36
1
2018
1682060034497_1122
82-100
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/26/19
خاندان کی لغوی تعریف اور تاریخی پس منظر
خاندان کے لیے عربی میں "الاسرة" انگریزی میں " فیملی"(Family)اور فارسی زبان میں خانوادہ کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو عرف عام میں کنبہ، قبیلہ، برادری کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔([1])
خاندان کے لئے مستعمل عربی لفظ "الاسرۃ " کا مادہ ’’ا س ر‘‘ ہے اور یہ لفظ مختلف حرکات کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہےاس کے بارے میں علامہ ابن منظورافریقی نے لکھا ہے کہ :"اسر" مختلف حرکات کے ساتھ مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے گویا یہ مختلف حرکات کے ساتھ پڑھا جاتا ہے ۔ جیسے اُسر، اَسَرَ، اسر یا اسے لمبا اور کھینچ کر پڑا جاتا ہے جیسے اسیر، اسار، اسیرة جو"الحبس و الامساك " یعنی قید اور گرفتار کرنے کے معانی میں استعمال ہوتا ہے۔[2]
اور اَسَرَ بفتح الف کا معنی پوشیدہ بات اور سرگوشی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ٰ ہے:
" وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَى بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا"([3])
القاموس المحیط میں ہے:"الاسر" الشد و العصب و شدة الخلق"([4])
"الاسر" سختی ، مظبوطی اور پختگی اور تخلیق کی پختگی کو کہتے ہیں ۔
تخلیق کی اس پختگی کے معنی پر قرآن کی آیت شاھد ہے :" نَحْنُ خَلَقْنَاهُمْ وَشَدَدْنَا أَسْرَهُمْ"([5])
"ہم نےاس کے اعضاء کو مرتب کیا اور اور اس کی تخلیق کو مظبوط کیا"
مترادفات "الاسرۃ"
العائلة:
"العائلہ" اسم فاعل بمعنی مفعول ہے جیسا کہ عربی میں کہا جاتا ہے :
" من یعولهم الشخص من یضمهم بیت الرجل و ینفق علیهم من زوجه و اقارب"([6])
"آدمی جن کی طرف لوٹجاتا ہے اور ان کے کنبہ میں شامل ہوتاہے اورجن پر خرچ کرتا ہے مثلاً بیویاور عزیز و اقارب،عائلہ کہلاتاہے"*
اهل:
اسرۃ کا مترادف لفظ"اھل"بھی مستعمل ہے ارشاد الہی ہے"إِذْ رَأَى نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ"([7])
"جب کہ اس نے ایک آگ دیکھی اور اپنے گھر والوں سے کہا ذرا ٹھہرو میں نے آگ دیکھی ہے"
ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالیٰ ہے: فَأَنْجَيْنَاهُ وَأَهْلَهُ إِلَّا امْرَأَتَهُ([8])
آخر کا ر ہم نے لوط علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو سوائے ان کی بیوی کے بچا لیا۔
خاندان کی اصطلاحی تعریف
موسوعة الفقهیة الکویتیة میں خاندان"اسرۃ " کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:
"اسرة الإنسان: عشیرته ورهطه الادنون، ماخوذ من الاسر، وهو القوة، سموا بذلك لأنه یتقوی بهم، والأسرة: عشيرة الرجل واهل بیته"([9])
انسانی خاندان ، اس کی آل اولاد اور باپ کی طرف سے قریبی رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے اور اسرۃ اسر سے ماخوذ ہے اور اسر قوت کو کہا جاتا ہے اور اس کا یہ نام اس لیے پڑا کہ انسان اپنی آل اولاد کے ذریعے قوت محسوس کرتا ہے اور آدمی کے اپنے گھر والوں کی گزر بسر کے انتظام کو اسرۃ کہتے ہیں۔علامہ شامی ابن عابدین نے خاندان کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
(أهله زوجته وقالا یعي صاحبي ابا حنیفة کل من في عیاله ونفقتی غیر ممالکیه لقوله تعالی( فنجیناه واهله اجمعین)([10])
"کسی شخص کا خاندان اس کی بیوی اور گھر کے افراد ہیں امام محمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں کسی شخص کی کفالت و حضانت میں سوائے غلاموں کے جتنے بھی افراد شامل ہیں وہ سب خاندان کہلاتے ہیں اللہ نے فرمایا کہ ہم نے ان کو اوران کے خاندان کو نجات دی"
گورڈن مارشل نے خاندان کی تعریف یوں کی ہے:
An intimate domestic group made up of people related to one another by bounds of blood, sexual mating or legal ties. It has been a very resilient social unit that has survived and adapted through time. ([11])
"ایک قریبی گھریلو گروہ جو خونی رفاقت یا قانونی بندھن کی بنا پر ایک دوسرے سے مربوط ہونے کی اساس پر وجود میں آیا ہو ۔ یہ ایک بہت لچک دار سماجی اکائی رہا ہے جو زمانے کے مختلف ادوار میں ہم آہنگ ہو کر باقی رہا ہے"۔
خاندانی نظام کا پس منظر اور ارتقاء
خاندان کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ خود انسان کا وجود کیونکہ انسان طبعی طور پر معاشرت پسندی اور اجتماعیت کو چاہتا ہے ۔ عربی کا مشہور مقولہ ہے: "إن الإنسان مدني أو اجتماعي لطبعه"([12]) "انسان ہمیشہ سے معاشرت اور اجتماعیت کا دلدادہ رہا ہے"۔
انسان اجتماعیت اور معاشرت پسند اس لئے ہے کہ اللہ نے اس کے اندر ایسےمختلف عناصر کو جمع کر رکھا ہے جس وجہ سے وہ اکیلا رہ سکتا ہے اورنہ پسندکرتا ہے۔ اللہ نے انسان میں جو محبت کا عنصر رکھا ہے اس وجہ سے بھی انسان دوسرے انسان کے دکھ درد میں شریک ہوتا ہے اللہ نے بجا ارشادفرمایاہے:"وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً "([13]) "ہم نے تمہارے اندر محبت و الفت پیدا کر دی"
اوراللہ تعالی ٰنے ایک دوسرے کے ساتھ دکھ درد اور تعاون کاحکم فرمایا :
"وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ" ([14]) "اورنیکی وتقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرو جبکہ گناہ کے کاموں میں تعاون نہ کرو"
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:"کلکم راع و کلکم مسؤول عن رعیته"([15]) تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اورتم میں سے ہر ایک سے اس کی رعایا کے بارے میں بازپرس ہو گی۔
خاندان کا آغازو ارتقاء
اللہ نے جب تمام انسانوں کے باپ آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا اور اسی میں سے جنس انسان کی صنف ثانی جس کو صنف نازک کا نام دیا جاتا ہے حضرت حواعلیھا السلام کو پیدا فرما کر دونوں صنفوں کے ملاپ سے سر زمین فانی پر خاندان کی بنیاد ڈالی۔ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:
"یٰأَیّها النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنها زَوْجها وَبَثَّ مِنهمَا رِجَالًا کَثیْرًا وَّنِسَآء وَّاتَّقُوا اللّه الَّذِیْ تَسَآئَلُوْنَ به وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللّه کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا "([16])
"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد و عورت پھیلا دیے اور اللہ سے ڈرو جس کے نام پر مانگتے ہو اور رشتوں کا لحاظ رکھو بے شک اللہ ہر وقت تمہیں دیکھ رہا ہے "
امام ابن جریر طبری لکھتے ہیں کہ:حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کے نزدیک"یٰأَیّها النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃ " سے مراد حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور یہی قول حضرت مجاہد کا بھی ہے۔([17])
جب ہابیل کی قربانی اللہ کے ہاں مقبول ٹھہری اور قابیل کی قبول نہ ہوئی تو اس نے غصہ میں آ کر کہا کہ اگر تو نے میری بہن سے نکا ح کیا تو میں تمہیں قتل کر دوں گا تو ہابیل نے کہا :اللہ متقیوں سے قبول کرتا ہے،جس کو قرآن نےیوں بیان کیا ہے"إِنَّمَا يَتَقَبَّلُ اللَّهُ مِنَ الْمُتَّقِينَ"([18])
اس آیت سے اور اس کی تفسیر میں مفسرین نے حضرت آدم کے خاندان اور ان کے خاندان سے مزید خاندانوں کا تذکرہ مترشح کیا ہے جو کہ دور اول کے خاندانوں میں شمار ہوتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام کے خاندان کے بعد حضرت نوح علیہ السلام کا خاندان جس کےمتعلق قرآن مجیدکہتا ہے:
"حَتَّىٰ إِذَا جَاءَ أَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ۚ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلَّا قَلِيلٌ)" ([19])
"یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آ پہنچا اور تنور جوش مارنے لگا تو ہم نے نوح علیہ السلام کو حکم دیا کہ ہر قسم کے جانوروں میں سے جوڑا جوڑا لے لو اور جس کی نسبت حکم ہو چکا ہو، اس کو چھوڑ کر اپنے گھر والوں کو اور جو ایمان لایا ہو اس کو کشتی میں سوار کر لو اور ان کے ساتھ بہت کم ایمان لائے تھے"۔
اوراسی طرح حضرت ابراھیم علیہ السلام کا خاندان ہے جس کے متعلق قرآن مجید بیان کرتا ہے:
"وَإذْ یَرْفَعُ إِبْرَهِیمُ القَوَاعِدَ مِنَ البَیْتِ وَإِسْمَعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّآ إِنّكَ أَنْتَ السَّمِیعُ العَلِیمُ" ([20])
"اور جب ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام بیت اللہ کی بنیادیں بلند کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے اے اللہ ہماری دعا قبول فرما بے شک تو سننے اور جاننے والا ہے"۔
اسی طرح موسی اور شعیب علیہم السلام کے خاندانوں کا تذکرہ بھی قرآن مجید کی سورۃ القصص کی آیت نمبر 20تا 30 میں مذکور ہے۔ اینگلز خاندان کی تاریخ کے بارے میں رقم طراز ہے کہ:
"اولین دور میں خاندان کا آغاز دائروں کے محدود ہونے سے ہوا ، پہلے آغاز قبیلے کے اندر ہوا جس کے اندر دو متضاد رشتے داروں اور بعد میں دور دراز کے رشتے داروں میں بعد پیدا ہوتا چلا گیا، حتی کہ شادیوں کے ذریعے جڑے ہوئے افراد خانہ بھی الگ ہونے لگے آخر میں شادی کے بندھن میں بندھے ہوئے افراد کا جوڑا رہ گیا یہ ایک ایسا مالیکیول ہے جس کے بکھرنے سے خاندان بذات خود بکھر جاتا ہے "([21])
حقیقت تو یہ ہے کہ خاندان کا آغاز و ارتقاء ایک ایسامسلسل عمل ہے جسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے ہر فرد دوسرے فرد کو مدد فراہم کرتا ہے اسی بات کو بینسن ((Bensonبیان کرتے ہوئےلکھتاہے کہ:
"حقیقت یہ ہے کہ خاندان کا آغاز و ارتقاء ایک ایسا مسلسل عمل ہے جس میں ہر فرد دوسرے کا سہارا بن جاتا ہے"([22])
از روئے اسلام خاندان کی اہمیت و ضرورت
اسلام خاندان کا ایک ایسا تصور پیش کرتا ہے جو حقوق و فرائض ، خلوص و محبت اور ایثار و قربانی کے اعلی ترین قلبی احساسات اور جذبات کی مضبوط ڈور سے بندھا ہوا ہوتا ہے ۔ قرآن نے خاندان سے بننے والے معاشرے کے جملہ معاملات کی اساس اخلاق کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:
"يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ"([23])
"اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں سے سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تقوی میں سب سے زیادہ بہتر ہے"
اسلام نے معاشرت کا بنیادی ادارہ اور اکائی خاندان کو قرار دیاہے ۔ جس کی بہتری اور بھلائی پر معاشرے کے بہتری اور بھلائی کا انحصار ہے۔اسلام نے خاندان کو مضبوط بنانے کی تاکید فرمائی ہے تاکہ اس سے ایک مضبوط، صالح معاشرے کا قیام یقینی ہو۔انسانی زندگی جوفرد واحد سے شروع ہو کر جس قدر بھی پھیل جائے، اسے ایک امت قرار دیا۔
تاہم آج اس خاندان نےانسانی سماج کاجو روپ دھاراہے، اسےکبھی مشترکہ خاندانی نظام کا نام دیا گیا اور کبھی جدا گانہ خاندانی نظام کانام دیا جاتا ہے۔اس مقالے میں پہلے مشترکہ خاندانی نظام اور اس کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات اور اس کےبعد جدا گانہ خاندانی نظام اور اس کے معاشرے پر مرتب ہونے والےاثرات کا ذکر کیا جائے گا۔اس بات کوسمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام نے اصولی اور بنیادی باتوں کو بڑی وضاحت سے بیان کر دیا ہے ، زوجین کی باہمی ذمہ داریاں اور ایک دوسرے کے حقوق کیا ہیں ؟ شفقت و ہمدردی سے لےکرقانونی حقوق تک تمام بنیادی احکامات کی وضاحت کر دی گئی ہے اور وہ امورجومعاشرہ کے افراد کو اچھے لگیں اور وہ اسلام کے اصولوں کے بھی متصادم نہ ہوں تو ان کو قبول کیا ہے ۔ انہی امور میں سے ایک مسئلہ خاندانی نظام کا بھی ہے کہ خاندان کی نوعیت کیا ہونی چاہیے ؟ کیا سب ایک ہی خاندان میں رہیں یا علیحدہ علیحدہ رہیں شریعت اسلامیہ میں دونوں طرح کی مثالیں ملتی ہیں کہ کن حالات اور کس ماحول میں کون سا طریقہ بہتر رہے گا، جس میں خاندان کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات اچھے ہیں اسی خاندان کو اپنا لیا جائے ۔
مشترکہ خاندانی نظام
اسلام ایسا حتمی مذہب ہے کہ جس کی شریعت آئیڈیل شریعت ہےجو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے ۔ اس کے سوا کوئی ایسا مذہب نہیں ہے کہ جو انسانی جسم اور اس کی تمام ضروریات کے بارے میں رہنمائی فراہم کر سکے یہ خاصہ صرف اسلام ہی کو حاصل ہے ۔اس نے انسانی زندگی کی ہر لمحہ رہنمائی فرمائی ہے اور یہ ایسی کامل شریعت ہے کہ جس نے انسانی ضروریات کو کبھی بھی غیر محفوظ نہیں چھوڑا۔یہاں تک کہ اس نے انسان کی خاندانی زندگی کے ہر گوشے پر نہ صرف نظر رکھی بلکہ اسے ہر لمحہ رہنمائی بھی عطا کی۔ ماہرین سماجیات کی نظر میں خاندانی زندگی خواہ مشترکہ خاندانی نظام کے نام سے موسوم ہو یا جدا گانہ خاندانی نظام کے نام سے، اسلام نے انسان کی رہنمائی فرمائی ہے ۔
مشترکہ خاندانی نظام
یہ خاندان کی قدیم ترین شکل ہے جس کے لیے جوائنٹ فیملی کی اصطلاح بھی رائج ہے یہ نظام تاریخ کے زرعی دور میں وجود میں آیا۔ اس لیے کہ اس پیشے میں جتنے زیادہ افراد شریک ہوں اس کے نتائج بھی اتنے ہی بہتر برآمد ہو سکتے ہیں۔مشترکہ خاندانی نظام کے بارے میں سید سعید اختر رضوی نے لکھا ہے کہ:
مشترکہ خاندان سے مراد وہ خاندان ہے کہ جس میں ایک باپ ،اس کی اولاد ، بھائی ، بہنیں، چاچےاور بھتیجے مل جل کر رہیں اور مشترکہ طور پر خاندان کی معاشی ضروریات کی تکمیل کرتے ہوں ، سب کے کھانے پینے اور قیام کا انتظام ایک ہی مکان میں ہوتا ہو۔)[24](
اس بات سے انکار نہیں کہ والدین اور اولاد دو مختلف طبقے ہیں، مگر اسلام نے دونوں کےنہ صرف مراتب کا مکمل لحاظ رکھا ہے بلکہ قانونی ہدایات بھی دی ہیں تاکہ مشترکہ خاندانی نظام خوبصورتی کے ساتھ ایک دوسرے میں محبتوں اور الفتوں کے گلدستے تقسیم کرتا رہے۔اسی لیے ایک طرف والدین کا اتنا عظیم حق بتایا گیا کہ ان کے سامنے اُف تک کہنے کی اجازت نہیں ہے، قرآن کریم میں ارشادباری تعالیٰ ہے:
"وَبِالْوَالِدَیْنِ احْسَاناً امَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الکِبَرَ أحَدُہُمَا أوْ کِلاَهُمَا فَلا تَقُل لّهمَا أفٍ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهُمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً "([25])
"اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف نہ کہو اور نہ جھڑکو، ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعاکرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی"
احادیث میں والدین کے حق کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی مقدم بتایاگیا ہے،سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن مسعود روایت کرتے ہیں:
"قُلْتُ یَا رسولَ اللّه أیُّ العَمَلِ أحَبُّ الي اللّه؟ قَالَ: الصلاةُ على وَقْتِهَا قُلْتُ ثُمَّ أيٌّ؟ قَالَ بِرُّ الْوَالِدَیْنِ، قُلْتُ ثُمَّ أيٌّ؟ قالَ الجهادُ فی سبیلِ اللّه"([26])
" میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، وقت پر نماز پڑھنا، میں نے عرض کیا، اس کے بعد کس عمل کا درجہ ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایا، والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، میں نے عرض کیا پھر کون سا عمل؟ آپ نے فرمایا جہاد فی سبیل اللہ"
دوسری طرف اس مشترکہ خاندانی نظام کو بیلنس کرنے کے لیے والدین کو اپنی اولاد کے حقوق کی طرف توجہ دلائی گئی اورانسان پر اولاد کی تعلیم و تربیت کی پوری ذمہ داری ڈالی گئی اور کہا گیا کہ اس سلسلے میں اللہ کے دربار میں ان کو جوابدہی کا سامنا کرنا ہوگا، امام بخاری نے اس کے بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ:
"وَالرَّجُلُ رَاعٍ في أهله ومَسْئُولٌ عن رَعِیَّته"([27]) "مرد اپنے گھروالوں کا نگراں ہے، اس سے اس کی رعیت کے بارے میں بازپرس ہوگی"
میاں اور بیوی جیسےمشترکہ خاندانی نظام کے عظیم ستونوں کو اس خوبصورت نظام میں اعتدال پیدا کرنے کے لیے دونوں کو الگ الگ ہدایات دی گئیں، شوہر سے کہا گیا کہ تمہاری یک گونہ فضیلت کے باوجود ان کے حقوق کے معاملہ میں تم اسی طرح جواب دہ ہو جس طرح کہ وہ تمہارے معاملے میں جواب دہ ہیں:
"وَلَهُنَّ مِثْلُ الذِی عَلَیْهِنَّ بِالمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلیهن درجة"([28])
"عورتوں کا مردوں پر اتنا ہی حق ہے، جتنا مردوں کا ان پر ہے؛ البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے"
ایک دوسرے کے معاملے کو اپنا معاملہ سمجھنا اور پھر اس کو پورا کرنا ایک انسان کی معاشرتی ذمہ داری ہے اسی ذمہ داری کی طرف آپ ﷺ نے توجہ دلائی ۔ آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
"من ولي من أمر المسلمین شیئاً فاحتجب دون خلتهم وحاجتهم وفقرهم وفاقتهم احتجب اللّه عز وجل یوم القیٰمة دون خلته وفاقته وفقرہ" ([29])
" جو شخص مسلمانوں کے معاملہ کا ذمہ دار ہونے کے بعد ان کی ضرورت کے وقت سامنے نہ آئے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ضرورت وحاجت کے وقت اس کو نظر نہیں آئے گا"
بزرگوں کو حکم ہے کہ چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اور چھوٹوں کو تاکید ہےکہ حدادب ملحوظ رہے،جیساکہ ارشاد نبوی ہے:
" ليس منا من لم يرحم صغيرنا، ويعرف شرف كبيرنا"([30]) " جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں"
شریعت اسلامیہ میں اس طرح کی بیشمار مثالیں موجود ہیں، جن میں شریعت اسلامیہ نے دو طرفہ اور سہ طرفہ ہدایات دے کر لوگوں کے حقوق، ان کی شناخت اور ترجیحات کا تحفظ کیا ہے، تاکہ مشترکہ خاندانی نظام قائم رہے، معاشرتی اقدار وروایات جاری رہیں اور ہر شخص کی ذاتیات بھی محفوظ رہیں۔
مشترکہ خااندانی نظام کے معاشرے پر اثرات
معاشرے کا سب سے اہم اور بنیادی یونٹ خاندان ہے اسی یونٹ پر خاندان کی ترقی و نشوونما کا انحصار ہے اور اسی پر اس معاشرے کی تنزلی اور انحطاط کا دارومدار ہے۔ جس قدر خاندان کی اکائی مضبوط اور مستحکم ہو گی اسی قدر معاشرہ مضبوط و مستحکم ہو گا۔ اسی بنا پر مشترکہ خاندانی نظام جتنا مضبوط اور مستحکم ہو گا اسی قدر اس کے معاشرے پر مرتب ہونے والے اثرات بھی بارآور ثابت ہوں گے اور اگر یہ نظام مستحکم ومضبوط نہ ہوا تو اس کے اثرات بھی اسی قدر منفی ہوں گے۔
مشترکہ خاندانی نظام کے مثبت اثرات
معاشرتی اثرات
اتحاد و اتفاق
اسلام کی تعلیمات عالمگیر ہیں اسی وجہ سے اسلام ہمیشہ سے اتحاد و اتفاق کا داعی رہا ہے خواہ وہ عبادات کا معاملہ ہو یا معاملات کا اسلام نے اپنے پیروں کو وحدت کا درس دیا ہے ۔ ارشادِباری تعالیٰ ہے:
"وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا "([31])
اسلام جس طرح بحیثیت ملت مسلمانوں کو متحد رہنے کا کہتا ہے اسی طرح ایک خاندان کے افراد کو بھی شیر و شکر بن کر رہنے کی تاکید کرتا ہے کیونکہ اس کے بغیر مستحکم معاشرے کی تشکیل ناممکن ہے ۔اس اتحاد و اتفاق کے لیے مشترکہ خاندانی نظام جس قدر موزوں ہے کوئی اور نظام موزوں نہیں ہے کیونکہ ایک گھر اور ایک چھت تلے جب سب بودوباش اختیار کریں گے تو لامحالہ اس سے آپس میں تعلقات مضبوط ہوں گے۔ جب آپس كے تعلقات مضبوط ہوں گے تو یہ مخالفین کے لیے رعب و دبدبہ کا باعث ہو گا ورنہ خاندانی قوت بکھر جائے گی ۔*
خاندان کے کمزور افراد کی نگہداشت:
اسلام وہ دین فطرت ہے جو مونس و موودت اور ایثار و قربانی کی زندہ مثال ہے۔ اس نے ہمیشہ ہر مقام پر انسانی ہمدردی کا پرچار کیا ہے ،والدین کے حوالے سے قرآن کہتا ہے:
"وَبِالْوَالِدَیْنِ احْسَاناً امَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الکِبَرَ أحَدُهُمَا أوْ کِلاَهُمَا فَلا تَقُل لَّهُمَا أفٍ وَلاَ تَنْهَرْهُمَا وَقُلْ لَّهمَا قَوْلاً کَرِیْمًا وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیْراً "([32])
" اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کو اُف نہ کہو اور نہ جھڑکو، ان سے اچھے لہجے میں بات کرو اور رحمت وانکسار کے ساتھ ان کے آگے جھک جاؤ اور ان کے لیے دعاکرو کہ پروردگار ان پر رحم فرما، جس طرح انھوں نے بچپن میں میری پرورش کی تھی"
ماں باپ کے حقوق میں ہی یہ رکھا گیا ہے کہ وہ اولاد کے لیے جنت ہیں یا جہنم اور والدین ہی کو یہ شرف بخشا گیا ہے کہ ان کی خدمت جنت کے حصول کا ذریعہ ہے اور ان کی ناراضگی رب کی ناراضگی کے مترادف ہےیہاں تک کہ والدین کے مشرک ہونے کی صورت میں بھی اولاد سے نفقہ کی ذمہ داری ساقط نہیں ہوتی ۔ اور یہ سارے فرائض مشترکہ خاندانی نظام ہی کے تحت ادا کیے جا سکتے ہیں۔
خاندان کے کمزوراور یتیم اور مالی اعتبار سے کمزور افراد کے ساتھ تعاون بھی صرف اور صرف مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ہی ممکن ہے۔ یتیم کے حوالے سے آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ:
"أنا وکافل الیتیم في الجنة هکذا، وقال بأصبعيه السبابه والوسطیٰ"([33])
"میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح اکٹھے ہونگے، پھر آپ نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کی طرف اشارہ کیا"
اس نظام کی بدولت معاشرے میں بے سہارا لوگ جو غلط کام کر کے معاشرے کا ماحول خراب کر سکتے تھے معاشرے کی ترقی کے لیے اپنی خدمات پیش کر سکتے ہیں۔ *
اولاد کی کفالت و سرپرستی:
جب ماں باپ بڑھاپے یا بیماری کی حالت میں ہوں تو ان کی کمسن اولاد کے سہارے کے لیے شادی شدہ اور دیگر افراد خانہ ان کی کفا لت اور سرپرستی کی ذمہ داری سنبھال لیتے ہیں ۔ ان کی تعلیم اور شادی بیاہ کی ساری ذمہ داریاں اپنے کندھوں پر لینا صرف مشترکہ خاندانی نظام ہی کا خاصہ ہے چونکہ اسلامی تعلیمات اولاد کی کفالت وغیرہ کے حوالے سے بھی بڑی واضح ہیں ۔اسلام کی طرف سے پیدائش کا حق، زندگی کا حق، وراثت کا حق، وصیت کا حق، رضاعت کا حق اور پرورش وغیرہ کے حقوق کا تفویض ہونا اسی لیے ہے کہ انسان جہاں تک ممکن ہو سکے مشترکہ خاندان کے بندھن سے باہر نہ جائے۔جس سے معاشرے میں اولاد کی وجہ سے لڑائی جھگڑے یہاں تک کہ اولاد کو بے دخل کر دینے والے معاملات سے بچ جاتا ہےاور معاشرہ کے وہ بچے جو ماں اور باپ کے سائے سے محرومی کے باوجود بڑی خوشحال زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اس سے معاشرے میں بڑھتی ہوئی جہالت پر بھی بآسانی قابو پایا جا سکتا ہے۔
معاشی اثرات
معاشرے میں مالی استحکام
مشترکہ خاندانی نظام خاندان کے مالی بحران پر قابو پانے کے لیے انتہائی موزوں ہے کیونکہ جب ایک ساتھ رہنے سے کاروبار اور آمدنی کے ذرائع نہ صرف برقرار رہیں گے بلکہ اس میں مزید اضافہ ہو گا باپ کا بنا بنایا کاروبار تقسیم ہونے کی بجائے انہیں ہاتھوں میں ہے جو پہلے ہی اس کو صحیح طرح چلانا جانتے ہیں تو یقینا مالی بحران کا کوئی اندیشہ تک بھی نہ رہے گا اور معاشرہ مالی طور پر مضبوط ہو گا۔*
قناعت و کفایت شعاری کا مرقع معاشرہ
سارے افراد جب ایک ہی گھرانے سے منسلک ہوں گے تو سب اپنا گھر سمجھتے ہوئے اشیاء کا استعمال بڑی سوچ سمجھ کر کریں گے ۔ جس سے اخراجات میں نمایاں کمی واقع ہو گی اور اس سے الفت و محبت اور ایثار و قربانی کے جذبہ کو فروغ ملے گا۔اس وقت ان کے ذہن و تربیت میں یہ حدیث مبارکہ کا ہونا ضروری ہو گا جس میں آپﷺ نے فرمایا کہ :
"طعام الواحد يكفي الإثنين، وطعام الإثنين يكفي الأربعة، وطعام الأربعة يكفي الثمانية"([34])
”ایک شخص کا کھانا دو کے لیے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے“
یہ تب ہی ممکن ہے جب مشترکہ خاندانی نظام کے تحت زندگی گزاری جا رہی ہو ۔
مشترکہ خاندانی نظام کے معاشرے پر منفی اثرات
اس نظام کے معاشرے پر جو مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ تصویر کا ایک رخ ہے جب کہ تصویر کے دوسرے رخ سے معاشرہ پر اس کے پڑنے والے اثرات بہت سے پہلوؤں سے نہ صرف معاشرتی زندگی بلکہ شرعی نقطہ نظر سے بھی بڑی بے اعتدالیوں کا باعث ہے۔
معاشی اثرات
اس کے معاشرے پر جو مثبت اثرات مرتب ہو سکتے ہیں وہ اپنی جگہ صحىح ہیں لیکن اس کے معاشرے پر جو منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ان میں سے ایک معاشی نقصان بھی ہے کہ اس نظام سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے خاندان کے افراد دوسروں پر انحصار کرتے ہوئے کام سے کنی کتراتے رہیں گےجس سے افراد خانہ محنت و مشقت کرنا ترک کر دیتے ہیں جس سے معاشرے میں گدا گری جیسی لعنت جنم لیتی ہے اس سے "وأَنْ لَيْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَى" ([35]) کا تصور مفقود ہوتا نظر آتا ہے جس سے معاشرے کے افراد سہل پسندی اور سستی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
معاشرتی اثرات
نظام رہائش
مشترکہ خاندانی نظام میں رہائش کا نظام بھی درہم برہم نظر آتا ہے۔ وہ افراد جن سے پردہ ضروری ہوتا ہے ان سے بھی پردہ کرنا مشکل ہو جاتا اس وجہ سے معاشرے میں گھریلو ناچاقىاں جنم لیتی ہیں ۔ ساس بہو کی لڑائی کی ایک وجہ یہ بھی نوٹ کی گئی ہے۔ اس نظام کے تحت کھانے پینے کا انتظام چونکہ اکھٹا ہوتا ہے اور اس میں تسھل کی صورت میں لامحالہ وہ آیت قرآنی کے مخاطب قرار پائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"وَلَا تَأْكُلُوا أَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ "([36]) "آپس میں ایک دوسرے کے مال کو ناحق نہ کھاؤ"
نفسیاتی اثرات
مشترکہ خاندانی نظام میں چونکہ عموما سرپرستی گھر کر بڑے فرد کے ذمے ہوتی ہے جس ذمہ داری کی وجہ سے باقی افراد نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہو سکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے باپ کو اس بات کی تاکید کی ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کے درمیان مساوات و برابری کا برتاؤ کرے ۔ سرپرستی کا یہ تصور ہندوانہ طرز معاشرت کا چربہ محسوس ہوتا ہے ۔ جیسا کی منو سمرتی میں ہے کہ:
باپ کے بعد بڑا بیٹا ساری جائیداد کا مالک ہو گا اور باقی بیٹوں کا بڑے بھائی پر انحصار ہو گا۔([37])
اس کے ساتھ ساتھ ایک جگہ رہنے سے انسان کی نجی زندگی کا تحفظ اور پرائیویسی کے عدم حصول کی وجہ سے بے اطمنانیت کا وار ہوتا ہے جو اپنے ساتھ معاشرے کے بگاڑ کے کئی اور اسباب پیدا کرتی ہے۔
جداگانہ خاندانی نظام اور معاشرے پر اس کے اثرات
جدا گانہ خاندانی نظام
وہ خاندانی نظام جس میں انسان اپنی ایک یا ایک سے زیادہ بیویوں اور بچوں کے ساتھ الگ ایک مکان میں رہائش پذیر ہوں جدا گانہ خاندانی نظام کہلاتا ہے([38])۔
اس نظام کی تائید بھی قرآن و سنت سے ہوتی ہے۔ معاشرے کا ہر فرد شادی کے بعد علیحدہ زندگی گزارنے کا خواہاں نظر آتا ہے اور ایسا کرنا اس کا حق بھی ہے جس کی طرف قرآن نے رہنمائی بھی فرمائی ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا "([39])
" اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں داخل نہ ہو یہاں تک کہ اجازت نہ طلب کر لواور ان پر سلام نہ پہنچاؤ"
شریعت اسلامیہ کا مقصد یہ ہے کہ وہ خرابیاں جو بعد میں پیدا ہوں یا جن کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہو ان کی بیخ کنی بر وقت کر دی جائے۔ شریعت اسلامیہ کا اصول و منہج تو اس معاملے میں یہ ہے کہ اگر بیویاں زیادہ ہیں تو ان کو بھی علیحد ہ علیحدہ مکان میں رکھا جائے۔ اس کا اشارہ بھی قرآن سے ملتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ"([40]) " اے ایمان والو! نبی ﷺ کے گھر داخل نہ ہو سوائے اس کے کہ تم کو اجازت مل جائے"
قرآن مجید میں حجرات کے نام سے ایک مکمل سورۃ بھی اللہ نے نازل کی جس سے آپﷺ کی تمام ازواج کے الگ الگ مکان کا تصور ملتا ہے۔
اگر آپﷺ کیحیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو آپﷺ کی تمام ازواج مطہرات کا علیحدہ حجرہ تھا یعنی تمام ازواج مطہرات کو علیحدہ گھر کی چار دیواری مہیا کی گئ تھی۔
آپ ﷺ کے معمولات سے بھی یہ بات واضح ہوتی ہے کہازواج مطہرات کے لیے الگ مکان تھے۔ علامہ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ:آپ ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ اپنی بیویوں کو اس بیوی کے مکان میں اکھٹا فرماتے تھے جن کے ہاں رات گزارنے کی آپﷺ کی باری ہوتی تھی۔([41])
حضرت علی و فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نکاح کے بعد آپ کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کہنا کہ (دونك أهلك) یہ لو تمہاری بیوی تمہارے پاس ہے یہ فرمانے کے بعد دونوں اپنے کمرے میں چلے گئے۔([42])
· دوسری جانب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ملتی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی کے آخری رمضان میں ایک دن حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر روزہ افطار کیا دوسرے روزحضرت حسین رضی ا للہ تعالیٰ عنہ کے گھر روزہ افطار کیا جبکہ تیسرے روز اپنے داماد حضرت عبداللہ بن جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر روزہ افطار کیاجس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ بھی علیحدہ اپنے گھروں میں رہتے تھے مگر ساتھ ہی وہ صلہ رحمی کے تحت رشتوں کو اعتدال کے ساتھ نبھاتے تھے۔
فقہاء نے بھی حق سکنٰی میں اس بات کی وضاحتیں کی ہیں کہ:
"وعلی الزوج أن یسکنها في دار مفردة لیس فيها أحد من اهله إلا أن تختار ذٰلك"([43])
'اور شوہر پر واجب ہے کہ وہ بیوی کے لئے رہائش فراہم کرے بالکل الگ گھر میں جس میں اس کے متعلقین میں سے کوئی بھی نہ ہومگر یہ کہ عورت خود ایسا پسند کرے"
کمسن اولاد کی کفالت کے لیے بھی اسلام نے نظام نفقات دیا ہوا ہے ۔یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ آج مغرب جو جد اگانہ خاندانی نظام کا تصور پیش کر رہا ہے ، اسلام کے نزدیک یہ تصور بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ اسلام مساوات برابری کا داعی مذہب ہے اس نے انسانی زندگی کے دونوں پہیوں (والدین اور اولاد )کے درمیان نہ صرف بیلنس رکھا ہے بلکہ انہیں الہی قوانین کے تابع کر دیا تاکہ کہیں پر بھی بگاڑ کی صورت کیا، اس کا شائبہ تک نہ رہے۔
جداگانہ خاندانی نظام کے معاشرے پر اثرات
مثبت اثرات
معاشی اثرات
سارے اخراجات اور کمائی کا مرکز ایک ذات ہو تی ہے جس وجہ سے وہ اپنی انکم کو سامنے رکھ کر خرچ کرے گا اور اپنے والدین کا بھی اچھے طریقے سے خیال رکھ سکے گا۔اس سے صاحب خانہ ذہنی تناؤ کا شکار بھی نہیں ہو گا اور اپنی انکم کو بھی بچا سکتا ہے۔
معاشرتی اثرات
سسرالیوں کی بے جا مداخلت کا سد باب
اس سے سسرال کی طرف سے بے جا روک ٹوک اور لڑائی جھگڑوں سے بچت ہو جاتی ہے جس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ودنوں خاندانوں میں پیدا ہونے والی دوریوں سے نجات مل جاتی ہے۔ *
شوہر خدمت کا مرکز
اس نظام کی وجہ سے بیوی کی خدمت کا مرکز اس کا شوہر ہی ہوتا ہے جس پر وہ اپنی پوری توانائیاں سرف کر دیتی ہے نتیجتا شوہر بھی اس کی محبت میں گرفتار ہو جاتا ہے ۔ اس سے معاشرے پر جو اثر مرتب ہوتےہیں وہ یہ کہ طلاق جیسی لعنت ، شوہر کا باہر روابط بنانا وغیرہ بری خصلتوں سے جان چھوٹ جاتی ہے۔
جداگانہ خاندانی نظام کے معاشرے پر منفی اثرات
معاشرتی اثرات
گھریلو ذمہ داریوں کی پامالی
اس نظام میں چونکہ ساری ذمہ داریاں فرد واحد کے کندھوں پر آجاتی ہے جن کا بر وقت ادا کرنا فرد واحد کے لیے نہ صرف مشکل ہے بلکہ بعض اوقات ناممکن بھی معلوم ہوتا ہے۔اس نظام کی وجہ سے بعض اوقات معاشرے کے سلجھے ہوئے بچوں کی تربیت میں بھی بہت فرق آ جاتا ہے ۔*
خاندانی روایات سے محرومی
اس نظام کی ایک خامی یہ ہے کہ انسان خاندانی رسم و رواج سے یکسر جدا ہو کر نہ صرف خود ان روایات کو بھول جاتا ہے بلکہ آنےوالی نسل کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان خوبصورت رسم ورواج کی بیخ کنی کر دیتا ہے۔اور بچے جو ماحول سے سیکھتے ہیں وہ اس نعمت سے محروم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
نفسیاتی اثرات
بچے جو ماحول سے سیکھتے ہیں انہیں اس نظام کی وجہ سے اپنے اسلاف کی روایات اور کلچر سے ناواقفیت کی وجہ سے وہ نفسیاتی طور پر دباؤ کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ معاشرے کے ان بچوں سے ہمیشہ دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں جنہوں نے مشترکہ خاندانی نظام کے تحت پرورش پائی ہو ۔
معاشی اثرات
کارو بار یا ملازمت کے سلسلے میں بیرون ملک یا اندرون ملک جانے سے گھر کی دیکھ بھال کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ملازم رکھنے کی صورت میں اس کے بااعتماد ہونے یا نہ ہونے کے مسائل جنم لیتے ہیں۔
معاشی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے سارا دن محنت ومشقت کرنے سےاولاد کی تعلیم و تربیت کا فقدان سامنے آتاہےجو اپنے ساتھ بے شمار برائیوں کو جنم دیتا ہے۔
حاصل کلام
آخر میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ مشترکہ خاندانی نظام ہو یا جداگانہ دونوں کا ثبوت عہد رسالت اورعہد صحابہ سے ملتا ہے، لہٰذا دونوں نظام فی نفسہ جائز ودرست ہیں، جہاں جس نظام میں شریعت کے حدود وقوانین کی رعایت وپاسداری اور والدین ودیگر زیر کفالت افراد اورمعذورین کے حقوق کی حفاظت ہوسکے اور فتنہ نزاع سے بچاجاسکے اس نظام پرعمل کرنا بہتر ہوگا،اس لیے کسی ایک نظام کی تحدید نہیں کی جاسکتی۔ نیز اس دو طرفہ نظام کے منفی اثرات کو مثبت اثرات میں اس انداز سے تبدیل کیا جا سکتا ہے کہخاندان کا ہر فرد اللہ تعالی ٰ اور رسول اللہ کےبیان کردہ حدود و تعلیمات کا پاس دارہو۔ احساس ذمہ داری، عدل و احسان اور ایثار کا جذبہ اپنی زندگی کا اوڑھنا بچھونا بنا لےاگر ایسا کر لیا جائے تو نظام خواہ مشترکہ ہو یا جداگانہ یقینا مثالی ہو گا اور معاشرے پر اس کے اثرات مثبت ہوں گے ۔
حوالہ جات
- ↑ حوالہ جات: لسان العرب، ابن منظور افریقی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1988ء، 4/223
- ↑ موسوعة الأسرة، عبدالمحسن عبدالله ، الخرافی، اللجنة الاستشارية العلیا، کویت، الطبعة الاولی، 2003ء، ص: 80
- ↑ التحریم: 3
- ↑ القاموس المحیط، مجد الدین محمد بن یعقوب، الفیروز آبادی، تحقیق: محمد نعیم العرقسوی، مؤسسة الرسالة، الطبعة الرابعة، 1415ھ-1994ء، مادہ اُسر
- ↑ الدهر: 28
- ↑ معجم لغة الفقهاء، دکتور محمد رواس قلعجي، دار النفائس ، للطباعة والنشر والتوزیع، شارع فردان– بنایة الصباح، بیروت – لبنان، طبع دوم 1988 م 1/ 299
- ↑ طه: 10
- ↑ الاعراف: 83
- ↑ موسوعة الفقهية الکویتية، وزارۃ الاوقاف و الشوؤن الاسلامية، 1418ه-1997ء، 4/ 223
- ↑ الدر المختار شرح تنویر الابصار في الفقه الحنفي مع حاشية ابن عابدین، محمد أمين بن عمر بن عبد العزيز عابدين الحنفي ،د ار الفكر-بيروت، طبع دوم، 1992م، 5/452، الشعراء: 26
- ↑ عورت خاندان اور ہمارا معاشرہ، خالد رحمان وغیرہ، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈی، اسلام آباد،2007ء، ص: 47
- ↑ موسوعة الاسرة، عبدالمحسن عبدالله، 3/33
- ↑ الروم: 21
- ↑ المائدہ: 2
- ↑ صحیح بخاری، کتاب الجمعة، باب الجمعة فی القری والمدن، حدیث نمبر: 893
- ↑ النساء: ۱
- ↑ جامع البیان في تاویل القرآن، 3/565
- ↑ المائدة: 27
- ↑ هود: 40-42
- ↑ البقرة: 127
- ↑ عورت خاندان اور ہمارا معاشرہ، ص: 139،// Religion in Contemporary Cultures, Benson, The Divinity School of the University of Chicago,1921, P :777
- ↑ The Family Life of Islam, Syed Saeed Akhtar Razvi, World Organization for Islamic Services, Tehran, Iran, P/11
- ↑ الحجرات:13
- ↑ ۲۷ The Family Life of Islam, Syed Saeed Akhtar Razvi, p: 11
- ↑ الاسراء:۲۴
- ↑ صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل البخاری، باب مواقیت الصلوٰة، حدیث نمبر: 504
- ↑ صحیح البخاری، محمد بن اسماعیل البخاری باب الجمعة، حدیث نمبر:753
- ↑ البقرة:۲۲۸
- ↑ مستدرک حاکم کتاب الاحکام، حیدرآباد،دکن، 4/93
- ↑ الترمذی، أبواب البر والصلة ، باب ما جاء في رحمة الصبيان ،حدیث نمبر: 1920
- ↑ آل عمران: 103
- ↑ الاسراء:24
- ↑ بخاری، کتاب الطلاق،حدیث نمبر : 5659
- ↑ صحیح مسلم، باب الأشربة، حدیث نمبر: 2059
- ↑ النجم: 39
- ↑ البقرة: 188
- ↑ ملاحظہ ہو: منو سمرتی، ترجمہ لالہ سوامی دیال صاحب ، ادھیائے،9:105تا 108
- ↑ The Family Life of Islam, Syed Saeed Akhtar Razvi, P: 11
- ↑ النور: 27
- ↑ الاحزاب: 53
- ↑ تفسیر ابن کثیر، 1/ 466
- ↑ حیاة الصحابہ، 2/668
- ↑ الدر المختار ،3/599
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 1 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |