7
1
2018
1682060032214_927
05-20
معاش حیات انسانی کا وہ اہم ترین شعبہ ہے کہ عمرِ عزیز کا بیشترحصہ غمِ فردا میں گزرتا ہے۔صبح سے شام اور شام سے صبح ایک ہی فکر انسان کو گھائل کئے رکھتی ہے کہ اسے بہر صورت ضروریات زندگی کو یقینی بنانا ہے۔عارضی معاش کی صورت میں ایک نا دیدہ سا خوف ،سائے کے مانند انسان کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور مستقل معاش کی تگ و دو کے لئے ایک محرک کا کردار ادا کرتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام نے اس فطرت انسانی کا خاص خیال رکھا ہے اور جا بجا حصولِ معاش کی دوڑ دھوپ کا حکم دیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿==فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلاةُ فَانتَشِرُوا فِي الأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ﴾([1])
جب تم نماز ادا کر و تو پھیل جاؤ اور اللہ کا فضل تلاش کرو ۔
﴿عَلِمَ أَن سَيَكُونُ مِنكُم مَّرْضَى وَآخَرُونَ يَضْرِبُونَ فِي الأَرْضِ يَبْتَغُونَ مِن فَضْلِ الله﴾([2])
وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار ہوں گے، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ کا فضل تلاش کریں گے۔
معاشِ انسانی کا بہتر سے بہتر ہونا ضروری ہے اس کے لئے سرور دو عالمﷺ نے دعا سکھلائی :
«اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الهُدَى وَالتُّقَى وَالعَفَافَ وَالغِنَى» ([3])
اے اللہ میں آپ سے ہدایت، تقویٰ ،عفت اور تونگری کا سوال کرتا ہوں۔
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کو ارشاد فرمایا:
« نِعْمَ المال الصالح مع الرجل الصالح»([4])
نیک آدمی کے لئے اچھا مال کیا ہی خوب ہے۔
نبی کریم ﷺ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کے لئے کثرت اولاد کے ساتھ فراخیِ رزق کی دعا فرمائی۔ارشاد فرمایا:
«اللَّهُمَّ أَكْثِرْ مَالَهُ، وَوَلَدَهُ»([5]) اے اللہ انس کے مال اور اولاد میں کثرت فرما۔
مرد و عورت کی معاشی مساوات،ایک تحقیق
عورت کا حقیقی دائرہ کار اس کا گھرہے جہاں وہ بچوں کی نگہداشت،نشوونما اور تعلیم و تربیت کے فرائض سر انجام دیتی ہے۔عورت کو فکرِ معاش سے آزاد کیا گیاہے۔اس پر دوسروں کی فکر تو کیا بلکہ اپنی ذمہ داری سے بھی سبکدوش ہے۔ یہ صرف اسلئے کہ عورت اپنے گھر میں کامل منہمک ہو کر اپنے فرائض ادا کرسکے۔﴿وقرن في بیوتکن﴾کی اصل غرض وغایت بھی یہی ہے۔ شریعت مرد سے زیادہ عورت کو تربیتِ اولاد کے لئے موزوں سمجھتی ہے۔ایک صحابی نے جب اپنی بیوی کو طلاق دی اور بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہا مگر بچے کی والدہ نے شکایت کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا أنت أحق به تم ہی اس کی زیادہ حق دار ہو جب تک دوسرا نکاح نہ کرلو۔([6]) عورت گھر کی منتظم ہے لہٰذا اس کا فرض ہے کہ وہ اس کا انتظام خوش اسلوبی سے چلائے۔صفائی،ستھرائی کا اور افرادِ خانہ کے لباس وخوراک کا خاص خیال اس طرح رکھے کہ گھر چین و سکون کا گہوارہ بن جائے۔شریعت اسلامیہ کی نگاہ میں عورت کا اپنے اصل دائرہ کار سے جما رہنا بہت ضروری ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ اجتماعی اور تمدنی معاملات میں حصہ لے۔شریعت اسلامیہ کو وہ نقصانات جو تمدنی میادین میں عورت کی عدم شراکت سے واقع ہوتے ہیں،قابل برداشت ہیں مگر گھر کا نقصان برداشت نہیں ۔اس لئے کہ گھر کا معاملہ صرف دو افراد یعنی میاں بیوی ہی کے مابین نہیں بلکہ دو خاندانوں اور اس کے سینکڑوں افراد کے مابین ہے۔شریعت اسلامیہ اجتماعی عبادات میں بھی حصہ لینے کی بجائے عورت سے اس بات کی متقاضی ہے کہ وہ عبادات بھی اپنے گھر میں ہی بجا لائے۔عورت سے نماز جمعہ کا ساقط ہونا اس کی بین دلیل ہے۔([7]) گھر میں رہ کر خاوند کی خدمت کرنا عورت کا جہاد ہے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا « عَلَيْكُنَّ بِالْبَيْتِ، فَإِنَّهُ جِهَادُكُنَّ»([8]) کہ تمہارا گھر میں بیٹھنا ہی جہاد ہے۔سوال یہ ہے کہ مَردوں کی طرح کیا عورتوں کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ معاشی شعبے میں اپنی خدمات بجا لا سکیں؟اور پھر اس کے درجات کیا ہیں؟ کیا صرف حاجت مند عورت کو ہی معاش کی اجازت ہے یا فار غ البال اور خوشحال عورت بھی اس میدان میں قدم رکھ سکتی ہے؟نیز عورت کے معاشی میادین کون سے ہیں جہاں وہ اپنی خدمات احسن طریقے سے یوں انجام دے سکتی ہے کہ شرعی حوالے سے جواز کی حد تک اس پر اعتراض نہیں؟
قرآن و حدیث میں غورو فکر کے بعد یہ سمجھ آتی ہے کہ معاشی تگ و دو کا بنیادی فريضہ تومرد کے سر ہے تاہم عورت کے لئے اس کی ممانعت نہیں ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ﴾ ([9])
کہہ دیجئے کہ تم عمل کئے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِنْكُمْ﴾ ([10])
اے ایمان والو ! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خریدو فروخت۔
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾ ([11])
اے ایمان والو جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرہ پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو۔
﴿وَاسْتَشْهِدُوا شَهِيدَيْنِ مِنْ رِجَالِكُمْ فَإِنْ لَمْ يَكُونَا رَجُلَيْنِ فَرَجُلٌ وَامْرَأَتَانِ مِمَّنْ تَرْضَوْنَ مِنَ الشُّهَدَاءِ﴾ ([12])
اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو۔ اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں پسند کرلو۔
﴿وَلَا تَسْأَمُوا أَنْ تَكْتُبُوهُ صَغِيرًا أَوْ كَبِيرًا إِلَى أَجَلِهِ ذَلِكُمْ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ وَأَقْوَمُ لِلشَّهَادَةِ وَأَدْنَى أَلَّا تَرْتَابُوا إِلَّا أَنْ تَكُونَ تِجَارَةً حَاضِرَةً تُدِيرُونَهَا بَيْنَكُمْ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَلَّا تَكْتُبُوهَا وَأَشْهِدُوا إِذَا تَبَايَعْتُمْ وَلَا يُضَارَّ كَاتِبٌ وَلَا شَهِيدٌ﴾([13])
اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی ہے، شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے ،ہاں یہ اور بات ہے کہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو۔ جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں۔ خریدو فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کرلیا کرو ۔
درج بالا تمام آیات میں عموم ہے اور تجارت کرنے،قرض اور دین کا معاملہ لکھنے،گواہ بننے اور بنانے کے احکامات جیسے مردوں کو ہیں ویسے ہی ان کی مخاطب عورتیں بھی ہیں۔جس طرح مرد کسی کا مال ناجائز طریقے سے نہیں ہتھیا سکتا اسی طرح عورت کو بھی اس کی اجازت نہیں۔خریدو فروخت اور دیون کے معاملات میں جس طرح مرد گواہ بن سکتا ہے،اسی طرح عورت کو بھی اسکی ممانعت نہیں۔سود کی ممانعت اور اس کی حلت جس طرح مردوں کے لئے ہے اسی طرح اس کا محل عورتیں بھی ہیں۔
صحابیات کی معاشی سر گرمیاں
شریعت اسلامی کے بنیادی ماخذ قرآن و حدیث ہیں۔عہد رسالت میں قرآن کا نزول ہوا ہے اور حدیث کی ابتدا و انتہاء بھی۔اس مبارک دور میں جو مردو خواتین آپﷺ پر ایمان لائے،انہیں صحابہ و صحابیات کے القابات سے نوازا گیا ہے۔زیر نظر مقالہ چونکہ خواتین کی معاشی سرگرمیوں سے متعلق ہے،لہٰذا ذیل کی سطور میں صحابیات کی معاشی سرگرمیوں کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنے ادوار میں کس طرح سے معاشی سرگرمیاں انجام دیں تاکہ عصر حاضر کی خواتین کے لئے انہیں مشعل راہ ثابت کیا سکے۔
تجارت
قرآن کریم نے تجارت کے لفظ کو بار بار دہرایا ہے اس لئے کہ اللہ تعالی نے تجارت کے پیشہ میں بہت برکت رکھی ہے۔ حدیث میں بھی تجارت کی بڑی فضیلت آئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ دس حصوں میں سے نو حصے رزق اللہ نے تجارت میں رکھا ہے([14])۔امام ابراہیم نخعیسے سوال کیا گیا کہ آپ کی نظر میں سچا تاجر زیادہ بہتر ہے یا وہ شخص جس نے اپنے آپ کو عبادت کے لئے وقف کر رکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ میرے نزدیک سچا تاجر زیادہ بہتر ہے۔ اس لئے کہ وہ حالت جہاد میں ہے۔ شیطان ہر طرف سے اسے پھسلانے کی کوشش کرتا ہے کبھی ناپ تول میں کمی بیشی کا کہتا ہے تو کبھی لین دین میں مکربازی کی چالیں سمجھاتا ہے لیکن وہ تاجر ان سب سے انکار کرکے جہاد کرتا ہے۔ ([15]) عہد رسالت میں صحابیات تجارت سے وابستہ تھیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے:
عطریات
انسان کی فطرت ہے کہ وہ خوشبو کو پسند کرتا ہےاور بدبو سے نفرت کرتا ہے۔اسلام جو کہ دین فطرت ہے خوشبو کی ترغیب دیتا ہے۔نبی کریم ﷺ ہمہ وقت خوشبو سے معطر رہتے تھے ۔صحابیات میں سے حضرت اسماء بنت مخزمہ عطر کا کاروبار کرتی تھیں ۔ابن سعد فرماتے ہیں کہ ان کا بیٹا عبد اللہ بن ربیعہ یمن سے عطر خرید کر انہیں بھیجتا تھا اور وہ اسے فروخت کرتی تھیں ۔ربیع بنت معوذکہتی ہیں کہ ہم چند عورتوں نے ان سے عطر خریدا ۔جب انہوں نے ہماری بوتلیں عطر سے بھر دیں تو گویا ہوئیں "اکتبن لي علیکن حقي" میری جو رقم تمہارے ذمہ واجب الاداء ہے،مجھے لکھ دو([16])۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عطر کی خریدو فروخت نقد کے ساتھ ساتھ ادھار پر بھی کیا کرتی تھیں۔
حضرت خولہ بنت توقیت اس قدر عطر فروخت کرتی تھیں کہ وہ عطارہ کے نام سے مشہور ہوگئیں تھیں۔جب وہ رسول اللہ ﷺ کے گھر تشریف لاتیں تو آپ ﷺ انہیں عطر کی خوشبو سے پہچان لیا کرتے تھے۔ایک دن وہ آپ ﷺ لے گھر تشریف لائیں تو آپ ﷺ نے حضرت عائشہ سے فرمایا تم نے ان سے کچھ خریدا نہیں؟انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺآج یہ عطر فروخت کرنے کی غرض سے نہیں بلکہ اپنے خاوند کی شکایت لیکر آئی ہیں تو آپ ﷺ نے ان کی شکایت کا ازالہ کیا۔([17])
حضرت سائب بن اقرع ثقفی کی والدہ حضرت مکبلہ عطر فروشی کاکام کرتی تھیں۔حضرت سائب فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میری والدہ آپ ﷺ کے پاس عطر فروخت کرنے کی غرض سے حاضر ہوئیں۔نبی کریم ﷺ نے عطر کی خریداری کے بعد ان سے ان کی حاجت کے بارے میں دریافت فرمایا۔انہوں نے عرض کیا کہ حاجت تو کوئی نہیں البتہ اپنے چھوٹے بچے،جو ان کے ساتھ تھا،کے لئے دعا کی درخواست کی۔آپ ﷺ نے بچے کے سر پر ہاتھ پھیرا اور ان کے لئے دعا فرمائی۔([18])
درج بالا تمام واقعات سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ عورت تجارت و کاروبار میں حصہ لے سکتی ہے۔عصر حِاضر میں تجارت و کاروبار کا ایک وسیع میدان عورتوں سے متعلق ہے جس میں عورتوں کے ملبوسات اور زیب و زینت کی بے شمار اشیاء شامل ہیں۔اگر عورتیں تجارت میں حصہ لینا چاہتی ہیں تو ان کے لئے بہترین مواقع عورتوں سے متعلقہ اشیاء ہیں جن سے دُہرا فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔ایک تو یہ کہ عورت رزقِ حلال میں حصہ لے سکتی ہے اور دوسرے یہ کہ خریدار عوتوں سے شرم و حیاء کا دامن بھی نہیں چھوٹتا۔نہایت افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے اور اس سے زیادہ، تکلیف سے یہ بات سہنا پڑتی ہے کہ ہمارے ہاں شرم و حیاء کی دھجیاں اڑا کر یہ کام مَردوں کے ہاتھ میں دے دیا گیا ہے جس کے مُضر اثرات سب کے سامنے ہیں۔
زراعت و کاشتکاری
زراعت و کاشتکاری معاشی سرگرمیوں کی بنیاد ہے۔روزِ اول سے ابتدائی معاشی سر گرمیوں میں زراعت و کاشتکاری ہی رہی ہے۔انسان نے سب سے پہلے زمین پر اگایا اور پھر اسی سے کھایا۔حضرت آدم کا پیشہ بھی زراعت و کاشتکاری ہی تھا۔حضرت موسی کے قصے میں، جب وہ مصر کو چھوڑ کر مدین روانہ ہوئے تو آٹھ دن کی مسافت کے بعد ایک کنوئیں پر پہنچے جہاں لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے اور ازدہام کی کیفیت تھی۔ایک طرف کو دو لڑکیاں اپنی بکریوں روکے کھڑی تھیں۔آپ نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم یہاں کیوں کھڑی ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم اس انتظار میں ہیں کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا کر چلے جائیں گے تو ہم اپنے جانوروں کو پانی پلائیں گی۔([19]) گویا حضرت شعیب کے گھر کا دارومدار مویشی پالنے اور زراعت پر تھا۔
آپ ﷺ نے اس پیشے کی فضیلت یوں بیان فرمائی کہ جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لئے صدقہ ہے۔([20])زراعت اپنے بیش بہا فوائد کی بناء پر کس قدر ضروری ہے؟اس کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو یہ گوارانہ تھا کہ زمین کا کوئی قطعہ یونہی خالی پڑا رہے اور اس سے پیداوار حاصل نہ کی جائے اس لئے کہ زمین اللہ کی نعمت ہے اور نعمت کی قدر اسی میں ہے کہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جائے اور جس قدر فوائد اٹھائے جاسکتے ہیں، اٹھائے جائیں ۔اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا جس نے بنجر زمین کو آباد کیا تو وہ اسی کے لئے ہے۔ ([21]) دوسری جگہ فرمایا کہ اگر کسی شخص کے پاس زمین ہے تو اول اسے خود کاشت کرنی چاہئے ، اگر وہ خود کاشت نہیں کر سکتا تو اس کو چاہئے کہ وہ اسے اپنے بھائی کو دے دے۔([22])حضرت عمرنے فرمایا کہ جو شخص زمین کو بے کار اور بے کاشت رکھے اس کا حق تین سال کے بعد ساقط ہو جائے گا۔([23])
گوکہ یہ پیشہ سخت جان اوربلند ہمت کا متقاضی ہے۔ اس میں کڑکتی سردی بھی برداشت کرنا پڑتی ہے اور تپتی دھوپ بھی، لہذا اس شعبے کے لئے مرد ہی زیادہ موافق ہیں اور وہی اسے سنبھالتے آئے ہیں مگر بوقت ضرور یا بامر مجبوری عورتیں بھی اسے اپنا سکتی ہیں۔حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ان کی خالہ کو طلاق ہو گئی تو انہوں نے چاہا کہ وہ اپنی کھجوروں کی خبر لیں تو ایک شخص نے انہیں ڈانٹا (کہ وہ دوران عدت گھر سے نکل رہی ہیں) وہ آپ ﷺ کے پاس تشریف لے آئیں اور قصہ عرض کیا۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ کیوں نہیں؟تم جاؤ اپنی کھجوروں کی دیکھ بھال کرو۔عین ممکن ہے کہ تم اس کی کمائی سے صدقہ خیرات یا کوئی اور نیکی کا کام کرو۔([24])سید جلال الدین انصر اس کے ذیل میں رقم طراز ہیں”ان الفاظ کے ذریعے آپ ﷺ نے حضرت جابر ؓ کی خالہ کو انسانیت کی بہی خواہی اور فلاح و بہبود پر اکسایا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت عورت کو اس قابل دیکھنا چاہتی ہے کہ وہ اپنے جیسے دوسرے انسانوں کی خدمت کر سکے اور اس کے ہاتھوں بھلے کام انجام پائیں“([25])۔ام مبشر انصاریہ کا ایک کھجوروں کا باغ تھا،آپ ﷺ ان کے کھجوروں کے باغ میں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ یہ کجھوریں کسی مسلمان کی ہیں یا کافر کی؟ انہوں نے عرض کیا کہ مسلمان کی ہیں تو آپ ﷺ نے فرمایا جو شخص درخت لگاتا ہے یا کچھ اُگاتا ہے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا جانور کھا لیتا ہے تو یہ (اس کا کھانا) اس کے لئے صدقہ ہے۔([26])
درج بالا دونوں قصوں سے معلوم ہوا کہ عہد رسالت میں صحابیات شعبہ زراعت سے بھی وابستہ تھیں اور ان کے اپنے اپنے باغات ہوتے تھے جس کی وہ دیکھ بھال بھی کرتی تھیں۔دیکھ بھال میں جو کام اپنے کرنے کے ہیں،وہ خود بھی بجا لائے جاسکتے ہیں اور جو کام صنف نازک کے بس سے باہر ہوں،ان میں خادم بھی رکھا جاسکتا ہے مثلا فصل کو پانی لگانا،درختوں سے پھل اتارنا وغیرہ وغیرہ۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر کہتی ہیں کہ میری زبیر سے شادی ہوئی تو نہ ان کی کوئی زمین تھی اور نہ ہی کوئی مال، البتہ ایک اونٹ تھا جو پانی لادنے کے کام آتا تھا اور ایک گھوڑا۔میں خود گھوڑے کو چارہ ڈالتی اور پانی بھر کے لاتی،آٹا گوندھتی۔مجھے روٹی پکانا نہ آتی تھی۔انصار کی عورتیں، جو بڑی ہی مخلص تھیں،وہ مجھے روٹی پکا کے دے دیتیں۔آپ ﷺ نے حضرت زبیر کو ایک قطعہ اراضی دے دیا تھا جو میرے گھر سے تین فرسخ کی مسافت پر تھا،میں وہاں جاتی اور کجھور کی گٹھلیاں چن کر لاتی۔ایک دن میں گٹھلیاں لے کر آرہی تھی اور گٹھڑی میرے سر پر تھی کہ راستے میں آپ ﷺ سے ملاقات ہوگئ۔آپ ﷺ کے ساتھ انصار کی ایک جماعت بھی تھی۔ آپ ﷺ نے مجھے بلایا اور اونٹ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا کہ میں آپ ﷺ کے پیچھے بیٹھوں۔مجھے بیٹھنے سے حیا آئی اور زبیر کی غیرت کا خیال آیا۔آپ ﷺ نے اس کو بھانپ لیا اور چل دیئے۔میں نے گھر آ کر سارا قصہ زبیر کو بتایا وہ کہنے لگے کہ تمہارا کھیت سے گٹھلیاں لانا مجھ پر بڑا گراں گزرتا ہے یہاں تک کہ حضرت ابو بکر نے مجھے ایک خادم دے دیا جو گھوڑے کی تمام تر دیکھ بھال کرتا تھا۔اس کے آنے کے بعد مجھے ایسا لگا کہ مجھے آزادی مل گئی ہو([27]) ۔ حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ ایک عورت اپنے کھیت میں ایک سبزی (سلق،چقندر)اگایا کرتی تھی۔جمعہ کے دن وہ اس کا سالن بنایا کرتی تھی،ہم جمعہ کی نماز کے بعد اس کے گھر چلے جاتے۔اسے سلام کرتے اور وہ ہمارے لئے کھانا لگا دیتی۔ہم پورا ہفتہ، جمعہ کا انتظار صرف اسی لئے کرتے تھے(کہ نماز جمعہ کے بعد کھانا ملے گا)۔([28])
معاویہ بن حکم سلمی کہتے ہیں کہ میری ایک لونڈی تھی جو میری بکریاں چرایا کرتی تھی۔ایک مرتبہ بھیڑیے نے حملہ کیا اور ایک بکری کو کھا گیا تو مجھے غصہ آیا اور میں نے اسے ایک تھپڑ چہرے پر دے مارا۔بعد میں مجھے افسوس ہوا کہ یہ میں نے کیا کر ڈالا تو میں حضور اکرم ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور قصہ عرض کرنے کے بعد دریافت کیا کہ کیا میں اسے آزاد کر وں؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو میرے پاس لاؤ۔میں اسے لیکر حاضر ہوا تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا کہ اللہ کہاں ہے؟اس نے کہا آسمانوں میں۔پھر آپ ﷺ نے دریافت فرمایا میں کون ہوں؟تو اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں۔تو آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو یہ مؤمنہ ہے۔([29])
میمونہ بنت حارث کےہاں کام کاج کے لئے ایک بچی تھی،جسے انہوں نے آزاد کردیا۔نبی کریمﷺ جب آپ کے ہاں تشریف لائے تو آپ نے آگاہ کیا کہ میں نے باندی کو آزاد کر دیا ہے۔نبی کریم ﷺ نے دریافت فرمایا کیا واقعی؟انہوں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہﷺ۔آپﷺ نے فرمایا یہ بہتر ہوتا کہ تم اسے اپنے بھائی کوبکریاں چرانے کے لئے ہدیہ کردیتیں ۔([30])
درج بالا واقعات میں اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین میں آزاد اور باندی ہر دو قسم کی خواتین شامل تھیں جو زراعت اور مال مویشی کی دیکھ بھال میں حصہ لیتی تھیں۔دورِ حاضر میں جانوروں کی افزائشِ نسل اور پھر ان سے گوشت اور دودھ کی پیداوار ڈیری اور لائیو سٹاک فارمنگ سے عبارت ہے جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی میں غذا کی ضروریات کو پورا کرنا حکومت کا کام ہے جس کے لئے بلا شبہ افرادی قوت درکار ہے۔ دیہی خواتین میں مویشی پالنے،مرغیاں رکھنے کا پہلے ہی رواج ہے مگر یہ منظم طریقے سےنہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت جدید خطوط پر ڈیری صنعت کو استوار کرے۔اعلیٰ نسل کے مویشی دیہی خواتین کو فراہم کرے۔پھر ان کے طبی معائنے،دوا علاج کی خدمات مہیا کرے۔حکومت کے موجودہ شفاخانہ حیوانات اس سلسلے میں باالکل ناکافی ہیں۔باقی رہی سہی کسر کرپشن پوری کر دیتی ہے اور ایک عام کسان کو اپنے جانوروں کے لئے انجیکشن تک مشکل سے میسر آتاہے۔اس کے بعد سب سے اہم قدم حکومت کی جانب سے دودھ کی پیداوار کے حصول کے بعد دیہاتوں سے اس کی وصولی ہے۔ذرائع نقل وحمل کی مشکلات اور صنفی نزاکت کے سبب دیہاتی خواتین اس قابل نہیں ہوتیں کہ وہ اپنی مصنوعات کو قریبی منڈیوں میں فروخت کر سکیں۔ چاروناچار انہیں انہی افراد کا سہارا لینا پڑتا ہے جو ان کے دروازے پر چیز کو وصول کرے۔یہ چیز صحیح قیمت کے تعین میں آڑے آتی ہے اور خاتون کسان کو وہ قیمت نہیں مل پاتی جو اس کی محنت تقاضا کرتی ہے۔نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ شہروں میں قائم ملک شاپ کی برانچیں دیگر شہروں میں پھیل جاتی ہیں لیکن خاتون کسان کا گھر یونہی کچے کا کچہ رہتاہے۔
زراعت اگر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے تو یہ عورتیں اس کی افرادی قوت ہیں۔مئی جون کی جان لیوا گرمی میں جیسے مرد گندم کی کٹائی حصہ لیتے ہیں تو عورتیں بھی ان کے برابر کٹائی میں شریک ہوتی ہیں اور بائیس کروڑ عوام کے لئے خوراک کا بندو بست کرتی ہیں۔ یہ عورتیں اپنے خاندان سمیت جس طرح سے ملکی معیشت میں حصہ لے رہی ہے وہ انتہائی حوصلہ افزاء اور باعث ترغیب ہے۔درج ذیل اعداد و شمار اس دعوے کو کچھ یوں ثابت کرتے ہیں:
وطن عزیز کی ملکی معیشت میں زراعت کی حیثیت ریڑھ کی ہڈی کی سی ہے جو ۳ء۴۲فیصد افراد کو روزگار فراہم کر رہا ہے۔ملکی مجموعی پیداوار میں یہ شعبہ ۸ء۱۹ فیصد اضافے کا باعث ہے۔([31])
پاکستان میں تقریبا آٹھ ملین یعنی اسی لاکھ افراد لائیو اسٹاک سے وابستہ ہیں۔مالی سال ۲۰۱۵۔۲۰۱۶ میں مجموعی ملکی پیداوار میں لائیو اسٹاک کا حصہ ۷ء۱۱ فیصد تھا۔دودھ کی پیداوار ۵۴،۳۲،۸۰۰۰ ٹن اور گوشت کی پیداوار ۳۸۷۳۰۰۰ٹن ہوئی۔([32]) لائیو اسٹاک میں دودھ کی پیداوار، گوشت،چربی،جانوروں کی کھالیں،اون اور دیگر اشیاء حاصل ہوتی ہیں۔ جن کی بدولت بڑھتی ہوئی آبادی کے لئے کھانے پینے یہاں تک کہ رہنے سہنے اور ملبوسات تک کے لئے بندوبست ممکن ہوا ہے۔
پولٹری کا شعبہ ایک اعشاریہ پانچ ملین یعنی ۱۵لاکھ افراد کو روزگار فراہم کررہا ہے۔۲۰۰ ارب سے زائد کی سرمایہ کاری اس شعبے میں کی گئی ہے۔ پاکستان کا شمار پولٹری فراہم کرنے والے گیارہویں بڑے ملک کے طور پر ہوتا ہے جو کہ ایک اعشایہ دو ارب بوائلر مرغیاں سالانہ پیدا کر رہا ہے۔گوشت کی کل پیداوار میں تیس فیصد حصہ پولٹری کا بھی ہے۔۲۰۱۶۔۲۰۱۵ میں مجموعی ملکی پیداوار میں پولٹری کا حصہ ایک اعشاریہ چارفیصد ہے۔۲ء۱۵۱ ،ارب روپے پولٹری سے حاصل ہوتے ہیں۔درج بالا اعدادو شمار تو ایسے ماحول کے ہیں جہاں حکومتی حوصلہ افزائی نہ ہونے کے برابر ہے اگر حکومت خلوصِ دل اور دیانتداری سے اپنا کردار ادا کرے تو وہ دن دور نہیں جب وطن عزیز کا شمار ان ممالک میں ہوگا جن کی معیشتیں نہایت مستحکم ہیں۔([33])
دستکاری
حضرت عبداللہ بن مسعود کی زوجہ حضرت زینب دستکاری سے واقف تھیں اور اس کے ذریعے اپنے بچوں یہاں تک کہ خاوند کے اخراجات کا بندوبست کرتی تھیں۔ایک دن وہ آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوئیں اور کہنے لگیں کہ میں دستکاری سے خوب واقف ہوں اور چیزیں بنا کر فروخت کرتی ہوں۔میرے بیٹے اور خاوند کے پاس کوئی کام کاج نہیں ہے ۔میں ہی ان پر خرچ کرتی ہوں اور ان پر خرچ کرنے کی وجہ سے میں غرباء پر صدقہ نہیں کرسکتی تو کیا بیٹے اور خاوند پر خرچ کرنے سے مجھے اجر ملے گا؟آپ ﷺ نے فرمایا کیوں نہیں؟ تم ان پر جو بھی خرچ کرو گی،تمھیں اس کا اجر ضرور ملے گا ۔([34]) ام المؤمنين حضرت زینب بنت جحش اپنے ہاتھ سے طرح طرح کی چیزیں تیار کر کے انہیں فروخت کرتیں اور جو کمائی انہیں حاصل ہوتی اسے راہ خدا میں صدقہ کر دیا کرتی تھیں۔
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں نے حضرت زینب بنت جحش سے بہتر کوئی نہ دیکھی جو اپنے ہاتھ سے کما کر صدقہ و خیرات کیا کرتی تھیں۔([35])وہ صرف صدقہ و خیرات کے لئے اشیاء تیار کرتی تھیں وگرنہ انہیں اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے اس کی قطعا ضرورت نہ تھی۔ اس سے معلوم ہوا کہ نہ صرف مجبوری کے عالم میں عورت کو کمانے کی اجازت ہے بلکہ اپنی دنیا و آخرت کی بہتری کے لئے بھی عورت کما سکتی ہے۔
حضرت سہل بن سعدسے روایت ہے کہ ایک عورت آپ ﷺ کے پاس ایک چادر لے کر آئی جس کے کنارے بُنے ہوئے تھے۔(معلوم ہوا کہ عورتیں اپنے گھروں میں کشیدہ کاری سے بھی وابستہ تھیں)اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ چادر میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے تاکہ میں اسے آپ کو پہناؤں۔آپ ﷺ نے اس کا یہ ہدیہ قبول فرمایا۔سہل کہتے ہیں کہ آپ ﷺ ہمارے پاس آئے اس حال میں کہ آپ ﷺ نے اس چادر کا تہبند بنا رکھا تھا۔ایک آدمی نے اسے دیکھ کر سوال کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ آپ یہ چادر مجھے دے دیجئے۔آپ ﷺ نے فرمایا ٹھیک ہے تم لے لو۔واپس آنے کے بعد آپ ﷺ نے وہ چادر تہہ کروا کر اس آدمی کو بھیجوا دی۔لوگوں نے اس آدمی سے کہا کہ تم بھی عجیب ہو۔رسول اللہ ﷺ سے چادر کا سوال کر ڈالا،تمہیں معلوم نہیں کہ وہ کسی سائل کا سوال رَد نہیں فرماتے۔اس شخص نے کہا اللہ کی قسم ،میں نے آپ ﷺ سے یہ چادر صرف اسلئے مانگی کہ بوقت موت یہ میرا کفن بن سکے۔سہل کہتے ہیں کہ جب اس شخص کی موت ہوئی تو یہ چادر اس کا کفن تھی۔ ([36])
کاروبار کی نگرانی
عہد رسالت میں عورتیں نہ صرف یہ کہ اپنے کاروبار میں نہ صرف یہ کہ خود حصہ لیتی تھیں اور بطور کارکن خود ہی کام کرتی تھیں بلکہ اس بات کے ثبوت بھی ملتے ہیں کہ وہ خود کاروبار کی ادارت اور نگرانی کرتیں اور کام کاج کوئی اور کرتا تھا۔امام بخاری نے حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کی ہے کہ انصار کی ایک عورت نے آپ ﷺ کو یہ عرض کیا کہ کیا میں آپ کے لئے ایک منبر نہ بنوادوں جس پر آپ تشریف فرما ہوا کریں ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر تم چاہو تو بے شک بنوادو، تو اس عورت نے منبر بنوا کر دیا۔جمعہ کے روز آپ ﷺ اسی پر تشریف فرما ہوتے اور خطبہ ارشاد فرماتے۔([37]) حضرت خدیجہ کی تجارت بھی کچھ اسی طرح کی تھی کہ وہ اپنا مال مضاربت پر دے کے خود کاروبار کی نگرانی کر تیں تھیں اور منافع مضاربین اور اپنے ما بین تقسیم کر لیتی تھیں۔آپ نے نبی کریمﷺ کو بھی مضاربت کی بنیاد پر مال دیا تھا جسے آپﷺ نے فروخت کیا تو دُ گنا منافع ہوا تھا۔
خولہ بنت ثعلبہ کے خاوند نے ان سے ظہار کیا۔وہ دونوں رسول اکرمﷺ کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے کی غرض سے تشریف لائے تو آپﷺ نے فرمایا جب تک کوئی حکم نہیں آجاتا تم اپنی بیوی سے دور رہو۔حضرت خولہ نے عرض کیا:
"يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَهُ مِنْ شَيْءٍ وَمَا يُنْفِقُ عَلَيْهِ إِلا أَنَا" ([38])
کہ میرے خاوند کے پاس تو کچھ بھی نہیں ۔ان پر تو میں ہی خرچ کرتی ہوں۔
درج بالا واقعات کی روشنی میں خواتین گھریلو دستکاری کو احسن طریقے سے فروغ دے سکتی ہیں جن میں سلائی کڑھائی،ملبوسات پر فینسی کام،قالین بافی،کھانے پینے کی اشیاء کے خام مال کی تیاری،چھوٹے پیمانے پر مختلف اشیاء کی پیکنگ،کھیلوں کے سامان کی تیاری وغیرہ شامل ہے۔یہ کام وہ بذات خود بھی سر انجام دے سکتی ہیں اور اگر وہ ملازمین کے ذریعے کروانا چا ہیں تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں۔شرط صرف یہ ہے کہ شرعی امور کی پاسداری رہے۔اس سلسلے میں حکومت پنجاب نے کچھ اقدامات بھی کئے ہیں جو کہ قابل ستائش ہیں ۔مثال کے طور پر ووکیشنل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ میں فیشن ڈیزائینگ ،ٹیلرنگ اور کمپیوٹر اپلی کیشنز کے تین سے آٹھ ماہ تک کے کورسز مفت کروائے جاتے ہیں اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔خواتین کو چاہئے کہ وہ ان اقدامات سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے گھروں میں کمپوٹر کورسز، چھوٹے پیمانے پر سافٹ وئیر کی تیاری،ٹیلرنگ شاپ قائم کر کے اپنا معیار زندگی بلند کریں۔
طبابت
عہد رسالت میں بہت سی صحابیات طبابت کے پیشے سے بھی وابستہ تھیں۔صحابیات جنگوں میں رسول اللہﷺ کے ہمراہ تشریف لیجاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کا فیضہ سر انجام دیا کرتی تھیں۔ان میں سے ایک بنو اسلم کی حضرت رفیدہ انصاریہ تھیں۔ابن اسحاق سے مروی ہے کہ:
وكان رسول الله ﷺ حين أصاب سعدا السهم بالخندق، قال لقومه:"اجعلوه في خيمة رفيدة حتى أعوده من قريب، وكان رسول الله ﷺ يمر به فيقول: " كيف أمسيت وكيف أصبحت؟ " فيخبره"([39])
غزوہ خندق میں جب حضرت سعدتیر سے زخمی ہوگئے تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انہیں رفیدہؓ کے خیمے میں منتقل کردیا جائے تاکہ میں قریب سے ان کی عیادت کر سکوں۔۔۔نبی کریمﷺ ان کے خیمے کے پاس سے گزرتے تو سعدکا حال دریافت فرماتے کہ صبح طبیعت کیسی تھی اور شام کیسی گزری تو سعدآپﷺ کو اپنا حال بتاتے۔
حضرت انس سے روایت ہے کہ غزوات میں ام سلیم اور انصار کی عورتیں نبی کریمﷺ کے ہمراہ ہوتی تھیں جو جنگ کے دوران پانی بھر کر لاتیں اور زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔([40]) ام عطیہ فرماتی ہیں کہ میں سات غزوات میں نبی کریمﷺ کے ہمراہ رہی۔میں مجاہدین کے لئے کھانا بناتی،زخموں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی دوا کرتی تھی۔([41])خارجہ بن زید روایت کرتے ہیں کہ ام علاءنے انہیں بتایا کہ عثمان بن مظعون کو ،ان رہائش گاہوں میں جو انصار نے مہاجرین کے لئے وقف کر دی تھیں،بخار ہوا اور وہ ہمارے ہاں مریض ٹھہرے یہاں تک کہ ان کی وفات ہو گئی۔([42])
حضرت انس سے مروی ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے انصار کی عوتوں کو بخار اور کانوں کے امراض کے علاج کی اجازت دی تھی۔ درج بالا واقعات یہ شہادت پیش کرتے ہیں نہ صرف یہ کہ عورت معالج بن سکتی ہے بلکہ وہ مردوں کا علاج بھی کر سکتی ہے بشرطیکہ فتنے کا خوف نہ ہو۔وطن عزیز میں اس وقت صحت کی صورتحال سرکاری سطح پر زبوں حالی کا شکار ہے جس کا اندازہ درج ذیل کے اعداد وشمار سے لگایا جا سکتا ہے:
پاکستان میں اس وقت سرکاری سطح پر ۱۱۶۷ ہسپتال،۵۹۶۵، ڈسپنسرنیاں،۵۴۶۴ بنیادی مراکز صحت اور ۷۳۳ میٹرنٹی ہومز ہیں جن میں ۱۸۴۷۱۱ ڈاکٹرز،۱۶۶۵۲ ڈنٹسٹ،۹۴۷۶۶ نرسیں اور ہسپتالوں میں ۱۱۸۱۷۰ ،بستر ہیں۔اگر انہیں تقریبا بیس کروڑ کی آبادی پر تقسیم کیا جائے تو ۱۰۳۸ افراد پر ایک ڈاکٹر،۱۲۴۴۷ افراد پر ایک ڈنٹسٹ ۱۵۹۱ افراد کو ایک بستر میسر آتا ہے۔([43])
خواتین کو چاہئے کہ وہ طب کے پیشے پر خصوصی توجہ دیں تاکہ طب کے تمام میادین میں عورتوں کا میڈیکل چیک اپ عورتیں ہی کرسکیں اس میں جہاں مریضوں کے لئے یہ فائدہ ہے کہ انہیں طبی معائنے کے لئے کسی نا محرم کے پاس نہ جانا پڑے گا وہیں خواتین ڈاکٹرز کے لئے یہ مواقع ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں کلینک قائم کرسکتی ہیں۔ایک اسلامی فلاحی ریاست کو قطعا یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ہر میدان زندگی میں عورت و مرد کو اکٹھا کر کے ایک ہی ساتھ بٹھا دے۔اس لئے ضروری ہے کہ جس طرح خواتین کے لئے الگ اسکول،کالجز اور جامعات ہیں اسی طرح ہسپتال بھی جدا ہوں۔عزم اگر مصمم اور نیت اگر خالص ہو تو ایسا انتظام نا ممکن نہیں بلکہ نصرتِ خداوندی کی بدولت نہایت آسان اور باعثِ رحمت ہے،لیکن دورِ حاضر میں جس طرح ہسپتالوں اور کلینکس میں خواتین ڈاکٹر اور نرسیں بے پردہ نظر آتی ہیں،اسلام اس لبرل ازم اور وسعت ذہنی یا روشن خیالی کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔وہ ضرورت کے تحت ہر شے کی اجازت دیتا ہے مگر انسانیت کی خیر خواہی کے لئے اصول و ضوابط بھی مقرر کرتا ہے جس سے اعراض کی گنجائش نہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ خواتین ڈاکٹر اور ان کا اسٹاف پردے کی لازمی پاسداری کرے اور مردو زن کے اختلاط سے بچے۔
عورت بحیثیت معلمہ
اسلام وہ مذہب ہے کہ تعلیم و تحقیق اس کا نقطہ آغاز ہے ۔وہ گود سے گور تک طلبِ علم کا درس دیتا ہے اور عالم و جاہل میں علم کی بنیاد پر تفریق کرکے علماء کو اعلیٰ منا صب عطا کرتا ہے۔دینِ اسلام علوم ِ دینیہ اور علوم ِ عصریہ کی تفریق کا قائل نہیں بلکہ وہ علوم کی تقسیم علومِ نا فعہ و غیر نا فعہ کی بنیاد پر کرتا ہے اور اس سلسے میں مرد ہو یا عورت،ہر ایک کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔غزوہ بدر میں وہ کفار جو قیدی تھے،کا کفارہ دس دس بچوں کو تعلیم دینا قرار پایا۔حضرت شفاء بنت عبد اللہ کو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جیسے تم نے حفصہکو کتابت سکھائی ہے تو کیا انہیں مرضِ نملہ کی دعانہیں سکھاؤ گی؟۔([44])
رسول اللہﷺ کی کثرت ازواج میں اصحاب کی دلجوئی،عداوتوں کے خاتمے سمیت ایک حکمت یہ بھی تھی کہ ازواجِ مطہرات کو دینِ اسلام کی تعلیم دے کر انہیں دین سکھانے پر ما مور کردیا جائے تاکہ خواتین کے وہ مسائل جن کے بیان کرنے میں ایک مَرد کے لئےشرم و حیاء مانع ہوتی ہے،کا بہترین بندو بست ہو جائے۔یہی وجہ ہے کہ ازواجِ مطہرات نے شوق و رغبت سے دین سیکھا اور پھر اسے امت تک بخوبی پہنچایا۔([45])
حضرت عا ئشہ کی کل مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ہے۔حضرت ام سلمہکی مرویات کی تعداد ۳۷۸ ہے اور پنتیس سے زیادہ صحابہ و تابعین نے آپ سے احادیث نقل کی ہیں۔آپ فقہ میں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں اور آپ کا شمار فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے۔حضرت حفصہ سے ۶۰ احادیث منقول ہیں اور بارہ سے زیادہ افراد نے آپ سے روایات نقل کی ہیں۔حضرت میمونہ بنت حارث نے ۴۶ جبکہ ام حبیبہ نے ۶۵ احادیث، رسول اللہﷺ سے نقل کی ہیں۔([46])
ام المومنین سیدہ عائشہ سے تقریبا ایک ہزار روایات مروی ہیں جو انہوں نے نبی کریمﷺ سے روایت کی ہیں اور ستر کے قریب صحابیات ایسی ہیں جنہوں نے نبی کریمﷺ اور صحابہ کرام سے روایات نقل کی ہیں اور بڑے ائمہ ان کے شا گرد ہیں۔امام ابن تیمیہ ور امام ابن قیم جوزیہ ایک مشہور عالمہ فخرالنساء کے تلامذہ میں سے ہیں۔علامہ ابن عساکر نے ۸۱ اور امام مسلم نے ۷۱ عورتوں سے میراثِ نبوی کو حاصل کیا ہے۔([47])
۲۰۱۳تا ۲۰۱۶کے معاشی سروے کے مطابق پاکستان کے چاروں صوبوں میں خواتین کی شرح خواندگی درج ذیل کے مطابق ہے جس سے یہ اشد ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ خواتین کو تعلیم و تعلم کے میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے : ([48])
سال | پنجاب | سندھ | خیبر پختونخواہ | بلوچستان |
۲۰۱۳۔۲۰۱۴ | ۴۳فیصد ، ۷۱ فیصد | ۲۱فیصد ، ۶۳ فیصد | ۳۲فیصد ،۵۵فیصد | ۱۷فیصد ،۴۵فیصد |
۲۰۱۵۔۲۰۱۶ | ۴۵فیصد ،۷۳ فیصد | ۲۴فیصد ،۷۰ فیصد | ۳۱فیصد ، ۵۲ فیصد | ۱۷فیصد ،۴۲فیصد |
خواتین کے لئے تعلیم و تعلم کے میادین
دور حاضر میں خواتین کے لئے سب سے بہتر میدان طب اور درس و تدریس ہے جس میں آنے کے بعد بہترین افرادی قوت پاکستانی قوم کو میسر آ سکتی ہے۔ایسے شعبے جہاں عورت کو ریسیپشن پر بٹھا کے اس حسن کو کیش کروایا جائے،مردو عورت کے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے، لہٰذا خواتین کو ایسے شعبوں میں تعلیم اور ملازمت سے گریز کرنا چاہئے جہاں حیاء کا دامن تار تار ہوتا ہو اور بنت حوا ،حوس کی نظروں کا نشانہ بنتی ہو۔
رضاعت
عہد رسالت میں رضاعت ایک جانا پہچا نا پیشہ تھا اور بہت سی عورتیں اس پیشے سے وابستہ تھیں۔قرآن حکیم نے ان مرضعات کو دستور کے مطابق معاوضہ دینے کا کہا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ﴾([49])
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پائیں یہ (حکم) اس کے لیے ہے جو دودھ پلانے کی مدت کو پورا کرنا ہے اور جس کا بچہ ہے اس کے ذمہ دستور کے موافق ان (ماؤں) کا کھانا اور پہننا ہے۔
حلیمہ سعدیہ نے سرور دوعالمﷺ کو دودھ پلایا تو ام بردہ نے آپﷺ کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دودھ پلایا۔جب حضرت ابراہیم پیدا ہوئے تو انصار کی عورتوں میں یہ بات ہوئی کہ انہیں دودھ کون پلائے گا؟ تو نبی کریمﷺ نے انہیں ام بردہ کے حوالے کردیا۔([50])یوں ام بردہ کو حضرت ابراہیم کی رضاعت کا شرف حاصل ہوا۔ مرضعہ کا پیشہ آج بھی اپنانے میں کوئی حرج نہیں باالخصوص ان حالات میں جب خواتین میں ملازمتوں کا رجحان بڑھا ہے۔پاکستان میں ۴ء۱۹۵ملین آبادی میں ۴ء۶۱ملین افراد باروزگار ہیں۔جن میں بڑی تعداد بالخصوص شہروں میں خواتین کی بھی ہے۔معاشی سروے کے مطابق ایک عورت کے حصے میں ۱ء۳ بچے آتے ہیں۔ملازمت پیشہ خواتین چونکہ چھ سے آٹھ گھنٹے گھر سے باہر ہوتی ہیں اس لئے مرضعہ اور دایا کی ضرورت ایک ناگزیر امر ہے۔خواتین اپنے گھروں میں ڈے کیئر سنٹر قائم کر کے جہاں ملازم خواتین ضرورت پوری کرسکتی ہیں،وہیں اپنے لئے روزگار کا بندوبست بھی امر ِبدیہی ہے۔اس سے نہ گھر کا کام متاثر ہوتا ہے نہ ہی بے پردگی سے خلاف شریعت کچھ لازم آتاہے۔اگر اس میں خلوص نیت شامل ہو تو یہ﴿ وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى﴾([51]) کے مصداق عبادت ہی ہے۔
عورت بحیثیت خادمہ
بسا اوقات گھر کے کام کاج، کھانے پکانے اور صفائی ستھرائی وغیرہ کے لئے ملازم کی ضرورت پیش آتی ہے۔بعض اوقات مرد کی بجائے عورت بحیثیت خادمہ زیادہ منا سب رہتی ہے ۔حضرت ام سلمہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے گھر میں ایک باندی کے چہرےپر داغ دیکھا تو فرمایا : اس کا علاج کرواؤ،اسے نظر لگ گئی ہے۔([52])ابن سوید کہتے ہیں کہ ہم بنی مقرن کے پاس صرف ایک ہی خدامہ تھی ۔ہم میں سے کسی نے اسے تھپڑ مارا تو جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم اسے آزاد کر دو۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ہمارے پاس تو بس وہ ایک ہی خادمہ ہے تو سرکار دوعالمﷺ نے فرمایا چلو ٹھیک ہے تم اسے خدامہ رکھو مگر جیسے ہی حالات بہتر ہوں تو اسے آزاد کردینا۔ ([53])دورِ حاضر میں عورت کی ملازمت کے سبب گھریلو خدامہ شہروں میں ہر دوسرے کی ضرورت ہے۔اگر ایک باصلاحیت عورت ملازمت سے معاشرے کو فائدہ پہنچا سکتی ہے تو آخر اس میں حرج کیا ہے کہ خدامہ کے ذریعے اس کے گھر کا بندو بست ہو جائے؟یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمیں تلاشِ بسیار کے بعد بھی اچھی خدامہ میسر نہیں آتی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ خواتین جو یہ فریضہ سر انجام دینا چاہیں،گھریلو امور میں خوب تربیت یافتہ ہوں اور نہایت امانت و دیانت سے اپنے فریضہ کو سر انجام دیں۔تاہم یہ بھی ضروری ہے کہ ان خادماؤں کو اپنی ملک نہ سمجھ لیا جائے اور نہ ہی ٹشو پیپر کہ جب چاہا لے لیا اور جب چاہا پھینک دیا بلکہ انہیں معاشرے میں قابلِ عزت مقام دیا جائے۔ حکومتِ وقت انہیں سوشل سیکیورٹی فراہم کرے اور جیسے اداروں کے مزدوروں کو علاج معالجہ اور دیگر سہولیات فراہم کی جاتی ہیں،ان کی رجسٹریشن کے بعد انہیں بھی سہولیات فراہم کی جائیں۔
عورت کی ملازمت کے اصول و ضوابط
دینِ اسلام جو کہ دینِ فطرت ہے،مردو عورت کو وہ تمام حقوق ادا کرتا ہے جس سے زندگی کا پہیہ بآسانی رواں دواں رہ سکے لیکن وہ اس کے ساتھ ساتھ اصول و ضوابط کے اپنانے کا بھی حکم دیتا ہے جن میں مطمع نظر محض انسانیت کی خیرخواہی اور اس کی فلاح و بہبود ہے ۔ذیل میں ہم انہی اصول و ضوابط کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کر رہے ہیں:
پردے کی پاسداری
ہر مسلمان عورت پر لازم ہے کہ وہ پردے کا خاص خیال رکھے ۔ یہ اس قدر اہم ہے کہ شریعت نے قریبی رشتہ داروں سے بھی پردے کا حکم دیا لہٰذا غیروں کے سامنے اس کی اجازت کس طرح ممکن ہے؟ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُلْ لِأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيبِهِنَّ﴾([54])
اے نبی کریم (ﷺ) آپ کہہ دیں اپنی بیویوں سے اور اپنی بیٹیوں سے اور مومنوں کی عورتوں کو کہ اپنے آپ کو چادروں سے ڈھانپ لیں۔
چادروں سے ڈھانپنا ایسا ہو کہ نسوانیت اور اس کی جاذبیت چھپ جائے اور اگر چادر اور پردہ ایسا ہو کہ نسوانیت مزید عیاں ہوتی ہو تو بے فائدہ ہے۔آیت مذکورہ میں پردے کا مقصد عورتوں کو ایذاء سے بچانا اور فتنے کی روک تھام ہے لہٰذا اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر چہرے کا پردہ بھی ضروری ہے۔مولانا عبد الرحمٰن کیلانی لکھتے ہیں:
”عورت کا چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اگر اسے ہی حجاب سے مستثنیٰ قرار دیا جائے تو حجاب کے باقی احکام بےسود ہیں۔ فرض کیجئے آپ اپنی شادی سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کی شکل و صورت دیکھنا چاہتے ہیں۔ اب اگر آپ کو اس لڑکی کا چہرہ نہ دکھایا جائے باقی تمام بدن ہاتھ، پاؤں وغیرہ دکھا دیئے جائیں تو کیا آپ مطمئن ہوجائیں گے ؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ آپ کو اس لڑکی کا صرف چہرہ دکھادیا جائے اور باقی بدن نہ دکھایا جائے اس صورت میں آپ پھر بھی بہت حد تک مطمئن نظر آئیں گے۔ پھر جب یہ سب چیزیں روزمرہ کے تجربہ اور مشاہدہ میں آرہی ہیں تو پھر آخر چہرہ کو احکام حجاب سے کیونکر خارج کیا جاسکتا ہے “([55])
لہٰذا ضروری ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین پردے میں چہرے کے ڈھانپنے کا التزام کریں۔
مردوں سے عدم اختلاط
عورتوں کے لئے یہ بھی رہنمائی ہے کہ جب انہیں معاشی سرگرمیوں کے لئے کسی ایسی جگہ جانا پڑے جہاں مردوں سے اختلاط لازم آتا ہو تو ان پر لازم ہے کہ مردوں کے مابین مردوں سے عدم اختلاط کا رویہ رکھیں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی عورت کسی مرد کے ساتھ خلوت میں نہ بیٹھے([56])۔قرآن کریم نے ہدایت کی ہے کہ اگر تمھیں عورتوں سے کچھ مانگنا ہو تو پردے کے پیچھے سے مانگو([57])۔حضرت شعیب کی بیٹیاں ایسے کنوئیں پر جمع ہیں جہاں مرد اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں لیکن وہ ایک جانب کھڑی ہیں اور کہتی ہیں: ﴿ حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ﴾ ([58]) کہ یہ چرواہے اپنے جانوروں کو پانی پلا لیں تو ہم اپنی بکریوں کو پانی پلائیں گی۔جب تک عورت عدم اختلاط کا رویہ برقرار رکھے گی،مخلوط نظام میں بھی اپنی شناخت برقرار رکھے گی،شیطانی وساوس سے بھی محفوظ رہے گی اور مردوں کو بھی اجازت نہ دے گی کہ ان کے دلوں میں کوئی مرض ہو۔عورت کےقول و فعل میں سنجیدگی،چہرے پر معمولی سی ناگواری کے آثار اور آواز میں ذرا سی کرختگی جو بے ادبی وبد تمیزی کو باالکل بھی نہ پہنچے، حکمِ قرآنی ہے۔
قرآن کریم کی ہدایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر عورتوں کو معاشی سلسلے میں کہیں جانا پڑے تو اکیلی نہ جائیں بلکہ دو دو کی صورت میں جائیں اس لئے کہ اس میں شیطانی وساوس سے محافظت ہے۔حضرت شعیبکے قصے میں یہ بھی ممکن تھا کہ ان کی ایک بیٹی جانوروں کو پانی پلاتی اور ان کے چارے کا بندوبست کرتی اور دوسری حضرت شعیب کی تیمارداری کے لئے گھر ٹھہرتی ،امور خانہ داری بجا لاتی لیکن نص، قرآنی ہماری یہ رہنمائی کرتی ہے کہ وہ دونوں مل کر جانوروں کی دیکھ بھال کرتی تھیں۔
خاوند کی اجازت
دینِ اسلام عورت کو معاشی سرگرمی کی اجازت دیتا ہے مگر وہ اسے خاندان کے سربراہ کی اجا زت سے بھی مشروط کرتا ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نہ نکلے،اگر اس نے ایسا کیا تو اس پر آسمان کے فرشتوں اور عذاب دینے والے فرشتوں کی لعنت اس وقت تک برستی ہے جب تک وہ اپنے گھر نہ لوٹ آئے۔ ([59])
شرم و حیاء کی پاسداری
شرم و حیاء ایک مومن کا جوہر ہیں۔نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ حیاء ایمان کا ایک حصہ ہے۔دوسرے مقام پر فرمایا کہ حیاء کا نتیجہ خیر ہی خیر ہے۔بناتِ شعیبؑ کا معاملہ اور حضرت موسیؑ کا معاملہ بھی سَر تا پا حیاء ہی حیاء ہے جس میں قرآن کریم﴿ تَمْشِي عَلَى اسْتِحْيَاءٍ﴾کے ذریعے بناتِ شعیب کی وکا لت کرتا ہے لہذا ایسی ملازمت جس میں شرم و حیاء کی پاسداری نہ رہے،عوتوں کے لئے جائز نہیں۔
نتائج و سفارشات
۱۔عورت کی اولین ذمہ داری امورِ خانہ داری اور اہل و عیال کی دیکھ بھال ہے تاہم معاشی تگ و دو میں حصہ لینے کی بھی اجازت ہے لہٰذا وہ خواتین جنہیں اپنے ذمہ داران کی طرف سے ملازمت کی اجازت ہو،وہ کسبِ معاش میں حصہ لے سکتی ہیں اور بصورتِ دیگر انہیں گھروں میں ہی قیام کرنا چاہئے۔
۲۔خواتین کی فطری ساخت کو مد نظر رکھتے ہوئے ان کے لئے تعلیم اور ملازمت کے میادین خاص کئے جائیں۔
۳۔خواتین کو با ہنر بنانے کے ساتھ ساتھ ان کے لئے معاشی سرگرمیوں کا بھی بندو بست کیا جائے اور پہلے سے باروزگار خواتین کی حوصلہ افزائی کی جائے۔
۴۔مزدور پیشہ خواتین کو باقاعدہ رجسٹرڈ کرنے کے ساتھ لیبر قوانین کے تحت انہیں مکمل تحفظ فراہم کیا جائے۔
۵۔وطنِ عزیز کے اداروں میں مردو زن کے اختلاط کے سبب معاشرت برائیاں جنم لے رہی ہیں جن کا سدِ باب نہایت ضروری ہے۔بہت ضروری ہے کہ مر دو خواتین کے الگ الگ ادارے تشکیل دیئے جائیں جہاں شرعی امور کی پاسداری کرتے ہوئے افرادی قوت کو کام میں لایا جا سکے۔
۶۔باروزگار خواتین میں باقاعدہ پالیسی کے تحت امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا اہتمام کیا جائے تاکہ اخلاق زیادہ سے زیادہ محفوظ رہیں۔
***
حوالہ جات
- ↑ () سورۃ الجمعۃ : ۱۰
- ↑ () سورۃ المزمل : ۲۰
- ↑ ()ترمذی، امام محمد بن عیسیٰ ، سنن الترمذی، باب ما جاء فی عقد التسبیح بالید، حدیث نمبر:۳۴۸۹ ،شركہ مكتبہ ومطبعہ مصطفى البابى الحلبى ، مصر،۱۹۷۵ء،۵/۵۲۲
- ↑ () تمیمی ، محمدبن حبان،صحیح ابن حبان، حدیث نمبر: ۳۳۱۰ ، مؤسسۃ الرسالہ، بيروت، ۱۹۹۸،۸/۶
- ↑ () بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح بخاری، باب الدعاء بکثرۃ الولد مع البرکہ،حدیث نمبر:۶۳۴۴،دار طوق النجاۃ،۱۴۲۲ ھ، ۸/۷۵
- ↑ ()سنن ابو داؤد،کتاب الطلاق،باب من احق بالولد،حدیث نمبر:۲۲۷۶،المكتبۃ العصریہ، صيدا ، بيروت،۲/۲۷۶
- ↑ ()سنن ابو داؤد،کتاب الصلوۃ،باب الجمعہ للمملوک والمرأة،حدیث نمبر: ۱۰۶۷،۱/۲۸۰
- ↑ () اماماحمد بن محمد بن حنبل،مسنداحمد،حدیث نمبر:۲۴۳۹۳،تحقیق :شعيب الأرنؤوط،عادل مرشد،موسسہ الرسالۃ،۲۰۰۱، ۴۰/۴۵۸
- ↑ () سورۃ التوبہ:۱۰۵
- ↑ () سورۃ النساء:۲
- ↑ () سورۃ النساء:۲۹
- ↑ () سورۃ البقرہ:۲۸۲
- ↑ ()سورۃ البقرہ:۲۸۲
- ↑ () ابن حجر عسقلانى، احمد بن على بن محمد، المطالب العاليہ بزوائد المسانيد الثمانیہ، دارالعاصمہ، السعوديہ، ۱۴۱۹ھ ، ۷/۳۵۲
- ↑ () غزالى، ابوحامد محمد بن محمد، احياء علوم الدين، دار الفكر بيروت،۲/۶۲
- ↑ ( ) ابن سعد،الطبقات الکبریٰ،تحقیق :محمد عبد القادر عطا،دار الکتب العلمیہ،طبع اول:۱۹۹۰،۸/۲۲۰،ابو غضہ،زکی علی السید،عملالمراۃ بین الادیان والقوانین ودعاۃ التحریر، ،دارالوفاء للطباعۃ والنشر،طبع اول: ۲۰۰۷،ص:۱۷۴
- ↑ ()ابن الاثير،محمد بن محمد بن عبد الكريم،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،تحقیق: علی محمد معوض،عادل احمد عبد الموجود، دار الكتب العلميہ،طبع اول:۱۹۹۴ ، ۵/۴۳۲
- ↑ () ایضا، ۷/۲۶۰
- ↑ () کیلانی،مولانا عبدالرحمان ،تفسیر تیسیر القرآن، سورۃ القصص،آیت نمبر ۲۳،حاشیہ نمبر:۳۲
- ↑ () قشیری، مسلم بن حجاج ،صحیح مسلم ، حدیث نمبر:۱۵۵۳،دار احياء التراث العربی، بيروت، ۳/۱۱۸۹
- ↑ () سجستانی، سلیمان بن اشعث، سنن ابو داؤ، حدیث نمبر:۳۰۷۳،المكتبۃ العصريہ، صيدا، بيروت، ۳/۱۷۸
- ↑ () صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۵۳۶،۳/۱۱۶۷
- ↑ () امام ابو یوسف،کتاب الخراج ، المکتبۃ الازہریہ للتراث ،قاہرہ ، ۱/۱۱۴
- ↑ () صحیح مسلم،حدیث نمبر: ۱۴۸۳،۲/۱۱۲۱
- ↑ () جلال الدین انصر، عورت اسلامی معاشرہ میں،اسلامک پبلیکیشنز،لاہور،۲۰۰۵،ص: ۱۲۴
- ↑ () صحیح مسلم ، حدیث نمبر: ۱۵۵۳ ،۳/۱۱۸۹
- ↑ ()صحیح بخاری،حدیث نمبر: ۵۲۲۴، ۷/۳۵
- ↑ () صحیح بخاری، حدیث نمبر: ۹۳۸، ۲/۱۳
- ↑ () صحیح مسلم،حدیث نمبر: ۵۳۷ ، ۱/۳۸۱
- ↑ () صحیح بخاری،حدیث نمبر: ۲۵۲، ۳/۱۵۸
- ↑ (1)Economic Survey of Pakistan, 2015-16 (Islamabad: Ministry of finance ), 39
- ↑ (2) Ibid, 40
- ↑ (3)Economic Survey of Pakistan, 22
- ↑ () مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۶۰۸۶،۲۵/۴۹۴
- ↑ () صحیح مسلم، حدیث نمبر: ۲۴۵۲،۴/۱۹۰۷،اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ،۵/۴۹۴
- ↑ () صحیح بخاری،حدیث نمبر: ۲۰۹۳،۳/۶۱
- ↑ () ایضا ،حدیث نمبر: ۲۰۹۵
- ↑ () ابن سعد،ابو عبد الله محمد بن سعد،الطبقات الكبرى ،دار صادر،بیروت،۱۹۶۸، ۸/۳۷۸
- ↑ ()ابن حجر العسقلانی،احمد بن علی بن محمد،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ،رقم: ۶۹۲۵،۸/۱۱۱،الاصابہ فی تمییز الصحابہ،تحقیق : عادل احمد عبد الموجود وعلى محمد معوض، رقم:۱۱۱۷۷،دار الكتب العلميہ،بيروت،طبع اول:۱۴۱۵ھ،۸؍۱۳۶،طبقات الکبریٰ، تحقیق :محمد عبد القادر عطا،دارالکتب العلمیہ،طبع اول:۱۹۹۰ ،۸/۲۸۱
- ↑ () صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۸۱۰، ۳/۱۴۴۳
- ↑ () صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۸۱۲، ۳/۱۴۴۷
- ↑ ()صحیح بخاری،حدیث نمبر: ۱۲۴۱،۲/۷۲
- ↑ (1) Economic Survey of Pakistan, 183
- ↑ () سنن ابی داؤد،حدیث نمبر:۳۸۸۷ ،۴/۱۱
- ↑ () ندوی،ڈاکٹر رضی الاسلام ،حقائق الاسلام،مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز،نئی دہلی،ص:۸۳
- ↑ () ندوی، ڈاکٹر رضی الاسلام، امہات المومنین اور فروغ علم(مضمون)، http://www.raziulislamnadvi.com/
- ↑ () عمل المرأۃ،ص:۱۷۶
- ↑ (5) Economic Survey of Pakistan,P.169
- ↑ () سورۃ البقرۃ:۲۳۳
- ↑ () طبقات ابن سعد،۱/۱۰۸
- ↑ () سورۃ المائدۃ:۲
- ↑ () صحیح بخاری ، حدیث نمبر: ۵۷۳۹ ،۷/۱۳۲
- ↑ () احمد بن محمد بن حنبل،مسند احمد،حدیث نمبر: ۲۳۷۰،مؤسسہ الرسالۃ،۲۰۰۱، ۳۹/۱۵۰
- ↑ () سورۃ الاحزاب:۵۹
- ↑ ()کیلانی، مولانا عبد الرحمٰن ،تیسیر القرآن،مکتبۃ السلام،وسن پورہ،لاہور،۳/۶۱۱
- ↑ ()صحیح بخاری،حدیث نمبر: ۳۰۰۶ ،۴/۵۹،صحیح مسلم،حدیث نمبر: ۱۳۴۱،۲/۹۷۸
- ↑ () سورۃ الاحزاب:۵۳
- ↑ () سورۃ القصص:۲۳
- ↑ ()بیہقی،احمد بن حسین بن علی،سنن الکبریٰ، حدیث نمبر: ۱۴۷۱۳،دارالکتب العلمیہ،بیروت،۲۰۰۳ء،۷؍۴۷۷
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |