8
1
2019
1682060032214_359
1-22
https://www.numl.edu.pk/journals/subjects/157128358001-102-URD-V7-2-18-Formatted.pdf
https://numl.edu.pk/journals/subjects/157128358001-102-URD-V7-2-18-Formatted.pdf
تعارف
اسلام میں تبدیلیِ مذہب([1]) کے موضوع پر متعدد ایسی تحریریں تو ملتی ہیں جن میں قبولِ اسلام کے واقعات کو قصوں کی صورت میں مرتب کیا گیا ہے تاہم یہ جاننے کی کوشش کم کی گئی ہے کہ جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو یہ عمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے۔ وہ کون سے عوامل ہیں جو اس عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ علما اور مفکرین اس عمل کو پرکھنے اور سمجھنے کے لیے کن عناصر کا جان لینا ضروری سمجھتے ہیں؛ زیرِ نظر مقالہ قبولِ اسلام کے متعلق معلومات کے مختلف ذرائع کا جائزہ پیش کرنے کے بعد استدلال کرتا ہے کہ مسلم مفکرین نے اس کام کو زیادہ تر دعوتی نقطہ نظر سے کیا ہے اور تجزیاتی مطالعوں کی بنا نہیں ڈالی۔ مغربی مفکرین، اس عمل میں کارفرما پیچیدہ عناصر، طریقہ کار اور رجحانات کو سمجھنے اور ان کی توضیح کرنے کے لیے مذہبی تبدیلی اور اس کے مقاصد کو مختلف اقسام میں تقسیم کرتے ہیں جس سے اس عمل میں کارفرما عوامل کی تلاش، تجزیہ اور بیان آسان ہو جاتا ہے۔ تاہم اس طریقہ کار کے تنقیدی مطالعہ سے یہ علم ہوتا ہے ان میں سے بعض اقسام، مقاصد اور تعریفات کا اطلاق اسلام پر نہیں ہوتا۔ زیر نظر مقالہ ان عناصر کی نشاندہی کرتا ہے جو کتاب و سنت سے مربوط رہتے ہوئے قبولِ اسلام کے عمل کی وضاحت میں مددگار ہیں۔ نیز یہ تحریر اس بات کو بھی اجاگر کرتی ہے کہ اس ضمن میں احادیث مبارکہ، نو مسلموں کے روحانی تجربات اور بعض مسلم مفکرین کی آرا اسلام میں فطرت کے نظریے کو بھی بطور فریم ورک استعمال کر نے کی طرف توجہ دلاتی ہیں۔
تبدیلیِ مذہب کی تعریف
زیر نظر مضمون میں مذہبی تبدیلی کی کوئی نئی تعریف وضع کرنا مقصود نہیں بلکہ پہلے سے موجود تعریفوں سے فائدہ اٹھا کر اس عمل کی اس حد تک وضاحت کر دینا ہے کہ مغربی مصنفین اس عمل کو کیسے سمجھتے ہیں۔ مذہبی تبدیلی کی سادہ ترین تعریف یہ ہے کہ ”اس سے مراد ”مذہبی تغیر“کی تمام شکلیں ہیں“۔([2]) یہ بھی کہا گیاہے کہ اس سے مراد ”ایک غیر مذہبی زندگی سے مذہبی زندگی کا حصول“([3])ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مذہبی تبدیلی سے مراد کسی شخص یا گروہ کا اپنے مذہب کو چھوڑ دینا ہے تاکہ وہ نیا مذہب اختیار کر سکے۔([4]) نفسیات کے مشہور مفکر ولیم جیمز (William James)اس عمل کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”تبدیلیِ مذہب کے عمل سے گزرنا ایسے ہی ہے جیسے نیا جنم لینا، لطافت حاصل کرنا، مذہب کا مشاہدہ کرنا۔“([5])
لیو س رے ریمبو ([6]) (Lewis R. Rambo) اس ضمن میں محقق کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ اس عمل کو پڑھتے ہوئے نفسیاتی، سماجی، بشریاتی اور مذہبی جہات کو مدنظر رکھے تاکہ وہ مذہبی تبدیلی کے ذاتی، سماجی، ثقافتی اور مذہبی عوامل کے متعلق مفصل آگاہی فراہم کر سکے۔ لہذا وہ کہتے ہیں کہ:
”مذہبی تبدیلی ایسا عمل ہے جو واقعات، نظریات، توقعات اور تجربات کے ساتھ ساتھ اداروں اور لوگوں کے مسلسل تبدیل ہوتے ہوئے مدار میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔“([7])
الہیات کے عالم اس عمل سے مراد :
”مکمل اور مستحکم انداز میں کسی شرط، حیثیت یا تحفظ کے بغیر خود کو اطاعت کے لیے وقف“([8]) کر دینا لیتے ہیں۔
اسلام میں تبدیلیِ مذہب کے لیے اصطلاح
مشہور مؤرخ و سیرت نگار ابن اسحاق نے مختلف صحابہ کے قبول اسلام کے عمل کی وضاحت کے لیے لفظ ”اسلام“ کا انتخاب کیا ہے۔ بعض نومسلموں کا بھی خیال ہے کہ وہ کسی خاص اصطلاح کی بجائے ”مسلم“ کہلوانا ہی زیادہ پسند کریں گے۔([9]) کچھ محققین کا استدلال ہے کہ فطرت کے نظریے کی وجہ سے بہت سے نو مسلم اپنی تبدیلیِ مذہب کے عمل کی وضاحت کے لیے (Reversion) یعنی ”رجوع“ کی اصطلاح استعمال کرنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔([10]) مارسیا ہرمینسن([11]) (Marcia Hermansen) اس ضمن میں لکھتی ہیں کہ لفظ "conversion" یا ”تغیر“ اگر تبدیلیِ مذہب کے عمل کے لیے منتخب کیا جائے تو یہ لفظ اس عمل کی مکمل وضاحت کرنے سے قاصر ہے کیونکہ اس سے یہ پتہ نہیں چلتا تا کہ تبدیلیِ مذہب کے خواہشمند شخص نے اپنی پرانی شناخت کو مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ تبدیلیِ مذہب کے جن عوامل کا مطالعہ ہرمینسن نے کیا ہے ان میں طبیعت پر واپس آنے کا ایک عنصر بھی موجود تھا۔ اسی وجہ سے وہ بھی ”رجوع“کے لفظ کا انتخاب کرتی ہیں۔([12]) تاہم یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ کچھ محققین جب مذہبی تبدیلی کا مطالعہ کرتے ہیں تو وہ اس عمل کی وضاحت کرنے کے لیے لفظ ”تغیر“ کو استعمال کرتے ہیں۔([13]) ریمبو کے خیال میں یہ عمل یکایک نہیں بلکہ تدریجا ہوتا ہے اس لیے اس ضمن میں راقم الحروف کو انہوں نے اسلام کے لیے لفظ "reverting/embracing" کی اصطلاح استعمال کرنے کا مشورہ دیا ہے۔([14]) بعض نو مسلموں نے ”رجوع“ کی اصطلاح استعمال کرنے کی بجائے ”فطرت“ کی اصطلاح کو زیادہ بہتر تصور کیا ہے۔([15]) اسلامی نقطہ نظر سے اسلام، فطرت اور رجوع کی اصطلاحات زیادہ اہم معلوم ہوتی ہیں تاہم اگر تبدیلیِ مذہب کے عمل کو بین المذاہب دیکھا جائے تو ”تغیر“ کی اصطلاح بہتر لگتی ہے۔ اسی لیے انگریزی زبان میں اس موضوع پر لکھی جانے والی زیادہ تر تحریروں میں،چاہے وہ کتب ہوں، مضامین ہوں یا مقالات، فوقیت اسی اصطلاح کو دی گئی ہے۔
شہادت قبولِ اسلام کی کنجی
جب کوئی غیر مسلم، مسلمان ہونا چاہتا ہے تو اس کے لیے کسی خاص تقریب یا عبادت کی ضروری نہیں ہوتی۔ صرف اس کو شہادت دینی ہوتی کہ سوائے اللہ کے کوئی معبود برحق نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔ شہادت دینے کے بعد کوئی بھی شخص مسلمان ہو جاتا ہے چاہے وہ کسی بھی نسل، قوم، رنگ یا جنس سے تعلق رکھتا ہو۔ اسے نہ کسی بپتسمہ کی حاجت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کے لیے شرط ہے کہ اسے کسی مسلمان عورت نے جنم دیا ہو۔ اس لیے شہادت کو اسلام میں داخلے کی کنجی بھی کہا جاتا ہے۔ قرآن پاک براہ راست تبدیلیِ مذہب کے عمل کی وضاحت نہیں کرتا مگر اسلام لانے یا چھوڑنے کے متعلق صراحت سے بات کرتا ہے۔ قرآن مجید ایک اللہ کی اطاعت قبول کرنے کے عمل کے لیے اسلمَ اور دائرہ اسلام سے خارج ہونے کے لیے رِدّۃ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ اگر غور کیا جائے تو صرف یہ دو ہی مراحل ہیں جو تبدیلیِ مذہب میں شامل ہوتے ہیں۔ کوئی انسان یا تو کسی مذہب کو قبول کرتا ہے یا اسے چھوڑتا ہے، لہذا قرآن مجید نے انتہائی جامع انداز میں دونوں مراحل کی نشاندہی کر دی ہے۔ اسی لیے قبولِ اسلام کے عمل کو جاننے کے لیے لفظ اسلام کو سمجھ لینا ہی کافی ہے۔ عربی زبان میں لفظ اسلام کے بہت سے معانی ہیں جن میں اطاعت، امن، جنت وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ یہ اللہ تعالی کے صفاتی ناموں میں سے بھی ایک ہے۔([16]) قرآن پاک، اسلام کو بیان کرنے کے لیے دین کا لفظ بھی استعمال کرتا ہے۔
مشہور مفسر و مؤرخ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ:
” اسلام تمام انبیا کا دین ہے۔“([17])
اگرچہ قرآن مجید انبیا کے دین کو بتانے کے لیے لفظ اسلام اور ایمان کے مشتقات استعمال کرتا ہے([18]) مگر وہ یہ بھی واضح کرتاہے کہ نہ ہی وہ عیسائی تھے اور نہ ہی یہودی۔([19])چنانچہ اسلام نہ صرف دوسرے انبیا اور ان کی کتابوں پر ایمان کو اپنا لازمی جزو بناتا ہے بلکہ وہ تمام انبیا کو مسلمان بھی گردانتا ہے۔([20]) جب کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے تو اس کو دو باتوں کی شہادت دینی ہوتی ہے۔ اللہ کو ایک ماننا اور محمدﷺ کو آخری نبی تسلیم کرنا۔ اگرچہ، یہودی اور عیسائی خدا کو ایک مانتے ہیں مگر چونکہ وہ محمد ﷺ کو آخری نبی تسلیم نہیں کرتے اس لیے ابن کثیر کے مطابق وہ مسلمان نہیں ہیں۔([21]) قرآن پاک نے ان کے لیے اہلِ کتاب کی اصطلاح استعمال کی ہے۔([22])
قبول اسلام کے متعلق معلومات کے ذرائع
اردو اور عربی زبان میں ایسی بہت سی کتب لکھی جا چکی ہیں جن میں مختلف لوگوں کے قبولِ اسلام کو بیانیہ انداز میں ایک قصے کی صورت مرتب کر دیا جاتا ہے([23]) تاکہ لوگ اس بات سے آگاہ ہو سکیں کہ ان لوگوں نے کس طرح اور کیوں اسلام قبول کیا؟ ان کتب میں یہ جاننے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کن مشکلات سے گزر کر کوئی شخص اسلام قبول کرتا ہے؟ تاہم اس عمل میں آسانیاں فراہم کرنے والے حالات و واقعات کو نسبتاً کم اہمیت ملتی ہے۔ بیانیہ انداز میں لکھی جانے والی یہ کتب اس بات کو بھی ظاہر کرتی ہیں کہ محققین اس عمل میں اپنی رائے کے اظہار سے زیادہ نومسلموں کے نقطہ نظر کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ کتب زیادہ تر دعوتی نقطہ نظر سے لکھی جاتیں ہیں([24]) اور عموماً مسلمان طبقہ ہی انہیں پڑھتا ہے۔
نو مسلم مفکرین کی خودنوشت سوانح عمریاں بھی اس موضوع کے متعلق معلومات کے حصول کا بڑا ذریعہ ہیں۔ بہت سے نو مسلموں نے اپنی خود نوشت سوانح عمریوں کے ذریعے اپنے قبولِ اسلام کے عمل کی وضاحت کرنے کی کوشش کی ہے۔([25]) اگرچہ ان کتب میں بھی زیادہ تر معلومات کو ایک قصے کی صورت میں مرتب کر دیا جاتا ہے جس میں بعض اوقات تبلیغی نقطہ نظر بھی واضح ہوتا ہے([26])لیکن چونکہ مصنفین خود مذہبی تبدیلی کے عمل سے گزرے ہوتے ہیں اس لیے ایسی کتب میں ان کے تجربات بھی موجود ہوتے ہیں جن کے جائزے سے اس عمل کی مختلف جہتوں کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔ یہ خود نوشت، سوانح عمریاں اس عمل کو جاننے کا ایک مفید ذریعہ ہیں کیونکہ مذہب بڑی حد تک انسان کی زندگی کا ایک چھپا ہوا پہلو ہے۔ اگر کوئی شخص خود اپنے نئے مذہب کا اعلان نہ کرے تو دوسرے کے لیے یہ جاننا دشوار ہے کہ وہ شخص کس مذہب کا پیروکار ہے؟ اس کی مثال موسی ابنِ میمون ([27]) کے قبول اسلام کے واقعہ سے واضح ہوتی ہے۔ ابنِ میمون نے اگرچہ ظاہراً اسلام قبول کر لیا تھا تاہم بعد میں اس نے دوبارہ یہودیت کی طرف رجوع کر لیا۔ قاضی کے سامنے جب اس کا مقدمہ پیش ہوا تو ابنِ میمون نے بتایا کہ اس نے اسلام کبھی دل سے قبول کیا ہی نہ تھا اور صرف اپنی جان بچانے کے لیے وہ مسلمان ہوا تھا۔ ﴿لاَ إِكْرَاهَ فِي ٱلدِّينِ﴾([28])کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے قاضی نے یہ فیصلہ دیا چونکہ ابنِ میمون کبھی مسلمان ہوا ہی نہ تھے اس لیے اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہے اور نہ ہی اس پر کوئی حد واجب ہوتی ہے۔([29])
اس مثال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تبدیلیِ مذہب ایک ایسا عمل ہے جس کے بارے میں حتمی رائے قائم کرنا مشکل ہو سکتا ہے کیونکہ اس میں شامل پیچیدہ عناصر و واقعات اس امر کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ اس عمل کا جان لینا کسی دوسرے شخص کے لیے ناممکن نہیں تو کٹھن ضرور ہے۔ صحیح مسلم میں اس موضوع کے متعلق اسامہ بن زید کے حوالے سے درج ذیل حدیث مبارکہ ملتی ہے:
«بَعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي سَرِيَّةٍ فَصَبَّحْنَا الْحُرَقَاتِ مِنْ جُهَيْنَةَ فَأَدْرَکْتُ رَجُلًا فَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ فَطَعَنْتُهُ فَوَقَعَ فِي نَفْسِي مِنْ ذَلِکَ فَذَکَرْتُهُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَقَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَقَتَلْتَهُ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّمَا قَالَهَا خَوْفًا مِنْ السِّلَاحِ قَالَ أَفَلَا شَقَقْتَ عَنْ قَلْبِهِ» ([30])
ہمیں رسول اللہ ﷺ نے ایک سریہ میں بھیجا تو ہم صبح صبح جہینہ کے علاقہ میں پہنچ گئے میں نے وہاں ایک آدمی کو پایا اس نے کہا لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ، میں نے اسے ہلاک کر دیا پھر میرے دل میں کچھ خلجان سا پیدا ہوا کہ میں نے مسلمان کو قتل کیا یا کافر کو؟ تو میں نے اس کے متعلق نبی ﷺ سے ذکر کیا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا اس نے لَا اِلٰہ اِلَّا اللہ کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کر دیا! میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ اس نے تو یہ کلمہ تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل چیر کر دیکھا کہ اس نے دل سے کہا تھا یا نہیں۔
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ:
” اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسے شخص کا قتل جائز نہیں جس نے کلمہ پڑھ لیا ہو۔ کلمہ پڑھنے کے بعد وہ اسلام میں داخل ہو چکا ہے اگرچہ اس نے ایسا جان بچانے کے خوف ہی کی وجہ سے کیا ہو۔“([31])
بلکہ صحیح مسلم کی ایک اور روایت کے مطابق ایسے شخص کو قتل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ :
«فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِكَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّكَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ كَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ»([32])
اگر اسے قتل کرو گے تو اب وہ ایسا ہی مسلمان ہوگا جیسا تم اسے قتل کرنے سے پہلے تھے اور تم اسی طرح ہو جاؤ گے جیسے وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا۔
درج بالا حدیث اس بات کا اظہار ہے کہ کسی ایسے شخص کو قتل کرنا جس نے جان بچانے ہی کے لیے کلمہ کیوں نہ پڑھا ہو، درست نہیں۔ ایسے شخص کو قتل کرنے والے کو یاد رکھنا چاہیے کہ قبولِ اسلام کے بعد اس کا خون اسی طرح اس پر جائز نہیں تھا جس طرح خود اس کا قتل کیا جانا کسی دوسرے مسلمان کے لیے ناجائز تھا۔ اس قتل کرنے والے پر قصاص یا دیت تو واجب نہیں تاہم جیسا کہ بعض علماء کا استدلال ہے کہ اس پر کفارہ واجب ہو گا۔)[33](
آپ ﷺ نے ایسے شخص کے قتل پر افسوس کا اظہار کیا ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس شخص نے دل سے اسلام قبول کر لیا ہو، لہذا اسلام میں کلمہ شہادت قبول اسلام کی کنجی ہے۔ اس سے جہاں اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ جب کوئی شخص کلمہ پڑھ لیتا ہے تو حالات جیسے بھی ہوں اس کو مسلمان تصور کیا جائے گا، وہیں اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ تبدیلیِ مذہب کے بارے میں وہ شخص ہی بہتر جانتا ہے جو اس عمل سے گزرا ہو۔ وہ شخص اپنے اندرونی تغیرات، دل و دماغ کی کیفیات اور روحانی نشونما کے متعلق بہتر بتا سکتا ہے، لہذا اس سلسلے میں اس شخص کی رائے کو مقدم رکھنا چاہیے۔ اس ضمن میں ریمبو رقم طراز ہیں کہ محقق کو مذہبی تبدیلی کے عمل سے گزرنے والے شخص یا گروہ کی رائے کو مقدم رکھنا چاہیے۔ ان کا خیال ہے کہ عموماً انسان اپنی تبدیلیِ مذہب کے بعد پیدا ہونے والے واقعات اور حالات سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔ اس کو اس بات کا بڑی حد تک پہلے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی تبدیلی کے کیا ثمرات ہوں گے؟ اور اب جب وہ اس عمل سے گزر جاتا ہے اور عملاً اس کو حالات کا تجربہ ہو جاتا ہے تو وہ نتائج کے متعلق بڑی حد تک تفصیلی معلومات فراہم کر سکتا ہے۔ یہاں وہ محقق کو تجزیہ کرتے وقت دو مزید پہلوؤں کو مدنظر رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس مرحلے پر محقق کو چاہیے کہ وہ نہ صرف نئی تحریک یا مذہب کے مروجہ قوانین کے مطابق مذہبی تبدیلی کے عمل کے ہونے یا نہ ہونے کو جانچے بلکہ ساتھ ساتھ نتائج سے متعلق اپنے نظریات بھی پیش کرے۔([34])
مسلم مصنفین کے ہاں ہمیں ایسی کتابیں تو بہت ملی ہیں جس میں کسی شخص کے قبولِ اسلام کے متعلق معلومات موجود ہوں لیکن کسی شخص کے ترکِ اسلام کے متعلق معلومات کا حصول نسبتاً دشوار ہے۔ اس دشواری پر بھی بڑی حد تک معلومات ان لوگوں کی خود نوشت سوانح عمریوں([35]) سے مل سکتی ہیں جنہوں نے اسلام کو ترک کر کے کسی اور مذہب کو اختیار کیا ہو۔ اسی طرح موجودہ دور میں انٹرنیٹ نے بہت سی آسانیاں فراہم کر دی ہیں۔ خود نوشت سوانح عمریوں ہی کی طرح کسی شخص کے اسلام قبول کرنے یا چھوڑنے کے متعلق معلومات انٹرنیٹ پر موجود وڈیوز اور دوسری تحریروں سے بآسانی مل سکتی ہیں۔ تاہم اس معلومات کو تحقیق کا ذریعہ مان لینا ایک تفصیل طلب موضوع ہے۔ قبولِ اسلام اور ترکِ اسلام سے متعلق پیچیدہ فقہی آرا بھی اس ضمن میں ملتی ہیں لیکن چونکہ اس موضوع پر خاطر خواہ کام ہو چکا ہے اس لیے زیر نظر مقالہ میں ان فقہی بحثوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
اگرچہ قبولِ اسلام کے موضوع پر تحقیق کرنے والے مفکرین کو روایتی مسلم محققین کی کتب سے مذہبیِ تبدیلی کے عمل میں کارفرما پیچیدہ عناصر، رجحانات اور واقعات کے بارے میں جاننے کے لیے خاطر خواہ معلومات کے حصول میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے تاہم عصر حاضر میں اسلام، یورپ میں سب سے زیادہ تیزی سے پھیلنے والا مذہب بنا ہے([36]) جس کی وجہ سے نو مسلموں کے انٹرویوز کے ذریعے اس خلا کو پر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔([37]) چونکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ خود نوشت سوانح عمریوں کے ذریعے اپنے قبولِ اسلام کے متعلق بتانے والے مصنفین تک محققین کی رسائی بھی ممکن ہو اس لیے ان کے ذہن میں آنے والے سوالات کے جوابات بعض دفعہ خود نوشت سوانح عمریوں میں نہیں ملتے۔ مغرب کا سیکولر معاشرہ، اسلام کے برعکس، مذہب کو صرف ایک ذاتی نوعیت کی شے سمجھتا ہے اور مذہب چھوڑنے یا قبول کرنے پر کسی قسم کی قدغن بھی نہیں لگاتا تو وہاں تبدیلیِ مذہب کی شرح مسلمان معاشروں سے زیادہ ہے۔ القویدی کا خیال ہے کہ تاریخی طور پر قبولِ اسلام کے عمل کو دو طریقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ # الفطرۃ کا طریقہ: اس سے مراد نبی کریم ﷺ کی محبت، عقیدت اور پیغامِ اسلام سے کسی کا متاثر ہو کر اسلام قبول کرنا ہے۔
- طاقت کا طریقہ: اس سے مراد مسلمانوں کی سیاسی طاقت ہے جو لوگوں کو اسلام قبول کروانے کے لیے تیار پلیٹ فارم مہیا کر دیتی ہے۔([38])
ثانی الذکر کے ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ اسلام کا معاملہ دوسرے مشنری مذاہب مثلاً عیسائیت کی نسبت قدرے مختلف ہے ؛ اس میں پیشہ وارانہ مشنری یا تبلیغی نظام ماضی میں موجود نہیں تھا بلکہ فتوحاتِ اسلامیہ نے لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی راہ ہموار کر دی تھیں لہذا اس معاملے میں مسلمان فوج کا بڑا حصہ ہے۔ اگرچہ فوج نے بذاتِ خود لوگوں کو اس طرف مائل نہیں کیا مگر اس کی موجودگی نے عمل انگیز کا کام دیا۔ فتوحات سے مسلمان تاجروں کے لیے دنیا بھر میں تجارت کے راستے کھل گئے اور ”باہمی شادیوں کے نتیجے میں اسلامی اداروں نے ان معاشروں میں رواج پایا جس سے تبدیلیِ مذہب کا عمل شروع ہوا“۔([39]) دنیا کے کچھ حصوں میں صوفیا اور علما نے اس عمل کو شروع کیا۔ اس ضمن میں مشہور مؤرخ رچرڈ ایٹن (Richard M. Eaton)”سیاسی طاقت“، ”تلوار کے زور پر مذہب کی تبدیلی“اور ”سماجی آزادی“ جیسے نظریات کا رد کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں برصغیر، جہاں مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہوئی، میں لوگوں کے اسلام قبول کرنے کی وجہ ان نظریات سے واضح نہیں ہوتی۔ وہ لوگوں کے ناموں اور مساجد وغیرہ کے ریکارڈ کو بنیاد بناتے ہوئے استدلال کرتے ہیں کہ:
”اسلام تدریجا مگر تیزی سے برہمن ہندوؤں کے علاقوں کے اردگرد کے حصوں میں زیادہ پھیلا۔“([40])
عربوں اور ہندوؤں کے درمیان تجارت کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد عرب تاجر پہلے ہی کی طرح تجارت کے لیے برصغیر آتے تھے۔ محمد اسحاق بھٹی اپنی کتاب برصغیر میں مسلمانوں کے اولین نقوش میں 25 صحابہ، 42 تابعین اور 18 تبع تابعین کا ذکر کرتے ہیں جو اسلام کے اولین دور میں برصغیر آئے۔([41]) اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے برصغیر میں قبولِ اسلام کا عمل ان لوگوں کی وجہ سے شروع ہوا جو تاجر اور عالم تھے۔ صوفیا کے کام اور بعد میں 712ء میں محمد بن قاسم کی فتح نے اس عمل کو تیز کر دیا۔ چنانچہ اس بحث سے جہاں یہ واضح ہوتا ہے کہ لوگوں کے اسلام قبول کرنے کے عمل کا تجزیہ جگہ، مقام اور حالات کے لحاظ سے الگ الگ کرنا زیادہ فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے وہیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ مستشرقین اور مؤرخین نے انسانی نفسیات اور تہذیب وتمدن کا مطالعہ کر کے قبولِ اسلام پر نفسیاتی و بشریاتی انداز میں کام کرنے کی کوشش بھی کی ہے تاکہ رائج شدہ غیر سائنسی نظریات کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔
یہ درست معلوم ہوتا ہے کہ روایتی مسلم محققین کے ہاں اس حوالے سے تجزیاتی مطالعے نظر نہیں آتے تاہم انہوں نے معلومات کو مرتب کر کے قصص کی صورت میں قلم بند ضرور کیا ہے۔ احادیث و سیرتِ نبوی، سیرت ِصحابہ، تفسیر اور تاریخ وغیرہ کی کتب میں ایسی معلومات بآسانی مل جاتی ہیں جس میں لوگوں کے قبولِ اسلام کو بیان کیا گیا ہے۔ مثلاً سیرت النبوی میں حضرت ابن اسحاق نے جہاں آپ ﷺکی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو بیان کیا ہے وہیں وہ صحابہ کے قبولِ اسلام کے قصوں کو بھی احاطہ تحریر میں لے آئے ہیں۔([42]) لہذا ان معلومات کو بنیاد بنا کر تبدیلیِ مذہب کے موضوع پر تجزیاتی کام کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔
تبدیلیِ مذہب کی اقسام
عام طور تبدیلیِ مذہب سے مراد کسی شخص یا گروہ کا وہ فعل ہوتا ہے جب وہ ایک مذہب چھوڑ کر دوسرے مذہب کا انتخاب کرتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کا بدھ مت چھوڑ کر عیسائیت اختیار کرنا یا کسی شخص کا عیسائیت چھوڑ کر بدھ مت قبول کرنا۔ مگر عصر ِحاضر میں، خاص طور پر اہلِ مغرب کے ہاں، تبدیلیِ مذہب کو نہ صرف متعدد اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے بلکہ ان اقسام کو سمجھنے کے مختلف انداز کے متعلق بھی آگاہی فراہم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان اقسام کے تنقیدی مطالعہ سے یہ معلوم کرنے میں آسانی ہو گی کہ اہلِ مغرب جب تبدیلیِ مذہب کوسمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان کا نقطہ نظر کیا ہوتا ہے؟ کیا اسی نقطہ نظر سے اسلام بھی تبدیلیِ مذہب کو دیکھتا ہے ؟ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مذہب اورکوئی غیر مسلم اسلام میں تبدیلیِ مذہب کے عمل کو سمجھنے کی کوشش کرے تو اس کے لیے کن امور کو مدِنظر رکھنا مفید ثابت ہو گا؟ یہ اقسام ذیل میں درج کی جاتی ہیں:
ارتداد
اس سے مراد ایسی مذہبی تبدیلی ہوتی ہے جس میں کوئی فرد یا گروہ اپنے پرانے مذہب سے قطع تعلق تو کر لیتا ہے مگر کوئی نیا مذہب اختیار نہیں کرتا۔ یعنی یہ وہ حالت ہوتی ہے جب کوئی شخص کسی بھی مذہب کا پیروکار نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی شخص کا ہندومت یا اسلام چھوڑ کر ملحد بن جانا۔ اسلامی نقطہ نظر سے اگر اس شخص نے اسلام چھوڑ کر کوئی اور مذہب قبول کیا ہے تو وہ مرتد کہلائے گا۔ یہ ضروری نہیں کہ وہ شخص ملحد ہو، ہندو ہو یا جین۔ چونکہ اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے([43])اس لیے قرآن مجید کے مطابق اس نے حق کو چھوڑ دیا ہے۔ اگر اس شخص نے اسلام کے سوا کوئی اور مذہب چھوڑا ہو تو وہ مرتد نہیں کہلائے گا بلکہ اس کے لیے ملحد یا غیر مسلم کی اصطلاح استعمال کی جائے گی۔ مگر اس صورت میں بھی اسے تبدیلیِ مذہب ہی سمجھا جائے گا۔ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَمَنْ يَّرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِيْنِه فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَاُولٰۗىِٕكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ وَاُولٰۗىِٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِ هُمْ فِيْهَا خٰلِدُوْنَ﴾ ([44])
یعنی جو شخص مرتد ہو جائے اور اس حالت میں اس کی موت واقع ہو جائے تو وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنم کا ایندھن بنے گا۔ ایمان کی حالت میں کیے گئے اعمال صالحہ بھی اس سے ضائع ہو جائیں گے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن مجید کے نزدیک مرتد کو توبہ کی مہلت صرف اسی دنیا تک ہے۔ آخرت میں اس کو معافی نہیں مل سکے گی۔ مزید یہ کہ جس طرح توبہ کرنے سے گناہوں کی معافی مل جاتی ہے اسی طرح کفر کرنے سے اس شخص کے حالتِ ایمان میں کیے گئے اعمال صالحہ بھی ضائع ہو جائیں گے۔ تاہم اسلام یہ بھی حکم ہے کہ دنیا میں ایسے شخص کو توبہ کی مہلت دینا لازم ہے۔ سنن نسائی میں ایک ایسے شخص کاذکر ملتا ہے جس نے اسلام قبول کرنے کے بعد کفر کیا۔ تاہم بعد میں وہ اپنی غلطی پر شرمندہ ہوا اور آپ ﷺکی بارگاہ میں عرضی بھیجی کہ کیا اس کی توبہ قبول ہو گی؟ آپﷺ پر وحی نازل ہوئی :
﴿كَيْفَ يَهْدِي اللّٰهُ قَوْمًا كَفَرُوْا بَعْدَ اِيْمَانِهِمْ... اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ وَاَصْلَحُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ﴾([45])
یعنی جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے گا ۔۔۔تواس کے لیے یہ گنجائش موجود ہے کہ اگر توبہ کرے تو اللہ تعالی بخشنے والا غفور رحیم ہے۔
لہذا اس آیت کے حکم کے مطابق آپﷺنے اس شخص کو کہلوا بھیجا اور وہ دوبارہ مسلمان ہو گیا۔ ([46])
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اگرچہ اسلام نے جبر سے منع کرتے ہوئے دین کے اختیار میں آزادی دی ہے تاہم جو شخص پہلے تو اپنی مرضی سے اسلام قبول کرے اور بعد میں اپنی مرضی ہی اسے چھوڑ دے تو اس کی سزا قتل ہے۔ صحیح بخاری میں ابن عباس سے روایت ہے:
آپ ﷺ نے فرمایا:
« مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ» ([47])
یعنی جو شخص اپنا دین تبدیل کرے اس کو قتل کر دو۔
واضح رہے یہاں دین سے مراد ”اسلام“ ہے۔ بقیہ ادیان اپنے معاملے میں آزاد اور خود مختار ہیں۔ جیسا کہ امام مالک فرماتے ہیں :
” اگر کوئی اعلانیہ اسلام سے پھر جائے تو اس کو توبہ کی مہلت دیں۔ اگر توبہ کر لی جائے تو ٹھیک ہے وگرنہ اس کو قتل کر دیا جائے۔ تاہم یہ سزا صرف اس شخص کے لیے ہے جو دین اسلام چھوڑ کر کوئی اور دین قبول کرے۔ اگر کوئی ایسا شخص جو یہودی ہو اور نصرانی بن جائے یا کوئی نصرانی جو یہودی بن جائے وہ اس حکم کے زمرے میں نہیں آتا۔“([48])
لہذا ایسے شخص سے نہ تو توبہ کرائی جائے گی نہ ہی اسے قتل کیا جائے گا۔
تشدید
اس سے مراد کسی شخص یا گروہ کی کسی ایسے مذہب یا تحریک سے وابستگی ہوتی ہے جس سے وہ پہلے بھی کچھ نہ کچھ رغبت رکھتا ہے۔ اس قسم کی تبدیلی میں وہ مذہب اس شخص کی زندگی کا بنیادی محور بن جاتا ہے۔ مثلاً کسی یہودی کا یہودیت کی طرف شدید میلان ہونا۔ قرآن مجید میں اگرچہ تشدید کا ذکر ملتا ہے تاہم اسے مذہبی تبدیلی کےطور پر نہیں سمجھا جاتا بلکہ اسے دیگر عناصر مثلاً ایمان کے بڑھ جانے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ جیسے اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ وَاِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُه زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا﴾([49])
جب مؤمنین کے سامنے قرآن مجید کی آیات کی تلاوت ہوتی ہے تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔
الحاق
جب کوئی شخص یا گروہ کسی ایسی نئی مذہبی جماعت یا تحریک سے وابستہ ہو جاتا ہے جس سے اس کا پہلے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ مثلاً کسی شخص کا یونیٹیرین چرچ سے وابستگی کا عمل۔ اسلام میں الحاق کو بھی تبدیلیِ مذہب نہیں سمجھا جاتا کیونکہ اس سے مسلمان کے ان عقائد میں فرق نہیں پڑتا جو ایمان کے بنیادی جزو ہیں اور جن کو درج ذیل آیت مبارکہ میں واضح طور پر بیان کر دیا گیا ہے۔
﴿وَلَـكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِیِّینَ﴾([50])
لیکن بڑی نیکی تو یہ ہے جو کوئی ایمان لائے اللہ پر اور قیامت کے دن پر اور فرشتوں پر اور سب کتابوں پر اور پیغمبروں پر۔
ادارہ جاتی تبدیلی
جب کوئی شخص یا گروہ اپنے مذہب کے مختلف فرقوں میں سے کسی نئے فرقے کا انتخاب کرتا ہے۔ مثلاً کسی مسلمان کا سنی سے شیعہ بننے کا عمل۔ الحاق ہی کی طرح ادارہ جاتی تبدیلی کو بھی اسلام میں تبدیلی مذہب کے عمل کے طور پر نہیں دیکھا جاتا بلکہ اسے فرقے کی تبدیلی کے طور پر لیا جاتا ہے۔
مذہب کی تبدیلی
اس سے مراد کسی شخص یا گروہ کا ایک مذہب سے دوسرے مذہب میں جانے کا عمل ہے۔ ([51]) مثلاً جین سے مسلمان بننے کا عمل۔ ا س قسم کی مذہبی تبدیلی کو قبول اسلام سمجھا جاتا ہے۔
درج بالا مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ارتداد اور مذہب کی تبدیلی ہی دو ایسی اقسام ہیں جو اسلام کی رو سے تبدیلی مذہب کے زمرہ میں آتی ہیں۔ مگر دونوں میں سے اسلام کسی کو حق نہیں سمجھتا۔ اس سے ظاہری طور پر یہ لگتا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کو معاشرے میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہے تاہم جیسا کہ قرآن مجید میں یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ دین کے معاملے میں جبر نہیں ہے تو اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کے دنیا میں موجود ہونے اور ان کی طرف رجحانات کو قبول کرتا ہے تاہم انہیں سچا مذہب نہیں مانتا۔ وہ اس بات کی بھی طرفداری کرتا ہے کہ دنیا میں موجود دیگر مذاہب کو زندہ رہنے کا حق ہے تاہم اگر کسی شخص یا گروہ کو ہدایت کی تلاش ہے تو وہ اسے صرف و صرف اسلام ہی میں ملے گی۔ اس طرح اسلام دوسرے مذاہب کی حق تلفی کیے بغیر نہ صرف ان کے ساتھ رہنے کا ایک لائحہ عمل مہیا کر دیتا ہے بلکہ ان مذاہب کے پیروکاروں کے لیے قبولِ اسلام کی راہیں کھلی ہونے کا عندیہ بھی دیتا ہے۔ نیز یہ کہ درج بالا بحث سے یہ بھی علم ہوتا ہے کہ اہلِ مغرب جب تبدیلی مذہب کی ان اقسام کا ذکر کرتے ہیں تو ان کے مدِنظر زیادہ ترعیسائیت یا دیگر مغربی مذاہب ہوتے ہیں۔ اگر اسی نقطہ نظر سے اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو نتائج میں فرق لازمی ہو گا۔
صحت مندانہ اور غیر صحت مندانہ مذہبی تبدیلی
تبدیلیِ مذہب کو صحت کے اعتبار سے بھی دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ بعض اوقات مذہبی تبدیلی انسانی ذہن پر ناخوشگوار اثرات چھوڑتی ہے جس سے دماغی بیماریاں اور بے چینی جنم لیتی ہے۔ جبکہ بعض دفعہ انسان اس تبدیلی کی وجہ سے اپنے اندر خوشگوار اثرات محسوس کرتا ہے جو اس کی ذہنی اور سماجی زندگی کو صحت اور تندرستی بخشتے ہیں۔ دونوں قسم کی تبدیلیوں میں فرق واضح ہے۔ جب انسان کا دل پراگندہ ہو، خطرے اور بے چینی کے اثرات دل پر مرتب ہوں تو اسے غیر صحت مندانہ مذہبی تبدیلی کہا جاتا ہے۔([52]) اس کے برعکس ایسی روحانی تبدیلی جس سے انسان جب دوچار ہو اور وہ اس کا دل احساس ِتحفظ، آزادی، توبہ، معافی اور خوشی جیسے تاثرات سے بھر دے، صحت مندانہ مذہبی تبدیلی کہلائی گی۔ اسی لیے مذہبی تبدیلی کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسے ایک ایسے” میکنزم کے طور پر دیکھا گیا ہے جو نفسیاتی گھتیوں کو سلجھانے کی کوشش کرتی ہے۔“([53]) مثلاً، مریم جمیلہ([54])قبولِ اسلام سے پہلے نفسیاتی طور سے بیمار تھیں۔ ڈاکٹروں نے انہیں بتا دیا تھا کہ وہ کبھی صحت یاب نہ ہو سکیں گی۔ قبولِ اسلام کے بعد بھی وہ کچھ عرصہ تک بیمار رہیں مگر بعد میں ان کی حالت تیزی سے سنبھلی اور وہ بہت جلد صحت یاب ہو گئیں۔ وہ اپنے قبولِ اسلام کو اپنی صحت یابی کی ایک بڑی وجہ قرار دیتی ہیں۔([55]) ان کے نزدیک اسلام ذہنی امراض کے علاج کی اکسیر دوا ہے۔([56]) جبکہ قبولِ اسلام سے پہلے انہوں نے دہریت اور بہائیت کو بھی قبول کیا تاہم اس سے ان کے ذہنی مسائل کم ہونے کی بجائے بڑھتے گئے۔ لہذا ان کی تبدیلیِ مذہب کے عمل میں قبولِ اسلام کے برعکس دیگر مذہبی تبدیلیاں غیر صحتمندانہ تھیں۔ نتیجتا یہ کہا جا سکتا ہے کہ محققین کا یہ مشورہ قابل غور ہے کہ مذہبی تبدیلی کے مطالعے کے نتائج مرتب کرنے وقت اس بات کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا جائے کہ مذہبی تبدیلی کے تجربے کو ”نئی زندگی“ کے طور پر جانچنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا تجزیہ بھی کیا جائے کہ اس تبدیلی نے مسائل کے حل میں کیا کردار ادا کیا ہے۔([57])
یکایک اور بتدریج وقوع پذیر ہونے والی مذہبی تبدیلی
مذہبی تبدیلی کو دورانیے کے اعتبار سے بھی تقسیم کیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ یہ تبدیلی ایک دم سے واقع ہو جاتی ہے اور اس میں زیادہ وقت نہیں لگتا۔ مثلاً، جس طرح ابن اسحاق نے عمر فاروق کے قبولِ اسلام کے قصے کو قلم بند کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جب عمر نے قرآن مجید کی تلاوت سنی تو ان کے دل میں بھی اسے پڑھنے کا شوق جاگا جو بعد ازاں ان کے قبولِ اسلام کا سبب بنا۔([58]) اس قسم کی مذہبی تبدیلی میں یکایک وقوع پذیری کا عنصر پایا جاتا ہے لیکن عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ ایسا کم ہوتا ہے۔ اس کے برعکس زیادہ تر مذہبی تبدیلیاں ایک آدھ واقعے کی بجائے ایک مسلسل عمل کے طور پر ہوتی ہیں۔([59]) ان کا دورانیہ لمبا اور بعض اوقات کئی سالوں پر محیط ہوتا ہے۔ ایسی مذہبی تبدیلیوں کو بتدریج ہونے والی مذہبی تبدیلیاں کہا جاتا ہے۔ بتدریج ہونے والی مذہبی تبدیلی میں انسان کا میلان باخبر ہو کر منزل مقصود کی طرف بڑھنے پر ہوتا ہے۔([60]) یعنی انسان کا جس مذہب کی طرف میلان ہوتا ہے وہ اسے اچھی طرح سمجھنے کی شعوری طور پر کوشش کرتا ہے اور آہستہ آہستہ اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوتا ہے۔ مثلاً، امینہ جنان([61]) کے قبولِ اسلام کے قصے سے پتہ چلتا ہے کہ اول اول انہوں نے اسلام کا مطالعہ اس نیت سے شروع کیا کہ اپنے ہم جماعتوں کو اسلام کی خامیوں سے آگاہ کر سکیں تاہم جلد ہی انہیں محسوس ہونے لگا کہ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جسے وہ بطور ضابطہ حیات اپنا سکتی ہیں تو انہوں نے دو سال تک اس کا مطالعہ کیا اور اچھی طرح اطمینان کے بعد اسے قبول کر لیا۔([62])جنان کا اسلام قبول کرنا دو سالوں کے مطالعے پر محیط تھا۔ یہ تبدیلی یکایک نہیں بلکہ بتدریج ہوئی۔ اس میں واضح عنصر یہ بھی تھا کہ وہ خود قبولِ اسلام کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کا رویہ ایک متحرک شخص کا سا تھا جو خود ہدایت کی تلاش میں تھا۔ انہیں اسلام میں موجود رشد و ہدایت کے عنصر نے اپنی طرف مائل کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے اندر ایسے عناصر فطرتی طور پر موجود ہیں جو انسان کو اسے قبول کرنے کی طرف مائل کرتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان عناصر کی نشاندہی کی جائے۔
تبدیلیِ مذہب کے مقاصد
کسی بھی شخص کی تبدیلیِ مذہب سے پوری طرح واقفیت حاصل کرنے کے لیے اس عمل سے گزرنے کے مقاصد سے آگاہ ہونا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ یہ مقاصد نہ صرف مذہبی تبدیلی کی وجوہات کی تلاش میں مدد دے سکتے ہیں بلکہ اس عمل میں شامل مختلف تجربات، موضوعات، واقعات اور اہداف کی وضاحت بھی کر سکتے ہیں۔ دعوتی نقطہ نظر سے یہ مقاصد زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ عیسائی مشنری ہو یا تبلیغی جماعت دونوں کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان مقاصد کے متعلق معلومات حاصل کر کے اپنے دعوتی فریم ورک میں بہتری لا سکیں۔جان لوفلینڈ (John Lofland) اور نارمن سکنووڈ (Norman Skonovd)([63]) ان مقاصد کو درج ذیل اقسام میں تقسیم کرتے ہیں:
فکری مقصد
اس سے مراد کتابوں، مقالوں، ٹیلی ویژن، میڈیا یا مختلف مذہبی عبادات میں شمولیت کر کے اپنے علم میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا ہے۔ جو لوگ متحرک طورپر خود اپنے تبدیلی مذہب کے عمل میں شامل ہوتے ہیں ان کا ایک بڑا مقصد فکری ہی ہوتا ہے۔ وہ خود ہدایت کے لیے کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور مختلف لوگوں، تحریروں اور واقعات کا مشاہدہ کر کے اسلام قبول کرتے ہیں۔ سلیمان فارسی کا عیسائیت اور بعد میں دائرہ اسلام میں آجانا بڑی حد تک فکری مقصد لیے ہوئے تھا۔ وہ حق کی تلاش میں تھے جسے انہوں نے پہلے عیسائیت اور پھر اسلام میں محسوس کیا، لہذا علمی اور عملی دونوں طور پر اس کے لیے کوشش کی۔([64])
روحانی مقصد
اس سے مراد کشف، خواب، آوازوں یا کسی بھی قسم کے ماورائی تجربات کا حصول ہے۔ یعنی اس لیے مذہب تبدیل کرنا کہ کے کشف و کرامات اور دیگر ماورائی طاقتیں حاصل ہوں۔ اس قسم کی مذہبی تبدیلی میں مذہب کو ہدایت کے لیے نہیں بلکہ طاقت کے حصول کے لیے قبول کرنا مراد ہوتا ہے۔ قبول اسلام کا مقصد چونکہ ہدایت ہے([65])اس لیے روحانی مقصد کے متعلق تشریحات اس ضمن میں نا پید ہیں۔ یہاں تک کہ تصوف، جسے مسلمانوں کا ایک گروہ اسلام کا روحانی نظام سمجھتا ہے، میں بھی یہ واضح بیان کیا جاتا ہے کہ اس کا مقصد روحانی طاقتیں حاصل کرنا، اچھے خواب دیکھنا یا مستقبل بینی کرنا نہیں ہے بلکہ مقصود رضائے الہی ہے۔([66])
جذباتی مقصد
اس سے مراد انسان کے باہمی تعلقات استوار کرنے اور چاہے جانے کے تجربات کا حصول ہے۔ جیسے کسی کی محبت میں گرفتار ہو کر اسلام قبول کر لینا۔ مثلاً صحیح بخاری کی ایک روایت کے مطابق ایک یہودی لڑکا جو آپﷺکی خدمت کیا کرتا تھا جب بیمار پڑا توآپ نے اس کی عیادت کے دوران اسے اسلام قبول کرنے کا کہا۔ آپﷺکی محبت اور شفقت نے اسے اسلام کی طرف مائل کر دیا۔([67])
تجرباتی مقصد
جب کوئی شخص محض کسی خاص مذہبی تجربے سے اس لیے گزرنا چاہتا ہے کہ وہ اس تجربے کی طاقت اور افادیت کا ذاتی طور پر مشاہدہ کر سکے۔ اسلام اس قسم کے مقصد کی بھی حوصلہ شکنی کرتا ہے کیونکہ اس کے نزدیک مذہب کی تبدیلی کوئی تجربہ نہیں بلکہ اچھی طرح جان بوجھ کر اسے بطور نظام حیات اپنانا ہے۔ قبول اسلام کا مقصد وحید ہدایت کا حصول ہے جو ذاتی اور معاشرتی دونوں سطحوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔
احیائی مقصد
اس قسم کے تبدیلیِ مذہب کے عمل میں اردگرد کے لوگوں کی وجہ سے احیائے مذہب کی تحریک انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مذہب کی طرف رجوع کرتا ہے۔ مثلاصحیح بخاری میں جس طرح حضرت ابوذر غفاری کے قبول اسلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے جب آپﷺکی بعثت کی خبر سنی تو ان اندر ایک تحریک پیدا ہوئی جس کی وجہ سے پہلے تو انہوں نے اپنےبھائی کو مکہ بھیجا تاکہ وہ آپ ﷺکی خبر لا کر دیں اور بعد میں خود جا کر جانچ پڑتال کے بعد اسلام قبول کر لیا۔([68])
جابرانہ مقصد
کسی شخص پر زور زبردستی کر کے مثلاً اس کو نفسیاتی طور پر اذیت دے کر، برین واشنگ کر کے، ڈرا کر یا خوراک وغیرہ کے لیے ترسا کر اس کا مذہب تبدیل کرنا۔([69]) اسلام میں چونکہ یہ واضح ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہے؛ یہ انسان کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ایمان لائے یا نہ لائے، اس لیے اسلام میں اس قسم کی مذہبی تبدیلی کی گنجائش موجود نہیں ہے اور اگر بالفرض ایسا ہوتا ہے تو ایسے شخص کے لیے مرتد کی اصطلاح استعمال کی جائے گی نہ اس پر کوئی حد لگائی جائی گی جیسا کہ موسی ابن میمون کے واقعے سے ظاہر ہوتا ہے۔
درج بالا مقاصد میں سے پہلے پانچ مقاصد تو وہ ہیں جن کی تحریک انسان میں خود پیدا ہوتی ہے اور وہ مذہبی تبدیلی کے عمل سے گزرنے کے لیے جستجو شروع کر دیتا ہے تاہم چھٹا مقصد انسان کے اپنے اندر اٹھی تحریک کے سبب نہیں ہوتا بلکہ جیسا کہ نام ہی سے واضح ہے کہ کوئی دوسرا شخص اس کو اس عمل سے گزارنے کے لیے ایسے طریقہ کار اختیار کرتا ہے کہ جن کے نتیجے میں چاہتے نہ چاہتے ہوئے اسے مذہبی تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ لہذا اسلام اس کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔
دین الفطرۃ
اسلام میں فطرت وہ پیدائشی طبیعت ہے جس پر انسان کو تخلیق کیا گیا ہے۔ ([70]) بعض محققین یہ استدلال کرتے ہیں کہ فطرت کی وجہ سے انسان اپنی پیدائش کے وقت اپنے خالق سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ یہ خالق اور مخلوق کے درمیان رابطہ کا ذریعہ ہے۔([71]) بعض نو مسلم بھی یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں توحید کی صورت میں اسلام میں ایک ایسا عنصر دکھائی دیتا ہے جو انہیں اسلام کو دینِ فطرت سمجھنے پر راغب کرتا ہے۔([72]) ابن جریر الطبریلکھتے ہیں:
” فطرت ایک ممتاز خاصیت ہے جس پر انسان نے اللہ کو تخلیق کیا ہے اور یہ خاصیت اسلام ہے۔“([73])
فطر کا مطلب ابداع یا اختراع بھی ہے۔ مسلمان یہ تصور کرتے ہیں کہ انسان کو چونکہ اللہ نے تخلیق کیا ہے اس لیے اللہ فاطر یعنی ایجاد کرنے والا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس انسان تقلیدی ہے۔ حتی کہ وہ اس وقت بھی تقلیدی ہوتا ہے جب وہ ایجاد یا اختراع کر رہا ہو کیونکہ ایجاد اس کے عناصر تقلیدیہ میں رکھ دی گئی ہے۔([74]) صحیح مسلم میں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
«مَا مِنْ مَوْلُودٍ إِلَّا يُولَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ وَيُنَصِّرَانِهِ وَيُمَجِّسَانِهِ»([75])
ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے۔ یہ اس کے والدین ہیں جو اسے یہودی، عیسائی اور مجوسی بنا دیتے ہیں۔
جب نبی کریم ﷺ نے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے فطرت کی وضاحت کے لیے سورۃ الروم کی آیت بھی تلاوت کی:
﴿فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْهَا لَاتَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰه﴾([76])
قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی۔
اس طرح نظریہِ فطرت کے مطابق ہر انسان ایک پیدائشی مسلمان ہے اور یہ اس کی طبیعت میں ہے کہ وہ اللہ تعالی کو ایک مانے اور اس کے حکم کے سامنے سرِ تسلیم خم کرے۔ امام نووی کے مطابق کوئی بھی شخص اس وقت تک فطرت پر ہی ہوتا جب تک کہ وہ اپنے عقیدے کا شعور نہیں رکھتا۔ ([77]) درج بالا حدیث سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ مذہبی تبدیلی کے عمل کو سمجھنے کے لیے سیاق و سباق خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ جب کوئی شخص اپنی فطرت سے تبدیلی اختیار کرتا ہے تو لازمی نہیں کہ وہ خود بھی اس کی خواہش رکھتا ہو بلکہ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے ماں باپ، سرپرست یا ماحول اسے اس تبدیلی کی طرف راغب کر دیں۔ اسماعیل فاروقی([78])لکھتے ہیں:
” اسلام Ur-Religion/Religion Naturalis یعنی اصلی/فطرتی دین ہے۔ اللہ نے انسان کو فطرت یا (Sensus Numinis) ودیعت کی ہے جس کے ذریعے انسان اللہ کو پہچانتا ہے۔ فطرت، عقل اور سائنس سے ایک بہت مختلف چیز ہے جو مسلم اور غیر مسلم دونوں میں پیدائشی طور پر موجود ہوتی ہے۔ یہ وہ صلاحیت ہے جو انسانوں کو اپنا یا پرایا مذہب تنقیدی اور مذہبی طور پر پڑھنے کی قدرت دیتی ہے۔“([79])
اس کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ نو مسلم اپنے قبولِ اسلام کے عمل کے لیے فطرت کی اصطلاح بھی استعمال کرتے ہیں جس کی بڑی وجہ ان کا اپنی اصل کی طرف واپس آنا ہوتا ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ قبولِ اسلام کا مطالعہ فطرت کے نظریے کو سمجھے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔
نتائج بحث
قبولِ اسلام کے عمل میں کارفرما پیچیدہ عناصر، عوامل اور رجحانات کو تلاش کرنے، سمجھنے اور تجزیہ کر کے بیان کرنے کے حوالے سے زیر نظر مقالے میں تبدیلیِ مذہب پر کیے گئے کام کا تنقیدی و تجزیاتی مطالعہ کیا گیا ہے۔ اس بحث سے درج ذیل نتائج و سفارشات سامنے آتی ہیں:
1۔مفکرین نے اگرچہ معاشروں اور گروہوں کے اسلام قبول کرنے کے عمل کی وضاحت کے لیے کچھ نظریات پیش کیے ہیں تاہم یہ جاننے کی کوشش کم کی ہے کہ جب کوئی فرد اسلام قبول کرتا ہے تو یہ عمل کس طرح وقوع پذیر ہوتا ہے۔ زیادہ تر معلومات کو دعوتی نقطہ نظر سے قصوں کی صورت ہی میں مرتب کر دیا جاتا ہے۔ ترک اسلام کرنے والے اشخاص و گروہوں کے متعلق معلومات کا حصول اور بھی دشوار ہے تاہم اس ضمن میں کسی قدر معلومات خود نوشت سوانح عمریوں اور انٹرویوز سے حاصل ہو سکتی ہے۔
2۔مغربی مفکرین، مذہبی تبدیلی کو مختلف اقسام مثلاً ارتداد، تشدید، الحاق، ادارہ جاتی تبدیلی وغیرہ میں تقسیم کرتے ہیں تاکہ گروہ بندی کے ذریعے اس عمل میں کارفرما پیچیدہ عناصر، رجحانات، طریقہ کار اور واقعات کو جاننے میں آسانی ہو لیکن چونکہ اسلام ان معنوں میں صرف اسلم اور ردہ کی صورت میں تبدیلیِ مذہب کے دو مراحل کو بیان کرتا ہے تو ارتداد اور مذہبی تبدیلی ہی وہ اقسام ہیں جن کا اطلاق ترکِ اسلام یا قبولِ اسلام پر ہوتا ہے، لہذا جب کوئی شخص اسلام ترک کرے گا تو اس کے لیے مرتد کی اصطلاح اور جب کوئی شخص اسلام قبول کرے گا تو اس کے لیے مسلم کی اصطلاح بیان کر دی گئی ہے۔
3۔ان مراحل سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہبی تبدیلی کا عمل صرف کسی نئے مذہب کو قبول کرنا ہی نہیں بلکہ اسے چھوڑنا بھی ہوتا ہے، لہذا ضرورت اس امر کی ہے قبولِ اسلام کے ساتھ ساتھ ترکِ اسلام کے عمل کی وضاحت کی طرف بھی توجہ کی جائے۔
4۔قرآن مجید کے مطابق اللہ کے نزدیک دین صرف و صرف اسلام ہی ہے اور یہی اس کی رو سے دین فطرت بھی ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس کو باقاعدہ قبول کر کے رو گردانی کرنے والا دوہرے انکار کا موجب بنتا ہے۔ وہ ایک طرف تو ”حق“ کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے خدا کے ساتھ کیے گئے وعدے سے عہد شکنی کرتا ہے اور دوسری طرف قانونِ فطرت سے منہ موڑتا ہے۔ اسلام ایسے شخص کے لیے قتل کی سزا تجویز کرتا ہے۔ تاہم اس کے لیے شریعت نے باقاعدہ اصول فراہم کیے ہیں جن کہ رو سے ایسے شخص کو توبہ کرنے کا موقع لازمی فراہم کرنے کی تلقین ہے۔ تاہم اگر وہ شخص توبہ نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔
5۔صحتمندانہ وغیر صحتمندانہ اور یکایک و بتدریج ہونے والی مذہبی تبدیلیوں کا الگ الگ جائزہ تجزیاتی کام کو آسان بھی بنا دیتا ہے اور معلومات کے حصول کے عمل میں آسانی بھی پیدا کرتا ہے، لہذا قبولِ اسلام کا مطالعہ اس انداز میں کرنے سے اس عمل میں کارفرما عناصر کو جاننے میں مزید بہتری آسکتی ہے۔اس سے یہ بھی پتہ چلنے میں آسانی ہو گی کہ قبولِ اسلام کا عمل انسانی صحت خاص طور پر اس کے نفسیاتی پہلو پر کیا اثرات مرتب کرتا ہے۔
6۔مغربی مفکرین مذہبی تبدیلی کے مختلف مقاصد بیان کرتے ہیں تاہم فکری، جذباتی اور احیائی مقاصد ہی اسلام قبول کرنے کے عمل میں قرآن و سنت کی روشنی میں درست معلوم ہوتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تراثِ اسلامی کا مطالعہ کر کے مزید مقاصد بھی تلاش کر کے ان کی زمرہ بندی کی جائے تاکہ قبول اسلام کے عمل کے مطالعہ کو منظم کیا جا سکے۔
”اسلم“ یا ”اسلام“ کی اصطلاح چونکہ قرآن مجید، احادیث نبوی اور اسلاف کی کتب میں مشترک ہے لہذا اس کا استعمال زیادہ موزوں تو نظر آتا ہے تاہم فطرت کی اصطلاح کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔ نظریہ فطرت کی وجہ سے ہی نو مسلم ”رجوع“ کی اصطلاح کو اس عمل کے لیے استعمال کی جانے والی دوسری اصطلاحات پر فوقیت دیتے ہیں۔ نیز احادیث مبارکہ اور مختلف مسلم مفکرین نے نظریہ فطرت کے ذریعے اس عمل کی وضاحت کی کوشش کی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ فطرت کے نظریے کو بطور فریم ورک استعمال کر کے تجزیاتی کام مزید آسان بنایا جا سکتا ہے۔
حوالہ جات
- ↑ () یہاں تبدیلیِ مذہب سے مراد مختلف فقہی مذاہب)حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی( کی تبدیلی نہیں ہے بلکہ یہاں اس اصطلاح کا مقصد کسی شخص کا کس دین کو قبول کرنا یا چھوڑنا ہے۔ اردو میں قبولِ اسلام کے حوالے سے ”نو مسلم“ کی اصطلاح تو موجود ہے لیکن اگر کوئی شخص ہندو یا سکھ مذہب سے منسلک ہو جائے تو اس مذہبی تبدیلی کے لیے کیا اصطلاح استعمال کی جائے گی؟ ”نو ہندو“ یا ”نو سکھ“ کی اصطلاح میں ایک اجنبیت پائی جاتی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اردو میں اس موضوع پر زیادہ تر کام صرف غیر مسلموں کے اسلام قبول کرنے کے متعلق ہے اور اس کے لیے ”نو مسلم“ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ اگر کوئی شخص اسلام کو چھوڑ دے تو اس کے لیے مرتد کی اصطلاح تو موجود ہے لیکن جس نئے مذہب کو اس نے قبول کیا ہے اس کے لیے اصطلاح شاید موجود نہیں۔ البتہ عربی زبان میں اس عمل کے لیے ”تحول“ یا ”تغیر“ کی اصطلاح عموماً استعمال کی جاتی ہے۔ (ہاني نسيرہ، المتحولون دينياً: دراسۃ في ظاہرة تغيير الديانۃ والمذہب، مركز اندلس دراسات التعصب والتسامح،مصر،2009ء،ص:1)
- ↑ () Christopher Lamb and M. Darroll Bryant, Religious Conversion: Contemporary Practices and Controversies (New York: Continuum International Publishing, 1999AD), 7.
- ↑ () Maha Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam: The Voices of British Converts" (Doctorate Thesis, The University of Leeds, 2002AD), 42.
- ↑ () Kecia Ali and Oliver Leaman, Islam: The Key Concepts (New York: Routledge, 2008AD),21
- ↑ () William James, Varieties of Religious Experience: A Study in Human Nature (New York: Routledge, 2002AD),150
- ↑ ()ریمبو اس وقت سان فرانسسکو تھیولوجیکل سیمینری کلیفورنیا میں پاسٹورل سائیکلولوجی کے شعبے میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فرائضِ منصبی سر انجام دے رہے ہیں۔
- ↑ () Lewis R. Rambo, Understanding Religious Conversion (New Haven: Yale University Press, 1993AD),5
- ↑ () R. T. Lawrence, "Conversion, II (Theology of)," in New Catholic Encyclopedia, ed. Thomas Carson and Joann Cerrito (New York: Gale, 2003AD), 235
- ↑ () Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam," 203
- ↑ () Tuba Boz, "Religious Conversion, Models and Paradigms," Epiphany: Journal of Transdisciplinary Studies 4, no. 1 (2011AD),130
- ↑ () مارسیا ہرمینسن ایک نامور محققہ ہیں جو لائل یونیورسٹی کے تھیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں بطور پروفیسر فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔
- ↑ () Marcia Hermansen, "Roads To Mecca: Conversion Narratives of European And Euro-American Muslims," The Muslim World 89, no. 1 (1999AD),79
- ↑ () Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam," 203
- ↑ () Lewis Ray Rambo, e-mail message to author, March 24, 2016
- ↑ () Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam," 203
- ↑ () احمد عبد الوہاب، الاسلام والادیان الاخری، مکتبہ التراث الاسلام،قاہرہ،1992ء، ص: 11
- ↑ () ابن کثیر، تفسیر القرآن العظیم، دار الطیبہ، ریاض، 1999ء، 2/ 25
- ↑ () مثلا سورۃ الحج کی آیت نمبر 78 میں قرآن مجید ابراہیم کے لیے مسلم کا لفظ استعمال کرتا ہے۔
- ↑ () سورۃ البقرۃ: 132، سورۃآل عمران:67
- ↑ () ماہا القویدی اپنے ڈاکٹریٹ کے مقالے میں استدلال کرتی ہیں کہ لفظ اسلام گرائمر کے لحاظ سے بھی خود میں ایک ممتاز حیثیت کا حامل ہے۔ جیسا کے عربی گرائمر کی رو سے لفظ اسلام ایک اسم لفظی ہے اس کے اندر ایک لفظی طاقت بھی ہے جو اس کو دوسرے ادیان مثلا عیسائیت، ہندومت اور بدھ مت پر فوقیت دیتی ہے۔۔ لفظ اسلام پر مزید بحث کے لیے دیکھیے: Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam," 64.
- ↑ () ابن کثیر،تفسیر القرآن العظیم، 2/ 26
- ↑ ()سورۃ آل عمران :64
- ↑ () محمد ناصر الطويل،اسلام القساوسۃ والحاخامات، دار طويق لنشر والتوزيع،رياض،2004ء ؛ فاروق عبد الغنی، ہم کیوں مسلمان ہوئے،کتاب سرائے،لاہور،2010ء؛ حسينى معدى،قصص ونماذج من الشرق والغرب للذين اعتنقوا الاسلام،دار الکتاب العربي، دمشق
- ↑ () المدینہ العلمیہ مجلس،مجوسی کا قبول اسلام، مکتبۃ المدینہ، کراچی
- ↑ ()Muhammad Asad, The Road to Mecca (New Delhi: Islamic Book Service, 2004); Kristiane Backer, From MTV to Mecca (London: Arcadia Books Limited, 2012); Jeffery Lang, Struggling to Surrender: Some Impressions of an American Convert to Islam (Beltsville: Amana Publications, 1995).
- ↑ () غازی احمد، میرا قبول اسلام، المکتبہ العلمیہ، لاہور، 2005ء
- ↑ () موسی ابن میمون مشہور یہودی فلسفی، مترجم، مفکر اور ماہر لسانیات تھے۔
- ↑ ()سورۃ البقرۃ :256، اس آیت کی تفسیر میں امام رازی لکھتے ہیں کہ دنیا دار الامتحان ہے۔ اور یہ امتحان اور آزمائش کے منافی ہے کہ کسی کو دین کے معاملے میں کسی بات پر مجبور کیا جائے۔ اس بات کی دلیل یہ آیت مبارکہ بھی ہے:﴿ فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ۔﴾(سورۃالکہف:29(یعنی جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: رازی ،فخر الدین محمد،التفسیر الکبیر، بیروت، دار الفکر، 1981ء، 7/15
- ↑ () Yohanan Friedmann, Tolerance and Coercion in Islam: Interfaith Relations in the Muslim Tradition (Cambridge: Cambridge University Press, 2003),145
- ↑ () قشیری،مسلم بن حجاج،صحیح، کتاب الإيمان،باب تحريم قتل الكافر بعد أن قال لا إله إلا الله،حدیث نمبر:158،دار الکتب العلمیہ،بیروت،1991ء،ص: 96
- ↑ () نووی،يحيىٰ بن شرف ، شرح النووی علی صحیح مسلم،آئیڈیاز ہوم انٹرنیشنل، ریاض، 2000ء، ص: 154
- ↑ () قشیری،صحیح مسلم ، کتاب الإيمان،باب تحريم قتل الكافر بعد أن قال لا إله إلا الله ،حدیث نمبر:155، ص: 95
- ↑ ()نووی ، شرح النووی علی مسلم، ص: 155
- ↑ () Lewis R. Rambo, "Conversion: Toward a Holistic Model of Religious Change " Pastoral Psychology 38, no. 1 (1989AD),59
- ↑ ()Ibn Warraq, Why I Am Not a Muslim (New York: Prometheus Books, 1995AD)
- ↑ () Joseph J. Hobbs, World Regional Geography (Canada: Cengage Learning, 2008AD),84
- ↑ ()Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam"; Ali Köse, Conversion to Islam: A Study of Native British Converts (New York: Kegan Paul International, 1996AD)
- ↑ () Al-Qwidi, "Understanding the Stages of Conversion to Islam," 69
- ↑ () Rambo, Understanding Religious Conversion, 70
- ↑ () Anna Bigelow, "Muslim-Hindu Dialogue," in The Wiley-Blackwell Companion to Inter-Religious Dialogue, ed. Catherine Cornille (Oxford: Wiley-Blackwell, 2013),282
- ↑ () بھٹی،محمد اسحاق، برصغیر میں مسلمانوں کے اولین نقوش، مکتبہ سلفیہ، لاہور، 1990ء، ص: 48
- ↑ () محمد بن اسحاق،سہیل زکار، کتاب السیر والمغازی، دار الفکر، بيروت، 1978ء، ص: 137، 139، 141، 143، 181
- ↑ () سورۃآل عمران :19
- ↑ () سورۃالبقرۃ: 217
- ↑ ()سورۃ آل عمران: 86
- ↑ () نسائي،احمد بن شعيب،سنن، كتاب تحريم الدم، باب تَوبة الْمُرْتَدِّ ،حدیث نمبر: 4067، بیت الافکار الدولیہ، ریاض، س۔ن، ص:427-428
- ↑ () بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح، كتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم،باب حُكْمِ الْمُرْتَدِّ وَالْمُرْتَدَّةِ،حدیث نمبر:6922،دارالسلام، ریاض، 1997، 9 /46
- ↑ () مالک بن انس، مؤطا امام مالک، كتاب الأقضيةِ،باب الأقَضَاءُ فِی مَن الرتَدّ عَنِ الاِسلَام ،حدیث نمبر: 2725، مؤسسہ زید بن سلطان، ابو ظبی، 2004ء، 4/1065
- ↑ ()سورۃ الانفال :2
- ↑ () سورۃالبقرۃ :177
- ↑ () Rambo, Understanding Religious Conversion, 13-14
- ↑ () J. Harold Ellens, Understanding Religious Experiences: What the Bible Says about Spirituality (London: Praeger, 2008AD), 117
- ↑ () Lewis R. Rambo, "The Psychology of Conversion," in Handbook of Religious Conversion, ed. H.N. Malony and S. Southard (Alabama: Religious Education Press, 1992AD), 883
- ↑ () مریم جمیلہ ایک امریکی یہودی خاتون تھیں جنہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد پاکستان میں مستقل سکونت اختیار کر لی تھی۔
- ↑ () اگرچہ قبولِ اسلام کو مریم جمیلہ نے اپنی ذہنی صحت مندی کی بڑی وجہ قرار دیا ہے تاہم ان کے خطوط سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ جب وہ امریکہ میں مقیم تھیں تو وہاں کے ڈاکٹر ان کی ذہنی مشکلات کو اچھی طرح سمجھ ہی نہ سکے۔ پاکستان میں ہجرت کے بعد ایک طرف تو ان کی بیماری کی تشخیص درست انداز میں ہو گئی اور دوم انہیں رہنے کے لیے ایسا سادہ ماحول میسر آگیا جس کی وہ کافی عرصے سے خواہشمند تھیں۔ (Maryam Jameelah, At Home in Pakistan (1962-1989): The Tale of an American Expatriate in Her Adopted Country (Lahore: Adbiyyat, 2012), 25.)
- ↑ ()Maryam Jameelah, Western Civilization Condemned by Itself: A Comprehensive Study of Moral Retrogression and Its Consequences, 2 vols., vol. 1 (Lahore: Mohammad Yusuf Khan, 1971AD), XII.
- ↑ () Leon Salzman M.D., "Types of Religious Conversion," Pastoral Psychology 17, no. 6 (1966AD), 66.
- ↑ () محمد بن اسحاق، السيرة النبويۃ، ص: 222-23
- ↑ () مفکرین اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مذہبی تبدیلی کو ایک واقعے کی بجائے ایک مسلسل عمل کے طور پر پڑھنا چاہیے۔ یہ درست ہے کہ بعض اوقات یہ تبدیلی ایک مسلسل عمل کی بجائے ایک یا دو نشستوں میں مکمل ہو جاتی ہے تاہم بعض مفکرین کے نزدیک زیادہ تر اسے ایک مسلسل عمل کے طور پر وقوع پذیر ہوتا دیکھا گیا ہے۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: Rambo, Understanding Religious Conversion, 1
- ↑ () Ralph W. Hood Jr., Peter C. Hill, and Bernard Spilka, The Psychology of Religion: An Empirical Approach (New York: The Guilford Press, 2009AD), 215.
- ↑ () امینہ جنان ایک عیسائی مبلغ تھیں جنہوں نے بعد میں اسلام قبول کر لیا اور اپنی زندگی کو اسلام کی تبلیغ کے لیے وقف کر دیا۔(فاروق، عبد الغنی،ہم کیوں مسلمان ہوئے، ص:41)
- ↑ () فاروق، عبد الغنی،ہم کیوں مسلمان ہوئے، ص:43-44
- ↑ ()John Lofland and Norman Skonovd, "Conversion Motifs," Journal for the Scientific Study of Religion 20, no. 4 (1981AD).
- ↑ () اس موضوع پر تفصیل سے جاننے کے لیے دیکھیں: انور اللہ، حضرت سلیمان فارسی کا ہدایت کی جانب سفر، مرکز دعوت التوحید، اسلام آباد، 2005ء
- ↑ () سورۃالبقرۃ :1
- ↑ () تھانوی، اشرف علی، التکشف عن مھمات التصوف، کتب خانہ اشرفیہ، دہلی، ص: 7
- ↑ ()بخاری،صحیح، کتاب الجنائز،باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلى عليه وهل يعرض على الصبي الإسلام، حدیث نمبر: 1356،2/252
- ↑ () ایضاً، کتاب مناقب الأنصار، باب إسلام أبي ذر الغفاري رضي الله عنه، حدیث نمبر:3861 ، 5/118
- ↑ () Rambo, Understanding Religious Conversion, 14-16
- ↑ () مرتضی مطہری، الفطرۃ،مؤسسۃ البعثۃ، بیروت، 1996، ص:11
- ↑ () Sayed Qutab, The Power of Sovereignty: The Political and Ideological Philosophy of Sayyid Qutb ,(London: Routledge, 2006AD), 70
- ↑ ()عبدالغنی فاروق،ہم کیوں مسلمان ہوئے، ص: 22
- ↑ () طبری،محمد بن جریر، عبداللہ بن عبد المحسن ترکی، تفسیر الطبری جامع البیان عن تاویل آی القرآن، دار ہجر،قاہرہ،2001، ص:493
- ↑ ()مطہری، الفطرۃ، ص: 12
- ↑ ()مسلم، صحیح، کتاب القدر،باب معنى كل مولود يولد على الفطرة وحكم موت اطفال الكفار واطفال المسلمين، حدیث نمبر: 185،ص:2047
- ↑ ()سورۃ الروم: 30
- ↑ () امام نووی، ابو کریب سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہیں جس کے مطابق ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے یہاں تک کے وہ اپنی زبان سے اپنے عقیدے کا اظہار نہ کر دے۔ مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے: نووی، شرح النووی علی مسلم، ص: 1575
- ↑ () اسماعیل راجی الفاروقی، ایک فلسطینی مسلمان، محقق، فلسفی اور عالم دین تھے جو یورپ اور ایشیا کی مختلف یونیورسٹیوں میں درس و تدریس کے شعبے سے منسلک رہے ہیں۔(https://ismailfaruqi.com/biography November 11, 2019)
- ↑ () Ismail Raji Al-Faruqi, Islam And Other Faiths (Markfield: The Islamic Foundation, 1998AD), 139
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |