلاثة والتوسل بصالح الأعمال(میں تین اعمال ِ صالحہ کا ذکر ہے ۔جیساکہ مذکور ہے :
«خَرَجَ ثَلاَثَةٌ يَمْشُونَ فَأَصَابَهُمُ الْمَطَرُ فَدَخَلُوا فِى غَارٍ فِى جَبَلٍ فَانْحَطَّتْ عَلَيْهِمْ صخْرَةٌ قَالَ: فَقَالَ بَعْضُهُمْلِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالاً عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَةً لِلَّهِ فَادْعُوا اللَّهَ تَعَالَى بِهَالَعَلَّ اللَّهَيَفْرُجُهَا عَنْكُمْ».([75])
اس حدیث میں تین اہم باتیں یہ ذکر ہوئی ہیں :
۱۔ خدمت ِ والدین کے اعلی ٰ معیار کا ذکر
۲۔ عفت و پاک دامنی کے اعلی ٰ معیار کا ذکر
۳۔ امانت ودیانت اور انسانی خیر خواہی کا اعلی ٰ معیار ۔
اس حدیث میں ہے کہ جب انہوں نے اپنے نیک اعمال کا وسیلہ پیش کیا اور کہا کہ اے اللہ اگر ہم نے یہ محض تیرے رضا کے لئے کئے ہیں تو ہم سے یہ چٹان ہٹا دیں تو اللہ نے غار کے منہ سے چٹان ہٹایا اور وہ چلتے بنے۔
اسلا م میں اجتماعیت کی اہمیت
آیت ِ مذکورہ میں جمع کے صیغے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ عبادت اور خصوصاً نماز کی اساس جمع وجماعت پر رکھی گئی ہے، یہاں تک کہ جب بندہ خدا کے سامنےراز ونیاز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اسے چاہئیے کہ اپنے آپ کو جماعت اور اجتماع کے ساتھ شمار کرے چہ جائکہ اس کی زندگی کے دیگر کام۔اس بناء پر ہرقسم کی انفرادیت علیحدگی ،گوشہ نشینی اور اس قسم کی چیزیں قرآن اور اسلام کی نظر میں مردود قرار پائی ہیں ۔([76])
گویا اس آیت مبارکہ ﴿إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين﴾ کا ایک اہم پہلو اجتماعیت کا پیغام ہے ، اسلام میں عموماً اجتماعیت پر بہت زور دیا گیا ہے بلکہ اسلام کے تمام ارکان وعبادات حقیقت میں اجتماعیت کے مظاہرِ اتم ہیں ،خواہ یہ نماز ہو، یا حج، زکوٰۃ ہو یا روزہ۔
اسلام میں اجتماعیت کےساتھ جڑے رہنے کے بڑے فوائد اور ثمرات بیان کئے گئے ہیں اورمسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اجتماعیت کے ساتھ وابستہ رہے،ورنہ گرفتار ِ فتنہ رہو گے،ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَالَّذِينَ كَفَرُوا بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ إِلَّا تَفْعَلُوهُ تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ كَبِيرٌ ([77])
" جو لوگ منکرِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں ۔ اگر تم یہ نہ کرو گے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد برپا ہو گا "۔
اوراسی طرح اجتماعیت سے وابستہ رہتےہوئے توصوا بالحق اور تواصوا بالصبر کے فریضے سےانسان شیطان کے حملوں سے بھی محفوظ ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ﷺ نےجماعت کے ساتھ رہنے کی بڑی تاکید فرمائی:
«عَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَإِيَّاكُمْ وَالْفُرْقَةَ فَإِنَّ الشَّيْطَانَ مَعَ الْوَاحِدِ وَهُوَ مِنْ الِاثْنَيْنِ أَبْعَدُ مَنْ أَرَادَ بُحْبُوحَةَ الْجَنَّةِ فَلْيَلْزَمْ الْجَمَاعَةَ».([78])
"جماعت کولازم پکڑو اور افتراق سے بچو کونکہ شیطان فرد کے ساتھ ہولیتا ہے اور وہ دو افراد[جماعت ]سے دور رہتا ہے اور جو جنت کے بیچ میں پہنچنا چاہتا ہے وہ جماعت کولازم پکڑے " ۔
حوالہ جات
- ↑ حواشی و مصادر (References) ()قرطبی،بیضاوی،معارف القرآن،ادارۃ المعارف، کراچی، س ن ، جلد:۱،صفحہ:۷۳ ۔
- ↑ () التفسیر البیضاوى ، دارفراس للنشر والتوزیع ، س ن ۔ التسهيل لعلوم التنزيل ،محمد بن أحمد بن محمد بن عبد الله، ابن جزى الكلبى الغرناطى ،ناشر: شركة دار الأرقم بن أبى الأرقم – بيروت ، الطبعة: الأولى – ۱۴۱۶ه.
- ↑ ()الحجر:۸۷۔
- ↑ () رواہ الترمذی عن ابی ہریرۃ وقال حسن صحیح ،والحاکم وقال صحیح علی شرط مسلم،قرطبی،دار الکتاب العربی بیروت ۲۰۰۶ء ،ص:۱/۱۴۶ ۔
- ↑ () أخرج ابن جرير وابن المنذر والطبراني وابن مردويه والحاكم وصححه، والبيهقي فى سننه عن ابن عباس: أنه سئل عن السبع المثانى قال: فاتحة الكتاب، استثناها الله لأمة محمد، فرفعها فى أم الكتاب فدخرها لهم حتى أخرجها ولم يعطها أحداً قبله. (الدر المنثور فى التأويل بالمأثور،لعبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدينالسيوطى ،ص:6/108).
- ↑ () جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُمَا يَقُولُ لاَ صَلاَةَ إِلاَّ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ[سنن النسائى الكبرى،باب من قال یقتصر فی الاخرین]
- ↑ ()مودودی ،سید ابوالاعلی ٰ،تفہیم القرآن،ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور،۲۰۰۰ء ،ص:۱/۴۲۔
- ↑ ()ایضاً ص:۱/۲۴۔
- ↑ ()ازھری، محمد کرم شاہ، پیر، تفسیر ضیاء القرآن، ضیاء القرآن پبلی کیشنز: لاہور۔کراچی ،ص: ۱/۲۰۔
- ↑ ()ابن کثیر،اسماعیل ،تفسیر ابن کثیر،ترجمہ :خطیب الہند محمد جوناگڑی، مکتبہ قدوسیہ، لاہور ۲۰۰۳ء۔ص:1 /۶۱۔
- ↑ ()الرازی،محمد ابن عمر،مفاتیح الغیب )تفسیر کبیر(، الناشر: دار إحياء التراث العربى – بيروت،ط/۳،۱۴۲۰ ھـ، جلد :۱، ص: ۲۶ ۔
- ↑ ()ابن کثیر،اسماعیل ،تفسیر ابن کثیر،ترجمہ :خطیب الہند محمد جوناگڑی، ص: ۱/۶۱ ۔
- ↑ ()ھود:۱۲۳ ۔
- ↑ ()المزمل :۹
- ↑ ()ابن عاشور، محمدطاہر ، تفسیر ابن ِ عاشور، موسسۃ التاریخ بیروت،۲۰۰۰ء۔ص: ۱/۱۳۱ – 132
- ↑ ()محمود صافی،جدول فی اعراب القرآن وصرفہ وبیانہ، مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ، سن تالیف:۱۹۹۰ء۔
- ↑ () انظر:سنن النسائى الكبرى أحمد بن شعيب، أبو عبد الرحمن، مؤسسة الرسالة،ص:۱/336، ومجمع بحار الأنوار فى غرائب التنزيل ولطائف الأخبارجمال الدين، محمد طاهر بن على الصديقى الهندى الفَتَّنِى الكجراتى (المتوفى:986ه)،مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية،ط/۳، 1967م
- ↑ () تحفة الأريب بما فى القرآن من الغريب،أبو حيان محمد بن يوسف بن على بن يوسف بن حيان أثير الدين الأندلسى (المتوفى: 745هـ)، المحقق: سمير المجذوب، المكتب الإسلامى، ط/۱، ۱۹۸۳م، ص : ۱/۲۲۰۔
- ↑ () جمال الدين، محمد طاهر بن على الصديقي الهندى الفَتَّنِى الكجراتي، مجمع بحار الأنوار فى غرائب التنزيل ولطائف الأخبار، الناشر: مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية، ط/ ۳ -1967م، ص: ۲/168
- ↑ ()محمد بن یزیدا لقزوینی ،سنن ابن ماجہ ،باب : طاعۃ الامام ، دار السلام ، ریاض ،۲۰۰۰ء ،حدیث نمبر:۲۸۵۲ ۔
- ↑ ()ایضاً ماجاء فی حق المال بحقہ ، حدیث نمبر: ۲۲۹۷ ۔
- ↑ ()مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ،کتاب النکاح ، الملا على القاری، ص:۵/۲۰۴۹
- ↑ ()مسند ابن ابى شيبة،ص:۳/۲۴۸ ۔
- ↑ ()تفہیم القرآن ، ۱/۴۴،۴۵۔
- ↑ ()نخبہ من العلماء،المعجم الوسیط،دار الدعوۃ،استنبول،ترکیہ ،۱۹۸۹ء ،جلد:۱،۲، ص: ۵۷۹
- ↑ ()محمد بن علی الجرجانی،کتاب التعریفات، دار الکتاب العربی ،بیروت ،۲۰۰۲ء، ص:۱۲۱
- ↑ ()تفہیم۲/۲۶۳
- ↑ ()البقرہ: ۸۳
- ↑ ()المائدہ : ۶۷
- ↑ ()النساء: ۱۱۷
- ↑ ()المومنون:۴۷
- ↑ ()مریم: ۴۴
- ↑ ()مزید تشریح کے لیئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد سوم، الکہف ، حاشیہ 49،50۔مریم،حاشیہ ۲۷
- ↑ ()یسں: ۶۰
- ↑ ()معارف القرآن، دیکھئے: بخاری حدیث:۲۸۸۶،۶۴۳۵ ۔ حدیث میں عبدالزوجہ کے الفاظ نہیں ہے۔
- ↑ ()البقرہ : ۲۱
- ↑ ()البقرہ : ۱۳۸
- ↑ ()تفہیم القرآن :سُوْرَةُ الْبَقَرَة حاشیہ نمبر :۱۳۷
- ↑ ()آل عمران : ۶۴
- ↑ ()الانعام : ۱۰۲
- ↑ ()البقرہ :۱۳۳
- ↑ ()البقرہ : ۱۷۲
- ↑ ()العنکبوت :۱۷
- ↑ ()قریش : ۳
- ↑ ()الانعام :۱۰۲
- ↑ ()الکھف :۵۰
- ↑ ()تفسیر ابن عاشور، جلد: ۱،ص: ۱۷۸
- ↑ ()الاسراء: ۱
- ↑ ()الکہف:۱
- ↑ () النسائي،أحمد بن شعيب، أبو عبد الرحمن، سنن النسائى الكبرى، دار الکتب العلمیة بيروت، حدیث: ۱۴۱
- ↑ ()سنن النسائى الكبرى، حدیث: ۷۴۸
- ↑ () ابن القيم ،التفسير القيم ،)جمع وترتيب(: محمد اويس الندوى
- ↑ ()النجم : ۵۳: ۸،۹
- ↑ ()النمل: ۵۹
- ↑ ()الشوری: ۲۳
- ↑ ()المعجم الوسیط،جلد۲،۱ ،ص:۶۳۸، بلياوی،عبدالحفيظ،مصباح اللغات ) عربی اردو ڈکشنری ( ایچ -ایم سعید کمپنی، کراچی- ۱۹۸۱ء ،ص:۵۸۶
- ↑ ()تفسیر ضیاء القرآن ۱/۲۴
- ↑ ()تفسیرتفہیم القرآن ۱/۴۵
- ↑ () مسلم: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ؛ عَنِ النَّبِيِّ قَالَ:سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ،باب ما جاء فی القرأة فی الصلوة، دار السلام ،۲۰۰۰ء
- ↑ ()الاعراف :۵۵
- ↑ ()البقرہ : ۲۸۶
- ↑ ()الاسراء: ۵۶
- ↑ ()الاعراف: ۱۸۹
- ↑ ()الحج :۲۲: ۷۳
- ↑ ()غافر: ۶۰
- ↑ ()اصلاحی ،امین احسن ، تدبر ِ قرآن،ناشر : ماجد خاور،۱۹۸۲ء،ص:۱/۵۸
- ↑ ()الزمر:۳ ۔
- ↑ ()الترمذي،محمد بن عيسى، حدیث:۲۴۴۰،الكتاب مشكول ومرقم آليا غير موافق للمطبوع وهو متن مرتبط بشرحه
- ↑ ()المائدة : ۳۵
- ↑ ()الاسراء:۱۷:۵۷
- ↑ ()صحیح بخاری، حدیث :۶۱۴و۴۷۱۹
- ↑ ()ابوداود،سلیمان بن اشعث السجستانی ،السنن ، باب : مایقول اذا سمع الموذن ،دار السلام ،۲۰۰۰ء)کتب الستتہ(، حدیث : ۴۳۹
- ↑ () احمد بن حنبل ، امام ، ابو عبد الله الشيبانی،مسنداحمد،تحقیق: شعيب الأرنؤوط وآخرون ، مؤسسہ الرسالہ ،حدیث: ۱۴۶۷۴
- ↑ ()تفسیر ابن ِ کثیر،سورت ِ مائدہ
- ↑ ()بخاری ،محمد بن اسماعیل ،صحیح البخاری ،كتاب البيوع: باب إذا اشترى شيئًا لغيره بغير إذنه فرضى،دار السلام ،۲۰۰۰ء)کتب الستتہ(
- ↑ ()تفسیر نمونہ،آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، ترجمہ:اہل ِ قلم کی ایک جماعت،مصباح القرآن ٹرسٹ لاہور،ص:۱/۵۷
- ↑ ()الانفال:۷۳
- ↑ ()جامع ترمذی باب ماجاء فی لزوم الجماعۃ حدیث نمبر ۲۰۹۱
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2016 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |