31
2
2015
1682060034497_1109
145-157
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/169/161
واضح رہے کہ انسان دوسرے جا نوروں کی طرح نہیں ہے کہ اس کا مقصد زند گی دنیا میں کھانے ،پینے،سونے ،جاگنے اور جینے مرنے تک محدود ہو۔اس حضرت انسان کو باری تعالیٰ نے اپنی معرفت کی عظیم مقصد کے لیے پید ا کیا ہے اور یہ اعلیٰ مقصد پاکیزہ اخلاق کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اور جب انسان کی انسانیت کا مدار اصلاح اخلاق پر ہو تو ضروری ہے کہ جتنی چیزیں بالخصوصغذا جو براہ راست اس کا جز بن جا تا ہے انسانی اخلاق کوگندہ اور خراب کر نے والی ہے اُن سے اس کا مکمل پرہیز کیا جا یے اس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ماکولات کی ذیل میں واضح ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِيرِ[1] "اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت حرام کردیا"
اور صرف یہی نہیں بلکہ حلال اور پاک اشیاء کھانے کا حکم بھی دیا گیاہے:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلالا ًطَيِّبًا[2]"لوگو جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ"
زیر نظر آرٹیکل میں حلّت اور حرمت کی قضیے کو مد نظر رکھ کر انسانی گوشت کے کھانے کے حوالے سے فقہاء اور مفسّرین کے آراء کو تحقیقی اور استقصای مراحل سے گزارا جانے کی کو شش کی گ ی ہے اور قایلین حرمت اور اباحت کے دلایل کو بھی علوم اسلامیہ کے سکالرز کے لیے منطقی اندا میں پیش کیے گیے ہیں۔
امام ابن تیمیہؒ [3]يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ حَلالا ًطَيِّبًا کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
فَإِنَّمَا أَذِنَ لِلنَّاسِ أَنْ يَأْكُلُوا مِمَّا فِي الأَرْضِ بِشَرْطَيْنِ : أَنْ يَكُونَ طَيِّبًا ، وَأَنْ يَكُونَ حَلالا[4] "پس لوگوں کو زمین میں موجود چیزوں کو کھانے کی دو شرائط کے ساتھ اجازت دی : ایک یہ کہ حلال ہو اور دوسرا یہ کہ طیب(پاک) ہو"
الغرض جو چیزیں طیب اور حلال نہ ہو ان کا کھانا جائز نہیں۔
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:
يَسْئلونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ[5]"تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں"
اس آ یتِ کریمہ میں طیب کھانے کا حکم ہےاورروح المعانی میں طیبات کی تشریح ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے: مَا لَم تَستَخبِثهُ الطَبَاعُ السَلِيمَةُ وَلَم تَنفر عَنهُ [6]کہ فطرتِ سلیمہ جن چیزوں سے گھن محسوس نہ کریں اور اس سے نفرت نہ کریں"
اس تشریح کو مد نظر رکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ جس چیز کےکھانے کو طبیعتِ انسانی مکروہ سمجھیں ، اس کا کھانا مناسب نہیں ہے۔یہ حکم سورۃ الاعراف میں رسول اللہ ﷺ کے اوصاف میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے:
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ[7] "اور پاک چیزوں کو ان کے لیے حلال کرتے ہیں اور ناپاک چیزوں کو ان پر حرام ٹھہراتے ہیں "
جن اشیاء کے کھانے سے انسان فطری طور کراہت محسوس کرتا ہے ان میں انسانی گوشت بھی شامل ہے ۔
اسی بابت شریعت اسلامی کا موقف کچھ یو ں پیش کیا جا تا ہے:
==زندہ انسان کا گوشت کھانا:==
زندہ انسان کا گوشت کھا نا کسی بھی حالت میں جائز نہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فوقیت دی اور فرمایا:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا[8]
"اور ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی اور ان کو جنگل اور دریا میں سواری دی اور پاکیزہ روزی عطا کی اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی"
اس آیت کی تفسیر ابنِ جریرؒ[9]نے ان الفاظ کے ساتھ کی ہے:
بِتَسلِيطِنَا إيَاهُم عَلَى غَيرِهِم مِن الخِلقِ وَتَسخِيرِنَا سَائِر الخَلقِ لَهُم [10]"اس کو فوقیت دی دوسرے مخلوقات پر دی اور مخلوقات کو اس کے لئےمسخر کیا"
اور انسان کا مأکول بننا اس کی کرامت کے منافی ہے ۔ دوسرا یہ کہ انسانی جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور انسان کو اس میں تصرف کا اختیار حاصل نہیں ،شریعتِ اسلامی نے کسی انسان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ اپنے اعضاء کھائے اگرچہ وہ حالتِ اضطرار میں ہو،ابن قدامہ حنبلی[11] فرماتے ہیں:
فَإِنْ لَمْ يَجِدْ الْمُضْطَرُّ شَيْئًالَمْ يُبَحْ لَهُ أَكْلُ بَعْضِ أَعْضَائِهِ [12]"اگر مضطر کوئی چیز نہ پائے ،تو اس کے اپنے اعضاء کھانا جائز نہیں"
اسی طرح فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
كَمَا لَا يَسَعُ لِلْمُضْطَرِّ أن يَقطَعَ قِطعَةً مِن لَحمِ نَفسه فَيَأكُل [13]
"جیسا کہ مضطر کے لئے جائز نہیں کہ اپنے جسم سے گوشت کاٹ کر کھائے"
شوافع کے نزدیک انسان کے لئے حالت اضطرار میں اپنا گوشت کھانا جائز ہے مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس سے مضطر کے بچنے کا یقین ہو اور اس کو سرطان زدہ عضو پر قیاس کرتے ہیں کہ سرطان سے متأثرہ عضو کو کاٹنا اس وجہ سے جائز ہے کہ یہ پھیل کر ہلاکت کا سبب نہ بنے جب کہ بعض شوافع بھی اس کو ناجائز کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سرطان زدہ عضو پر قیاس کرنا صحیح نہیں کیونکہ مضطر کا بچنا یقینی نہیں ہوتا [14]
اسی طرح یہ بھی جائز نہیں کہ کسی مضطر کو موت سے بچانے کی غرض سے اپنے اعضاء کھانے کے لئے پیش کئے جائے ، فقۂ حنفی کی کتاب المحیط البرہانی میں یہ حکم ان لفاظ کے ساتھ مذکور ہے :
رَجُل مُضْطَرّ لَا يَجِد مَيتَةً خَافَ الهلَاك فَقَالَ لَهُ رَجُل اِقطَع يَدِي وَكُلهَا أو اِقطَع مِنِي قِطعَةً وَكُلهَالَا يَسَعهُ ذٰلِكَ[15]
"مضطر کو ہلاکت کا خطرہ ہو اور کھانے کے لئے مردار بھی نہ پائے، اگر کوئی اس سے کہے کہ میرے جسم سے گوشت کاٹ کر کھاؤ ،تو اس کے لئے ایسا کرنا جائز نہیں"
شوافع کے نزدیک بھی زندہ انسان کے جسم سے گوشت کاٹ کر کھانا جائز نہیں اگرچہ وہ مباح الدم ہو۔ان دونوں صورتوں میں حرمت کی دلیل درج ذیل آیتِ کریمہ ہے:
وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَة[16] " اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو"۔
زندہ انسان کو قتل کرکے کھانا:
مضطر کے لئے کسی مسلمان یا ذمّی کو قتل کرکے کھاناتمام ائمہ کے نزدیک حرام ہے کیوں کہ یہ دونوں حرمت و کرامت میں مضطر کے برابر ہے لہٰذا جائز نہیں کہ اس کی حرمت کو ضائع کرکے خود کو بچائے۔
البتہ حربی کافر مرتد یا مباح الدم مسلمان کو قتل کر کے کھانے میں ائمہ کا اختلاف ہے ۔شوافع کے نزدیک مباح الدم کو کھانے کی غرض سے قتل کرنا مضطر کے لئے جائز ہے ۔ان کی دلیل یہ ہے مضطر مسلمان کی حرمت کافر و مرتد سے بدرجہا مؤکّد ہے ، اس لئے اس کو قتل کرکے خود کو بچانا جائز ہے[17] ۔
جب کہ حنابلہ اور احناف کے نزدیک انسان کواپنی بھوک مٹانےکی غرض سے قتل کرنا کسی صور ت جائز نہیں ۔ علامہ ابن قدامہؒ فرماتے ہیں:
وَإِنْ لَمْ يَجِدْ إلَّا آدَمِيًّا مَحْقُونَ الدَّمِ لَمْ يُبَحْ لَهُ قَتْلُهُ إجْمَاعًا [18]"اگر مضطر کو کھانے کے لئے مباح الدم کے علاوہ کو ئی چیز میسر نہ ہو ،تو اس کے لئے مباح الدم کا قتل جائز نہیں"
یہ حکم رد المحتار میں ان الفاظ کے ساتھ مذکور ہے:
لَأن لحَمَ الإنسَانِ لَا يُبَاحُ فِي الاِضطِرَارِ لِكَرَامَتِهِ [19]کیونکہ انسان کا گوشت اس کی کرامت کی وجہ سے حالتِ اضطرار میں بھی کھانا جائز نہیں "
قائلینِ حرمت کی دلیل اللہ تعالیٰ کا درج ذیل فرمان ہے:
وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ
اس آیتِ کریمہ سےتمام انسانوں کی کرامت و حرمت ثابت ہوتی ہے ،چاہے مسلمان ہو یا کافر،مباح الدم ہو یا غیر مباح الدم اور یہ اس بات پر دلالت ہے کہ انسان کی حرمت ذاتی ہے،تو اس وجہ سےجو کوئی بھی ہو اس کو مأکول بنا کر اس کی حرمت و کرامت کو پائمال کرنا جائز نہیں۔
میت کا گوشت کھانا:
مضطر کے لئے میت کا گوشت کھانے کے متعلق ائمہ کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں :
شوافع کے نزدیک مضطر کے لئے میت کا گوشت بقدرِ ضرورت کھانا جائز ہے، لیکن اس وقت کہ میت کے علاوہ کوئی اور چیز موجود نہ ہو اگر کوئی اور چیز موجود ہو چاہے حلال ہو یا حرام پھر میت کا گوشت کھانا شوافع کے نزدیک بھی حرام ہے[20]
قائلین اباحت کے دلائل:
- اس ضمن میں پہلی دلیل درج ذیل آٓیتِ کریمہ ہے:
فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِإِثْمٍ فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[21]
"ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو خدا بخشنے والا مہربان ہے"
یہ آیت عام ہے اور ان تمام اشیاءکو شامل ہے ،جو عام حالات میں حرام ہیں۔
- ان کی دوسری دلیل وہ حدیث مبارک ہے جس میں رسول اللہﷺ نے سیدناحمزہؓ [22]کی شہادت کے بعد فرمایا:
لَوْلَا صَفِيَّةُ لَتَرَكْتُهُ تَأْكُلُهُ السِّبَاعُ [23]
"اگر صفیہ ؓ نہ ہوتی ،تو میں اس کو درندوں کے کھانے کے لئے چھوڑ دیتا"
جب درندے جن کی کوئی حرمت نہیں ان کے لئے کھانا جائز ہے ،تو ذی حرمت انسان کی جان کی حفاظت کے لئے بطریق اولیٰ جائز ہے ۔
- قائلینِ حرمت کی تیسر ی دلیل یہ ہے کہ مّیت کو اگرچہ حرمت حاصل ہے ،مگر زندہ انسان کی حرمت اس سے بڑھ کر ہے، جیسے ایک کشتی جو زیادہ بوجھ کی وجہ سے ڈوب رہی ہو اور اس میں میّت بھی ہو ،تو کشتی والوں کے لئے جائز ہے کہ کشتی کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے میت کو دریا میں پھینک کر خود کو بچائے[24]
امام احمد ؒبن حنبل[25]کے نزدیک میّت اگر مباح الدم کی ہو تو جائز ہے اور معصوم کی میت ہو،تو اس کا گوشت کھانا جائز نہیں،آپؒ کا قول المغنی میں اس طرح مذکور ہے:
وَإِنْ وَجَدَهُ مَيِّتًا أُبِيحَ أَكْلُهُ لِأَنَّ أَكْلَهُ مُبَاحٌ بَعْدَ قَتْلِهِ فَكَذَلِكَ بَعْدَ مَوْتِهِ وَإِنْ وَجَدَ مَعْصُومًا مَيِّتًا لَمْ يُبَحْ أَكْلُهُ [26]
"اگر (مباح الدم) کو مرا ہوا پائے ،تو اس کا کھانا جائز ہے کیونکہ اس کو قتل کرنے کے بعد اس کا گوشت کھانا جائز ہوتا ہے اور اگر معصوم الدم کو مردہ پائے ،تو اس کو کھانا جائز نہیں"
احناف کے نزدیک انسانی گوشت کسی بھی صورت کھانا کھانا جائز نہیں علامہ زیلعی ؒ[27]فرماتے ہیں :
وَإِنْ وَجَدَ لَحْمَ إنْسَانٍ وَصَيْدًا أَكَلَ الصَّيْدَ لِأَنَّ لَحْمَ الْإِنْسَانِ حَرَامٌ حَقًّا لِلشَّرْعِ وَحَقًّا لِلْعَبْدِ [28]
" اگر (محرم) انسان اور شکار کا گوشت پائے ،تو شکار کا گوشت کھائے گا کیونکہ انسان کے گوشت کی حرمت شرعی اور انسانی حقوق دونوں کی وجہ سے ہے۔"
اسی طرح علامہ قرطبی[29]فرماتے ہیں:
إذَا وُجدَ المُضطَر مَيتَةً وَخِنزِيرًا وَلَحمَ ابنَ آدم أَكَلَ المَيتَةَ لِأنهَا حَلَال فِي حال وَالخِنزِيرُ وَابنُ آدم لَا يحَلُ بَحَال [30]
"جب مضطر مردار ،خنزیر اور انسانی گوشت پائے ،تو مردار کھائے کیونکہ مردار اس حالت میں حلال ہے اور خنزیر اور انسان کا گوشت کسی حالت میں حلال نہیں"
مالکیہ کے نزدیک بھی میت کا گوشت کھانا جائز نہیں،ان کا مسلک فقۂ مالکی کی کتاب التنبيہ میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:
أنَ المضطَر إلَى أكلِ الميَتَةِ لَا يَجِدُ إلَا لحَمَ الآدَمِي لَا يَأكُلَهُ [31]
" مضطر کے لئے انسانی گوشت کھانا جائز نہیں اگرچہ اس کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہ ہو"
قائلینِ حرمت کے دلائل:
- ان کی پہلی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: كَسرُ عَظمِ الميَتِ كَكَسرِهِ حَياً[32]
"میت کی ہڈی توڑنا ،زندہ انسان کی ہڈی توڑنے جیسا ہے"
حافظ ابن حجر ؒ[33]فرماتے ہیں:
وَيُستَفَادُ مِنهُ أن حُرمَةَ المؤمِنِ بَعدَ مَوتِهِ بَاقِيَة كَمَا كَانَت فِي حَيَاتِهِ [34]"اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مؤمن کی حرمت موت کے بعد باقی رہتی ہے"
مرقاۃ المفاتیح میں اس حدیث کی تشریح میں واردہے کہ:
إشَارَة إلَى أنَهُ لَا يُهَانُ مَيتاً كَمَا لَا يُهَانُ حَياً [35]"اس طرف اشارہ ہے کہ انسان کی اہانت موت کے بعد بھی جائز نہیں"
ایک اور جگہ اس حدیث مبارک کی تشریح ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے:
وَالمعنَى أنَ حُرمَة بِني آدَم سَواء فِي الحَالَتَينِ، فَكَمَا لَا يَجُوزُ كَسرُ عَظمِ الحَي فَكَذٰلِكَ كَسرُ عِظمِ الميتِ [36]
"مراد یہ ہے کہ انسان کی حرمت دونوں حالتوں میں برابر ہے ،تو جس طرح زندہ کی ہڈی توڑنا جائز نہیں اسی طرح میت کی ہڈی توڑنا جائز نہیں"
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کی حرمت موت کے بعد بھی باقی رہتی ہے اور اس کی اہا نت ہر حال میں ناجائز ہے، جب کہ گوشت کاٹنے اور مأکول بنانے میں انسان کی اہانت ہے،لہٰذا انسان کا گوشت کسی بھی حال میں کاٹنا اور کھانا حرام ہے ۔
- دوسری دلیل سیدنا ابن مسعودؓ[37]سے منقول یہ روایت ہے:
أذَى المؤمِن فِي مَوتِهِ كأذَاهُ فِي حَيَاتِهِ [38]"مؤمن کو موت کے بعد تکلیف دینا،زندگی میں تکلیف دینے کے برابر ہے"
اس روایت میں میت کو ایذاء دینے کو زندہ کو ایذاء دینے کے برابر کہا گیا اور ظاہر ہے کہ زندہ انسان کو ایذاء دینا حرام ہے۔
- تیسری دلیل درج ذیل آیتِ کریمہ ہے:
وَلاَ يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ[39] "اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے"
اس کی تشریح تفسیرالماوردی میں ان الفاظ کے ساتھ کی گئی ہے:
كَمَا يُحرِمُ أكلُ لَحمِهِ مَيتاً يُحرِمُ غِيبَتهُ حَياً [40]"جس طرح مرنے کی حالت میں اس کا گوشت کھانا حرام ہے اسی طرح زندگی میں اس کی غیبت حرام ہے"
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ تشبیہ اس وجہ سے دی گئی کہ غیبت اور لحم میت دونوں حرمت میں برابر ہے۔
قائلین اباحت کے دلائل سے جوابات:
پہلی دلیل سے جواب:
یہ کہنا بلا دلیل ہے کہ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍتمام حرام اشیاء کو عام ہے امام فخر الدین رازیؒ [41]اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
وَهذَا مِن تَمَامِ مَا تَقَدَمَ ذِكرهُ فِي المطَاعِمِ الَتِي حَرمَهَا اللهُ تَعَالَى[42] "اور یہ اجازت ان تمام کھانے کی چیزوں میں ہے ، جن کی حرمت کا بیان پہلے گزر چکا "
جب کہ پہلے جن محرمات کو بیان کیا گیا ان میں انسانی گوشت کھانے کا کوئی ذکر نہیں ۔مزید یہ کہ آپؒ نے درمیان میں تکیلِ دین کی بات کو جملہ معترضہ قرار دیا اور فرمایا کہ یہ بات مذکورہ حکم کی تائید میں لائے ہیں اور آیت کے اول میں جن چیزوں سے منع کیا گیا آخر میں حالتِ اضطرار میں ان کے کھانے کی اجازت دی گئی۔
دوسری دلیل سے جواب:
سیدنا حمزہؓ کی شہادت کے موقع پر اس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے:
لَوْلَا صَفِيَّةُ لَتَرَكْتُهُ تَأْكُلُهُ السِّبَاعُ جب کہ کتب حدیث میں یہ روایت کہیں نہیں ملی ۔صرف صحیح البخاری کی ایک شرح فیض الباری میں نقل کی گئی مگر اس سے پہلےأظنُّ أنَ قَولَهُ صُلَى اللهُ عَلَيهِ وَسَلَّمَ "میرا گمان ہے کہ یہ رسول اللہﷺ کا قول ہے" اس کی ضعف کی طرف اشارہ کیا گیا اور اس کے بعد فرمایاکہ:
فَإنَه لَو تَرَكَهُ لَكَانَ مُختَصًا بِهِ وَلَم يَكُن مَسألةً وَشَرِيعَةً مُستَمِرةً[43] "اگر سیدنا حمزہؓ کو ایسے ہی چھوڑ دیتے ،تو یہ ان کے ساتھ خاص ہوتا اور شریعت کا کوئی حکم نہ ہوتا "
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ حدیث مبارک صحیح بھی تب بھی یہ کسی شرعی مسئلہ کی دلیل نہیں بن سکتا بلکہ سیدنا حمزہ ؓ کے ساتھ خاص ہوگا۔
تیسری دلیل سے جواب:
زندہ انسان کی حرمت کو میت سے بڑھ کربیان کرنا صحیح نہیں کیوں کہ اوپر مذکورہ احادیث سے ثابت ہو چکا کہ زندہ اور مردہ انسان کو ایذاء دینا اوران کی حرمت برابر ہے،جب کہ میت کا گوشت کھانےسے بچنا یقینی بھی نہیں۔
عصرِحاضرمیں مردہ خوری کے واردات اوران کاعلمی محاکمہ
زمانۂ قریب میں مردہ خوری کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں ، اگرچہ بعض ائمہ کے نزدیک انسانی گوشت کھانے کی اجازت ہے لیکن یہ بات ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ان ائمہ کرام نے اس کے لئے چند شرائط رکھی ہے ، اگر وہ شرائط موجود ہو ،تو بھی یہ مختلف فیہ مسئلہ ہے اور حتی الوسع انسانی گوشت کھانے سے اجتناب ضروری ہے۔
قائلین اباحت کی پہلی شرط حالتِ اضطرار کا ہو نا ہے ،جب کہ موجودہ زمانے میں پیش آنے والے واقعات میں کوئی واقعہ ایسا نہیں کہ کسی نے اس سنگین جرم کا ارتکاب حالتِ اضطرار میں کیا ہو ،لہٰذا شرط موجود نہ ہونے کی وجہ شرعی طور پر ان کوکوئی رخصت حاصل نہیں۔
دوسری شرط یہ ہے کہ کوئی اور حرام چیز کھانے کے لئے موجود نہ ہو ،حالانکہ جو لوگ اس قبیح فعل میں ملوث پائے گئے اول تو ان کی رسائی حلال اشیاء تک بھی تھی لیکن اگر حلال نہ بھی ہو ،تو حرام اشیاء تو بکثرت موجود تھی اور عجیب بات یہ ہے کہ اکثر واقعات میں ان سے کتے وغیرہ کا گوشت بھی برآمد ہوا ہے ، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ جرم انہوں نے مجبوری نہیں بلکہ شوق کی خاطر کیا ہے ،جس کی شرعیت میں کوئی گنجائش نہیں۔
تیسری شرط یہ ہے اگر حالتِ اضطرار بھی ہو، تب بھی انسانی گوشت بقدرِ ضرورت ہی کھانا جائز ہے ، جب کہ موجودہ زمانے کے آدم خور حالتِ اضطرار نہ ہونے کے باوجود تمام کا تمام مردہ بلکہ کئی مردوں کے کھانے میں ملوث پائے گئے ہیں ،جو شریعت کے رخصت کے حکم کا محض مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔
سنن ابی داؤدکا ایک مرفوع حدیث ہے:
كَانَ نَبِي اللهِ صَلَى اللهُ عَلَيهِ وَسَلمَ يَحُثنَا عَلَى الصَدَقَةِ وَيَنهَانَا عَنِ المثلَةِ [44]"رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقہ کی ترغیب دیتے اور مثلہ سے منع فرماتے"
اس حدیث مبارک میں رسول اللہﷺ نے مثلہ سے منع فرمایا ہے اور موجودہ زمانے میں مردہ خور میت کے تمام اعضاء کاٹ کر کھاتے ہیں ۔اس لئے یہ حدیث موجودہ دور کی مردہ خوری کی حرمت پر ایک مضبوط دلیل ہے۔
موجودہ دور میں انسانی گوشت کھانے میں حرمت کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لَا تَجلِسُوا عَلَى القُبُورِ [45]"قبروں پرنہ بیٹھا کرو"
اسی طرح ایک اور حدیث مبارک میں آیا ہے کہ انگاروں پر بیٹھنا قبر پر بیٹھنے سے بہتر ہے[46] اور اس کی وجہ صاحب ِ قبر کی کرامت و عزت ہے ،جب کہ موجودہ زمانے میں مردہ خور قبر سے مردے نکال کر کھاتے ہیں ،جو بیٹھنے کےمقابلے میں کئی گنا زیادہ اہانت ہے ۔
نتائج :
- انسان کو اللہ تعالیٰ نے دوسرے حیوانات سےخاص قسم کی فضیلت پرممتا زکر دیا ہے اور مأکول بننا اسی فضیلیت کے منافی ہے۔
- ا نسان کوللہ تعالیٰ کی عطا کردہ تکریم و حرمت موت کے بعد بھی قائم رہتی ہے۔
- انسانی جسم اللہ تعالیٰ کی امانت ہے،لہٰذا اپنا عضو مضطر کو کھانے کے لئے پیش کرنا امانت میں خیانت کے مترادف ہے۔
- ائمہ جمہور کے نزدیک کسی بھی حالت میں انسانی گوشت کھانا جایز نہیں ۔
- موجودہ زمانے میں انسانی گوشت محض شوق کی خاطر کھایا جاتا ہے لہٰذا یہ شریعت اسلامی کے ساتھ عین مزاق کا مترادف ہے جوانسان کو بسا اوقات کفر کے کنارے کھڑا کرتا ہے۔
References
- ↑ البقرۃ، ۲:۱۷۳
- ↑ البقرۃ، ۱۶۸:۲
- ↑ شیخ الاسلام ابن تیمیہ أحمد بن عبد الحليم (۶۶۱ھ ۔ ۷۲۸ھ)حران میں پیدا ہوئے ،لیکن دمشق منتقل ہوئے پھر مصر طلب کئے گئے مختلف فنون میں کثیر تصنیفات کی۔(سیر اعلام النبلاء،محمد بن أحمد الذہبی،۱:۲۱،دار ابن الاثیر،الکویت،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۵ء)
- ↑ مجموع الفتاوی،ابن تیمیہ احمد بن عبد الحلیم،۷ : ۴۵،مجمع الملک فہد لطباعۃ،المدینۃ النبویہ،۱۴۱۶ھ/۱۹۹۵ء
- ↑ المائدۃ،۵:۴
- ↑ روح المعانی،شہاب الدین محمود بن عبد اللہ آلوسی،۳: ۲۳۵،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۵ھ/۱۹۹۴
- ↑ الاعراف،۱۵:۷
- ↑ بنی اسرائیل،۱۷:۷۰
- ↑ ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید بن کثیر الطبری ہیں(۲۲۴ھ ۔۳۱۰ھ)عالم،فقیہ،مؤرخ اور محقق تھے۔ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ،جن میں تفسیرِ قرآن اور تاریخ الطبری مشہور ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ،محمد بن أحمد الذہبی ،۲: 201،دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۱۹ھ)
- ↑ تفسیر الطبری،محمد بن جریر الطبری،۱۷ : ۵۰۱،مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت،۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء
- ↑ عبد الله بن أحمد بن محمد بن قدامۃ ۵۴۱ ھ میں جماعیل نابلس میں پیدا ہوئے ۔حصول علم کے لئے بغداد تشریف لے گئے۔آپ بڑے عالم، زاہد اور امام تھے۔آپ کی کتابوں میں المغنی الکافی اور العمدۃ مشہور ہیں۔(سیر اعلام النبلاء،۲۲ : ۱۶۵)
- ↑ المغنی، عبد اللہ بن احمد بن محمد بن قدامہ،۹ : ۴۲۰،مکتبۃ القاہرہ،مصر،۱۳۸۸ھ/۱۹۶۸ء
- ↑ فتاویٰ عالمگیری،جنۃ العلماء ریاست نظام الدین،۵ : ۳۳۸،دار الفکر ، بیروت،۱۳۱۰ھ
- ↑ الحاوی الکبیر فی فقہ مذہب الامام الشافعی،علی بن محمد بن محمد،۱۵ : ۱۷۶، دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۹ھ/۱۹۹۹ء
- ↑ المحیط البرہانی فی الفقہ النعمانی، برہان الدین محمود بن أحمد،۵ : ۳۸۱، دار الکتب العلمیۃ ،بیروت،۱۴۲۴ھ/۲۰۰۴ء
- ↑ البقرۃ، ۱۹۵:۲
- ↑ البیان فی مذہب الامام الشافعی،یحییٰ بن ابی الخیر بن سالم،۴ : ۵۱۸،دار المنہاج ،جدۃ،۱۴۲۱ھ/۲۰۰۰ء
- ↑ المغنی لابن قدامہ، ۴۲۰:۹
- ↑ رد المحتار ،ابن عابدین محمد امین بن عمر،۶ : ۳۳۸، دار الفکر ،بیروت،۱۴۲۲ھ/۱۹۹۲ء
- ↑ الحاوی الکبیر،۱۷۶:۱۵
- ↑ المائدۃ، ۳:۵
- ↑ سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف (وفات ۳ ھ)رسول اللہ ﷺ کے چچا اور رضاعی بھائی تھے۔رسول اللہ ﷺ سے دو سال بڑے تھے۔۵۴ سال کی عمر میں غزوہ احد کے موقع پر شہید کئے گئے۔(معرفۃ الصحابۃ ،ابو نعیم احمد بن عبد اللہ ،۲:۶۷۳،دار الوطن للنشر، الریاض ،۱۴۱۹ھ/۱۹۹۸ء)
- ↑ الحاوی الکبیر، ۱۵:۱۷۵۔ حکم :تلاش بسیار کے بعد یہ روایت کتب حدیث میں نہیں ملی،البتہ فیض الباری شرح صحیح البخاری میں منقول ہے لیکن وہاں بھی اس سے پہلے أظنُّ أن قوله صلى الله عليه وسلّملا کر اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
- ↑ البیان فی مذہب الامام الشافعی۵۱۸:۴
- ↑ امام أحمد بن محمد(۱۶۴ھ۔ ۲۴۱ھ)بغداد میں پیدا ہوئے ۔آپ کی کنیت ابو عبداللہ تھی۔ حصول علم کے لئے لمبے لمبے سفر کئے ۔فتنۂ خلق قرآن کی سرکوبی کے لئے تکالیف اُٹھائی۔آپ امام ،مجتہد،محدث اور فقیہ تھے۔( أحمد بن علی الخطیب البغدادی،تاریخ بغداد، ۱: ۲۴۵،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۱۷ھ)
- ↑ المغنی لابن قدامہ،۴۲۱:۹
- ↑ عثمان بن علی فخر الدین الزیلعی(وفات:۷۴۳ھ) حنفیہ کے مشہور فقیہ تھے ۔قاہرہ میں علوم حاصل کئے ۔آپ نے فقہ حنفی کی مشہور کتاب کنز الدقائق کی شرح تبین الحقائق تصنیف فرمائی۔(الاعلام، خیر الدین محمود بن محمد الزرکلی،۲۱۰:۳،دار العلم للملایین،بیروت،۱۴۲۲ھ/۲۰۰۲ء)
- ↑ تبین الحقائق شرح کنز الدقائق،عثمان بن علی الزیلعی،۲ : ۶۸،القاہرۃ،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ، ۱۴۱۳ھ/۱۹۹۳ء
- ↑ محمد بن احمد بن ابی بکر بن فرح القرطبی(۶۰۰ھ۔۶۷۱ھ) قرطبہ میں پیدا ہوئے اور پھر مصر ہجرت فرمائی۔آپ زاہد اور متبحر عالم اور اپنے زمانے کے ائمہ میں سے تھے۔ااپ کی تصانیف میں تفسیر جامع القرآن مشہور ہے۔(طبقات المفسرین،احمد بن محمد الادنہوی،۱ : ۲۴۶، مکتبۃ العلوم والحکم،السعودیۃ،۱۴۱۷ھ/۱۹۹۷ء)
- ↑ تفسیر قرطبی،محمد بن احمدالقرطبی، ۲۹۲:۲،دار الکتب المصریہ ، القاہرۃ،۱۳۸۴ھ/۱۹۶۴ء
- ↑ التنبیہ علی مبادی ٔ التوجیہ،ابراہیم بن عبد الصمد بن بشیر،۲:۶۹۲،دار ابن حزم،بیروت،۱۴۲۸ھ/۲۰۰۷ء
- ↑ سنن ابی داؤد، ابو داؤد سلیمان بن اشعث،کتاب الجنائز،باب فی الحفار یجد العظم ،حدیث:۳۲۰۷،المکتبۃ العصریۃ،صیدا ، بیروت
- ↑ احمد بن علی بن محمد الکنانی العسقلانی(وفات:۷۷۳ھ) قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ااپ نے کثیر تعداد میں تصنیفات فرمائی ۔حدیث ، رجال اور تاریخ میں بے مثال تھے۔(الاعلام للزرکلی،۱: ۱۷۸)
- ↑ فتح الباری شرح صحیح البخاری،ابن حجر احمد بن علی،۱۱۳:۹، دار المعرفۃ ،بیروت،۱۳۷۹ھ
- ↑ مرقاۃا لمفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح،ملا علی قاری علی بن محمد،۳ :۱۲۲۶،دارالفکر ،بیروت،۱۴۲۲ھ/۲۰۰۲ء
- ↑ شرح سنن ابی داؤد،بدر الدین العینی محمود بن احمد،۶ : ۱۵۸،مکتبۃ الرشد ،الریاض،۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء
- ↑ سیدنا عبد اللہ بن مسعود بن حبیب الہذلی(وفات:۳۲ھ) فقیہ الامت ،کبار صحابہ میں سے تھے۔صاحب نعلین ،راز دار اور خادم رسولﷺتھے۔آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی۔(الاستیعاب،یوسف بن عبداللہ،۳ :۹۸۷،دار الجیل ،بیروت،۱۴۱۲ھ/۱۹۹۲ھ)
- ↑ المصنف ،ابوبکر بن ابی شیبۃ،کتاب الجنائز، ما قالوا فی سب الموتیٰ،حدیث:۱۱۹۹۰،مکتبۃ الرشد، الریاض، ۱۴۰۹ھ/۱۹۸۹ء
- ↑ الحجرات،۱۲:۴۹
- ↑ تفسیر الماوردی،علی بن محمد بن محمد الماوردی،۳۳۵:۵، دار الکتب العلمیۃ،بیروت
- ↑ محمد بن عمربن حسن بن حسین الرازی (۵۴۴ھ۔۶۰۶ھ) علوم عقلیہ و نقلیہ کے امام تھے۔آپ کی تصانیف میں آٹھ جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن مفاتیح الغیب بہت مشہور ہے ۔(الاعلام للزرکلی،۳۱۳:۶
- ↑ تفسیر کبیر، محمد بن عمر فخر الدین الرازی،۲۷۹:۱۱، دار احیاء التراث العربی ، بیروت،۱۴۲۰ھ/۲۰۰۰ء
- ↑ فیض الباری علیٰ صحیح البخاری،علامہ انور شاہ کشمیری،۱۶:۳،دار الکتب العلمیۃ، بیروت،۱۴۲۶ھ/۲۰۰۵ء
- ↑ سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب فی النہی عن المثلۃ،حدیث:۲۶۶۷
- ↑ ٍصحیح المسلم،مسلم بن الحجاج نیشاپوری،کتاب الکسوف،باب النہی عن تجصیص القبور،حدیث:۹۷۲دار احیاء التراث العربی،بیروت
- ↑ ٍصحیح المسلم،مسلم بن الحجاج نیشاپوری،کتاب الکسوف،باب النہی عن تجصیص القبور،حدیث:۹۷۱
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |