8
1
2019
1682060032214_388
97-112
https://www.numl.edu.pk/journals/subjects/157552574106-149-URD-V8-1-19-Formatted.pdf
https://numl.edu.pk/journals/subjects/157552574106-149-URD-V8-1-19-Formatted.pdf
Egyptian Muḥaddithīn Ḥadīth and its sciences scholarly contribution categorizing and organizing
محدث شیخ احمد عبد الرحمن البنا الشہير بالساعاتى
آپ كا پورا نام شیخ احمد بن عبد الرحمن بن محمد البنا الساعاتى ، الشافعى ([1])ہے ۔آپ كا شمار مصر كے معروف ومشہورمحدثين ميں ہوتا ہے۔آپ كو اللہ تعالى نے خدمت حديث كا قابل رشك جذبہ عطا كيا تھا۔ زاہدانہ زندگى گزارتے ہوئے آپ نےاپنے آپ كو ہمہ تن اس طرف متوجہ كيا تھا ۔ خصوصى طور پر آپ نے جس مسند پر كام كرنے كا ارادہ كيا وہ امام احمد بن حنبل كى مسند ہے۔ اس كام ميں ايك حد تك محدث شیخ سيد احمد محمد شاكر ([2])نے بھى آپ كا ساتھ ديا۔ آپ نے يوں تو بہت سارے علماءكرام اور شیوخ سے استفادہ كيا ليكن جس شخصيت سے آپ زىادہ متاثر تھے وہ شیخ محمد زہران تھے جن كوآپ ہميشہ عالم محقق ، محيي السنۃ اور خادم القرآن والسنۃ وغيرہ جيسے عالى قدر القاب سے ىاد كرتے تھے([3])
ان كے علاوہ آپ نے جن اساتذہ سے مختلف علوم كي تحصيل ميں استفادہ كيا اُن ميں سے بعض كو آپ نے اپنى مؤلفات ميں ذكر كيا ہے اُن ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں :
شیخ محمد ابو رفاعى،ان كے ہاتھ آپ نے قرآن كريم حفظ كيا اور آپ نے احكام تجويد بھی سيكھے([4])۔ شیخ محمدزہران، فقيہ عالم تھے ان سے آپ نے فقہ اور اصول فقہ ميں استفادہ كيا۔ ([5])
مؤلفات
آپ كى گراں قدر مؤلفات ميں سے چند ايك كے نام ذيل ميں ذكر كيے جاتے ہيں :
1.تنوير الافئدة الزكية في أدلة أذكار الوظيفة الزروقية، 2.بدائع المنن في جمع وترتيب مسند الشافعي والسنن، 3.الفتح الرباني بترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني وشرحه بلوغ الأماني من أسرار الفتح الرباني، 4.منحة المعبود في ترتيب مسند الطيالسي أبي داؤد ومعه شرحه التعليق المحمود.
احمد بن عبد الرحمن الساعاتى كا شمار خاص طور پر ان محدثين ميں ہوتا ہے جنہوں نے مسند امام احمد بن حنبل پر نہايت عمدہ اورجامع كام كيا ہے ۔ مسندپر آپ كا يہ گرانقدر كام تحقيق اور حسن ترتيب كے حوالے سے ہے ۔ اسى مسند پر دقيق اندا ز ميں كام كرنے كا اندازہ ايك واقعہ سے ہوتا ہے ۔سید محمد رشيد رضا([6]) اور شيخ احمد محمد شاكركے درميان مسند امام احمد بن حنبل ميں ايك حديث، جس ميں منافقين كے حوالے سے اعلان تھا بحث، چھڑ گئى ۔ سید محمد رشيدرضا كے نزديك يہ حديث مسند احمد ميں موجود ہے جبكہ احمد محمد شاكر نے عبد اللہ بن مسعود كى روايت ميں اس كى موجودگى سے انكار كيا ۔ دونوں چونكہ كبار محدثين ميں شمار كيے جاتے تھے اور دونوں نے اسى مسند كى خدمت ميں زندگى كے شب روز گزارے تھے اس لیے ان كے درميان حَكم بننے كے لیے كون تىار ہوسكتا تھا؟ اس كام كے لیے احمد بن عبد الرحمان البنا تىار ہوئے ۔ آپ نے ١٧ صفر ١٣٥٠ھ ميں سید رشيد رضا كو لكھا كہ يہ حديث مسند ميں موجود ہے ليكن يہ عبد اللہ بن مسعود كی مرویات ميں سے نہيں بلكہ ابو مسعود كی مرویات ميں سے ہے اور آپ كو اُس قديم نسخے كى نص اور صفحہ نمبر بتاديا جو ١٣١3ءميں مطبعہ ميمنہ سے شائع ہوا تھا([7]) ۔
اس واقعہ سے مسند احمد كے ساتھ احمد بن عبد الرحمن بن البنا الساعاتى كے گہرے تعلق اور اس كے بارے ميں وسيع علم اور معلومات كا اندازہ ہوتا ہے ۔
وفات:آپ بدھ كے دن ٨ جمادى الاولى سنۃ ١٣٧٨ھ بمطابق ١٩ نومبر ١٩٥٨ كو ٧٧ سال كى عمر ميں وفات پاگئے ۔
آپ كى نماز جنازہ قلعہ صلاح الدين ايوبى كى مسجد الرفاعى ميں شیخ سيد سابق([8]) نے پڑھائى۔آپ کو امام شافعى كے مزار كے نزديك اپنے بيٹے امام حسن البنا([9]) کی قبر كے قريب دفن کیا گیا ([10])۔
الفتح الربانى كا منہج
احمد عبد الرحمن البنا الساعاتى كي يوں تو حديث اورعلم حديث پرگراں قدر تاليفات ہيں مگر جس كام نے آپ كو علماءحديث اور خصوصا بيسويں صدي كے مصرى علماءحديث ميں ايك قدر ومنزلت اور بلند مقام ومرتبہ عطا كيا اور جو آپ كي وجہ شہرت بني وہ”الفتح الربانى لترتيب مسند الامام احمد بن حنبل الشيبانى“ كي صورت ميں موجود ہے([11])۔اس سے پہلے كہ اس كتاب كو از سر نومرتب كرنے ميں شیخ احمد عبد الرحمن البنا كے منہج اور اسلو ب كا جائزہ ليا جائے، امام احمد بن حنبل اور اُن كي مسند كا مختصر تعارف پيشِ خدمت ہے۔
نام ونسب : آپ كا نام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل بن ہلال الذہلى الشيبانى ، البغدادى ہے۔زىادہ شہرت آپ نے احمد بن حنبل نام سے پائى۔ حنبلى مذہب كے امام ہونے كے ناطے ائمہ اربعہ ميں مشہور ومعروف امام گنے جاتے ہيں ۔ آپ ١٦٤ھ ميں بغداد ميں پيدا ہوئے۔ صالح بن احمد بن حنبل اپنے والد محترم سے نقل كرتے ہيں كہ :
"وُلدتُ في سنة أربع وستين ومائة في أولها في ربيع الأول"([12])
ميرى ولادت ١٦٤ ھ کوربيع الاول ميں ہوئى۔
آپ كي عمر تين سال كي تھى كہ والد كا سايہ سر سے اٹھ گيا۔ آپ نے بچپن ميں قرآن مجيد حفظ كيا اور زبان وادب كي تعلىم حاصل كي ۔تقوى ، طہارت ، شرافت اور صالحیت كي آ ثار ابتداء ہي سے نماياں تھے ۔ آپ كو ديكھ كر اس دور كے مشہور امام اور فقيہ ہيثم بن جميل نے كہا تھا :
”اگر يہ جوان زندہ رہا تو اہل زمانہ پر حجت ہوگا۔“([13])
ابتدائى عمر ميں حصول علم ميں مگن رہنے كے حوالے سے آپ فرماتے ہيں :
"طلبتُ الحديثَ سنة تسع وسبعين ومائة"([14])
ميں نے سنہ ١٧٩ ھ ميں تعلیم حدیث کا آغاز کیا۔
امام احمد بن حنبل نے جب بغداد ميں علماء كي مجالس سے استفادہ كرنا شروع كيا تو سب سے پہلے امام ابويوسف كي خدمت ميں حاضر ہوكر ان سے روايات اخذ كيں۔پھر چار برس تك امام ہشيم بن بشير بن ابو حازم (م ١٨٣ ھ) سے استفاددہ كرتے رہے([15])۔آپ نے جن ديگر علماء حديث سے احاديث رواىت كيں اُ ن ميں عفان بن مسلم ، وكيع بن الجراح، عبدالرزاق بن ہمام الصنعانى ، يحيي بن سعيد القطا ن، يزيد بن ہارون ، عبدالرحمن بن مہدى اور سفيان بن عيينۃ وغيرہ شامل ہيں ۔ آپ سے جن علماء حديث نے احاديث روايت كيں ان ميں ابو عبد اللہ محمد بن اسماعيل بخارى(١٩٤-٢٥٦ھ)، مسلم بن حجاج نيشاپورى (٢٠٤ھ-٢٦١ھ)، ابو داؤد سليمان بن اشعث (٢٠٢ھ-٢٧٥ھ) ، آپ كے دونوں بيٹے عبد اللہ ، صالح ، على بن المدينى ، يحيي بن معين ، ابو زرعہ ، ابو حاتم ،امام شافعى ، ابن مہدى اور عبد الرزاق وغيرہ خاص طورپر قابل ذكر ہيں۔([16])
آپ زندگى ميں كئى آزمائشوں سے گزرے جن ميں سب سے بڑا امتحان آپ كے لیے فتنہ خلق قرآن([17]) تھا جن ميں آپ بفضل خداوندى ثابت قدم رہے ۔
مؤلفات
آپ كي مؤلفات ميں چند ايك درج ذيل ہيں :
المسند، كتاب الأشربة الصغير، كتاب الإيمان، كتاب الرد على الجهمية، كتاب الزهد، كتاب العلل ومعرفة الرجال،كتاب فضائل الصحابة،كتاب المناسكوغيره۔
وفات
سنہ ٢٤١ ھ كے ماہِ ربيع الاول كے ابتدائى دنوں ميں آپ بيمار پڑ گئے۔ لوگ جوق درجوق آپ كي زىارت اور عيادت كے لیے آنے شروع ہوگئے۔ آپ كے دونوں بيٹے بھى آپ سے ملنے آئے۔اُس وقت آپ تيز ى سے سانسيں لے رہے تھے۔اسى بىمارى ہى كے دورا ن آپ جمعہ والے دن چاشت كے وقت اپنے خالق حقىقى سے جاملے۔ وفات كے وقت آپ كي عمر ٧٧ سال تھى۔ عصر كے بعد آپ كي تدفين عمل ميں لائى گئى۔ آپ كے بيٹے عبد اللہ بن احمد بن حنبل كہتے ہيں :
"توفي أبي في يوم الجمعة صحوة ودفناه بعد العصر لاثنتي عشرة ليلة خلت من شهر ربيع الأول سنة احدى وأَربعين ومائتين"([18])
سنہ ٢٤١ ھ ميں ١٢ ربيع الاول كو ميرے والد محترم جمعہ والے دن چاشت كے وقت وفات پاگئے اور عصر كے بعد ہم نے اُن كو دفن كيا۔
مسند امام احمد بن حنبل
كتب متون حديث كى شہرہ آفاق كتب ميں سے ايك مسند اما م احمد بن حنبل ہے ۔ يہ كتاب امام احمد بن حنبل كا وہ علمى كارنامہ ہے جو زندہ جاويد اور امت مسلمہ كے لیے مشعل راہ ہے امام احمد بن حنبل نے اپنى اس مسند ميں سات سو صحابہ كرام كي روايات جمع كيں ہيں۔ جن كي تعداد تيس ہزارہے ۔ آپ كے صاحبزادے عبد اللہ بن احمد نے بھى اس ميں مزيد روايات درج كي ہيں اور ان سے روايت كرنے والے حافظ ابو بكر القطيعى نے بھي اضافے كيے ہيں([19])۔ مصادر حديث ميں جتنى روايات آئى ہيں ان كي اصل امام احمدكي مسند ميں موجود ہے۔ حافظ شمس الدين جزرى لكھتے ہيں:
"ما من حديث غالباً إلا وله أصل في هذا المسند والله أعلم"([20])
ہر حديث كا اصل غالباً اس مسند ميں موجود ہے واللہ اعلم۔
دوسرى اور تيسرى صدي ہجرى ميں جو مسانيد مدون ہوئيں ان كے مقابلہ ميں امام احمد كي مسند صحت كے لحاظ سے اعلي درجہ كي ہے ۔ شاہ ولى اللہ نے مسند احمد كو طبقہ ثانيہ كي كتب كے قريب قريب بتايا ہے ([21])۔
مسند احمد كي احاديث كا درجہ
امام احمد بن حنبل نے اپنى مسند كے لیے مذكورہ احاديث كا انتخاب اُن لاكھوں احاديث سے كيا جو آپ كو زبانى ىاد تھيں ۔ بعض نے مبالغہ كرتے ہوئے يہاں تك لكھا ہے كہ اس ميں مذكور تمام احاديث صحيح ہيں اور بعض حضرات كے مطابق اس ميں نو اور پندرہ احاديث موضوع ہيں ۔اصل بات یہ ہے کہ امام احمد نےجو روایات اخذ کی ہیں وہ قابل قبول اور قابل عمل ہیں،البتہ آپ کےصاحبزادہ عبداللہ بن احمد اور مسند کے راوی امام ابوبکر القطیعی نے مسند میں جو روایات درج کی ہیں ان میں سے بعض پر علماء کا کلام پایا جاتا ہے۔ جلال الدين سيوطى نے مسند امام احمد كي احاديث كا درجہ بىان كرتے ہوئے اپنى كتاب كے خطبہ ميں لكھا ہے :
"وكل ما كان في مسند أحمد فهو مقبول، فإن الضعيف فيه يقرب من الحسن"([22])
مسند امام احمد بن حنبل كي احاديث مقبول ہيں كيونكہ اس كي ضعيف احاديث بھى حسن كے قريب ہيں۔
الفتح الربانی میں شیخ احمد عبدالرحمٰن الساعاتی كا اسلوب
شیخ احمد الساعاتی نے اپنی تالیف الفتح الربانی میں جو منہج اور اسلوبِ تدوین اختیار کیا ہے اس کے درج ذیل پہلو قابل ذکر ہیں:* امام احمد کی کتاب جو کہ انواع المصنفات فی الحدیث کی رو سے ”مسند“ کہلاتی ہے اور ”مسند“ حدیث کی اس کتاب کہ کہتے ہیں جسے اس کے مؤلف نے صحابہ کرام کے ناموں کی ترتیب کے مطابق مرتب کیا ہو۔ مقصد یہ ہے کہ صحابہ کرام کی مرویات کوصحابہ کرام کے فرقِ مراتب پیش نظر رکھ کر جمع کیا ہو۔ عام طور سے ”مسند“ میں سب سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق کی مرویات کو درج کیا جاتا ہے اور اسے مسند ابو بکر الصدیق کا عنوان دیا جاتا ہے، پھر سیدنا عمر فاروق کی مرویات کو مسند عمر بن الخطاب کے تحت جمع کیا جاتا ہے۔پھر سیدنا عثمان اور سیدنا علی کی مرویات کو مسند عثمان اور مسند علی کے ذیل میں درج کیا جاتا ہے۔اس کے بعد عشرہ مبشرہ کی صف میں جو صحابہ آتے ہیں ان کی مرویات کو ترتیب دیا جاتا ہے۔ امام احمد نے اپنی مسند میں سات سو صحابہ کرام کی مرویات کو اخذ کیا ہے۔ جن کی تعداد تیس ہزار بنتی ہے۔ آپ کے علاوہ آپ کے صاحبزادہ عبداللہ اور مسند کے راوی امام ابو بکر القطیعی نے دس ہزار روایات کا اضافہ کیا ہے۔مجموعی طور پر یہ مسند چالیس ہزار احادیث وآثار پر مشتمل ہے اور اس وقت حدیث کے جتنے مصادر دستیاب ہیں ان میں سب سے زیادہ ضخیم اور وقیع حیثیت کی حامل ہے۔
- امام احمد کی مسند تیسری صدی ہجری سے لے کر اب تک پورے تسلسل کے ساتھ حدیث کے اساتذہ اور طلبہ کے لیے متداول رہی۔ اس مسند کی بہت اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں احکام شرعیہ کی مستدلات بکثرت پائی جا رہی ہیں۔ اس لیے اہل السنۃ والجماعۃ سے تعلق رکھنے والے فقیہ اور قاضی نے اس کو مرجع کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے اور اس کی احادیث سے استدلال وا ستنباط کیا ہے۔ کتاب چونکہ بہت ضخیم ہے اور احکام سے تعلق رکھنے والی احادیث منتشر صورت میں منضبط ہیں اس لیے ضرورت اس بات کی تھی کہ اس میں درج احادیث کو ابواب کے تحت مرتب کیا جائے، تاکہ حدیث کے اساتذہ اور طلبہ سہولت کے ساتھ اس سے استفادہ کر سکیں اور جو حدیث جس موضوع سے متعلق ہو، اس تک اس باب کی مدد سے براہ راست رسائی حاصل کی سکے۔امام احمد کی مسند کی تبویب وتفصیل کے ضمن میں کئی علماء حدیث نے کوششیں اور کاوشیں کی، لیکن یہ جو کہ بہت طویل المیعاد منصوبہ تھا اس لیے کسی دور میں بھی مکمل نہیں ہو سکا۔ شیخ احمد الساعاتی کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی۔آپ نے مسند امام احمد کا بہت اہتمام اور التزام کے ساتھ مطالعہ کیا اور اس کی احادیث کی تبویب کے لیے بہت عمدہ اور خوبصورت خاکہ تیار کیا۔اس خاکے کے مطابق احادیث کو متعلقہ ابواب کے تحت مدون کیا۔
- امام احمد کا تعلق چونکہ تیسری صدی ہجری سے ہے اس لیے آپ کے لیے اسناد میں رواۃ کی تعداد متقدمین کی بہ نسبت بڑھ جاتی ہے۔ آپ کی مسند میں خماسیات بھی ہیں، سداسیات بھی ہیں اور سباعیات بھی آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے موادِ علمی کا حجم بہت بڑھ گیا ہے۔شیخ احمد الساعاتی نے الفتح الربانی میں مسند کی ترتیب وتبویب کرتے ہوئے اسناد کو حذف کر دیا ہے اور ہر سند کے آخری راوی پر اکتفا کیا ہے۔حذفِ اسناد کا فائدہ یہ ہوا کہ مسند سے استفادہ کرنے والے حدیث کے اساتذہ اور طلبہ براہ راست حدیث کی نص تک پہنچ جاتے ہیں اور نصوص سے استدلال واستنباط کرتے ہیں۔ ہاں جہاں سند كا ذكر كرنا انتہائى ضرورى ہو وہاں آپ نے سند كو ذكر كيا ہے۔مثلاً كتاب التوحيد ميں حضرت ابن عباس سے مروى ايك حديث سند سميت ذكر كرتے ہيں :
حدثنا عبد الله حدثنى أبي ثنا حسين بن محمد ثنا جرير يعني ابن حازم عن كلثوم بن جبير عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبى صلى الله عليه وآله وسلم قال:«أخذ الله الميثاق من ظهر آدم عليه السلام بنعمان يعني عرفة، فأخرج من صلبه كل ذرية»([23])
الله تعالى نے آد م كى پشت سے نعمان يعنى عرفہ كے مقام پر اُن كي تمام ذريت كو نكال كر اُن سے عہد و پيمان ليا ۔
جبكہ اس باب كي تيسرى حديث كو بغير سند كے ذكر كرتے ہوئے صرف آخری راوى یعنی صحابی پر اكتفا كرتے ہيں :
وعن أنس بن مالك رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وآله وسلم قال:«يقال للرجل من أهل النار يوم القيامة...»([24])* آپ نے رواۃِ حدیث كے تراجم كو ذكر نہيں كيا۔ ہاں مناقب صحابہ، جو قسمِ تاريخ ميں سے ہيں اور جو كتاب كي چھٹى قسم ہے ،ميں رواۃ كے تراجم كو ذكر كيا ہے ۔
- آپ نے انتہائى عمدہ انداز ميں متن حدیث ميں وارد غريب الفاظ كو عام فہم انداز ميں بيان كيا ہے ۔ مثال كے طور پر اللہ تعالى كي عظمت ،كبرىائى ، كمال اور مخلوق كي اس كى طرف حاجت كے ضمن ميں ايك حديث ميں وارد لفظ ”القسط“ كي وضاحت كرتے ہوئے لكھتے ہيں:
"المراد بالقسط الميزان يعنى أن الله تعالى يخفض ويرفع ميزان أعمال العباد المرتفعة إليه يقللها لمن يشاء ويكثرها لمن يشاء كمن بيده الميزان يخفض تارة ويرفع أخرى وهذا تمثيل وقيل المراد به الرزق خفضه تقليله ورفعه"([25]).
قسط سے مراد ميزان ہے يعنى اللہ تعالى اپنے بندوں كے اعمال كے ميزان كو جس كے لیے چاہتا ہے كم ىا زىادہ كرتا ہے جيسا كہ كسى كے ہاتھ ميں ترازو ہو او ر وہ اسے كبھى كم اوركبھى زىادہ كرتا ہے ۔ اور بعض كے نزديك اس سے مراد رزق ہے اس كا نيچے كرنا، كم كرنا اور اس كا ا وپر كي طرف اٹھانا، اس ميں اضافہ كرنا ہے ۔ * ہر ایک حديث کی فنی حیثیت كي تخريج كرتے ہیں اوركتب حديث كے لیے ايك خاص رمز كو ذكر كيا ہے اور يہ وہى طريقہ ہے جو جلال الدين السيوطى نے اپنى كتاب الجامع الصغير ميں اختيار كيا ہے۔ بعض جگہ پر لفظ ”تخريجہ“ لكھ كر آپ نے اُن كتابوں كو ذكر كيا ہے جن ميں يہ حديث رواىت كي گئى ہو مثلا حديث:
عن ابن عمر رضي الله عنهما أنه سمع النبى صلى الله عليه وآله وسلم يقول:«كلكم راع ومسؤول عن رعيته...»تخريجه:أخرجه البخاري من طرق متعددة ورواه مسلم والترمذي.([26])
تم ميں سے ہر ايك نگہبان ہے اور اُس سے اُس كي رعيت كے بارےميں پوچھا جائے گا۔ اس حدیث کو امام بخاری نے کئی طرق کے ساتھ روایت کیا ہے اور امام مسلم اور امام ترمذی نے بھی اس کو روایت کیا ہے۔* جس حديث كے بارے ميں آپ نے جہاں لكھا ہے "لم أقف عليه" تو اس سے يہ معلوم ہوتا ہے كہ يہ حديث شيخ الساعاتی كو كتب اصول ميں نہيں ملى اور يہ ممكن ہے كہ اس حديث كو امام احمد بن حنبل نے منفردطور پر ذكر كيا ہو۔ جس كي ايك مثال ذيل ميں دى جاتى ہے ۔
عن ابن عمر رضي الله عنهما أن عمر رضي الله عنه خطب بالجابية فقال قام فينا رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم مقامي فيكم فقال:«استوصوا بأصحابي خيرا ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم يفشو الكذب حتى أن الرجل ليبتدي بالشهادة قبل أن يسئلها...»([27])
حضرت عبد اللہ بن عمر کہتے ہیں حضرت عمر نے جابیہ مقام پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:نبی اکرم ﷺ ہم میں اس جگہ پر کھڑے ہوئے جہاں میں تم میں کھڑا ہوں اور آپ ﷺ نے فرمايا : ميرے صحابہ كرام كے بارے ميں خيرخواہى كا جذبہ ركھا كرو پھر اُن كے بارے ميں جو اُن كے قريب ہيں پھر اُن كے جو اُن كے قريب ہيں ۔ پھر كذب پھيل جائے گا يہاں تك كہ ايك شخص اس سے پہلے كہ اس ٍ سے گواہى طلب كي جائے،گواہى دے گا۔
اس حديث كي تخريج ميں آپ لكھتےہيں:
"لم أقف عليه لغير الإمام أحمد وسنده صحيح ورجاله ثقات".([28])
يہ حديث مجھے امام احمد بن حنبل کی مسند كے علاوہ كسى اور كي كتاب ميں نہيں ملى۔ سند كے اعتبار سے يہ صحيح ہے اور اس كے تمام راوى ثقہ ہيں۔ * كتاب كي اقسام ميں سے ہر قسم كے اختتام پرآپ اُس قسم كے تحت مذكورہ كتابوں كو اجمالا ذكر كرتے ہيں نيز ان كتابوں ميں شامل احاديث كي تعداد كو بيان كرتے ہوئے اس كے بعد والى قسم كي طرف اشارہ كرتے ہيں۔ مثلا پہلى قسم جو توحيد اور اصول الدين سے متعلق ہے، كے آخر ميں لكھتے ہيں :
"انتهى القسم الأول من الكتاب وقد اشتمل على خمسة كتب1.كتاب التوحيد وفيه اثنان وأربعون حديثا 2.كتاب الإيمان وفيه تسعة أحاديث ومائة 3.كتاب الفقه وفيه ستة وأربعون حديثا 4.كتاب العلم وفيه واحد وثمانون حديثا 5.كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة وفيه ثلاثون حديثا ومجموع ما اشتمل عليه هذا القسم ثمانية أحاديث وثلاثمائة ويليه القسم الثاني من الكتاب وهو قسم الفقه" ([29])
كتاب كي پہلى قسم مكمل ہوئى جو پانچ كتابوں پر مشتمل تھى۔ ١۔ كتاب التوحيد اور اس ميں بىاليس احاديث ، ٢۔كتاب الايمان اور اس ميں ايك سو نو احاديث ، 3۔كتاب الفقہ اور اس ميں چھياليس احاديث ، 4۔كتاب العلم اور اس ميں اكياسى احاديث، 5۔ كتاب الاعتصام بالكتاب والسنۃ اور اس ميں تيس احاديث ہيں۔ مجموعى طور پر اس اس قسم ميں تين سو آٹھ احاديث ہيں۔ اس كے بعد كتاب كي دوسرى قسم كا آغاز كيا جائے گا جو فقہ سے متعلق ہے ۔ * آپ حديث كے آخر ميں انتہائى دل نشيں اندا ز ميں اپنا مختصر مگر جامع تبصرہ پيش كرتے ہیں مثال كے طور پر ايك حديث جسے امام بخارى نے روايت کیا ہے، ميں آنحضرت ﷺ معن بن يزيد اور اُن كے والد كو ارشاد فرماتے ہيں :
"لك ما نويت يا يزيد ولك يا معن ما أخذت"([30])
اے يزيد تمہارے لیے وہ ہے جس كي آپ نے نيت كي اور معن آپ كے لیے وہ جو آپ نے لے لىا(صدقہ لے لیا)۔
پر تبصرہ كرتے ہوئے آپ لكھتے ہيں :
"أن العبرة بالنية وأن للمتصدق أجر ما نواه سوا ء صادف المستحق أم لا وأن الأب لا رجوع له في الصدقة على ولده بخلاف الهبة والله أعلم"([31])
اصل نيت ہے اور صدقہ كرنے والے كے لیے اجر اس كي نيت كے بقدر ہے چاہے صدقہ مستحق كو ملے ىا غير مستحق كو ، اوريہ كہ والد صدقہ ميں رجوع نہيں كرسكتاالبتہ ہبہ ميں كرسكتا ہے۔ * آپ متن ميں مذكور غير معروف مقام كي وضاحت بھي كرتے ہيں تاكہ قارى كے لیے اس مقام كو پہچاننے ميں آسانى ہو ۔ مثال كے طور پر ايك حديث ميں جو مناقب صحابہ ميں مذكور ہے، ايك مقام كا ذكر آيا ہے جو جابىہ كہلا تا ہے ۔ آپ اس كي وضاحت ميں لكھتے ہيں:
"الجابية قرية معروفة بجنب على ثلاثة أميال منها من جانب الشمال وإلى هذه القرية ينسب باب الجابية أحد أبواب دمشق"([32])
الجابيہ ايك مشہور ومعروف گاؤں ہے جو دمشق سے تين ميل كے فاصلے پر شمال كي طرف واقع ہے ۔اسى گاؤں كي طرف دمشق كے دروازوں ميں سے ايك دروازہ باب الجابيہ منسوب ہے ۔ * آپ نے مختصر متون كو ان كے اصول كي طرف لوٹايا ہے اور يہ اس طرح كہ مسند احمد ميں بعض مقامات پر انتہائى طويل احاديث ذكر كي گئى ہيں جو متنوع احكام پر مشتمل ہيں اورجن كا تعلق مختلف ابواب سے ہوتا ہے۔ آپ نے ايك مرتبہ تو ان احاديث كو متعلقہ ابواب ميں ذكر كيا ہے ليكن دوسرے مرحلے ميں آپ نے ان كو اجزا ميں تقسيم كرتے ہوئے ان كے ايك ايك جز كو مناسب ابواب ميں ذكر كيا ہے۔ قارى بادى النظر ميں سمجھتا ہے كہ يہ پورى حديث ہے حالانكہ وہ حديث نہيں بلكہ ايك طويل حديث كا ايك ٹكڑا ہوتا ہے۔ كيونكہ اگر ہر باب ميں اس كو ذكر كيا جائے تو يہ كتاب لمبى ہوجائے گى اور اگر ايك باب ميں ركھى جائے تو دوسرے ابواب محروم رہ جائيں گے۔
- آپ كے بقول مسند احمدميں ١٤ احاديث ميں سے ٩ پر حافظ عراقى نے طعن كيا ہے اور ابن جوزى نے ١٥ احاديث كو موضوعات ميں ذكر كيا ہے۔ ان كا جواب ابن حجر عسقلانى نے اپنى كتاب القول المسدد فى الذب عن مسند الامام احمد ميں دیا ہے ۔ اور يوں آپ نے ان احاديث كو مطعون اور موضوع ہونے سے بچانے كي كوشش كي ہے۔ شیخ عبد الرحمن الساعاتى كے بقول يہ احاديث متفرق طور پر مسند ميں مسانيد كے تابع اور ميرى كتاب ميں ابواب كے تابع مذكور ہيں۔
- آپ نے كتب اصول واحاديث كے لیے اپنى كتاب الفتح الربانى ميں جو رموز استعمال كيے وہ يہ ہيں(خ) للبخارى في صحيحه،(م) لمسلم فى صحيحه، (ق)للبخاري ومسلم، (د) لأبي داؤد، (مذ) للترمذي، (نس) للنسائى، (جه) لابن ماجه، (الأربعة) لأصحاب السنن الأربعة أبي داود والترمذي والنسائي وابن ماجه، (الثلاثة) لهم إلا ابن ماجه، (ك) للحاكم في المستدرك، (حب)لابن حبان في صحيحه، (طب) للطبراني في معجمه الكبير، (طس) له في الأوسط، (طص) له في الصغير، (ص) لسعيد بن منصور في سننه، (ش) لابن أبي شيبة، (عب) لعبد الرزاق في الجامع، (عل) لأبى يعلى في مسنده، (قط) للدار قطني في سننه، (حل) لأبي نعيم في الحلية، (هق) للبيهقي في السنن، (لك) للإمام مالك، (فع) للإمام الشافعي فان اتفقا على اخراج حديث قلت أخرجه الإمامان، (نه) النهاية لابن الأثير محدث([33]).
- آپ نے اپنى كتاب الفتح الربانى ميں امام احمد بن حنبل كا ترجمہ بھى ذكر كيا ہے جن ميں ان كے نام ونسب ، والد كي وفات ، مشايخ ، طلب حديث ، صفات اور تاريخ وفات وغيرہ كو دلنشيں انداز ميں بیان كيا ہے([34])۔ اس كے بعد آپ نے مسند احمدكا تعارف تفصيل سے پيش كيا ہے([35])۔
- آپ نے مكرر احاديث ميں سے اُن احاديث كا انتخاب كيا ہے جو زىادات پر مشتمل ہيں اور جو سند كے لحاظ سے زىادہ مستند ہيں ۔
- آپ نے مسند ميں مذكور تمام احاديث اپنى كتاب ميں جمع كي ہيں ماسوائے اس کے كہ كوئى حديث سہوا ىا نسيان سے رہ گئى ہو ۔
- آپ نے مسند احمد ميں مذكور احاديث كى چھ اقسام ذكر كي ہيں:
ان ميں پہلى قسم وہ احاديث ہيں جن كو آپ كے صاحبزادے ابو عبد الرحمن عبد اللہ بن امام احمد نے اپنے والد محترم سے رواىت كيا اور وہ مسند امام احمد كہلاتا ہے اور يہ بہت ضخيم ہے۔ دوسرى قسم كي وہ احاديث ہيں جن كو عبد اللہ نے اپنے والد محترم سے براہ راست سنا اور يہ كم ہيں۔ تيسرى قسم كي احاديث وہ ہيں جن كو عبد اللہ نے والد صاحب كے علاوہ كسى اور سے روايات كيا ۔ يہ تعداد میں زيادہ ہيں ۔ چوتھى قسم وہ احادیث ہيں جن كي قراءت عبد اللہ نے اپنے والد كے سامنے كي اور ان سے نہ سنى ہوں ۔ يہ بھى كم ہيں۔ پانچويں وہ جن كي نہ آپ نے والد كے سامنے قراءت كي اور نہ اُن سے سنى ليكن والد صاحب كى كتاب ميں اُن كو ملى۔ يہ بھى كم ہيں۔ چھٹى قسم كي احاديث وہ ہيں جن كو حافظ ابو بكر القطيعى نے عبد اللہ اور ان كے والد كے علاوہ كسى اور سے روايت كيا ہے۔ يہ كل چھ اقسام ہيں ان ميں پہلى اور دوسرى قسم كى احاديث كو چھوڑ كر باقى كے لیے رموز ذكر قائم كيے۔
مسند كو از سر نو مرتب كرتے وقت آپ نے ايك اور فقيد المثال كام كيا اور وہ یہ کہ اس مسند كو سات بڑى اقسام ميں تقسيم كردیا جس نے اس مسند كي خوبصورتى اور عمدگى ميں بے پناہ اضافہ كرديا۔ آپ كى يہ حكمت بھرى تقسيم حديث كے شغف ركھنے والوں پراس كتاب كا مطالعہ كرتے وقت خود بخود كھلتى جاتى ہے اور وہ اس كا بخوبى تامّل اور ادراك كرتے ہیں كہ يہ ترتيب کسبی نہيں بلكہ ايك حكمت اور نظام كے تحت ہے جس كے لیے بقول شیخ احمد عبد الرحمن اللہ رب العزت نے اُن كے لیے شرحِ صدر فرمایا تھا۔ ان ميں سے ہر قسم يقيناً ايك مستقل تاليف كي حيثيت ركھتى ہے۔ آپ نے جن سات اقسام ميں مسند احمدكي احاديث كو تقسيم كيا وہ اجمالا يہ ہيں :
سب سے پہلى قسم توحيد اور اصول الدين سے متعلق ہے كيونكہ ہر مكلف پر سب سے پہلے واجب يہي واجب ہے۔ پھر فقہ ، پھر تفسير ، پھر ترغيب پھر ترہيب ، پھر تاريخ ، پھر قيامت اور پھر آخرت كے احوال۔ ان ميں سے ہر قسم كئى كتب پر مشتمل ہے اور ہر كتاب كے تحت كئى ابواب ذكر ہيں۔ بعض ابواب ميں كئى فصول ہيں ۔ كتاب اور باب كو بھى ايك دوسرے كے پيچھے ركھنے ميں ايك حكمت ہے۔
ان اقسام كي تفصيل درج ذيل ہے:
پہلى قسم توحيد اور اصول الدين سے متعلق ہے اور اس ميں آپ نے درج ذيل كتابوں كو شامل كيا ہے:
كتاب التوحيد، كتاب الايمان، كتاب القدر، كتاب العلم، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة.
دوسرى قسم فقہ كے حوالے سے ہے جس ميں چار انواع سے متعلق احاديث مختلف كتابوں كے تحت جمع كى گئى ہيں يہ انواع اور كتب درج ذيل ہيں: * پہلی نوع عبادات ہے۔ اس كے تحت:كتاب الطهارة، كتاب التيمم، كتاب الحيض والنفاس،كتاب الصلاة،كتاب الجنائز، كتاب الزكوة ،كتاب الصيام،كتاب الحج والعمرة ،كتاب الهدايا والضحايا،كتاب العقيقة، كتاب اليمين والنذر،كتاب الجهاد،كتاب السبق والرمي،كتاب العتقاوركتاب الأذكارجيسى كتابيں شامل كي گئى ہيں۔
- دوسری نوع معاملات سے متعلق ہےاس كے تحت: كتاب البيوع والكسب والمعاش، كتاب السلم، كتاب القرض والدين، كتاب الرهن، كتاب الحوالة والضمان،...كتاب الوقف، كتاب الوصايا اور كتاب الفرائض جيسى كتابيں ذكر كي گئى ہيں۔
- تيسری نوع قضايا اور احكام سے متعلق ہے اس ميں درج ذيل كتابيں شامل ہيں:كتاب القضاء والشهادات،كتاب القتل والجنايات وأحكام الدماء، كتاب القصاص، كتاب القسامة، كتاب الدية، كتاب الحدود وفيه أبواب السحر والكهانة والتنجيم.
- چوتھی نوع شخصى احوال اور عبادات سے متعلق ہيں اس كے تحت:كتاب النكاح، كتاب الطلاق، كتاب الرجعة، كتاب الإيلا، كتاب الظهار، كتاب اللعان، كتاب العدد، كتاب النفقات، كتاب الحضانة والرضاع، كتاب الأطعمة، كتاب الأشربة، كتاب الصيد والذبائح، كتاب الطب اور...كتاب اللباس والزينةوغيرہ جيسى كتابيں ذكر كي گئى ہيں۔
تيسرى قسم قرآن كريم كى تفسير سے متعلق ہےاس قسم ميں قرآن كريم سے متعلق فضائل ، احكام ، قراءات ، اسباب نزول ، ناسخ منسوخ ، تفسير وغيرہ سےبحث ہے۔
چوتھى قسم ترغيب سے متعلقہ احاديث پر مبنى ہے۔ اس ميں مسند الامام احمد بن حنبل كى درج ذيل كتابوں كو شامل كيا گياہے۔
كتاب النية والإخلاص في العمل، كتاب الاقتصاد، كتاب الخوف من الله تعالى، كتاب البر والصلة وفيه إكرام الوالدين وبرهم وصلة الرحم وحقوق الأقارب والجيران والضيافة وتعظيم حرمات المسملين والتعاون والتناصر وغيره۔
پانچويں قسم ترہيب سے متعلق ہے اور اس كے تحت درج ذيل كتابيں ذكر كى گئيں ہيں ۔
كتاب الكبائر وأنواع أخرى من المعاصي وفي عدة أبواب كالترهيب من عقوق الوالدين وقطع الصلة والترهيب من الرياء والكبر والخيلاء والتفاخر والنفاق وفيه أبواب ذكر المنافقين...والترهيب عن الظلم والباطل والحسدوغيره۔
چھٹى قسم تاريخ پر مبنى ہے جس ميں پہلے خليفہ سے لے كر عباسى خلافت كى ابتدا تك كے واقعات ملتے ہيں ۔اس كے تحت تين حلقات ذكر كيے گئے ہيں :* پہلے حلقے ميں كائنات ، پانى ، عرش ، لوح ، قلم ساتوں زمينوں ، آسمانوں ، پہاڑ ، دن ، رات ، سمندر ، سورج ، چاند اور ديگر اشياء كي پيدائش سے متعلق نيز عہد اسماعيل سے لے كر آنحضرت ﷺ كى پيدائش تك عربوں كے احوال سے متعلق احاديث جمع كى گئى ہيں۔
- دوسرے حلقے ميں تاريخ سے بحث كى گئى ہے۔ اس ميں تين قسم كي كتابيں شامل ہيں جن ميں پہلى قسم ميں سيرت النبى (پيدائش سے لے كر مدينہ منورہ كى طرف ہجرت تك) كے واقعات كا ذكر ملتا ہے۔ دوسرى قسم ميں سيرت النبى سے متعلق حوادث (ہجرت كے بعد سے لے كر آپ ﷺ كي وفات تك) سے متعلق احاديث جمع كى گئى ہيں۔ جبكہ تيسرى قسم شمائل وصفات رسول ، معجزات اور اولاد رسول ﷺوغيرہ پر مشتمل ہے۔
- تيسرے حلقے ميں صحابہ كے فضائل كا بيان ہے ۔ پہلے مہاجرين كا ذكر ہے ، اس كے بعد انصار ، پھر عشرہ مبشرہ ، پھر اہل بيعت رضوان ، پھر اہل بدر ، پھر وہ صحابہ جو غزوہ احد ميں شريك ہوئےاور آخر ميں مكہ اور مدينہ وغيرہ جيسے مقدس اماكن سے متعلقہ احاديث جمع كي گئی ہيں ۔
كتاب كى ساتويں اور آخرى قسم آخرت اور اس سے پہلے جن فتنوں كا ظہور ہوگا، سے متعلق ہے۔ اس قسم كے تحت جن كتابوں كو ذكر كيا گياہے اُن ميں:
كتاب الفتن والملاحم،كتاب أشراط الساعة وعلاماتها وما جاء في المهدي وفي ذكر المسيح الدجال ونزول سيدنا عيسى وذكر یاجوج وماجوج وطلوع الشمس من مغربها وغلق باب التوبة وخروج الدابة وغير ذلك من العلامات الكبرى ثم كتاب القيامة والنفخ في الصور والبعث والنشور والحساب والميزان والصراط والحوض والشفاعة والنار وصفتها وأهوالها من زفير وشهيق وصفة أهلهاوغيرہ شامل ہيں۔
خلاصہ بحث
زير نظر مقالہ ميں جس عظيم شخصيت كي محدثانہ خدمات اور خصوصى طور پر ان كي شہرہ آفاق تصنيف الفتح الربانى لترتيب مسند امام احمد بن حنبل كے منہج اور اسلوب پر روشنى ڈالنے كي كوشش كي گئى، وہ بيسويں صدي كے شيخ احمد عبد الرحمن البنا الساعاتى ہيں ۔ آپ نے احاديث پرجہاں ديگر كتب تاليف كيں وہاں آپ نے مسند الامام احمد بن حنبل كو از سر نو مرتب كرتے ہوئے الفتح الربانى لترتيب مسند احمد حنبل الشيبانى جيسى فقيد المثال كتاب كو قارئين كے لیےپيش كيا جس سے مسند احمدكے حسن وجمال اور عمدگى ميں بے تحاشا اضافہ ہوا۔ آپ كي يہ كتاب دار الاحياءالتراث العربى سے شائع چكى ہے ۔ بيسويں صدى كے اس عظيم محدث كي حىات مباركہ ، خدمات حديث اور خصوصى طور پر كتاب الفتح الربانى ميں آپ كے منہج اوراسلوب پر روشنى پڑتى ہے اور ساتھ ساتھ قارى كو مذكورہ صدي ميں سرزمين مصر پر حديث كے ميدان ميں تحقیق سے آگاہى ملتى ہے ۔ اس مقالے میں امام احمد بن حنبل کی مسند اور اس کی ترتیب الفتح الربانی کا تعارف کیا گیا ہے۔
ہمارے ہاں عام طور پر حدیث کے اساتذہ اور طلبہ مصادر حدیث میں سے کتبِ ستہ کا مطالعہ کرتے ہیں اور انہی چھ کتابوں کو مصادر اساسیہ سمجھتے ہیں۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عرصہ دراز سے مدارس دینیہ کے طلبہ کے لیے جو نصاب مقرر کیا گیا ہے، اس میں ان چھ کتابوں کو رکھا گیا ہے۔ نصاب میں ہونے کی وجہ سے اساتذہ حدیث انہی مصادر کا مطالعہ کرتے ہیں اور طلبہ بھی انہی کتب سے استفادہ کرتے ہیں۔حالانکہ ان چھ کتب سے پہلے دوسری صدی ہجری میں علماء حدیث نے حدیث کے میدان میں گرانقدر تالیفی خدمات انجام دی ہیں۔
مسند امام احمد بن حنبل بھی تاریخ کے لحاظ سے اسناد عالیہ کی حامل ہے اور امام نے اپنی مسند میں جتنی روایات اخذ کی ہیں وہ سب قابل قبول اور قابل عمل ہیں۔ حدیث کے حلقوں میں دیگر مصادر کے مقابلے میں اس کے تداول کی کمی کا بنیادی سبب یہی رہا کہ اس کی ترتیب دوسری صدی ہجری میں رائج منہج و اسلوب کی بنیاد پر رکھی گئی جس کی وجہ سے اس سے استفادہ کرنے میں دقت محسوس ہوتی تھی۔شیخ احمد الساعاتی کا امت مسلمہ پر بطور عام اور حدیث کے اساتذہ وطلبہ پربطور خاص یہ احسان ہے کہ مسند کی ترتیب وتبویب کا بیڑا اٹھا کر آپ نے اس کی تقدیم اس انداز واسلوب سے کی ہے کہ اب یہ کتاب بڑی سہولت کے ساتھ قابل استفادہ ہوئی ہے۔
حوالہ جات
- ↑ () زركلى،خير الدين بن محمود بن محمد الدمشقى ، الاعلام ، دارالعلم للملاىىن ،٢٠٠٢ م،١/ ١٤٨
- ↑ ()محدث شیخ احمد محمد شاكر (١٣٠٩-١٣٧٧ھ/١٨٩٤-١٩٥8ء) معروف شخصیت ہیں،متون كتب حديث پر تحقيق كے كام كرنے كا شرف بيسويں صدى كے جن مصرى محدثين كو حاصل ہوا اُن ميں ايك نام احمد محمد شاكركا ہے (ازہرى،اسامہ السيد محمود، اسانيد المصريين ، دار الفقيہ للنشر والتوزيع ،٢٠١٤م ، ص: ٣١٤)
- ↑ ()اسامہ السيد محمود ازہرى ، اسانيد المصريين ، ص: ٢٥٧
- ↑ ()ساعاتى،احمد عبد الرحمن البنا، الفتح الربانى، دار احياءالتراث العربى، طبع دوم،س ن،24/232
- ↑ ()ایضًا،24/233
- ↑ ()رشيد رضا (١٨٦٥ – ١٩٣٥م) لبنان كے شمالى علاقے لقمون ميں پيدا ہوئے۔ جمال الدين افغانى كي شخصيت و فكر سے بہت متاثر تھے۔(بعلبكى،منير ،اعلام المورد، دار العلم للملايين ، بيروت ، طبع اول:١٩٩٢م، ص:٢٠٦)
- ↑ ()اسامہ السید محمود ازہری،اسانيد المصريين ، ص:٢٥٨
- ↑ ()مصر كے بيسويں صدى كے معروف فقيہ اور محدث ہيں ۔ آپ كى كتابوں ميں سے فقہ ميں كتاب فقہ السنہ اور عقيده ميں العقائد الاسلاميہ خاص طور پر قابل ذكر ہيں ۔ (سید سابق،فقہی احکام و مسائل کا عظیم الشان انسائیکلوپیڈیا،مترجم:ڈاکٹر عبدالکبیر محسن،مکتبہ اسلامیہ،لاہور،2015،1/35)
- ↑ ()حسن البنا (١٣٢٤ھ -١٣٦٨ھ/١٩٠٦م-١٩٤٩م ) آپ نے مصر ميں جماعت الاخوان المسلمون كي بنىاد ركھى۔ درس وتدريس سے وابستہ رہے۔آپ ١٩٤9ء ميں قاہرہ ميں شہىدكيے گئے۔( كحالہ،عمر رضا،معجم المؤلفين،مكتبہ المثنى،بيروت،س ن،3/200)
- ↑ ()احمد عمر ہاشم ،محدثون فى مصر والازہر الشريف، مكتبہ غريب ،مصر ،س۔ن،ص: ٣١٦ ، ٣١٧
- ↑ ()خیر الدین زرکلی،الاعلام،١ / ١٣٨
- ↑ ()ذہبی،محمد بن احمد،سیر اعلام النبلاء،مؤسسۃ الرسالۃ، طبع سوم:1985م،11/51،مزى ، ابو عبد اللہ ، تہذيب الكمال فى اسماء الرجال ،مؤسسۃ الرسالۃ، بيروت،طبع اول: ١٤٠٠ھ ،١/٤٤٥
- ↑ ()چشتى،پروفيسر ڈاكٹر على اصغر، تاريخ ادب حديث ، پورب اكادمى،اسلام آباد،طبع اول: ٢٠١٧ ، ص: ١١٧
- ↑ ()ذہبی،سیر اعلام النبلاء،11/51،چشتى ، تاريخ ادب حديث، ص: ١١٧
- ↑ ()ايضاً ،ص:١٧
- ↑ ()ابن حجر عسقلانى ، تہذيب التہذيب ، مطبعہ دار المعارف النظاميۃ ، الہند ،طبع اول: ١٣٢٦ ھ،١/١٢٦
- ↑ ()فتنہ خلق القرآن معتزلى فكر سے عبارت ہے جسے عباسى خليفہ مامون، مطمئن اور قانع ہوكر اسے اپنى سلطنت ميں زبردستى پھيلانا چاہتے تھے۔ اس دور كے مجتہد اور امام احمد بن حنبل نے اس فكر كي بھر پور مذمت كى اور اس كے بدلے ميں خليفہ وقت کا ہر قسم كا تشدد وعناد برداشت كيا۔ (ذہبی،سیر اعلام النبلاء، 11/237)
- ↑ ()ابن كثير ،ابو الفداءاسماعيل بن عمر بن كثير القرشى الدمشقى، البدايۃ والنہايۃ،دار احياء التراث العربى،طبع اول:١٩٨٨ء، ١٠/٣٤٠
- ↑ ()محمد بن احمد ذہبي ، سير اعلام النبلاء، ١٣/٥٢٢
- ↑ ()جزری،محمد بن محمد،المصعد الاحمد،مکتبہ التوبہ،ریاض،سعودی عرب،1347ھ،1/33
- ↑ ()ذہبی،سیر اعلام النبلاء،1/52،چشتى ، تاريخ ادب حديث ، ص: ١١٩
- ↑ ()سيوطى،جلال الدين عبد الرحمن بن كمال،جامع الجوامع (الجامع الكبير)، الازہر الشريف ، مجمع البحوث الاسلاميۃ،طبع دوم:١٤٢٦ء، خطبۃ الكتاب
- ↑ ( )امام احمد بن حنبل ، مسند ، مؤسسۃ قرطبۃ ، قاہر ہ، طبع اول: ٢٠٠١ء، ٤ /٢٦٧
- ↑ ()امام احمد بن حنبل ، مسند ، ص:٣٤ ، ٣٥
- ↑ ()ساعاتى،احمد عبد الرحمن البنا،مقدمۃ الفتح الربانى لترتيب مسند امام احمد بن حنبل الشيبانى،دار احيا ءالتراث العربى،بیروت،س ن ، ص:٣٦
- ↑ ()ایضاً، ص:١٧
- ↑ ( )امام احمد بن حنبل،مسند، ١ / ٢٦٨
- ↑ ()ایضا ، ص:١٦٨
- ↑ ()احمد عبد الرحمن البنا ساعاتى،مقدمۃ الفتح الربانى ، ١ /٢٠٠
- ↑ ()امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت معن اور ان کے والد یزید کا رقم میں اختلاف ہوا،حضرت یزید نے کچھ مال ایک شخص کو صدقہ کیا تو ان کے صاحبزادے حضرت معن اس صدقہ کی رقم میں سے کچھ لے لی۔یہ واقعہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے یزید تمہارے لیےصدقہ کا اجر ہے اور اے معن آپ کے لیے وہ ہے جو آپ نے لے لیا۔ (بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری،کتاب الزکاة،باب إذا تصدق على ابنه وهو لا يشعر،حدیث نمبر:1422،دار طوق النجاۃ، طبع اول:1422ھ،2/111)
- ↑ ()احمد عبد الرحمن البنا ساعاتى،مقدمۃ الفتح الربانى ، ١٩ /٣
- ↑ ()ايضاً
- ↑ ()احمد عبد الرحمن البنا ساعاتى،مقدمۃ الفتح الربانى ،٥/٢
- ↑ ()احمد عبد الرحمن البنا ساعاتى،مقدمۃ الفتح الربانى ، ص:٦
- ↑ ()ايضا، ص: ٨، ٩
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 8 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |