3
1
2017
1682060034450_670
1-24
http://hikmah.salu.edu.pk/index.php/hikmah/article/download/19/19
http://hikmah.salu.edu.pk/index.php/hikmah/article/view/19
تحریف فرقہ تاویل موضوع روایت ضعیف حجت Analyze Investigates Existing Current Efficiency Competency
مقدمہ
قرآن مجید کتب سماوی میں آخری کتاب ہے، جس کے بارے میں پوری امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ ہر طرح کی ظاہری و معنوی تحریف سے پاک ہے۔ تحریف سے مراد قرآن میں کسی طرح کی کمی و پیشی کا نہ ہونا ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقوں میں سے کوئی ایک بھی من حیث الفرقہ تحریف قرآن کے قائل نہیں ہے۔البتہ مختلف مذاہب اسلامیہ سے تعلق رکھنے والے متعدد علماء و مورخین تحریف کے قائل رہے ہیں۔شاہد اس نظریہ کے حامل علماء و محققین دور حاضر میں بھی موجود ہوں۔تحریف قرآن کے تین بنیادی موارد بن سکتے ہیں۔ مورد اول قرآن کی کن آیات یا کن سورتوں میں تحریفات ہوئی ہیں۔ مورد دوم وہ کون سے شخصیات ہیں جو تحریف قرآن کی قائل رہیں ہیں یا ابھی بھی موجود ہیں۔ مورد سوم میں تحریفات کے حق میں نقلی و عقلی (خارجی) دلائل کیا ہیں۔ یعنی تحریف قرآن پر خود قرآنی آیات سے نہیں بلکہ احادیث یا عقلی دلائل سے تحریف کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہو۔ مقالہ ہذا اخرالذکر مبحث پر مبنی ہے۔ اس سلسلےمیں جو لوگ تحریف کے قائل رہے ہیں ان کی دلائل خارجہ پر غور کیا جائے پھر علمی سطح پر ان دلائل کا تجزیہ پیش کیا جائے ۔ اس مقالے کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ تاریخ کے تناظر میں تحریف قرآن میں دی جانے والی ان خارجی دلائل کا تجزیہ و تحلیل کیا جائے تاکہ تحریف قرآن کے امکانات کی نفی یا اثبات واضح ہوسکے۔
تحریف سے مراد کسی اصل شئے میں ردو بدل کرنے کو کہاجاتا ہے۔ "کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیںCite error: Invalid tag; refs with no name must have content۔"
تحریف قرآن کی متعدد توضیحات موجود ہیں مقالہ ہذا میں اس سے مراد صرف قرآن کی لفظی اعتبار سے کمی یا زیادتی ہے۔ مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ قرآن لفظی اعتبار سے حجت اور معجزہ ہے۔ اس لئے اپنے نزول سے ابھی تک اس میں زیر و زبر کی کوئی تبدیلی نہیں ہوئی ہے تاہم ہر زمانے میں تحریف لفظی کے کچھ قائلین رہے جو اپنے زعم میں مختلف دلائل لے کر آتے ہیں ان میں سےکچھ دلائل کا عقیدت و محبت سے بالاتر ہوکر مقالہ ہذا میں تحقیق کی گئی ہے۔
دلیل اول:
جو لوگ قرآن کی تحریف کے قائل ہیں انہیں میں سے بعض نے تحریف پراس طرح استدلال کیا ہے کہ گذشتہ ساری کتب آسمانی میں تحریف ہوئی ہے،قرآن بھی آسمانی کتابوں میں سے ایک ہے اس میں بھی تحریف واقع ہوئی ہے کیونکہ بہت ساری روایات وارد ہوئی ہیں جو حادثات وواقعات سابقہ امتوں میں رونما ہوئے ہیں وہی حادثات امت محمدیہ میں بھی رونماہونے کو بیان کرتی ہیں۔ جیسے کہ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ آلہ وسلم نے فرمایا:
"يجري في هذه الاُمّة كلّما جرى في الاُمم السالفة; وفي لفظ آخر كلّ ما كان في الاُمم السالفة فإنّه يكون في هذه الاُمّة مثله " جو بھی حادثہ سابقہ امتوں میں رونما ہوا ہے ہوبہو اس امت میں بھی رونماہوگا ۔ اس روایت کی روسے ضروری ہے کہ قرآن میں بھی تحریف واقع ہوجائے۔
تجزیہ:
سابقہ آسمانی کتب میں جوتحریفات واقع ہوئی ہے اس سے مراد تحریف معنوی یا تفسیر بالرائے ہے کہ جس کے وقوع اورثبوت پرقرآن کریم صریحاً دلالت کرتا ہے۔ لیکن وہ تحریف جس سے کمی بیشی مراد لی جاتی ہے اس کا کتب سابقہ میں ہونے پر قرآن مجید میں کوئی اشارہ نہیں ملتااورعلماء کی عبارات اورروایات میں بھی کوئی قرینہ اورشاہد نہیں پایا جاتا۔ بلکہ ایسی تحریف سے تورات یا انجیل اوردیگر کتب آسمانی کو ان کے علماء کے ہاں محفوظ ہونے کو قرآن صراحتاً بیان کرتا ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
وَلَوْ أَنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ آمَنُوا وَاتَّقَوْا لَكَفَّرْنَا عَنْهُمْ سَيِّئَاتِهِمْ وَلَأَدْخَلْنَاهُمْ جَنَّاتِ النَّعِيمِ ۔ وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنْجِيلَ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِمْ مِنْ رَبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ أَرْجُلِهِمْ مِنْهُمْ أُمَّةٌ مُقْتَصِدَةٌ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَCite error: Invalid tag; refs with no name must have content ۔
اور اگر اہل کتاب ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو ہم ان سے ان کے گناہ محو کر دیتے اور ان کو نعمت کے باغوں میں داخل کرتے۔ اور اگر وہ تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں) ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل ہوئیں ان کو قائم رکھتے (تو ان پر رزق مینہ کی طرح برستا کہ) اپنے اوپر سے پاؤں کے نیچے سے کھاتے ان میں کچھ لوگ میانہ رو ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے اعمال برے ہیں
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ روایت مستند نہیں ہے۔ احادیث کی مشہور کتب صحاح ستہ اور اصول اربعہ میں یہ روایت موجود نہیں ہے ۔ اگر اس روایت کو تسلیم بھی کیا جائے تو اس کا مفہوم ہرگز یہ نہیں بنتا ہے کہ قرآن مجید میں کوئی تحریف ہوئی ہو۔ اگر کتب سماوی بالخصوص تورات و انجیل میں تحریفات لفظی ہوتی تو پھر قرآن کبھی یہ نہیں کہتا کہ ان کتب کی تعلیمات پر باقی رہنے والوں کی ہدایت ممکن ہے۔ اس الہامی کتب کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی وجہ سے ان کو اللہ تعالیٰ کی نعمات عنایت ہوتی ۔ چونکہ یہود و نصاریٰ نے ان کتب سماوی میں معنوی تحویلات کی اور ان کتب کی اصل تعلیمات سے روگردانی کی جس کے نتیجے میں بعض دیگر آیات میں ان پر مذمت بھی سرزد ہوئی ہے۔ التبہ یہ بات بھی ذہن میں رکھی جائے کہ وہ کتب سماوی جو اصلی حالت میں ہے وہ اب یہود و نصاریٰ کے پاس موجود نہیں ہیں اب جو کتب رائج العمل ہیں ان میں تحریفات لفظی بھی ہونے کا نظریہ بھی پایا جاتا ہے۔ یقیناً یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کتب کی لفظی تحریف و تبدیلی کی طرف میں قرآن مجید میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے تاہم ان کی تاقیامت حفاظت کی ذمہ داری بھی نہیں لی ہے اس لئے ان کتب میں لفظی تحویل و تحریف ہونے کا منکر ہونے کی نفی قرآن سے ثابت بھی نہیں ہے۔ اس لئے علماء اور محققین کی اکثریت ان کتب میں ہر طرح کی تحریفات (معنوی و لفظی ) ہونے کے قائل نظر آتی ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ قرآن کریم اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ بن کر آیا ہے اس لئے ضروری ہے ہر قسم کی تحریف اورکمی وبیشی اورتبدیلی وغیرہ سے محفوظ رہے، جبکہ دوسری آسمانی کتب، اللہ کی طرف سے ابدی معجزہ کے طور پر نہیں آئی ہیں۔ لحاظ مذکورہ حدیث سے یہ استنباط کرنا کہ دیگر کتب سماویہ کی طرح قرآن مجید میں بھی تحریف واقع ہونا ثابت ہے ایک غیر معقول دلیل ہے۔ اگر روایت کے الفاظ "کل ما جریٰ" یعنی جو کچھ سابقوں قوموں میں ہوگزرا ہے اس کا سامنا اس قوم (امت مسلمہ) کو بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کلیہ کو مان لیا جائے تو اس کا یقینی مفہوم یہی بنتا ہے کہ جس طرح سابقہ امتوں نے الہامی کلام میں معنوی تحریفات کرکے من پسند کے مفاہیم اخذ کئےیقیناً امت مسلمہ بھی تحریفات معنوی (تفسیری) تحریفات کا شکار ہوکر مذہبی حیثیت سے متزلزل ہوسکتی ہے اور بہت حد تک امت مسلمہ اس مصیبت کا شکار بھی ہوچکی ہے۔ لیکن امت مسلمہ قرآن مجید میں لفظی تحریف تو نہ کرسکی ہے اور نہ کرسکتی ہے لیکن قرآن مجید کے تاویل و تفسیر اور معنوی تحریفات سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں مسلمان مفسرین کے درمیان اختلافات موجود ہیں اوران اختلافات کی وجہ سے بعض مواقع پر مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار بھی پیدا ہوتا ہے۔
اگر بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ سابقہ امتوں میں جو کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں ان کا سامنا امت مسلمہ کو بھی کرنا پڑے گا۔ لیکن اس سے کہاں یہ ثابت ہوتا ہےکہ سو فیصد وہ تمام واقعات اور حادثات کا سامنا اس امت کو بھی کرنا پڑے گا ۔ہاں ممکن ہے کہ ان میں کچھ کا سامنا امت مسلمہ کو بھی سامنا کرنا پڑے۔ لیکن اس سےتحریف قرآن کی کوئی گنجائش پیدا نہیں ہوتی ہے۔
دلیل دوم:
بعض مورخین کی رائے ہے کہ قرآن مجید میں تحریفات خلافت راشدہ کے دور میں ہوئی ہے۔ بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق اورحضرت عمر فاروق کے دورخلافت میں قرآن میں تحریف زیادہ ہوئی ہے اور یہ ان تحریفات کی دو وجوہات ہوسکتی ہیں۔ تحریف قرآن کے قائلین کی ایک اہم دلیل یہ ہے کہ چونکہ حضرت پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے بعد حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما نے قرآن کو جمع کرنے میں کوششیں کی ۔ اس جمع آوری میں قرآن کا کچھ حصہ ان کے ہاتھ آنے سے رہ گیا ہو۔ قرآن میں اضافہ و کمی بھی تحریف قرآن کی ایک قسم ہے۔ اس لئے یہ بھی تحریف قرآن میں آتا ہے کہ کچھ آیات یا صرف ایک آیت بھی عمداً یا سہواً قرآن میں اضافہ یا کم کیا جائے۔ ان دونوں شخصیات کے دور میں قرآن کریم کے دستیاب نہ ہونے کی بناپر کچھ آیات یا جملے رہ گئے ہوں جس کا نتیجہ تحریف قرآن کی صورت میں نکلا ہو۔ممکن ہے کہ اس دور میں تحریف کی ایک وجہ عمدی بھی ہوسکتی ہے کہ ان دونوں نے اپنے دور میں ان آیات کوجمع آوری میں نہ لایا ہو جو ان کی خلافت کی تصدیق کے منافی ہوں۔ حضرات شیخین کے دور میں تحریف قرآن کا نظریہ کسی اسلامی فرقہ کا مسلمہ نظریہ نہیں ہے بلکہ کچھ مورخین نے اپنے آپ اس طرح کا گھمان کیا ہوا ہے۔قرآن مجید کے معترضیین بالخصوص مستشرقین نے اس طرح کے اعتراضات کئے ہیں۔ جیسے مشہور مستشرق Noldekel لکھتے ہیں۔
"Slight clerical errors there may have been though some times in very strange order”
تجزیہ
حضرت ابوبکر اور حضرت عمر نے اپنے ادوار میں عمداً بعض آیات کو قرآن کا حصہ بنانے سے ترک کیا ہو۔ یہ ایک غیر عقلی اور بے ہودہ سی دلیل ہے ۔ کیونکہ اگر اس طرح تحریف ہوتی تو دوسرے لوگ جن میں سر فہرست حضرت علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ اورحضرت صدیقہ زہرا سلام اللہ علیہا اوردیگرافراد جوانصار ومہاجرین کے تھے اس مسئلہ کو ضرور اٹھاتے اور اس کو کسی نہ کسی مرحلے میں بیان کرتے ، جب کہ ہم دیکھتے ہیں ایسی کوئی دلیل ہمیں تاریخ میں ان دونوں خلفاء کے خلاف نہیں ملتی ہے۔ لہذااس بحث کا نتیجہ یہ ہے کہ حضرات ابوبکر اورعمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کے دورخلافت میں تحریف ہونے کا قائل ہونا مردوداورباطل ہےاور اگر کسی کا ایسا کوئی نظریہ ہے تو وہ صد فیصد غلط اور قرآن کی عظمت و عصمت کے خلاف ہے۔
یہ بات مسلمانوں کے یہاںمسلم اوربدیہی ہے کہ پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رحلت سے پہلے قرآن کی حفاظت ، قرائت اورترتیل قرآن کے ساتھ تلاوت کرنے کا مخصوص اہتمام فرمایا تھا اورصحابہ کرام نے بھی اس مسئلہ کو بہت زیادہ اہتمام کے ساتھ انجام دیا لہذا یقینی ہے کہ قرآن کریم ان دونوں کے دور میں ہر قسم کے نقص اورزیادتی سے محفوظ تھا۔اگرچہ قرآن کی جمع آوری دونوں کے دورمیں ہوئی تھی یا جمع آوری کے بغیر متفرق شکل میں مکمل طور پرموجود تھا یا لوگوں کے سینوں یا کاغذوں پر کسی قسم کی کمی وبیشی کے بغیرموجود تھا ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ اس زمانہ میں عرب جاہلیت کے اشعارکو یاد اورحفظ کرنے کو اتنی اہمیت دیں لیکن پیغمبر اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن کے معتقد ہونے کے با وجود اس کی حفاظت نہ کریں ۔نیز یہ کسی حیثیت سے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتی ہے کیونکہ رسول اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث سے بھی عدم تحریف ثابت ہوجاتی ہے۔ تحریف کی نفی پردلالت کرنے والی روایات میں سے اہم ترین روایت حدیث ثقلین ہے جو متواتر اور متفق فیہ حدیث ہے۔ " وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمُ الثَّقَلَيْنِ(كِتَابَ اللَّهِ وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي) أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ، فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، فَاسْتَمْسِكُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَخُذُوا بِهِ "، فَرَغَّبَ فِي كِتَابِ اللَّهِ وَحَثَّ عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: «أَهْلُ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي» ثَلَاثًا" "بتحقیق میں تمہارے در میان دو گراں بہا چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، ایک اللہ کی کتاب اوردوسری میری عترت (اہل بیت) ہے،اسی میں ہدایت اورنورہے۔ پس تم اللہ کی کتاب اورمیرے اہل بیت سے تمسک رکھو ، میرے اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں۔"(یہ جملہ تین دفعہ فرمایا) حدیث شریف سے ظاہر ہوتا ہے کہ کتاب سے تمسک رکھنا صرف یہ نہیں کہ تمسک ممکن ہے بلکہ واجب ہے اورانشاء کے مقام پرجملہ خبریہ حکم تکلیفی کا حامل ہے علم اصول کے مباحث میں یہ واضح ہے کہ تکلیف شرعی میں لازم ہے کہ مکلفین کی قدرت میں ہو۔ اس لئے اگر قرآن تحریف کا شکار ہو چکا ہے تو اس سے تمسک نہیں رکھ سکتے۔اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو گراں بہاچیزوں میں سے ہرایک دوسری دلیل کے ساتھ مستقل دلیل اورحجت ہے یعنی کتاب الہی عترت اوراہل بیت سے قطع نظر مستقل طور پر واجب العمل اورحجت ہے،نیزعترت بھی کتاب سے قطع نظر مستقل دلیل اورحجت ہے۔البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہرایک اکیلا مطلوب کے حصول اور گمراہی وظلمت سے نجات کے لئے کافی ہو، یعنی قرآن اہل بیت کے بغیر یا اہل بیت قرآن کے بغیر ہماری نجات کا ذریعہ بنیں ، بلکہ گمراہی اورظلمت سے نکال کر ہدایت اورنورکی طرف لے جانے میں دونوں کی ضرورت ہے۔ لہذا اگر قرآن کی تحریف ہوئی ہو تواس کے ظواہرواجب العمل اورحجت ہونے سے ساقط ہوجاتے، اورجولوگ تحریف کے معتقد ہیں ان کے لئے کتاب کی طرف رجوع کرنے میں تصدیق معصومین اورتائید کی ضرورت ہے۔جو حدیث ثقلین کے ظاہری معنی کے مخالف ہے۔کیونکہ حدیث ثقلین کے ظاہری معنی یہ ہیں کہ کتاب وعترت میں سے ہر ایک مستقل یعنی ایک دوسرے سے ضمیمہ کیے بغیرواجب العمل اورحجت ہیں۔لہذا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جوچیزثقل اکبرہواس کی حجیت اس چیزپرموقوف ہوجوثقل اصغر ہے۔ قرآن کو ایک مستقل دلیل اورحجت کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے لہذا بدیہی ہے اگر کوئی تحریف کا قائل ہوتواس کا یہ نظریہ مذکورہ مطلب سے میل نہیں کھاتا۔ خلفاء راشدین میں خلیفہ راشد حضرت عثمان بن غنی کے دور خلافت میں بھی قرآن مجید میں کوئی تحریف ہونا ثابت نہیں ہے۔ اگر کوئی ایسی رائے رکھتا ہے تو یہ رائے اس لئے فاسد ہے کہ ایک تو اگرحضرت عثمان قرآن میں تحریف کرتے تو آپ کے مخالفین کے لئے یہ مسئلہ ان کے خلاف قیام کرنے کا بہترین بہانہ اورعذرہوتاجبکہ ان کی طرف سے کوئی ایسی چیز احتجاج کی شکل میں نظر نہیں آتی۔یہاں تک آپ کے خلاف ہونے والے احتجاج میں بھی ایسی کوئی دلیل پیش نہیں کی گئی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اگرتحریف حضرت عثمان کے دورخلافت میں ہوئی ہوتی تویقیناًحضرت علی بن ابی طالب کوحضرت عثمان کے بعد مسلمانوں کاخلیفہ اور حاکم ہونے کی حیثیت سے قرآن کو اسی طرح ترتیب دیناچاہیے تھاجس طرح پیغمبراکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلمپرنازل ہوا تھاجبکہ ایسی کوئی بات تاریخ میں نہیں ملتی ،پس یہ صورت بھی باطل اورغلط ہے۔
قرآن میں تحریف حضرت عثمان رضہ کے دورخلافت کے بعد بنی امیہ کے خلفاء یا ان کے ایجنٹوں کے ہاتھوں ہوئی ہے ۔ یہ ایسی صورت ہے جس کا سابقہ صورتوں کی طرح کسی محقق یا مورخ نے دعوی نہیں کیا ہے۔تاریخ میں نہیں ملتا ہے کہ بنی امیہ نے تحریف قرآن کے بارے میں کوئی قدم اٹھایا ہے۔ آج تک کسی محقق اور مورخ نے اس طرح کی کوئی بات نہیں لکھی ہے۔ احادیث کے حوالے سے اسی طرح کی باتیں کثرت سےملتی ہیں کہ احادیث گھاڑی گئی ہیں لیکن قرآن کے بارے میں ایسی کوئی بات آج تک تاریخ کی کتب میں نہیں آئی ہے۔
اگر ہم عدم تحریف قرآن پر عقلی دلیل کو دیکھتے ہیں تو اس حوالے سے دو باتیں بنیادی ہیں۔ ایک یہ کہ شریعت اسلام ادیان الہی میں سے کامل ترین دین ہے اور لوگوں کے لئے قیامت تک رہنے والا آئین ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ایسے دین اورآئین کے لئے ضروری ہے کہ کوئی ایسی دائمی سند اوردستورالعمل بھی اس کے ساتھ ہو، تا کہ لوگ اس کے مطابق عمل کرسکیں۔ جب ان دومقدموں کو ایک دوسرے سے ملائیں تو نتیجہ نکلتا ہے کہ شارع کو چاہیئے کہ اپنی کتاب کو ہرقسم کی تحریف اورکمی بیشی سے محفوظ رکھے۔ لہذا عقل کی روسے شارع (اللہ)پرلازم ہے کہ قرآن کوتحریف جیسی ظلمت سے محفوظ رکھے۔ (ہذا نقلی و عقلی دونوں صورتوں میں یہ بات صد فیصد غلط اور غیر معقول ہے۔بحث کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قرآن میں تحریف ہونے کا نظریہ سرے سے ہی غلط اورباطل ہے،چونکہ عقلی اعتبار سے کوئی چوتھی صورت موجود نہیں لہذا ہم یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ عقلی اورتاریخی اعتبار سے تحریف قرآن کا مسئلہ باطل اورمردودہے ۔
دلیل سوم :
تحریف قرآن کے خارجی دلائل میں سے وہ روایات بھی شامل ہیں جو قرآن مجید میں تحریف کو بیان کرتی ہیں۔ آیت اللہ الخوئی نے اپنی کتاب "البیان فی التفسیر القرآن" میں تحقیق سے ایسی روایات کی تعداد بیس تک تحریر کی ہے۔ جس کو بعض محدثین و مورخین نے بیان کیا ہے۔طوالت کے باعث ہم صرف ایک روایت پر اکتفا کرتے ہیں۔Cite error: Invalid tag; refs with no name must have content
قال أبو عبدالله (ع) أصحاب العربیة یحرفون کلام الله عزوجل عن مواضعه" عربیت پرست قرآن میں اس کی جگہوں میں تحریف کرتے ہیں" viii
تجزیہ
تحریف قرآن میں چند روایات بیان ہوئی ہیں جس کو قدیم و جدید بعض محققین و محدثین نے تحریر کیا ہے۔ البتہ جن لوگوں نے ان روایات کوبیان کیا ہے یہ ان کی ذاتی رائے اور نظریہ ہوسکتا ہے اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں ہے کہ ان لوگوں کی ذاتی رائے سے یہ مراد لیا جائے کہ یہ کسی مسلک و مکتب کی رائے ہے۔ مسلمانوں کے تمام فرقوں کی اکثریت یہی نظریہ ہے کہ قرآن مجید میں تحریف کرنا ممکن نہیں ہے یہ کا وہی قرآن مجید ہے جو خداوند متعال کی طرف سے رسول اکرم صل اللہ علیہ آلہ وسلم پر نازل ہوا اور آپ صل اللہ علیہ آلہ وسلم کی ہدایات کے مطابق اس وقت کے مسلمانوں نے مرتب اور منظم کیا اس میں زیر و زبر میں فرق نہیں ہے۔ روح اللہ خمینی اس سلسلے میں فرماتے ہیں۔ "جو شخص بھی قرآن مجید کے حفظ اورکتابت کے بارے میں مسلمانوں کے اہتمام سے واقف ہے تو وہ تحریف کے غلط ہونے سے بخوبی واقف ہوگا اور جن روایتوں سے عقیدہ تحریف کو ثابت کیا جاتاہے وہ روایات یا توسند کے اعتبار سے کمزور ہیں اور ان سے استدلال نہیں کیا جاسکتا یا بالکل جعلی اور گھڑی ہوئی ہیں اور ان کے جعلی ہونے کے واضح ثبوت موجود ہیں،البتہ جو روایتیں معتبر ہیں ان کا مفہوم یہ ہے کہ قرآن مجید میں تفسیروتاویل کے لحاظ سے تحریف ہوئی ہے نہ کہ اس کے الفاظ اور عبارت کے لحاظ سے"
آیت اللہ خوئی اور بہت سے سارے محققین نے ان روایت پر تحقیق کی ہے جن کے مطابق تحریف قرآن پر مشتمل جتنی بھی روایات ہیں وہ سب انتہائی کمزور اور موضوع احادیث ہیں اور بالفرض اگر ان میں چند ایک کو صحیح بھی تسلیم کیا جائے تو اس سے قرآن مجید کے تحریف لفظی ہرگز ثابت نہیں ہوتا ہے بلکہ قرآن مجید کی تاویل و تفسیر میں تحریف ہونا ثابت ہوسکتا ہے۔
تلخیص الکلام:
قرآن مجید آخری آسمانی کتاب ہے جو اپنے آغاز سے ابھی تک ہر اعتبار سے کسی طرح کی بھی کمی و زیادتی سے محفوظ ہے۔ قرآن مجید معجزات خدا وندی میں سے سب سے بڑا معجزہ بھی اس لئے ہے کہ چودہ سو سالوں گزرنے کے باوجود اس میں کوئی ردو بدل نہیں ہوسکا ہے اور تاقیامت ایسا ہونا ممکن نہیں۔ مسلمانوں کے تمام فرقے قرآن مجید کے لفظی و معنوی معجزہ ہونے کو من و عن تسلیم کرتے ہیں۔ البتہ کچھ افراد ہر زمانے میں مسلمانوں میں آئے ہیں جو قرآن میں تحریف و ردو بدل کے جذوئی طور پر قائل رہے ہیں اور چند انتہائی کمزور روایات کا اس سلسلے میں سہارا بھی لیتے ہیں۔ تاہم یہ روایات زیادہ تر موضوع اور ضعیف ہیں اس لئے اس پر اعتنا کرنا عقل کا تقاضا نہیں ہے۔
حوالہ جات
- الخوئی، سید ابو القاسم، البیان فی التفسیر القرآن، مترجم محمد شفا نجفی (اسلام آباد:قرآن لائبریری، 1413ھ ) ص 253
- المجلسيى، الشيخ محمد باقر، بحار الأنوار (بيروت: مؤسسة الوفاء) ج51، ص253
- القرآن: 5/65
- شیرازی، آیت اللہ ناصر مکارم، تفسیر نمونہ، مترجم مولانا سید صفدر حسین نجفی (لاہور: مصباح القرآن ٹرسٹ، ریبع الثانی 1417ء) سورہ المائدہ آیت 65
- Enc.Brit.9th edition under the word: The Holy Quran
- ابو بکر بن ابی عاصم الشیبانی، کتاب السنہ ( بیروت : المکتب الاسلامی الطبعة الأولى، 1400هـ/ 1980) حدیث 1549،1550
- الخوئی، سید ابو القاسم، البیان فی التفسیر القرآن (النجف الشرف:موسوعۃ الامام الخوئی، 1413ھ ) باب عدم تحریف قرآن، ص 239
- تہذیب الاصول،ج۲،ص۱۶۵
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |