2
1
2019
1682060033219_1224
107-119
حصولِ نفع انسانی فطرتی جذبہ
فطرتِ انسانی کا ایک جبلّتی جذبہ یہ ہے کہ وہ کاروبار میں محنت و جدّوجہد کرتا ہے، اس لیے ہے کہ اسے نفع کی خاطر خواہ مقدار حاصل ہو اور وہ اس کے لیے ہر قسم کی کدّوکاوش کرتا ہے ۔نفع ہی اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ کیسے ہی حالات کیوں نہ پیدا ہو جائیں اِس نے جہدِ مسلسل کو ترک نہیں کرنا اور نفع ہی ہے جو کاروبار کی ترقی کی ضمانت ہے ۔ اگر نفع کا حصول ہی متعذر ہو جائے تو انسان کاروبار بھی ترک کر دے ۔اسلام نے فطرت انسانیہ کی تکمیل کرتے ہوئے اسے نفع کمانے کی اجازت عطا کر رکھی ہے اور انسان کے لیے چند حدود و قیود کے ساتھ جائز قرار دیا ہے ۔ اس ضمن میں چند حدود بھی مقرر کی ہیں مثلاً
۱۔شریعت مطہرہ نے حلال و حرام کے جو شرعی اصول متعین فرما دیے ہیں ان میں کمی و بیشی یا خلاف ورزی کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ دھوکا ،ملاوٹ ، ناپ تول میں کمی اور احتکار کو ذریعۂ نفع نہ بنایا جائے ۔
۲۔خریدار کی احتیاج مندی یا اضطراری حالت سے بے جاء فائدہ نہ حاصل کیا جائے ۔
۳۔ اجارہ داری کو بھی منافع حصول بنانا ناجائز ہے ۔
اسلام کا تصور منافع یہ ہے کہ آدمی صرف اتنا منافع لے کہ جو حدِّجواز میں ہے ۔حقوق العباد کی پامالی کے ذریعے حاصل کیا جانے والا نفع کسی طور جائز نہیں ۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کم نفع پر زیادہ سے زیادہ مال فروخت کر دیا جائے ۔اسلام کا نظام معیشت فطرتی جبلتوں اور تقاضوں سے اس لیے بھی ہم آہنگ ہے کہ یہ تمام تر مشکلات جو معاشی میدان کے نشیب و فراز ی میں ان کا حل صرف اسلام کے پاس ہے ۔ علاوہ ازیں یہ نظام تجربے کی کسوٹی پر پرکھنے کا محتاج نہیں ہے کیونکہ یہ کسی ماہر اقتصادیات یا معاشیات کی دماغ سوزی کا نہ تو نتیجہ ہے اور نہ ہی محتاجِ نظر اور نہ ہی محتاجِ ستائش ہے ۔ یہ تو وہ نظام فطرت ہے کہ جسے قسّام ازل نے اپنے بندوں کے لیے ترتیب دیا ہے اور مصطفیٰ کریم ﷺ نے اقوام ِ عالم کے سامنے راہ نجات کے طور پر پیش کیا ہے ۔
اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
﴿وَابْتَغِ فِيمَا آتَاكَ اللَّهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِيبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَأَحْسِن كَمَا أَحْسَنَ اللَّهُ إِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْأَرْضِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ﴾[1]
"اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔"
اسلام کی معاشیات کا نظام اپنی جملہ خصوصیات سمیت انسانی فلاح و بہبود کا ضامن ہونے کے علاوہ عالمی طبائع ،فکر رسا اور قلوب و اذہان کوحبِّ خداوندی سے معمور کرتاہے اور خوفِ خداوہ رمق ہے جو استحصال نسلِ انسانی کا سبب بنتی ہے، اس سے محفوظ کر دیتا ہے اور ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو انسانیت کی بھلائی کا سبب ہے ۔رحمت دارین ﷺ کا اسوۂ حسنہ اِس پر شاہد ہے :
عَنْ اَبِي هُرَيْرَةَ اَنَّ رَجُلًا جَاءَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ اَدْعُو ثُمَّ جَائَهُ رَجُلٌ فَقَالَ يَا رَسُولَ اﷲِ سَعِّرْ فَقَالَ بَلْ اﷲُ يَخْفِضُ وَيَرْفَعُ وَإِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَلْقَی اﷲَ وَلَيْسَ لِاَحَدٍ عِنْدِي مَظْلَمَةٌ. [2]
"حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص حاضر بارگاہ ہوکر عرض گزار ہوا۔ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (اشیاء) نرخ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بلکہ دعا کروں گا، پھر ایک شخص نے آکر عرض کی: یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! بھاؤ مقرر فرما دیجیے۔ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ ہی بھاؤ گھٹاتا اور بڑھاتا ہے اور میں یہ آرزو رکھتا ہوں کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کروں کہ میں نے کسی پر بھی زیادتی نہ کی ہو۔"
عن اَنَسٍ قَالَ النَّاسُ يَا رَسُولَ اﷲِ غَلَا السِّعْرُ فَسَعِّرْ لَنَا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ: إِنَّ اﷲَ هُوَ الْمُسَعِّرُ الْقَابِضُ الْبَاسِطُ الرَّازِقُ وَإِنِّي لَاَرْجُو اَنْ اَلْقَی ﷲَ وَلَيْسَ اَحَدٌ مِنْکُمْ يُطَالِبُنِي بِمَظْلَمَةٍ فِي دَمٍ وَلَا مَالٍ. [3]
"حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم بھاؤ بہت چڑھ گئے ہیں لہٰذا ہمارے لیے نرخ مقرر فرما دیجیے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ نرخ مقرر کرنے والا تو اللہ تعالیٰ ہے، وہی رزق کی تنگی اور کشادگی کرتا ہے اور میں یہ تمنا رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کسی کا مجھ سے مطالبہ نہ ہو، جانی یا مالی زیادتی کا۔"
ناجائز منافع خوری کی حرمت
اسلام کا نظام معیشت و اقتصاد ایک مکمل نظام کسب و معاش ہے جس میں جائز دنیاوی منافع کو "فضل "اور "خیر" کہا گیا ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے کسب ِحلال کو حُصولِ رزق کا سب سے بڑا ذریعہ قرار دیا ہے ۔ اسلامی قوانین کی رو سے ذخیرہ اندوزی سے مصنوعی قلت پیدا کرنا ، گھٹیا مال کو اعلیٰ بنا کر فروخت کرنا ، ملاوٹ کرنا ، فروخت ِمال کے وقت قسمیں کھانا ،وزن ، ناپ اور تول میں کمی کرنا اور بھی دیگر برائیوں سے رکنے کا نہ صرف حکم دیا ہے بلکہ باز پُرس کا عندیہ دیتے ہوئے عذاب کی وعید سنائی ہے ۔ اسی طرح اسلامی شریعت نے خرید و فروخت کے نظام ہائے متعارفہ میں نفع کی حدود بندی نہیں ہے کہ کس قدر جائز اور کس قدر ناجائز ہے ۔ تاہم اسلامی نظام معیشت حکومت ِ وقت کو پابند معیار ضرور کرتا ہے کہ وہ منصفانہ منافع کا تعیّن یقینی بنائے تاکہ ناجائز منافع خوری کا سدِّ باب کیا جاسکے ۔
جب اسلام اسے حاکمِ وقت کی منصفانہ صوابدید پر چھوڑ رہا ہے تو کسی فردِ واحد کو ذاتی حیثیت کے ساتھ بازار کی عمومی متعارفِ قیمت سے زیادہ وصول کرنا اور لوگوں کی مجبوری و لاعلمی سے فائدہ اٹھانا ناجائز منافع خور کہلاتا ہے ۔اس سے بچنا از حد و بس ضروری ہے ۔
اسلامی اصول برائے طلب و رسد
اسلام نے نفع کی شرح متعین کرنے کے بجائے اسے بازار میں شیٔ کی مانگ اور فروخت پر چھوڑ دیا ہے کہ بازار کے حالات اور گاہک کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا جائے ۔اسلام نے جو فلسفہ معیشت پیش فرمایا ہے اس کے مطابق نفع کی مقدار یا قیمتوں کا تعین شعوری طور پر ترک کیا گیا ہے ۔ ایک مرتبہ صحابہ کرام ؓنے بازار کے نرخ بسبب مہنگائی کے مقرر کرنے کی عرضداشت پیش کی ۔ آپ ﷺ نے لوگوں کو اپنے حال پر چھوڑنے کا حکم ارشاد فرمایا۔[4]در حقیقت مال میں تنگی و وسعت اللہ تعالیٰ کے ذمہ ٔ کرم پر ہے اور وہی قیمتوں کا تعین فرماتا ہے ۔ اس سے یہ اصول وضع ہو گیا کہ عمومی حالات میں جب مصنوعی طلب و رسد کا دباؤ نہ ہو تو قدرتی طور پر جونرخ طے ہو گا وہی عادلانہ ہو گا ۔ علاوہ ازیں یہ بھی زمینی حقیقت ہے کہ کوئی تاجر اگر زیادہ نرخ لگاتا بھی ہے تو شیٔ اسی وقت فروخت ہو گی جب کوئی اس نرخ پر خریداری کے لیے تیار بھی ہو گا اور زیادہ سے زیادہ ایک دو گاہکوں کو نرخ کے معاملے میں دھوکا دیا جا سکتا ہے ۔ لیکن مستقل دھوکہ دہی کے ساتھ کاروبار چلانا ممکن نہیں۔ کیوں کہ ایسے تو لوگ فوراً یہ مشہور کر دیتے ہیں کہ فلاں تاجر ناجائز منافع خور ہے ۔ تو لوگ اس کے پاس خریداری سے گریز کرتے ہیں ۔ ایسے تاجر کے لیے بازار میں گزرارا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس بحث کا خلاصہ یہ ہو گا کہ عموماً بازار میں ناجائز منافع خوری کے سبب کاروبار چلانا دشوار گزار ہے ۔ اس لیے شریعت نے اس معاملہ کو بالخصوص نفع کی تعیین کو گاہک کی سمجھ پر چھوڑ دیا ہے اور جب مکمل مقابلے کی فضا برپا ہو تو اسے طلب و رسد کا اصول کہا جاتا ہے ۔ غور طلب بحث تو یہ ہے کہ وہ کون سی صورت ہے کہ جس میں مقابلے کا عذر باقی نہیں رہتا ۔ شرعی ہدایات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ احادیث میں جس اجارہ داری سے بشدت منع کر دیا گیا ہے اس اجارہ داری کی بھی کئی صورتیں ہیں ۔ کبھی یہ ایک تاجر کی اور کبھی ایک کمپنی کی جو ہو سکتی ہے ۔ مثلاًپورے ملک میں چینی کے کاروبار پر ایک خاندان کا قبضہ ہے یا پورا ملک اپنی ایندھن کی ضرورت ایک سرمایہ دار یا ایک کمپنی سے حاصل کر رہا ہے ۔ اس صورت میں وہ جب چاہیں رسد کا بحران پیدا کر دیں اور قیمتوں میں اضافہ ہو جائے ۔لیکن یہ عمل دو تین کمپنیاں ملی بھگت اور ذہنی مفاہمت سے کرتی ہیں کہ ہم سب مل کر قیمت کو اس درجہ سے نیچے نہیں جانے دیں گے ۔ بظاہر کاروباری مسابقت میں شریک کمپنیاں نوراکشتی کھیلتی ہیں ۔ علاوہ ازیں شریعت نے مصنوعی قلت یعنی ذخیرہ اندوزی حرام قرار دی ہے جو کہ رسد کی مصنوعی قلت کا مظہر ہے ۔ بنا بریں ہی اشیاء کی قیمتیں بلند ہوتی جاتی ہیں ۔ ارشادنبوی ﷺ ہے
من احتکرفهوخاطئ۔ [5]
"ذخیرہ اندوزی کرنےوالا گنہگارہے۔"
اس کے علاوہ احادیث میں تجارتی قافلوں کے بازار میں پہنچنے سے پہلے ان کے مال خریدنے اور دیہاتی زمینداروں کی فصل کوشہری کی اپنے گودام میں ذخیرہ کر کےبتدریج فروخت سے منع کیا ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ معروف مروّج نظامِ معیشت میں دخل اندازی ہے اور منفی سرگرمیوں میں ملوث اراکین تجارت نرخوں پر اثر انداز ہوتے رہیں گے تو وہ تمام تر صورتیں جن میں رسد و طلب کا بحران پیدا کر کے قیمتیں بڑھائی جا سکتی ہیں وہ منجملہ ممنوع ہیں ۔ اس بات کا بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اسی حکمت کے پیشِ نظر مصنوعی طور پر یہ قیمتوں میں اضافے کے سامنے کس قدر رکاوٹیں کھڑی کر دی ہیں ۔
جب بازار ميں كسی سامان كا ريٹ معروف اور معلوم ہو توتاجر كےليے خريدار كو دھوكہ دے كر خريدار كي جھالت اور ريٹ سےناعلمي كا فائدہ اٹھاتےہوئے معروف ريٹ سےزيادہ قيمت ميں چيزفروخت كرنا جائزنہیں اس كي دليل مندرجہ ذيل فرمان نبوي صلي اللہ عليہ وسلم ميں ملتی ہے:
رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا:
عن أبي هريرة قال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال" لا تلقوا الجلب فمن تلقى فاشترى منه فإذا أتى سيد ها السوق فهو بالخيار.[6]
"تم باہر سےآنےوالے سامان كےقافلہ كو نہ ملو، جو كوئي بھي اسےملے اور اس مال كو مالك سےخريد لے اور فروخت كرنےوالا جب ماركيٹ ميں آئے تواسے اختيار ہے ) يعني وہ اس سودے كوباقي ركھے يا پھر ختم كردے ۔"
الجلب: اس سامان كو كوكہتےہيں جوبیرون شہر سےبازار ميں لايا جائے۔حديث ميں سيد سےمراد باہر سےمال لے کر آنے والا تاجر ہے، اور شارع نے بازار ميں آنےكےبعد اسےاختيار ديا ہے كہ وہ بازار کی حدود سے باہر خريداري كرنے والے كےمعاہرے كوباقی ركھے يا پھر اسے فسخ کر دے ، اس ليے كہ ماركيٹ سےباہر ملنےوالا یقیناً تاجر كو دھوكہ ديتاہے اور بازار كےنرخ سے كم ريٹ دے كرخريدكرليتا ہے، لہذا جب معاملہ واقع میں بھی ایسا ہی ہو تو تاجركواختيار ہے كہ وہ اس سودے كو برقرار ركھےياپھر توڑ دے، اور حديث اس بات پر دلیل ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ان تجار سےبازار كےباہر ملنےسے منع فرمايا ہے كيونكہ ايسا كرنےميں انہيں دھوكہ دے كر ماركيٹ كےريٹ سے كم نرخ ميں خريدکی جاتی ہے ۔
حدِ نفع کے تقرر پر مستقل فتویٰ کمیٹی سعوعی عرب کا فتویٰ
مستقل فتویٰ کمیٹی سعودی عرب سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:
کیا اسلام نے نفع کی کوئی حدود مقرر کی ہیں ؟اگر کی ہیں تو زیادہ سے زیادہ کیا حدود ہیں ؟
کمیٹی نے اس سوال کے جواب میں یہ فتویٰ دیا :
تجارت ميں نفع كي كوئي حد مقرر نہيں بلكہ يہ حالات اور مانگ (يعني زيادہ اور كم مانگ) پر منحصر ہے، ليكن مسلمان چاہے وہ تاجر ہو يا كوئي اور اس كےليےبہتر اور اچھا يہ ہےكہ وہ خريدوفروخت كےمعاملہ ميں آساني اور سھل پسندي كا مظاہرہ كرے، اور اس ميں كسي كي غفلت سےفائدہ اٹھا كراسے خريد وفروخت ميں دھوكہ نہ دے، بلكہ اس ميں اسلامي اخوت وبھائي چارہ كے حق كو مد نظر ركھے.([7])
کمیٹی سے يہ بھی پوچھا گيا كہ كيا تاجر دس فيصد سےزيادہ منافع لے سکتا ہے ؟
كميٹی كا جواب تھا:
شرعا توتاجر كا نفع غيرمحدود ہے، اس ميں كوئي تناسب نہيں، ليكن مسلمان كےليے خريدار كو دھوكہ دينا جائز نہيں كہ وہ اسے ماركيٹ كےريٹ كےعلاوہ دوسرے ريٹ ميں كوئي چيز فروخت كرے، اور مسلمان كےليے مشروع ہے كہ وہ نفع ميں زيادتي نہ كرے بلكہ جب وہ خريد وفروخت كرے تو اس ميں آساني پيدا كرے كيونكہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نے معاملات ميں آساني كرنےپر ابھارا ہے ۔[8]
اسلام نے جب نفع کی کوئی حد مقرر نہیں کی ہے تو سمجھ لیا جائے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رزق ہے اور یہ اس کی رحمت پر موقوف ہے جب چاہے رزق فراخ فرما دے اور جب چاہے اس کو تنگ فرما دے ۔ اس کی مرضی ہے کہ کبھی ۱۰%نفع دے اورکبھی اس سے زیادہ عطا فرما دے اور یوں کوئی چیز کم بھاؤ میں خرید لے اور یہ بھی ممکن ہے کہ تاجر کی خریداری کے وقت شیٔ کی قیمت زیادہ تھی مگر بیچتے وقت گر گئی ۔
ہاں البتہ اگر سامان اور اس کی تشہیر اسی تاجر سے خاص ہو تو پھر اس کے لیے یہ حلال نہیں کہ لوگوں سے بہت زیادہ نفع لے کیونکہ اس صورت میں یہ بیع المضطر جیسا ہو گا کیونکہ جب لوگوں کو جس چیز کی ضرورت ہو اور وہ صرف ایک ہی مقررہ شخص کے پاس موجود ہو تو لوگ اسی سے خریدیں گے خواہ اس کی قیمت کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو، تو اس صورت میں حکومت اور اربابِ اختیار کودخل کر کے قیمت مقرر کرنا چاہیے اور مناسب نفع کا مقرر کر دینا چاہیے کہ جو اس مقدار میں اتنا کم بھی نہ ہو کہ اسے نقصان پہنچے اور نہ اس قدر زیادہ ہو کہ دوسروں کو نقصان پہنچا دے ، اس سے معلوم ہوا کہ قیمت کا تعین کرنے کی دو قسمیں ہیں:
1۔ ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے جس قیمت کے مقرر کرنے کے لیے حکمران مجبور ہوں تو اس میں کوئی حرج نہیں کیونکہ اس کا تعلق سیاست حسنہ سے ہے اور حدیث سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
"لَا يَحْتَكِرُ إِلَّا خَاطِئٌ۔"
"صرف خطا کار ہی ذخیرہ اندوزی کرتا ہے۔ "[9]
خطا کار وہ ہے جو جان بوجھ کرجرم کرے اور اگر وہ غلطی کی وجہ سے ایسا کر رہا ہو تو واجب ہے کہ حکمرانوں کے واسطہ سے اس کی اصلاح کی جائے کہ جب کوئی انسان کسی شیٔ کی ذخیرہ اندوزی کرے، سامان کسی اور کے پاس موجود نہ ہو اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو تو حکمرانوں پر یہ واجب ہے کہ جواب طلبی کریں اور نفع کی ایک ایسی مقدار مقرر کر دیں جس سے تاجر کو بھی نقصان نہ ہو اور گاہک کو بھی فائدہ ہو۔
2۔ اگر قیمتوں میں زیادتی کسی جبر کا نتیجہ نہ ہو بلکہ وہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہو کہ کسی چیز کی کمی کی گئی ہو یا اس کا کوئی اور ایسا سبب ہو جو معاشی حالات پر اثر انداز ہوا ہو تو ایسی صورت میں قیمت مقرر کرنا حلال نہیں ہے کیونکہ یہ کسی ایسے شخص کے ظلم کا علاج نہیں جس نے نرخ بڑھا دیا ہو اور پھر سب معاملات تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں جب مدینہ میں قیمتوں میں اضافہ کر دیا گیا اور لوگوں نے آ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یہ عرض کیا کہ " یا رسول اللہ! قیمت مقرر فرما دیجئے! تو آپ نے فرمایا:
ان الله هو المسعر القابض الباسط الرازق‘ واني لارجو ان القي الله وليس احد منكم يطالني بمظلمة في دم ولا مال۔[10]
"بے شک وہ اللہ ہی نرخ مقرر فرمانے والا ہے جو کم کر دینے والا، بڑھا دینے والا اور رزق عطا فرمانے والا ہے، اور مجھے امید ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے اس طرح ملاقات کروں گا کہ کوئی مجھ سے خون یا مال کے ظلم کا مطالبہ نہیں کرے گا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نرخ مقرر کرنے سے انکار فرما دیا تھا کیونکہ یہ مہنگائی لوگوں کی طرف سے مصنوعی طور پر پیدا کردہ نہیں تھی۔
نرخ مقرر کرنے کی دو صورتیں ہیں
اس سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ نرخ مقرر کرنے کی دو صورتیں ہیں
(1) کہ اگر یہ ظلم کے ازالہ کے لیے ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔
(2) اور اگر یہ خود ظلم ہو یعنی اگر مہنگائی کسی انسان کے ظلم کی وجہ سے نہ ہو تو پھر نرخ مقرر کرنا بجائے خود ظلم ہونے کی وجہ سے ناجائز ہو گا۔
تجارت میں امانتداری کی انوکھی مثال :
نبی اکرم ﷺ نے نفع کی حد مقرر نہیں فرمائی بلکہ دیانتدار اور خیر خواہ لوگ تیار کیے ،جو ہر طرح کے ناجائزاورنامناسب منافع سے گریز کرتے تھے ۔اور از خود شئی کی مناسب قیمت ادا کر دیتے اور خرید وفروخت میں کسی قسم کا دھوکہ اور فراڈ نہیں کرتے تھے ۔اگر شئی بیچنے والا تجارت کے معاملات میں زیادہ ماہر نہ ہوتا ،یا کسی مجبوری کی وجہ سے اپنی شئی فروخت کر رہا ہوتا تو خرید ار اس کی اس صورت حال سے ہر گز ناجائز فائدہ نہ اُٹھاتا بلکہ اس کی شئی کی اصل ویلیو اور وقعت کے مطابق ثمن ادا کرتا ۔
قرون اولی کے مسلمانوں کی زندگی اور سیرت وکردار اس طرح کی مثالوں سے معمور ہے ۔یہاں بطور مثال صرف ایک صحابی حضرت جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر صحابہ میں سے ہیں ۔آپ کو حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ "یوسف هذه الامة "(اس امت کے یوسف)کے لقب سے یاد کرتے تھے ۔[11]کی سیرت سے انکی امانتداری اور خیر خواہی کی جھلک پیش کرتا ہوں ۔
چیز کو فروخت کرتے وقت اس کا عیب بیان کرتے:
"حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ کا طریقہ تھا کہ جب کوئی چیز فروخت کرتے تو اس کے تمام ترعیب اور خامیاں بیان کردیتے اور پھر خریدار سے فرماتے کہ اب تجھے اختیار ہے چاہو تو خرید لو اور چاہو تو چھوڑ دو ۔اس پر آپ سے عرض کی گئی کہ جناب اگر آپ ایسے ہی کرتے رہے تو کوئی بھی تجارتی سودا اور معاملہ طے نہیں پائے گا ،تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا :کہ میں نے اہل اسلام کی خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کی ہوئی ہے ۔[12]"
گویا کہ آپ نے اپنے کردارسے اس خیر خواہی کے عہدوپیمان کا عملی ثبوت دیا ۔
چیز کو خریدنے کے بعد اس کی قیمت زیادہ ادا کرتے :
آپ رضی اللہ عنہ کا انوکھا طریقہ تھا کہ جب آپ کوئی چیز خریدتے تو خریدنے کے بعد اگر اس چیز کی زیادہ عمدگی ظاہر ہوتی تو آپ مالک کو اس کی اضافی قیمت ادا کرتے ۔آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ اپنے غلام کو گھوڑا خریدنے بھیجا تو وہ تین سو درہم سے بہت عمدہ گھوڑا خرید کر لایا ،تو جب آپ نے دیکھا تو فرمایا :یہ گھوڑا تین سو درہم سے زیادہ قیمت کا مستحق ہے ۔لہٰذا آپ اس کے مالک کے پاس گئے اور ایک سو درہم اسے اور دے کر آئے ،پھر جب اس گھوڑے پر سواری کی اور اسے مزید دیکھا بھالا تو وہ اور زیادہ اچھا اورعمد ہ محسوس کیا تو اس کے مالک کے پاس گئے اور ایک سو درہم مزید دے دیئے ،اورایسے ہی کرتے کرتے تین سو درہم سے آٹھ سو درہم تک پہنچ گئے ۔جو گھوڑا مالک کی رضامندی سے تین سو درہم میں خرید ا اس کی عمدگی کے پیش نظر بغیر مالک کے مطالبہ کے آٹھ سو درہم ادا کیا ۔
جب لوگوں نے آپ سے اس کی وجہ تو آپ نے فرمایا کہ میں نے اہل اسلام اور مسلمانوں کی خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ ﷺ کی بیعت کر رکھی ہے ۔([13])
لہٰذا مجھے اس بیعت کا پورا پورا احساس ہے اور میں نے اس بیعت کے پیش نظر اہل اسلام کی خیر خواہی کرنی ہے اس میں اگرچہ مجھے بظاہر نقصان ہی اُٹھانا پڑے ۔
جب دین اسلام سب کا سب خیر خواہی کا دین ہے تو اس کے ماننے والوں کو چاہیے کہ صرف اپنی خیر خواہی میں نہ لگے رہیں بلکہ سارے مسلمانوں کی بھلائی اور خیر خواہی کو پیش نظر رکھیں اور کسی قسم کے نامناسب منافع سے گریز کریں ۔
نتائج
امید ہے کہ مذکورہ الصدر سطور کے پڑھنے سے قاری کو حصول نفع کے بارے میں بقدر ضرورت اسلامی نقطۂ نظر سے آگاہی حاصل ہو جائے گی جو کہ مندرجہ ذیل نکات پر مشتمل ہے ۔
1۔قرآن و سنت کی نصوص میں تجارتی معاملات میں حصول نفع کی کوئی مقدار معین نہیں کی گئی ۔
2 ۔نفع کی مقدار کو معین نہ کرنا کسی غفلت و جہالت کی وجہ نہیں ہے ،بلکہ اپنے پیروکاروں کی سہولت اور فائدہ کی خاطرہے ۔
3 ۔یہ اصول عام ،متوازن اور معتدل حالات میں لاگو ہوگا ،اگر معاشرہ میں کسی مملکت کے اندر کوئی فرد یا گروہ ملک کے باشندوں سے ظالمانہ نفع خوری یا ملک کے باسیوں کا استحصال کرنے کے درپے ہو جائے تو حکومت وقت پرتاجر اور گاہک دونوں کا لحاظ رکھتے ہوئے قیمتوں کا متعین کرنا لازم ہے۔
4۔ اور جہاں اور جس وقت کوئی اسلا م کی منع کردہ خریدوفروخت کی صورت ،دھوکہ دہی،سود خوری ، رشوت ،ملاوٹ اور کرپشن کی کوئی بھی نوع رواج پانے لگے تو حکومت پر روک تھام کے لئے ٹھوس اقدام کرنا لازم ہے ۔
سفارشات :
1۔ہمارے ملک میں قیمتوں کے حوالہ سے حالات متوازن نہیں ہیں ، ملک کئی بحرانوں کا شکار ہے ،جن سے حکومت وقت بڑی دلیری سے مقابلہ کر رہی ہے ،ان حالات میں حکومت کیطرف سے نہ صرف قیمتوں کامعین کرناضروری ہے،بلکہ تعین کرکے ان پر عمل درآمد کرانا اس سے زیادہ ضروری ہے ،ہمارے ہاں حال یہ ہے کہ 2 روپے فی لیٹر پیٹرول کی قیمت بڑھےتو 50،100،روپیہ فی کس گاڑیوں کے کرائے بڑھ جاتے ہیں ۔ اور 10 ،20 روپے ہر چیز کی قیمت بڑ جاتی ہے ۔ اس کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے ۔
2۔بعض پس مانندہ علاقوں میں دکانیں یا بازار کم ہونے کی وجہ سے وہاں کے تاجر لوگوں کا استحصال کرتے ہیں ،اور من مانے داموں اشیاء فروخت کرتے ہیں ،اور لوگو ں و اضطراری حالت میں چاروناچار انہی سے مہنگے داموں اشیاء خریدنا پڑتی ہیں ۔ اس صورت حال کا نوٹس لینا بھی ضروری ہے۔
خلاصہ ٔ بحث
انسان زندگی میں جو محنت اور کوشش کرتا ہے ، اس کے پیچھے کسی نہ کسی منفعت کے حصول کا جذبہ ضرور ہوتا ہے ۔ خصوصاً انسانی معاشرہ میں تجارتی معاملات تو کلی طور پر نفع کمانے اور حصول ذر کے لئے انجام پاتے ہیں ۔اور آئے روز خرید و فروخت میں نفع کمائی کےرجحان کو عروج ہی ملتا جارہا ہے ۔ اور میرے وطن کی تو ہر صبح اورہر شام ہی کوئی نہ کوئی مہنگائی کا مژدہ سنانے کی عادی ہے ۔ ایسے میں میرے ذھن و خیال میں بھی آیا اور بعض دوستوں نے استفسا ر بھی کیا کہ ہماری شریعت او رہمارادین خریدوفروخت کےمعاملہ میں حصول نفع کے بارے میں کیا رہنمائی فرماتا ہے۔ اس نتیجہ میں اختصار کے طورپر مندرجہ ذیل کچھ معلومات جمع کی ہیں :
نفع حاصل کرنے کی خواہش انسان کا ایک طبعی جذبہ اور رجحان ہے ،جس کے بغیر کسی بھی محنت و مشقت کے لئے تیار ہونا بعید از قیا س ہے ۔ حصول ذر کی تمنا کو پورا کرنے کے لئے اسلامی قواعد وآداب اور اس کی خصوصیات کی ایک جھلک پیش کی ہے ۔ ظلم و جبر اور دھوکہ دھی سے نفع خوری کی بعض جہتوں کی عقدہ کشائی کی ہے : مثلاً ذخیرہ اندوزی ،تجارتی قافلوں سے شہرسےباہر مل کر اجناس کو خریدنا او ماھر شہری تاجر کا ناواقف د یہاتی سے اشیاء کو سستے داموں خریدوفروخت کر مہنگے داموں بیچنا وغیرہ اور طلب ورسد کے اصول کی و ضاحت کی ہے ،اور تمام ایسی سے سورتیں جن میں رسد و طلب کا مصنوعی بحران پیداکر کے قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں کا بیان ہے ،جبکہ فتویٰ کے بین الاقوامی مراکز میں سے سعودی عرب کی مستقل فتویٰ کمیٹی کا فتویٰ بھی موضوع کے حوالہ سے شامل کیا گیاہے ۔ اور آخر میں ایک عظیم القدرصحابی رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے عملی کردار کا نمونہ پیش کیا ہے ۔
حوالہ جات
- ↑ 1 سورۃ القصص۷:۲۸
- ↑ 1 احمد بن حنبل، المسند(موسسۃ قرطبۃ، مصر،۲۰۱۰م)،۲ /۳۳۷،حدیث:۸۴۲۹
- ↑ 2السجستانی،سلیمان بن اشعث ،ابو داؤد،السنن(دار الفکر، بیروت،۲۰۱۱م)،۳/۲۷۲
- ↑ السجستانی،السنن،کتاب البيوع،باب في التسعير،حدیث:۳۴۵۱
- ↑ التبریزی،ولی الدین بن عبد اللہ محمد بن عبد اللہ ،مشکوٰۃ المصابیح(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۸ء)،۲/۲۶
- ↑ القشیری ،مسلم بن حجاج،الجامع الصحیح (مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۰۹ء)،حدیث:۲۸۲۳
- ↑ 6فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ۱۳/۹۱
- ↑ 7 فتاوي اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ۱۳/۹۲
- ↑ 8 القشیری،الجامع الصحیح ،کتاب المساقاة،باب تحريم الاحتكار في الاقوات،حدیث:۱۶۰۵
- ↑ السجستانی،السنن،کتاب البيوع،باب في التسعير،حدیث:۳۴۵۱
- ↑ ابن حجر عسقلانی،الاصابۃ فی تمییز الصحابہ(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۲)،۲/۲۶۵
- ↑ الجزری،محمد بن اثیر،جامع الاصول فی احادیث الرسول (مکتبہ دارالبیان ،۱۳۸۹ھ)، حدیث:۸۴۶۶
- ↑ ملا علی قاری ، مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح ( دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۱۴۲۲ھ)،ص:۲۲۰
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |