1
1
2018
1682060033219_1025
106-117
https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/article5.pdf
Fayyauz. Ul. Herman Waliullah SaadaeKonin Mushahidat Macca Madina
اس مقالہ میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے سفر نامہ زیارت حرمین شریفین ،المسمی "فیوض الحرمین"جو عربی زبان میں لکھا ہوا ہے ، اس کے دو اردو تراجم کا تقابلی جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ اس میں اصل متن کا تعارف اور دونوں تراجم کا تعارف کرایا ہے ۔ اس کےد ونوں تراجم کی مشترکہ خوبیاں بھی بیان کی ہیں جبکہ ہر ایک کی منفردہ خصوصیات بھی واضح کی ہیں اور خاتمہ میں تحقیق کے نتائج اور مزید کام کرنے کی تجاویز دی ہیں ۔
مقدمہ
موضوع کا تعارف:
اصل متن : نام اور وجہ تالیف:
یہ متن برصغیر کی انتہائی قدر آور شخصیت صاحب تصانیف کثیرہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔حضرت شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ۱۱۴۳ھ میں حجاز مقدس کا مبارک سفر کیا اور حج بیت اللہ کا فریضہ ادا کیا ،بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم میں حاضر ہوئے اورتقریباً دوسال تک حرمین شریفین میں قیام کر کے فیوض وبرکات کوسمیٹا ([1])اور انہیں عربی زبان میں قلم بند کیا اور اس کا نام"فیوض الحرمین" رکھا جس میں اس سفرکی یادگار یں اور اس میں حاصل ہونے والے تقریبا ۴۷ مشاہدات اور روحانی مکاشفات کو ذکر کیا ہے۔
اس متن کا نام اور سبب تالیف حضرت شاہ ولی اللہ محد ث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب کے شروع میں خود اس طرح بیان فرمایا ہے ۔وہ فرماتے ہیں:
من أعظم نعم الله تعالی علیّ أن وفّقنی لحج بيته وزيارۃ نبيه عليه افضل الصلوۃ والتسليم سنة ثلاث وأربعين والتی تليها من القرن الثانی عشر، وأعظم من هذا النعمة بکثير أن جعل الحج حج الشهود والمعرفة لاحج الحجب والنکرة وزيارۃ زيارۃ مبصرۃ لازيارۃ عمياء، فتلک نعمة أعظم عندی من جميع النعم، فأحببت أن أضبط أسرار تلک المشاهدة کما علمنی ربی تبارک وتعالی وکما استفدته عن روحانية نبينا صلی الله عليه وسلم تذکرۃ لی وتبصرۃ لاخوانی عسی أن يکون ذلک أدا ء لبعض ماوجب علیّ من شکرها وسميت الرسالة :بفيوض الحرمين ۔[2]
"مجھے اللہ تعالی کی نعمتوں میں سے سب سے بڑی نعمت یہ حاصل ہوئی ہے کہ اس نے مجھے ۱۱۴۳ھ کو اپنے گھر کے حج اور اپنے نبی (روضہ انور )کی زیارت کی توفیق عطا فرمائی ۔اور میرے لیے اس سے بھی کئی گنا بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے میرے اس حج کو مشاہدہ ومعرفت کا سبب بننے والا بنایا نہ کہ حجاب وجہالت والا اور دربار رسالت کی زیارت وحاضری بھی آنکھ والوں کی طرح ہوئی نہ کہ نابینوں کی طرح تو میرے نزدیک سب نعمتوں سے بڑی نعمت یہی ہے ۔سومیں نے چاہا کہ وہ مشاہدات ومعارف جو اللہ تعالی نے مجھے سکھائے ہیں ،اور نبی اکرم ﷺ کی روحانیت مبارکہ سے جس طرح استفادہ کیا ہے ،اسے ضبط تحریر میں لاؤں تاکہ میرے لیے یادگاررہے اور میرے دیگر مسلمان بھائیوں کیلئے ہدایت ورہنمائی کا سبب بنے ۔اللہ تعالی نے مجھ پر جو نعمت کی ہے شایدمیرا یہ عمل اللہ تعالی کا شکریہ قرار پائے جو اس نے مجھ پر کی ۔اور میں نے اس رسالہ کا نام ’’فیوض الحرمین‘‘رکھا ہے ۔"
کتاب کا متن بہت مفید اور انتہائی اہمیت کا حامل ہے اس کاتعلق ایک پہلو سے ادب کے ساتھ ہے کیونکہ یہ ایک سفر نامہ ہے اورسفر نامہ (ادب الرحلات )ادبی اقسام میں سے ایک قسم ہے ۔
جب کہ دوسرے پہلو سے اس کا تعلق دین ومذہب کے اہم علوم"تصوف اور کلام"کے ساتھ ہے ۔[3]
تراجم:
پہلاترجمہ:
اشاعت اول:
یہ ترجمہ" فیوض الحرمین مع اردو ترجمہ سعادت کونین" کے نام سے مترجم کے نام کے بغیر ہی زیور طبع سے آراستہ ہے ۔یہ ترجمہ عربی متن کے ساتھ پہلی دفعہ ۱۳۰۸ھ میں شائع ہوااور اس کے شائع کرنے والے سید ظہیر الدین عرف سید احمد صاحب ہیں جو کہ مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے نواسے ہیں۔
اشاعت دوم :
اور دوسری باریہ ترجمہ ڈاکٹر عبدالجبار عابدلغاری ڈائریکٹر شاہ ولی اللہ اکیڈمی صدر حیدر آباد ،سندھ نے شائع کیا اور یہ ترجمہ اپریل ۲۰۰۷ھ میں طبع ہوا ہے ۔
دوسرا ترجمہ:
"فیوض الحرمین اردو مشاہدات ومعارف "یہ ترجمہ عربی متن کےبغیر ۱۴۱۴ھ میں پہلی بار طبع ہوا ۔ مترجم جناب پروفیسر محمدسرور جامعہ نگر دہلی ہیں ۔
موضوع کی اہمیت
ترجمہ کی افادیت واہمیت اصل متن کی افادیت واہمیت کے ساتھ مربوط ہو تی ہے ،کیونکہ ترجمہ کے اندر تو صرف متن کے اندر موجود افکار ومعانی کو ہی نقل کی جاتا ہے ۔تو جس حد تک اصل متن مفید ہو گا اسی حدتک اس کے ترجمہ کی بھی اہمیت افادیت ہوگی ۔تو جن تراجم کااصل متن اہم اور مفید ہوگا،اس کے تراجم بھی اہم اور مفید ہو گے ۔ہمارے متعلقہ تراجم کا متن برصغیر کی انتہائی قد آور شخصیت صاحب تصانیف کثیرہ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا ہے ۔علمی ومذہبی دنیامیں جن کا نام ہی دلیل وحجت کا درجہ رکھتا ہے ۔
(۲)انشاء اللہ اس مقالہ کو پڑھنے سے مترجمین حضرات کو کئی جہتوں سے کسی متن کا ترجمہ کرنے میں مفید رہنمائی حاصل ہو گی ۔
۳۔اس مقالہ کے سبب شاید کوئی صاحب ذوق استطاعت ان تراجم کی نئے سرے سے بہتر طباعت واشاعت کیلئے کمر ہمت کس لےجس سے یہ تراجم مزید مفید صورت میں عوام کے ہاتھ میں پہنچ جائیں ،وہ مندرجہ ذیل ہیں:
اس مقالہ میں جن امور کا جائز ہ لیا گیا ہے ۔
مقالہ کا اسلوب بیان
۱۔اس مقالہ میں سب سے پہلے تو متن اور دونوں تراجم کا تعارف کرایا گیا ہے ۔
۲۔دونوں تراجم کی خصوصیات اورامتیازات بیان کیے گئے ہیں ۔
۳۔تراجم کی نوعیت کو سمجھنے کیلئے اس اصل متن کے ساتھ دونوں تراجم کی مثالیں نقل کی گئی ہیں ۔
۴۔آخر میں تین مختلف جہتوں سے دونوں تراجم پر مزید کام کرنے کیلئے آراء وتجاویز پیش کی گئی ہیں ۔
۵۔آخر میں مصادر ومراجع کی فہرست دی گئی ہے ۔
مقالہ کے بنیادی سوالات:
اس مختصرمقالہ میں مندرجہ ذیل امور کا جائزہ لیاگیا ہے :
1۔ ہر دو تراجم میں کس حد تک صاحب متن کے احساسات وجذبات اور مقاصد ومطالب کے ترجمہ وترجمانی کا حق ادا کیا گیا ہے
2۔ اور فن ترجمہ کے قواعد وضوابط کا کتنا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
3۔ اصل زبان اور ثانوی زبان کے اسلوب اور محاورہ کی کس قدر رعایت کی گئی ہے ۔
در حقیقت دونوں ترجمہ کاروں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق بھر پور کوشش کی ہے کہ وہ ماتن کی عبارت کے معانی ومطالب ،اور افکار ونظریات کو عام وفہم کر کے پیش کریں۔جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں تاہم اس کو مزید بہتراور آسان بنانےکی گنجائش موجود ہے ۔
اورایسے ہی فن ترجمہ اور ترجمانی کے ماہرین کو طبع آزمائی کرنے کیلئے بھی بہت کچھ مل سکتا ہے جس کی تفصیل مقالہ میں موجود ہے۔
صلب موضوع
صلب موضوع میں دو نوں تراجم سے اصل متن کے ساتھ صرف دو مثالیں قارئین کے لیے پیش خدمت ہیں ۔
جبکہ دونوں تراجم میں صلب موضوع کے تحت بہت سا مواد درج کیا جاسکتا ہے ،لیکن طوالت کےخوف کے سبب صرف اسی قدر پر اکتفاء کیا گیا ہے اسی لیے کہ دونوں تراجم کا مزاج اور اسلوب سمجھنے کیلئے دو مثالیں ہی کافی ہیں ۔
دونوں تراجم سے دو مثالیں
دونوں تراجم کا عمومی مزاج سمجھنے کیلئے چند مثالیں پیش خدمت ہیں ۔
پہلی مثال:
حضرت شاہ صاحب ، رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ اقدس کی حاضری کے وقت حاصل ہونے والے مشاہدات کے بارے فرماتے ہیں :
عربی متن :
غاب عنی الهيکل المثالی وتجلی حقيقة روحه صلی الله عليه وسلم متجردۃ عن الألبسة التی کانت لبسها حتی بعض أجزاء النسمة، ووجدتُها حينئذ کما کنتُ وجدتُ بعض أرواح الأولياء المتقدمين جداً فتحت من روحی صورۃ متجردۃ علی شاکلتها وشاهدتُ من الانجذاب والشموخ مالا يقدر اللسان علی وصفه۔[4]
پہلا ترجمہ:
"غائب ہوگئی مجھ سے ہیکل مثالی اور جلوہ گر ہوئی مجھ پر حقیقت روح مبارک رسول اللہ ﷺکے پاک اور مجرد ان لباسوں سے جو پہنے تھے یہاں تک کہ بعض اجزاء نسمہ بھی، اور میں نے اس وقت پایا اس کو جیسے کہ پایا تھا پہلے بعضے ارواح اولیاء متقدمین کو پھر میری روح سے پیدا ہوئی ایک صورت مجردہ اس کی شکل کی ،اورمیں نے مشاہدہ کیا انجذاب وبلندی کو اس قدر کہ زبان اس کی پر قادر نہیں ۔"
دوسر اترجمہ :
"میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ کی مثالی صورت میرے سامنے سے غائب ہوگئی اور اسکی بجائے آپ کی روح کی حقیقت ان تمام لباسوں سے جو اس نے پہن رکھے تھے ،یہاں تک کہ نسمے کے بعض اجزاء سے بھی منزہ اور مجرد ہو کر میرے سامنے تجلی پذیر ہوئی ۔اس وقت میں نے آپ ﷺ کی روح کو اس طرح پایا ، جس طرح میں نے بعض اولیاء متقدمین کی ارواح کو دیکھا تھا اور اس کے بعد میری روح سے آپ ﷺ کی روح مبارکہ سے ملتی جلتی ایک مجرد صورت ظاہر ہوئی۔ اور اس وقت میں نے اس قدر جذب وشوق ، اوررفعت وبلندی کا مشاہدہ کیا کہ زبان اس کو بیان نہیں کر سکتی ۔"[5]
دوسری مثال :
شعائراللہ کی حقیقت کے بارے دیکھے گئے انوارو تجلیات کے متعلق شاہ صاحب فرماتے ہیں
عربی متن :
رأيت لکل من شعائر الله نوراً يعلوه فطنت بحقيقة انما حقيقة النور مناسبة الشئی بالروحانيات وهئة راسخة فيه هی من أثر الروحانيات فيدرک الانسان من هذه الهئة بحاسة روحه ادراکا انطباعا بأن ينشرح وينفسح ويزداد مناسبة بالروحانيات۔ والناس اذا توجهوا الی شعائر الله صاروا أحزابا ۔فحزب انما ينفخ بنيتها وعزيمتها حيث فعلو ا هذا الفعل لله باعتقاد ان هذا من شعائر الله ،وحزب تنفتح حدقه من أحداق روحها فتحسر بالنور فتغلب قوته الملکئة علی البهيمئة ، وحزب تمعن فی هذا النور فتدرک تد لی الذی هو أصل هذه الشعائر فبهته امره۔"[6]
پہلا ترجمہ :
"میں نے دیکھا کہ اللہ تعالی کا ہر شعائر کا نور بلند ہوتا ہے اور میں نے دریافت کی حقیقت اسکی عبادت بیشک حقیقت نور کی مناسبت شئی کی روحانیات سے اور ایک ہیئت راسخہ ہے اس میں جو روحانیات کی تاثیر سے ہے ۔اس ہیئت سے انسان ادراک کر لیتا ہے روح کے حاسہ سے ایک ادراک انطباعی اس طرح سے کہ خوش ہو جاتا ہے اور مناسبت زیادہ ہوتی ہے روحانیات سے اور شعائر اللہ کی طرف جب لوگ متوجہ ہوتے ہیں تو گروہیں بن جاتے ہیں ۔ایک وہ گروہ ہے کہ اپنی نیت اور عزیمت کے سبب نفع پائے ۔یعنی جو کام کرے ،اللہ کے واسطے اس اعتقاد سے کہ یہ عبادت شعائر اللہ سے ہے ۔ایک وہ گروہ ہے کہ اس کی روح کی آنکھ کھل جاتی ہے ۔پس وہ نور سے معلوم کرتا ہے اسکی قوت ملکیہ غالب آجاتی ہے قوت بہیمہ پر ۔ ایک وہ گروہ ہے جو اس نور میں غور کرے اور ادراک کرے وہ تدلی کہ جو اصل ہے شعائر اللہ کی پس وہ متحیر ہو جائے ۔"
دوسرا ترجمہ :
"اللہ تعالی کی طرف سے لوگوں کیلئے جو شعائر اللہ مقرر کیے گئے ہیں، میں نے دیکھا کہ ان سے نور کی لپٹیں نکل رہی ہیں ۔اس سے میں ان شعائر کی حقیقت سمجھ گیا ۔بات دراصل یہ ہے کہ روحانی امور کو سب سے زیادہ مناسبت اگر کسی چیزسے ہے تو وہ نور ہے ۔چنانچہ اسی روحانیت ہی کا اثر ہے کہ ان شعائر میں نور کی ہیئت راسخ ہو گئی ہے ۔انسان ان شعائرکے نورکا اپنے روحانی حاسہ سے ادراک بھی کر سکتا ہے ۔ اور اس ادراک کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ادراک روح کے اندر نقش ہو جاتا ہے۔ اور اس سے انسان کے اندر انشراح پیدا ہوتا ہے اور اس کے دل میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے اور روحانیت سے اس کی مناسبت اور بڑھ جاتی ہے ۔"
نیز شعائر اللہ کی طرف جب لوگ متوجہ ہوتے ہیں تو اس سلسلہ میں ان کے یہ یہ گروہ بن جاتے ہیں ۔ ایک گروہ شعائر اللہ کے حقوق اداکرنے میں صرف اپنی نیت کا اجر پاتا ہے اور وہ اس طرح کہ یہ گروہ سمجھتا ہے کہ یہ شعائر اللہ تعالی کے مقرر کئے ہوئے ہیں ۔اور چونکہ اس کا حکم ہے کہ ان کے حقوق کا خیال رکھا جائے ۔چنانچہ وہ اس کا حکم سمجھ کر ان شعائر کے حقوق بجا لاتے ہیں ۔دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے ، جن کی روح کی آنکھ کھل جاتی ہیں ۔ ا ور وہ اپنے روحانی حاسہ سے شعائر اللہ کا نور محسوس کرتے ہیں ۔اور اسکی وجہ سے انکی بہیمی قوتوں پر ملکی قوتیں غالب آجاتی ہیں ۔اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو شعائر اللہ کے نو ر میں بالکل ڈوب جاتے ہیں ۔اور اس حالت میں جب وہ غوروخوض کرتے ہیں تو وہ اللہ تعالی کی اس تدلی کا جو ان شعائر کی اصل ہے ادراک کر لیتے ہیں اور اس سے وہ حیرت زدہ ہو کر رہ جاتے ہیں ۔
خصوصیات اور امتیازات :
پہلے ترجمہ کی خصوصیات:
سبقت کی فضیلت:
1۔پہلے ترجمہ کو سب سے بڑی خصوصیت جو حاصل ہے وہ سبقت کی فضیلت ہے یعنی سب سے پہلے وجود میں آنا۔اس سے ایک کام کی داغ بیل پڑی ،کیونکہ کسی کتاب کو پہلی بار کسی دوسری زبان میں ڈھالنا یقیناًایک مشکل کام ہوتا ہے اور وہ کام بلاشبہ بعد میں ہونے والے کاموں کیلئے معاون ہوتا ہے ۔اور سبقت کی دلیل پروفیسر محمدسرورصاحب کا درج ذیل قول ہے:
"اردو ترجمہ میں کتاب کا جو نسخہ خاکسار مترجم کے پیش نظر رہا وہ ۱۳۰۸ھ کا چھپا ہوا ہے اس کے شائع کرنے والے سید ظہیر الدین عرف سید احمد صاحب ہیں جو کہ مولانا شاہ رفیع الدین محدث دہلوی کے نواسے ہیں ۔
اس عربی متن کے ساتھ ساتھ اردو ترجمہ بھی ہے بدقسمتی سے مجھے اردو ترجمہ سے کوئی زیادہ مددنہ مل سکی ،کیونکہ اس کا سمجھنا میرے لیے عربی متن سے کم مشکل نہ تھا ۔فیوض الحرمین کاعربی متن بہت صحیح چھپا ہوا ہے ۔اور واقعہ یہ ہے کہ اس کی وجہ سے کتاب کے مطالب کو حل کرنے میں بڑی مدد ملی ۔[7]
۲۔اصل متن کے ساتھ چھپا ہوا ہونا
اس ترجمہ کی دوسری خصوصیت اصل متن کے ساتھ چھپا ہوا ہونا ہے جس سے قاری ترجمہ کے ساتھ ساتھ متن پر بھی نظر ڈال سکتاہے ،اور ترجمہ کی خوبی وخامی کا آسانی سے اندازہ لگاسکتا ہے ۔
۳۔الترجمہ الحرفیہ
اس ترجمہ کا عمومی مزاج حرفی ترجمہ کا ہے جس میں Source Languageیعنی اصل زبان کے لغوی نظام کا لحاظ رکھتے ہوئے حرف بحرف ترجمہ کیا جاتا ہے ۔اور Target Languageیعنی ثانوی زبان کے لغوی نظام کا لحاظ نہیں کیا جاتا ہے جس طرح مثالوں سے واضح کیا جائے گا ۔
دوسرے ترجمہ کی خصوصیات
۱۔مفصل فہرست
اس ترجمہ کے شروع میں مضامین کی تفصیلی فہرست موجود ہے جو کہ متن کے اہم مشاہدات اور موضوعات تک بآسانی پہنچنے کیلئے ممدومعاون ہے ۔
۲۔پیش لفظ
کتاب کے شروع میں فاضل مترجم نے پیش لفظ کاعنوان قائم کرکے ’’ماتن ‘‘یعنی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے مختصر حالات زندگی بیان کیے ،اور اس وقت کی معاشرتی وسیاسی صورتحال پرروشنی ڈالی ہے جس سے فیوض الحرمین میں وارد مشاہدات ومکاشفات کو سمجھنے میں بہت مدد ملتی ہے ۔
۳۔مقدمہ
جناب مترجم نے اصل متن کا ترجمہ شروع کرنے سے پہلے ایک مفصل مقدمہ لکھا ہے جس میں انہوں نے متن میں وارد اہم مسائل کو مزید آسان انداز والفاظ میں پیش کیا ہے ۔جس سے کتاب پڑھنے کا مزیدشوق بڑھتا ہے ۔اور اسکی اہمیت کا اندازہ بھی ہو جاتا ہے ۔اور وہ ایک لحاظ سے کتاب کے خلاصہ کا درجہ بھی رکھتا ہے ۔جس سے کتاب کے مشمولات کو سمجھنے میں قاری کو آسانی میسر ہوتی ہے ۔
۴۔الترجمة الشارحةأو التفسيرية
دوسرے ترجمہ کا عمومی مزاج الترجمہ الشارحۃ أو التفسیریہ یعنی وہ ترجمہ کہ جس میں Source Language کے المنقول عنہا کے لغوی نظام کی بجائے Target Language المنقول الیہا کے لغوی نظام کا لحاظ رکھتے ہوئے سلیس بامحاورہ ترجمہ کیا جاتا ہے ،اور اس کے مزید یہ کہ بقدر ضرورت بغرض شرح وتفسیر اپنے پاس سے اضافی الفاظ بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب کے اندر جو مشاہدات ضبط تحریر میں لائے ہیں وہ کل 47مشاہدے ہیں جن میں انہوں نے مابعد الطبعیات وکونیات ،الہیات واسلامیات ،تصوف وحکمت اورسیاست ومعاشرت کے کثیر مباحث کے بارے روحانی وباطنی مشاہدات ومکاشفات بیان کیے ہیں ،مثلاً وجود باری تعالی کی معرفت کے بارے میں آ پ فرماتے ہیں : تما م اولاد آدم کے دل کی گہرائیوں میں ، اور اسکی اصل بناوٹ میں ،اور اس کے جو ہر نفس کے اندراللہ تعالی کی معرفت اور اس کو جاننے کی استعداد رکھی گئی ہے ۔لیکن انسانوں کی اس استعداد کے اوپرپردے پڑ جاتے ہیں تو جو انبیاء اور مصلحین بھیجے جاتے ہیں ان کا اصل کام انسانوں کی اسی فطری استعداد سے پردے ہٹانا ہوتا ہے ۔
خاتمہ
آخر میں ہم دونوں تراجم پر مزید کام کرنے کے مختلف پہلوؤں اور جہتوں کی نشاندہی کرتے ہوئے آراء وتجاویز پیش کرتے ہیں۔
اگر دونوں تراجم کو دیکھاجائے تو ایک بادی النظر کا حامل شخص بھی یہ دیکھ سکتا ہے کہ دونوں تراجم میں عربی اور فارسی کی پوری پوری تراکیب اور جملے موجود ہیں جوکہ فن ترجمہ کے خلاف ہے ۔اور اس کے علاوہ بھی دو نوں تراجم میں کئی جہتوں سے مزید بہتری لانے کی بہت گنجائش اور ضرورت ہے ۔جس کو ہر ایک ترجمہ کے حوالہ سے الگ عنوان سے بیان کیا جاتا ہے ۔
پہلے ترجمہ پر کام کرنے کی ضرورت
۱۔اس کے شروع یا آخر میں موضوعات کی فہرست کا اضافہ ازحد ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر کتاب کو دیکھ کر گبھرا جاتا ہے کہ مقصد ومدعا کی تلاش میں شاید اس کو ساری کتاب پڑھنی پڑ جائے ۔
۲۔اس کو سلیس اور بامحاورہ بنا کر اسکی افادیت کو بڑھایا جاسکتا ہے جسکی اشد ضرورت ہے ،اس لیے کہ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں موجودہ مطبوعہ ترجمہ قاری کو پڑھنے میں سخت دشواری کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ بہت سارے مقامات پر معنی ومفہوم اور مصنف کے مقصود ومدعا تک رسائی بھی ناممکن ہے ۔
۳۔علامات ترقیم یعنی رموز اوقاف کا صحیح استعمال یعنی کہاں فل کامہ ،اور کہاں ہاف کامہ پڑنا چاہیے، اور ایسے ہی دیگر رموز اوقاف، اورپیرا بندی کرنے پر بھی کام باقی ہے جو کہ محققین کا منتظر ہے ۔
۴۔بہت سی عربی تراکیب اور عبارات جو کہ پوری کی پوری اردو ترجمہ میں بغیر ترجمہ کے موجود ہیں جن کی وجہ سے عوام کے علاوہ خواص کیلئے بھی ان کا سمجھنا مشکل ہے ۔
۴۔کتاب کے اندر موجود سرخیاں عنوانات بغیر ترجمہ کے جیسے عربی متن میں موجود ہیں ایسے ہی اردو ترجمہ لکھ دیاگیا ہے۔اگرچہ پوری کتاب کا یہی اسلوب ہے صرف چند مثالیں بطور نمونہ پیش خدمت ہیں :مشہد آخر ص۸،معرفۃ عظیمہ ،تحقیق شریف ص۹ زیادۃ ایضاح ،ص:۱۱،مشہدعظیم وتحقیق شریف ،ص:۱۵ وغیرہ،ان عنوانات کی جاذب نظر سرخیاں اور پرکشش عنوانات دینا ضروری ہے تاکہ قاری کو عنوان دیکھنے ساتھ ہی اسے پڑھنے کا شوق پیدا ہو اوروہ اسکو پڑھے بغیر نہ رہ سکے ۔
دوسرےترجمہ پرکام کرنے کی ضرورت:
دوسراترجمہ بہت اچھا ہے اور بہت سی خوبیوں کا حامل ہے لیکن اس کے باوجود اس پہ بعض جہتوں سے مزید کام کیا جا سکتا ہے ۔
۱۔فاضل مترجم نے مشاہدات کی تعداد مثلاً پہلا مشاہدہ ،دوسرا مشاہدہ اسی طرح آخر تک مشاہدات تو گنوا دیئے مگر ان کے عنوانات مثلاً شعائر اللہ کے بیان میں ،منصب رسالت ،ابتداء خلق وغیرہ نہیں باندھے ،اس سے قاری کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اپنا مطلوبہ عنوان تلاش کرنا مشکل ہو تا ہے۔ اگر مشاہدات کے عنوانات بیان کر دیئے جائیں تو قاری کیلئے اپنا مطلوب عنوان تلاش کرنا بہت آسان ہو جائے گا ۔
۲۔اگر ترجمہ متن کے ساتھ ہو تو پھر کافی حد تک متن کی عبارت کا خیال رکھتے ہوئے ترجمہ کرنا پڑتا ہے جس سے بسا اوقات جملہ بندی اور پیرا بندی میں پریشانی کا سامنا ہو سکتا ہے ۔جناب سرور صاحب کا ترجمہ چونکہ عربی متن کے بغیر چھپا ہوا ہے اس وجہ سے اس کومزید آسان پیرایہ اور اردو اسلوب میں ڈھالا جاسکتا ہے ۔ اردو ادب سے تعلق رکھنے والے محققین اس کو پڑھ کر بآسانی اندازہ لگا سکتے ہیں ۔
حوالہ جات
- ↑ تاریخ مسلمانان پاک ہند، سید ہاشمی فرید آبادی( دائرہ معارف اسلامی،اشاعت دوم، ۱۹۸۹ء)،۲/ ۴۳۵
- ↑ فیوض الحرمین مع اردو ترجمہ سعادت کونین ،مترجم :ن،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (نفیس پرنٹنگ پریس لجیت روڈ ،حیدر آباد ،۱۳۰۸ھ)،ص:۶
- ↑ ۔ اردودائرہ معارف اسلامیہ(زیر اہتمام دانش گاہ پنجاب لاہور،اشاعت اول، ۱۹۸۹ء)،ص: ۴۵۔۴۴
- ↑ فیوض الحرمین مع اردو ترجمہ سعادت کونین،ص:۵۳
- ↑ فیوض الحرمین مع اردوترجمہ مشاہدات ومعارف ،مترجم:پروفیسر محمد سرور (مطبوعہ دارالاشاعت ،اُردو بازار ،کراچی ،۱۴۱۴ھ)،ص:۱۵۷
- ↑ فیوض الحرمین مع اردو ترجمہ سعادت کونین، ص:۱۵
- ↑ فیوض الحرمین مع اردوترجمہ مشاہدات ومعارف ، ص:۴
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |