29
2
2014
1682060034497_1046
185-194
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/232/220
مغربی معاشروں میں اسلام اور مسلمانوں سے خوف اور ان کے خلاف نفرت کا احساس ہے جس کے نتیجے میں وہ اسلام کو دنیا کے سامنے ایک جارح اور جنونی مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ اسلام نہ صرف دوسرے مذاہب اور عقائد کے لوگوں کے لئے عدم برداشت اور تعصب کا رویہ اختیار کرتا ہے۔ بلکہ عملی طور پر ان کے قتل وغارت کو جائز سمجھنا ہے ۔ نائن الیون کےواقعےکے بعد اسلاموفوبیانے زیادہ خطرناک شکل اختیار کرلی ہے۔ ۱س صورت حال سے نمٹنے اور اسلامو فوبیا کےسدباب کے لئےمسلمانوں پر انفرادی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ اسلامو فوبیا کے سدبا ب کے لئے ان کو ایسی حکمت عملی اختىار کرنی ہوگی۔جس سے اسلام کا اصل مقصد بھی پورا ہو اور انسانیت کو نقصان بھی نہ پہنچے یعنی انسانیت کی بقاء کا خاص خیال رکھاجائے ۔ قرآن پاک کے مطالعے اور سیرت پاک ﷺ پر غور کرنے سے جو حکمت عملی سامنے آتی ہے ۔ اسے دو نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔
۱۔استقامت ۲۔حکمت
استقامت
استقامت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ کیا جائے اور اللہ کا دین جیسا کہ وہ ہے، اس پر پورے اطمینان، یقین محکم اور صبر وثبات کے ساتھ ثابت قدم رہا جائے ، اپنے مقصد ، نصب العین اورمستقبل کے بارے میں امکانات اور امت مسلمہ کے حقیقی اہداف، اس کی قوت کے اصلی ذرائع اور اقامت دین کے سلسلے میں اس کے اصول، تصور اور مخصوص عملی پروگرام پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا جائے۔ اور اسلام کے دائرے کے اندر فکر وتدبر، اطاعت اور اجتہاد، وفاداری اور رواداری، جدوجہد اور ایثار کے لئے جو خطوط کار، اللہ اور اس کے رسول اللہﷺ نے دےدىئے ہیں ان پرایمان اور احتساب کی تعلیمات صبح نو کی طرح تازہ، نکھری ہوئی اور جدید ہیں۔اعتدال اور توازن اس کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ اس کے اپنے نظام کے اندر موجود اور اس کا ابدی حصہ ہیں۔ اپنے نفس یا دوسروں کی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے اسے جدید یا معتدل نہیں بنایا جاسکتا۔
دوسروں کو خوش کرنے کے لئے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام اور حدود سے انحراف اللہ کی ناراضگی مول لینے کے مترادف ہے اور اس کے عذاب کو دعوت دینے کا موجب بن سکتی ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جسے محمود اور مطلوب قرار دیا ہے۔ وہی مسلمانوں کا مقصود اور مطلوب ہے اور جسے انہوں نے ناپسند کیا ہے ،اس سے برات ہی ملت اسلامیہ کی میانہ روی اور رواداری ہے۔ اس لئے کہ اسلام نام ہی طاغوت سے بغاوت اور اللہ تعالیٰ سے رشتہ جوڑنے کا ہے۔
ارشادباری تعالی ہے۔
فَمَنْ يکْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيؤْمِن بِاللّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَیَ لاَ انفِصَامَ لَهَا وَاللّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ۔[1]
ترجمہ: تو جو شخص بتوں سے اعتقاد نہ رکھے اور اللہ پر ایمان لائے اس نے ایسی مضبوط رسی ہاتھ میں پکڑ لی ہے جو کبھی ٹوٹنے والی نہیں اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔
اسلام کے نظام میں مناسب آزادی موجودہے۔ مگر یہ آزادی اس نظام کے اندر ہے۔ اس کو تو ڑنے یااس سے فرار اختیار کرکے یا اس کے باہر آزادی کی تلاش اسلامی اصول کے منافی ہے۔ دین کو ہر پیوند کاری سے محفوظ رکھنا اور دوسروں کے مطالبوں پر یا انہیں خوش کرنے کے لئے دین میں قطع وبرید اللہ کی اطاعت نہیں بلکہ اس سے بغاوت کا راستہ ہے۔ اسی تسلسل میں ارشادباری تعالی ہے۔
""قُلْ إِنِّیْ نُهَيْتُ أَنْ أَعْبُدَ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِ اللّهِ قُل لاَّ أَتَّبِعُ أَهْوَاءَ کُمْ قَدْ ضَلَلْتُ إِذاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُهْتَدِيْن۔ [2]ترجمہ: (اے پیغمبر کفار سے) کہہ دو کہ جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے ان کی عبادت سے منع کیا گیا ہے۔ (یہ بھی) کہہ دو کہ میں تمہاری خواہشوں کی پیروی نہیں کروں گا ایسا کروں تو گمراہ ہو جاؤں اور ہدایت یافتہ لوگوں میں نہ رہوں۔ اسی طرح ارشاد خداوندی ہے
"وَكَذَلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءهُم بَعْدَ مَا جَاءكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ وَاقٍ"[3]
ترجمہ: اور اسی طرح ہم نے اس قرآن کو عربی زبان کا فرمان نازل کیا ہے۔ اور اگر تم علم (ودانش) آنے کے بعد ان لوگوں کی خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو اللہ کے سامنے کوئی نہ تمہارا مددگار ہو گا اور نہ کوئی بچانے والا۔
ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
" وَإِن كَادُواْ لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذًا لاَّتَّخَذُوكَ خَلِيلاً"۔[4]
ترجمہ: اور اے پیغمبر جو وحی ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے قریب تھا کہ یہ (کافر) لوگ تم کو اس سے بچلا دیں تاکہ تم اس کے سوا اور باتیں ہماری نسبت بنا لو۔اور اس وقت وہ تم کو دوست بنا لیتے۔
ایک اور آیات کریمہ مفہوم کو زیادہ واضح کرتی ہے۔
" وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ قَالَ الَّذِينَ لاَ يَرْجُونَ لِقَاءنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَذَا أَوْ بَدِّلْهُ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاء نَفْسِي إِنْ أَتَّبِعُ إِلاَّ مَا يُوحَى إِلَيَّ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ"۔[5]
ترجمہ: اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو جن لوگوں کو ہم سے ملنے کی امید نہیں وہ کہتے ہیں کہ (یاتو) اس کے سوا کوئی اور قرآن (بنا) لاؤ یا اس کو بدل دو۔ کہہ دو کہ مجھ کو اختیار نہیں ہے کہ اسے اپنی طرف سے بدل دوں میں تو اسی حکم کا تابع ہوں جو میری طرف آتا ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو مجھے بڑے (سخت) دن کے عذاب سے خوف آتا ہے۔
یہ آیات، بیّنات ایک آئینہ ہیں جن میں اہل حق کے حق کے مؤقف اور مثال اور اہل باطل کی خواہشات، ترغیبات اور مطالبات ہر دو کی مکمل تصویر دیکھی جاسکتی ہے۔یہی مسلمانوں کامطلوب ومقصود ہے۔
"وَاتَّبِعْ مَا يُوحَى إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا، وَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلًا[6]
ترجمہ:اور جو (کتاب) تم کو تمہارے پروردگار کی طرف سے وحی کی جاتی ہے اسی کی پیروی کیے جانا۔ بیشک اللہ تمہارے سب عملوں سے خبردار ہے۔ اور اللہ پر بھروسہ رکھنا۔اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔
" ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَى شَرِيعَةٍ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْهَا وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاء الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ. إِنَّهُمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّهِ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ. هَذَا بَصَائِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّقَوْمِ يُوقِنُونَ"[7]
ترجمہ:پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے رستے پر (قائم) کر دیا تو اسی (رستے) پر چلے چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا۔ یہ اللہ کے سامنے تمہارے کسی کام نہیں آئیں گے۔ اور ظام لوگ ایک دوسرے کے دوست ہوتے ہیں۔ اور اللہ پرہیز گاروں کا دوست ہے۔ یہ (قرآن) لوگوں کے لئے دانائى کی باتیں ہیں۔ اور جو یقین رکھتے ہیں ان کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔
استقامت مسلمانوں کے حکمت عملی کی پہلی بنیاد ہے اور اس کا تقاضا ہے کہ نصب العین،مقصد اور منزل کے بارے میں نہ کوئی ابہام اور جھول رہے اور نہ کوئی کمزوری دکھائی جائے۔ نصب العین ہر صورت واضح اور ہر دھند سے پاک ہونا چاہیں۔ اس پر جم جانا، اللہ کا دامن تھامے رکھنا، صرف اس کی قوت پر بھروسہ کرنا اور صبر اور پامردی کے ساتھ اپنے مؤقف پر ڈٹ جانا اہل ایمان کا شیوہ اور طرۂ امتیاز ہے۔ اس میں ان کی بقاء دنیا اور آخرت میں کامیابی کا راز ہے۔
حکمت:
اسلاموفوبیا کے سدباب کے لئے جو حکمت عملی قرآن پاک اور سنت رسول ﷺ کی تعلیمات سے سامنے آئی ہیں۔ تو جہاں استقامت ،ایمان اوراس حکمت عملی کے بنیادوں کو مضبوط کرتی ہے تو وہاں حکمت ،دانش مندی، میانہ روی، رواداری، عدل کی روش، قوت کا حصول ،امت کی وحدت، اظہار رائے کی آزادی، اعتمادو خود انحصاری اور تعلیم وٹیکنالوجی کی ترقی سے ان بنیادوں پر ایک مکمل اور دیرپا عمارت تعمیر کی جاسکتی ہے۔
بیک وقت استقامت اور حکمت پر مبنی راستہ ہی وہ راستہ ہے جس سے اہل دین اپنی منزل کو پاسکتے ہیں۔
برداشت اور رواداری:
حکمت کا تقاضا ہے کہ جہاں مسلمان دین میں کوئی قطع بریدنہ کریں اور نہ ہونے دیں،بلکہ اللہ کے دین کو جیسا کہ وہ ہے مضبوطی سے تھام لیں۔ وہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ مسلمان کسی اشتعال میں نہ آئیں۔ اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں، اسلام کی سکھائی ہوئی میانہ روی اور رواداری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں، اپنی داعیانہ حیثیت کو نہ بھولیں، مسلمانوں کی لڑائی مرض سے ہے مریض سے نہیں،کیونکہ دینی تقاضے کے مطابق تمام تر کوششیں اہل کفر کو ایمان کی دولت سے مالامال کرنے کے لئے ہے ، ان کو نیست ونابود کرنے کے لئے نہیں۔ اللہ کی ساری مخلوق کے کچھ حقوق ہیں اور ان کو دین حق کی طرف لانے کے کچھ آداب ہیں۔ ان کا احترام اور اہتمام ہی حکمت دین ہے۔ اللہ تعالی کا حکم ہے۔
"ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ"[8]
ترجمہ: (اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ او بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔
" وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَأُوْلَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ"[9]
ترجمہ: اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور برے کاموں سے منع کرے۔ یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔
" وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ"۔[10]
ترجمہ: اور اس شخص سے بات کا اچھا کون ہو سکتا ہے جو اللہ کی طرف بلائے اور عمل نیک کرے اور کہے کہ میں مسلمان ہوں۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے۔
عدل کی روش:
حکمت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مسلمان عدل وانصاف کا دامن کبھی اپنے ہاتھ سے نہ چھوٹنے دیں حتی کہ مخالفت، جنگ وجدال اور مذاکرہ، ہر میدان میں مسلمان عدل کی راہ پر قائم رہ جائے اور فراست مومن کے ساتھ نرمی اور سختی ، عفوددرگزر، مقابلہ اور انتقام، ہاتھ روکنے اور دشمن پر وار کرنے کے تمام ممکنہ ذرائع اپنے اپنے صحیح وقت پر استعمال کریں۔
"قُلْ أَمَرَ رَبِّي بِالْقِسْطِ "[11]
ترجمہ: کہہ دو کہ میرے پروردگار نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے۔
"إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ وَإِيتَاء ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ"[12]
ترجمہ: اللہ تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نامعقول کاموں سے اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ (اور) تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُونُواْ قَوَّامِينَ لِلّهِ شُهَدَاء بِالْقِسْطِ وَلاَ يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلاَّ تَعْدِلُواْ اعْدِلُواْ هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ"۔[13]
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کے لئے انصاف کی گواہی دینے کے لئے کھڑا ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے۔
" فَمَنِ اعْتَدَى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَى عَلَيْكُمْ وَاتَّقُواْ اللّهَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّهَ مَعَ الْمُتَّقِينَ ۔[14]
ترجمہ: پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اس پر کرو۔ اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان لو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔
مکالمے کی ضرورت
حکمت ہی کا ایک پہلو مکالمہ، گفت وشنید اور ڈائیلاگ ہے اور وہ بھی صحت کلام کے ساتھ ساتھ شریں کلامی کے ذریعہ یعنی وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً ۔[15] ترجمہ:اور لوگوں سے اچھی باتیں کہنا۔
میرے بندوں (مسلمانوں کو کہہ دو کہ وہی بات کہیں جو بہترین ہو۔اور مکالمے کے بھی آداب یہ ہیں کہ قدر مشترک کی طرف بلایا جائے۔
" قُلْ تَعَالَوْاْ إِلَى كَلَمَةٍ سَوَاء بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ "[16]
ترجمہ: آؤ اس بات کی طرف جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے۔
نیز یہ کہ:
"ادْعُ إِلِى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ "[17]
ترجمہ: (اے پیغمبر) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے پروردگار کے رستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو۔
" وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ "[18] ترجمہ:اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو۔
یہ سب حکمت ہی کے مختلف پہلو ہیں۔
اس طرح یہ بات کہ کب قوت کا استعمال کرنا ہے اور کب ہاتھ روک لینا اولیٰ ہے اور اس کا استعمال بھی حکمت ہی مىں سے ہے۔
"أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ قِيلَ لَهُمْ كُفُّواْ أَيْدِيَكُمْ وَأَقِيمُواْ الصَّلاَةَ وَآتُواْ الزَّكَاةَ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ إِذَا فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَخْشَوْنَ النَّاسَ كَخَشْيَةِ اللّهِ أَوْ أَشَدَّ خَشْيَةً وَقَالُواْ رَبَّنَا لِمَ كَتَبْتَ عَلَيْنَا الْقِتَالَ لَوْلا أَخَّرْتَنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ قُلْ مَتَاعُ الدَّنْيَا قَلِيلٌ وَالآخِرَةُ خَيْرٌ لِّمَنِ اتَّقَى وَلاَ تُظْلَمُونَ فَتِيلاً. أَيْنَمَا تَكُونُواْ يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ[19]
ترجمہ: بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو (پہلے یہ) حکم دیا گیا تھا کہ اپنے ہاتھوں کو (جنگ سے) روکے رہو اور نماز پڑھتے اور زکوۃ دیتے رہو۔ پھر جب ان پر جہاد فرض کر دیا گیا تو بعض لوگ ان میں سے لوگوں سے یوں ڈرنے لگے جیسے اللہ سے ڈرا کرتے ہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بڑبڑانے لگے کہ اے اللہ تو نے ہم پر جہاد (جلد) کیوں فرض کر دیا۔ تھوڑی مدت اور ہمیں کیوں مہلت نہ دی۔ (اے پیغمبر) کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ بہت تھوڑا ہے۔ اور بہت اچھی چیز تو پرہیز گار کے لئے (نجات) آخرت ہے اور تم پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔ (اے جہاد سے ڈرنے والو) تم کہیں رہو موت تو تمہیں آکر رہے گی خواہ بڑے بڑے محلوں میں رہو۔
اس وقت امت کے ارباب دانش، اسلامی تحریکات کے قائدین اور مسلمان ملکوں کی قیادت کے سامنے سب سے اہم سوال یہ ہے کہ قرآنی بنیادوں پر تجدّ ئ وقت کا مقابلہ کرنے کے لئے حکمت عملی بنائی جائے۔ اس حکمت کی روشنی میں کیا پالیسیاں بنائی جائیں اور کیا اقدامات تجویز کئے جائیں، تاکہ امت اپنا صحیح مقام حاصل کرسکے اور دنیا کو بھی نئے استعماری جارحیت سے محفوظ رکھا جاسکے۔
اس کے لئے ضروری ہے جن پر دنیا کی دوسری اقوام خصوصیت سے امریکہ سے آئندہ معاملات کئے جائیں۔ اس کے تین محاذ ہونگے۔ ہر ملک کا ذاتی محاذ، امت مسلمہ کا اجتماعی محاذ اور عالمی سطح پر نئے نظام اور اس کے قیام کے لئے منصوبہ بندی بلاشبہ امریکہ اور اس کے عزائم اس پورے معاملے میں ایک کلیدی مقام رکھتے ہیں اور ان کے بارے میں ایک سوچے سمجھے مؤقف کی ضرورت ہے۔ حالات کے آگے سپر ڈالنے کے معنی محکومی اور موت کے ہیں یہ وہ راستہ ہے۔ جس کے نتیجے میں مسلمان سواارب کی امت ہوتے ہوئے بھی خس وخاشاک سے زیادہ وزن کے حامل نہ ہوں گے اور بالآ خر ایک نئی سیاسی ، معاشی اور تہذیبی غلامی کی گرفت سے نہ بچ سکیں گے۔
یہ راستہ جس نے بھی اختیار کیا وہ قوم تاریخ کے اوراق میں صفحہ ہستی سے مٹ کر عبرت کا نشان بن گئی اورکبھی باقی نہ رہی۔ یہ امرافسوس ناک ہےکہ مسلمانوں کی ایک قابل ذکر تعداد نے طوعاًیا کرعاً، لیکن عملًا اس تباہ کن راستے کو اختیار کرلیا ہے کچھ شیطانی قوتوں کے باقاعدہ شریک کاربن گئے ہیں اور کچھ خاموش تماشائی یانوالہ تربننے پر آمادہ نظر آرہے ہیں ۔یہ دراصل ذہنی، فکری اور عملی طور پر ہتھیار ڈال دینا ہے ترکی میں کمال ازم نے یہی اختیار کیا تھا۔
دشمن کے رنگ میں رنگ جانا ہے، جسم کو بچانے کی موہوم امیدوں کے نام پر ایمان، تہذیب، اقدار، نظریات، تصورات حیات تک کی قربانی دے دینا ہے۔
مغرب اور مغرب کے پیروکار دانش ور، مسلمانوں کو آج بھی سیکولرازم اور قوم پرستی کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر یہاں یہ جان لینا چاہیے۔کہ یہ راستہ نہ صرف روحانی اور اخلاقی موت بلکہ تہذیبی موت کا بھى ہے۔دوسرا راستہ ہے کہ شریک کا رنہ بنا جائے، نرم چارہ نہ بن جائے اور اس راہ سےاپنے آپ کو بچالیا جائے ۔ اسے تحفظ کی حکمت عملی کہتے ہیں۔ اس حکمت عملی پر ایک طبقے نے مغربی اقوام کی استعماری یلغار کے پہلے دور میں بھی عمل کرکے دیکھ لیا لیکن مسلمان نے ان سے کوئی سبق نہىں سیکھا۔یہ حکمت عملی ہتھیارڈال دینے کی پالیسی سے کچھ بہتر ہے۔ اس میں اپنے آپ کو مسجد، مدرسہ اور خانقاہ میں محصور کر کے تبلیغی سرگرمیوں تک محدود تو کیا جاسکتا ہے۔لیکن یہ حکمت عملی بھی نامکمل اور درست نہیں ہے،صلاحیت میں خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پر جمود طاری ہوتا چلا جاتا ہے اور بالآ خر مغلوبیت اور محکومیت ایسی اقوام کا مقدربن جاتے ہیں۔
تیسرا راستہ تصادم اور انتقام کا راستہ ہے کہ جذبات میں آکر میدان میں کود پڑو۔ بس جان کی بازی لگا دو، اڑادو اور تباہ کردو اور جس چیز پر حملہ آور ہوسکتے ہو، حملہ کرڈالو۔ یہ بھی کوئی دانش مندی کا راستہ نہیں اور نہ اسے کسی پہلو سے مثالی شکل کہا جاسکتا ہے۔ جذبات کی ایک اہمیت ہے لیکن جذبات کے ساتھ تفکر اور سوچ و بچار کی بھی ضرورت ہے۔ اس میں قوت کا استعمال تو ایک ضروری عنصر ہے مگر قوت کا بے محل استعمال یا بس اندھی انتقامی کا روائی کا کوئی مقام نہیں۔ اس میں قوت کو حکمت کے ساتھ استعمال کرنا شامل ہے۔
گویا کہ محض جذباتی ہو کر، وقتی طور پر کچھ کردیں، یہ بھی ایک راستہ ہے، مگر اس راستے میں خیر کے امکانات بہت ہی کم ہیں۔ البتہ تباہی اور برس ہابرس کی محنتوں پر پانی پھر جانے کا خطرہ ضرور ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔سورہ البقرۃ،آیت۲۵۶۔
- ↑ ۔سورہ الانعام،آیت۵۶۔
- ↑ ۔سورہ الرعد،آیت۳۷۔
- ↑ ۔سورہ بنی اسرائیل،آیت۷۳۔
- ↑ ۔سورہ یونس،آیت۱۵۔
- ↑ ۔ سورہ الاحزاب،آیت۲ اور ۳۔
- ↑ ۔سورہ الجاثیہ،آیت۱۸ تا۲۰۔
- ↑ ۔سورہ النحل،آیت۱۲۵۔
- ↑ ۔سورہ آل عمران،آیت۱۰۴۔
- ↑ ۔سورہ حم سجدۃ،آیت۳۳،۳۴۔
- ↑ ۔سورہ الاعراف،آیت۲۹۔
- ↑ ۔سورہ النحل،آیت۹۰۔
- ↑ ۔سورہ المائدہ،آیت۸۔
- ↑ ۔سورہ البقرہ،آیت۱۹۴۔
- ↑ ۔سورہ البقرہ،آیت۸۳۔
- ↑ ۔سورہ آل عمران،آیت۶۴۔
- ↑ ۔سورہ النحل،آیت۱۲۵۔
- ↑ ۔سورہ حم سجدہ،آیت۳۴۔
- ↑ ۔سورہ النساء،آیت۷۷،۷۸۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |