Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Islamabad Islamicus > Volume 1 Issue 1 of Islamabad Islamicus

علم مختلف الحدیث پر امام شافعی کے تفکرات کا تحقیقی مطالعہ |
Islamabad Islamicus
Islamabad Islamicus

Article Info
Authors

Volume

1

Issue

1

Year

2018

ARI Id

1682060033219_976

Pages

4-31

PDF URL

https://jamiaislamabad.edu.pk/uploads/jamia/articles/article1.pdf

Subjects

Rationalization of Contradicting Hadith Contradiction between Hadiths Principles of Hadith Principles of Imam Shāfiʿī

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

تعارف

اوائل اسلام میں کسی حدیث کی وضاحت اور اس میں وارد ہونے والے احکام کی فرضیت و مندوبیت، منہیات و تنزیہات کے مابین فرق کا حصول کوئی مشکل عمل نہیں تھا مگر وقت گزرنے کے ساتھ لوگوں کی آراء نے کثیر شبہات کو جنم دیا جو حدیث کو بنیادی ماخذ ِ شریعت ہونے کے اعتبار سے بهی مشکوک ظاہر کرنے لگیں۔ علماءِ کرام نے ان فتنوں کی تردید میں زندگیاں وقف کر دیں اور امت کے لئے قواعد پر مبنی ایسا علمی ورثہ چھوڑا جو شرعی نقطہ نظر سے حدیث کی تقویت و معرفت میں کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علم مختلف الحدیث کی ناسمجھی بھی انہیں امراض معاشرت میں سے ہے جس نے حفاظتِ حدیث پر اعتراضات اٹھائے اور لوگوں کے درمیان باہمی اختلاف کی وجہ بنا۔ امام شافعی ؒ نے سب سے پہلے ایسے قواعدو ضوابط وضع کئے جن کی رہنمائی میں کثیر اعتراضات کے مفتوح ابواب ہمیشہ کے لئے مغلق ہو گئے۔ امام شافعیؒ کی تحریر میں اس قدر جامعیت ہے کہ علم مختلف الحدیث پر بحث کرنے والاآپؒ کے بنائے گئے بنیادی اصولوں سے رو گردانی نہیں کر سکتا۔ امام صاحب نے قولاً اور تحقیقاً ثابت کیا کہ احادیث کے درمیان واقع ہونے والا تعارض حقیقی نہیں بلکہ محض ظاہری نظر تک محدود ہے۔ وجوہات ِتعارض کو بیان کرنے کے بعد امام صاحب نے اس کے انتفاع میں تین مسالک "جمع "، "نسخ" اور" ترجیح" قائم کئے۔ ان تین میں سے " جمع" کو مقدم کیا کیونکہ احادیث کو بیک وقت استعمال کرنا افضل ہے اور نسخ حدیث میں امام شافعیؒ کی معرفۃ مقدم علی الاعم ہے۔ پہلی دونوں صورتوں میں اگر کوئی صورت ممکن نہ ہو تو حدیث کی اضافت اس کے دیگر اوصاف کی طرف کردی جاتی ہے۔ امام صاحبؒ کے متعارف کردہ تینوں مسا لک کسی بھی متعارض حدیث کی تطبیق کےلیے کافی ہیں۔

 

لغوی تعریف:

دنیا ئےاسلام میں اہلِ اصطلاح کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے کسی بھی شئی کی تعریف کی جامعیت و مانعیت میں خلا باقی رہنے نہیں دیا حتی کہ اس اصطلاح کے بولے جانے سے اس کی پوشیدہ ابحاث کا علم بھی ہوجاتا ہے،چنانچہ جمہور لغت کی کتب میں اسکی تشریح (الخاء واللام والفاء) مصدر اختلف کے ذیل میں کی گئی ہے۔ عربی لغت المنجد میں اس کے معانی کو ہر اس جہت سے بیان کیا ہے کہ جس پر یہ علم اور اسکی جزیات دلالت کرتی ہیں۔

 

۱۔ تخالفوا، اختلفو آپس میں اختلاف کرنا، نا موافق ہونا، اجمالا اس علم کو اس نظریہ کے تحت گردانا جاتا ہے کہ ایک حدیث کسی دوسری حدیث کی مخالفت کرے۔ یہ تعریف بحیثیت المجموع ذیل میں اپنی تمام اقسام کو متضمن ہے۔

 

۲۔ خَلفَ (بجزم عین کلمہ) سے اس کے معانی قائم مقام ہونا ( خلف آباء، اپنے باپ کے قائم مقام ہونا) اور ازالۃ التعارض میں قسم اول جمع حدیث سے متعلق ہے کہ دو مختلف احادیث ایک دوسرے کے قائم مقام عملاًً و تشریحاً مساوی ٹھہری ہیں اور دونوں پر عمل کیا جا رہا ہے۔

 

۳۔ خَلَفَ سے اس کے معانی تغیر ہونا، بدل دینا (خلف الرجل عن خلق ابیہ، اپنے باپ کی عادات سے بدلہ ہوا ہونا) اور ازالۃ التعارض کی قسم ثانی میں ناسخ اپنے ماقبل کے حکم کو بدل دیتا ہے۔

 

۴۔ خَلّفَ الشئی یعنی پیچھے چھوڑ دینا، موخر کر دینا اور قسم ثالث ترجیح حدیث پر دلالت کرتی ہے کہ اس میں راجح حدیث اپنے مرجوح کو پیچھے چھوڑ دیتی ہے۔ [1]بعض دیگر اہل لغات جیسا کہ خلیل بن احمد نے کتاب العین میں(الخاء واللام والفاء) کوخِلفٌ مصدر سے کسی شئ کے مؤخر ہونے سے تعبیر کیا :

 

لا يلبثون خِلافک۔[2] "اور ایساہوتا تو تمہارے پیچھے نہ ٹھہرتے ۔"[3]

 

اور ابنِ فارس نے مقاییس اللغات میں اس کے حروفِ اصلیہ کو مدنظر رکھتے ہوئے مصدر اختلف سے ماخوذ کیا اور جہت اول میں معنی کسی ایک شئی کا کسی دوسری شئی کے بعدقائم مقام واقع ہونا

 

فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ۔[4]

 

"تو ان کے بعد ان کی جگہ وہ نا خلف آئے۔"

 

اور جہت ثانی میں اس کے معنی کسی شئ کے متغیر ہونے سے تعبیر کیے ہیں[5]۔ اور رواس قلعجی نے اختلاف کو اتفاق کی ضد قرار دیا ہے[6] یعنی ایک طبقہ کا اس شئی کی مخالفت کرنا جس کی تائید کسی دوسرے طبقہ میں قولاً وفعلاً موجود ہو۔[7]

 

علم مختلف الحدیث کا اصطلاحی مفہوم:

علم مختلف الحدیث کو اہلِ فن نے مختلف انداز میں اصطلاحی لحاظ سے بیان کیا ہے جیسا کہ امام نووی فرماتے ہیں :

 

هوياتی حديثان متضادان فی المعنی ظاهرا فيوفق بينهمااويرجح احدهما۔[8]

 

"دو احادیث کا اس حال میں آنا کہ ان دونوں کے درمیان ظاہرًا تعارض ہو اور اس تعارض کی تطبیق یا ترجیح ممکن ہو۔"

 

اس مذکورہ تعارضِ ظاہری کی قید کو اسامہ بن عبد اللہ خیاط نے بیان فرمایا:

 

التعارض فی التعريف بکونه (ظاهرياً)، وذلک لان التعارض (الحقيقی) فی الثابت من سنن النبی محال۔[9]

 

"تعارض کا ظاہری حالت میں ہونا ہی مخالفت حدیث کی تعریف میں شامل ہے کیونکہ حدیث نبویﷺ میں حقیقی تعارض کا ثبوت محال ہے۔"

 

ڈاكٹر نافذ حماد، امام نووی کی تعریف میں بیان کردہ قیودات پر اکتفاء نہیں کرتے بلکہ اس کی تعریف کو مزید وسعت دیتے ہوئے کہتے ہیں :

 

هو علم يتناول الحديثين اللذين يبدو فی ظاهرهما الاختلاف و التعارض والتضاد فاذا بححثها العلماء ازالو تعارضهما من حيث امکان الجمع بينهما، و ذلک ببيان العام والخاص او المطلق و المقيد او ماشابه و ببيان الناسخ من المنسوخ او بترجيح احدهما۔[10]

 

"کہ وہ علم جس میں احادیث کا اختلاف، تعارض و تضاد ظاہر ہو گیا ہو اور علماء نے تحقیق سے اس کے تعارض کو زائل کر دیا اور یہ تطبیق حدیث کے عام و خاص کے بیان کر دینے سے یا مطلق ومقید، ناسخ اور منسوخ اور دونوں احادیث میں سے کسی ایک کو ترجیح دینے سے ممکن ہوئی۔"

 

علم مختلف الحدیث کی اہمیت:

علم مختلف الحدیث کی معرفت نہایت ضروری اور دقیق امر ہے۔ علماء و محدثین و فقہاء واصولیین اس علم کے بغیر سنتِ حبیبﷺ کی اصل توجیہات، اقوال و افعال کی معرفت کو حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ حالات و واقعات اور راوی کی ترجیحات کے بدلنے سے پیدا ہونے والے تعارض کی معرفت اور اس کا ازالہ اسی علم پر موقوف ہے۔ مزید یہ کہ ترجیحات، تطبیقات اور ناسخ و منسوخ کے حقائق اور ان کے استعمال کی معرفت کا حصول بھی اسی علم کے ذیل میں آتا ہے[11]۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ

 

هذا من اهم الانواع، و يضطر الی معرفة جميع العلماء من الطوائف. و انما يکمل الائمة الجامعون بين الحديث، والفقه، والاصوليون الغواصون علی المعانی۔ [12]

 

"علم مختلف الحدیث اہم انواع میں سے ہے اور تمام علماء اس علم کی جستجو میں رہتے ہیں اور بے شک اس علم کی تکمیل تمام علوم کی جامعیت (علم الحدیث، علم الفقہ، علم الاصول اورعلم اللغات) کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ "

 

امام مالک کے ایک قول کے مطابق فتوی دینے کا اہل صرف وہ شخص ہے جو علم مختلف الحدیث کا جاننے والا ہو جیسا کہ ابو القاسم سے روایت ہے:

 

وروی عن ابی القاسم قال: سئل مالک، قيل له: لمن تجوز الفتوی ؟، فقال: لا تجوز الفتوی الا لم علم ما اختلف الناس فيه قيل له: اختلف اهل الرای؟ قال : لا، اختلاف اصحاب محمدﷺالناسخ و المنسوخ من القران، و من حديث الرسول عليه الصلوة والسلام، وکذا يفتی۔ [13]

 

" جب امام مالک سے سوال کیا گیا فتوی کون دے سکتاہے؟ فرمایا: کہ فتویٰ صرف وہی آدمی دے سکتاہے جو لوگوں کے اختلافات کا عالم ہو۔ پوچھا گیا کہ اختلاف رائے کا عالم ہو؟ فرمایا: نہیں، بلکہ اختلاف اصحابِ محمد اور ناسخ و منسوخ بحیثیت قرآن اور بحیثیت حدیث رسولﷺ اور اسی طرح فتوی دے۔"

 

امام شافعی ؒ کی علمی فضلیت اور علم مختلف الحدیث :

اکثر علماء ومورخین نے اس بات کی تصدیق فرمائی ہےکہ امام شافعی سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے مختلف الحدیث پر کلام کیا۔ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ امام شافعی کی کتاب اختلاف الحدیث کی صنف میں مشہور و جامع کتاب ہے۔ آپ کے مقاصد میں شامل رہا ہےکہ ایسے طرق بیان کر دئیے جائیں جن سے اختلاف حدیث کی وجوہات کی معرفت حاصل ہو اور اس حدیث کو قواعد کی رو سے منطبق کرنے کے بعد حقائق تک پہنچایا جا سکے[14]۔علامہ عراقی فرماتے ہیں فن علم مختلف الحدیث ایسی نوع ہے جس میں جمہور محدثین و فقہاء نے علمی کلام کیا ہے مگر امام شافعی ؒ و ہ صف اول کے امام ہیں جنہوں نے علم مختلف الحدیث کو متعارف کروایا اور اکثر احادیث کی تطبیق "کتاب الام" میں بیان کر دی[15]۔

 

احادیث کوباہم متعارض قرار دینے کی شرائط:

امام شافعیؒ نے احادیث کو باہم متعارض قرار دینے کے لیے شرائط کا تذکرہ بھی کیا ہے جیسا کہ وہ فرماتے ہیں کہ اس امرپر اجماع ہے کہ جس طرح مقبول اور عرف میں مشہور عادل کے علاوہ کسی کی شہادت کو قبول نہیں کیا جاتا، اسی طرح ثابت حدیث کے علاوہ کوئی حدیث قبول نہ کی جائے اور مجہول و مرعوب حدیث کے وجود کو حالتِ تعارض میں معدوم ہی تصور کیا جائے[16]۔اسی شرط کو بنیا د بناتے ہوئے توجیہ النظر میں امام شافعی کے مذہب کی تائید و وضاحت موجود ہے کہ حدیث کے لئے لازم ہے کہ صحت میں کلی طور پر کامل ہو اور اس میں مقبول حدیث کی تمام شرائط موجود ہوں کیونکہ کسی متروک حدیث کے تعارض کو دور کرنے کی محنت کرنا عبث ہے لہٰذا علماء ومحدثین کسی ایسی جہت میں خود کی مشغول نہ کریں جو پہلے سے اپنی صحت کے اعتبار سے عمل کے قابل نہیں اور اسی طرح اگر کسی مقبول حدیث کا تعارض کسی غیر مقبول کے ساتھ ہو تو اس تعارض کو امام شافعی کی بیان کردہ قید کے پیش نظر متعارض تصور ہی نہیں کیا جائے گا[17]۔

 

امام شافعیؒ کے نزدیک تعارضِ حدیث کےاسباب:

ا مام شافعیؓ کی نظر میں تعارضِ حدیث کے اسبا ب ہی اس صنف کی وضاحت کی وجہ ہیں۔ آپؒ کے نزدیک تعارض کی وجوہات میں سے اولاً یہ ہے کہ مجتہد پر اس حدیث کی اصل حقیقت، محل بیان، زمانہ بیان اور حدیث کے کلمات کی ادائیگی کی وجہ واضح نہیں ہوتی۔

 

جب تک مجتہد پر درج بالا امور واضح نہ ہونگے تو تعارض کی حالت میں احکام کےاستنباط اور اشکال کا رفع کرنا ایک مشکل امر ہو گا۔ عمومی طور پر مسائل کے اختلاف میں مجتہد کی نظر بہت اہمیت رکھتی ہے لہذا اختلاف کی صورت میں علماءِ محدثین کو چاہئے کہ کسی بھی حدیث کو دوسری حدیث سے تعارض کی حالت میں نہ چھوڑ ا جائے اور اختلاف کو رفع کرنے کے بعد استنباطِ احکام میں حدیث کو اپنی صحت میں برقرار رکھا جائے۔ امام شافعیؓ کے نزدیک علماء کے لئے افضل ہے کہ وہ کسی بھی حدیث کے لزوم میں شک نہ کریں اور یہ حقیقت ذہن نشین رکھیں کہ احکامِ الٰہی اور احکامِ رسول ﷺ کے ما بین کچھ بھی اختلاف نہیں اور یہ ایک ہی مثال کے ذیل میں آتے ہیں[18]۔ امام شافعیؓ مزید فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کی وسعتِ گویائی کا ایک وصف یہ بھی تھا کہ کہ بعض دفعہ آپ کا فرمان عام ہوتا اور اس سے مراد بھی عام امور ہی ہوتے تھے اور بعض دفعہ بیان تو عام ہوتا تھا لیکن اس سے مراد خاص ہوتی تھی [19]۔ امام شافعی ؓ نے اجمالا ًاس حقیقت کو بیان کیا کہ ایسی کوئی حدیث بھی باقی نہیں ہے جو اختلاف کے تناظر و تناقض کی حالت میں ہو اور اس کے اس تناظر کورفع نہ کردیا گیا ہو اور اس کی تطبیق اس حال میں کی گئی ہے کہ اس کی موافقت کتاب اللہ سے یا کسی دوسری حدیث سے دلیل کے ساتھ ہو جاتی ہے۔[20]

 

اس کلام سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ امام شافعی کے نزدیک احادیث میں وارد میں ہونے والا اختلاف ظاہراً ہے، حقیقت سے اس کا کچھ تعلق نہیں ۔ اس ظاہری اختلافات کے اسباب اوران کی تفصیلات ذیل میں مرتب کی جا رہی ہیں۔

 

اولا: عام اور خاص کی عدم ِ معرفت کی بنا پر اختلافات

قرآن کریم آ فاقی اعجاز میں اپنی مثال آپ ہے۔ یہ کلام حضور ﷺ پر نازل ہوا اور جس طرح دیگر انبیاءِ کرام کو معجزے عطا کئے گئے اسی طرح قرآن کریم کا ہر لحاظ سے جامع ہونا اور ہر رطب و یابس کا بیان اس میں موجود ہونا حضور ﷺ کی ذات اقدس سے ساتھ جڑا معجزہ تصور کیا جاتا ہے جو آپ ﷺ کی نبوت کی گواہی تا قیامت دیتا رہے گا۔ اسی تمہید کے پیش نظر امام شافعی نے کتاب الام میں بیان کیا کہ قرآن کریم عربی زبان میں نازل ہوا اس کے بعض احکام کسی خاص معنی کے لئے نازل ہوئے اور بعض عمومی اعتبار سے۔ لیکن کسی بھی فرد کے لئے یہ درست نہیں کہ وہ عموم یا خصوص کی بحث کو حائل کرے جب تک کہ اس کے پاس کسی حدیث یا اجماعِ امت سے اس کی عمومیت یا خصوصیت پر تائید نہ آجائے۔ اسی طرح حدیث کا معاملہ بھی ہے۔ وَمَا یَنطِقُ عَنِ الهَوٰی کی رو سے حضور ﷺ کا بیان بھی مختلف جہات کو متضمن ہے اور عموم و خصوص کی بحث کو متعدد معنی کی وجہ سے حائل کرنے کی ضرورت پیش رہتی ہے، لیکن کسی عام فرد کے لئےجائز نہیں کہ وہ کسی حدیث کے عام یا خاص ہونے پر فیصلہ دے ۔صرف علماء ہی یہ کام کر سکتےہیں جنہوں نے اس حدیث کی باریکی کو سمجھا اور اس پر عام یا خاص ہونے کا فیصلہ دیا۔ اس قسم کے اختلاف کی وجہ بھی یہ ہے کہ بعض اہل علم نے دیکھا کہ حدیث جو کہ سلوک للعام ہے۔ اس کے بر عکس کسی خاص معنی و مقام پر آپ ﷺ نے مقتضی الحال کے مطابق عام کے برعکس ارشادفرما یاجو کہ بعض کے نزدیک تعارض کی وجہ ٹھہرا[21]۔ اما م صاحب الرسالہ میں فرماتے ہیں :

 

و يسن بلفظ مخرجه عام جملة بتحريم شی و بتحليله و يسن فی غيره خلاف الجملة فيستدل علی انه لم يرد بما حرم ما احل، و لا بما احل ما حرم۔[22]

 

عموم و خصوص کی بحث میں امام صاحب نےایک اور جہت کو واضح کیا کہ حضورﷺ کا کلام کسی شئ کی حرمت و حلت میں موجود تھا لیکن آپ ﷺ نے کسی خاص موقع پر حرمت کے مقابل حلت اور حلت کے مقابل حرمت کو ترجیح دی تو محقق نے اسے مختلف الحدیث تصور کیا اور بعض نے بعد والے حکم کو ناسخ اور ماقبل کو منسوخ تصور کیا جب کہ اس تعارض کی وجہ اس حال میں موجود علت ہے جو امر کی خصوصیت میں مفصل و مفسرہیں۔ اس حدیث کا عمومیت سے خصوصیت میں منتقل ہو نے پر اس کے بیان میں حضورﷺ کی حدیث مبارکہ

 

اَلعُجَمَاءُ جَرَحَهَا جَبَارٌ۔[23]

 

" چوپائیوں کے زخم پر کوئی زمان نہیں۔ "

 

یہ سلوک للعام حکم ہے لیکن اس کے بر عکس آپ علیہ السلام کا فیصلہ براء ابن عازب کی اونٹنی کے خلاف گیا جو کہ کھیتوں میں داخل ہو گئی اور فصل کومسخ کر دیا اس پر آپﷺ نے بیان فرمایا :

 

اِنَّ عَلٰی اَهلِ الحَوِائِطِ حِفظَهَا بِالنَّهَارِ، وَاِنَّ مَا اَفسَدَتِ المَوَاشِی بِاللَّیلِ ضَامِنٌ عَلٰی اَهلِهَا۔ [24]

 

"اہل اموال پر اس کی حفاظت دن میں ہے جب کہ مویشی کے مسخ کا معاملہ رات میں پیش آیا اس لئے اہل مویشی پر ضمان لازم آئے گا۔ "

 

دونوں حدیثیں آپس میں متضاد نہیں بلکہ پہلی حدیث عام اور دوسری خاص ہے او ر علت کے بیان کی وجہ سے اس کی خصوصیت ظاہر ہوگئی اور ماقبل بھی اپنے حکم کی تقویت کے ساتھ قائم و دائم اور بر قرار ہے۔[25]

 

ثانیا: سائل کے حال کی عدم ِ معرفت کی بنا پرتعارض

بعض اوقات ایک حدیث میں کسی دوسری حدیث کے ساتھ مخالفت اس وجہ سے ہوتی ہے کہ محقق نے سائل کے حالات مختلف ہونے پر غور نہیں کیا ہوتا جو کہ اس میں فرق کا موجد تھا۔[26] حضور علیہ السلام کا فرمان ہے :

 

اِنَّمَا بُعِثتُ مُعَلِّمًا۔[27]

 

"بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔"

 

لہٰذا آپ علیہ السلام کی بعثت عرب کے نہایت دقیق النظر اور سالم عقل رکھنے والوں کے درمیان ہوئی جن کی قوتِ اذہان نے حدیث جیسے مقدس علم کو آنے والی امت تک بحفاظت پہنچایا۔ مزید یہ کہ صحابہ کرامؓ کی احتیاط فی الدین وتیرہ رہا ہے کہ ہر عمل کر نے سے پہلے چاہے وہ دین سے متعلق ہو یا ذاتی امور کو مستلزم ہو، قیاس آرئیوں سے کام لینے کے بجائے آ پ ﷺ کی بارگاہ اقدس سے رائے ضرور حاصل کیا کرتے تاکہ آنے والوں کے لئے معرفتِ دین میں آسانی کی صورت بن جائے۔ اس وجہ سے جب کسی نے کوئی بھی سوال کیا تو آپ ﷺ نے سائل کے مناسبِ حال جواب عنایت فرمایا اور حال کے مختلف ہو جانے کے سبب آپ ﷺ کے جواب میں تغیر واقع ہو ا۔اگر محقق اس حقیقیت کوجان گیا کہ سائل کی مراد اس سے شرعی مسئلہ کی ہے یا سوال اسکی ذات تک محدود تھا اور حالاتِ سائل مختلف ہو جانے کے سبب جواب میں تغیر واقع ہوا نہ کہ عین مسئلہ میں تو یہ صورت اس محقق کے لئے مخالفتِ حدیث میں داخل نہیں ہو گی۔ حضور علیہ السلام سے حدیث مروی ہے :

 

اَنَّ رَجُلًا سَئَلَ النَبِیَّ ﷺ عَنِ المبَاشَرَۃِ لِلصَّائِمِ فَرَخَّصَ لَهُ، وَ اَتَاهُ اٰخَرٌ فَسَئَلَهُ فَنَهَاهُ فَاِذَا الَّذِی رَخَّصَ لَهُ شَيخٌ وَ الَّذِی نَهَاهُ شَبَابٌ۔[28]

 

"ایک شخص نے رسو لﷺ سے روزے کی حالت میں مباشرت کے بارے میں دریافت فرمایا تو آپ نے اسے اجازت عنایت فرمائی جبکہ اس کے برعکس کسی دوسرے شخص کے یہی سوال پوچھنے پر آپﷺ نے منع فرمادیا کہ جس شخص کو اجازت دی وہ ضعیف فی العمر تھا جبکہ دوسرا شخص جوان تھا ۔"

 

یہاں یہ واضح ہے کی سائلین کے احوال مختلف ہونے کی وجہ سے جہت امر میں بھی تغیر واقع ہو گیا کیونکہ پہلا شخص کا سوال ضعیف العمر ہونے کی وجہ سے اس کے اپنی ذات تک محدود تھا جبکہ دوسرا شخص جوان تھا اور اس کا مقصد شریعت محمدیہ کی رہنمائی حاصل کرنا اور اسے دوسرے لوگوں تک پہنچانا تھا۔

 

ثالثا: حدیث کے بعض حصے کی عدم ِ معرفت کی بنا پرتعارض

صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین اپنے دنیاوی اور دینوی امور میں درپیش مشکلات حل کرنے کے لئے حضورﷺ سے رجوع فرماتے اورکبھی آپ علیہ السلام سائل کے سوال کی مقدار کے مطابق جواب عنایت فرما دیتے جبکہ اس مسئلہ کی تفصیل کسی دوسرے مقام پر بیان کردی گئی ہو تی۔ امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ جب نبی کریمﷺ سے کسی شئ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپؐ نے سوال کی مقدار کے مطابق جواب ارشاد فرما دیا، سوال کرنے والے کے لئے جواب کافی تھا۔ لیکن جواب مختصر ہونے کی وجہ سے اپنی بعض تفصیلات کو متضمن نہیں تھا جو دوسری حدیث میں بیان ہو چکا۔[29] روایات میں منقول ہے کہ بعد از سمع حدیث صحابہ کرام نشست کے دوران حضورﷺ کی احادیث کو دہرایا کرتے تھے اور ممکن ہے تکرار کے دوران غیر موجود صحابی کے سوال کرنے پر جواب کی مقدار کے مطابق کلما ت ارشاد فرمائےہوں جو روایت کے دوران بعینہ آگے چلتے رہے جبکہ جواب دینے والے صحابی سے تفصیل کے ساتھ کوئی روایت بھی منقول ہو جو ظاہراً باہم متعارض ہوں لیکن اصلاً مقدار ِبیان میں کمی کی وجہ سے مجتہد اصل مفہوم تک پہنچنے میں مشکلات کا شکار رہا اور اسے تعارض ِحدیث میں داخل کر دیا، اسی طرح یہ معاملہ حضور ﷺ کی نشست کے دوران بھی پیش آیا اسی لئے امام صاحب نے مقدار مسئلہ کے مطابق جواب، جبکہ تفصیلات کسی دوسرے مقام پر بیان ہونا بھی سبب تعارض حدیث میں بیان فرمایا۔ اس کی مثال الفاظ کی کمی، زیادتی کے ساتھ تشھد فی الصلوۃ کی احادیث ہیں جو کہ ابن مسعود[30] ابن عباس [31]، ابو موسی اشعری، [32]اور حدیث عمر بن خطاب [33]رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پہلی بیان کردہ تین احادیث تقویت میں صحیح ہیں اور کسی ایک پر بھی عمل کرنا ایسا ہی ہے جیسے بقیہ پر عمل کیا ،لیکن سند کی تقویت، رجال کا مشہور اور عادل ہونا اور دیگر لوازمات کی وجہ سے فقہاء میں افضلیت ہونے کے اعتبار سے اختلاف ہے۔ ( عمر ابن خطاب ؓ کی حدیث کو موقوف تصور کیا گیا ہے)۔[34] احناف، حنابلہ اور جمہور کے نزدیک ابن مسعود کی حدیث کو ترجیح دی گئی ہے کیونکہ اصح الاسانید ہے، اور اس کے رجال بھی مشہور ہیں۔جبکہ بعض فقہاء نے ابوموسی اشعری کی حدیث کو ترجیح دی اور امام شافعی ؒ نے ابن عباس ؓ کی حدیث کو ترجیح دی جبکہ امام مالکؒ حضرت عمر ؓ کی حدیث کو ترجیح دیتے ہیں۔ [35]

 

رابعا: ناسخ ومنسوخ کی عدم ِ معرفت کی بنا پرتعارض

رسول اللہ ﷺ قرآن میں بیان کردہ احکام کی تفصیل اور امت کی رہنمائی کے لئے مبعوث فرمائے گئے۔ اللہ نے قرآن کریم کے احکام کو یکبارگی اس دنیا پر نازل نہیں کیا بلکہ کبھی مسائل کے پیش نظر، کسی معاملہ کی تفصیل اور امتوں کے قصے، فطرت انسانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ نے تمام ممنوعہ امور سے دور رہنے کا حکم اور نیکی کی ترغیب رفتہ رفتہ اپنے حبیب ﷺ کے ذریعے پہنچائی۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کے احکام ناسخ ومنسوخ ہونے کی وجہ سے شارح کے ساتھ بھی یہ امور قائم ہو گئے کہ حدیثِ رسول ﷺ میں بھی اکثر احکام جو قبل از تقریر نبیﷺ جائز رہے بعد از قول نبی ﷺ منسوخ ہوگئے۔سبب نسخِ حدیث میں امام شافعی فرماتے ہیں :

 

نسخ من سنة بسنة، و لکن ربما ذهب علی الذی سمع من رسول الله ﷺ بعض علم الناسخ او علم المنسوخ، فحفظ احدهما دون الذی سمع من رسول الله الاخر۔[36]

 

اقتباس کا مفہوم یہ ہے کہ سنت کا نسخ ہمیشہ سنت سے ہی ہو گا نہ کہ قول صحابی یا اجماع سے بلکہ سنت کے مقابل میں قول صحابی متعارض ہو تو بغیر کسی تردد کے قول صحابی ترک کر دیا جائے گا اورناسخ و منسوخ میں تفصیل یہ ہے کہ بعض اصحابؓ نے حدیث ناسخ کو سنا اور اسی کو حفظ کر لیا او ر بعض نے صرف منسوخ کو کہ کسی وجہ سے ناسخ ان تک نہیں پہنچی (کسی دوسری علاقہ میں مقیم ہو گئے، شہید ہو گئے یا دیگر) تو اسی پر اکتفاء رہ گیا اور محقق تک جب یہ حدیث بسند پہنچی تو اس نے دونوں حدیثوں کو متعارض جانا۔ اس لئے امام صاحب نے کتاب الام میں اس عبارت کو قید کے طور پر استعمال کیا۔

 

ولا يستدل علی الناسخ و المنسوخ الا بخبر عن رسول الله او بقول او بوقت، يدل علی ان احدهما بعد الاخر۔ [37]

 

مصلحت کی بنیاد پر منسوخ کئے گئے احکام کی پہچان کے لئے لازم ہے اس کی دلالت رسو ل اللہ ﷺ کی خبر سے ہی کی جائے، چاہے وہ صراحتاً ہو یعنی آپ ﷺ نے خود بیان کر دیا ہو کہ پہلا حکم منسوخ ہے اور آئندہ کا عمل ماقبل کے بر عکس ہو گا جیسے زیارتِ قبور کی حدیث۔ دوسری قید وقت کی ہے کہ آپ ﷺ سے فعل کی دلالت موجود ہو یعنی وہ عمل جو آپ ﷺ سے آخری دور میں منسوب ہے، ناسخ اور ماقبل والے قول و عمل منسوخ ثابت ہو جائیں گے۔

 

اِنَّمَا الماءُ مِنَ الماءِ۔ [38]

 

"مادۃ کے ظاہر ہونے سے غسل کی فرضیت ہو گی۔"

 

اس حدیث کے نسخ میں حضور ﷺ کا فرمان موجود ہے :

 

اَلخَتَنَانِ بِالخَتَنَانِ فَقَد وَجَبَ الغُسلُ [39]

 

"جب ختنے آپس میں مل گئے تو غسل واجب ہو گیا۔"

 

خامسا: مباح ہونے کے لحاظ سے تعارض حدیث :

تعارض فی المباح قلیل الاستعمال ہے اور اس قسم کے اختلافت میں متفق رائے اکثرمجتہد کی سعی سے نکل آتی ہے باوجود اس کے مختلف الحدیث کے اسباب میں داخل ہے کہ وہ افعال جن کو حضور ﷺ نے تواتر کے ساتھ کیا ہو مگر اس کی کیفیات مختلف ہو جانے کی وجہ سے محقق کی نظر میں تعارض واقع ہو گیا اور اس نے تصور کیا کہ ایک فعل کی مواظبت کی وجہ سے اس فعل کی باقی کیفیات ِعمل میں تعارض واقع ہے۔

 

ومنها: ما يکون اختلافا فی الفعل من جهة ان الامرين مباحان۔ [40]

 

امام شافعیؒ اس سبب کے متعلق کتاب الام میں بیان فرماتے ہیں اگر اختلاف کی نسبت ایک فعل کے ترک کر دینے اور اس فعل کے عین متبادل دوسرا فعل لے آنے کی صورت میں ہو تو یہ نسخِ حدیث میں شامل ہے اور اگر پہلا فعل اپنی اصل پر باقی رہے مگر ادائے کیفیات متعدد ہونے کے سبب شبہ پیدا ہو تو اسے مباح میں داخل کر دیں گے۔ اس کی مثال میں احادیث رسو ل ﷺ جو غسل اعضاء فی الوضوء میں وارد ہوئی ہیں، ان میں پہلی حدیث ابن عباس سے روایت ہے " مَرّةً مَرَّةً " یعنی ایک ایک مرتبہ اعضاء دھو نا ثابت ہے جبکہ دوسری حدیث جسے عطاء بن یحی المزانی نے اپنے والد سے روایت کیا "مَرَّتينِ مَرَّتَينِ " یعنی دو مرتبہ دھونا جبکہ عثمانؓ بن عفان سے "ثَلَاثًا ثَلاَثاً" یعنی تین مرتبہ دھونا بھی ثابت ہے۔ امام صاحب نے ان احادیث کے ضمن میں ارشاد فرمایا کہ یہ نہیں کہا جائے گا ان احادیث میں مطلقاً کوئی اختلاف ہے بلکہ ایک ہی فعل کو مختلف طریقہ سے کیا گیا ہے جو مباح کی تعریف میں داخل ہے اس میں حلال وحرام، امرو نہی کا کوئی تصور نہیں، اسلئے ادائیگی فرضیت ایک مرتبہ دھونے سے ہو جائے گی جبکہ اکمل تین مرتبہ دھو نا ہے۔ [41]

 

سادسا: حدیث کے بعض حصہ کی روایت بیان کرنے میں شامل اسباب کی عدم معرفۃ کی وجہ سے تعارض یہ وجہ بھی بیان کردہ قسم ثالث کے مشابہ ہے لیکن امام شافعیؒ اور اکثر محدثین جو مختلف الحدیث کی ابحاث میں مشغول رہے، اس کو الگ قسم کے ذیل میں بیان کر تے ہیں۔ اس صورت میں بھی محقق کو دقیق نظر ی سے شارح علیہ السلام کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے کہ اس قسم کے اختلاف میں حدیث کے بعض حصہ کو بیان کیا جاتا ہے جو کہ سائل کے سوال کی مقدار کے مطابق تھا اور اگر روایت کرنے والے اور روایت کے بیان کرنے والے نے حدیث کے ساتھ سبب خروج حدیث بھی بیان کر دیا تو بہتر ہے اور اگر محقق تک سبب کی معرفت نہ پہنچی تو ممکن ہے کہ یہ جواب کسی دوسری حدیث سے متعارض قائم کر دیا جائے۔

 

اما م شافعی ؒ فرماتے ہیں حضور ﷺ نے سوال کرنے والے کو جواب بیان فرمایا اور سائل نے جواب کو پا لیا مگر اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ سائل کا سوال کیا تھا جس کے جواب میں حضورﷺ نے وہ کلمات ارشاد فرمائے۔ اگر محقق کو سوال کی معرفت بھی ہو جائے تو اس پر واضح ہو جائے گا کہ یہ حدیث تعارض میں واقع نہیں ہوئی[42]۔ اس کی مثال میں حضور ﷺ کا فرمان

 

اِنَّمَا الرَّبَا فِی النَّسِيئَةِ۔ [43]

 

" بے شک تفضل ادھار میں ہے۔ "

 

جب اس کے مقابل حضور ﷺ کا فرمان ہے :

 

اَلذَّهَبَ بِالذَّهَبِ، وَالفِضَّةَ بِالفِضَّةِ، وَالِبرَّ بِالبِرِّ، وَالشَّعِيرَ بِالشَّعِيرِ، وَالتَّمَرَ بِالتَّمَرِ، وَالمِلحَ بِالمِلحِ، مَثَلًا بِمَثَلٍ، سَوَاءً بِسَوَاءٍ يَدًا بِيَدٍ، فَاِذَا اختُلِفَت هٰذِهِ الاَصنَافُ، فَبِيعُوا کَيفَ شِئتُم اِذَا کَانَ يَدًا بِيَدِهِ۔[44]

 

بیان کردہ دوسری حدیث میں بیع کی دو قسمیں بیان کی گئی ہیں : ایک قسم وہ ہے جس میں جنس مختلف نہ ہیں جبکہ دوسری قسم جس میں اجناس مختلف ہے اور ربا فی النسیئہ دوسری قسم کو متضمن ہے نہ کہ پہلی قسم کو کہ اگر پہلی قسم کے ساتھ متعلق ہو تو ایک تولہ سونا کی بیع دو تو لہ سونا کی بیع یدا بید جائز ہو جائے گی جب کہ ایسا نہیں ہے، اس لئے واضح ہوا کہ النسیئہ کی قید اجناس کے مختلف ہونے کے ساتھ ہے اور معرفۃِ سببِ جواب معلوم نہ ہونے کہ وجہ سے محقق کی نظر نے اس حدیث کو مخالفت میں داخل کر دیا۔

 

امام شافعیؒ کے نزدیک تعارض کو ختم کرنے کےطریقے:

امام شافعیؒ نے ارتفاعِ تعارض کے لئے تین مسالک جمع، نسخ اور ترجیح قائم کئے اور نسبت عموم وخصوص کو جمع کے ذیل میں بیان کر دیا گیا ہے اس لئے کہ عموم و خصوص میں بھی دونوں احایث پر بیک وقت عمل کیا جا تا ہے۔

 

الجمع:

دو متعارض احادیث میں جمع کو بقیہ تطبیقات پر ترجیح دی جائے گی اسلئے سبب چاہے کوئی بھی ہو محقق کو چاہئے کہ معرفتِ تعارض کے بعد باہم متضاد احادیث کو جمع پر ترجیح دے امام شافعی فرماتے ہیں:

 

وکلما احتمل حديثان ان يستعملا معاً استعملا معا، ولم يعطل واحد منهما الاخر. [45]و قال ايضا:ولزم اهل العلم ان يمضوا الخبرين علی وجوههما ما وجود لامضائهما وجها۔ و لا ينسب الحديثان الی الاختلاف، ما کان لهما وجها يمضيان معا، انما المختلف ما لم يمضی الا بسقوط غيره مثل ان يکون الحديثان فی الشئ الواحد، هذا يحله، و هذا يحرمه. [46]

 

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں جب دو متعارض صالح احادیث ایک ساتھ بیان کی جائیں اور احتمالِ استعمال بحیث المجموع موجود ہو تو دونوں کو اکھٹا استعمال کیا جائے گا، کسی ایک کو دوسرے کے لئے نہیں چھوڑا جائے گا۔ امام شافعی مختلف الحدیث پر سب سے زیادہ کلام کرنے والے ہیں اور اکثر متعارض احادیث کی تطبیق آپؒ نے اپنی کتاب "الام" میں کر دی ہیں مگر ساتھ ہی جمع حدیث کی ذمہ داری اہل علم پر بھی عائد کرتے ہوئے فرمایا کہ علماء کی بھی یہ ذمہ داری کہ دو مختلف جہتوں والی حدیث کو ایک سمت پر پہنچایا جائے اور حتی الامکان احادیث کو جمع کیا جائے ورنہ دونوں میں کسی ایک حدیث کا سقوط لازم آئے گا اور یہی حدیث رسول ﷺ کا تقدس و احترام ہے اور وراثتِ رسول ﷺ کی حفاظت کا واحد ذریعہ ہے۔جمع حدیث کی مروجہ وجوہات کو تعریفات اور امثلہ ذیل میں اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔

 

الاول: عام و خاص کی معرفۃ سے جمع حدیث

قال الامام الشافعی: ورسول الله عربی اللسان والدار، فقد يقول القول عام يريد به العام، وعام يريد به الخاص، کما وصفت لک فی کتاب الله وسنن رسول الله۔ [47]قال ايضا: "فکل کلام کان عاماً ظاهراً فی سنة رسول الله فهو علی ظهوره و عمومه، حتی يعلم حديث ثابت عن رسول الله يدل علی انه انما اريد بالجملة العامة فی الظاهر بعض الجملة دون بعض۔[48]

 

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں کلامِ عرب اور طریقِ خداوندی بھی ہے کہ قرآن حکیم کے احکام کو درجہ عمومیت میں رکھا گیا ہے اس کے بعض احکام عمومیت میں ہی قابل عمل ہیں البتہ بعض دفعہ کسی مصلحت و علت کی بناء پر اس کی تخصیص حدیث میں بیان کر دی جاتی ہے اور اسی طرح حدیث میں دیا گیا حکم بذات خود بعض دفعہ عام معنی میں وارد ہوا اور اس کی تخصیص کسی دوسری حدیث میں کر دی گئی۔ اور جب دونوں احادیث محقق کے نظر سے گزریں تو اس نے ان احادیث کو متعارض جاناکیونکہ اس کا ادراک حدیث کی نسبت عموم وخصوص کو جاننے و ماننے سے قاصر ہے۔ قرآن میں دیا گیا حکم زکوۃ عام معنی پر دلالت کر رہا ہے جبکہ حدیث میں زکو ۃکی میعاد و مقدار کا بیان موجود ہے، قطع ید میں سارق کی مسروقہ قیمت کا بیان، نماز کے اوقات اور اس طرح دیگر احکام کی تفسیر و تخصیص حضور ﷺ کے اقوال سے ہی کی گئی۔ اسی لئے کسی عام حکم کی تخصیص کو پہلے حکم سے متضاد تصور نہیں کریں گے بلکہ دونوں احکام ایک ساتھ استعمال میں لائے جائیں گے۔ اس کی مثال اسباب تعارض کی بحث میں بھی گزر چکی ہے۔ حدیث عام (العجماء جرحها جبار) تھی لیکن حضور ﷺ نے اس کی تخصیص (براء بن عازب کو انکی اونٹنی کے کئے گئے نقصان پر ضمان دینا پڑا کیونکہ فصلوں کا مسخ کا واقعہ رات میں پیش آیا جبکہ اہل اموال پر رکھوالی صرف دن میں ہے ) فرمادی۔

 

الثانی : اوامر و نواہی کی معرفۃ سے جمع حدیث

قال الشافعی:وما نهی عنه رسول الله فهو علی التحريم، حتی تاتی دلالة عنه علی انه اراد به غير تحريم " [49]قال ايضا : " اصل النهی من رسول الله ﷺ ان کل ما نهی عنه فهو محرم، حتی تاتی عنه دلالة تدل علی انه انما نهی عنه لمعنی غير التحريم، اما اراد به نهيا عن بعض الامور دون بعض، و اما اراد به النهی للتنزيه عن المنهی و الادب والاختيار۔ [50]

 

امام شافعی ؓ فرماتے ہیں کہ جب کسی فعل کے متعلق رسول اللہﷺ نے ممنوعیت کا حکم جاری کر دیا اور پھر آپﷺ کے قول یافعل سے یہ ظاہر ہوا کہ ممنوعیت اس حکم کی حرمت میں نہیں،مزید فرمایا کہ رسول ﷺ نے جب کسی فعل سے منع کرنے کے ساتھ حرمت بیان کر دی اور اس کے بعد آپﷺ نے ایسا بیان فرمایا جو فعل کی حرمت کو زائل کرے ، تو ایسا کرنا دو وجوہات کی بنا پر ہے اول یہ کہ منہیات میں سے بعض امور کی اجازت دینے کے سبب اور دوسرا منہیات کا تنزیہی یا ادباً ممنوع اور پھر اس کو بندے کے اختیار پر چھوڑ دیا جائے یعنی اس فعل کا بجا لانا یااس کا ترک کر دینا بندہ کی اپنی صوابدید پر موقوف ہے۔

 

اسی طرح اس کا مفہوم ِ مخالف کہ رسول ﷺ نے حدیث میں کسی شئی کا امر دیا پھر اس کےبعد آپ کا قول یا فعل نفسِ مسئلہ میں اس کی مخالفت ظاہر کرے کہ محقق کو گمان ہو کہ شاید دوسرا قول و فعل پہلی حدیث کے تعارض میں واقع ہے ۔ علماء کا اس پر اتفاق ہے اگر ایک حدیث میں امر اور دوسرے میں مستحب کا حکم دیا گیا تو دونوں احادیث کو مستحبات کے ذیل میں ہی رکھا جائے گا، اسی طرح نہی اور مکروہ تنزیہی میں بھی یہی تطبیق کی جائے گی، درحقیقت اس میں باہم کچھ بھی تضاد نہیں ہے۔ [51]

 

حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :

 

اِذَا جَاءَ اَحَدُکُمَ الجُمُعَةَ فَليَغتَسِل ۔[52]

 

"تم سے جب کوئی جمعہ کی نمازکو آئے تو غسل کرے۔ "

 

اس حدیث میں غسل کے امر کو لازم اور بغیر غسل کے نماز جمعہ کے لئے آنا منہیات میں شامل رہا۔ اس کے برعکس حضور ﷺ کا فرمان : "مَن تَوَضَّاءَ فَبِهَا وَ نَعِمَت، وَ مَنِ اغتَسَلَ فَذٰلِکَ اَفضَلُ " [53]جس نے وضوء کیا تو اس کے لئے کافی ہے اور جس نے غسل کیا تو اس کے لئے افضل ہے۔ یہ حدیث ماقبل میں گزری حدیث کو دائرہ اباحت میں داخل اور منہیات کو بھی رفع کر دیتی ہے۔

 

الثالث : مطلق الدلالۃ ومقید الدلالۃکی معرفۃ سے جمع حدیث

حدیث مطلق و مقید بھی جمع حدیث کے طرق میں شامل ہے۔ ارشاد الفحول میں "مطلق" کی تعریف کی گئی ہے :

 

ومعنی هذا ان يکون حصة محتملة لحصص کثيرة مما يندرج تحت امر۔[54]

 

"مطلق وہ حصہ کلام جو کثیر معنی کا احتمال رکھتا ہے اور جب مطلق کلام سے احکام جاری کیا جاتا ہے تو اسکے معانی مشترک ہونے کی وجہ سے اس حکم کاکسی ایک معنی کے ساتھ متعین کرنا ممکن نہ ہو۔"

 

ڈاکٹر نافذ حماد بیان کرتے ہیں :

 

" ما دل علی مدلول معين، او وصف المدلول المطلق بصفة زائدة عليه۔[55]

 

" یعنی کہ مقید وہ جو اپنے مدلول معین پر دلالت کرے یا مطلق مدلول پر ایسی صفت زائدہ قائم کر دے جو مطلق مدلول کو مقید کی طرف لے جائے۔"

 

مدلول معین جیسے زید بکر، ھذ الرجل، اور صفت زائدہ کی مثال میں دینار مصری، درہم مصری وغیرہ اسی تعریف میں داخل ہوتے ہیں۔ اس کی مثال میں رسول اللہ ﷺ کا فرمان :

 

لَا تُکَذِّبُوا عَلَیَّ فَاِنَّهُ مَن یَکذِبُ عَلَیَّ یَلِجُ النَّارَ۔[56]

 

"حضور ﷺ کا فرمان کہ مجھ پر افتراء نہ کرو کہ جس نے مجھ سے جھوٹی بات منسوب کی تو وہ جہنم میں ڈالا جائے گا ۔"

 

جب کہ دوسری جگہ حضور ﷺ ارشاد فرمایا :

 

مَن کَذَبَ عَلٰی مُتَعَمِّدً ا فَلیَتَبَوَّء مَقعَدَهُ مِنَ النَّارِ۔ [57]

 

" جس نے جان بوجھ کر مجھ پر افتراء کیا تو اس نے اپنا ٹھکانا جہنم بنا لیا۔ "

 

پہلی حدیث میں جھوٹ کو مطلقا ً استعمال کیا گیا یعنی جھوٹ بولنے والے کے لئے جہنم ہے لیکن دوسری حدیث ( عَمَدًا) اضافہ کے ساتھ بیان ہوئی جس نے پہلی حدیث کو مقید کر دیا اس لئے خطاء اور نسیان سے بولاگیا جھوٹ عمدًا کی قید سے نکل گیا۔ اس حدیث کی تطبیق پر بیان فی القرآن

 

﴿وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا﴾[58]

 

پر ہے کہ اس پر حضورﷺ کا فرمان :

 

اِنَّ اللهَ وَضَعَ عَن اُمَّتِی الخَطَاءُ، وَالنِّسيَانُ، وَ مَا استَکرَهُوا عَلَيهِ۔ [59]

 

ہے لیکن اسامہ بن خیاط نے اس وضاحت کے بعد تنبیہ فرمائی کہ مذکورہ احادیث مطلق ومقید ہونے کے ساتھ، عام اور خاص کی مثال میں بھی داخل ہوتی ہیں جس میں عمومیت کذب کی ہے اور خصوصیت وعید کاذب متعمد کی ہے۔[60]

 

النسخ:

فقہاء و اصولیین کے نزدیک نسخ کی مختلف تعریفات رائج ہیں مگر فہم کے قریب تر، مختصر اور ہمارے موضوع کے عین مطابق نسخ کی تعریف کرتے ہوئے ابن حاجب فرماتے ہیں۔

 

والنسخ رفع الحکم الشرعی بدليل شرعی متاخر۔[61]

 

حکم شرعی کو بعد والی دوسری دلیل شرعی کے ساتھ اٹھا دینا نسخ کہلاتا ہے۔

 

یعنی اگر حاکم کا حکم کسی فعل کے تثبیت یا تمسیک میں موجود تھا اور کسی مصلحت کی بناء پر بعد میں نئے حکم سے پہلے دئیے گئے حکم کی نفی کر دینا مذکورہ تعریف کی تفصیل میں داخل ہے۔

 

تنسیخ حدیث کی شرائط:

امام صاحب کے موقف میں حد درجہ یہ کوشش کی گئی ہے کہ کسی بھی حدیث کی تنسیخ لازم نہ آئے ما سوائے جہاں تطبیق نا ممکن ہو۔ جیسا کہ امام شافعی فرماتے ہیں کہ دو احادیث اگر ایک ساتھ استعمال ہو سکتی ہوں تو جمع کو نسخ پر ترجیح دی جائے گی کسی ایک حدیث کو دوسری حدیث کے لئے نہیں چھوڑا جائے گا[62]۔

 

اولا: تنسیخ قرآن بالسنہ

قرآن کریم اللہ کا کلا م ہے او ر اس میں احکامات و منہیات بیان کئے گئے ہیں جو تا قیامت اسی حال میں باقی رہیں گے جس میں وہ نازل ہوئے قرآن تدریجاً نازل ہوا اور ضرورت و مصلحت کے مطابق اللہ نے وحی متلو میں دئے گئے احکام میں تنسیخ و تغیر کا معاملہ فرمایا۔ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا :

 

﴿ مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا﴾[63]

 

کہ جب کوئی آیت ہم منسوخ فرمائیں یا بھلا دیں تو اس سے بہتر یا اس جیسی لے آئیں گے۔

 

اما م شافعی علیہ الرحمہ کا موقف ہے کہ قرآن کے اند واقع ہونے والی تنسیخ صرف قرآن سے ہی ممکن ہے نہ کہ حدیث سے کیونکہ جو ذات اس حکم میں حاکم ہے وہی اس حکم کے زوال کا سبب ہے[64]۔ اس کے متعلق تفصیل امام صاحب نے کتاب الام میں بیان فرمائی :

 

قال الشافعی:فتقام سنة رسول الله ﷺ مع کتاب الله جل ثناءه مقام البيان عن الله عدد فرضه کبيان ما اراد بما انزل عاما؛ العام اراد به او الخاص، و ما انزل فرضا و ادبا و اباحة، وارشاد لا ان شيا من سنة رسول الله يخالف کتاب الله فی حال ؛ لان الله جل ثناءه قد اعلم خلقه ان رسوله يهدی الی صراط مستقيم، صراط الله، ولا ان شيا من سنن رسول الله ﷺ ناسخ لکتاب الله؛ لان الله تعالی عزوجل اعلم خلقه انه انما ينسخ القران بقران مثله والسنة تبع للقران۔ [65]

 

"رسول ﷺ کی سنت اور کتاب اللہ کا مقام ایک ہی ہے اس حال میں کہ سنت قرآن کی تفصیل و تفسیر ہے تاکہ اللہ کے کلام کی معرفت حاصل ہو جائے کیونکہ قرآن میں دیا گیا حکم عام معنی کو متحمل ہے یا کسی خاص مقصد کے تحت اس حکم کا نزول ہوا۔ اس حکم کی تعبیر فرضیت کے لئے ہے یا اسکو مستحبات میں شامل کیا جائے گا۔ اسی تفصیل میں کی گئی تصریحات قرآنی (حد سرقہ میں مال کی مقدار، حدیث رجم، وضاحت زکوة، مواقیت صلوة، اور مسح علی الخفین اور دیگر) امام شافعی کے نزدیک مذکورہ تصریحات قرآن کے ذیل میں ہی ہیں نہ کہ اس کی مخالفت میں۔ اپنے اس بیان کی تقویت میں فرمایا کہ سنت رسول میں کتاب اللہ سے کچھ بھی مخالف نہ ہے۔ اللہ تعالی زیادہ عالم ہے اور اس نے رسول اللہ ﷺ کو صراط مستقیم پر ہادی مقرر کیا اس لئے رسول اللہ ﷺ کے بیان میں قرآن سے کچھ بھی مخالف نہ ہے ،اس لئے قرآن میں کی گئی اسی کی مثل قرآن سے اور سنت رسول ﷺ میں کی گئی تصریحات قرآن ہی کے تابع ہوں گی۔ "

 

الثانی :تنسیخ سنہ بالسنہ

جس طرح قرآن کریم کے معاملہ میں امام صاحب تنسیخ قرآن بالقرآن کو جائز فرمایا اسی طرح سنت کی تنسیخ بھی سنت ہی کے ذریعے ممکن ہے۔

 

قال الشافعی:و هکذا سنة رسول الله : لاينسخها الا سنة لرسول الله. [66]وقال ايضا:لم يجز ان ينسخها الا مثلها، ولا مثل لها غير سنة رسول الله.[67]

 

امام صاحب نے ہر ایک جہت کو اس کے مقام کے مطابق متعین فرمایا۔ اسی طرح سنۃ رسول کے لئے قید مقرر فرمائی کہ کسی بھی حدیث کی تنسیخ کے لئے حضور ﷺ کا اپنا بیان اس امر کے منسوخ ہونے میں لاز م ہے کیونکہ کسی شئی کی تنسیخ اسی دلیل کے مثل یا اس سے اعلی درجہ کا حاکم کر سکتا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تنسیخ کسی عام آدمی کے لئے نہیں ہے بلکہ بندہ پر تو اتباع لازم ہے اور متبوع کی حدود میں شامل ہے کہ جس کی اتباع اس پر فرض کی گئی ہے اس کی مخالفت نہ کرے اور تمام مومنین پر رسول اللہ ﷺ کی اتباع فرض ہے اور کسی بندے کا کوئی قول حضور ﷺکے کسی حکم کی تنسیخ میں قبول نہیں کیا جائےگا۔

 

الثالث :تنسیخ سنہ بالقرآن

امام شافعیؒ نے اس امر کو بھی بڑی مفاہمت اور وسیع نظر سے حل فر مایا:

 

قال الشافعی:لونسخت النسة بالقران کانت للنبیﷺ فيه سنة تبين ان سنته الاولی منسوخة بسنة الاخرة، حتی تقوم الحجة علی الناس، بان الشئی ينسخ بمثله۔[68]

 

امام صاحب نے تنسیخ سنۃ بالقران کو مطلقاً ممنوع نہیں فرمایا بلکہ اس کے ساتھ ایک شرط معلق کر دی کہ تنسیخ سنۃ بالقرآن میں یہ شرط لازم ہے کہ منسوخ سنت کا بیان کسی دوسری سنت میں آ گیا ہویعنی فی الاصل یہ تنسیخ سنۃ بالسنہ ہی ہو گی اور اس کی حد یہ کہ لوگوں کے درمیان یہ رائج ہو کہ حدیث کو نسخ، قرآن کے ذریعہ نہیں بلکہ اپنی مثل سنت ہی سے واقع ہوا ہے اور اس مصلحت کے بیان میں امام صاحب فرماتے ہیں :

 

فاذا کانت السنة تدل علی ناسخ القران و تفرق بينه و بين منسوخه (الخ الی) بکل حال ما متبعة کتاب الله۔[69]

 

امام صاحب فرماتے ہیں کہ اگر یہ تصور کر لیا جائے حدیث رسول قرآن کے ناسخ ہونے کے اثر کو قبول کرے تو اس میں ناسخ اور منسوخ میں تمییز نہیں رہے گی ،اس لئے لازم ہے کہ تنسیخ سنۃ بالقرآن میں کوئی اور حدیث پہلے سے منقول ہو جو اس حدیث کی تنسیخ پر دلالت کر رہی ہو تا کہ یہ شبہہ زائل ہو جائے کہ رسول ﷺ کے بیان کردہ پر رب کی طرف سے حجت قائم ہو گئی یعنی بیان اس کے خلاف میں وارد ہو گیا۔ اس کی مصلحت یہ کہ قرآن کے معانی ظاہر عام پر دلالت کرتے ہیں اور اکثر حدیث کے بیانات قرآن کے ظاہر معانی سے مخالفت میں واقع ہوتے ہیں اس لئے اگر تنسیخ سنہ بالقرآن کی جہت کو مفتوح چھوڑا گیا تو معترضین کے لئےقرآن کے عام معانی کے بیان میں تخصیص میں وارد ہونے والی احادیث کو رد کرنے کی راہ ہموار ہو جائے گی کیونکہ لسان العرب کی خاصیت ہے ایک کلمہ متعدد معانی کو متحمل ہوتا ہے اور اللہ کے فرامین کا بیان، تخصیص و ترتیب، فرضیت و اباحت حدیث سے ہی ثابت ہے اور ان تمام تر وجوہات میں حضور کے فرامین قرآن کے ظاہر معانی کے مخالف ہیں اس لئے لازم ہے کہ تنسیخ سنہ بالقرآن میں کوئی اور حدیث بھی موجود ہو جو اس تنسیخ کے حق میں گواہی دے۔

 

قرائن معرفت تنسیخ:

امام شافعی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی احادیث کے متعلق کوشش کی جائے گی کہ کسی بھی حدیث کو معطل نہ کیا جائے اور جمع حدیث میں کسی عام کے تحت خاص، کسی مطلق کو مقید اور اسی طرح دیگر امثلہ جو جمع حدیث کی ذیل میں آتی ہیں دونوں احادیث استعمال میں لائی جائیں مگر امر رسول ﷺ آجانے کے بعد ان احایث کی تنسیخ لازم ہے جو مخالفت میں واقع ہیں ان کی تنسیخ عمل کی جانکاری کے لئے امام شافعی نے ایسے قرائن کا تعین فر ما دیا جو اس کے ناسخ و منسوخ کی معرفۃ میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں :

 

لايستدل علی الناسخ والمنسوخ الی بخبر رسول الله ﷺ او بقول او بوقت يدل علی ان احدهما بعد الاخر، فيعلم ان الاخر هو الناسخ، او بقول من سمع الحديث، او العامة کما وصفت۔ [70]

 

امام صاحب نے واضح کلمات میں حضورﷺ کے اپنے فرمان کو بنیادی ماخذ قرار دیا جو کہ زمانہ کی ترجمانی کو مساوی متضمن ہے یعنی آخری وقت میں کیا ہوا عمل ناسخ جب کہ ماضی منسوخ ہو گا اور اس بیان کو مزید وسیع کرتے ہوئے جید اصحاب کرام اور اجماع امت کے بیان پر بھی تنسیخ حدیث کومعلق کر دیا تاکہ اگر حضور ﷺ نے کسی عمل کی تنسیخ فرمائی مگر آپ ﷺ کا قول صراحۃ موجود نہیں تو اصحاب کے بیان کو بطور دلیل فی التنسیخ پیش کیا جا سکتا ہے اور اگر اصحاب کا بیان بھی موجود نہیں تو اجماع امت بھی دلیل کے اخذ کرنے کامستند ذریعہ ہے۔

 

 

رسول اللہﷺ سے صراحت تنسیخ:

حضورﷺ کا فرمان ہے:

 

کُنتُ نَهَيتُکُم عَن زَيَارِةِ القُبُورِ فَزُورُوهَ۔[71]

 

حضورﷺ اس حدیث میں ماضی میں دئے گئے حکم کی صراحۃً تنسیخ کی گئ یعنی پہلے میں تمہیں حکم دیتا تھا کہ تم قبروں کی زیارت کو نہ جایا کرو مگر اب تمہیں قبور کی زیارت سے کچھ بھی شرعی ممانعت نہ ہے۔

 

اصحاب رسول ﷺسے صراحت تنسیخ:

اصحاب رسول کی صراحت بھی قرینہ معرفۃ نسخ میں کارآمد ثابت ہوتی ہے کیونکہ لازم نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ہر تنسیخ پر صراحت بیان کر دی ہو ۔

 

اِنَّ الماءَ مِنَ المَاءِ کَانَت رُخصَةٌ رَخَّصَهَا رَسُولُ اللهِ ﷺ فِی بَدءِ الاِسلَامِ ثُمَّ اَمَرَ بِالِاغتِسَالِ بَعدَهُ۔[72]

 

اس حدیث کی وضاحت اسباب تعارض میں گزر گئی اور اس حدیث کی تنسیخ میں ابی بن کعب ؓ نے بیان کیا کہ اوائل اسلام میں نمی کی دلالت سے غسل کا وجوب تھا لیکن بعد میں ہمیں ایسا کرنے سے منع کر دیا اور التقی ختنان سے غسل کی وجوبیت کا حکم دے دیا گیا۔

 

معرفۃ بدلالۃ الاجماع:

اجماع امت استدلال شریعت کے لئے مستند ماخذ ہے اس لئے امام شافعی ؒ اور دیگر محدثین ؒ کے نزدیک نسخ حدیث میں اجماع امت کو ترجیح دی گئ ہے۔حضورﷺ نے عمل اپنے ظاہر قول کے خلاف کیا اور اسی عمل پر امت نے استدلال کر کے ماضی میں موجود قول یا فعل کو منسوخ اور بعد میں واقع ہونے والے تقریر و عمل کو ناسخ قرار دے دیا۔ حضورﷺ نے فرمایا :

 

اِذَا شَرِبوا الخَمَرَ فَاجلِدُوهُم، ثُمَّ اِن شَرِبُوا فَاجلِدُوهُم، ثُمَّ اِن شَرِبُوا فَاجلِدُوهُم ثُمَّ اِن شَرِبُوا فَاقتُلُوهُم[73] وَ فِی مَقَامٍ اٰخَرَ:مَن شَرِبَ الخَمَرَ فَاجلِدُوهُ، فَاِن عَادَ فَاجلِدُوهُ، فَاِن عَادَ فَاجلِدُوهُ، فَاِن فِی الثَّالِثَةِ اَوِ الرَّابِعَةِ فَاقتُلُوهُ فَاُتِیَ بِرَجُلٍ قَد شَرِبَ الخَمَرَ فَاجلِدُوهُ، ثُمَّ اُتِیَ بِهِ فَاجلِدُوهُ ثُمَّ اُتِیَ بِهِ فَاجلِدُوهُ ثُمَّ اُتِیَ بِهِ فُاجلِدُوهُ وَرُفِعَ القَتلُ فَکَانَ رُخصَةٌ۔ [74]

 

مذکورہ بالا پہلی حدیث حدشراب کی زد میں آنے شخص کو قتل کے بیان میں واقع ہے جبکہ اسے حد شراب میں چوتھی مرتبہ قاضی کے سامنے پیش کیا گیا ہو جبکہ اس کے مقابل دوسری حدیث میں قتل کو چھوڑ کر حد (کوڑے) پر ہی رخصت دی گئی ہے۔ امام شافعی فرماتے ہیں :

 

فلا نعلم احدا من اهل الفتيا يخالف فی ان من اقيم عليه حد فی شئی اربع مرات ثم اتی به خامسة او سادسة اقيم ذلک الحد عليه ولم يقتل۔ [75]

 

جید علماء فقھاء کی تاریخ میں ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ جب کسی ایسے شخص کو لایا گیا ہو جسے پہلے ہی چار بار حد جاری ہو چکی ہو اور پانچویں اور چھٹی بار بھی حد جاری نہ کی گئی ہو یعنی اسے قتل نہیں کیا گیا بلکہ حد پر ہی اکتفاء کیا گیا۔

 

الترجیح:

شروط تعارض میں اس قید کو بیان کر دیا گیا کہ تعارض میں دونوں احادیث کا صالح ہونا لازم ہے امام صاحب کے مذہب کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں احادیث پر اولاً بحیث المجموع عمل کیا جائے اگر ایسا کرنا ممکن نہیں تو تنسیخ حدیث کی طرف رجوع کیا جائے گا اگر احایث صلاحیت میں جمع و تنسیخ کو متضمن نہ ہوں تو دونوں میں سے ایک کو ترجیح کے لئے ثابت کر دیا جائے گا۔ ترجیح کے امر میں امام شافعی کے مسالک ذیل ہیں۔

 

ماخذ شریعت سے ثبوت ترجیح:

قال الشافعی:او يکون علی الاثبت منهما دلالة من کتاب الله او سنة نبيه او الشواهد التی وصفنا قبل هذا، فنصيرالی الذی هو اقوی و ان يثبت الدلائل۔ [76]

 

امام شافعی ؒ فرماتے ہیں تعارض میں واقع ہونے والی احادیث کے لئے مخرج صالح موجود ہونا لازم ہے، اسکی تثبیت اولاً کتاب اللہ اور سنت سے کی جائے گی اور انہی مسالک ( جمع و نسخ)پر رہتے ہوئے تعارض حدیث کو دور کیا جائے گا اگر ایسا کرنا ممکن نہ ہو تو تیسرا طریقہ رفع تعارض میں ترجیح کا ہے چونکہ ترجیح میں کسی ایک حدیث کی تقویت کااعتبار کرتے ہوئے دوسری متعارض حدیث پر راجح ہونے کا فیصلہ دے دیا جاتا ہے اس لئے اس صنف میں نقد فی الحدیث اور معرفۃ اسماء الرجال لازم و ملزوم ہیں۔ ڈاکٹر نافذ حماد فرماتے ہیں کہ امام شافعیؒ نے ترجیح کے معاملہ میں نقد فی الراویہ اور نقد فی المتن کا اعتبار کیا ہے اس تناظر میں حدیث کا بنیادی ماخذ شریعت کے( قرآن،، سنت رسول، اھل امت، قیاس) قریب تر ہونا ترجیح کے عمل کو تقویت دیتا ہے۔ تعداد طرق اور ثبوت الروایہ میں فوقیت رکھنا بھی ترجیح کے اسباب میں شامل ہے۔ [77]

 

ترجیح بکثر ۃ الرواۃ:

کثرۃ فی تعداد الروایہ کے سبب بھی تعارض میں واقع ہونے والی حدیث کو دوسری حدیث پر ترجیح حاصل ہو گی۔ وجوہ تعارض میں بیان کی جانے والی حدیث اسامہ بن زید سے مروی ہے :

 

انما الربا فی النسيئة ۔[78]

 

مذکورہ حدیث اسامہ بن زید کے علاوہ کسی اور سے اس طریق پر مروی نہیں ہے جبکہ امام شافعی و دیگر محدثین کے نزدیک اس کے تعارض میں واقع ہونے والی حدیث معروف فی اصحاب رسول ﷺ ہے اسے ابو ھریرہ ؓ [79]، ابو سعید خدریؓ [80]اور حضرت عثمانؓ [81]نے بھی اسی طرح روایت کیا اس لئے اسامہ بن زید کی حدیث کے مقابل احادیث کے تعداد طرق زیادہ ہونے کی وجہ سے ترجیح پا گئی۔

 

قربت نبی ﷺ سے ثبوت ترجیح:

حضورﷺ کی قربت و صحبت بھی کسی حدیث کے راجح ہونے میں اہم کردار اد کرتی ہے علماء کے نزدیک دین اسلام کا ایک اہم حصہ امہات المومنین ؓ کے ذریعے ہی ہم تک پہنچا ہے کیونکہ آپ علیہ السلام کی عائلی زندگی کے احکام و ترجیحات، عدل بین الزوجین اور دیگر ضروریات دینی جو گھریلو زندگی سے منسلک ہیں، امہات کے ذریعے ہی ہم تک پہنچے، اس لئے ازواج مطہرات کا قربت میں اکثر ہونا ان کے قول و فعل کو مخالفت کی صورت میں حصول ترجیح کو کافی ہے۔ اسی طرح جید صحابہ کرام جو علم وجدل میں حضورﷺ کی صحبت سے یک لمحہ بھی غافل نہ ہوئے مخالفت میں دیگر طبقات صحابہ پر ترجیح کے حامل ہوں گے۔

 

نتیجۃ البحث :

امام شافعی ؒ نے وجوہات اختلاف کو بیان کرتے ہوئے ان کا حل بھی تجویز فرما دیا اور واضح کر دیا کہ اہل علم کے درمیان اٹھنے والے اختلافات فروع وسنن میں ہیں نہ کہ اعتقادیات(صفات و قدرت باری تعالی، جنت و دوزخ کا بیان، قیامت و قبر کی ہیبت، عالم ارواح و لوح محفوظ اوردیگر پوشیدہ حقائق ) میں کہ اس پر یقین کامل ہونا شرط ایمانی ہے ۔امام صاحب اور دیگر نے جہاں تعارض اور اختلاف حديث كی و ضاحت كی وہاں اس شئ كو لازما ًبيان كيا ہے کہ یہ تناقض ادلہ شرعیہ میں نہیں بلکہ تعارض فقط نظر مجتہد میں ہے اور اسی پر منحصر ہے کہ وہ حدیث کی تطبیق کس طرح سے کرتا ہے۔اختلاف فی الاراء ایک طبعی عمل ہے اور عادات انسا نی میں داخل ہےایک طبقہ کے مجتہد کی معرفتِ دینی کے دوران استحساناً جائز قرار دیا گیا عمل دوسرے کسی طبقہ کے مجتہد کے لئے مفسدات میں شامل ہو سکتا ہے اس کی وجہ یہ کہ مجتہد مسائل کی معرفۃ میں میں شارع حکیم کی مراد کو کلی طور پر حاصل کرنے سے عاجز ہے۔ اسکی مثال یہ کہ ايك گروه منسوخ حدیث كو اس لئے چهوڑ دے كہ نبی كريم ﷺنے اس عمل كو نسخ فرما ديا بعد از اس عمل پر رہنا تعلیمات نبی ﷺ كے خلاف ہے اور جبکہ دوسرا گروه اس عمل كو اس لئے بجا لائے كہ حضور ﷺ كاہر عمل اورہر قول و فعل حق ہے اور نازل کی گئی كتاب كے موافق ہے اور مزید ایسا ممکن نہیں کہ آج كے انسان كی بنائی ہوئی مصلحت کسی دوسرے زمان يا مكان كے لوگوں كے لئے بھی بعينہ موافق ہو جس کے لئے وہ مصلحت متعارف ہوئی۔ جب یہ ظاہر ہو گیا کہ عوام حتی کہ خواص بھی مجتہدانہ اختلافات کے کلی انتفاع سے قاصر ہیں اس لئے اللہ کریم کی بارگاہ میں دعا ہے قرآن کی آیت ﴿وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ[82]کے مصداق حق تک رسائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حوالہ جات

  1. لویس معلوف، المنجد( دارالاشاعت، کراچی ۱۹۷۵ ء)،ص: ۲۹۳۔۲۹۲
  2. سورۃالاسراء ۷۶:۱۷
  3. الفراہیدی ،خلیل احمد ، کتاب العین ، تحقیق : ہنداوی ، عبدالحمید ،ڈاکٹر ( مکتبہ دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان، ۲۰۰۳م)،۱/ ۴۳۶
  4. سورۃمریم ۵۹:۱۹
  5. احمد بن فارس بن زکریا، مقاییس اللغۃ، تحقیق: محمدہارون ،عبدالسلام ( مکتبہ دارالفکر،بیروت، ۱۹۷۹م)، ۲/ ۲۱۲۔۲۱۰
  6. قلعجی ،محمد رواس ، معجم لغۃ الفقھاء( دار النفائس ، اردن ،طبع دوئم، ۱۹۸۸ء)، ص: ۵۰
  7. اخزیق ،سمیرہ ابراھیم حمدان ، منہج العینی فی مختلف الحدیث(جامعہ اسلامیہ ،غزہ، ۲۰۱۳ء)، ص: ۱۰
  8. النووی ،ا ما م محی الدین بن شرف ، التقريب و التيسير ، تحقیق الخشت ،محمد عثمان ( دار الکتاب العربی ،بیروت، ۱۹۸۵ء)، ص : ۹۰
  9. خیاط ،اسا مہ بن عبد اللہ ، مختلف الحديث بين المحدثين والاصوليين و الفقهاء(دار ابن حزم، الریاض، ۲۰۰۰ء)، ص: ۲۶
  10. حماد ، نافذ حسین ،ڈاکٹر ، مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین( دار الوفاء،المنصورۃ، ۱۹۹۳ء)، ص: ۱۴
  11. اخزیق ،منہج العینی فی مختلف الحدیث، ص: ۱۴
  12. النووی ،ا ما م محی الدین بن شرف ، التقريب و التيسير ، تحقیق الخشت ،محمد عثمان ( دار الکتاب العربی ،بیروت، ۱۹۸۵م)، ص : ۹۰
  13. حماد ،مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین، ص: ۸۵
  14. النووی ، التقريب و التيسير ، ص : ۹۰
  15. العراقی ،زین الدین ابی الفضل ، شرح التبصرہ والتذکرہ( دار الکتب العلمیہ ،بیروت، طبع دوئم،۲۰۰۲م)، ص:۱۰۹۔۱۰۸
  16. الشافعی ،احمد بن ادریس ،کتاب الام ، تحقیق ، عبد المطلب ، فوزی ،ڈاکٹر رفعت ( دار الوفا، المنصورۃ ، ۲۰۰۱ء)،/۱۰ ۴۱
  17. الجزائری ،طاهر بن صالح ، توجیہ النظر الی اصول الاثر(الکائنۃ بحارۃ الروم،مصر، طبع اولی، ۱۹۱۰م)، ص:۱۸۴،۲۲۶
  18. الشافعی ،احمد بن ادریس ، الرسالہ، تحقیق احمد محمد شاکر(دار الکتب العلمیہ ،بیروت، ۲۰۱۰م)،ص: ۱۷۳
  19. ن۔م، ص:۲۱۳
  20. ن۔م ، ص: ۲۱۶
  21. الشافعی ،کتاب الام ،۱۰/ ۲۲۔۲۱
  22. الشافعی ،الرسالہ، ص:۲۱۴
  23. البخاری ، محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح، کتاب الدیات، باب المعدن جبار والبئر جبار، حديث نمبر:۶۹۱۲،دارلحضارة للنشر والتوزيع، رياض، طبع سوئم، ۲۰۱۵ء،ص:۱۱۰۰
  24. احمد بن حنبل ،المسند ،(مکتبہ موسسۃ الرسالہ ،بيروت،۲۰۱۱م)، حدیث نمبر:۲۳۶۹۱
  25. الشافعی ، کتاب الام ، ج :/۱۰۴۱۔۴۱
  26. الشافعی ، الرسالہ، ص:۲۱۴
  27. ابن ماجہ ، محمد بن یزید ، السنن، المقدمہ (دارلحضارة للنشر والتوزيع، رياض،طبع دوئم، ۲۰۱۵م)، حدیث نمبر :۲۲۹
  28. السجستانی ،سلیمان بن الاشعث ، السنن ، کتاب الصوم، باب کراہیۃللشباب( دارلحضارة للنشر والتوزيع، رياض،طبع دوئم، ۲۰۱۵م)، حدیث نمبر: ۲۳۸۷
  29. الشافعی ، ، الرسالہ، ص:۲۱۳
  30. نیشاپوری ،مسلم بن الحجاج ، الجامع الصحیح، کتاب الصلوۃ ، باب التشھد فی الصلوۃ ( دارلحضارة للنشر والتوزيع، رياض،طبع دوم، ۲۰۱۵م)، حدیث نمبر:۴۰۲
  31. ن۔م، حدیث نمبر :۴۰۳
  32. ن۔م، حدیث نمبر: ۴۰۴
  33. الطحاوی ،امام ابو جعفر احمد بن محمد ، شرح معانی الآثار ، با ب التشھد فی الصلوۃ کیف ھو ،(مکتبہ رحمانیہ ،لاہور،۲۰۱۶ء)، حدیث نمبر: ۱۴۱۱
  34. حماد ، مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین، ص:۷۹
  35. ن۔م، ص: ۷۹۔۷۷
  36. الشافعی ،احمد بن ادریس ، الرسالہ، ص : ۲۱۵
  37. الشافعی ، کتاب الام ، ۱۰/۴۱۔۴۰
  38. نیشاپوری ،مسلم بن الحجاج ، الجامع الصحیح، کتاب الحیض ، باب انما الماء من الماء ، حدیث نمبر:۸۱
  39. السجستانی ،سلیمان بن الاشعث ، السنن، ، کتاب الطھارۃ ، باب الاکسال ، حدیث نمبر :۲۱۶
  40. الشافعی ، کتاب الام ، ۱۰/۴۱
  41. الشافعی ، کتاب الام ۱۰/۴۲
  42. الشافعی ، الرسالہ، ص : ۲۱۳
  43. نیشاپوری ،مسلم بن الحجاج ، الجامع الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب بیع الطعام مثلا بمثل، حدیث نمبر:۱۵۹۶
  44. ن۔م، کتاب المساقاۃ ، باب الصرف و بیع الذھب بالورق نقدا ، حدیث نمبر :۱۵۸۷
  45. الشافعی ، کتاب الام ، ۱۰/ ۴۰
  46. الشافعی ،الرسالہ، ص: ۳۴۲۔۳۴۱
  47. ن۔م، ص:۲۱۳
  48. ن۔م، ص: ۳۴۱
  49. الشافعی ،الرسالہ ، ص: ۲۱۷
  50. الشافعی ، محمد بن ادریس ،جماع العلم ( دارلا ٓثار، القاهره، ۲۰۰۲م)، ص: ۵۸
  51. حماد ، ڈاکٹر ، مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین،ص: ۱۵۵۔۱۵۴
  52. البخاری ، الجامع الصحیح، کتاب الجمعۃ ، باب فضل الغسل یوم الجمعۃ ، حدیث نمبر :۸۷۷
  53. امام احمد بن حنبل ،مسند الامام احمد بن حنبل ، حدیث نمبر: ۲۰۰۷۹
  54. الشوکانی ،محمد بن علی ، ارشاد الفحول (دار الفضیلہ ،ریاض،۲۰۰۹م، جزء:دوم)، ص: ۷۰۹
  55. حماد ، مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین، ص: ۱۸۴
  56. الترمذی ،ابو عیسی محمد بن عیسی ،الجامع، کتاب العلم، باب ما جاء فی تعظیم الکذ ب علی رسول اللہﷺ ( دارلحضارة للنشر والتوزيع، رياض،طبع دوم،۲۰۱۵م)، حدیث نمبر: ۲۶۶۰ ، ص: ۵۲۱
  57. الترمذی ،الجامع، کتاب العلم، باب ما جاء فی الحدیث عن بنی اسرائیل، حدیث نمبر :۲۶۶۹،ص: ۵۲۲
  58. سورۃالاحزاب۵:۳۳
  59. ابن ماجہ ، السنن، کتاب الطلاق، باب طلاق المکرہ والناسی ، حدیث نمبر: ۲۰۴۵
  60. خیاط ، مختلف الحديث بين المحدثين ولاصوليين و الفقهاء، ص: ۱۶۹
  61. ابن حاجب ،ابو عمر عثمان ، مختصر المنتهی الاصولی ، تحقيق ، اسماعيل ،محمد حسن محمد حسن (دار الكتب العلمیہ، بیروت، طبع اولی، ۲۰۰۴م)،۳ /۲۰۵
  62. الشافعی ، کتاب الام ، ۱۰/ ۴۰
  63. سورۃالبقرۃ ، ۱۰۶:۲
  64. الشافعی ، الرسالہ، ص: ۱۰۷
  65. الشافعی ،کتاب الام ، ۱۰/۳۰
  66. الشافعی ، الرسالہ، ص: ۱۰۸
  67. ن۔م، ص: ۱۰۹
  68. الشافعی ، الرسالہ، ص: ۱۱۰
  69. ن۔م، ص: ۲۲۳۔۲۲۲
  70. الشافعی ، کتاب الام ، ۱۰/۴۱
  71. ابن ماجہ ، السنن،کتاب الجنائز ، باب ما جاء فی زیارۃ القبو ر ، حدیث نمبر: ۱۵۷۱
  72. السجستانی ، السنن ، کتاب الطھارۃ ، باب الاکسال ، حدیث نمبر :۲۱۵
  73. ن۔م، کتاب الحدود ، باب اذا تتابع فی شرب الخمر ، حدیث نمبر:۴۴۸۲
  74. السجستانی ، السنن ، ، کتاب الحدود ، باب اذا تتابع فی شرب الخمر ، حدیث نمبر: ۴۴۸۵،
  75. الشافعی ، کتاب الام ، ۱۰/۲۰۰۔۱۹۹
  76. الشافعی ، الرسالہ، ص:۲۱۶
  77. حماد ، مختلف الحدیث بین الفقھاء والمحدثین، ص: ۱۳۲
  78. نیشاپوری ، الجامع الصحیح، کتاب المساقاۃ، باب بیع الطعام مثلا بمثل، حدیث نمبر:۱۵۹۶
  79. ن۔م، حدیث نمبر:۱۵۸۸
  80. ن۔م، حدیث نمبر:۱۵۸۴
  81. ن۔م، حدیث نمبر:۱۵۸۵
  82. سورۃ ہود ۱۱:۱۱۹۔۱۱۸
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index