37
1
2019
1682060034497_1130
1-28
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/283/259
http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/283
Islamic Law Objectives Implementation Islamic Law Objectives Implementation
اسلام دین فطرت ہے اس کا کوئی بھی حکم انسان کی عقل کے لئے مضر ہے اور نہ جسم کے لئے۔ تا ہم یہ بات ضرور ہے کہ اللہ تعالی نے انسان کو اس طرح آزاد نہیں چھوڑا کہ صرف اپنی عقل کی بنیاد پر پوری زندگی کے لئے لائحہ عمل طے کرے بلکہ اس مقصد کے لئے وحی کو اولویت دی گئی تاہم اس کے ساتھ عقل کے استعمال کا دروازہ بھی بند نہیں کیا گیا بلکہ قرآن پا ک میں جا بجا انسان کو غور وفکر کی دعوت دی گئی تا کہ وہ عقل کو استعمال کرکے وحی کی خوبیوں کو جان لے اور مکمل شرح صدر کے ساتھ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل کرسکے۔
اللہ تعالی کے ہر حکم کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے تاہم بعض اوقات وہ انسان کی سمجھ میں آتی ہے اور بعض اوقات نہیں ۔ علماء اصول الفقہ نے اپنی تصنیفات میں کہیں اجمال اور کہیں تفصیل کے ساتھ ان پر بحث کی ہے ۔ مثلا عزالدین عبد السلام نے "قواعد الاحکام فی مصالح الانام"، شیخ محمد بن طاہر العاشور نے "مقاصد الشریعہ الاسلامیۃ"، ڈاکٹر محمد سعید البوطی نے "ضوابط فی الشریعۃ الاسلامیۃ"، الشیخ محمد ابو زہرہ نے" فلسفۃ العقوبۃ فی الفقہ الاسلامی" ،محمد مصطفی الشلبی نے "تعلیل الاحکام " ، شیخ محمد انیس عبادہ نے "مقاصد الشریعہ الاسلامیۃ" ، علال الفلاسی نے "مقاصد الشریعۃ و مکارمہا"، امام غزالی نے "احیا ء العلوم الدین"، ابن قیم نے "اعلام الموقعین" ، صبحی محمصانی نے" فلسفۃ التشریع فی الاسلام"، مصطفی زید نے "المصلحۃ فی التشریع الاسلامی"، ابو القاسم راغب الحسینی الاصفہانی نے "الذریعۃ الی مکارم الشریعۃ"، عفیف عبد الفتاح طبارۃ نے" روح الدین الاسلامی" میں بحث کی ہے۔1 محمد نجات اللہ صدیقی کے مطابق مقاصد شریعت کی اصطلاح سب سے پہلے امام الحرمیں الجوینی نے استعمال کی۔ اصول الفقہ پر ان کی کتاب "البرہان" میں مقصد، مقاصد اور قصد وغیرہ الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔2
تاہم امام شاطبى نے مقاصد الشریعۃ کو اپنی کتاب الموافقات میں بہت شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔
آپؒ فرماتے ہیں۔
"سب سے پہلے اس بات کا جاننا ضروری ہے کہ جتنے بھی شرائع ہیں ان سب کا مقصد انسان کے مصالح ہیں چاہے دنیاوی ہوں یا اخروی"3 کیونکہ اللہ تعالی بعثت انبیاء کرام کے بارے میں فرماتا ہے "۔ ان سب کو خوش خبری دینے والے اور ڈرانے والے پیغمبر بنا کر اس لئے بھیجا تا کہ ان رسولوں کی تشریف آوری کے بعد لوگوں کی طرف سے اللہ پر کوئی الزام قائم کرنے کا موقعہ باقی نہ رہے4۔"
ایک اور جگہ ارشاد ہے۔
"اور اے پیغمبر ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر جملہ اہل عالم کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے"5
جب کہ مقصد تخلیق کے بارے میں فرمایا گیا "اور وہ خدا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور اس وقت اس کا عرش پانی پرتھا اس تخلیق عالم کا مقصد یہ ہے کہ خدا تم کو آزمائے کہ تم میں سے کون شخص اچھے عمل کرنے والا ہے۔"6
" اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کیا کریں"7
" جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے"8
اسی طرح شرعى احکام کی حکمتىں بھی بہت سی آیات میں مذکور ہیں۔
مثلا ً وضوء کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔
" اللہ یہ نہیں چاہتا کہ تم پر کوئی تنگی کرے بلکہ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم کو پاک و صاف کرے اور تم پر اپنے احسانات کی تکمیل کردے تاکہ تم اس کا شکر بجا لاؤ"9
اور روزے کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔
" اے ایمان لانے والو جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا اسی طرح تم پر بھی روزہ فرض کیا گیا ہے اس امید پر کہ تم پرہیزگار ہوجاؤ"10۔
نماز کے بارے میں ارشاد ہے۔
" بے شک نماز بے حیائی سے اور نا معقول کاموں سے باز رکھتی ہے"11
قبلہ کے بارے میں ارشاد ہے۔
" اپنے منہ نمازوں میں اسی طرف کیا کرو تا کہ لوگوں کو تمھارے خلاف الزام قائم کرنے کا کوئی موقع نہ ملے"12
جہاد کے بارے میں ارشاد ہے۔
" جن لوگوں سے لڑائی کی جاتی ہے ان کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ بھی لڑىں کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے"13
قصاص کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے۔
" اور اے صاحبان عقل اس حکم قصاص میں تمہاری زندگی اور بقا ہے"14
استقراء سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالی کے احکام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے اور جن احکام میں ان کو بیان نہیں کیا گیا ان کو قیاس اور اجتہاد کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے15۔ اگر ان احکام شرع کے مقاصد پر غور کیا جائے تو ان کے تین قسمیں بنتی ہیں۔ یعنی ضروریات، حاجیات اور تحسینیات۔
ضروریات سے مراد وہ مصالح ہیں جن پر دین و دنیا دونوں کے مصالح موقوف ہیں اور ان پر لوگوں کی زندگی کا دارو مدار ہے ۔ اگر یہ مصالح نہ ہوں تو ان کی عدم موجودگی میں انسانی زندگی میں افرا تفری پھیل جائے اور نظام زندگی درہم برہم ہوجائے۔ دنیا میں بھی شقاوت اور آخرت میں بھی عذاب۔16
مقاصد حاجیہ سے مراد وہ امور ہیں جن کا اعتبار اس لئے کیا گیا ہے کہ دین میں تنگی اور مشقت دور ہو اور احکام میں وسعت ہو۔ مثلا عبادات میں مریض اور مسافر کے لئے روزہ نہ رکھنے کی رخصت، مسافرکو چار رکعات کی بجائے دو رکعت کی ادائیگی یا معاملات میں بیع سلم کی اجازت۔17 جب کہ مقاصد تحسینیہ سے مراد وہ امور ہیں جو کہ عادات میں حسن پیدا کرتی ہیں اور ان ناپاک چیزوں سے اجتناب دلاتی ہیں جن سے انسانی عقل نفرت کرتی ہے مثلا عبادات میں نجاست کو اچھی طرح سے دور کرنا ، لباس و مکان میں زینت اختیار کرنا یا معاملات میں زائد پانی کا فروخت کرنا وغیرہ۔18
جہاں تک ضروریات کا تعلق ہے تو علماء اس کى مندرجہ ذیل پانچ اقسام بیان کرتے ہیں۔
1: حفظ ِدین
2: حفظ ِنفس
3: حفظ ِعقل
4: حفظِ نسل
5: حفظِ مال
ان پانچ مقاصد کے ذیل میں جو بھی چیز آئی گی وہ مصلحت کہلائی گی۔ اور مقاصد میں سے کسی بھی مقصد کا ضیاع خرابی اور فساد کا باعث ہوگا اور اس خرابی کو دور کرنا مصلحت ہے19۔
۱۔جہاں تک حفظ دین کا تعلق ہے تو قرآنی نصوص سے یہ واضح ہے کہ بحیثیت انسان یہی بنیادی ضرورت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالی نے انسان کو اس دنیا میں صرف اپنی عبادت کی خاطر پیدا کیا۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
" اور میں نے جن اور انسان کو اسی واسطے پیدا کیا کہ وہ میری عبادت کیا کریں"20
تاہم یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اگر چہ اللہ تعالی نے انسان کو اپنی عباد ت کے لئے پیدا کیا جب کہ عبادت صرف چند مخصوص امور ادا کر نے کا نا م نہیں بلکہ عبادت کی اصطلاح پوری حیات پر محیط ہے اور زندگی کا کوئی بھی لمحہ اس سے ماوراء نہیں ہو سکتا۔ دوسرے الفاظ میں کہا جا سکتا ہے اگر انسان دین اسلام کے احکامات پر عمل پیرا ہے تو اس کی پوری زندگی عبادت سے عبارت ہے۔ جب کہ یہ بھی واضح ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
" یقینا دین تو اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہی ہے اور اہل کتاب نے جو اسلام کے بارے میں اختلاف کیا تو ایسی حالت کے بعد اختلاف کیا کہ جب ان کو اسلام کا حق ہونا معلوم ہوچکاتھا اور یہ اختلاف بھی آپس کے حسد کی وجہ سے کیا اور جو شخص آیات خداوندی پر ایمان لانے سے انکار کرے گا تو سن لو خدا بہت جلد حساب لینے والا ہے"21
ایک اور جگہ ارشاد ہے۔
" اور جو شخص اسلام کے سوا کسی دوسرے دین کا خواہش مند ہوگا تو اس کا وہ دین ہرگز مقبول نہ ہوگا اور وہ شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا"22
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر محمد رسول اللہ ﷺ تک تمام انبیاء کرام نے اسی دین کی طرف دعوت دی لیکن کسی کو بھى اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا کیو نکہ دین میں جبر نہىں ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے۔
" دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں یقینا ہدایت کی راہ گمراہی سے نمایاں اور ممتاز ہوچکی ہے سو جس شخص نے تمام معبودان باطلہ کا انکار کیا اور اللہ تعالی پر ایمان لایا تو اس نے ایک ایسا مضبوط حلقہ پکڑ لیا جس کو کبھی ٹوٹنا نہیں اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے"23
جب کہ اس دین کی دعوت کی خاطر اسی امت کو خیر امت کہا گیا ۔
ارشاد ہوتا ہے۔
" تم اے امت محمدیہ بہترین امت ہو ایسی امت جو عام لوگوں کے فائدے کے لئے ظاہر کی گئی ہے تم نیک کام کرنے کا کہتے ہو اور برے کاموں سے منع کرتے ہو اور تم اللہ تعالی پر ایمان لاتے ہو اور اگر اہل کتاب بھی ایمان لاتے تو ان کے حق میں بہتر ہوتا ان اہل کتاب میں سے بعض تو مؤمن ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں"24
اور ساتھ قرآن پاک نے دعوت کا طریقہ بھی بتا دیا:
" اے پیغمبر آپ اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو عمدہ نصائح کے ذریعہ سے دعوت دیجئے اور ان کے ساتھ بہترین طریقہ پر بحث کیجئے، بے شک آپ کا رب ہی اس شخص کو خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے بھٹک گیا اور وہی ان کوبھی خوب جانتا ہے جو راہ یافتہ ہیں"25
اس کے بعد بھی اگر کوئی اس دین کو قبول نہیں کرتا تو قرآن کہتا ہے۔
" اے نبیؐ کہہ دیجئے کہ اے کافرو!تم جن معبودوں کی پوجا کر رہے ہو میں ان کی پرستش نہیں کرتا۔ اور نہ تم اس کی پرستش کرتے ہو جس کی میں پرستش کررہا ہوں۔اور آئندہ بھی تمھارے معبودوں کی پرستش کرنے والا نہیں ہوں اور نہ تم ہی میرے معبود کی پوجا کرنے والے ہو26۔"
یوسف الحامد دین کا مفہوم کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
" عربی میں دین کا لفظ دو چیزوں میں اس نوعیت کے رابطے کو ظاہر کرتاہے کہ جب ان میں سے ایک جہت کی طرف اشارہ مقصود ہو تو غلبہ اور تسلط کا معنی مراد ہوتا ہے اور جب دوسری کی طرف اشارہ کرنا ہو تو اطاعت اور فرمان برداری مراد ہوتی ہے اور جب ان دونوں کے باہمی ربط کو ظاہر کرنا ہو تو دین عقیدہ،مذہب،عبادت، اور قانون کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے جو باہمی تعلق کے استحکام کا اظہار ہے۔ پس دین میں اطاعت کرنا اور کرانا دونوں شامل ہیں "27
جب کہ علماء شریعت کے نزدیک اس کی تعریف کچھ یوں ہے۔
" اللہ تعالی کا وہ قانون جو عقل سلیم کے حامل افراد کو ان کےآزادانہ اختیار کے ذریعے جان کی اصلاح اور انجام کی فلاح کی طرف لے جاتا ہے" 28
ایک حدیث پاک میں دین اسلام کو اس طرح بیان کیا گیا ہے۔
" ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک دن لوگوں کے سامنے بیٹھے تھے اتنے میں ایک شخص آیا اور پوچھنے لگا کہ ایمان کسے کہتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالی پر،اس کے فرشتوں پر اور اس کے ساتھ ملاقات پر اور اس کے پیغمبروں کا یقین کرے ۔اس نے پوچھا اسلام کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے ، نماز قائم کرے، اور زکوۃ ادا کرے اور رمضان کے روزے رکھے اس نے پوچھا کہ احسان کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا احسان یہ ہے کو تو اللہ تعالی کی ایسی عبادت کرے جیسا کہ تو اللہ تعالی کو دیکھ رہا ہے اگر یہ نہ ہوسکے تو خیر اتنا تو خیال رکھ کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے"29
ضرورت دین کے حوالے سے یوسف الحامد یوں رقم طراز ہے۔
" دین بمعنی وحی انسانی عقل کی طرف رہنمائی کے لئے ضروری ہے، اور دین ایمان با للہ کے معنی میں انسان کی انفرادی زندگی کے لئے ضروری ہے تا کہ انسان کے نفس میں اطمینان اور سکون پیدا ہو اور وہ بے چینی، جزع فزع اور قلق و اضطراب سے محفوظ رہ کر اعصابی تناؤ اور خوکشی کے ذریعے زندگی سے نجات کی راہوں سے بچ سکے، نیز دین انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے تا کہ اسلامی قوانین کو بہ تمام و کمال نافذ کیا جاسکے اور ان بیماریوں کا خاتمہ کیا جاسکے جو معاشرتی تعلقات میں بگاڑ کا باعث بنتی ہیں۔ دین بمعنی احکام شرعیہ قیام عدل کے لئے، لوگوں کے درمیان مساوات پیدا کرنے کے لئے، اوران کے ہوا و ہوس اور شہوات مىں مبتلا ہونے سے بچاؤ کے لئے ضروری ہے۔ آخرت میں اہل ایمان کے لئے ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتیں تیار کی گئی ہیں وہ اس پر مستزاد ہیں۔ جب کہ صرف دنیوی مصلحتیں ہی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں دین کی ضرورت کا تعین کرنے کےلئے کافی تھیں۔ آج کی دنیا سائنسی علوم پر نازاں ہے تو لا محالہ کل پرسوں تک واپس دین کی طرف رجوع کرے گی، چاہے حالات کچھ بھی ہوں، کیوں کہ اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہیں ملے گا اور اسلام کے علاوہ اور کوئی راہ نجات میسر نہیں ہوگی۔ یہی اللہ کا سچا دین ہے جس میں پیاسے کے لئے سیرابی ہے۔ جب یہ ثابت ہے کہ دین انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے لئے ضروری ہے تو اس کی حفاظت بھی ضروری ہے، کیوں کہ یہ بنی نوع انسان کی ضروری مصلحت ہے 30"
جہاں تک دین کی حفاظت کے طریقوں کا تعلق ہے تو اس کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے اوامر پر مکمل طور پر عمل کیا جائے اور نواہی سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔
دین انسان کی انفرادی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے کیونکہ اس سے انسان کے نفس میں اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے اور یہ اجتماعی زندگی کے لئے بھی ضروری ہے تا کہ اسلامی قوانین کا نفاذ ہوسکے اور بیماریوں کا خاتمہ ہوسکے جو معاشرتی تعلقات میں بگاڑ کا سبب بنتی ہىں 31
۲۔ حفظ نفس:
اللہ تعالی نے انسان کو بنا کر اسے شرف و عزت سے نوازا اور ماں کے پیٹ سے لے کر پیدائش کے بعد تک اس کی ضروریات کا خیال رکھا۔ پیدائش کے بعد والدین کی ذمہ داری ٹہرائی گئی کہ نو مولود کا ہر لحا ظ سے خیال رکھے اور جب بالغ ہو تا ہے تو خود اس کی ذمہ داری ٹہرائی گئی کہ اپنی زندگی کی حفاظت بھی کرنی ہے اور دوسروں کی زندگی کا بھی لحاظ اور خیال رکھنا ضروری ہے۔
اس لئے قرآن میں کہا گیا
" اسی واقعہ کی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیا کہ جو شخص کسی انسان کو بغیر کسی انسانی خون کے عوض یا بغیر ملک میں فسا د برپا کرنے کے قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جو کسی انسانی زندگی کی بقا کا سبب بنا تو گویا اس نے تمام نوع انسانی کو زندہ رکھا اور یقینا بنی اسرائیل کے پاس ہمارے رسول صاف صاف احکامات لے کر آتے رہے پھر باوجود اس کے بھی ان میں سے اکثر لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں"32
اور اسی مقصد کے لیے قصاص لینے کی اجازت دی گئی تا کہ اس سے دوسروں کی زندگی پر امن رہے ۔ قصاص کو قرآن پاک میں حیات کہا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
" اور اے صاحبان عقل اس حکم قصاص میں تمھاری زندگی اور بقا ہے امید ہے کہ تم لوگ ناحق کی خونریزی سے پرہیز کروگے"33
جب کہ دوسری طرف خودکشی کو بھی حرام ٹھہرایا گیا،ارشاد ہے۔
" اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تعالی تم پر بہت مہربان ہے۔ اور جو شخص بطور زیادتی اور ظلم ان افعال ممنوعہ کا ارتکاب کرےگا تو ہم عنقریب اس کو آگ میں داخل کریں گے اور ایسا کرنا اللہ تعالی پر بہت آسان ہے"34
امام فخر الدین الرازی فرماتے ہیں۔
"يَدُلُّ عَلَى النَّهْيِ عَنْ قَتْلِ غَيْرِهِ وَعَنْ قَتْلِ نَفْسِهِ بِالْبَاطِلِ"35
یہ آیت دوسرے شخص کے قتل اور اپنے آپ کے قتل سے ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے۔
"اور تم اللہ کی راہ میں خرچ بھی کرو اور اپنے آپ کو خود اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ ڈالو اور خلوص سے کام کیا کرو بلا شبہ اللہ تعالی مخلصین کو پسند فرماتا ہے"36
اس آیت کی کئی تشریحات کی گئی ہیں ان میں سے ایک تفسیر یہ بھی ہے۔
وَقِيلَ: أَرَادَ بِهِ قَتْلَ المسلم نفسا37،
اور کہا گیا ہے (اس آیت کی تفسیر میں) اس سے مراد مسلمان کا اپنے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ ہے۔
مفتی محمد شفیعؒ اس آیت کی تشریح میں لکھتے ہیں۔
" (اس) آیت کے لفظی معنی تو ظاہر ہیں کہ اپنے اختیارسے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کی ممانعت بیان فرمائی ہے، اب یہ بات کہ ہلاکت میں ڈالنے سے اس جگہ کیا مراد ہے؟ اس میں حضرات مفسرین کے اقوال مختلف ہیں۔ اور امام جصاص رازیؒ نے فرمایا کہ ان سب اقوال میں کوئی تضاد نہیں، سب مراد ہوسکتے ہیں۔ بعض حضرات نے فرمایا کہ ایسی صورت میں قتال کے لئے اقدام کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، جب کہ یہ اندازہ ظاہر ہے کہ دشمن کا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے، خود ہلاک ہوجائیں گے، ایسی صورت میں اقدام قتال اس آیت کی بناء پر ناجائز ہے"38
خود کشی کی ممانعت کئی احادیث میں وارد ہے۔ مثلا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" جس شخص نے خود کو پہاڑ سے گراکر ہلاک کیا تو جہنم میں داخل ہوگا ، اس میں ہمیشہ گرتا رہے گا۔اور ہمیشہ وہیں رہیں گے۔اور جس نے زہر کھا کر اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ زہر اس کے ہاتھ میں ہوگا جسے وہ جہنم کی آگ میں کھاتا رہے گا۔اور وہ ابدی طور پر وہاں رہے گا۔ اور جس نے اپنے آپ کو لوہے سے ہلاک کیا تو وہ اس لوہے کے ہاتھ میں لے کر اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا اور وہ ابدی طور پر جہنم میں رہے گا اور یہ جہنم میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہے گا"39
ایک اور حدیث میں ہے کہ
" ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے آپ کو کسی چیز سے اپنے بدن میں مار کر قتل کرے تو جہنم میں وہ اس کو اپنے بدن میں مارتا رہےگا اور جو اپنے آپ کو گڑھے وغیرہ میں پھینک کر ہلاک کرتا ہے تو وہ آگ میں اپنے آپ کو گراتا رہے گا۔ اور جو گلا گھونٹ کر اپنے آپ کو ہلاک کرتا ہے تو آگ مىں بھی اپنے آپ کا گلا گھونٹتا رہے گا40"۔
یہاں یہ بھی واضح رہے کہ اپنی جان لینا اور دوسرے انسان کی جان بلا حق لینا حرام ہے۔ تاہم اگر کوئی اس کے دین پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس صورت میں ترجیح دین بچانے کو دی جائیگی۔ اسی مقصد کے لیے جہاد کی اجاز ت دی گئی لیکن اس شرط کے ساتھ کہ یہ صرف اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے ہو۔
اور جس طرح نماز روزہ، وغیرہ عبادات ادا کر نے کے اپنی شرائط اور طریقے ہیں اسی طرح جہاد بھی ایک عبادت ہے اوراگر ان کو اس کو ان کی شرائط و ضوابط کے مطابق ادا نہ کیا جائے تو عبادت نہیں ہو گی بلکہ پھر یہ فساد فی الارض کے زمرے میں آئیگا۔
۳۔ حفظ عقل:
عقل اللہ تعالی کا ایک بڑا عطیہ ہے اور عقل ہی کی بنیاد پر اللہ تعالی نے انسان کو دوسری مخلوقات پر فوقیت عطا کی ہے۔ یہ ایک معلوم امر ہے کہ حصول علم کے تین ذرائع ہیں۔ یعنی حواس خمسہ، عقل اور وحی۔ ان میں سے حواس خمسہ کا دائرہ کار محدود ہے جب کہ عقل کا دائرہ کار کچھ وسیع جب کہ ان دونوں سے بڑا ذریعہ وحی الہی ہے۔ تا ہم اللہ تعالی کے جتنے بھی احکامات ہیں ان میں سے کو ئی حکم تو ماورائے عقل ہوسکتا ہے لیکن خلاف عقل کوئی بھی نہیں ہے اس لئے قرآن پاک میں کئى مقامات پر ارشاد فرمایا گیا ہے کہ آپ لوگ عقل سے کیوں کام نہیں لیتے ۔
ارشاد ہے۔
" کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر قفل پڑے ہوئے ہیں"41
" اسی طرح اللہ تعالی اپنے احکام تمھارے لئے صاف صاف بیان فرماتا ہے تا کہ تم سمجھو"42
" اور یہ مثالیں ہم لوگوں کے لئے بیان کیا کرتے ہیں مگر ان مثالوں کو اہل علم ہی سمجھا کرتے ہیں"43
" وہ جس کو چاہتا ہے صحیح فہم عطا کرتا ہے اور جو شخص صحیح فہم سے بہرہ ور کیا گیا اس کو بلا شبہ بہت بڑی بھلائی عطا کی گئی اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر وہی جن کو صحیح عقل ہے"44
" کیا ان لوگوں کو اس بات سے بھی ہدایت حاصل نہ ہوئی کہ ہم ان سے پہلے بہت سی ایسی قوموں کو ہلاک کرچکے ہیں کہ جن کے رہنے اور بسنے کے مکانوں میں یہ لوگ چلتے پھرتے ہیں بے شک ان قوموں کی تباہی میں اہل عقل کے لئے بڑی نشانیاں ہیں"45
" کیا ان قسموں میں جو میں نے کھائی ہیں ایک صاحب عقل کے لئے کافی قسم نہیں"46
" اے پیغمبر آپ ان سے کہئے میں تم کو صرف ایک بات کی نصیحت کرتاہوں وہ یہ کہ تم خدا کے واسطے دو دو مل کر اور تنہا تنہا کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو کہ تمھارے اس رفیق یعنی رسول کو کچھ جنون نہیں ہے وہ تو تم کو صرف ایک سخت عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والا ہے"47
" اور کیا ان لوگوں نے اپنے دلوں میں کبھی یہ غور نہیں کیا کہ اللہ نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کچھ ان دونوں کے مابین ہے اس کو کسی خاص مصلحت ہی سے پیدا کیا ہے اور ایک وقت مقررہ تک کے لئے ہی پیدا کیا ہے اور بہت سے آدمی تو اپنے رب کے روبرو حاضر ہونے کو مانتے ہی نہیں"48
اللہ تعالی نے انسان کو عقل ہی کى بنیاد پر مکلف بنایا ہے اور یہ شریعت کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ کوئی بھی غیر عاقل مکلف نہیں رہتا پھر اگر احکامات شریعت پر غور کیا جائے تو اس سے بھی معلوم ہوگا کہ اللہ تعالی نے جو بھی حکم دیا ہے اس کی کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے۔ اور حکمتوں کا معلوم ہونا اور اس کے جاننے کی جستجو کرنا دراصل مقاصد شریعت کی تکمیل ہے۔
امام شاہ ولی اللہ ؒ فن حکمت شرعیہ کے فوائد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
" پس علم اسرار الدین اور حکمت شرعیہ، بخدا تمام علوم میں سے اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ انسان اس کی طاقت(اہلیت) رکھتا ہے وہ اپنے قیمتی اوقات اس فن (کی تحصیل) میں صرف کرے، اور اس علم کو اپنی آخرت کے لئے زاد راہ بنائے، ضروری عبادات کے بعد، کیونکہ:
- اس علم سے انسان شریعت کی تعلیمات میں بالبصیرت ہوتا ہے، اور احادیث سے اس کا تعلق ایسا ہوجاتا ہے جیسا عروض جاننے والے شعراء کے دواوین سے، یا نحوی کا فصحائے عرب کے کلام سے، یا اصول فقہ کے ماہر کا فقہ کی جزئیات سے۔
- اور اس علم سے انسان رات میں لکڑیاں چننے والے کی طرح سے محفوظ ہوجاتا ہے ، یا سیلاب میں غوطہ لگانے والے کی طرح ہونے سے، یا ٹامک ٹوئیاں مارے وہ رندی اونٹ کی طرح، یا اندھی اونٹنی پر سواری کرے، جیسے کسی نے دیکھا کہ حکیم نے کسی کو سیب کھانے کا مشورہ دیا، پس اس نے ہم شکل ہونے کی وجہ سے اندرائن کو سیب پر قیاس کیا۔
- اور اس علم سے انسان پکا مؤمن اور اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہوتا ہے، جیسے کسی کو سچے آدمی نے بتایا کہ زہر جاں ستاں ہے، پس اس نے اس مخبر صادق کی بات کی تصدیق کی، پھر قرائن و شواہد سے جانا کہ زہر میں حرارت اور یبوست حد درجہ ہوتی ہے اور یہ دونوں چیزیں مزاج انسانی کے برخلاف ہیں، پس اس کا یقین بالائے یقین ہوگیا"49
ضروریات خمسہ میں ترتیب کے لحاظ سے حفظ عقل کا تىسرا درجہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دین پر اس وقت صحیح طریقے سے عمل ہوسکتا ہے جب انسان کی جان و نفس امن سے ہوں۔ انسان مکلف اس وقت بنتا ہے جب وہ خطاب شرعی کو سمجھ سکتا ہو اس کے لئے عقل کی حفاظت لازم ٹھہرائی گئی اور اسی وجہ سے شراب اور ہر نشہ آور چیز کو حرام ٹھہرایا گیا۔ارشاد ہوتاہے
" اے ایمان والو! واقعی بات یہ ہے کہ شراب اور جوا اور بتوں کے تھان اور فال کھولنے کے تیر یہ سب ناپاک کام شیطان کے ہیں لہذا ان سے بچتے رہو شاید کہ تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو50۔"
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
"ہر نشہ آور چیز حرام ہے51"۔
۴۔ حفظ نسب:
اگر مندرجہ بالا ترتیب پر غور کیا جائے تو اس سے واضح ہوتا ہے کہ چاہے دین ہو، نفس ہو یا عقل ان کا تعلق ایک فرد سے ہے اس لئے اگر ایک فرد ان امور کا لحاظ رکھتا ہے لیکن نسل انسان کی بقا اور دوام کا لحاظ نہیں رکھتا تو گویا کہ وہ مقاصد شریعت کو پورا نہیں کر رہا۔ اسى مقصد کى تکمىل کے لئے شریعت نے ہمیں نکاح کا حکم دیا ہے۔
" اور تم میں سے جو مرد و عورتیں بے نکاح ہوں ان کا نکاح کردیا کرو اور تمھارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو نکاح کی صلاحیت رکھتے ہوں ان کا بھی نکاح کردیا کرو اگر وہ لوگ مفلس ہونگے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کردیگا اور اللہ تعالی بڑا فیاض اور سب کی حالت جاننے والا ہے"52
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو نکاح سنۃ انبیاء بھی ہے ۔ قرآن پا ک میں ہے :
" اور ہم نے یقینا آپ سے پہلے بہت سے رسول بھیجے تھے اور ان کو بیویاں بھی دی تھیں اور اولاد بھی۔ اور کسی رسول کے اختیار میں یہ بات نہ تھی کہ وہ حکم الٰہی کے بغیر کوئی نشانی لاسکے ہروقت کے مناسب ایک حکم لکھا ہواہے"53
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"اے جوانو! آپ میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتے ہیں ان کو چاہیئے کہ نکاح کرے اس لئے کہ یہ نگاہوں اور شرمگاہوں کو محفوظ رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے اور جو اس کی طاقت نہیں رکھتا اسے چاہئے کہ روزہ رکھے کیونکہ وہ اس کے لئے قاطع شہوت ہے"54
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
" تمام دنیا متاع ہے اور دنیا کی بہترین متاع نیک عورت ہے"55
ایک اور حدیث میں ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کر تے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:
"عورت کے ساتھ چار امور کی وجہ سے نکاح کیا جاتا ہے۔ اس کے مال کی وجہ سے، اس کے حسب کی وجہ سے، اس کے حسن کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے۔ تیرے ہاتھ خاک آلود ہوں دینداری کی وجہ سے (عورت) کو اختیار کر"56
اسی طرح انس بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
"جو چاہتاہے کہ وہ اللہ تعالی سے طاہر اور مطہر ملے تو اسے چاہئے کہ آزاد عورتوں سے نکاح کرے"57
ایک طرف اسلام نکاح کر نے کی ترغیب دیتا ہے اور دوسری طرف زنا سے بچنے کا حکم بھی دیتا ہے۔ کیونکہ نکاح کے مقاصد میں سے عفت اور پاک دامن رہنا رضائے الہی کا سبب ہے۔
ارشاد الٰہی ہے:
" اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو کیوں کہ زنا بڑی بے حیائی کی بات ہے اور بہت بری راہ ہے"58
" اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی پرستش نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر ہاں کسی حق شرعی کے ساتھ اور نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو شخص یہ مذکورہ برے کام کریگا وہ گناہوں کا وبال دیکھے گا"59
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
" اے قریش کے نوجوانوں! اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو، زنا نہ کرو، خبردار! جس نے اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کی اس کے لئے جنت ہے"60
رسول اللہ ﷺ اکثر یہ دعا پڑھا کرتے تھے۔
اللهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى، وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى 61
"اے اللہ میں تجھ سے ہداىت، تقوى، پاکدامنى اور استغنا مانگتا ہوں"
دوسری طرف نکاح میاں اور بیوی کے درمیان مودت اور رحمت کا ذریعہ بھی ہے۔
ارشاد ہے :
" اور اسی کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس میں سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان سے آرام و اطمینان حاصل کرو اور اس سے تم میاں بیوی کے درمیان محبت اور ہمدردری پیدا کی اس بات میں ان لوگوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں جو غور و فکر سے کام لیتے ہیں" 62
اس کے ساتھ نکاح اطمینان اور سکون کا باعث بھی ہے۔
ارشاد ہے کہ:
"اللہ تعالی وہ ہے جس نے تم کو ایک جاندار سے پیدا کیا اور اسی جا ندار سے اس کا جوڑا بنادیا تا کہ وہ اس سے سکون و اطمینان حاصل کرے"63
جب کہ نکاح انسان کا پردہ پوش بھی ہے۔ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے۔
" وہ عورتیں تمہارا لباس ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو"64
چونکہ اسلام ایک ایسے پاک اور صاف معاشرہ کے قیام کا خواہاں ہے کہ اس میں تمام لوگ پاک اور صاف زندگی گزارىں ہر ایک کو اپنا نسب معلوم ہو کیوں کہ وہی معاشرہ پر امن و پرسکون رہ سکتا ہے کہ جس میں اخلاقی اقدار کی پاسداری ہو یہی وجہ ہے کہ شریعت نے زنا کو حرام ٹھہرایا بلکہ مبادئ زنا سے بھی بچنے کی تلقین کی گئی۔
ارشاد باری تعالی ہے:
" اور آپ مسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ نگاہ کا نیچا رکھنا اور شرمگاہوں کی حفاظت ان کے لئے بڑی پاکیزگی کی بات ہے بے شک جو کچھ لوگ کیا کرتے ہیں اللہ اس سب سے با خبر ہے۔ اورآپ مسلمان عورتوں سے بھی کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زیبائش کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے مجبورا کھلا رہتا ہے اور اپنے دوپٹےگریبانوں پر ڈال لیا کریں یعنی سینوں کو ڈھانک کر اوڑھا کریں اور اپنی زیبائش کو کسی پر ظاہر نہ کریں مگر ہاں اپنے خاوندوں پر یا اپنے باپ یا اپنے شوہر کے باپ پر یا اپنے بیٹوں پر یا اپنے شوہر کے بیٹوں پر یا اپنے بھائیوں پر یا اپنے بھائیوں کے بیٹوں پر یا اپنی بہنوں کے بیٹوں پر یا اپنی ہم مذہب عورتوں پر یا اپنی لونڈیوں پر یا ان خدمت گزار مردوں پر جو خواہشات سے خالی اور بے غرض ہوں یا ایسے نادان بچوں پر جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہیں ہوئے اور مسلمان عورتوں سے بھی فرمادیجئے کہ وہ چلنے میں پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا زیور پہچانا جائے جس کو وہ چھپاتی ہیں اور اے ایمان والو! تم سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تا کہ تم فلاح پاؤ"65
زنا کے سد باب کےلئے زنا کے جرم پر حد مقرر کی گئی، فرمان الٰہى ہے:
" زناکار عورت اور زنا کار مرد ہر ایک کو ان دونوں میں سے سو سو درے مارو اور تم ان دونوں پر اللہ کی حد جاری کرنے میں کسی قسم کا ترس اور رحم نہ آئے بشرطیکہ تم اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو اور نیز ان دونوں کو سزا دیتے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت کو موجود رہنا چاہئیے"66
اور شادی شدہ کے لئے رجم کی سزا مقرر ہوئی:
"حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اسلم قبیلہ کا ایک شخص رسو ل اللہ ﷺ کے پاس لایاگیا تو اس نے بیان کیا کہ اس نے زنا کا ارتکاب کیا ہے ، اس شخص نے اپنے آپ پر چار دفعہ گواہی دی، وہ شخص شادی شدہ تھا تو رسول اللہ نے اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا"67
جب کہ دوسری طرف شریعت نے اس بات کا بھی لحاظ رکھا کہ کسی شخص کی عزت وآبرو پر بےجا حرف نہ آئے اس لئے اگر کوئی شخص زنا کی تہمت لگاتا ہے اور اس کو ثابت نہیں کرسکتا تو اس کے لئے قذف کی حد مقرر کی گئی۔
" اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ اپنے دعوے پر نہ لا سکیں تو ایسے لوگوں کو اسی درے مارو اور آئندہ کبھی ان کی گواہی قبول نہ کرو اور یہ لوگ فاسق ہیں۔ مگر وہ لوگ جو اس تہمت کے بعد توبہ کرلیں اور اپنی اصلاح کرلیں تو بے شک اللہ بڑی مغفرت کرنے والا نہایت مہربان ہے"68
۵۔ حفظ مال:
حیات انسانی کی بقاء کے لئے مال کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اس لئے قرآن پاک اور حدیث میں جائز طریقوں سے مال کی کمائی پر زور دیا گیا اور ہر ناجائز طریقے سے منع کیا گیا ۔
ارشاد ہے:
" وہی ہے جس نے زمین کی تمام چیزوں کو تمہارے نفع کے لئے پیدا کیا پھر اس نے آسمان کی جانب توجہ فرمائی یعنی ان کے مکمل کرنے کا ارادہ کیا سو اس نے ان کو درست کرکے سات آسمان بنائے اور وہ ہر شئ سے با خبر ہے"69
" اے پیغمبر میرے ایمان والے بندوں سے کہہ دیجئے کہ وہ نماز کی پابندی رکھیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اس میں سے اس دن کے آنے سے پہلے پہلے کچھ خفیہ اور علانیہ خیرات بھی کیا کریں کہ جس دن نہ کوئی خرید و فروخت ہوگی اور نہ اس دن کوئی دوستی کام آئی گی۔ اللہ تعالی کی وہ ذات ہے جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان کی جانب سے پانی نازل کیا پھر تمہارے کھانے کے لئے اس پانی سے پھل نکالے اور تمہارے نفع کے لئے کشتیوں کو تابع کردیا تاکہ وہ کشتیاں خدا کے حکم سے دریا میں چلیں اور تمہارے نفع کے لئے ندیاں مسخر کردیں ۔ اور سورج اور چاند کو جو ہمیشہ مقررہ دستور پر چلتے رہتے ہیں تمہارے کام میں لگادیا اور نیز رات اور دن کو تمہارے کام میں لگایا۔ اور جو کچھ تم نے طلب کیا اس سب میں سے تم کو اس نے عطا کیا اور اگر تم خدا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو ان کا احاطہ نہیں کرسکتے اس میں کچھ شک نہیں کہ انسان بڑا نا انصاف اور بڑا ہی ناسپاس ہے"70
" اور بے شک ہم نے تم کو زمین میں رہنے کو جگہ دی اور اس میں تمہارے لئے ہم نے اسباب معیشت و زندگانی مہیا کئے مگر تم لوگ بہت ہی کم شکر ادا کرتے ہو"71
" اے ایمان والو! تم آپس میں ایک دوسرے کے مال غیر شرعی طریق پر نہ کھاؤ مگر وہ مال جو آپس کی خرید وفروخت سے باہمی رضامندی کے ساتھ ہو تو مضائقہ نہیں اور اپنے آپ کو قتل نہ کرو بے شک اللہ تعالی تم پر بہت مہربان ہے"72
" جو لوگ سود خور ہیں وہ نہیں اٹھیں گے مگر جیسے وہ شخص اٹھتا ہے جس کو آسیب نے چمٹ کر حواس باختہ کردیا ہو یہ سزا ان کو اس لئے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ بیع بھی مثل سود کے ہے حالانکہ اللہ تعالی نے بیع کو حلال کیا کیا ہے اور سود کو حرام کردیا ہے پھر جس شخص کے پاس اس کے رب کی جانب سے نصیحت پہونچ چکی اور وہ آئندہ کے لئے باز آگیا تو جو گزر چکا اور اس کا معاملہ اللہ تعالی کے سپرد ہے اور جو کوئی دوبارہ پھر وہی کرے تو ایسے ہی لوگ دوزخی ہیں وہ اس آگ میں ہمیشہ رہیں گے"73
" اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک مقررہ مدت کے لئے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اس کو لکھ لیا کرو" 74
" اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ان دونوں کا ہاتھ کاٹ دو یہ اللہ تعالی کی جانب سے بطور سزا ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ بڑی قوت والا اور بڑی حکمت والا ہے۔ پھر جو شخص اپنے گناہ کے بعد توبہ کرلے اور اپنی اصلاح کرلے تو بلا شبہ اللہ تعالی نظر عفو کے ساتھ اس پر توجہ فرمائے گا یقینا اللہ بے حد بخشنے والا نہایت مہربان ہے"75
کسب حلال کے بارے میں رسو ل اللہ ﷺ کا فرمان ہے۔
" رسول اللہ ﷺ نے فرمایا حلال معیشت کا طلب کرنا اللہ تعالی کے فریضہ عبادات کے بعد (سب سے) بڑا فریضہ ہے"76
ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا۔
" بعض گناہوں میں سے ایسے گناہ ہیں جن کا کفارہ صرف طلب معیشت کی فکر اورجدوجہد و کاوش ہی ہوسکتی ہے"77
اس حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
" تم میں سے کوئی (بےروزگار) نہ بىٹھے یہ دعا کرے ہو ئے کہ اے اللہ مجھے رزق دے دیں کیونکہ تم جانتے ہو کہ آسمان سونا اور چاندی نہیں برساتے" 78
حضرت لقمان حکیم اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
" اے بیٹے فقر سے استغنا حلال کسب کے ذریعے حاصل کرو کیونکہ جس کو بھی فقر پہونچتا ہے اس کو تین چیزیں ملتی ہیں ، دین میں سستی، عقل میں کمزوری اور مروت کا ختم ہونا اور ان تینوں میں سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ لوگوں کے درمیان اس کی عزت نہیں رہ جاتی"79
حضرت ابو قلابہ ؒ نے ایک شخص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔
" مجھے یہ زیادہ پسند ہے کہ تم کو مسجد کے ایک کونے میں بیھٹنے کے بجائے طلب معاش میں (مصروف) دیکھوں"80
مولانا سیوہارویؒ صاحب فرماتے ہیں۔
" اسلام کے معاشی نظام میں فرد سے متعلق احکام معیشت کیا ہیں؟ عمیق نظر ڈالنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں تین چیزیں فطری طور پر سامنے آتی ہیں۔ (۱) کیا کمائیں؟ (۲) کیا خرچ کریں ؟(۳) اور کس پر خرچ کریں ؟۔ یعنی وہ کون سی آمدنی ہے جس کو جائز کہا جا سکتا ہے ؟ اور اس آمدنی میں سے کیا خرچ کرنا چاہئیے؟ اور کس پر خرچ کرنا چاہیئے، چنانچہ اسلام نے ان تینوں فطری سوالات کو حل کرنے کے لئے انفرادی معیشت کو چار حصوں میں تقسیم کردیا ہے، پہلے حصہ میں انسان کو جدوجہد کی ترغیب اور کسب معاش کے لئے حرکت کی دعوت دی ہے۔ اور بتا یاہے کہ انسان کو اپنی معاش خود اپنے ہاتھوں کی محنت سے کمانا چاہیئے، کیونکہ جمود اور ہاتھ پیر توڑ کر بیٹھ جانے کی زندگی موت کے مرادف ہے اور اس کو حیات کہنا بے معنی ہے اور نہ اس طریق زندگی کو توکل کی زندگی کہا جاسکتا ہے اور باقی تین حصوں میں ان ہی سوالات کو حل کیا گیا ہے جو معیشت کے مسئلہ میں فطری طور پر سامنے آتے ہیں 81
سیوہاروی صاحب آگے لکھتے ہیں:
" انفرادی مسائل معیشت میں سب سے پہلی منزل کسب معاش اور ابتغاء رزق کی منزل ہے، قرآن عزیز کہتا ہے کہ ہر انسان کو اپنی استعداد کے مطابق معیشت کے لئے جدوجہد کرنا ضروری ہے، دنیا میدان عمل ہے یہاں جمود و خمود موت کے مرادف ہے اس کارگاہ ہستی میں خدا تعالی نے سامان رزق کے ذخیرے جمع کردئیے ہیں، مگر تلاش و سعی شرط ہے‘‘82
اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
" پھر جب نماز پوری ہوچکے تو اختیار ہے کہ تم زمین میں چلو پھرو اور اللہ کا فضل یعنی اس کی روزی تلاش کرو اور اللہ کو بکثرت یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤ"83
" اور بعض لوگ اللہ تعالی کا فضل یعنی معاش کو تلاش کرنے کے لئے ملک میں سفر بھی کریں گے84"
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا:
" تم اپنا رزق زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تلاش کرو۔85"
سیوہارویؒ صاحب آگے لکھتے ہیں۔
" ان آیات و احادیث کے پیش نظر جب ایک شخص کسب معاش کے لئے قدم اٹھائے تو کیا اس کو یہ آزادی حاصل ہے کہ اپنی معیشت کے حصول میں جو طریقہ بھی چاہے اختیار کرے؟ نہیں ایسا نہیں ہے بلکہ اس انفرادی جدوجہد میں اس کو چند ایسے اصول کا پابند بنایا گیا ہے جو نظام معیشت کو فاسد ہونے سے بچاتے اور صاحب معیشت کی زندگی کو معاشی رفاہیت کے ساتھ دینی اور اخلاقی رفعت عطا کرتے ہیں، چنانچہ اس کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنی انفرادی معیشت میں ہمیشہ دو اصول پیش نظر رکھے ایک یہ کہ جو حاصل کیا جائے وہ حلال ہو اور دوسرے یہ کہ جن طریقوں سے حاصل کیا جائے وہ طیب ہوں۔ 86
" اے لوگو! زمین کی چیزوں میں سے جو حلال و پاکیزہ چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے قدم بقدم نہ چلو بلا شبہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے"87
" اے پیغمبرو ! تم پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک کام کرو بے شک جو تم کرتے ہو میں اس کو خوب جانتا ہوں"88
کسب معاش کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ کن پر خرچ کیا جائے تو اس حوالہ سے قرآن پاک میں اس طرف توجہ دلائی گئى ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔
" اور قرابت دارکو اس کا حق دیا کرو اور مسکین کو اور مسافر کو بھی دیا کرو اور بے جا و بے موقع نہ اڑایا کرو"89
" لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ خدا کی راہ میں کیا خرچ کریں آپ فرمادیجئے مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرو سو ماں باپ کا حق ہے اور قرابت داروں کا اور بن باپ کے بچوں کا اور محتاجوں کا اور مسافر کا اور جو تم کار خیر بھی کرو اللہ تعالی کو خوب معلوم ہے"90
اور جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ کس قدر خرچ کیا جائے تو اس حوالے سے قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
" اور کھاؤ اور پیو اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا"91
"اور قرابت دارکو اس کا حق دیا کرو اور مسکین کو اور مسافر کو بھی دیا کرو اور بے جا و بے موقع نہ اڑایا کرو۔بے شک مال کو بے موقع اڑانے والے شیاطین کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ہی ناسپاس ہے"92
" اور وہ جب خرچ کرنے لگتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں اور نہ وہ خرچ کرنے میں تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا ان دونوں باتوں کے درمیان اعتدال کے ساتھ ہوتا ہے" 93
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔
(آمدن اور خرچ) میں میانہ روی معاشی زندگی کی خوشگواری کا نصف حصہ ہے" 94
ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا:
" اپنے ورثاء کو صاحب مال چھوڑنا اس سے بہتر ہے کہ وہ محتاج رہ جائیں اور بھیک مانگتے پھریں" 95
شریعت اسلامی اگر ایک طرف کسب حلال کی ترغیب دیتى ہے تو دوسری طرف دوسروں کے مال میں بے جا تصرف سے منع کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چوری کی سخت سزا مقرر کی گئی تا کہ لوگوں کے اموال دوسروں کی بے جا دست اندازی سے محفوظ رہىں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے:
" اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت ان دونوں کا ہاتھ کاٹ دو یہ اللہ تعالی کی جانب سے بطور سزا کے ان کی کمائی کا بدلہ ہے اور اللہ بڑی قوت والا اور بڑی حکمت والا ہے"96
عصر حاضر میں مقاصد شرىعت کا اطلاق:
اگر عصر حاضر میں مسلمانوں کو درپیش مسائل کا جائزہ لیا جائے تو ان مىں کئى ایسے غیر مسلم اکثریتی ممالک میں مسلمانوں کے لئے اور مسلم اکثریتی ممالک میں غیر مسلموں کے لئے، شہریت، حکومت میں شرکت اور فوج میں شرکت وغیرہ ، اسلامی تمویل کے حوالے سے نئے رجحانات اور جدید حیاتیاتی اخلاقیات وغیرہ جىسے مسائل سرفہرست ہىں۔
اگر غور کیا جائے تو ہمارے کلاسیکی دور کے علماء نے اپنی تصنیفات میں مقاصد شرع کو کبھی استحسان ، کبھی مصالح مرسلہ وغیرہ کے ناموں اور اصطلاحات سے ان کا ذکر کیا ہے اور خاص کر امام شاطبینے ان کو ضروریات، حاجیات، اور تحسینیات کے عنوانات کے تحت شرح و بسط کے ساتھ واضح کیا ہے۔ تا ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور احوال و ظروف میں تغیر کے باعث بہت سارے نئے مسائل بھی پیدا ہوگئے جن کا مقاصد شرع کی روشنی میں حل تلاش کرنا ضروری تھا یہی وجہ ہے کہ عصر حاضر کے علماء اس سے لاتعلق نہیں رہے اور انہوں نے بجا طور پر ان میں مفید اضافے کئے اس حوالے سے محمد نجات اللہ صدیقی نے قابل قدر کام کیا انہوں اپنی کتاب " مقاصد شرع" میں اس کی اہمیت کو کچھ یوں واضح کیا ہے۔
" مقاصد شرع ، مصالح مرسلہ، اسرار شریعت، معانی اور حکم جیسے الفاظ سے تعبیر کیا جا نے والا یہ تصور شروع ہی سے موجود رہا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالی اپنے بندوں کو جو احکام دیتے ہیں، ان سے انسانوں کی ہی بھلائی مقصود ہے، اللہ تعالی بے نیاز ہے، اسے ہم انسانوں سے کچھ نہیں لینا۔ انسانوں کے اخروی اور دنیوی مفادات سامنے رکھ کر انہیں جو احکام دیئے گئے ہیں، ان میں سے بعض کے بارے میں قرآن و سنت میں بتادیا گیا ہے کہ ان سے کیا فائدے ہوں گے اور خاص کر دنیوی امور سے متعلق احکام میں، بعض پر غور کرنے سے ان کے فائدے سمجھے جاسکتے ہیں۔ یہ بات کہ ان مصالح اور مقاصد کو سمجھ کر بیان کیا جائے جن کا شارع نے لحاظ رکھا ہے دو وجہوں سے اہم ہے۔ اگر احکام شریعت کو موتیوں سے تعبیر کیا جائے تو مقاصد شریعت کا بیان ان موتیوں کو ایک لڑی میں پرو کر ہار بنا دیتا ہے۔ بالفاظ دیگر ، مقاصد شریعت کا بیان احکام شریعت کو ایک باہم مربوط اور واضح اہداف کے حامل نظام کے طور پر سمجھنا ممکن بنا دیتا ہے۔ مقاصد شریعت کا دوسرا اور وقت کے ساتھ اہمیت والا، فائدہ یہ ہے کہ وہ ان نئے مسائل کے معلوم کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں جن کے بارے میں کوئی حکم موجود نہ ہو"97
جہاں تک نئے پیش آمدہ مسائل کا تعلق ہے کہ ان کو ضروریات کی مذکورہ تقسیم میں شامل کیا جاسکتا ہے کہ نہیں؟ اس حوالے نجات سے اللہ صدیقی صاحب ان علماء سے اختلاف کرتے ہیں جن کا یہ خیال ہے ان مسائل کو مذکورہ تقسیم کی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔
آپ لکھتے ہیں۔
" ایک خیال یہ ہے کہ مقاصد کی روایتی فہرست پنج گانہ: دین، جان، عقل، نسل اور مال میں خود اتنی وسعت ہے کہ بہت سے نئے مقاصد اسی فہرست میں داخل سمجھے جا سکتے ہیں، مثلا عدل و انصاف دین میں، اور ازالہ غربت اور کفالت عامہ حفظ جان میں شامل سمجھے جا سکتے ہیں۔ ہمیں دو وجہوں سے اس فکر و سوچ سے اتفاق نہیں ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے جیسا کہ ابن تیمیہؒ نے کہا ہے، مقاصد شریعت کے بیان میں تحفظ سے آگے بڑھ کر ترقی دینے اور بڑھوتری کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ روایتی فہرست میں سارا دفع مضرت پر ہے، جلب منفعت کا پہلو دب گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ موجودہ عالمی اور قومی سطح کے مسائل میں ماحولیاتی تلوث پر کنٹرول ، کائنات کے قدرتی وسائل کا بچاؤ ، عمومی اور کلی تباہی مچانے والے اسلحوں کے استعمال اور ان کی پیداوار پر پابندی اور موجود نىوکلىئر ہتھیاروں ، نیز کیمىائی اور حیاتیاتی اسلحوں کا تلف کیا جانا اور اقوام عالم کے باہم امن و چین سے رہ سکنے کے دوسرے تقاضے پورے کرنے کے لئے یہ بہتر ہے کہ ان امور سے مناسبت رکھنے والی اسلامی تعلیمات کو اہمیت کے ساتھ پیش کیا جائے۔ مسئلہ یہ نہیں کہ منطقی طور پر کیا بات کس بات سے نکالی جاتی سکتی ہے، اہم بات یہ ہے کہ نئے حالات میں اسلام اور مسلمانوں کو سیاسی، معاشی، اور سماجی امور میں دنىا کی رہنمائی کے لئے کس طریقہ سے زیادہ مدد مل سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں گلوبلا ئز یشن کے چیلنجوں سے عہدہ بر آ ہونے میں مقاصد شریعت کی فہرست میں ان چیزوں کے اضافہ سے مدد ملے گی جن کی مقصودیت کو کتاب و سنۃ کی سند تو حاصل ہے مگر اب پہلے ان کو زیادہ اہمیت دینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ جن مقاصد کو ابھار کر پیش کرنا مناسب ہوگا وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ انسانی عز و شرف
2۔ بنیادی آزادیاں
3۔ عدل و انصاف
4۔ ازالہ غربت اور کفالت عامہ
5۔ سماجی مساوات اور دولت و آمدنی کی تقسیم میں پائی جانے والی ناہمواری کو بڑھنے سے روکنا
6۔ امن و امان اور نظم و نسق
7۔ بین الاقوامی سطح پر تعامل اور تعاون 98
اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد نجات اللہ صدیقی صاحب نے جن مسائل کا ذکر کیا ہے، ان کے خیال میں ان کو ضروریات خمسہ کے علاوہ مستقل طور پر زیر بحث لانےچاہیئے یہ اپنی جگہ پر قابل قدر کام ہے اور اس بحث کو مختلف پہلوؤں سے آگے بڑھائى جاسکتى ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ یہ اور ان جیسے دىگر مسائل پر مسلمان علماء کی طرف بھر پور بحث و تمحیص اور تحقیق ہو کیونکہ بہرحال یہ فریضہ انہی علماء نے ادا کرنا ہے۔
حوالہ جات:
1۔عطیہ،جمال الدین، شریعت اسلامی کا عمومی تصور، (مترجم، مولانا حبیب الرحمان) ص: 123 ط اسلام آباد، بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی،2002
2۔ صدیقی، نجات اللہ، مقاصد شریعت ص:3 ط اسلام آباد، ادارہٴتحقیقات اسلامی، 2009
3۔ الشاطبى، إبراهيم بن موسى بن محمد اللخمي الغرناطي، (1997) الموافقات :ج 2 ص 13: ط دار ابن عفان ،الجیزۃ
4۔ النِّسَاءِ: 165
(اس مقالہ میں موجود آیات کا ترجمہ مولانا احمد سعید صاحب دہلویؒ کی تفسیر "کشف الرحمان" ط مکتبہ رشیدیہ کراچی سے لیا گیا ہے۔)
5۔ الْأَنْبِيَاءِ: 107
6۔ هُودٍ: 7
7۔ الذَّارِيَاتِ: 56
8۔ المُلك: 2
9۔ الْمَائِدَةِ: 6
10۔ الْبَقَرَةِ: 183
11۔ العنكبوت: 45
12۔ الْبَقَرَةِ: 150
13۔ الْحَجِّ: 39
14۔ الْبَقَرَةِ: 179
15۔الشاطبى ، الموافقات، ج2 ،ص 13
16۔ ایضا
17۔ ایضا ج۲ ص۲۱
18۔ ایضا
19۔ شریعت اسلامی کا عمومی تصور: 125
20ا۔لذاریات:56
21۔ آل عمران:19
22۔ ایضا:85
23۔ البقرۃ:256
24۔ آل عمران:110
25۔ النحل:125
26۔ الکافرون1-6
27۔ حامد العالم یوسف،اسلامی شریعت : مقاصد اور مصالح (مترجم: محمد طفیل ہاشمی) ص: 211 ط اسلام آباد، ادارہ تحقیقات اسلامی،2011
28۔ ایضا
29۔ البخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع المسند الصحيح المختصر من أمور رسول الله صلى الله عليه وسلم وسننه وأيامه، كِتَابُ الإِيمَانِ بَابُ سُؤَالِ جِبْرِيلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الإِيمَانِ، وَالإِسْلاَمِ، وَالإِحْسَانِ، وَعِلْمِ السَّاعَةِ ط دار طوق النجاة، ج۱۹ 1422ھـ
30۔ اسلامی شریعت : مقاصد اور مصالح : 229
31۔ ایضا
32۔ المائدۃ:32
33۔ البقرۃ:179
34۔ النساء:30
35۔ الرازي، ابو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي، التفسير الكبير، ج7 ،ص10 ، ط دار إحياء التراث العربي – بيروت 1420 هـ
36۔ البقرۃ:195
37۔ عبد الله بن احمد بن علي الزيد، مختصر تفسير البغوي، ج 1، ص 176، ط الرياض دار السلام للنشر والتوزيع،1416هـ
38۔ محمد شفیع، مفتی، معارف القرآن ج 1 ص 474 ط کراچی، دارالمعارف،1992
39۔البخاری كِتَابُ الطِّبِّ بابُ شُرْبِ السُّمِّ وَالدَّوَاءِ بِهِ وَبِمَا يُخَافُ مِنْهُ وَالخَبِيثِ
40۔ احمد بن حنبل، الامام ، المسند، مُسْنَدُ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْه، ج 15 ص 380 ط بیروت، مؤسسة الرسالة، 2001 م
41۔ محمد:24
42۔ البقرۃ:242
43۔العنکبوت:43
44۔ البقرۃ:269
45۔ طه:128
46۔ الفجر:5
47۔سبا:46
48۔ الروم:8
49۔ پالن پوری، سعید احمد، رحمۃ اللہ الواسعۃ شرح حجۃ اللہ البالغۃ ، للشاہ ولی اللہ، ج: 1 ص: 177 ط کراچی، زمزم پبلشرز، 2005
50۔ المائدۃ:90
51۔ البخاری: كِتَابُ المَغَازِي، بَابُ بَعْثِ أَبِي مُوسَى، وَمُعَاذٍ إِلَى اليَمَنِ قَبْلَ حَجَّةِ الوَدَاعِ
52۔ النور:32
53۔ الرعد:38
54۔ البخاری: كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ مَنْ لَمْ يَسْتَطِعِ البَاءَةَ فَلْيَصُمْ
55۔النیشاپوری، مسلم بن الحجاج القشیری، المسند الصحيح المختصر بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، كِتَابُ الرِّضَاعِ بَابُ خَيْرُ مَتَاعِ الدُّنْيَا الْمَرْأَةُ الصَّالِحَةُ ط بیروت، دار إحياء التراث العربي س ن
56۔ البخاری، کتَابُ النِّكَاحِ، بَابُ الأَكْفَاءِ فِي الدِّينِ
57۔ القزوینی،محمد بن یزید ،السنن، كِتَابُ النِّكَاحِ بَابُ تَزْوِيجِ الْحَرَائِرِ وَالْوَلُودِ ط دار إحياء الكتب العربية س ن
58۔ الإسراء: 32
59۔الفرقان:68
60۔ البزار، أحمد بن عمرو بن عبد الخالق، المسند ، مسْنَدُ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، ج11 ص 44 ط المدينة المنورة، مكتبة العلوم والحكم، 2009م
61۔ الصحیح لامام المسلم، كتاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ بَابُ التَّعَوُّذِ مِنْ شَرِّ مَا عُمِلَ وَمِنْ شَرِّ مَا لَمْ يُعْمَلْ
62۔ الروم:21
63۔ الاعراف:189
64۔ البقرۃ :187
65۔ النور:31
66۔ النور:2
67۔البخاری، كِتَابُ الحُدُودِ بَابُ رَجْمِ المُحْصَنِ
68۔ النور:5
69۔ البقرۃ:29
70۔ ابراہیم: 34
71۔ الاعراف:10
72۔ النساء:29
73۔ البقرۃ:275
74۔ البقرۃ:282
75۔ المائدۃ:39
76۔ البیھقی، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، السنن الکبری، كِتَابُ الْإِجَارَةِ، ط بیروت، دار الكتب العلمية،2003 م
77۔ الطبرانی، سليمان بن احمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، المعجم الأوسط بَابُ الْأَلِفِ مَنِ اسْمُهُ أَحْمَد،ج1 ،ص 38 ط القاہرۃ، دار الحرمين س ن
78۔الغزالی، محمد بن محمد الغزالي الطوسي، إحياء علوم الدين، كتاب آداب الكسب والمعاش ج 2 ص 62، بیروت، دار المعرفة، س ن
79۔ ایضا
80۔ ایضا
81۔ سیوہاروی :61
82۔ ایضا
83۔ الجمعۃ:10
84۔ المزمل:20
85۔ ابو یعلی، أحمد بن علي بن المثُنى بن يحيى بن عيسى بن هلال التميمي، المسند، مُسْنَدُ عَائِشَةَ، ج 7 ص 347 ط دمشق، دار المأمون للتراث، 1984
86۔ سیوہاروی:64
87۔ البقرۃ:168
88۔ المؤمنون:51
89۔ الإسراء:26
90۔ البقرۃ:215
91۔ الاعراف:31
92۔ الإسراء:27
93۔ الفرقان:67
94۔ المعجم الاوسط بَابُ الْمِيمِ [ص:179] مَنِ اسْمُهُ: مُحَمَّدٌ،ج 7 ص 25
95۔ البخاری، كِتَابُ الجَنَائِزِ، َبابُ رِثَاءِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَعْدَ ابْنَ خَوْلَةَ
96۔ المائدۃ:38
97۔ صدیقی، نجات اللہ، مقاصد شریعت ص:21 ط اسلام آباد، ادراہ تحقیقات اسلامی، 2009
98۔ ایضا ص: 21
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Volume 37 Issue 1 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |