1
1
2018
1682060033219_1183
81-105
https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/article4.pdf
Issues of inheritance have been thoroughly maintained in the Holy Quran and Sunnah.As per these injunctions, the principle of AL’Aqrab fal’aqrab “the closest in kin” is to be observed. According to these principles, grandchildren, even though orphaned, have no right to inherit grandfather in the presence of direct children. On the other hand, section 4 of Muslim Family Laws, 1961 grants a share to orphaned grandchildren from the inheritance of his grandfather. Whereas, as per the constitution, no law can be enacted which is repugnant to the injunctions of the Holy Quran and Sunnah, now, whether the above mentioned section is in conformity with the injunctions of the Holy Quran and Sunnah or not is to be treated properly. If not, so from which perspective, it is repugnant to the Islamic Injunctions? These questions have been analysed critically in this paper and finally it has been concluded that section 4 of Muslim Family Laws Ordinance, 1961 contrasts with the injunctions as laid down in the Holy Quran and Sunnah.
اسلامی معاشی نظام کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ سرمایہ اور ذرائع سرمایہ گردش میں رہیں، اور معاشرے کے تمام افراد استحقاق کی بنیادپر اپنااپنا حصہ حاصل کریں، اسلامی احکام میراث میں یہی فلسفہ کارفرما ہے۔ احکام میراث کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ دیگر احکام کے برعکس ان احکام کے جزئیات تک قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں، تاہم اصولی طور پر قرآن مجید میں یہ واضح کیاگیا ہے کہ میراث کے استحقاق کا دارومدار قرابت پر ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ﴾[1]
نیزارشاد ہے:
﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ﴾[2]
مزیدبرآں! دو اور باتوں کا بھی اہتمام کیاگیا ہے، ایک یہ کہ ذوی الفروض کے حصے مقرر کردیے گئے ہیں، تاکہ ان میں سے کوئی وارث محروم نہ ہو۔ دوسرا یہ کہ عصبات کی درجہ بندی کی گئی ہے، تاکہ اقرب کا حق ابعد پر مقدم ہو۔ غرض یہ کہ زمانہ جاہلیت میں انسانوں کے بنائے گئے ظالمانہ قوانین کے برعکس انصاف پر مبنی ایک جامع نظام میراث انسانیت کو فراہم کیا گیا جس کی ایک نمایاں خصوصت یہ ہے کہ معاشرے کے کمزور افراد وطبقات ، بالخصوص خواتین اور بچوں کے حق میراث کا تحفظ کیا گیا۔
اسلامی احکام میراث میں اولاد کو فی الجملہ عصبات کے درجے میں رکھا گیا ہے اور عصبات کے لیے اقرب فالاقرب کا اصول وضع کیاگیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ قریبی عصبہ کی موجودگی میں بعید ی عصبہ کو میراث نہیں ملے گی۔ یعنی صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وغیرہ میراث کا استحقاق نہیں رکھتے اگرچہ وہ یتیم ہوں۔تاہم جب پاکستان میں مسلم آرڈیننس۱۹۶۱ء فیملی لاء کا نفاذ کیاگیا، تو اس قانون کی دفعہ ۴ میں یتیم پوتے وغیرہ کو میراث کا مستحق قراردیاگیا۔ اس وقت علماء اور دینی علوم کے ماہرین کی طرف اس پر بڑی تنقید کی گئی، اور اس دفعہ کو ختم کرنے کاپرزورمطالبہ کیاگیا۔ لیکن یہ دفعہ ابھی تک اپنی اصلی حالت میں موجود ہے، اور قانون کا حصہ ہے۔
زیرنظر مضمون میں مسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ء کی دفعہ۴ کا قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں اس حوالے سے جائزہ لیا گیا ہے کہ اس دفعہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ دفعہ شرعی احکام کے مطابق ہے؟ یا شرعی احکام سے متصادم ؟اگر متصادم ہے تو کون سے اصول واحکام سے متصادم ہے؟ اور کن پہلوؤں سے؟ذیل کے سطور میں ان سوالات کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
"دفعہ نمبر۴"–وراثت کامتن:
"اگروراثت كے شروع ہونے سے پہلے مورث كے كسی لڑكے یا لڑكی كی موت واقع ہو جائے تو ایسے لڑكے یا لڑكی كے بچوں كو(اگركوئی ہوں) بحصہ، رسدی وہی حصہ ملے گا جو اس لڑكے یا لڑكی كو(جیسی كہ صورت ہو) زندہ ہونے كی صورت میں ملتا۔"
"دفعہ ۴"وراثت كا تجزیہ:
اس دفعہ میں بیان كردہ صورت مسئلہ یہ ہے كہ یتیم پوتے، پوتیاں، نواسے اورنواسیاں اپنے دادا/نانا كے تركہ میں سےمطلقاً میراث كے حقدار ہیں۔ یعنی اگر كسی شخص كی ایك سے زیادہ صلبی اولاد(بیٹے/بیٹیاں) ہوں، اس شخص كی زندگی میں ان میں سے كسی ایك كاانتقال ہوجاتا ہے اور وہ (مرحوم) اپنے پیچھے اولاد(بیٹے/بیٹیاں) چھوڑ جاتا ہے، جو عرف میں یتیم كہلاتے ہیں۔ یہ بچے اپنے دادا/نانا كے مال كے وارث ہوں گے۔ جب بھی داد یا نانا كا انتقال ہوگا،ان كو دادا/نانا كے تركہ میں سے میراث ملے گی، جس كی مقدار كا معیار ان كے(مرحوم) والد یاوالدہ كا حصہ ہے۔ اگروہ زندہ ہوتےتو جتنی میراث کےوہ مستحق ہوتے، و ہی میراث اب ان بچوں كو ملے گی، اگرچہ ان بچوں كا چچا اور پھوپھی یا ماموں اورخالہ زندہ ہوں۔خلاصہ یہ كہ یتیم پوتے/نواسے دادا/نانا كے تركہ میں مطلقا میراث كے حقدار ہیں۔
شرعی نقطہ نظر اور ورثاء كے اقسام:
شریعت كے نقطہ نظر سے اس دفعہ كی حیثیت كیا ہے؟كیا یہ شریعت كے احكام میراث كے مطابق ہے؟ یا متصادم؟اگرمتصادم ہے تو كون سے احكام سے؟ اوركس كس حوالے سے متصادم ہے؟ ذیل كےسطور میں ان سوالات كا جائزہ پیش كیا جاتا ہے۔ تاہم تمہیدی طور پرپہلے ورثاء كی اقسام اور ان كی تعریفات پیش كی جاتی ہیں جودرج ذیل عبارت میں بیان كی گئیں ہیں۔
"وَيُسْتَحَقُّ الْإِرْثُ بِرَحِمٍ وَنِكَاحِ وَوَلَاءٍ، وَالْمُسْتَحِقُّونَ لِلتَّرِكَةِ عَشَرَةُ أَصْنَافٍ مُرَتَّبَةٌ: ذَوُو السِّهَامِ ثُمَّ الْعَصَبَاتُ النَّسَبِيَّةُ ثُمَّ السَبَبِيَّةُ...ثُمَّ ذَوُو الْأَرْحَامِ، ... وَالسِّهَامُ الْمَفْرُوضَةُ فِي كِتَابِ اللَّهِ - تَعَالَى -: الثُمُنُ وَالسُّدُسُ ...وَالرُّبُعُ...وَالنِّصْفُ ...وَالثُلُثُ... وَالثُلُثَانِ الْعَصَبَاتِ، وَهُمْ نَوْعَانِ: عَصَبَةٌ بِالنَّسَبِ، وَعَصَبَةٌ بِالسَّبَبِ. أَمَّا النَّسَبِيَّةُ فَثَلَاثَةُ أَنْوَاعٍ: عَصَبَةٌ بِنَفْسِهِ، وَهُوَ كُلُّ ذَكَرٍ لَا يَدْخُلُ فِي نِسْبَتِهِ إِلَى الْمَيِّتِ أُنْثَى... وَعَصَبَةٌ بِغَيْرِهِ، وَهُمْ أَرْبَعٌ مِنَ النِّسَاءِ يَصِرْنَ عَصَبَةً بِإِخْوَتِهِنَّ، ...وَعَصَبَةٌ مَعَ غَيْرِهِ، وَهُمُ الْأَخَوَاتُ لِأَبَوَيْنِ أَوْ لِأَبٍ يَصِرْنَ عَصَبَةً مَعَ الْبَنَاتِ وَبَنَاتِ الِابْن، ...وَذَوُو الْأَرْحَامِ: كُلُّ قَرِيبٍ لَيْسَ بِذِي سَهْمٍ وَلَا عَصَبَةٍ، وَهُمْ كَالْعَصَبَاتِ مَنِ انْفَرَدَ مِنْهُمْ أَخَذَ جَمِيعَ الْمَالِ، وَالْأَقْرَبُ يَحْجُبُ الْأَبْعَدَ، وَهُمْ أَوْلَادُ الْبَنَاتِ، وَأَوْلَادُ بَنَاتِ الِابْنِ۔ "[3]
"ميراث كااستحقاق قرابت ،نكاح اورولاء كى بنياد پربنتا ہے اورترکہ کے مستحق دس قسم کےلوگ ہیں:ذوی الفروض پھر عصبہ نسبیہ پھرعصبہ سببیہ۔۔۔پھر ذوی الارحام۔۔۔قرآن مجید میں مقرر کردہ حصے ثمن۔۔۔ سدس ۔۔۔ربع۔۔۔نصف۔۔۔ ثلث اورثلثین ہیں۔عصبات دو قسم پر ہیں: عصبہ نسبیۃ اورعصبہ سببیہ، عصبہ نسبیۃتین قسم پرہے(1) عصبہ بنفسہ:یعنی ہرمرد جس کی میت کی طرف نسبت کرنے میں عورت کا واسطہ نہ ہو (2) وَعَصَبَۃ بِغَيْرِہ:چار عورتیں ہیں ،جو اپنےبھائیوں کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں۔۔۔(3)عَصَبَۃ مَعَ غَيْرِهِ: یعنی عینی یا علاتی بہنیں ،جو بیٹیوں اور پوتیوں کے ساتھ عصبہ بن جاتی ہیں۔ذوی الأرحام :ہر وہ رشتہ دار،جو ذوی الفروض اور عصبہ میں سے نہ ہو،یہ میراث لینے میں عصبات کی طرح ہیں ،اگر اکیلے ہو،توسارامال لے لیتا ہے،اور أقرب أبعد کو محجوب(محروم ) کردیتا ہے،وہ بیٹیوں اور پوتیوں کی اولاد ہیں ۔"
"دفعہ ۴" كی روسے ظہور پذیر ہونے والی صورتیں:
دفعہ ۴"وراثت" كو درست تسلیم كرنے كی صورت میں حكم كے اعتبار سے عملاً تین صورتیں پیش آسكتی ہیں جن پر اس دفعہ كا اطلاق ہوگا۔
پہلی صورت: یتیم پوتا داد اكا وارث بن جائے، جبكہ اس كا چچا یعنی دادا كا بیٹا موجود ہو۔
دوسری صورت: یتیم پوتی دادا كی وارث بن جائے جبكہ اس كی پھوپھی ،یعنی دادا كی بیٹی موجود ہو اور دادا كی بہن بھی حیات ہو۔
تیسری صورت: یتیم نواسے/نواسیاں نانا كے وارث بن جائیں جبكہ ان كے ماموں/خالہ، یعنی نانا كی صلبی اولاد موجود ہو۔
یہ تینوں صورتیں شریعت مطہرہ كی نصوص اور ان نصوص میں بیان كردہ احكام شرعیہ سے متصادم ہیں،جس كی تفصیل حسب ذیل ہے:-
پہلی صورت: یتیم پوتا داد كا وارث بن جائے، جبكہ اس كا چچا یعنی دادا كا بیٹا موجود ہو۔
توضیح: اگر فرض كرلیا جائے كہ دادا كی وفات كے وقت ایك یتیم پوتااورایك صلبی بیٹا موجود ہیں، تو عائلی قوانین كی دفعہ ۴ كی روسے یتیم پوتے كو دادا كے مال میں سے آدھا حصہ مل جائے گا، اور بقیہ آدھا دادا كے صلبی بیٹےكو مل جائے گا۔جبكہ شریعت مطہرہ كی رو سے سارا مال یا تركہ بیٹے كو ملے گا،پوتے كو كچھ نہیں ملے گا۔ ظاہر ہے كہ دونوں احكام ایك دوسرے سے بالكل متصادم ہیں۔ بہرحال! شرعی حكم كی بنیاد اور دلیل قرآنی نصوص، احادیث نبویہ، آثار صحابہ اور اجماع امت ہے جس كی تفصیل ذیل كی سطور میں ملاحظہ ہو۔
احكام میراث كا مشہور قاعدہ : "قریبی رشتہ دار كی موجودگی میں دور كے رشتہ دار محرو م ہوتے ہیں۔"
اس قاعدہ كی بنیاد قرآن وسنت میں صراحۃ مذكور دو اصولوں پر ہے: (الف)میراث كا دارومدار رشتے كے لحاظ سے اقربیت پر ہے(۲)استحقاق وراثت میں“حجب”(بعض ورثاء كا میراث سے محروم ہونا) كا قانون جاری ہے۔
پہلی اصل حسب ذیل نصوص(آیات واحادیث) میں بیان ہوا ہے:
﴿لِلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ نَصِيبًا مَفْرُوضًا﴾[4]
"مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے، اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے، تھوڑا ہو یا بہت ہو، حصہ مقرر کیا ہوا ہے ۔"
﴿وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا﴾[5]
"اور ہر کسی کے لئے ہم نے مقرر کر دئیے ہیں وارث اس مال کے کہ چھوڑ مریں ماں باپ اور قرا بت والے اور جن سے معاہدہ ہوا تمہارا ان کو دے دو ان کا حصہ بیشک اللہ کے رو برو ہے ہر چیز ۔"
ان دونوں آیات كریمہ میں لفظ ”الاقربون“میں میراث كی علت كی تصریح ہے، كہ رشتے میں اقربیت ہے،امام قرطبی پہلی آیت كریمہ كی تفسیر میں لكھتے ہیں:
قَالَ علماءؤُنَا: فِي هَذِهِ الْآيَةِ فَوَائِدُ ثَلَاثٌ: إِحْدَاهَا- بَيَانُ عِلَّةِ الْمِيرَاثِ وَهِيَ الْقَرَابَةُ۔[6]
" ہمارے علماء نے فرمایا كہ اس آیت میں تین فائدے ہیں، پہلا یہ كہ علت میراث كا بیان،كہ وہ قرابت ہے۔"
اس علت كی عملی تطبیق یوں كی گئی ہے، كہ وارثت قرابت كی بنیاد پر ملتی ہے۔ قرآن مجید میں جن رشتہ داروں(ذوی الفروض) كے حصے مقرر كیے ہیں، ان سے بچنے والا مال عصبات میں تقسیم ہوگا، تو جو رشتہ دار جتنا زیادہ قریب ہوگا، وہ پہلے مستحق ہوگا۔ حدیث نبویﷺ میں قطعیت كے ساتھ اس اصول كو بیان كیاگیا ہے۔
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔[7]
"ابن عباس ر وایت كرتے ہیں كہ رسولﷺ نے ارشاد فرمایا قرآن مجید كے مقرر كردہ حصے اصحاب فرائض كو دے دو پھر جوباقی رہے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد رشتہ دار كو دیا جائے۔"
یہ حدیث شریف اكثر كتب حدیث میں مذكور ہے، اس لحاظ سے متواتر معنوی كی حیثیت ركھتی ہے، جبكہ اس كے مضمون پر امت كا اجماع ہے، بشمول ان لوگوں كے جو پوتے/نواسے كو دادا كے وارث قراردیتے ہیں۔ اس لیے كہ دیگر رشتہ داروں كے حوالے سے اسی حدیث شریف پر عمل ہے۔ گویا اس حدیث كے حوالے سے تواتر عملی بھی موجود ہے۔[8]
اس حدیث شریف میں یہ اصول بیان كیا گیا ہے كہ میت كے تركہ میں سے اصحاب الفرائض سے بچنے والا مال عصبات كو الاقرب فالا قرب كے اصول سے تقسیم ہوگا۔ یعنی ا قرب(قریبی رشتہ دار) كی موجودگی میں أبعد(دوركا رشتہ دار) محروم ہوجائے گا۔ فلأولیٰ رجلٍ ذكرٍكے الفاظ اس معنی پر دلالت كرنے میں صریح ہیں۔حافظ ابن حجررحمہ اللہ امام نووی كے حوالے اس حدیث نبوی كی شرح كرتے ہوئے لكھتے ہیں:
قَالَ النَّوَوَي أَجمَعُوا عَلٰى أَنَّ الَّذِي يَبقٰى بَعدَ الفُرُوضِ لِلعَصَبَةِ يَقدُمُ الأَقرَبُ فَالأَقرَبُ فَلَا يَرِثُ عَاصِبٌ بَعِيدٌ مَعَ عَاصِبٍ قَرِيبٍ۔[9]
دوسری اصل: وراثت میں"حجب" كا قانون جاری ہے۔
لغۃ میں حجب كا معنی ہے چھپانا، علم میراث میں "حجب" كا مفہوم یہ ہے كہ قریب رشتہ دار كی موجودگی میں بعید رشتہ دار محروم ہوتے ہیں۔ جس كی دوصورتیں ہیں، ایك رشتہ دار كی وجہ سے دوسرے رشتہ دار كا حصہ كم ہوجائے، اس كو حجب نقصان كے ساتھ تعبیر كیا جاتا ہے۔ دوسری صورت یہ ہے، كہ ایك رشتہ دار كی وجہ سے دوسرا رشتہ دار بالكل محروم ہو جائے، اس كو حجب حرمان كہا جاتا ہے۔حجب كا قاعدہ قرآن وحدیث كی صریح نصوص سے ثابت ہے۔چنانچہ آیات المواریث میں اس کی تفصیل بیان كی گئی ہے، صاحب الدرالمختار نے حجب كے احكام كو حسب ذیل عبارت میں بیان كیا ہے:–
ثُمَّ شَرَعَ فِي الْحَجْبِ فَقَالَ (وَلَا يُحْرَمُ سِتَّةٌ) مِنْ الْوَرَثَةِ (بِحَالٍ) أَلْبَتَّةَ (الْأَبُ وَالْأُمُّ وَالِابْنُ وَالْبِنْتُ) أَيْ الْأَبَوَانِ وَالْوَلَدَانِ (وَالزَّوْجَانِ) وَفَرِيقٌ يَرِثُونَ بِحَالٍ، وَيُحْجَبُونَ حَجْبَ الْحِرْمَانِ بِحَالٍ أُخْرَى وَهُمْ غَيْرُ هَؤُلَاءِ السِّتَّةِ سَوَاءٌ كَانُوا عَصَبَاتٍ أَوْ ذَوِي فُرُوضٍ وَهُوَ مَبْنِيٌّ عَلَى أَصْلَيْنِ أَحَدُهُمَا (أَنَّهُ يَحْجُبُ الْأَقْرَبُ مِمَّنْ سِوَاهُمْ الْأَبْعَدَ) لِمَا مَرَّ أَنَّهُ يُقَدَّمُ الْأَقْرَبُ فَالْأَقْرَبُ اتَّحَدَا فِي السَّبَبِ أَمْ لَا (وَ) الثَّانِي (أَنَّ مَنْ أَدْلَى بِشَخْصٍ لَا يَرِثُ مَعَهُ) كَابْنِ الِابْنِ لَا يَرِثُ مَعَ وَيَخْتَصُّ حَجْبُ النُّقْصَانِ بِخَمْسَةٍ بِالْأُمِّ وَبِنْتِ الِابْنِ وَالْأُخْتِ لِأَبٍ وَالزَّوْجَيْنِ۔[10]
اس عبارت كا حاصل یہ ہے كہ چھ رشتہ دار كسی حالت میں محجوب(محروم) نہیں ہوتے، ماں باپ، بیٹا، بیٹی اور میاں بیوی، كچھ رشتہ دار ایك حالت میں وارث ہوتے ہیں، اور دوسری حالت میں حجب حرمان كے ساتھ محروم ہو جاتے ہیں۔ وہ مذكورہ چھ كے علاوہ رشتہ دار ہیں۔ خواہ ذوی الفروض ہوں یا عصبات اور یہ دوقاعدوں پرمبنی ہے۔ پہلا قاعدہ: قریبی رشتہ دار اپنے علاوہ بعید كے رشتہ داروں كو محروم كردیتے ہیں۔ دوسرا قاعدہ: بالواسطہ رشتہ دار اس واسطے كے ہوتے ہوئے وارث نہیں بنتا، جیسے بیٹے كا بیٹا(پوتا)، بیٹے كے ساتھ ۔ حجب نقصان پانچ رشتہ داروں كے ساتھ خاص ہے۔ ماں، پوتی علاتی بہن اور میاں بیوی۔
اس سے یہ بات ثابت ہوئی كہ قانون حجب كی رو سے جہاں بیٹے كی موجودگی میں پوتے محجوب(محروم) ہوتے ہیں وہاں دیگر رشتہ دار بھی دوسرے قریبی رشتہ داروں کی موجودگی میں محروم ہوتے ہیں۔
جن میں سے چند ایك مثالیں حسب ذیل ہیں:
۱۔ماں كی موجودگی میں جدات(دادی/نانی) بالاتفاق محجوب ہوتی ہیں۔[11]
۲۔والد بھائیوں اور بہنوں كو محجوب بناتا ہے۔
۳۔بھائی اور بہن ماں كو ثلث سے سدس تك محجوب بناتے ہیں۔
۴۔بیٹے، پوتے اور والد سگے بھائیوں كو محجوب بناتے ہیں۔
۵۔اخیافی(ماں شریك) بھائی اولاد، پوتوں، نواسوں والد اور دادا كے ساتھ بالاتفاق محجوب ہوتے ہیں۔[12]
حاصل یہ ہوا كہ نصوص شرعیہ سے ثابت ہے كہ احكام میراث كا دارمدار اقربیت پر ہے، اوریہ كہ احكام میراث میں “حجب حرمان” وحجب نقصان” كا اصول جاری ہے، چنانچہ قریب كی موجودگی میں بعید محروم ہوتا ہے۔
فتاویٰ صحابہ میں پوتے كی میراث:
اقربیت اور حجب كے متذكرہ بالا قاعدہ كی پوتے كی میراث پر تطبیق صراحۃ فتاویٰ صحابہ میں مذكورہ ہے، جس كو امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل كیا ہے فرماتے ہیں:
بَابُ مِيرَاثِ ابنِ الِابنِ إِذَا لمَ يَكُن ابنٌ، وَقَالَ زَيدٌ:وَلَدُ الأَبنَاءِ بِمَنزِلَةِ الوَلَدِ، إِذَا لمَ يَكُن دُونَهُم وَلَدٌ ذَكَرُهُم كَذَكِرِهِم، وَأُنثُاهُم كَأُنثَاهُم، يَرِثُونَ كَمَا يَرِثُونَ، وَيحجَبُونَ كَمَا يَحجَبُونَ، وَلَا يَرِثُ وَلَدُ الِابنِ مَعَ الاِبنِ.[13]
"حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں كہ پوتے اورپوتیاں بمنزلہ اولاد كے ہیں جبكہ لڑكے موجود نہ ہوں، لڑكے لڑكوں كی طرح ہوں گے اور لڑكیاں لڑكیوں كی طرح۔ وہ اس طرح وارث ہوں گے جس طرح اولاد وارث ہوتی ہے، اور اسی طرح محروم ہوتی ہے جس طرح اولاد محروم ہوتی ہے۔ اور پوتابیٹے كی موجودگی میں وارث نہیں ہوگا۔"
حضرت زید بن ثابت كے فتوٰی كی وضاحت واہمیت:
حضرت زید بن ثابت كے اس فتویٰ میں پہلے تو اس بات كو ذكركیا ہے كہ احكام میراث میں پوتا پوتی كے احكام وہی ہیں جو بیٹابیٹی كے احكام ہیں۔ ایك تو اس حیثیت سے كہ ذكورت وانوثت كے اعتبار سے جو احكام بیٹا بیٹی كے ہیں وہی احكام پوتا پوتی كے ہیں۔ دوسرا اس اعتبار سے كہ استحقاق اور حجب وحرمان كے اعتبار سے جو احكام بیٹابیٹی كے ہیں وہی احكام پوتا پوتی كے ہیں۔ لیكن اس حوالے سے یہ بنیادی فرق پایاجاتا ہے كہ بیٹا بیٹی بلاواسطہ صلبی اولاد ہیں، جو میت كے قریب ہیں ،جبكہ پوتا پوتی بالواسطہ میت كے رشتہ دار ہیں، اس لیے ان پر احكام میراث كا اجراء اس وقت ہوگا، جب بیٹا نہ ہو۔اور اگر بیٹا ہو تو اس صورت میں یہ محروم ہوں گے۔ چنانچہ فتویٰ كے آخر میں صراحۃًفرمایا كہ: وَلَايَرِثُ وَلَدُ الاِبنِ مَعَ الاِبنِ۔"پوتا بیٹے كی موجودگی میں وارث نہیں ہوگا۔"
میراث كے احكام میں زیدبن ثابت كے اس فتویٰ كی اہمیت اس حوالے سے ہے كہ رسولﷺ نے ان كے بارے میں ارشاد فرمایا ہے كہ:أَفرَضُكُم زَيدٌ(تم میں سب سے زیادہ علم فرائض میراث جاننے والے زید بن ثابت ہیں) یہی وجہ ہے كہ صحابہ كرام كا اس بات پر اجماع تھا كہ فرائض(میراث) میں زیدبن ثابت امام ہیں اور عملاًبھی جب كسی مسئلے میں اختلاف یا اشتباہ ہوتاتوزیدبن ثابت كا قول ہی قول فیصل ہوتا۔ حافظ ذھبی فرماتے ہیں:
مَاكَانَ عُمَرُوَعُثمَانُ لَايُقَدِّمَانِ عَلٰی زَيدٍ أَحَدًا فِی الفَتوٰی وَالفَرَائِضِ وَالقِرَاءَةِ۔[14]
"حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما فتویٰ، فرائض اور میراث میں حضرت زید پر كسی اور كو مقدم نہیں كرتے تھے۔"
اس بنیاد پر امت كا اجماع ہے جیسا كہ علامہ ابویوسف ستائی کے حوالےسےمحمدعبدالحی کتانی نےنقل کیاہےفرماتے ہیں۔
قَالَ أَبُوُيوسُفَ السَتَائِیُّ فِی شَرحِ التِلمِسَانيَة:اَلاِختِيارُأَن يُوخَذَفِی الفَرَائِضِ بِمَذهبِ زَيَدِبنِ ثَابِتٍ رَضَی اللهُ عَنه فَاِنّهُ أَفرَضُ هذه الأُمَّةِ بِشهادَةِ رَسُولِ اللهﷺ۔[15]
"پسندیدہ یہی ہے كہ فرائض كے بارے میں زید بن ثابت كے قول كو اختیار كیا جائے كیونكہ وہ جناب رسولﷺ كی شہادت كے مطابق علم میراث كے سب سے زیادہ جاننے والے ہیں۔"
دوسرا اس حوالے سے كہ حضرت زید بن ثابت كے اس فتویٰ كی بنیاد قرآن وحدیث كی صریح نصوص پر ہے۔
تیسرااس حوالے سے كہ حضرت زید كے اس فتویٰ پر پوری امت كا اجماع ہے۔ صحابہ كرام میں سے كسی نے اس سے اختلاف نہیں كیا، جبكہ ائمہ فقہاء نے بلااتفاق یہی مذھب اختیار كیا ہے جیسا كہ آگے تفصیل آرہی ہے۔ان نصوص كی روشنی میں امت كا اس بات پر اجماع ہےكہ بیٹے كی موجودگی میں پوتا محجوب(محروم) ہوتا ہے اوراگر ذوی الفروض نہ ہوں تو عصبہ ہونے كی حیثیت سے سارا مال بیٹے كو ملے گا،اور اگر ذوی الفروض ہوں تو باقی ماندہ بیٹے ہی كو ملے گا۔ابوالولیدالباجی امام مالك رحمہ اللہ کامسلک نقل کرتے ہوئےلكھتے ہیں:
إنَّهُ لَا مِيرَاثَ لِابْنِ الِابْنِ مَعَ الِابْنِ؛ لِأَنَّهُ أَقْرَبُ سَبَبًا مِنْهُ إلَى الْمَيِّتِ وَهُمَا يُدْلِيَانِ بِالْبُنُوَّةِ؛ وَلِأَنَّ ابْنَ الِابْنِ يُدْلِي بِالِابْنِ وَمَنْ يُدْلِي بِعَاصِبٍ فَإِنَّهُ لَا يَرِثُ مَعَهُ، وَعَلَى هَذَا جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ مِنْ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ۔[16]
"بیٹے كے ساتھ پوتے كو میراث نہیں ملتی اس لیے كہ بیٹاپوتے كی نسبت میت سے زیادہ قریب ہے، اور اس لیے كہ پوتا بیٹے كی وساطت سے میت كی طرف منسوب ہے۔ اور جو رشتہ دار كسی عصبہ كی وساطت سے میت كی طرف منسوب ہو، تو اس عصبہ كے ہوتے ہوئے وہ وارث نہیں ہوتا، اور یہی جمہور فقہاء ، صحابہ وتابعین كا قول ہے۔"
چنانچہ فقہاء اربعہ نے یہی قول اختیار كیا ہے۔ عبارات ملاحظہ ہوں:
فقہ حنفی:
(وَ) الثَانِي (أَنَّ مَن أَدلٰى بِشَخصٍ لَا يَرِثُ مَعَهُ) كَاِبنِ الاِبنِ لَا يَرِثُ مَعَ الاِبنِ۔[17]
"دوسرا: كوئی اور شخص كے ذریعے رشتہ دار ہو تو اس كے ہوتے ہوئے وہ وارث نہیں بنتا۔"
فقہ مالکی:
فَنَقُولُ لَا يَحْجُبُ ابْنَ الِابْنِ إِلَّا الِابْنُ۔[18]
"ہم كہتے ہیں كہ پوتے كو بیٹا ہی محجوب(محروم) بناتا ہے۔"
فقہ شافعی:
وَالحَجَبُ عَشَرَةٌ لَا يَرِثُونَ مَعَ عَشَرَةٍ: اِبنَ الاِبنِ لَا يَرِثُ مَعَ الاِبنِ۔[19]
"حجب دس ہیں، جو دس كے ساتھ وارث نہیں ہوتے، پوتا، بیٹے كے ساتھ وارث نہیں ہوتا۔"
فقہ حنبلی:
وَلَا يَرِثُ وَلَدُ الإِبنِ مَعَ الإِبنِ بِحَالٍ۔[20]
"پوتا كسی حالت میں بھی بیٹے كے ساتھ وارث نہیں ہوتا۔"
اہل تشیع كا بھی یہی مسلك ہے:
ولايَرث ابن الابن ولابنت الابنة مع ولد الصلب ولا يَرث ابن ابن ابن مع ابن ابن وكل من قرب نسب فهو اولی بالميَراث ممن بعد۔[21]
"پوتا اور نواسی صلبی اولاد كی موجودگی میں وارث نہیں ہوتی” اور نہ پوتے كا بیٹا پوتے كی موجودگی میں وارث ہوتا ہے اور قاعدہ یہ ہے كہ جس كانسب قریب ہو وہ دور كے رشتہ دار سے زیادہ میراث كا مستحق ہے۔"
اور الاستبصار میں لكھا ہے:
ابن الابن اذالم یكن من صلب الرجل احد قام مقام الابن .[22]
"پوتا بیٹے كے قائم مقام ہوجاتا ہےجبكہ میت كی صلب سے كوئی اولاد نہ ہو۔"
خلاصہ كلام یہ ہوا كہ قرآن مجید، احادیث نبویہ، فتاویٰ صحابہ میں بصراحت یہ بیان ہوا ہے كہ بیٹے كی موجودگی میں پوتا محجوب(محروم) ہوتا ہے اور فقہاء كرام نے بلاتفاق اس مسئلے كو اختیار كیا ہے، جس پر امت كا اجماع ہے۔ جبكہ عائلی قوانین كی دفعہ ۴ "وارثت" كی روسے ایسی صورت میں پوتا دادا كے مال میں بیٹے جتنے حصہ كے حقدارٹھہرتا ہے۔ یوں دونوں باتوں میں كھلا تناقض وتصادم ہے۔
دوسری صورت:یتیم پوتی دادا كی وارث بن جائے، جبكہ اس كی پھوپھی یعنی دادا كی بیٹی موجود ہو، اور دادا كی بہن بھی موجود ہو۔
توضیح: اگرفرض كرلیا جائے كہ دادا كی وفات كے وقت اس كے رشتہ داروں میں بیٹی، بہن اور یتیم پوتی موجود ہیں تو عائلی قوانین كی دفعہ۴ "وارثت" كی رو سےپوتے كو دادا كے مال میں سے اپنے مرحوم والد كا پورا حصہ مل جائے گا، جو بیٹی كے حصہ كا دگنا ہو گا، اس لیے كہ"للذكرمثل حظ الانثیین"میں یہی حكم ہے، یوں پوتی كو دوحصے اور بیٹی كو ایك حصہ مل جائے گا جبكہ بہن محروم رہ جائے گی۔
جبكہ شریعت مطہرہ كی روسے كل مال كا آدھا بیٹی كو مل جائے گا، سدس(چھٹاحصہ)پوتی كو مل جائے گا اور باقی ماندہ حقیقی بہن كو مل جائے گا۔ ظاہر ہے كہ دونوں تقسیم ایك دوسرے كے بالكل برعكس ہیں۔ بہرحال اس تقسیم كی بنیاد رسولﷺ كی حسب ذیل حدیث شریف ہے۔
عن هُزَيْلَ بْنَ شُرَحْبِيلَ، قَالَ: سُئِلَ أَبُو مُوسَى عَنْ بِنْتٍ وَابْنَةِ ابْنٍ وَأُخْتٍ، فَقَالَ: لِلْبِنْتِ النِّصْفُ، وَلِلْأُخْتِ النِّصْفُ، وَأْتِ ابْنَ مَسْعُودٍ، فَسَيُتَابِعُنِي، فَسُئِلَ ابْنُ مَسْعُودٍ، وَأُخْبِرَ بِقَوْلِ أَبِي مُوسَى فَقَالَ: لَقَدْ ضَلَلْتُ إِذًا وَمَا أَنَا مِنَ المُهْتَدِينَ، أَقْضِي فِيهَا بِمَا قَضَى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِلاِبْنَةِ النِّصْفُ، وَلِابْنَةِ ابْنٍ السُّدُسُ تَكْمِلَةَ الثُّلُثَيْنِ، وَمَا بَقِيَ فَلِلْأُخْتِ فَأَتَيْنَا أَبَا مُوسَى فَأَخْبَرْنَاهُ بِقَوْلِ ابْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: لاَ تَسْأَلُونِي مَا دَامَ هَذَا الحَبْرُ فِيكُم۔[23]
"هزيل بن شرحبيل سے روايت ہے کہ حضرت أبو موسٰی اشعری سے پوچھا گیا،کہ بیٹی پوتی اور بہن وراث ہوں (توکتنا حصہ ملے گا ؟)فرمایا:آدھا بیٹی کو اورآدھا بہن کومل جائیگا ۔(اورسائل سے کہاکہ) : ابن مسعود کے پاس جایئے وہ ضرور میری موافقت کریں گے۔جب ابن مسعود سےیہ مسئلہ پوچھا گیا،اور ان کوابوموسٰی اشعری کاقول بھی بتایا گیا،توآپ نے فرمایا(اگر میں بھی یہی بات کروں تو)پھر تومیں گمراہ ہوجاؤں گا اورہدایت پر نہیں رہوں گا۔میں وہی فیصلہ کروں گا جونبی اکرم ﷺ نے کیا ہے "بیٹی کوآدھا اور پوتی کوچھٹاملے گا،تاکہ دوثلث مکمل ہوجائیں اورباقی ماندہ بہن کو ملے گا"توہم ابوموسٰی کے پاس آئے اور ان کوابن مسعود کاقول بتایا،تو (اپنے قول سے رجوع کرتے ہوئے)فرمایا: جب تک يہ بڑاعالم تمہارے اندر موجود رہے ،تومجھ سے نہ پوچھا کرو۔"
اس حدیث شریف میں رسولﷺ كا فیصلہ صراحتاً معلوم ہوگیا كہ صلبی بیٹی كی موجودگی میں پوتی كو چھٹا حصہ ملے گا۔ اور بہن عصبہ ہوگی یعنی ان دونوں كا حصہ دینے كے بعد جو بچے گا وہ بہن كو ملے گا، بیٹی كی موجودگی میں بہن كا عصبہ ہونا اجماعی مسئلہ ہے۔
امام خطابی فرماتے ہیں:
في هذا بيان أن الأخوات مع البنات عصبة وهو قول جماعة الصحابة والتابعين وعامة فقهاء الأمصار۔[24]
"اس حدیث میں اس امر كا بیان ہے كہ بہنیں بیٹوں كی موجودگی میں عصبہ ہوتی ہیں اور یہ صحابہ، تابعین اور تمام فقہاء امصار كا قول ہے۔"
امام بخاری رحمہ اللہ حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ كا فیصلہ نقل كرتے ہیں:
بَابٌ: مِيرَاثُ الأَخَوَاتِ مَعَ البَنَاتِ عَصَبَةٌ: عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: قَضَى فِينَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ، عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:النِّصْفُ لِلاِبْنَةِ وَالنِّصْفُ لِلْأُخْتِ۔[25]
"بہنوں كی میراث ،بیٹوں كے ساتھ عصبہ ہوتی ہیں۔ اسود سے روایت ہے فرمایا كہ عہدرسالت میں حضرت معاذبن جبلؓ نے فیصلہ كیا كہ آدھا بیٹی كو ملے گا اور آدھا بہن كو ملے گا۔"
قاعدہ یہ ہے كہ رسول اللہﷺ كی موجودگی میں كسی صحابی كا فیصلہ حدیث مرفوع كے حكم میں ہے، جو حدیث تقریری كہلاتی ہے۔ چنانچہ اس مسئلے میں بھی فقہاء كا اجماع ہے۔ عبارات ملاحظہ ہوں:
فقہ حنفی:
فَإِنَّ الْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ فَيَكُونُ لِلْأُخْتِ مَا بَقِيَ۔[26]
“بہین بیٹیوں كے ساتھ عصبہ ہوتی ہیں، پس بہن كو باقی ماندہ ملے گا۔"
فقہ مالكی:
وَالْأَخَوَات الشقائق وَللْأَب عصبَة مَعَ الْبَنَات۔[27]
"سگی بہن اور علاقی(باپ شریك) بہن بیٹیوں كے ساتھ عصبہ ہوتی ہیں۔"
فقہ شافعی:
قال الشافعي رحمه الله تعالى: " وَلِلْأَخَوَاتِ مَعَ الْبَنَاتِ مَا بَقِيَ إِنْ بَقِيَ شَيْءٌ وَإِلَّا فَلَا شَيْءَ لَهُنَّ وَيُسَمَّيْنَ بِذَلِكَ عَصَبَةَ الْبَنَاتِ ".قَالَ الْمَاوَرْدِيُّ: ...الْأَخَوَاتُ مَعَ الْبَنَاتِ عَصَبَةٌ لَا يُفْرَضُ لَهُنَّ وَيَرِثْنَ مَا بَقِيَ بَعْدَ فَرْضِ الْبَنَاتِ۔[28]
"امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا: بیٹیوں كے ساتھ بہن آجائیں، تو ان كو باقی ماندہ ملے گا، اگر باقی ماندہ ہو، ورنہ ان كو كچھ نہیں ملے گا۔ اس طرح ان كو عصبۃالبنات كہاجاتا ہے۔ ماوروی فرماتے ہیں۔۔۔ بہنیں بیٹیوں كے ساتھ عصبہ ہیں، جن كا حصہ مقرر نہیں، وہ بیٹیوں كے مقررہ حصے كے بعد باقی ماندہ كی وارث ہوتی ہیں۔"
فقہ حنبلی:
وَإِنِ اجتَمَعَ الأَخوَاتَ مَعَ البَنَاتِ، صَارَ الأَخوَاتُ عَصَبَةً، لَهُنَّ مَا فَضُلَ۔[29]
"اگر بیٹیوں كےساتھ بہنیں جمع ہو جائیں، تو بہنیں عصبہ بن جاتی ہیں ان كو باقی ماندہ ملتا ہے۔"
حاصل یہ ہوا كہ قرآن وسنت كی نصوص اور فتاویٰ صحابہ كی روشنی میں منعقد ہونے والے اجماع امت كے مطابق تو زیر بحث صورت میں پوتی كو سدس(چھٹا) حصہ ملتا ہے اور بہن بھی وارث ہوتی ہے۔ لیكن عائلی قوانین كی دفعہ ۴ كے مطابق پوتی كو ۲حصے ،یعنی بیٹی سے بھی زیادہ ملے گا،اور بہن محروم ہوگی۔ لہذا اس حیثیت سے بھی دفعہ ۴ شرعی احكام سے بالكلیہ متصادم ہے۔
تیسری صورت: یتیم نواسے/نواسیاں نانا كے مال میں وارث بن جائیں جبكہ ان كے ماموں/خالہ یعنی نانا كی صلبی اولاد موجود ہو۔
توضیح: صورت مسئلہ یہ ہے كہ ایك شخص كا انتقال ہو جائے اس كے رشتہ داروں میں صلبی اولادبیٹے/بیٹیاں موجود ہوں اور یتیم نواسے/نواسیاں بھی موجود ہوں، تو عائلی قوانین كی دفعہ۴ كی روسے نواسوں/نواسیوں كومیراث ملے گی، جس كی مقدار یہ ہوگی كہ اگر ان كی والدہ حیات ہوتی، اس كو اپنے والد كے مال میں سے جتنا حصہ ملتا، مثلاً بھائیوں سے نصف ،تو یہ حصہ اب اس كے بچوں ،یعنی مرنے والے كے نواسوں/نواسیوں كو ملے گا۔
جبكہ شریعت مطہرہ كی رو سے اس صورت میں نواسے/نواسیاں وارث نہیں ٹھہرتے، اس لیے كہ وہ نہ تو ذوی الفروض ہیں، جن كا حصہ قرآن میں مقرر ہے اور نہ عصبات ہیں كہ وہ باقی ماندہ كے وارث بنے، بلكہ ذوی الارحام ہیں۔اور ذوی االارحام كے وارث بننے كے حوالے سے دوقول ہیں۔ایك قول حضرت زیدبن ثابت رضی اللہ كا ہے، کہ ذوی الأرحام کسی صورت میں وارث نہیں ہوتے۔ صحابہ كرام كی ایك جماعت اور فقہاء میں سے امام مالك وامام شافعی نے یہی قول اختیار كیا ہے۔ ان كی دلیل یہ ہے كہ آیات المواریث میں ذوی الفروض وعصبات كی میراث كاذكر تو ہے، لیكن ذوی الارحام كا نہیں۔جس سے معلوم ہوتا ہے كہ ذوی الارحام وارث نہیں۔
دوسراقول حضرت ابوبكر صدیق رضی اللہ عنہ كا ہے ،جس کے مطابق ذوی الفروض اور عصبات کےموجود نہ ہونے کی صورت میں ذوی الأرحام وارث بنتے ہیں ۔اس قول كو صحابہ كرام اور تابعین کی ایک جماعت اور فقہاء میں سے ائمہ احناف نے لیا ہے۔ اس قول كی بنیاد سورہ انفال كی حسب ذیل آیات كریمہ ہے:–
﴿وَأُولُو الأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ﴾[30]
"ناتے والے (رشتے دار) آپس میں حقدار زیادہ ہیں ایک دوسرے کے اللہ کے حکم میں ۔"
چند احادیث سے بھی استدلال كیا گیا۔ [31]
بہرحال جس قول كے مطابق ذوی الارحام وارث بنتے ہیں اس كی تفصیل یہ ہے ذوی الفروض (سوائے زوجین كے) اور عصبات موجود نہ ہونے كی صورت میں ذوی الارحام وارث بنتے ہیں۔الدرالمختار میں ہے:
بَابُ تَوْرِيثِ ذَوِي الْأَرْحَامِ (هُوَ كُلُّ قَرِيبٍ لَيْسَ بِذِي سَهْمٍ وَلَا عَصَبَةٍ) فَهُوَ قِسْمٌ ثَالِثٌ حِينَئِذٍ (وَلَا يَرِثُ مَعَ ذِي سَهْمٍ وَلَا عَصَبَةٍ سِوَى الزَّوْجَيْنِ) لِعَدَمِ الرَّدِّ عَلَيْهِمَا.فَهُمْ أَرْبَعَةُ أَصْنَافٍ جُزْءُ الْمَيِّتِ، ثُمَّ أَصْلُهُ ثُمَّ جُزْءُ أَبَوَيْهِ ثُمَّ جُزْءُ جَدَّيْهِ۔[32]
"باب:ذوی الارحام كا وارث بننا: ذوی الارحام وہ رشتہ دار ہیں، جو ذوی الفروض اور عصبہ میں سے نہ ہوں۔ یہ تیسری قسم ہے، ذوی الارحام ذوی الفروض اور عصبہ كے ساتھ وارث نہیں بنتے، سوائے زوجین كے(كہ ان كے ساتھ وارث بنتے ہیں) اس لیے زوجین پررد نہیں ہوتا۔۔۔۔ذوی الارحام چارقسم پرہیں۔(۱)میت كا جزء(۲)میت كا اصل(۳)میت كے والدین كا جزء(۴) والدین كے دادا یادادی كا جزء۔"
اب تك كی بیان كردہ تفصیل كا حاصل یہ ہوا، كہ دفعہ ۴"وارثت" كو درست ماننے كی صورت میں عملی طور پر تین صورتیں ممكن ہیں۔ ان میں سے ہر صورت كے متعلق قرآن وسنت كے احكام كچھ اور ہیں، جبكہ دفعہ ۴ كی رو سے اس كے احكام بالكل بدل جاتے ہیں۔ اس لیے اس دفعہ کوتسلیم كرنے كی صورت میں ان تمام شرعی احكام كو پس پشت ڈالنا ہوگا۔ لہذا اس دفعہ كے مطابق میراث كی تقسیم قرآن وسنت میں تحریف كے مترادف ہے، جو انتہائی خطرناك عمل ہے۔
علاوہ ازیں! میراث كے دیگركئی اصول اور شرعی احكام ہیں۔ اس دفعہ پر عمل كرنے كی صورت میں ان تمام ایك اصول واحكام كی خلاف ورزی لازم آئے گی ۔تفصیل ملاحظہ ہو:–
كتاب وسنت سے ماخوذ احكام میراث کے بنیادی اصول:
پہلی اصل:مورث كی وفات كے وقت زندہ موجود ورثاء وارث ہوتے ہیں۔
دوسری اصل: ایك مرد كا حصہ دوعورتوں كے حصہ كے برابر ہوتا ہے۔
تیسری اصل: صلبی اولاد كی طرح دوسرے رشتہ داربھی وارث ہوتے ہیں۔
چوتھی اصل: ہر وارث وارث ہوتا ہے، خواہ اس كی اولاد ہو یا نہ ہو۔
متذكرہ بالا اصول كی توضیح وتشریح:
پہلی اصل:مورث كی وفات كے وقت زندہ موجودہ ورثاء وارث ہوتے ہیں۔
اس اصول كے دوجزء ہیں: (الف) كسی شخص كا مال وفات كے وقت میراث بنتا ہے، وفات سے پہلے نہیں(ب) زندہ موجود رشتہ داروں كامیراث میں حصہ ہوتا ہے وفات شدگان كا نہیں۔یہ اصول حسب آیات خداوندی میں بیان ہوا ہے۔
﴿إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ﴾[33]
"گر کوئی مرد مر گیا اور اس کےبیٹا نہیں اور اس کی ایک بہن ہے تو اس کو پہنچے آدھا اس کا جو چھوڑا اور وہ بھائی وارث ہے اس بہن کا اگر نہ ہو اس کے بیٹا ۔"
﴿وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ،الآية﴾[34]
" تمہارا ہے آدھا مال جو کہ چھوڑ مریں تمہاری عورتیں اگر نہ ہو ان کے اولاد اور اگر ان کے اولاد ہے تو تمہارے واسطے چوتھائی ہے اس میں سے جو چھوڑ گئیں بعد وصیت کے، جو کر گئیں یا بعد قرض کے، اور عورتوں کے لئے چوتھائی مال ہے اس میں سے جو چھوڑ مرو تم اگر نہ ہو تمہاری اولاد، اور اگر تمہاری اولاد ہے تو ان کے لئے آٹھواں حصہ ہے اس میں سے جو کچھ تم نے چھوڑا ۔"
ان آیات كریمہ میں دو امرمذكور ہیں، پہلا یہ كہ:یہاں تین كلمات استعمال ہوئے ہیں (۱) ھَلَك (۲) تَرَك (۳)تَرَكتُم،جس كے معنی یہ ہیں كہ جب كوئی آدمی مر جائے اور مال چھوڑجائے تو اس میں كسی وارث كو نصف یا ربع ملے گا، گویا جب تك كوئی شخص زندہ ہے اس كے مال میں كسی وارث اور رشتہ دارے كاكوئی حصہ نہیں ہوتا۔
دوسرا یہ كہ :زندہ موجود رشتہ داروں كا حصہ بیان كیا گیا ہے یعنی ولہا اخت(اس كی بہن ہو)"ولكم نصف" اور"ولھن الربع "۔ جبكہ "ان لم یكن لہا ولد "اور" ان لم یكن لھن ولد "اور" ان لم یكن لكم ولد"میں تین مرتبہ كہا گیا ہے كہ اولاد نہ ہو۔ اس میں یہ صراحت ہے كہ غیر موجود اولاد(خواہ پیدا ہی نہ ہوئی ہو ،یا پیداہونے كے بعد مرگئی ہو) حصہ دار نہ ہوگی بلكہ ان كی غیر موجودگی كی وجہ سے موجود ورثاء كے حصے مختلف ہوتے رہتے ہیں۔امام شافعی ؒ كتاب الام میں لكھتے ہیں:
وَكَانَ مَعْقُولًا عَنْ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ثُمَّ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ثُمَّ فِي لِسَانِ الْعَرَبِ وَقَوْلِ عَوَامِّ أَهْلِ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا أَنَّ امْرَأً لَا يَكُونُ مَوْرُوثًا أَبَدًا حَتَّى يَمُوتَ، فَإِذَا مَاتَ كَانَ مَوْرُوثًا وَأَنَّ الْأَحْيَاءَ خِلَافُ الْمَوْتَى فَمَنْ وَرِثَ حَيًّا دَخَلَ عَلَيْهِ - وَاَللَّهُ تَعَالَى أَعْلَمُ خِلَافَ حُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ فَقُلْنَا: وَالنَّاسُ مَعَنَا بِهَذَا لَمْ يَخْتَلِفْ فِي جُمْلَتِهِ۔[35]
"اور وہ امر جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ پھر عربی زبان اور ہمارے وطن(مكہ معظمہ) كے اہل علم كے قول سے سمجھا گیا ہے، وہ یہ ہے كہ كوئی شخص كبھی موروث(مورث) نہیں ہوسكتا تاوقتیكہ وہ مرنہ جائے۔ پھر جب وہ مرجائے گا تو موروث قراردیا جائے گا۔ اوربالا شبہ زندہ كے احكام مردوں سے الگ ہیں۔ لہذا جو شخص كسی زندہ كو مورث قراردیتا ہے، وہ اللہ اور اس كے رسولﷺ كے حكم میں مداخلت كرتا ہے۔ چنانچہ ہم اور ہمارے ساتھ سب لوگ اسی بات كے قائل ہیں اور اس میں سرے سے كسی كا اختلاف نہیں۔"
دوسری اصل: ایك مرد كا حصہ دوعورتوں كے برابر ہے:
یہ اصل انہی الفاظ میں قرآن مجید كی حسب ذیل آیت كریمہ میں بیان كیاگیا ہے :﴿لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ﴾[36]
تیسری اصل: صلبی اولاد كی طرح دیگر رشتہ دار بھی وارث ہوتے ہیں مثلاً:
والدین، بیوی، شوہر،اور كلالہ(جس كے نہ والدین ہوں اور نہ اولاد)كی صورت میں بہن اور بھائی، یہ بات آیات المواریث میں صراحہ بیان كی گئی ہے۔
چوتھی اصل: وارث اپنے مورث كا وارث ہوتا ہے، خواہ وہ صاحب اولاد ہو یا نہ ہو۔
اس اصل كا مفہوم یہ ہے كہ مرنے والے كے ورثاء اس میت كی میراث كا مطلقاً وارث ہوتے ہیں، قطع نظراس سے كہ وارث خود صاحب اولاد ہو یا نہ ہو۔ قرآن وحدیث میں ایسی كوئی قید نہیں، كہ اگر وارث صاحب اولاد ہو تو وہ وارث ہوگا اور اگر صاحب اولاد نہ ہو تو وارث نہیں ہوگا۔
عائلی قوانین كی دفعہ۴: وراثت: اصول اربعہ كی روشنی میں:
حب ہم إن أصول أربعہ ثابتۃ بالكتاب والسنۃ كی روشنی میں عائلی قوانین كی دفعہ ۴ “وراثت ”كا جائزہ لیتے ہیں تویہ صورت حال سامنے آتی ہے، كہ اس دفعہ میں ان تمام اصول كی خلاف ورزی كی كھلی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔
پہلی اصل كی خلاف ورزی: مورث كی وفات كے وقت زندہ موجود ورثاء وارث ہوتے ہیں۔
اس اصل كی خلاف ورزی اس لحاظ سے كی گئی ہے كہ اس دفعہ كی روح یہ ہے كہ تركہ میں سے مرنے والے بیٹے یا بیٹی كے حصے كا حقدار اس كی اولاد قراردی گئی۔ یعنی مرنے والے کابیٹا یا بیٹی وارث ہے، اور پوتوں/نواسوں كے حصہ مقرركرنے میں معیار بیٹے یا بیٹی كا حصہ ہے۔ درحقیقت بیٹے یا بیٹی كے حصے كے حقدار پوتے/نواسے ہیں، چونكہ پوتوں/نواسوں كا اپنا حصہ تو ہے نہیں اور اگر بعض صورتوں میں ان كا حصہ ہے بھی، تو وہ یہی حصہ نہیں، اس كی حیثیت اور مقدار مختلف ہے، اس كا حاصل یہ ہواكہ(مرحوم) بیٹے ہی كو وارث و حقدار قراردیا گیا ہے۔اس میں دوخرابیوں میں سے ایك خرابی ضرور ہے۔ اگر تو یہ فرض كرلیا جائے كہ مرحوم بیٹا اپنی حیات میں اپنے والد(دادا) كی میراث وتركہ میں سے حقدار ٹھہر گیا تھا، جو اس كی وفات كے بعد اس كی اولاد(پوتوں/نواسوں) كو ملے گا، تو لازم آئے گا كہ زندہ شخص كے مال كو تركہ قراردیا گیا، حالانكہ جب تك كوئی شخص زندہ ہوتا ہے اس كا مال “تركہ”نہیں ٹھہرتا۔ اور اگر یہ فرض كرلیا جائے كہ مرحوم(بیٹا) والدكی وفات پر حقدار ٹھہرگیا تو لازم آئے گا كہ مرے ہوئے شخص كو وارث قراردیا گیا۔ اور دونوں صورتیں اس شرعی اصل كے خلاف ہےكہ زندہ شخص كا مال تركہ نہیں بن سكتا اور مرا ہوا شخص وارث نہیں بن سكتا۔
دوسری اصل كی خلاف ورزی: ایك مرد كا حصہ دوعورتوں كے حصے كے برابر ہوتا ہے۔
عائلی قوانین كی دفعہ۴: "وراثت"كی روسے ایك شخص(دادا) كا صلبی بیٹا مرتا ہے اور وہ اپنے پیچھے ایك بیٹی(پوتی) چھوڑ جاتا ہے تو دادا كی وفات كے وقت اس پوتی كو دادا كے مال(تركہ) میں سے اپنے والد كاحصہ ملے گا ایسی صورت میں عین ممكن ہے كہ اس بچی كو مرد كے حصے كے برابر حصہ ملے نہ كہ آدھا، مثلاً:۔
خالد(دادا)
حمید (مرحوم) بیٹامجید(زندہ بیٹا)ایك حصہ
سلمیٰ(پوتی)ایك حصہ
عائلی قانون كی رو سے سلمیٰ(پوتی) كو اپنے والے حمید(مرحوم بیٹا) والد كاحصہ پورا ملے گا، جو مجید(دوسرا زندہ بیٹا) كے حصے كے برابر ہوگا۔ جو كہ لِلذَّكَرِمِثلُ حَظِّ الاُنثَیَینِ كے قرآنی اصول سے مكمل طور پر متصادم ہے۔
تیسری اصل كی خلاف ورزی: صلبی اولاد كی طرح دیگررشتہ دار بھی وارث ہوتے ہیں
عائلی قوانین كی دفعہ۴:“وارثت” میں اس اصل كی اس طرح خلاف ورزی كی گئی ہے كہ اس دفعہ كی روسے مرنے والے بیٹے/بیٹی كی صرف اولاد كو وارث قراردیاگیا ہے۔حالانكی قرآنی نصوص میں صراحةً مذكور ہے كہ اولاد كی طرح دوسرے رشتہ داروں(ماں، باپ ،بیوی، شوہر اور كلالہ كی صورت میں بھائی اور بہن) كو بھی وارث بنایا ہے۔
اگر زیر بحث دفعہ كی روسے مرنے والے بیٹے(بیٹی كو والد(دادا) كے انتقال كے وقت زندہ فرض كركے اس كی اولاد(پوتے/نواسے) كو وارث بنایا گیا ہے تو پھر اس كے دیگر رشتہ داروں كوبھی وارث قراردیا جائے۔ اس لیے كہ دیگر رشتہ داروں كو وارث قراردینے كی ٹھوس بنیاد موجود ہے۔ اس لیے كہ اگر تو پوتے/نواسے كا استحقاق میراث قرابت داری كی بنیاد پر ہو تو قرآن نے دیگر قرابت داروں كو مستحق میراث تسلیم كیا ہے۔ اور اگر پوتے/نواسے كا استحقاق میراث ہمدردی كی بنیاد پر ہو تو دیگر رشتہ دار بھی ہمدردی كے محتاج ہیں بلكہ بعض اوقات تو پوتے/نواسے سے زیادہ محتاج ہمدردی ہوتے ہیں۔ مثلاًمرنے والے كی بوڑھی ماں اور بےسہارا بیوہ بھی تو آخرمحتاج ہمدردی ہیں۔بہرحال اس حوالے سے اس دفعہ میں تیسرے اصل كی بھی خلاف ورزی كی گئی ہے۔
چوتھی اصل كی خلاف ورزی: ہر وارث وارث ہوتا ہے خواہ اس كی اولاد ہو یا نہ ہو۔
عائلی قوانین كی دفعہ ۴:"وراثت "میں اس اصل كی خلاف ورزی اس حوالے سے كی گئی ہے كہ مرحوم بیٹے كو اس صورت میں اپنے والد(دادا) كا وارث قرار دیا گیا ہے جبكہ اس كی اولاد(پوتے/نواسے)ہوں، اگراس كی اولاد نہ ہو، تو اس صورت میں وہ وارث نہیں۔ چنانچہ اگر ایك شخص كا بیٹا اس كی حیات میں لاولد ہو كر مرتا ہے، یعنی شادی سے پہلے مرجاتا ہے یا شادی كے بعد ،لیكن اولاد چھوڑ كرنہیں مرتا، تواس دفعہ كی روسے وہ مستحق میراث نہیں ٹھہرتا اور اگر اولاد چھوڑ كر مرتا ہے تو وارث ٹھہرتا ہے۔ اس كا مطلب یہ ہوا كہ اس كے وارث بننے میں اس بات كو دخل ہے كہ اس كی اولاد ہے یا نہیں۔ حالانكہ قرآن مجید میں ورثاء كے حصے مقرركرنے میں اس بات كو ہرگزبنیاد نہیں بنایا گیا ہے، كہ وہ وارث بننے والا شخص صاحب اولاد ہے كہ نہیں ،لیكن اس دفعہ میں یہی فرق رواركھا گیا ہے، جو قرآنی احكام پر اپنی طرف سے اضافہ كرنے كے مترادف ہے۔
غرض یہ كہ زیربحث دفعہ مكمل طور پر قرآن وحدیث سے متصادم ہے۔ صلبی اولاد اور پوتوں كے متعلق میراث كے واضح شرعی احكام كے مقابلے میں انسانوں كا وضع كردہ حكم ہے۔ جس پر عمل كرنے كی صورت میں جہاں پوتے سے متعلق احكام كی خلاف ورزی ہوتی ہے، وہاں میراث كے دیگر كئی ایك ضابطوں، اصول اور احكام كی خلاف ورزی بھی ہوتی ہے۔ لہذا اس كو تبدیل كرنا اور قرآن وسنت كی روشنی میں دوبارہ مرتب كرنا ملكی آئین كاتقاضا ہے۔ جس كے آرٹیكل۱۹۸(ا) میں طے كیا گیاہے:
"ایسا كوئی قانون وضع نہیں كیا جائے گا جو قرآن پاك اورسنت میں منضبط اسلامی احكام كے منافی ہو،اور موجودہ قوانین كو ان احكام كے مطابق بنایا جائے گا۔"
یاد رہے کہ وفاقی شرعی عدالت نے مؤرخہ ۵؍جنوری۲۰۰۰ءکواپنے تفصیلی فیصلے میں دفعہ ۴ کو خلاف اسلام قراردیتے ہوئے صدرپاکستان کو اسلامی احکام کے مطابق نئی دفعہ شامل کرنے کا کہا، تاہم اس فیصلے کے خلاف شریعت اپلیٹ بنیچ، سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، جو تاحال زیر التواء ہے۔[37] مزید برآں! اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی اسی دفعہ کو خلاف اسلام قراردینے کی سفارش کی ہے،تاہم وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل دونوں نے اپنے فیصلے اور سفارش میں اس بات کا بھی اضافہ کیا ہے کہ دادا وغیرہ پر لازم ہے کہ وہ یتیم پوتا وغیرہ کے لیے وصیت کرے، بصورت دیگر ورثاء پر لازم ہوگا کہ وہ مذکورہ اولاد کو نفقہ ادا کریں۔ [38]
خلاصہ بحث
۱۔عائلی قوانین ۱۹۶۱ء کی دفعہ۴ کے رو سے صلبی اولاد کی موجودگی میں یتیم پوتا وغیرہ دادا کی میراث کا مستحق ہوتا ہے۔
۲۔شریعت کے رو سے میراث کا استحقاق قرابت، نکاح اورولاءپر ہے۔
۳۔ورثاء کے تین درجات (اقسام) ہیں: ۱۔ ذوی الفروض ۲۔عصبات ۳ ذوی الارحام
۴۔احکام میراث قرآن وسنت میں مذکور حسب ذیل دو قواعد پر مبنی ہیں۔
(الف) اقرب(قریبی رشتہ دار) کی موجودگی میں ابعد(دور کا رشتہ دار) محروم ہوتا ہے۔
(ب) بیک وقت تمام رشتہ دار میراث کے مستحق نہیں ہوتے، بلکہ وراثت میں حجب کا قانون جاری ہوتا ہے۔
۵۔ان اصول کی روشنی میں صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتا، اگرچہ یتیم ہو، دادا کی میراث کا مستحق نہیں ہوتا۔
۶۔پوتے کے مستحق میراث نہ ہونے کا مسئلہ فتاویٰ صحابہ میں صراحتاً مذکور ہے جیسا کہ زید بن ثابت کا قول ہے۔
۷۔فقہ کے چاروں مکاتب فکر(حنفی، مالکی، شافعی، حنبلی) کاصلبی پوتے کی میراث سے محرومی پر اجماع ہے۔
۸۔صلبی اولاد کی موجودگی میں پوتے وغیرہ کو میراث دینے کے نتیجے میں عملی طور پر دیگر تمام مستحق ورثاء کے حصے متاثر ہوتے ہیں۔
۹۔احکام میراث کے مزید چار اصول ہیں، دفعہ ۴ کو برقرار رکھنےکی صورت میں چاروں اصول کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔
۱۰۔وفاقی شرعی عدالت اور اسلامی نظریاتی کونسل نے دفعہ۴کو غیر اسلامی قراردیا ہے، تاہم متبادل کے طورپر وصیت لازمہ کی صورت تجویز کی ہے۔
۱۱۔اس لیےمسلم عائلی قوانین آرڈیننس ۱۹۶۱ءکی دفعہ۴ اسلامی احکام شریعت سے متصادم ہے، آئین کی دفعہ۲۲۷قراردیتی ہے کہ قرآن وسنت کے منضبط احکام کے مطابق قانون سازی کی جائے گی لہذااس دفعہ کو ختم کرنا شرعی و آئینی تقاضا ہے۔
۱۲۔یتیم پوتے/پوتیوں کے ساتھ مالی تعاون کی متبادل صورتیں ریاست کی ذمہ داری ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد صورتیں ممکن ہیں۔
مقالہ میں مستعمل بعض اصطلاحات کی توضیح:
۱۔ترکہ:وہ مال جس کا میت وفات کے وقت مالک ہو اور اس کے ساتھ براہ راست کسی اورشخص کاحق متعلق نہ ہو،خواہ وہ مال پاکستان میں ہو یا بیرون پاکستان ہو۔
۲۔ذوی الفروض: وہ ورثاء ہیں جن کے حصص قرآن، سنت اور اجماع امت میں متعین ہیں۔
۳۔عصبہ نسبیہ : میت کے وہ رشتہ دار ہیں جو ذوی الفروض سے بچا ہوا ترکہ لے لیتے ہیں اور ذوی الفروض نہ ہوں توتمام ترکہ کے مستحق ہوتے ہیں۔
۴۔عصبہ بنفسہ: وہ تمام قرابت دار مرد جن کی متوفی کے ساتھ سلسلہ قرابت میں کوئی عورت حائل نہیں ہوتی۔
۵۔عصبہ بغیرہ: یہ چار عورتیں (بیٹی،پوتی،حقیقی بہن اور باپ شریک بہن )ہیں جو بحیثیت ذوی الفروض ہونے کے نصف یا دوتہائی کی مستحق ہوتی ہیں، لیکن اپنے بھائیوں کے ساتھ ہوکر عصبات میں داخل ہوجاتی ہیں اور مذکر عصبہ کی بہ نسبت آدھے کی مستحق ہوتی ہیں۔
۶۔عصبہ مع غیرہ: وہ وارث عورت ہے جو دوسری وارث عورت کے ساتھ مل کر عصبہ ہوجاتی ہے،عصبات کی اس صنف میں صرف دو عورتیں حقیقی اور علاتی بہن داخل ہیں جو بیٹی اور پوتی کے ساتھ عصبہ بنتی ہیں۔
۶۔عصبہ سببیہ:اس سے مولی العتاقہ یعنی غلام کو آزاد کرنے والا مراد ہے۔سبب سے مراد تعلق ہے ،معتق یعنی آزاد کرنے والے کا غلام سے نسبی رشتہ نہیں ہوتا مگر آزاد کرنے کا تعلق ہوتا ہے۔اگر میت کو آزاد کرنے والا فوت ہوگیا ہوتو ترکہ اس کے عصبہ بنفسہ یعنی اس کے بیٹے،باپ،بھتیجے اور چچا اور چچا زادوں کو ملے گا۔اگر یہ بھی نہ ہوں تو اگر آزاد کرنے والاکسی کاغلام تھا تو اس آزاد کرنے والےآقا کوملے گا۔
۷۔ ذوی الارحام: میت کے وہ رشتہ دار جو نہ اصحاب ِفروض ہوں اورنہ ہی عصبہ ہوں۔
حوالہ جات
- ↑ سورۃ النساء۴: ۰ ۷
- ↑ سورۃ النساء۳۲:۴
- ↑ الحنفي، عبد الله بن محمود ، الاختيار لتعليل المختار( مطبعۃ الحلبی ، قاهرة، ۱۳۵۶ ھ)، ۵/ ۸۶-۱۰۵
- ↑ سورۃ النساء۷:۴
- ↑ سورۃ النساء۳۳:۴
- ↑ القرطبي ،أبو عبد الله محمد بن أحمد ، الجامع لأحكام القرآن (دار الكتب المصریۃ ، القاهرة، ۱۳۸۴ ھ) ، ۵/ ۴۶
- ↑ البخاري، محمد بن إسماعيل ،الجامع الصحيح، كتاب الفرائض ، باب ميراث الولد من ابیہ وامہ (دار طوق النجاة ، ۱۴۲۲ھ) ،حديث نمبر: ۶۷۳۲
- ↑ ٹونكی ، ولی حسن، مفتی، عائلی قوانین شریعت كی روشنی میں(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۰ء)، ص:۷۳
- ↑ عسقلاني،شهاب الدين أحمد بن علي بن حجر ،فتح الباري(دار المعرفة ،بيروت، ۱۳۷۹ھ) ۱۲/۱۳
- ↑ ابن عابدين، سيدمحمد أمين بن عابدين الشامي،رد المحتار على الدر المختار،( دار الفكر،بيروت،۱۴۱۲ھ) ۶/۷۸۰
- ↑ السرخسی ،شمس الائمہ ، المبسوط (دار المعرفة – بيروت، ۱۴۱۴ھ) ۲۹/۱۶۹
- ↑ ن۔م
- ↑ البخاري، الجامع الصحيح، كتاب الفرائض،باب ميراث ابن الابن إذا۔۔۔ ، (دار طوق النجاة ، ۱۴۲۲ھ)، حدیث نمبر:۶۷۳۲
- ↑ الهندی، علاء الدين علي بن حسام الدين متقی ، كنز العمال فی سنن الأقوال والأفعال ، (مؤسسۃ الرسالۃ، ۱۴۰۱ھ) ،حديث نمبر:۳۷۰۵۰
- ↑ کتانی ،محمدعبدالحی بن عبدالکبیر،نظام الحکومۃ النبویۃ،(دارالکتب العلمیۃ،بیروت،۲۰۱۱م)ص: ۳۵۸
- ↑ باجی، أبو الوليد سلیمان بن خلف، المنتقى شرح الموطأ(مطبعۃ السعادة ،مصر ، ۱۳۳۲ ھ)، ۶/۲۲۶
- ↑ ابن عابدين،ردالمحتار،۶/۷۷۹
- ↑ القرافی،أبو العباس أحمد بن إدريس المالكی ، الذخيرة( دار الغرب الإسلامی، بيروت، ۱۹۹۴ م)،۱۳ / ۴۲
- ↑ المحاملی، أبو الحسن أحمد بن محمد ، اللباب في الفقہ الشافعی(دار البخارى، المدینۃ المنورة، السعودیۃ، ۱۴۱۶ھ) ص: ۲۷۳
- ↑ ابن تیمیۃ، أبو البركات عبد السلام بن عبد الله الحرانی،المحرر في الفقہ على مذهب الإمام أحمد بن حنبل(مكتبۃ المعارف،الرياض، ۱۴۰۴ھ)۱/۳۹۶
- ↑ الشیخ الصدوق ،من لایحضرہ الفقیہ،( دارالکتب الاسلامیۃ، طہران ،۱۳۹۱ھ)۲/۲۴
- ↑ الطوسی ،أبوجعفر محمد بن حسن الشیخ الإستبصار،( دارالکتب الاسلامیۃ، طہران ،۱۳۹۱ھ)۴/۶۷
- ↑ البخاري،الجامع الصحيح، كتاب الفرائض ، باب ميراث ابنۃ الابن مع بنت ،حدیث نمبر:۶۷۳۶
- ↑ الخطابی،أبو سليمان احمد ابن محمد، معالم السنن، شرح سنن أبی داود( المطبعۃ العلمیۃ، حلب، ۱۳۵۱ھ)،۴/۹۱
- ↑ بخاری، الجامع الصحیح، كتاب الفرائض ، باب ميراث ابنۃ الابن مع بنت ،حدیث نمبر: ۶۷۴۱
- ↑ السرخسی ، المبسوط، ۱۴۱۴ھ،۲۹/۲۰
- ↑ الغرناطی، أبوالقاسم محمد بن أحمد ، القوانين الفقہیۃ ، ۱/۲۵۴
- ↑ الماوردی، أبو الحسن علی بن محمد المزنی ، الحاوي الكبیر فی فقہ مذهب الإمام الشافعی ، شرح مختصر المزنی(دار الكتب العلمیۃ، بيروت ، لبنان، ۱۴۱۹ ھ)، ۸/۱۰۷
- ↑ المقدسی،أبو محمد موفق الدين محمد بن قدامۃالحنبلی ،الكافی فی فقہ الإمام أحمد( دار الكتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۴ ھ) ۲/۳۰۰
- ↑ سورۃ الانفال۸: ۷۵
- ↑ السرخسی ، المبسوط، ۴/۳۸
- ↑ ابن عابدين،ردالمحتار،۶/۷۹۳
- ↑ سورۃ النساء۱۷۶:۴
- ↑ سورۃ النساء۱۲:۴
- ↑ الشافعي، أبو عبد الله محمد بن إدريس ، کتاب الأم (دار الکتب العلمیہ ،بیروت،۱۹۹۸م)، ۴/۷۸
- ↑ سورۃ النساء۴: ۱۷۶
- ↑ اللہ رکھا بنام وفاق پاکستان، ۲۰۰۰ء، وفاقی شرعی عدالت پی ایل ڈی ۲۰۰۰ء–۵)
- ↑ اسلامی نظریاتی کونسل، سالانہ رپورٹ ۲۰۱۴ء–۲۰۱۳ء، ص:۱۷۷
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 1 Issue 1 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |