Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Basirah > Volume 7 Issue 1 of Al-Basirah

سیرت طیبہ ﷺ کی روشنی میں تصور فلاح و بہبود |
Al-Basirah
Al-Basirah

نبی کریم ﷺ کی بعثت سے قبل نادار غریب لوگ معاشرہ کا مظلوم ترین طبقہ تھا۔ آپ ﷺ نے عملی طور پر اس طبقہ کی دلجوئی فرمائی۔ یہ آپﷺ کی تعلیمات کا ہی ثمرہ تھا کہ دولت و ثروت بڑا ہونے کا معیار نہ رہا بلکہ تقویٰ معیار بنا۔ تعلیمات نبوی میں اس طبقہ سے ہمدردی و غمگساری کے پس پردہ ذاتی مفادات کا شائبہ تک نہیں، صرف اور صرف رضائے الٰہی مقصود ہے ۔

 

آپ ﷺ نے اہل اسلام کو مشکل لمحات میں باہمی نصرت و اعانت کی ترغیب دلائی، اسی طرح اجتماعی طور پر معاشرہ کے افراد اور حکومت کو بھی اس سلسلہ میں ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا ہر ایک کو اس کی رعیت کے بارے میں ذمہ داریوں سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی امت کو جسد واحد قرار دے کر اس جانب متوجہ کیا کہ دوسروں کے لئے خدمات سرانجام دینے والے در حقیقت اپنی ضروریات کی تکمیل کر رہے ہوتے ہیں۔ ارشادِ نبویﷺہے:

 

«وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ»([1])

 

جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے تو اللہ کی مدد اس کے شامل حال رہتی ہے۔

 

اسلامی معاشرہ ایک Co-Operative Societyکی طرح ہے ۔ ایک دوسرے کی مالی ہی نہیں، اخلاقی مدد کرنا بھی فریضہ ہے، اسی لئے تو خندہ پیشانی سے ملنے کو بھی صدقہ قرار دیا گیا۔ یہاں تو بچت کا تصور ہی یہ ہے کہ مخلوق خدا پر رضائے الہی کے لئے جو کچھ خرچ کیا جائے گا وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جمع ہوتا ہے ۔ تعلیمات نبوی کے مطابق آسمان سے رحمت و برکت کا نزول انسانی خدمت پر موقوف ہے۔

 

فلاح کا مفہوم

فلاح، فلح سے ماخوذ ہے جو کہ ف ل ح کے مادہ سے ہے جس کے معنی راہ پانا، حاصل کرنااور کامیابی حاصل کرنا ہیں۔([2])، قرآن مجید میں ہے:

 

﴿قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکَّاهَا﴾([3])

 

وہ کا میاب ہو گیا جس نے اپنا تزکیہ کیا۔

 

﴿قَدْ اَفْلَحَ الْمُوْ مِنُوْنَ﴾([4])

 

مو من کامیابی حاصل کر گئے۔

 

قرآن مجید کا تصورِفلاح اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے اور اس فلاح کا تعلق صرف دنیاوی زندگی سے ہی نہیں بلکہ اُخروی زندگی پر بھی محیط ہے۔ارشادباری تعالیٰ ہے:

 

﴿فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّة فَقَدْ فَازَ﴾ ([5])

 

جو جہنم سے بچ گیا اور جنت میں چلاگیاوہ کامیاب ہو گیا۔

 

رسول اللہ ﷺفرمایا کرتے تھے:

 

«يَا أَيُّهَا النَّاسُ قُولُوا: لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، تُفْلِحُوا»([6])

 

لوگو! لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہ کہو کامیاب ہو جاؤ گے۔

 

اس سے واضح ہوتا ہے کہ قرآنی تصور کے مطابق اصل کامیابی وہ ہے جس سے دوزخ سے نجات اور جنت کا حصول ممکن ہو۔یہی وجہ ہے کہ آیت ﴿قَدْاَفْلَحَ مَنْ زَکَّاهَا﴾وہ کامیاب ہو اجس نے اپنا تزکیہ کیا، میں کامیابی کو تزکیہ سے مشروط کیا گیا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے فرائض منصبی میں سے ایک منصب"یزکيهم"([7]) یعنی لوگوں کا تزکیہ کرنا بھی ہے تاکہ وہ ظاہری اور باطنی پاکیزگی حاصل کر کے دنیا وی اور اُخروی فلاح و کامیابی حاصل کر سکیں۔

 

فلاح وبہبود کا قرآنی و نبویﷺ تصور

انسانیت کی خدمت نمودونمائش کےلئے نہ ہو بلکہ مقصود و مطلوب رضائے الٰہی ہو ۔ اس خدمت کے بعدنہ احسان جتلایا جائے اور نہ ہی ضرورت مند کو ذلیل ورسوا کیا جائے ۔ خرچ کرنے والوں کی قرآن نے یہ خوبی بیان کی ہے:

 

﴿الَّذِیْنَ یُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللهِ ثُمَّ لاَیُتْبِعُونَ مَاأَنفَقُوا مَنّاً وَلاَ أَذًی لّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَرَبِّهِمْ وَلاَخَوْفٌ عَلَیهِمْ وَلاَ هُم یَحْزَنُون﴾([8])

 

جو لوگ اپنا مال راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں اور جو کچھ انہوں نے خرچ کیا ہو اس پر کوئی منت اور احسان نہیں جتلاتے اور اذیت نہیں پہنچاتے ان کی جزا ان کے پروردگار کے ہاں محفوظ ہے اور انہیں کوئی خوف اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔

 

فلاح وبہبود کے کاموں میں ریاکاری اور نمودو نمائش سے بچنا از حد ضروری ہے کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے ریاکاری کو شرک کی قسم قرار دیا ہے اور ایک ریاکار کے لئے احادیث میں بہت سخت وعید آئی ہے۔ جہنم کے نچلے درجے میں ایک ریاکار سخی بھی ہو گا۔

 

اسلام یہ قطعاً پسند نہیں کرتا کہ انسانی خدمت کے ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جو جائز نہیں بلکہ حرام ہیں۔ اسی لئے باطل ذرائع آمدن سے کی گئی خدمت اللہ کے ہاں قبول نہیں جیسا کہ سورہ بقرہ میں ہے:

 

﴿يسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا وَیَسْأَلُونَكَ مَاذَایُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ کَذَلِكَ یُبیِّنُ اللهُ لَکُمُ الآیَاتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُونَ﴾([9])

 

آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے، اور آپ سے یہ بھی پوچھتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں؟ فرما دیں: جو ضرورت سے زائد ہے (خرچ کر دو)، اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو۔

 

اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا امین احسن اصلاحی﷫نے اس نکتہ کی بڑی خوبصورتی سے وضاحت کی :

 

“کہ اس آیت نے اسلامی شریعت کا یہ مزاج واضح کر دیا کہ جو چیزیں اخلاقی اعتبار سے مضر ہیں اگر ان سے کوئی فائدہ بظاہر بنی نوع انسان کو پہنچنا بھی ہو یا پہنچایا بھی جا سکتا ہو تب بھی ان کے ضرر کے پہلو کے غلبہ کے سبب اسلام میں ان سے احتراز ہی واجب ہے“۔ ([10])

 

اسلام اعتدال پسند دین ہے افراط و تفریط سے یہ فرد اور معاشرہ دونوں کو پاک دیکھنا چاہتا ہے۔ امت وسط([11])اعتقادی اور عملی دونوں جہتوں سے میانہ رو ہے۔ اسی تناظر میں یہ بات بھی درست ہو گی کہ ’’ فلاح وبہبود‘‘ دین اسلام کے مختلف شعبہ جات میں سے ایک شعبہ ہے، کل دین نہیں بلا شبہ اس کا مقام اور اجر بہت زیادہ ہے لیکن دین کے دیگر تقاضوں کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ’’خدمت خلق کل دین نہیں ہے‘‘ کے عنوان سے جلا ل الدین عمرانصری لکھتے ہیں:

 

”اسلام کی بنیاد عقائد کے بعد اعمال صالحہ پر ہے لیکن تمام اعمال صالحہ ہی درجہ اور ایک ہی حیثیت کے نہیں ہیں “۔

 

انسانی فلاح کا عملی اظہار خدمت خلق کی شکل میں رُونما ہوتا ہے اور اس بار ے میں تعلیمات نبوی و سیرت طیبہ ہمارے لیے بہترین رہنمائی کرتی ہیں۔ رسول اللہﷺ نے فلاح و خدمت انسانیت کے لیے سنہری اُصول متعین کیے ہیں۔ارشاد نبویﷺ ہے:

 

«خَيْرُ النَّاسِ من يَنْفَعُ النَّاسِ»([12])

 

تم میں سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کو نفع دے۔

 

خدمت خلق کے یہ سنہرے اصول فلاح بنی آدم کا حقیقی مظہر ہیں، جن سے قوموں کی زندگیوں میں معاشی، معاشرتی، سماجی کامیابیاں رونما ہوتی ہیں۔خدمت خلق کا دائرہ کار بہت وسیع ہے۔انسان کی اپنی ذات، عزیز واقارب، پڑوسی، دوست احباب، عورت، غلام، قیدی، ذمی، غیرمسلم، جانور حتى کہ فصلوں تک کے حقوق متعین کر کے دراصل خدمت خلق کا درس دیا گیا ہے۔اِس میں انفرادی اور اجتماعی فلاح کا راز مضمر ہے۔ تمام ادیان میں لوگوں کی بھلائی کا تصور ہے۔

 

فلاح و بہبود کیلئے آپ ﷺ کے عملی اقدامات

انسانیت کا درد اور محبت خاندان رسالت مآب ﷺ کا ایک خصوصی امتیاز تھا۔ آپ ﷺ کے جد امجد قصى نے سقایہ اور رفاده جیسے خالص فلاح و بہبود کے مناصب قائم کئے عبد مناف کو جو دو سخا کی بنا پر ’’ الفیاض‘‘ کا لقب عطا کیا گیا ۔

 

قبل از نبوت فلاح وبہبود کے عملی اقدام

رسول اللہﷺکی بعثت سے پہلے عرب میں کوئی مضبوط سیاسی نظام نہیں تھا۔جس کی وجہ سے ایک سیاسی و سماجی انتشار پایا جاتا تھا، اور لوگوں کی جان ومال محفوظ نہ تھے، باز پرس کرنے والا کوئی نہ تھا، دورِ جہالت میں لوگوں پر ظلم وستم اور ان کی حق تلفی بہت عام تھا ۔ اس صورت حال کو بعض دردمند لوگوں نے بدلنا چاہا۔ مشورہ کے لیے عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ ظلم و زیادتی کو ہرقیمت پر روکا جائے گا۔کسی بھی شخص پر چاہے وہ مکہ کا رہنے والا ہو یا باہر سے آیا ہو ظلم نہیں ہونے دیا جائے گا۔ظالم کے خلاف مظلوم کی حمایت کی جائے گی اور اسے اس کا حق دلوایا جائے گا اور ضرورت مندوں اور محتاجوں کی مدد کی جائے گی۔رسول اللہ ﷺ بھی اس معاہدہ میں شریک تھے، یہ معاہدہ آپ ﷺکی بعثت سے پہلے ہوا تھا۔

 

آپ ﷺ کے دل میں لوگوں کی خیرخواہی، بھلائی اور مظلوم کی مدد کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔چنانچہ دور جہالت میں ہونے والا یہ معاہدہ ’’حلف الفضول‘‘کے نام سے معروف ہے۔جس کا ذکر سیرت کی تقریباً تمام کتب میں ہے۔

 

قاضی سلیمان منصور پوری نے ’’قیام امن و نگرانی حقوق کی انجمن کا انعقاد‘‘ کے عنوان سے اس معاہدہ کا جو منشور تحریر کیا وہ درج ذیل ہے:

 

۱۔ہم ملک سے بد امنی دور کریں گے۔

 

۲۔ہم مسافروں کی حفاظت کیا کریں گے۔

 

۳۔ہم غریبوں کی امداد کرتے رہیں گے۔

 

۴۔ہم زیر دست پر ظلم کرنے سے روکا کریں گے۔([13])

 

اس معاہدہ کے حوالہ سے سیرت نگاروں نے فلاح و بہبود عامہ کے پہلو کا ذکر کیا ہے۔

 

بعد از نبوت فلاح وبہبود کے عملی اقدام

بعد از نبوت آپﷺ نے نہ صرف چھوٹوں، بڑوں، والدین، اولاد، عورت، مرد، غلام نوکر، غیرمسلم بلکہ حیوانوں تک کے حقوق مقرر فرمائے۔ ان سے بھی آپﷺ کے جذبہ خیر خواہی کا علم ہوتا ہے۔آپ ﷺ ہر ایک کے ساتھ خیر خواہی، ہمدردی اور حسنِ سلوک سے پیش آتے تھے۔آپﷺ کو کسی نے دُکھ دیتے نہیں دیکھا بلکہ آپﷺ نے ہمیشہ ہی خیر و برکت کی باتیں کیں اور آپ ﷺ خدمت خلق کا باعث ہوئے۔

 

آپ ﷺ کا وجود ِ مسعود ہی کائنات کے لیے رحمت تھا:

 

﴿وَمَا اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِیْنَ﴾([14])

 

اے نبیﷺ، ہم نے آپ کو دنیا والوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔

 

آپﷺ نے تجارت میں لوگوں کی خیر خواہی کا پہلو سامنے رکھا۔ کبھی کسی کے سامنے جھوٹ نہیں بولا۔کسی پر زیادتی نہ کی۔مال میں کوئی نقص ہوتا تو بتا دیتے تھے۔ حضرت خدیجۃ الکبری ﷞ کی تجارت کے لیے تشریف لے گئے تو وہاں بھی آپ ﷺ مال کے بارے میں ہر لحاظ سے وضاحت کرتے تھے۔

 

فلاح وبہبود کے لئے تعلیمی و تربیتی سرگرمیاں

قوموں کو اس وقت عروج حاصل ہوتا ہے جب علم میں ان کا مقام بلند ہوتا ہے۔علم کی قدرومنزلت کی وجہ سے حضور ﷺ نے مسلمانوں کو علم کی طرف راغب کیااور آنحضور ﷺ کے کئی اِرشادات ہیں جن سے علم کی اہمیت روزِ روشن کی طرح واضح اور عیاں ہو جاتی ہے۔

 

آپﷺ نے فرمایا:

 

«طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ»([15])

 

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

 

مسلمان پر حصولِ علم فرض قرار دیا تاکہ ایک مسلم دنیا کے رائج علوم میں ماہر ہوکر اپنی دنیوی اور اُخروی ہر زندگی کو آسان بنا سکے اور اپنے ملک اور قوم کی فلاح و کامیابی کے متعلق سو چے ۔اللہ تعالیٰ علم حاصل کرنے پر مسلمانوں کی حوصلہ افزائی یوں فرماتا ہے۔

 

﴿إِنَّمَا یَخْشَی اللّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَآء﴾ ([16])

 

حقیقت یہ ہے کہ بندوںمیں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اللہ سے ڈرتے ہیں۔

 

سید نا صفوان بن عسال مرادی ﷜ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ ﷺ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے۔انھوں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ میں علم حاصل کرنے آیا ہوں۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

 

«فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًى بِمَا يَصْنَعُ»([17])

 

بے شک علم حاصل کرنے والے کے لیے فرشتے اپنے پر بچھا دیتے ہیں اس چیز سے خوش ہو کر جو وہ کرتا ہے۔

 

اصحاب صفہ کے ساتھ نبی کریمﷺ کا تعلق بھی علم وعمل کی اہمیت پر روشنی ڈالتا ہے۔مسجد نبوی ﷺ میں دو مجالس میں سے علم کی مجلس کو آپ ﷺ کا پسند کرنا بھی اہمیت علم کو واضح کرتا ہے۔ علم والی مجلس اور ذکر والی مجلس دونوں کی تعریف فرمائی لیکن خود علم والی مجلس میں تشریف رکھ لی۔حضرت ابو سعید خدری ﷜ سے مروی ہے۔رسول ﷺ نے فرمایا:

 

“علم حاصل کرو اور اس کے لیے سکون ووقار بھی سیکھو اور جن سے تعلیم حاصل کرتے ہو ان کا احترام کرو اور متکبر عالموں میں سے نہ بن جاؤ“۔ ([18])

 

اہل صفہ مومنین کا وہ جلیل القدر گروہ ہے کہ جن کے احوال خبر دیتے تھے کہ ایمان کی حلاوت جس کو نصیب ہو جائے پھر اسے اپنی مفلوک الحالی، بھوک، پیاس اور دیگر تعیشات زندگی کی کوئی پرواہ نہیں رہتی، نبی ﷺ نے مختلف اسلوب اختیار کرکے اس اقامتی ادارہ کے طلباء کی اعانت فرمائی۔ اس سلسلہ میں اسؤہ رسول ﷺ سے درج ذیل نکات سامنے آتے ہیں۔

 

1۔ضرورت مندوں کی ضرورتوں کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔

 

2۔زکوٰۃ اور دیگر صدقات و تکافل کا ذریعہ ہیں لیکن ان کے علاوہ دوست احباب سے ملنے والے تحائف و ہدایہ بھی ایثار کرتے ہوئے مساکین تک پہنچانے چاہئیں۔

 

3۔معاشرہ کے اہلِ ثروت اپنی استطاعت کے مطابق کسی ضرورت مند کی کفالت اپنے ذمے لیں۔

 

4۔ایسے افراد کے لئے روزگار کی فراہمی کے اسباب پیدا کئے جائیں تاکہ تدریجاً ایسے افراد کی تعدادمیں کمی آسکے۔

 

مواخات مدینہ

نئے علاقہ اور نئے لوگوں میں، اپنے علاقہ اور اعزاء و اقربا کو چھوڑ کر آبسنا، یقینا صاحبان ایمان و تقویٰ ہی کے بس میں تھا۔ مدینہ منورہ کی نئی فضاء میں بھی رسول خدا ﷺنے انسانی احساسات و جذبات اور مشکلات و پریشانیوں کا خیال رکھا۔ ان حالات میں نبی رحمت ﷺ نے مہاجرین و انصار میں مواخات قائم کی۔ یہ مواخات کثیر المقاصد تھی اس کے سیاسی، سماجی، اخلاقی، معاشی اور جذباتی سبھی پہلو اہم تھے۔

 

مواخات کی فلاحی نوعیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر نصیر احمد ناصر لکھتے ہیں:

 

“معیشت کی بنیاد ’’مواخاۃ‘‘پر رکھی گئی تھی۔ مواخاۃ کا مطلب یہ ہے کہ سب مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ لہذا انہیں معاشی زندگی اس طرح گزارنی چاہیے جس طرح ایک صالح کنبے کے افرادکو اخوت ومساوات کے اصول پر گزارنی چاہیے“۔([19])

 

شفا خانوں کا قیام

اسلام سے قبل عرب میں علاج کرانا ایک لحاظ سے ہرشخص کا ذاتی یا زیادہ سے زیادہ خاندانی مسئلہ تھا۔جسے طاقت اور وسائل کے مطابق حل کیا جاتا تھا۔شفاء خانوں یا ہسپتالوں کا وجود نہیں تھا۔لیکن اسلام کی آمد کے بعد شفاء خانوں کی بنیاد پڑگئی ۔ صحابیہ حضرت رفیدہ ﷞ نے مسجد نبوی ﷺ کے پاس ایک خیمہ لگا رکھا تھا جس میں وہ محض ثواب کی خاطر جنگ میں زخمی ہونے والے ان افراد کی مرہم پٹی اور علاج کرتی تھیں جن کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہ تھا۔حضرت سعد بن معاذ ﷜ غزوہ خندق میں زخمی ہوئے تورسول اللہﷺ نے ان کی قوم سے کہا کہ وہ انہیں اس خیمہ میں رکھیں تا کہ وہ قریب رہیں اور عیادت کرنے میں آپﷺ کو آسانی ہو۔([20])

 

مساجد کی تعمیر

مساجد کی تعمیر اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے کی جاتی ہے، اس کی تعمیر براہِ راست عبادت میں تعاون ہے، لیکن دورِ اول میں مساجد عبادت کے علاوہ مسلمانوں کے تعلیمی، سماجی اور سیاسی مراکز کی بھی حیثیت رکھتی تھیں۔ ان کی حیثیت اب بہت کچھ بدل چکی ہے۔رفاہی خدمات کے ذیل میں ان کا ذکر کیا جاتا ہے۔

 

حضرت عثمان ﷜ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

 

«مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الجَنَّةِ»([21])

 

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس کسی نے اللہ کی رضا کی طلب میں کو ئی مسجد بنائی تواللہ تعالیٰ اس کے لیے اس طرح کا گھرجنت میں بنائے گا۔

 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تعمیر مسجد بہت کارِ ثواب ہے۔مسجدایک بہت بڑا رفاہی ادارہ ہے، جس میں مسلمانوں کی عبادت وملاقات سے لے کر معاملات کے فیصلے تک کیے جاتے ہیں۔رسول اللہ ﷺ جب کبھی سفر سے واپس آتے تو پہلے مسجد میں تشریف لے جاتے، لوگوں سے ملتے ان کے حالات معلوم کرتے بعض فیصلے کرتے اور بعد ازاں گھر تشریف لے جاتے۔ مسجد کى ہر جگہ تعلیمی مرکزکی حیثیت ہونی چاہیے۔اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ مسجد نبوی میں صفہ ایک ایسا ادارہ تھا جہاں خوراک اور لباس سے غریبوں کی مالی اعانت کی جاتی تھی۔یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ مغربی ممالک میں مساجد اخلاقی اداروں اور کمیونٹی سینٹرز کا کام سر انجام دے رہی ہیں۔عبادت، تعلیم وتعلم اور شادی بیاہ جیسے امور وہاں سر انجام پاتے ہیں۔

 

سرائیں اور قیام گاہیں تعمیر کرنا

فلاحی خدمات میں سے ہوٹلوں اور مسافر خانوں کی تعمیر بھی ہے۔ جہا ں مسافروں کو بہتر سہولتیں حاصل ہوں، اور دیس سے دوری کی وجہ سے انھیں مشکلات کا سامنانہ کرنا پڑے۔ حضرت ابو ہریرہ ﷜ کی ایک روایت ہے جس سے اس کا اجر وثواب اور فضیلت ظاہر ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ ﷺکا ارشادہے۔

 

“مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے پہنچتا رہتا ہے ان میں یہ چیزیں بھی داخل ہیں۔وہ علم جس کی اس نے تعلیم دی اور پھیلایا، نیک اولاد جو اس نے چھوڑی، قرآن مجید جس کا اُس نے اپنے بعدکسی کو وارث بنایا یا مسجد جو اس نے بنوائی یا مسافروں کے لیے کوئی مکان تعمیر کرایا یا نہر جو اس نے کھدوائی یا وہ صدقہ جو اس نے اپنے مال سے صحت کی حالت میں اپنی زندگی میں نکالا۔اس کا ثواب اس کے مرنے کے بعد بھی ملے گا“۔([22])

 

اس حدیث میں فلاح وبہبود کے بعض خاص کاموں کا ذکر ہے، اور انھیں صدقہ جاریہ کہا گیا ہے۔ان میں مسافروں کے لیے مکان اور سرائے کی تعمیر بھی ہے۔ایک اور ارشاد نبوی ﷺ ہے:

 

«إِذَا مَاتَ الإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ: صَدَقَةٌ جَارِيَةٌ، وَعِلْمٌ يُنْتَفَعُ بِهِ، وَوَلَدٌ صَالِحٌ يَدْعُو لَهُ»([23])

 

جب انسان انتقال کر جاتا ہے تو اس کے اعمال منقطع ہو جاتے ہیں سوائے تین کے، صدقہ جاریہ یا وہ علم جو اس کو فائدہ دے یا نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی ہو۔

 

کنویں کھدوانا

پانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی صاف پانی کی فراہمی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔اسلام نے اس کی طرف جس طرح توجہ دلائی ہے۔اس کا اندازہ اُوپر کی اس روایت سے لگایا جا سکتا ہے جس میں بندگان خدا کے لیے نہرکی تعمیر کو صدقہ جا ریہ کہا گیا ہے۔

 

حضرت سعد بن عباده ﷜ کی والدہ کا انتقال ہوا تو انھوں نے چاہا کہ ان کی طرف سے صدقہ وخیرات کریں، رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ کون سا صدقہ سب سے اچھا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا کنواں کھدوانا۔چنانچہ انھوں نے اپنی ماں کے نام سے کنواں کھدوایا۔([24])

 

ذرائع آ مدروفت کی درستگی

اسلام نے فلاحی خدمات کی ذمہ داری ریاست کے افراد پر ڈالی ہے اور ان افراد کو کہا گیا ہے کہ راستوں کو صاف رکھیں اور ان پر جو رکاوٹیں ہوں انھیں دور کریں۔ اس سلسلے میں حضرت ابو ہریرہ ﷜ سے روایت معروف ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

«الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ أَوْ بِضْعٌ وَسِتُّونَ شُعْبَةً، فَأَفْضَلُهَا قَوْلُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَان»([25])

 

ایمان کی ستر یا ساٹھ سے اوپر شاخیں ہیں ان میں سے بہتر لا الہ الا اللہ ہے اور ادنیٰ شاخ راستہ سے تکلیف کو دور کرنا ہے۔ حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔

 

صحابہ کرام ﷢ کو آپ ﷺ نے تاکید کی کہ وہ راستے کو اس کا حق دیں تو صحابہ کرام﷢ نے کہاراستے کا حق کیا ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا:

 

“آنکھوں کو نیچے رکھنا، راستے سے تکلیف دہ چیز کو دور کرنا اور بھٹکے ہوئے کی راہنمائی کرنا“([26])

 

درخت لگانا

فلاح انسانیت میں سے لوگوں کے گزرنے میں آسانی پیدا کرنا بھی شامل ہے۔ گرمیوں میں سایہ کی سہولت درخت لگا کر مہیا کرنا، ماحول کو آ لودہ ہونے سے بچانے کے لیے راستے کے کناروں پردرختوں کا لگانا بھی خلق خدا کی بھلائی ہے۔رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:

 

«مَا مِنْ مُسْلِمٍ يَغْرِسُ غَرْسًا، أَوْ يَزْرَعُ زَرْعًا، فَيَأْكُلُ مِنْهُ طَيْرٌ أَوْ إِنْسَانٌ أَوْ بَهِيمَةٌ، إِلَّا كَانَ لَهُ بِهِ صَدَقَةٌ »([27])

 

کوئی انسان جو درخت لگاتا ہے یا کھیتی کرتا ہے تو اس سے پرندے یا انسان یا جانور کھاتے ہیں تووہ اس کے لیے صدقہ ہے۔

 

یہ صدقہ جاریہ ہی کی ایک صورت ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے لگائے ہوئے درخت سے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔

 

’’حضرت سعید بن ابی بردۃ﷜روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا :’’کہ ہر مسلمان پر صدقہ ہے۔ آپ ﷺ سے پوچھا گیا اگر وہ صدقہ کو نہ پا سکے، آپ ﷺ نے فرمایا اپنے ہاتھوں سے کمائے اور اپنے آپ کو نفع پہنچائے اور صدقہ کرے۔ عرض کیا گیا اگر یہ بھی نہ کر سکے، فرمایا کسی مجبور اور پریشان آدمی کی مدد کرے، پوچھا یہ بھی نہ کر سکے، فرمایا نیکی کا حکم دے۔عرض کی یہ بھی نہ ہو سکے تو فرمایا برائی سے باز رہے یہ بھی صدقہ ہے‘‘۔([28])

 

خیرخواہی کا جذبہ

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

’’ قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری ہے جان ہے کوئی بندہ اُس وقت تک ایمان دار نہیں بن سکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے‘‘۔([29])

 

حضرت ابو ایوب انصاری﷜ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

’’یہ بات کسی شخص کے لیے حلال نہیں کہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ قطع تعلق کرے۔اس طرح کہ دونوں ملیں اور یہ ادھر منہ پھیر لے اور وہ ادھر منہ پھیر لے۔سنو! ان دونوں میں اچھا وہ ہے جو سلام کرے“۔([30])

 

غیر مسلموں سے تعاون

انسانوں کی خدمت اور ان کی فلاح و بہبود کے کام میں غیر مسلم تنظیموں اور اداروں کے ساتھ تعاون میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، اس سلسلہ میں قرآن مجید نے یہ اصولی تعلیم دی ہے:

 

﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللّهَ اِنَّ اللّهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ﴾([31])

 

نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو۔ گناہ اور ظلم و زیادتی کے کاموں میں کسی کے ساتھ تعاون نہ کرواور اللہ سے ڈرتے رہو۔بے شک اللہ کی سزا بہت سخت ہے۔

 

ریاست سے تعاون

خدمت خلق کا سب سے بڑا ادارہ ریاست ہے۔ افراد اورتنظیمیں ہزار طاقت ورسہی لیکن ان کی طاقت بہرحال محدود ہوتی ہے۔ان کو اتنے وسائل وذرائع حاصل نہیں ہوتے کہ ہر پہلوسے معاشرے کی خدمت کر سکیں اور اس کی تمام مشکلات کو حل کر دیں۔ریاست غیرمعمولی وسائل وذرائع کی مالک ہوتی ہے اور اپنے مقصد کو حا صل کرنے کے لیے مختلف طریقے استعمال کر سکتی ہے۔اس لیے ایک فلاحی ریاست کی یہ قانونی اور اخلاقی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ پورے معاشرے کی تعمیر اس ڈھنگ سے کرے کہ کوئی بھی شخص ضروریات زندگی سے محروم نہ رہے اور اسے وہ تمام سہولتیں اورمواقع حاصل ہوں جو اس کی ترقی کے لیے ضروری ہیں۔ اگر ریاست اپنی ذمہ داری کو محسوس نہ کرے تو اس کا وجود بے معنی ہے لیکن ریاست اتنی بڑی ذمہ داری سے اسی وقت سبکدوش ہو سکتی ہے جبکہ افراد اس سے تعاون کریں۔محض ریاست کی کو شش سے معاشرہ غربت، افلاس، جہالت، بے روزگاری جیسی مصیبتوں سے پاک نہیں ہو سکتا۔اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر فرد میں معاشرہ کو پستی سے نکالنے اور اوپر اُٹھانے کا جذبہ پایا جائے۔ریاست اور افراد کے اشتراک و تعاون ہی سے خدمت خلق کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس کے بغیر یہ کام ہمیشہ ادھورا اور نا قص ہی رہے گا۔رسول اللہﷺ نے فرمایا:

 

«مَنْ تَرَكَ مَالًا فَلِوَرَثَتِهِ، وَمَنْ تَرَكَ كَلًّا فَإِلَيْنَا»([32])

 

جس نے مال چھوڑا وہ اُس کے ورثاء کے لیے ہے اور جس نے قرض چھوڑا وہ ہم پر ہے۔

 

فلاح و بہبود کی طرف خصوصی توجہ

نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

 

«إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ خَلْقًا خَلَقَهُمْ لِحَوَائِجِ النَّاسِ يَفْزَعُ النَّاسُ إِلَيْهِمْ فِي حَوَائِجِهِمْ أُولَئِكَ الْآمِنُونَ مِنْ عَذَابِ اللهِ»([33])

 

اللہ تعالیٰ کی کچھ مخلوق (بندے) ایسی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے پیدا کیا ہے، لوگ اپنی ضرورتوں کے وقت ان کے پاس گھبرا کر آتے ہیں (اور یہ ان کی ضرورتیں پوری کرتے ہیں ) یہ لوگ (قیامت کے دن) اللہ کے عذاب سے محفوظ رہیں گے۔

 

ایک دوسری حدیث اس طرح ہے : کثیر بن عبد اللّٰہ بن عمر و بن عوف المزنی اپنے والد سے وہ اپنے والد (عمرو بن عوف) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

“اللہ کے کچھ بندے ایسے ہیں جنہیں اللہ نے لوگوں کی حاجتیں پوری کرنے کے لئے پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کی قسم کھائی کہ انہیں دوزخ کی آگ کا عذاب نہیں دیں گے، پس جب قیامت کا دن ہوگا تو ان کے لیے نورکے ممبر رکھے جائیں گے جن پر بیٹھ کروہ اللہ تعالیٰ سے گفتگو کریں گے جب کہ دوسرے لوگ حساب میں مبتلا ہوں گے“۔([34])

 

احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فلاح و بہبود کے کاموں سے ایسے ہی ثواب ملتا ہے جیسے دوسری عبادات سے ثواب ملتا ہے اور دوزخ سے بھی ایسے ہی نجات ملتی ہے جیسے دوسری نیکیاں کرکے ہوتی ہے۔

 

مسلمانوں کو خوش کرنا

مومن صرف اپنی ذات کے گرد نہیں گھومتا بلکہ اپنے دوسرے بھائیوں کے دکھ درد میں بھی شریک ہو کر ان کے دکھ درد کا مداوا کرتا ہے، جو بات انہیں دکھ پہنچاتی ہے، اسے دور کرتا ہے، اس کا حل تلاش کرتا ہے، اس سے نجات کی راہیں نکالتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالی ایسے انسان سے خوش ہوتے ہیں جو اپنے مسلمان بھائی کا غم ہلکا کرتا ہے، اس کے دکھ بانٹتا ہے ۔ بڑی نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ بیان فرمائی کہ وہ بندہ بہت اچھا ہے جو کسی انسان کو خوش کرتا ہے، خاص طور پر ایسا انسان جو رنج وغم میں مبتلا ہو، کسی حادثے کا شکار ہو گیا اور کسی صدمے کی وجہ سے نڈھال رہاہو، ایسے انسان کے پاس جانا، اس کا غم ہلکا کرنا اور اسے خوش کرنا نیکی کا کام ہے، اس مفہوم کی متعدد روایتیں ہیں:

 

«عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم: أَيُّ الْأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:أَنْ تُدْخِلَ عَلَى أَخِيكَ الْمُسْلِمِ سُرُورًا أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دَيْنًا، أَوْ تُطْعِمَهُ خُبْزًا»([35])

 

حضرت ابوہریرہ﷜ نے روایت کی کہ ایک شخص نے سوال کیا یارسول اللہ ﷺ کون سا عمل سب سے زیادہ فضیلت والا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرو یا اس کا قرض ادا کرو یا اسے کھانا کھلاؤ۔

 

حضرت جابر بن عبداللہ ﷜ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 

“جو کام اور باتیں مغفرت لازم کرنے والی ہیں ان میں سے ایک اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرنا ہے یعنی اس کی بھوک دور کرنا اور اس کی پریشانی (تکلیف) دور کرنا ہے“۔

 

ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنا

دین اسلام کی خصوصیات اور امتیازات میں سے ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے پیروکاروں کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ ان کا ظاہر و باطن، داخل اور خارج اور زبان و دل ایک ہو، اس میں دوئی اور دو رنگی نہ ہو، جو بات دل میں سوچے و ہی زبان پر آئے، اگر کسی شخص کا دل اور زبان ایک نہیں ہے تو اسلام اس کو نفاق اور منافقت کہتاہے اور اسے دھوکے (خدع) کا نام دیتا ہے:

 

«عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:الدِّينُ النَّصِيحَةُ قُلْنَا: لِمَنْ؟ قَالَ:لِلَّهِ وَلِكِتَابِهِ وَلِرَسُولِهِ وَلِأَئِمَّةِ الْمُسْلِمِينَ وَعَامَّتِهِمْ»([36])

 

حضرت تمیم بن اوس الداری ﷜ نے روایت کی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا دین سراپا خیر خواہی ہے، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: کس کے لیے خیر خواہی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے لئے، اللہ کی کتاب(قرآن مجید) کے لیے، مسلمانوں کے سربراہوں اور ان کے عام لوگوں کے لیے خیر خواہی کرنا۔

 

متن میں لفظ “النصیحة” آیا ہے جس کا مادہ نصح ہے، یہ کلمہ قرآن مجید میں مختلف شکلوں میں تیرہ مرتبہ آيا ہے، اور احادیث میں بہت سے مقامات پر آیاہے، عربی میں یہ کلمہ اپنے معنی میں بڑی وسعت رکھتا ہے، ابن دقیق العید﷫ کہتے ہیں:

 

’’کلام عرب میں ایسا کوئی کلمہ نہیں ہے جو اس کلمے کے معنی واضح کر سکے، اور اپنے اندر سمو سکے‘‘۔

 

مدینہ منورہ میں اسلام قبول کرنے کے بارے میں بعض صحابہ کرام﷢ نے بیان کیا کہ ہم جب آپ ﷺ کی خدمت میں اسلام قبول کرنے آئے تو آپ نے بیعت کرتے وقت عہد لیا:

 

«عن جَرِيرًا رضي الله عنه، يَقُولُ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ ، فَاشْتَرَطَ عَلَيَّ:وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ»([37])

 

حضرت جریر بن عبداللہ﷜ کہتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ سے ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔

 

اسلام کی مجموعی تعلیم اور رسول اللہ ﷺ اور سیرت اور آپ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک مسلمان کو اپنی اصلاح کے لیے جہاں ذاتی نیکیاں، عبادتیں اور ریاضتیں کرنی چاہئیں وہاں اپنے ابنائے جنس (انسانوں) کی دینی ودنیاوی فلاح و بہبود کیلئے بھی کام کرنے چاہئیں۔ جس طرح معروف عبادات سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہو تی ہے اسی طرح اس کی رضا کی نیت سے اللہ کے بندوں کی فلاح و بہبود سے بھی حاصل ہوتی ہے۔ جس طرح عبادات و اطاعت سے مومن جنت کاحق دار بنتا ہے اسی طرح اللہ کی مخلوق کی فلاح و بہبود سے بھی وہ جنت کا حق دار ہوتا ہے۔ اخروی نجات کے لئے حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔ کیونکہ نبی کریم ﷺ نے دین اسلام کو تمام انسانیت کے لئے خیر خواہی قرار دیا ہے۔

 

 

_ _ _

 

 

 

 


  1. ()احمد بن حنبل، مسند احمد، حدیث نمبر: ۷۹۴۲، موسسۃ الرسالہ، بیروت، ۱۹۹۹ء، ۱۳/۳۲۵
  2. ()ابنِ منظور افریقی، لسان العرب، دار صادر، بیروت، ۱۹۹۰ء، ۴/۵۴۷
  3. ()سورۃ الشمس:۹
  4. ()سورۃ المؤ منون: ۱
  5. ()سورۃ آل عمران: ۱۸۵
  6. ()مسند احمد، باب حدیث ربیعہ بن عباد الدیلی، حدیث نمبر:۱۶۰۲۳، ۲۵ /۴۰۴
  7. ()سورۃ الجمعہ: ۶
  8. ()سورۃ البقرۃ: ۲۶۲
  9. ()سورۃ البقرۃ: ۲۱۹
  10. ()اصلاحی، امین احسن، تدبر قرآن، فاران فاؤنڈیشن، لاہور، 1403ھ، ۱/۴۷۱
  11. ()سورۃ البقرۃ: ۱۴۳
  12. ()علاؤ الدین، علی بن حسام الدین، حدیث نمبر:۴۴۱۵۴، کنز العمال، دار الاشاعت، کراچی، ۱۶/۱۲۸
  13. ()منصورپوری، قاضی سلیمان، رحمۃ للعالمین، مرکز الحرمین الاسلامی، فیصل آباد، ۱/۴۳
  14. ()سورۃ الانبیاء: ۱۰۷
  15. ()ابن ماجہ، سنن ابن ماجہ، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم، حدیث نمبر: ۲۲۴، دار احياء الكتب العربی، بیروت، ۱/۸۱
  16. ()سورۃ فاطر: ۲۸
  17. ()نیشاپوری، امام حاکم، المستدرک علی الصحیحین، باب و منہم یحیٰ بن ابی المطاع القرشی، حدیث نمبر: ۳۴۱، دارالفکر، بیروت، ۱۹۹۰ء، ۱/۱۸۰
  18. ()ابن عبدالبر، جامع بیان العلم، دارالفکر، بیروت، ۱/۱۵۱
  19. ()نصیر احمد ناصر، پیغمبر اعظم وآخرﷺ، فیروز سنز، لاہور، ص:۴۹۶
  20. ()ابنِ ہشام، سیرۃالنبیﷺ، ادارہ اسلامیات انار کلی، لاہور، ۳/۲۵۸
  21. ()بخاری، محمد بن اسماعیل، صحیح بخاری، باب من بنی مسجدا، حدیث نمبر: ۴۵۰، دار طوق النجاۃ، مصر، ۱۴۲۲ھ
  22. ()ابن ماجہ، محمد بن یزید، سنن ابنِ ماجہ، بَابُ ثَوَابِ مُعَلِّمِ النَّاسَ الْخَيْرَ، حدیث نمبر: ۲۴۲، دار احياء الكتب العربيہ، بیروت
  23. ()ترمذی، محمد بن عيسى، سنن ترمذی، باب فی الوقف، حدیث نمبر: ۱۳۷۵- ۱۳۷۶، شركہ مكتبہ ومطبعہ مصطفى البابی الحلبی، مصر، ۱۹۷۵ء
  24. ()ابو داؤد، سلیمان بن اشعث، سنن ابوداؤد، حدیث نمبر: ۱۵۳، المكتبہ العصريہ، صيدا، بيروت
  25. ()قشیری، مسلم بن حجاج، صحیح مسلم، باب شعب الایمان، حدیث نمبر: ۵۳، دار احياء التراث العربی، بيروت، ۱/۶۳
  26. ()صحیح مسلم حدیث نمبر: ۴۸۱۵۔۴۸۱۷
  27. ()صحیح بخاری، باب فضل الذرع و الغرس اذا اکل منہ، حدیث نمبر: ۲۳۲۰، ۳/ ۱۰۳
  28. ()صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۳۳۳
  29. ()صحیح بخاری، باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ، حدیث نمبر: ۱۳
  30. ()صحیح بخاری، باب من انتظر حتی تدفن، حدیث نمبر: ۶۰۷۷، ۸/۸۲۱
  31. ()سورۃ المائدہ: ۲
  32. ()صحیح مسلم، باب الصلاۃ علی من ترک دینا، ، حدیث نمبر: ۴۱۶۱ ، ۳/ ۱۱۸
  33. ()طبرانی،سلیمان بن احمد، معجم الکبیر، باب زید بن اسلم عن ابن عمر، مکتبہ ابن تیمیہ، بیروت، ۱۹۹۴ء، ۱۲/۳۵۷
  34. ()بیہقی، احمد بن الحسين بن علی، شعب الایمان، حدیث نمبر: ۷۶۷۸، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۱۰ھ، ۳/۱۲۳
  35. ()شعب الایمان، باب التعاون علی البر و التقویٰ، حدیث نمبر:۷۲۷۳، 10/130
  36. ()صحیح مسلم، باب بیان ان الدین النصیحۃ، حدیث نمبر:۵۵، ۱/۷۴
  37. ()صحیح بخاری، باب ما یجوزمن الشروط فی الاسلام و الاحکام، حدیث نمبر:۲۷۱۴، ۲/۲۶۳
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index