Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 37 Issue 1 of Al-Idah

معاشی امداد باہمی کے جدید ادارے اور اسلامی نقطہٴ نظر: ایک تحقیقی و تنقیدی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

اسلام نے معاشرے کو پر امن رکھنے کے لیے امداد باہمی کا درس دیا تا کہ تمام انسانوں کے باہمی احترام کے رشتے کو باقی رکھتے ہوئے ان کےمعاشی و معاشرتی اور دیگر اجتماعی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جاسکے۔ اہمی امداد کے جذبے کے ذریعے افراد معاشرہ میں اخوت ، ہمدردی اور محبت واحترام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جس سے معاشی ومعاشرتی استحکام بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس جذبہ کو ایک اصول اور قانون کے طور پر بیان فرمایا ۔ارشاد ربانی ہے:

"وَلَا یَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ أَنْ صَدُّوكُمْ عَنِ الْمَسْجِدِالْحَرَامِ أَنْ تَعْتَدُواْ وَتَعَاوَنُواْ عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَى الإِثْمِ وَالْعُدْوَانَ"[1]

ترجمہ: "اور لوگوں كی دشمنى اس وجہ سے كہ انہوں نے تم كو عزت والی مسجد سے روكاتھا تمہیں اس بات پر آمادہ نہ كرے كہ تم اُن پر زیادتى كرنے لگو ۔ اور نیكى اور پرہیزگارى كے كاموں میں ایك دوسرے كی مدد كیا كرو اور گناہ اور ظلم كی باتوں میں مدد نہ كیا كرو۔"

اسلام نے انسانوں کو عام طور پر اور مسلمانوں کو خاص طور پر تعلیم دی کہ ایک دوسرے سے تعاون کریں۔اور اس میں مالی تعاون سرِ فہرست ہے جس کےلیے باقاعدہ زکوۃ و صدقات کی صورت میں ایک نظام دیا۔جس کی بنیاد باہمی ہمدردی وتعاون اور اخوت پر ہے۔اور مقصد معاشرے سے غربت و افلاس کا خاتمہ اور سود، ذخیرہ اندوزی، فریب، چوری اور کرپشن جیسی برائیوں کی بیخ کنی کرنا ہے۔ البتہ سرمایہ دار ی نظام کے زیرِ اثر آج کے جدید معاشروں میں امدادِ باہمی کے نام پر بعض ایسے جدید ادارے وجود میں آئے ہیں جنہوں نے اسلامی معاشرے پر بھی گہرے اثرات مرتب کئے ہیں ۔ ایسے میں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تحقیق کرتے ہوئے ان جدید مالی معاونت کے اداروں میں پائے جانے والے نقائص کو واضح کرے تا کہ ان میں موجود خرابیوں اور محرمات سے بچا جا سکے۔

امداد باہمی کا مفہوم:

امداد باہمى سے مراد ہے:

"امداد سے مراد ، ہاتھ بٹانا، اعانت کرنا، وظیفہ ، عطیہ اور بخشش ہے اور امداد باہمی سے مراد مشترکہ مفاد کےلیے آپس کی تنظیم اور باہمی اشتراک سے سماجی یا معاشی فلاح وبہبود کے کام انجام دینا"[2]

امداد باہمى كو عربى میں’’التعاون الاجتماعى‘‘ كہتے ہیں،جو اسی مفہوم کو ادا کرتا ہے جس کا ہم نے اوپر تذکرہ کیا ہے یعنی اس سے مراد کسی بھی میدان میں ایک دوسرے کی معاونت ہے۔ البتہ سرِ دست ہماری بحث جدید معاشروں میں اقتصادی ومعاشی امداد باہمی ہے۔

جدید عہد کی بات کی جائے تو دیکھنا پڑے گا کہ آج کےمعاشی نظام میں امدادِ باہمى کےتصور کی بنیاد کیا چیز ہے ۔اس حوالے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جدید نظامِ معیشت نے امداد باہمی کا تصور اداروں کی شکل میں دیا ہے۔جو کہ دوحصوں پر مشتمل ہیں:

۱۔ كوآپریٹو بنكنگ سسٹم (Cooperative banking system): اس سسٹم میں مالی امداد کے لیے بینكنگ کا نظا م بنایا گیا ہے۔

۲۔ كوآ پریٹو ایڈمنسٹریٹو سسٹم(Cooperative Administrative System):اس سسٹم میں دو ادارے شامل ہیں : (i) كوآپریٹو سوسائٹیز (ii)انشورنس

معاشی طور پرلوگوں کو باہم امداد پہنچانے والے مذکورہ اداروں کی وضاحت حسب ذیل ہے:

۱۔ کوآپریٹوبینکنگ سسٹم (Cooperative banking system):

اس میں امدادِ باہمى كے بنك شامل ہیں۔یہ بینك كسى مخصوص علاقے میں کھولے جاتے ہیں۔ جن كا مقصد اس علاقے كے لوگوں كی ضرورت کے تحت ان كی وقتی مالى امداد كرنا اور قرض كی سہولت فراہم كرنا ہوتا ہے ۔ یہ بینك ممبران سے ڈیپازٹس لیتے ہیں اور انہیں قرض دیتے ہیں ۔ یہ بینك عام سٹاك ہولڈربنكوں سے مختلف ہوتے ہیں لیكن تمام بنكنگ قوانین كی پیروى كرتے ہیں ۔ ان بینكوں كی تعریف اس طرح كی گئى ہے :

"وہ لوگ جو مشتركہ مقاصد كے تحت مل كر امدادِ باہمى کی انجمنیں بناتے ہیں جب یہ انجمنیں بینكنگ كے فرائض سرانجام دیتى ہیں تو انہیں امدادِ باہمى كا بینك كہا جاتا ہے"[3]

گویا كوآپریٹو بنك وہ مالى ادارے ہیں جن كے ممبران اپنى جمع کی ہوئی رقوم اكٹھی كركے ان سے باہمى فوائد حاصل كرتے ہیں ۔ یہ ممبران بنك كے گاہك بھى ہوتے ہیں اور مالك بھى۔ اور ایك ہی علاقے اور كاروبار سے تعلق ركھتے ہیں یا كسى ایك ہی تنظىم سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ اور تنظىم میں مشتركہ ممبرشپ كے مالك ہوتے ہیں ۔

۲۔ كوآ پریٹو ایڈمنسٹریٹو سسٹم(Cooperative Administrative System):

جدید نظام معیشت میں امدادباہمی کا دوسرا حصہ یا اہم ادارہ ایڈمنسٹریٹیو سسٹم پر مشتمل ہے جس میں پرائمری کوآپریٹو سوسائٹیز اور سیکنڈری کوآپریٹو سوسائٹیز یعنی انشورنس کے ادارے شامل ہیں ۔ان کی وضاحت حسب ذیل ہے:

پرائمری کوآپریٹو سوسائٹیز

انسائیکلوپیڈیا امریکانا میں کوآپرئٹو سوسائٹیز کی تعریف اس طرح کی گئی ہے:

"Cooperative are voluntary economic associations in which the members share the "earned dividends" - the financial benefits that result from doing business at cost or without profits". [4]

اس کی ایک تعریف اس طرح کی گئی ہے :

" کوآپریٹو سوسائٹی ایسے افراد کى تنظیم ہے جو اپنے مشترکہ معاشی، سماجی اورثقافتی ضروریات کیلئے متحد ہوتے ہیں۔یہ تنظیمیں بلا منافع کام کرتی ہیں اور اپنے ممبران کا معاشی و معاشرتی تحفظ کرتی ہیں۔"[5]

سیکنڈری کوآپریٹوسوسائٹیز یا انشورنس

جدید نظام معیشت میں امداد باہمی کا ایک اہم ادارہ سیکنڈری کوآپریٹوسوسائٹیز یا انشورنس ہے، جسے موجودہ دور کی صنعتی ترقی اور بڑے پیمانے کی تجارت ، صنعت اورزراعت کی تنظیم میں اہم مقام حاصل ہے ۔یہ ادارہ انشورنس یا بیمہ کے نام سے زیادہ معروف ہے۔انشورنس انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ضمانت ، تحفظ اوریقین دہانی کے ہیں۔ اسے اردو میں بیمہ اورعربی میں تامین کہتے ہیں۔انشورنس کاروبار کی ایک ایسی شکل ہے جس میں پالیسی ہولڈر کو مستقبل کے خطرات سے تحفظ اورغیر متوقع نقصانات کی تلافی کی ضمانت دی جاتی ہے۔ جو کمپنی یہ کاروبار کرتی ہے اسے انشورنس کمپنی کہتے ہیں۔ انشورنس کے بارے میں انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیكا کامقالہ نگار لکھتا ہے :

"Insurance is a social device that has been developed to handle risk. Its primary function is to substitute certainty for uncertainty as regards the economic cost of disastrous event" [6]

ترجمہ: "انشورنس ایک ایسی معاشرتی تدبیر ہے جسے خطرے پر قابو پانے کے لیے بنایا گیا ہے۔اس کا بنیادی کام یہ ہےکہ کسی بھی تباہ کن واقعہ کی معاشی قیمت کے حوالےسےغیریقینی صورتحال کا یقینی متبادل فراہم کرے"۔

گویا انشورنس ایک ایسی تدبیر ہے جو افراد کے ایک ایسے گروہ کے درمیانی نقصان کے خطرے کو تقسیم کر دیتی ہے جنہوں نے متوقع مالی نقصان کے لیے فنڈز جمع کیے ہوئے ہیں۔ یہ گروہ میں رسک اور نقصان کو منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ جہاں افراد کو اکیلے سارا نقصان برداشت نہیں کرنا پڑتا۔

عہد ِ جدید کے امدا د ِ باہمى کےیہ ادارے چونکہ اشتراكیت وسرمایہ دارانہ نظام كا حصہ ہیں اس لئے ان جدید نظاموں كی خصوصیات اور مقاصد ان اداروںمیں موجود ہیں ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے كہ كیا اسلام میں امدادِ باہمى كے یہ ادارے اپنى موجودہ شكل اور شرائط كے ساتھ جائز اور درست ہیں ؟ تو اس كا جواب یہ ہے كہ ان اداروں میں ربا، قمار، غرر، دَین كے بدلے دَین كی بیع ، اور اسلام كے نظام وراثت ووصیت كی خلاف ورزى جیسے عناصر پائے جاتے ہیں جن كی شریعت اسلامیہ میں ممانعت موجودہے ۔ ان عناصر كا ایك مختصر جائزہ اسلامى تعلىمات كی روشنى میں لیتے ہیں ۔

۱۔ رِبا (سود):

یہ عربى زبان كا لفظ ہے جس كا اصل مادہ رَبَوَ ہے ۔ جس کے معنى اضافہ ہونے اور نمو كے ہیں ۔ جیسا كہ قرآن كریم میں ہے:

"وَیرْبِی الصَّدَقَاتِ" [7]

ترجمہ: " (اللہ)صدقات کو نشوونما دیتا ہے"۔

"اور حرام ربا وہ قرض ہے جس كے بدلے میں زىادہ واپس لیا جائے اور منافع وصول كیا جائے۔" [8]

المفردات كے مطابق :

"الربا : الزیادة على رأس المال لكن خُصَّ فی الشرع بالزیادة على وجه دون وجه،باعتبار زیادة"[9]

ترجمہ: "ربا لغت میں راس المال پراضافے كا نام ہے اور شریعت میں ایك مخصوص اضافہ كو ربا كہا جاتا ہے "۔

اصطلاحاً ربا سے مراد ایسى زیادتى ہے جو بغیر كسى مالى معاوضہ كے حاصل كى جائے ۔ ابن منظورلكھتے ہیں :

" وهو فی الشرع الزیادة على أصل المال من غیر عقد بتابع " [10]

ترجمہ: "شرعى اصطلاح میں بیع كے عقد كے بغیر راس المال میں زیادتى ہے"۔

الغرض ربا سے مراد ایك فریق دوسرے فریق كو كم رقم اس شرط پر دے كہ دوسرا فریق اس رقم كو كچھ بڑھا كر واپس كردے۔ سود كے اجزائے تركیبى تین ہیں ،جو جس معاملہ قرض میں بھى پائے جائیں گے وہ سودى معاملہ ہوگا چاہے وہ قرض صرفى ضرورىات كے لیے لیا گیا ہو یا تجارتى ضرورت كے لیے ۔ وہ تین اجزاء یہ ہیں:

ا۔راس المال پر اضافہ

ب۔اضافہ كی تعیین مدت كے لحاظ سے كیے جانا ۔

ج۔اور معاملہ میں اس كا مشروط ہونا ۔[11]

جدید دور كے امدادِ باہمى کےاداروں میں ربا كا مركزى كردار ہے ۔ مثلاً كوآپریٹو سوسائٹیزاور امدادِ باہمى كے بنك ممبران سے جو رقوم امانتاً وصول كرتے ہیں اور پھر جو رقوم انہیں قرض كی صورت میں دیتے ہیں دونوں مقررہ شرح سے سود دیتے اور لیتےہیں۔ اس كے علاوہ ان دونوں اداروں كے دیگر شعبہ جات میں بھى سود مركزى حیثیت ركھتا ہے ۔ اسى طرح انشورنس میں انشورنس كمپنى افراد سے سرماىہ جمع كرتى ہے اور پھر كاروبارى اداروں كو یہ سرماىہ سود پر دیتى ہے، پھر بیمہ دار كو بیمہ مکمل ہونے پر یا حادثے كی صورت میں جورقم دیتى ہے وہ بھى سود كی مد میں سے آتى ہے۔ مثلاً بیمہ كمپنى كسى بیمہ دار كو رقم دیتى ہے اس كی دو صورتیں ہیں:

ایك تو یہ كہ كمپنى مدت كی تكمیل كے بعد بیمہ دار كو اصل رقم (مثلاً چالیس ہزار ) واپس كردیتى ہے ۔

دوسرى صورت میں كمپنى اصل رقم سے زائد رقم ادا كرتى ہے ۔ (مثلاً ساٹھ ہزار روپے) ۔ ان دونوں صورتوں میں ربا كی دونوں اقسام (ربا النسيئة اور ربا الفضل) آجاتى ہیں ۔ [12]

"اور دوسرى صورت میں اگر كمپنى حادثہ كی صورت میں زائد رقم ادا كرتى ہے تو یہ بغیر عوض زائد رقم ربا الفضل كے زمرے میں آئے گى"۔ [13]

گویا یہ ادارے ربا کی بنیاد پر ہی کام کرتے ہیں اور ان سے حاصل آمدن کسی بھی صورت میں ربا یا سود سے پاک نہیں ہوتی۔ جبکہ اسلامی نظامِ معیشت کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ربا سے پاک ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت وارد ہوئی ہے۔

ربا ازروئے قرآن:

اسلام نے سود /ربا کی شدید ممانعت فرمائی ہے ۔چنانچہ سود كی قطعى حرمت كے بارے میں یہ آیت قرآنى نازل ہوئى :

"یاأَیهَا الَّذِینَ آمَنُواْ لاَ تَأْكُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" [14]

ترجمہ: "اے ایمان والو بڑھا چڑھا كر سود نہ كھاؤ اور اللہ تعالى سے ڈرو تاكہ تمہیں نجات ملے "۔

اس كے بعد اسى طرح سورۃ البقرہ میں سود خوروں كے لیے ایسى وعید آئى ہے كہ جو كفر كے علاوہ اور كسى بڑے سے بڑے گناہ پر نہیں آئى ۔ ارشاد ربانى ہے :

"یَاأَیّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّهَ وَذَرُواْ مَا بَقِی مِنَ الرِّبَا إِن كُنتُم مُّؤْمِنِینَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُواْ فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّهِ وَرَسُولِهِ وَإِن تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُؤُوسُ أَمْوَالِكُمْ لاَ تَظْلِمُونَ وَلَاتُظْلَمُونَ" [15]

ترجمہ: "اے ایمان والو اللہ تعالى سے ڈرو اور جو سود باقى رہ گیا ہے وہ چھوڑ دو ۔ اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو اور اگر ایسا نہیں كرتے تو اللہ تعالى اور اس كے ر سول ﷺ سے لڑنے كے لیے تیار ہوجاؤ "۔

گویا سود کا معاملہ کرنا اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔

ربا ازروے حدیث :

قرآن كے علاوہ احادیث میں بھى ربا كی ممانعت آئى ہے ۔ اس سلسلہ میں متعدد احادیث موجود ہیں تاہم یہاں چند ایك پر اكتفا كیا جائے گا۔

آنحضرت ﷺ نے فرمایا :

"الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا، أَیسَرُهَا أَنْ ینْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ" [16]ترجمہ: "سود كے ستر وبال ہیں ۔ ان میں سے سب سے ادنى قسم ایسا ہے جیسے كوئى اپنى ماں سے بدكارى كرے"۔

سودى تجارت اور كاروبار میں بركت نہیں ہوتى بلكہ سود مال میں كمى كا باعث بنتا ہے ۔ حدیث مباركہ میں ہے :

"مَا أَحَدٌ أَكْثَرَ مِنَ الرِّبَا ، إِلاَّ كَانَ عَاقِبَةُ أَمْرِهِ إِلَى قِلَّةٍ" [17]

ترجمہ: "جس شخص نے سود كے ذریعے زیادہ مال كمایا ، انجام كار اس میں كمى ہوگى"۔

قرآن وحدیث كے ان صریح احكامات كی موجودگى میں كسى مسلمان كے لیے یہ جائز نہیں كہ وہ سودى كاروبار كرے ۔ علاوہ ازیں سود كے بےشمار نقصانات ہیں جو انسان كی اخلاقى ، معاشى اور معاشرتى زندگى كو متاثر كرتے ہیں ۔

۲۔ قمار (جوا)

عہد ِجدید کے ان اداروں میں پائى جانے والى دوسرى بڑى خرابى قمار ہے ۔ اس كامطلب ہے چانس كا كھیل ، یعنى كسى دوسرے كے نقصان سے فائدے كا حصول، اس میں كوئى شخص اپنى دولت یا اس كا كچھ حصہ اس لیے داؤ پر لگاتا ہے كہ اس سے زیادہ پیسہ حاصل ہوگا یا پھر وہ ضائع ہوجائے گا ۔گویا قمار كامطلب ہے جوا كھیلنا ، پانسہ كھیلنا ، شرط بازى ، روپیہ پیسہ كی ہارجیت كا كھیل، قمار كو جوا ، سٹہ اور میسر بھى كہا جاتا ہے [18]

مفتی محمد شفیع کے مطابق:

"كسى معاملہ میں نفع ونقصان كو غیر معین یا غیر معلوم چیز پر معلق ركھنا شرع میں قمار اور میسر كہلاتا ہے۔"[19]

مولانا تقى عثمانى كے مطابق:

"اس سے مراد ہے دو یا دو سے زائد افراد آپس میں اس طرح كا كوئى معاملہ كریں جس كے نتیجے میں ہر فریق كسى غیر یقینى واقعے كی بناء پر اپنا كوئى مال( فورى ادائیگى كركے یا ادائیگى كاوعدہ كركے ) اس طرح داؤ پر لگائےكہ وہ یا تو بلا معاوضہ دوسرے فریق كے پاس چلا جائے یادوسرے فریق كامال پہلے فریق كے پاس بلامعاوضہ آجائے یہ قمار ہے" [20]

گویا تین چیزیں ہرقسم كے جوئے میں مشترك ہیں:

۱۔شرط پر لگائى گئى رقم یا چیز كاتعین

۲۔شرط جیتنے یا ہارنے پر ہونے والے نفع یا نقصان كا تخمینہ

۳۔ كھیلنے كا معاہدہ

قمار كی صورتیں :

قمار كی دو صورتیں ہیں :

پہلى صورت یہ كہ غیر یقىنى واقعہ پیش آنے كی صورت میں ادائیگى لازمى ہو جیسے شرط لگانا مثلاً زید خالد سے یہ شرط لگائے كہ اگر پاكستان جیت گیا تو میں تمہیں سوروپے دوں گا اور اگر ہارگیا تو تم مجھے سوروپے دو گے ۔ یا كوئى كھیل كھیلنےسے پہلے یہ شرط لگائى جائے كہ جو ہارگیا وہ جیتنے والے كو اتنى متعین رقم ادا كرے گا ۔

دوسرى صورت یہ كہ ایك فریق پہلے سے ادائیگى كردیتا ہے پھر اگر وہ غیر یقینى واقعہ پیش آجائے تو وہ اپنى رقم سمیت كئى گنا زیادہ لے لیتا ہے ورنہ اپنى دى ہوئى رقم سے بھى محروم ہوجاتا ہے ۔ اس كى مثال لاٹرى ہے كہ اس میں مقابلے میں حصہ لینے والا پہلے متعین رقم ادا كركے ٹكٹ خریدتا ہے اگر اس كے نام قرعہ نكل آئے تو وہ دى ہوئى رقم سے كئى گنا بڑھ كر رقم حاصل كرتا ہے اورنہ نكلے تو اپنى رقم سے بھى محروم رہتا ہے۔ [21]

اب دیکھتے ہیں کہ اسلام کا قمار کے بارے میں کیا نکتہ نظر ہے:

قمار ازروئے قرآن وحدیث :

قرآن پاك میں جوئےكی ممانعت كے لیے میسر كا لفظ استعمال ہوا ۔ارشاد ہوتا ہے:

"یَاأَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیسِرُ وَالأَنصَابُ وَالأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ" [22]

ترجمہ: "اے ایمان والو بات یہی ہے كہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نكالنے كے پانسے تیریہ سب گندى باتیں اورشیطانى كام ہیں ان سے بالكل الگ رہو تاكہ تم فلاح یاب رہو "۔

اسى طرح احادیث میں بھى قمار كی مذمت آئى ہے :

"مَنْ قالَ لِصاحِبِه تعال اُ قَامِرُك فَلْیتَصدَّق" [23]۔

ترجمہ: اگر كسى نے اپنے ساتھى سے كہا كہ آؤ قمار کھیلیں تو اسے محض یہ بات كہنے پر صدقہ كرنا چاہیے ۔

قرآن و حدیث کے ان حوالوں سے ثابت ہوتا ہے کہ قمار اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ عمل ہے۔

عہد جدید میں قمار كی صورتیں :

قمار غرر كی ایك صورت ہے ۔ كیونكہ فرد كو جوئے كے نتیجے كا علم نہیں ہوتا ۔ وہ داؤ پر پیسہ لگاتا ہے كہ اسے ایك بڑى رقم ملے گى یا یہ بھى ضائع ہوجائے گى۔ موجودہ دور میں قمار كی كئى ایك اقسام وجود میں آچكى ہیں ان میں چند اہم اقسام جو جدید امداد باہمى كے اداروں میں بھی موجود ہیں درج ذیل ہیں :

۱۔ ایك قسم لاٹرى سسٹم ہے جوجوئے كی شكل ہے۔ آج كل مالى اداروں میں یہ سسٹم بہت مقبول ہے ۔ یہ طریقہ غلط ہے۔کیونکہ اس میں ایك فرد كا فائدہ دوسرے كے نقصان پر انحصار كرتا ہے۔اس میں سرمایہ دار كو ترغیب دى جاتی ہے كہ وہ قرعہ اندازى سے غیر متناسب انعامات تقسیم كرے ۔

۲۔ قمار كی ایك اور صورت بنكوں كی مختلف اسكیمیں ہیں جن میں سرفہرست پرائزبانڈز ہیں۔ پرائز بانڈز حکومت یا کمپنیوں کی طرف سے جاری کردہ قرض کی دستاویز ہوتے ہیں۔ ان کے بارے میں علماء کی رائے مختلف ہے۔البتہ جمہور علمائے امت کے نزدیک یہ ممنوع ہیں۔[24] كیونكہ اس میں جو رقم انعام کے طور پر دی جاتی ہے وہ قرض پر اضافہ ہے اور یہ سود کے زمرے میں آتا ہے۔جیسا کہ امام محمد ؒ فرماتے ہیں:

" کُلُ قرضٍ جر منفعة فلا خیر فیه، وبه ناخذ وهو قول ابی حنیفه"[25]

ترجمہ: " ہر وہ قرض جو نفع کھینچ لائے اس میں خیر نہیں۔(امام محمد فرماتے ہیں) اسی کو ہم لیتے ہیں اور یہی امام ابو حنیفہ ؒ کا قول ہے"۔

علاوہ ازیں پرائز بانڈ میں ’’تعاون علی الاثم‘‘ بھی پایا جاتا ہے۔ کیونکہ بانڈز جاری کرنے والے ادارے جمع شدہ رقم سے سودی معاملات کرتے ہیں۔اس میں اكثریت كی حق تلفى ہوتى ہے جبکہ چند ایك كوناجائز فائدہ حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ان كا محرك انعام حاصل كركے راتوں رات امیر بنناہوتا ہے ۔ یہ بات عام اخلاقى واسلامى معاشى اصولوں كے خلاف ہے ۔ ان اسكیموں میں قیمتى ملكى وسائل حقیقى پیداوار كے شعبے میں جانے كی بجائے چانس اور جوئے كے كھیلوں میں لگ جاتے ہیں ۔

۳۔ قمار كی سب سے بڑى اور اہم صورت انشورنس كا جدید نظام ہے ۔ انشورنس میں پالیسى ہولڈر پالیسى كی اقساط ادا كرنا شروع كرتا ہے ۔ اب یہ بھى ممكن ہے كہ تمام اقساط ادا كردے اور اسے كچھ بھى حاصل نہ ہو ۔ اور یہ بھى امكان ہے كہ تھوڑى سى رقم جمع كرائے اور بہت سارى رقم حاصل ہوجائے ۔ نورمحمد غفار ى لكھتے ہیں :

"انشورنس كے معاہدے كی روشنى میں قمار یہ ہے كہ اگر بیمہ دار معینہ مدت سے پہلے مرگیا تواتنى مقدار(مثلاً ۶۰ہزار) كا مالك ہوگا اور اگر معینہ مدت كے بعد زندہ رہا اتو اتنى رقم مثلاً (۴۵۰۰۰ہزار) كا مالك ہوگا رقم كا تعین نہیں ہے دونوں طرح كااحتمال ہے زىادہ ملنے كا بھى اور كم ملنے كا بھى ۔ لہذا بیمہ کا یہ كاروبار جوا ہے ۔ كیونكہ جوا كھیلنے والا نہیں جانتا كہ اسے كتنى رقم ملے گى یا وہ كتنى رقم ہارے گا۔"[26]

۳۔ غرر:

انشورنس میں پائى جانے والى ایك بڑى خرابى غرر ہے ۔ غرر لغوى اعتبار سے غیر یقینى كیفیت كا نام ہے، كاسانى لكھتے ہیں :

"الغرر هو الخطر الذی استوى فیه طرف الوجود والعدم بمنزلة الشك"[27]

ترجمہ : "غرر اس خطركو كہتے ہیں كہ جس میں شك كی طرح وجود و عدم برابر ہو "۔

ڈاكٹر عصمت اللہ كے مطابق اصطلاح ِشرع میں غرر ایسے معاملے كو كہتے ہیں جس میں كم از كم ایك فریق كا معاوضہ غیر یقینى كیفیت كا شكار ہو ۔ جس كا تعلق معاملہ كے اصل اجزا ءسے ہو۔[28]

گویا كسى معاہدے یا تبادلے كے موضوع ، معاہدہ یا نرخ سے متعلق غیر یقینى كی كیفیت ،یا معاہدے میں شریك كسى فریق كی ذمہ دارى كا غیر یقینى ہونا سب غرر میں شامل ہیں ۔ جہاں تك غیر یقینى كیفیت كا تعلق ہے تو كاروبار میں یہ مكمل تو ختم نہیں ہوسكتى كیونكہ تجارت وكاروبار میں كوئى شخص نفع كا حقدار اس صورت میں ہوتا ہے جب خطرہ مول لیتا ہے البتہ وہ سودے جن میں معاہدے كے موضوع یا نرخ كے بارے میں حد سے زىادہ غیر یقینى كیفیت ہو ، ممنوع ہے ۔

غرر ازروئے حدیث :

آپ ﷺ نے غرر كے بارے میں فرما یا:

"نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَیهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَیعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَیعِ الْغَرَرِ" [29]

ترجمہ: " حضور ﷺ نے كنكریوں كی بیع اور غرر كی بیع سے منع فرمایا"۔

یعنى ایسى تجارت جس میں معقود علیہ غیر یقینى ہو اور اس كے خواص نامعلوم ہوں ۔ اس طرح ہر وہ چیز جو موجود نہ ہو یا جس پر مالك كا قبضہ نہ ہو اس كا سودا كرنا بھى غرر میں آتا ہے ۔ جیسا كہ احادیث سے یہ بات واضح ہوتى ہے :

"عَنْ ابْنِ عُمَرَقَال: كَانَ أَهْلُ الْجَاهِلِیةِ یبْتَاعُون الْجَزُورَ إِلَى حَبَلِ الْحَبَلَةِ وَحَبَلُ الْحَبَلَةِ أَنْ تُنْتَجَ النَّاقَةُ مَا فِى بَطْنِهَا ثُمَّ تَحْمِلُ الَّتِى نُتِجَتْ فَنَهَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله علیه وسلم عَنْ ذَلِكَ" [30]

ترجمہ: " حضرت ابن عمر نے فرمایا زمانہ جاہلیت میں لوگ حمل کو بیچتے تھےجب وہ پیٹ میں ہوتا تھا۔اسی طرح اونٹ کے بچے کو بیچا جاتا تھا حالانکہ وہ حمل میں ہوتا تھا۔رسول اللہﷺ نے اس سے منع فرمایا۔"

ان احادیث سے علم ہوتا ہے كہ درج ذیل صورتیں غرر میں شامل ہیں :

۱۔ جو چیز بیچی جارہى ہو وہ وجود نہ ركھتى ہو ۔

۲۔ چیز موجود ہو لیكن فروخت كنندہ كے قبضہ میں نہ ہو یا جس كی دستیابى متوقع نہ ہو ۔

۳۔ وہ چیز جس كے تبادلے كا معاہدہ غیر یقینى ہے ۔

خلاصہ ونتائجِ بحث :

اس بحث سے ثابت ہوتاہے كہ عہد جدیدکے امدادِ باہمى كےاداروں میں پائی جانے والی بعض خرابیوں نے ان کے کام کو مشکوک اور غیر یقینی بنا دیا ہے ۔ اگرچہ ان كی غرض وغایت تعاونِ باہمى تھا۔ لیكن غرض وغایت كے حصول كے لیے جو وسیلے اور ذرائع استعمال كیے گئے وہ غلط ہیں مثلاً سود ،قمار اور غرر ۔ جنہوں نے ان اداروں كو امدادِ باہمى كی بجائے استحصالى ذرائع بنا دیاہے ۔ ان عناصركے ناقابل قبول ہونے كی وجہ ان كے وہ انفرادى اور اجتماعى نقصانات ہیں جن كاذكر ہوچكا ہے ۔ اسلام ان سودى اداروں كی جگہ ایسے ادارے قائم كرنے كا خواہاں ہے جو فرد ومعاشرہ دونوں كے لیے مفید ہوں جہاں ایك كا فائدہ سب كا نقصان نہ ہو ۔اس مقصد کے امدادِ باہمی کے اسلامی تصور کو اجاگر کر نے کی ضرورت ہے ۔جس کے لئے درج ذیل اقدامات تجویز کئے جاتے ہیں:

۱۔امدادِ باہمی کے اداروں (امدادِ باہمی کے بنکوں ،کوآپریٹو سوسائٹیز اور انشورنس)سے سود، قمار اور غرر کے کاروبار کا خاتمہ کر کے مشارکہ و مضاربہ کے تحت انکا کام چلایا جائے حتیٰ کہ ان اداروں کا مکمل ڈھانچہ اسلامی معاشی نظام کے تحت آجائے۔

۲۔ہر ادارے میں ایک شریعہ بورڈ قائم کیا جائے جس میں اسلامی شریعہ اور جدید علوم کے ماہر علماء وسکالرز شامل ہوں۔ ہر بورڈ اپنے متعلقہ ادارے کو غیر اسلامی عناصر سے پاک کرنے کا ذمہ دار ہو۔

۳۔ عالمی سطح پر آئی سی اے کی طرز کا ایک اسلامی امدادِ باہمی کا ادارہ "اسلامک انٹرنیشنل کوآپریٹو الائنس " قائم کیا جائے۔تمام اسلامی ممالک میں قائم امدادِ باہمی کے ادارے اس عالمی ادارے کے ممبر ہوں۔یہ ادارہ اپنے ممبران کے لئے مشاورت و راہنمائی کا کام انجام دے۔

۴۔تمام ممالک خصوصاً پاکستان میں امدادِ باہمی کے یہ ادارے حکومتی تحویل میں ہوں اور حکومت ان اداروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق از سرِ نو تنظیم کرے ۔

۵۔ ہر ادارے میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا ایک شعبہ قائم کیا جائے ،جو جدید دنیا میں قائم ان اداروں میں ہونے والی نئی ایجادات و مصنوعات کے با رے میں اپنے ادارے کو باخبر رکھیں تاکہ یہ ادارے بھی جدت کو اپنائیں۔

۶۔سٹیٹ بنک میں اسلامی امدادِ باہمی کے بنکوں کا ایک الگ شعبہ قائم ہو۔جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہی ان سے معاملات طے کرے۔

7 ۔ ہمارے ملک میں عوام کی اکثریت انشورنس کے مروجہ نظام سے خائف ہیں۔تکافل کا نظام یہاں کامیاب ہو سکتاہے۔حکومت کو چاہئےکہ وہ اس شعبے میں سرمایہ کاری کرے اور سرمایہ کاروں کےلئےسہولیات مہیا کرے۔

حوالہ جات

  1. ۔سورۃ المائدۃ: 2
  2. ۔فرہنگ تلفظ، شان الحق حقی،مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد، 2008، ص83
  3. .www.bankinguyou-in/banking44-admin/study/material/589295386/commercial l20%bank, Pdf/ date: 14-8-15 at 2:48 pm.
  4. .The Encyclopedia Americana, Americana Corporation, New York: 1829, V. 7 p. 746
  5. .htt://en.wikipedia/wiki/cooperatives/dt 22-06-16 at 11:00 am
  6. .The encyclopedia Britannica, The university of Chicago USA, 1768, v21, p.678
  7. ۔ سورۃ البقرۃ: ۲۷۶
  8. ۔لسان العرب، ابن منظور افريقى، دار صادر بيروت، لبنان، سن اشاعت ندارد، ج6، ص91
  9. ۔ المفردات فى غريب القرآن، نور محمد كارخانہ تجارت كراچى، ص187
  10. ۔لسان العرب، ج 3، ص305
  11. ۔ فرھنگ آصفيہ، اردو سائنس بورڈ، ج 3،ص 721
  12. ۔ حكم الشريعة الاسلامية فی عقود التامين، ڈاکٹر حسین حامد حسان، اسلامک اکنامکس اینڈ فنانس پیڈیا،2009ﺀ،ص60
  13. ۔كم الشريعة الاسلامية فی عقود التامين، ص 60
  14. ۔سورۃ آل عمران: 130
  15. ۔سورۃالبقرۃ:279ـ278
  16. ۔ابن ماجہ، كتاب التجارات، باب التغليظ فی الربا، حديث2665،ج7، ص87
  17. ۔سنن ابن ماجہ، كتاب التجارات، باب التغليظ فی الربا، حديث 2270،ج7، ص53
  18. www.urduinc.com/english.dictionary/قمار-meaning.in urdu.16-11-16, 6:26 pm
  19. ۔بيمہ زندگى، مفتى محمد شفيع، دار الاشاعت كراچى، 1971، ص19
  20. ۔عدالتی فيصلے،مولانا تقى عثمانى، ادارہ اسلاميات لاہور، مارچ 2000ﺀ، ج٢، ص243
  21. ۔اسلامی بنکوں میں رائج اجارہ، ڈاکٹر اعجاز احمد صمدانی، ادارہ اسلامیات لاہور، ص34
  22. ۔سورۃالمائدۃ:90
  23. ۔جامع ترمذی، كتاب النذور والايمان عن رسول الله ﷺ، باب ماجاﺀ فى كراهية الحلف بغير ملة الاسلام، حدیث 1465، ج٦،ص 30
  24. ۔ زر کا تحقیقی مطالعہ شرعی نقطۂ نظر سے،ڈاکٹر عصمت اللہ، ادارۃ المعارف کراچی، 2009، ص407
  25. ۔کتاب الآثار، امام محمد، مکتبۃ اہل سنت و الجماعت کراچی، باب القرض، ص 132
  26. ۔منہاج سہ ماہى،انشورنس كی شرعى حيثيت، نور محمد غفارى، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبريرى لاہور، اپريل 1985،ج 3، شمارہ 2، ص 21
  27. ۔ بدائع الصنائع، كتاب البيوع، ج١١، ص186
  28. ۔تكافل كی شرعى حيثيت،ص7
  29. ۔صحيح مسلم،كتاب البيوع، باب بطلان بيع الحصاة والبيع الذى فيه، حديث 3881، ج3،ص1153
  30. ۔سنن الکبری، كتاب البيوع، باب النهى عن حبل حبلة، حديث 1179،ج5، ص331
 
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index