29
2
2014
1682060034497_1139
122-141
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/229/217
مولانا ابو الکلام آزاد(1958ء - 1888ء) کی تفسیر ترجمان القرآن جس دور میں لکھی گئی وہ مسلمانانِ ہند کے قومی، فکری اور معاشرتی تنزل کا دور تھا اور ان تمام ناکامیوں اور مایوسیوں کی بڑی وجہ قرآن کریم کی انقلابی تعلیمات سے مسلمانوں کی غفلت و اعراض کا رویہ تھا۔مولانا نے مسلمانوں کی نجاتِ فکر و حرماں کا واحد حل قرآن سے رجوع کو قرار دیا اور اپنے اس دعوے کو ثابت کرنے کے لئے ترجمان القرآن کی نیو اٹھائی۔قرآن کریم کی تعلیم و اشاعت کے حوالے سے مولانا کے پیش نظر درج ذیل امور تھے:
(1) سب سے پہلے وہ مشکلات دور ہوں جوقرآن کے فہم و تدبر کی راہ میں پیدا ہوگئی ہیں اور جن کی وجہ سے اس کی تعلیم اپنی حقیقی شکل و نوعیت میں نمایاں نہیں ہو سکتی۔ جب تک یہ مشکلات دور نہیں ہوتےمحض قرآن کا ترجمہ کر دینا یا کسی نئی تفسیر کا لکھ دیناکچھ سود مند نہ تھا۔
(2) پھر ضروری تھا کہ ایسی کتاب اردو میں تیار ہوجائے جس کی نسبت وثوق کے ساتھ کہا جاسکے کہ اس کا پڑھ لینا اور پڑھا دینا قرآن کے مقاصد ومطالب سمجھ لینے اور اسے اس کی حقیقی شکل و نوعیت میں دیکھ لینے کے لیے کافی ہے۔
(3) وہ نہ تو اس قدر ضخیم ہو کہ ہر شخص اس کے مطالعہ کے لیے وقت نہ نکال سکے،نہ اس قدر مختصر ہو کہ مطالب کی وضاحت تشنہ رہ جائے۔اس کی نوعیت ترجمہ ہی کی ہولیکن ایسا ترجمہ کہ اپنی وضاحت میں کسی دوسری چیز کا محتاج نہ ہو۔
(4) بہ حیثیت ترجمہ اس کی نوعیت ایسی ہو کہ قرآن کے درس و مطالعہ کے لیے معیار تعلیم کا کام دے۔
(5) مطالب قرآنی کی عالمگیر اشاعت کے لیے اسے تمام زبانوں میں منتقل کیا جاسکے اور نقل و ترجمہ کے لیے ایک بنیادی معیار قائم ہوجائے۔(1)
مولانا کی موجودہ تفسیر سورة المومنون تک ہے لیکن مولانا کے اپنے بیان کے مطابق وہ یہ تفسیر مکمل کر چکے تھے مگر 1921ءمیں تحریک عدم تعاون کے دوران حکومت برطانیہ کے افسران تفتیش دوران تلاشی دیگر قلمی مسودات کے ساتھ ترجمان القرآن کا مسودہ بھی اٹھا کر لے گئے جو پھر واپس نہ کیا گیا۔انڈیا کانگریس لائبریری(برطانیہ) کی فہرست مخطوطات میں ترجمان القرآن کا نام بھی ملتا ہے ۔ تاہم حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتاکہ یہ مخطوطہ/مسودہ پہلے والا ہے یا بعد والا۔بہر حال اس واقعہ نے مولانا کی طبیعت پربڑا گہرا اثر کیا ۔لکھتے ہیں:
“یہ میرے صبر و شکیب کے لیے زندگی کی سب سے بڑی آزمائش تھی لیکن میں نے کوشش کی کہ اس میں بھی پورااتروں۔یہ سب سے زیادہ تلخ گھونٹ تھا جو جام حوادث نے میرے لبوں سے لگایا لیکن میں نے بغیر کسی شکایت کے پی لیا،البتہ اس سے انکار نہیں کرتا کہ اس کی تلخی آج تک گلو گیر ہے”۔ (2)
اس سانحے کے بعد ایک عرصے تک مولانا کی طبیعت رکی رہی۔لیکن اس کام کی اہمیت کی وجہ سے انہیں رہ رہ کر اس کا خیال بے چین کرتا رہتا تھا۔چنانچہ چھ سال بعد انہوں نے اس پر دوبارہ کام شروع کیا۔لکھتے ہیں:
“طبیعت کی بڑی رکاوٹ جو رہ رہ کر سامنے آتی تھی یہ تصور تھا کہ ایک تصنیف کی ہوئی چیز دوبارہ تصنیف کی جائے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک اہل قلم کے لیے اس سے زیادہ مشکل اور کوئی کام نہیں۔۔۔1927ءقریب الا ختتام تھا کہ اچانک مدتوں کی رکی ہوئی طبیعت میں جنبش ہوئی اور رشتہ کار کی جو گرہ ذہن ودماغ کی پیہم کوششیں نہ کھول سکیں تھیں دل کے جوشش بےاختیار سے خو بخود کھل گئیں”۔(3)
مولانا کا ارادہ اس تفسیر کو تین حصوں میں منقسم کرنے کا تھا۔ یعنی مقدمہ تفسیر، تفسیر البیان اور ترجمان القرآن۔ مقدمہ تفسیر میں اصولی مباحث کا ذکر کیا جانا تھا، تفسیر البیان میں مطالعاتی اور دقیق علمی مباحث نے آنا تھا۔ جبکہ ترجمان القرآن، قرآن کی عالمگیر تعلیمات سے انسانیت عامہ کو متعارف کروانے کے لئے لکھی جانی تھی۔ مگر ان تینوں حصوں میں سے سب سے آخری حصے کو مولانا نے سب سے پہلے شائع کیا کیونکہ مسلمانانِ عالم کی درماندگیوں کو دور کرنے اور انہیں اپنا اصل چہرہ دکھلانے کے لئے سب سے پہلے ترجمان القرآن کی ضرورت تھی۔لکھتے ہیں:
“ آخری کتاب سب سے پہلے شائع کی جاتی ہے کیونکہ اپنے مقصد و نوعیت بھی اصلی بنیاد ہے۔”(4)
مولانا کے دور کواس لحاظ سے اہمیت حاصل ہے کہ یہ دور اردو تفاسیر کا سنہری دور ہے۔اس دور میں متعدد ایسی تفاسیر لکھی گئیں جو اپنی علمیت اور موضوعیت کے اعتبار سے نمایاں مقام رکھتی ہیں۔مولانا کی تفسیر میں اس دور میں لکھی گئی علامہ رشید رضا مصری کی عربی تفسیر اور سر سید احمد خان کی تفسیر کا بھی گہرا رنگ نظر آتا ہے۔مولانا نے ہر اس آیت کو خصوصی اہمیت دی ہے جس پر گفتگو کرنے سے عام طور پر دیگر مفسرین نے احتیاط برتی ہے۔مولانا کا طرز اسلوب یہ ہے کہ وہ قوانین فطرت سے دلائل عقلی کا استنباط کرتے ہیں اور زبان کی سادگی اور سلاست کو بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔یقینا مولانا کی علمی وعقلی تفسیری توجیہات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن اگر ان توجیہات اور دلائل کو بنیاد بنا کر ایک سنجیدہ علمی بحث کا آغاز کیا جائے تو علم و تحقیق کے کئی نئے زاویے سامنے آ سکتے ہیں۔مولانا کی تفسیر میں سورة الکہف کے مضامین اس اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں کہ مولانا سے پہلے اردو تفاسیر میں اس طرز تحقیق کا پتہ نہیں چلتا۔اگرچہ بعد میں مولانا منا ظر احسن گیلانی (6195ء -92 18ء) سمیت متعدد محققین نے خاص اس مو ضوع پر قلم اٹھایا اور اپنی علمی نگارشات پیش کیں۔
اصحابِ کہف کے سلسلے میں مولانا کے تفسیری نکات پیش کرنے سے بیشتر مناسب ہو گا کہ اس واقعہ کا (جس کو قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے) سیاق و سباق معلوم کر لیا جائے۔منکرین اسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تین سوالات کئے تھے:
(1)روح کی ماہئیت کیا ہے؟
(2)اصحابِ کہف کون تھے؟
(3)ذوالقرنین کا کیا قصہ تھا؟
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی الٰہی پر اعتماد کرتے ہوئے انہیں کہا کہ تمہارے ان سوالات کا جواب میں کل دوں گا۔ لیکن وحی 15دنوں تک نہ آئی۔ آپ ﷺ وحی کے اس طویل تعطل سے انتہائی رنجیدہ اور غمگین ہوئے۔ نیز اس سے منکرین اسلام کو بھی مذہب اسلام پر اعتراض کرنے کا ایک اچھا موقع ہاتھ آ گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپﷺ کے “کل جواب دوں گا” کہنے پر وعید فرمائی اور ارشاد فرمایا:
و لا تقولن لشایء انی فاعل ذلک غدا الا ان یشاء الله (5)
ترجمہ: “ اور آپ کسی چیز کی نسبت یہ نہ کہا کیجئے کہ میں اسے کل کر دوں گا۔ سوائے اس (صورت) کے کہ اسے اللہ بھی چاہے”۔
تاہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے ان تمام سوالات کے جوابات دیئے گئے اور ان واقعات کی مکمل تفصیل سے آگاہ کر دیا گیا۔ اصحابِ کہف کے بارے میں جو قرآنی آیات نازل ہوئیں ہیں ان کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ چند نوجوان تھے، چونکہ وہ زمانہ عیسائیت کے آغاز کا تھا اور سلطنت روم نے جو کہ بت پرستی کا مذہب اختیار کئے ہوئے تھی اور اپنے مذہب میں قدرے تشدد و تعصب رکھتی تھی اور اس نئی دعوت کو اپنی سلطنت میں پنپتے ہوئے نہیں دیکھ سکتی تھی، مذہب عیسائیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیئے۔ ان کے ان جور و مظالم سے تنگ آ کر ان نوجوانوں نے شہر سے دور جنگل کی راہ لی اور ایک وسیع و عریض غار میں جا بیٹھے۔ ان کے ساتھ ان کا ایک کتا بھی تھا۔ چونکہ ان لوگوں نے راہِ حق میں طرح طرح کی صعوبتیں اٹھائی تھیں مگر دین حق سے منہ نہیں موڑا تھا اس واسطے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ان پر عارضی نیند طاری کر دی۔ تقریباً 300سال تک انہیں اسی حالت میں رکھا۔ پھر انھیں دوبارہ اپنی اصلی حالت میں واپس کر دیا۔ مگر اس طویل عرصے میں کئی بادشاہتیں تبدیل ہو چکی تھیں۔ جب انہیں بھوک کی احتیاج ہوئی تو انہوں نے ان میں سے ایک کو کھانا لانے کے واسطے شہر بھیجا مگر چونکہ کئی حکومتیں بدلی جا چکی تھیں اور حکومتوں کے ساتھ ان کے رائج کردہ سِکّے بھی تبدیل ہو گئے تھے اس لیے لوگوں نے جب ان کی قدیم وضع قطع اور پرانے سکّوں کو دیکھا تو حیران ہو گئے۔ انہیں بادشاہِ وقت کے سامنے پیش کیا گیا جس نے انہیں انعام و اکرام سے نوازا۔ اس کے بعد وہ دوبارہ اسی غار میں معتکف ہو گئے اور آخر وقت اسی حالت میں رہے۔
اس تمام قصے سے کئی سوالات ذہن میں ابھرتے ہیں۔ سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ چونکہ موجودہ دور نقل در نقل کی بجائے دلائل و براہین کا دور ہے اس لئے اصحابِ کہف جس غار میں معتکف ہوئے تھے اس مقام کا تعین کیا جائے۔ یعنی ٹھوس دلائل اور مثبت شواہد سے یہ ثابت کیا جائے کہ وہ غار کہاں واقع تھا؟ مولانا اشرف علی تھانوی(1943ء۔1863ء)لکھتے ہیں کہ تفسیر حقانی میں اس کا نام افسوس اور طرطوس ایشیائےکوچک کا ایک شہر لکھا ہے جو اب بشکلِ ویران قصبہ کے حضرت سلطان کی حکومت میں ہے اور آبادی سے تین کوس وہ غار کئی میل کا ہے۔(6)
مولانا احمدسعید دہلوی(1952ء۔1888ء)کے مطابق اصحابِ کہف اور اصحاب الرقیم اکثر مفسرین کے نزدیک ایک ہی ہیں … رقیم یا تو ایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا اس عمارت کا نام ہے جو اس جگہ تعمیر کی گئی تھی یا پہاڑ کا نام ہے یا کسی اور آبادی کا نام۔(7)مولانا عبد الماجد دریا بادی(1977ء۔1892ء)لکھتے ہیں کہ جولائی 1963 اخباروں میں یہ خبر ملک ایران کے محکمہ آثار قدیمہ کے حوالے سے شائع ہوئی ہے کہ ایک غار شہر عمان سے نو کلومیٹر کے فاصلہ پر کھدائی میں برآمد ہوا ہے جس کے متعلق خیال کیا جا رہا ہے کہ یہ اصحاب کہف کا غار ہے۔(8)
لیکن اس بارے میں مولانا آزاد کی تحقیق ان کی ہم عصر تفاسیر میں ایک منفرد اور انوکھا مقام رکھتی ہے۔ مولانا نے “الرقیم” کی تشریح و توضیح کے ذریعے اس واقعہ کا درست مقام متعین کیا اور اس قرآنی واقعے سے پیدا ہونے وا لے سوال کاعقلی دلیل سے جواب پیش کیا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
“یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سورت میں جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ کہاں پیش آیا تھا؟قرآن نے “کہف” کے ساتھ “الرقیم” کا لفظ بھی بولا ہے اور بعض آئمہ تابعین نے اس کا یہی مطلب سمجھا تھا کہ یہ ایک شہر کا نام ہے لیکن چونکہ اس نام کا کوئی شہر عام طور پر مشہور نہ تھا اس لئے اکثر مفسر اس طرف چلے گئے کہ یہاں رقیم کے معنی کتابت کے ہیں۔ یعنی ان کے غار پر کوئی کتبہ لگا دیا گیا تھا۔ اس لیے کتبہ والے مشہور ہو گئے۔لیکن اگر انہوں نے تورات کی طرف رجوع کیا ہوتا تو معلوم ہو جاتا کہ “رقیم” وہی لفظ ہے جسے تورات میں “راقیم” کہا گیا ہے اور یہ فی الحقیقت ایک شہر کا نام تھا جو آگے چل کر “پیڑا” کے نام سے مشہور ہوا اور عرب اسے ”بطرا“ کہنے لگے۔عالمگیر جنگ کے بعد آثارِ قدیمہ کی تحقیقات کے جو نئے نئے گوشے کھلے ہیں۔ ان میں ایک پیڑا بھی ہے اور اس کے انکشافات نے بحث و نظر کا ایک نیا میدان مہیا کر دیا ہے۔جزیرہ نما سینا اور خلیج عقبہ سے سیدھے شمال کی طرف بڑھیں تو دو پہاڑی سلسلے متوازی شروع ہو جاتے ہیں اور سطح زمین بلندی کی طرف اٹھنے لگتی ہے۔ یہ علاقہ نبطی قبائل کا علاقہ تھا اور اسی کی ایک پہاڑی سطح پر “راقیم” نامی شہر آباد تھا۔ دوسری صدی عیسوی میں جب رومیوں نے شام اور فلسطین کا الحاق کر لیا تو یہاں کے دوسرے شہروں کی طرح “راقیم” نے بھی ایک رومی نو آبادی کی حیثیت اختیار کر لی اور یہی زمانہ ہے جب “پیڑا” کے نام سے اس کے عظیم الشان مندروں اور تھیٹروں کی شہرت دور دور تک پہنچی۔ 640ءمیں جب مسلمانوں نے یہ علاقہ فتح کیا تو “راقیم”کا نام بہت کم زبانوں پر رہا تھا۔ یہ رومیوں کا پیڑا اور عربوں کا بطرا تھا۔جنگ کے بعد سے اس علاقہ کی از سرِ نو اثری پیمائش کی جاری رہی ہے اور نئی نئی باتیں روشنی میں آ رہی ہیں۔ ازاں جملہ اس علاقہ کے عجیب و غریب غار ہیں جو دور دور تک چلے گئے ہیں اور نہایت وسیع ہیں نیز اپنی نوعیت میں ایسے واقع ہوئے ہیں کہ دن کی روشنی کسی طرح بھی ان کے اندر نہیں پہنچ سکتی۔ ایک غار ایسا بھی ملا ہے جس کے دہانہ کے پاس قدیم عمارتوں کے آثار پائے جاتے ہیں اور بے شمار ستونوں کی کرسیاں شناخت کی گئی ہے خیال کیا گیا ہے کہ یہ کوئی معبد ہو گا جو یہاں تعمیر کیا گیا تھا۔اس شناخت کے بعد قدرتی طور پر یہ بات سامنے آ جاتی ہے کہ اصحاب کہف کا واقعہ اسی شہر میں پیش آیا تھا اور قرآن نے صاف صاف اس کا نام “الرقیم” بتلا دیا ہے۔” (9)
یہ واقعہ عربوں میں ایک دیو مالائی قصہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ مولانا نے اس مسئلے کو بھی کہ اس کی شہرت عربوں میں کہاں سے پہنچی؟ اپنے پچھلے موقف کی تائید میں پیش کیا ہے۔ چونکہ عربوں کے وسائل معلومات محدود تھے اس لئے یہ گمان یقین کی حد تک کیا جا سکتا ہے کہ ان تک یہ خبر قرب و جوار کے کسی علاقے سے پہنچی ہو۔ اس سوال کے جواب میں کہ ایسے لوگ کون ہو سکتے ہیں جن سے عربوں کے انتہائی قریبی تجارتی تعلقات تھے۔ مولانا کے مطابق اگر اسے پیڑا کا واقعہ قرار دیا جائے تو بات بالکل واضح ہو جاتی ہے۔ اول تو خود یہ مقام عرب سے قریب تھا۔ یعنی عرب کی سرحد سے ساٹھ ستر میل کے فاصلے پر ثانیاً نبطیوں کی وہاں آبادی تھی اور نبطیوں کے تجارتی قافلے برابر حجاز میں آتے رہتے تھے۔ یقینا نبطیوں میں اس واقعے کی شہرت ہو گی اور انہی سے عربوں نے سنا ہو گا…ایک روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شام کے غزوات میں بعض صحابہؓ کا گزر اصحابِ کہف کی غار پر ہوا تھا اور انہیں ان کی ہڈیاں ملی تھیں۔ اگر یہ روایت صحیح ہو تو اس سے اس کی بھی مزید تصدیق ہو گئی کہ یہ واقعہ پیڑا میں پیش آیا تھا۔(01)
سوال پیدا ہو تاہے کہ یہ واقعہ کس زمانے میں پیش آیا؟ مولانا شبیر احمد عثمانی(1949 ء ۔1886 ء)نے مجملاً اس کا ذکر کیا ہے۔ ان کے مطابق یہ چند نوجوان روم کے کسی ظالم و جبار بادشاہ کے عہد میں تھے، جس کا نام بعض نے “دقیانوس”بتلایا ہے۔(11)
مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ نے اس کی قدرے توضیح فرمائی ہے۔ان کے مطابق رومی شہنشاہ ڈی سیس (DECIUS) یا دقیانوس (متوفی 351 ء) اپنے مذہب بت پرستی میں غلو رکھتا تھا۔ مسیحی مذہب نیا نیا اس کے زمانے میں سلطنت روم میں پھیل رہا تھا۔ اس نے عیسائی موحدین پر سختی شروع کی۔ اس سے تنگ آ کر چند شریف نوجوان شہر سے نکل کھڑے ہوئے اور قریب کے ایک پہاڑی غار میں جا کر پناہ لی۔ وہاں ان پر ایک غیر طبعی بلکہ خارق عادت نیند مسلط ہو گئی اور وہ کچھ اوپر تین سو سال تک سوتے رہے اور جب ایک اعجازی انداز سے جاگے تو خود رومی حکومت کا مذہب اس طویل مدت کے درمیان میں شرک سے مسیحیت میں تبدیل ہو چکا تھا اور اس وقت حکمراں شہنشاہ تھیوڈوسیس (متوفی 450 ء) تھا۔لیکن حافظ ابن کثیر نے اپنا خیال غالب یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قصہ ظہورِ مسیحؑ سے قبل دورِ یہودیت کا ہے، ورنہ یہود اتنا اس کے کھوج میں نہ رہتے اور اس قدر اعتناءو التفات اس کی جانب نہ کرتے۔(12)
مولانا آزادؒ کی تحقیق سے اتنا تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ واقعہ عیسائیت کے ابتدائی ادوار میں پیش آیا اور اس وقت بادشاہ دقیانوس نامی ایک شخص تھا لیکن اس جگہ فی الحقیقت سب سے عمدہ تفسیر مولانا عبد الماجد دریا بادیؒ ہی کی ہے۔ ان کی تفسیر کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ دوسری صدی عیسوی کے آخر یا تیسری صدی عیسوی کے آغاز میں پیش آیا، جب عیسائی مذہب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں اپنے دن گزار رہا تھا۔
ایک سوال یہ پیدا ہو سکتا ہے کہ اس غار کی نوعیت کیا تھی؟ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
" وَتَرَى الشَّمْسَ إِذَا طَلَعَت تَّزَاوَرُ عَن كَهْفِهِمْ ذَاتَ الْيَمِينِ وَإِذَا غَرَبَت تَّقْرِضُهُمْ ذَاتَ الشِّمَالِ وَهُمْ فِي فَجْوَةٍ مِّنْهُ (13)
“ ترجمہ: اور وہ جس غار میں جا کر بیٹھے وہ اس طرح واقع ہوئی ہے کہ جب سورج نکلے تو تم دیکھو کہ ان کے دہنے جانب سے ہٹا ہوا رہتا ہے اور جب ڈوبے تو بائیں طرف کترا کر نکل جاتا ہے (یعنی کسی حال میں بھی اس کی شعاعیں اندر نہیں پہنچتیں) اور وہ اس کے اندرایک کشادہ جگہ میں پڑے ہیں۔”
مولانا اشرف علی تھانویؒ کے مطابق غار کی داہنی اور بائیں جانب یا تو اس میں داخل ہونے والے کے اعتبار سے ہے یا اس کے خارج ہونے والے کے اعتبار سے۔ پس تقدیر اول پردہ غار شمال رویہ ہو گا اور تقدیر ثانی پر جنوب رویہ اور شرق رویہ ہونے میں طلوع کے وقت ان پر دھوپ پڑتی ہے اور غرب رویہ ہونے میں غروب کے وقت اور مقصود اس سے اس جگہ کا محفوظ ہونا ہے۔ (41)
مولانا احمد سعیددہلویؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اس کھوہ (غار) کا جائے وقوع کچھ ایسا واقع ہوا ہے اور شمال رویہ یا غروب رویہ کچھ اس طرح سے وہ کھوہ واقع ہوئی ہے کہ غروب آفتاب اور طلوع آفتاب کے وقت دھوپ ان اصحاب کہف سے بچ کر نکل جاتی ہے اور ان کو تکلیف نہیں ہوتی وہ ایک کشادہ مکان میں ہیں یعنی پہاڑ کے اندر کھوہ بعض حصے تنگ اور بعض کشادہ ہوتے ہیں تو وہ اصحاب کہف ایک ایسے حصے میں ہیں جو فراخ اور کشادہ ہے جہاں روشنی بھی ہے اور ہوا بھی۔(51)
مولانا عبد الماجد دریابادیؒ نے اس کی توضیح انتہائی عمدہ کی ہے ۔ ان کے مطابق کوہستانی غار اکثر ایسے ہوتے ہیں کہ اندر ہی اندر بہت دور تک چلے جاتے ہیں۔ شہر افسوس کا عرض بلد درجہ 38 شمال ہے، ایسے مقام پر جو غار شمال رویہ ہو گا اس کے اندر سورج کی شعاعیں قدرتاً نہ داخل ہو سکیں گی اور اس کے اندر رہنے والے اگر شمال ہی کی طرف رخ رکھیں گے تو دھوپ کی تیزی سے برابر امن میں رہیں گے۔۔۔یہ قصہ جو اوپر مع اپنی جزئیات و تفصیلات کے بیان ہوا یہ حق تعالیٰ کی قدرت، حکمت و ربوبیت کی نشانیوں میں سے ہے۔ قرآن مجید نے غار کے جو اتنے جغرافیائی جزئیات بیان کئے ہیں، یہ سب خوامخواہ اور بے معنی نہیں، یقینا اس غار کی تحقیق کسی دن ہو کر رہے گی اور اس وقت ان جزئیات کا انطباق اس پر حرف بہ حرف ہو کر رہے گا۔(16)
مولانا آزادؒ نے اس آیت کی تفسیر میں چند انتہائی قیمتی نکات بیان فرمائے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ:
“وہ (غار) اس طرح کی واقع ہوئی ہے کہ اگرچہ اندر سے کشادہ ہے اور دہانہ کھلا ہوا، لیکن سورج کی کرنیں اس میں راہ نہیں پا سکتیں۔ نہ تو چڑھے دن میں نہ ڈھلتے میں، جب سورج نکلتا ہے تو دہنی جانب رہتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ جب ڈھلتا ہے تو بائیں جانب رہتے ہوئے غروب ہو جاتا ہے۔ یعنی غار اپنے طول میں شمال و جنوب رویہ واقع ہے۔ ایک طرف دہانہ ہے۔ دوسری منفذ۔ روشنی اور ہوا دونوں طرف سے آتے ہے لیکن کسی طرف سے بھی راہ نہیں پا سکتی۔اس صورت سے بیک وقت دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ زندہ رہنے کے لئے وہ نہایت محفوظ اور موزوں مقام ہے کیونکہ ہوا اور روشنی کی راہ موجود ہے مگر دھوپ کی تپش پہنچ نہیں سکتی۔ پھر اندر سے کشادہ ہے۔ جگہ کی کمی نہیں۔ دوسری یہ کہ باہر سے دیکھنے والوں کے لئے اندر کا منظر بہت ڈراؤنا ہو گیا ہے۔ کیونکہ روشنی کے منافذ موجود ہیں اس لئے بالکل اندھیرا نہیں رہتا۔ سورج کسی وقت سامنے آتا نہیں اس لئے بالکل اجالا بھی نہیں ہوتا، روشنی اور اندھیری کی ملی جلی حالت رہتی ہے اور جس غار کی اندرونی فضا ایسی ہو اسے باہر سے جھانک کر دیکھا جائے تو اندر کی ہر چیز ضرور ایک بھیانک منظر پیش کرے گی۔” (17)
چونکہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ہم انھیں کافی کافی عرصے بعد الٹے پلٹتے رہتے تھے تو یہ سوال پیدا ہوا کہ الٹنا پلٹنا کیسے ہوتا ہو گا؟ تو مولانا کے مطابق بالمقابل منافذ ہونے کی وجہ سے ہوا برابر اندر چلتی رہتی تھی اور ان کے ڈھانچے داہنے سے بائیں اور بائیں سے دہنی جانب اس طرح متحرک رہتے تھے جیسے ایک زندہ آدمی ایک طرف سے پلٹ کر دوسری دیکھے--- وہ اس طرح کی غار تھی کہ انسانی جسم زیادہ سے زیادہ عرصہ تک اس میں قائم رہ سکتے تھے۔ کیونکہ سورج کی روشنی اس میں پہنچتی رہتی، لیکن سورج کی تپش کا اس میں گزر نہ تھا، جو چیز نعش کو جلا گلا سڑا دیتی ہے وہ سورج کی تپش ہے اور جو چیز تازگی پیدا کرتی ہے وہ ہوا اور روشنی ہے۔ ہوا چلتی رہتی تھی۔ روشنی پہنچتی رہتی ہے، مگر تپش سے پوری حفاظت تھی۔(18)
سورةالکہف کے آخر میں منکرین اسلام کے تیسرے سوال یعنی حضرت ذوالقرنین کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ منکرین اسلام میں سے یہود نے یہ سوال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور چونکہ یہ قصہ صرف انہی کے نودرات میں لکھا تھا اس لئے ان کا خیال تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کا جواب نہ دے پائیں گے۔ مگر قرآن نے اس کی انتہائی خوبصورت تشریح فرمائی اور ان پر اپنی حجت تمام کر دی۔ذوالقرنین کی شخصیت کے بارے میں اکثر مفسرین تذبذب کا شکار رہے ہیں کہ وہ کون تھے۔
مولانا اشرف علی تھانویؒ نے اس کی مکمل تصریح نہیں فرمائی کہ آیا وہ کون تھے۔ان کے مطابق ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ ذوالقرنین کوئی مقبول بزرگ بادشاہ ہیں خواہ نبی ہوں یا ولی ہوں کسی دوسرے نبی کے متبع۔(19)مولانا شبیر احمد عثمانیؒ کی رائے بھی کچھ ایسی ہی ہے ۔(20)مولانا احمدسعید دہلویؒ نے اس پر بحث فرمائی ہے اور آخری فیصلہ یہی دیا ہے کہ یہ لقب اسکندر یونانی کا نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ ایک کافر و فاسق شخص تھا جبکہ قرآن میں اس کی بڑائی بیان کی گئی ہے۔ البتہ اتنا کہا جا سکتا ہے کہ وہ جو بھی تھا کوئی نیک اور ولی شخص تھا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
“سکندر ذوالقرنین کے متعلق عام طور پر اہل تاریخ کا خیال یہ ہے کہ یہ سکندر وہ ہے جس کا پایہ تخت یونان تھا اور یہی اسکندریہ کا بانی تھا۔ یہ سکندر حضرت مسیحؑ سے تقریبا تین سو برس پہلے ہوا تھا۔ کسی نے کہا وہ ایک رومی جوان تھا۔ کسی نے کہا اس کا نام عبد اللہ بن ضحاک تھا۔ لیکن سہیل رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ ذوالقرنین دو ہوئے ہیں ایک وہ جو یونانی ہے اور ایک وہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں ہوا ہے اور ملت ابراہیمی کا پیرو تھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لایا تھا۔ قرآن میں جس ذوالقرنین کا ذکر ہے یہ وہی ذوالقرنین ہے۔۔۔یہ ذوالقرنین نبی ہو یا نہ ہو لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ سکندر ایک صالح، دیندار، مومن اور منصف مزاج بادشاہ تھا۔۔۔ اور یونانی سکندر کافر اور اس کا وزیر ارسطو تھا۔” (21)
اس تمام بحث کو گویا مولانا نے سکندر ہی پر ختم کیا۔ مگر چونکہ سکندر سے کفر کا شبہ بھی لازم آتا تھا اس لئے حضرت سہیل کی روایت کو ترجیح دے کر اس شبہ کا بھی ازالہ کیا اور اپنا مطلب بھی بیان کر گئے۔ قدیم مفسرین نے ذوالقرنین کے حوالےسے پانچ اقوال نقل کئے ہیں:
(1)یمن کا ایک مشہور بادشاہ العصب بن قرین بن الہمال
(2)سرحد ایران و عرب کے خاندان لخمیہ کا فرمانروا منذ بن امری القیس
(3)یونان کا مشہور بادشاہ اسکندر مقدونی
(4)حضرت ابراہیم کا ہمعصر مشہور موحد اسکندر
(5)ایران کا مشہور شہنشاہ سائرسِ اعظم
مولانا دریا بادیؒ کے مطابق ظاہر ہے کہ جس شخصیت کی تصریح سے قرآن بھی قاصر ہوا اور حدیث صحیح بھی اور تاریخ میں بھی کوئی واضح و متعین جواب نہ ملتا ہو، تو اس کے متعلق صرف قرائن و قیاسات ہی قائم کر سکتے ہیں، کسی قطعی و حتمی تحقیق کی کوئی صورت ہی نہیں۔ (22)
مفسرین کو ذوالقرنین کی ذات کی تفسیر میں انتہائی تکلیفیں اٹھانا پڑیں اور جس کے جو سمجھ میں آیا اس نے بیان کر دیا، مگر کوئی بھی اس کی تحقیق پر یقین طریقہ پر پیش نہ کر سکا کہ وہ کون تھا؟مولانا آزادؒ نے یہ توجیہہ بیان کی ہے کہ یہ شخص دراصل” سائرسِ اعظم“ ہے۔ جس کا زمانہ 559قبل از مسیح ہے اور وہ انتہائی بردبار، رحمدل اور بہادر انسان تھا۔ جس نے دنیا کا متعدد بہ حصہ اپنے تدبر، تفکر اور بلند حوصلہ کے ذریعے فتح کر ڈالا تھا۔لکھتے ہیں کہ:
“سب سے پہلا حل طلب مسئلہ جو مفسرین کے سامنے آیا وہ اس کے لقب کا تھا۔ عربی میں بھی عبرانی میں بھی “قرن” کے صاف معنی سینگ کے ہیں۔ پس “ذوالقرنین” کا مطلب ہوا دو سینگوں والا، لیکن چونکہ تاریخ میں کسی ایسے بادشاہ کا سراغ نہیں ملا جس کا ایسا لقب رہا ہو، اس لئے مجبوراً “قرن” کے معنی میں طرح طرح کے تکلّفات کرنے پڑے۔ پھر چونکہ فتوحات کی وسعت اور مغرب و مشرق کی حکمرانی کے لحاظ سے سکندر مقدونی کی شخصیت سب سے زیادہ مشہور رہی ہے، اس لیے متاخرین کی نظریں اسی کی طرف اٹھ گئیں۔ چنانچہ امام رازیؒ نے سکندر ہی کو ذوالقرنین قرار دیا ہے اور اگرچہ حسب عادت وہ تمام اعتراضات نقل کر دیئے ہیں جو اس تفسیر پر وارد ہوتے ہیں لیکن پھر حسب عادت ان کے بے محل جوابات پر مطمئن بھی ہو گئے ہیں، حالانکہ کسی اعتبار سے بھی قرآن کا ذوالقرنین، سکندرِ مقدونی نہیں ہو سکتا۔نہ تو وہ خدا پرست تھا نہ عادل تھا نہ مفتوح قوموں کے لئے فیاض تھا اور نہ ہی اس نے کوئی سد بنائی۔ بہر حال مفسرین ذوالقرنین کی شخصیت کا سراغ نہ لگا سکے۔”(23)
ذوالقرنین کا اگر کوئی سراغ ملتا ہے تو وہ دانیال کی کتاب میں ملتا ہے جس میں انہوں نے خواب میں دو سینگوں والے بکرے کو پوری دنیا فتح کرتے دیکھا تھا۔ مولانا سوال کرتے ہیں وہ دو سینگوں والا بکرا کون تھا اور خود ہی جواب میں فرماتے ہیں کہ وہ حضرت دانیال (بنی اسرائیل کے نبی) کا ہمعصر سائرسِ اعظم تھا۔ جس نے لیڈیا اور فارس کو ایک کر دیا اور بابل جس میں یہودیوں کی حالت جانوروں سے بھی پست تھی، غلامی اور محکومی سے چھٹکارا دلوایا۔ یہاں ایک اور بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اہل یہود نے ذوالقرنین کا سوال یونہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں پوچھا تھا، اس کا سیاق و سباق یہ تھا کہ اہل یہود، ذوالقرنین کے اس احسان کے نتیجے میں اس سے بے پناہ محبت کرنے لگے تھے مگر چونکہ وہ سمجھتے تھے کہ اس کا علم ماسوائے ہمارے اور کسی کو نہیں اس لئے سوال کیا۔ ذوالقرنین اور سائرس کی ان کڑیوں کو ملانے کے باوجود اس کو کوئی حتمی یا تاریخی شہادت نہیں کہا جا سکتا تھا، لیکن مولانا نے ایک انتہائی اہم اور مضبوط شہادت سے یہ ثابت کیا کہ سائرس ہی ذوالقرنین تھا۔ لکھتے ہیں:
“لیکن 1837ءکے ایک انکشاف نے جس کے نتائج بہت عرصے کے بعد منظر عام پر آئے، اس قیاس کو ایک تاریخی حقیقت ثابت کر دیا اور معلوم ہو گیا کہ فی الحقیقت شہنشاہِ سائرس کا لقب ذوالقرنین تھا اور یہ محض یہودیوں کا کوئی مذہبی تخیل نہ تھا بلکہ خود سائرس کا یا باشندگان کا مجوزہ اور پسندیدہ نام تھا۔ اس انکشاف نے شک و تخمین کے تمام پردے اٹھا دیئے۔ یہ خود سائرس کی ایک سنگی تمثال ہے جو اصطحر (Pasargadac) کے کھنڈروں میں دستیاب ہوئی۔ اس میں سائرس کا جسم اس طرح دکھایا گیا ہے کہ اس کے دونوں طرف عقاب کی طرح پر نکلے ہوئے ہیں اور سر پر مینڈھے کی طرح دو سینگ ہیں۔”( 24)
اس پر ایک اور قرینہ مولانا ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں:
“سدی کی ایک روایت میں بھی جو قرطبی وغیرہ نے نقل کی ہے اس طرف صریح اشارہ ملتا ہے۔ قال قالت اليهود أخبرنا عن نبى لم يذكره الله فى التوراة الا في مكان واحد. قال ومن؟ قالوا ذوالقرنين یعنی یہودیوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اس نبی کی نسبت ہمیں خبر دیجئے جس کا نام تورات میں صرف ایک ہی مقام پر آیا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا وہ کون؟ کہا ذوالقرنین۔ چونکہ سائرس کے ذوالقرنین ہونے کا اشارہ صرف دانیال نبی کے خواب میں آیا ہے، اس لیے یہودیوں کا یہ بیان ٹھیک ٹھیک اسی طرف اشارہ تھا۔ علاوہ بریں سائرس کی تمثال کے انکشاف نے قطعی طور پر یہ بات آشکار کر دی ہے کہ اس کے سر پر دو سینگوں کا تاج رکھا گیا تھا اور یہ فارس اور مادہ کے اجتماع و اتحاد کی علامت تھی۔” (25)
ان تمام شواہد کے بعد اب سب سے بڑی چیز یہ دیکھی جائے گی کہ ان (ذوالقرنین اور سائرس) کے اوصاف میں کس قدر مطابقت اور ہم آہنگی تھی۔ قرآن کے مطابق وہ انتہائی رحم دل انسان تھا۔ اسے مغرب میں جن لوگوں پر حکومت ملی تھی باوجود اس کے کہ وہ انہیں سزا دینے کا حق رکھتا تھا لیکن اس نے رحمدلی سے کام لیا اور ان سب کو معاف کر دیا۔ بالکل اسی طرح کا واقعہ سائرس کے ساتھ بھی پیش آیا کہ جب اسے لیڈیا کی فتح حاصل ہوئی تو باوجود اس کے کہ وہ سزا دینے کا حق رکھتا تھا اور باشندگانِ لیڈیا بھی اپنی سرکشی کے باعث سزا پانے کا حق رکھتے تھے، اس نے ان سب کو معاف کر دیا۔مولانا نے اس سلسلے میں سائرس کے بارے میں یونانی مورخین کے اقوال بھی نقل کئے ہیں اور ساتھ ہی اس کی بھی تصریح کر دی ہے کہ یہ تمام مورخین اس کے ہم مذہب، ہم قوم یا ہم وطن نہیں تھے اور ان کا زمانہ بھی سائرس کے کافی بعد کا ہے مگر ان تمام تر عناصر کے باوجود وہ اس کی شان اور فضیلت بیان کرنے میں رطب اللسان ہیں۔ ان مورخین کے اقوال کا مقابلہ قرآن مجید میں ذوالقرنین کے اوصاف سے کروایا جائے تو دونوں میں گہری مشابہت کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔
مولانا نے سائرس اور سکندر مقدونی کے اوصاف اور ان کی فتوحات کی نوعیت کا فرق واضح کیا ہے اور مفسرین کے اس طبقے کا مکمل رد کر دیا ہے جو سکندر مقدونی ہی کو ذوالقرنین بنانے پر مصر ہیں۔ مولانا لکھتے ہیں:
“سکندر اعظم کو ارسطو کی تعلیم و تربیت نے تیار کیا تھا اور بلاشبہ وہ بہت بڑا فاتح نکلا، لیکن کیا انسانیت و اخلاق کا بھی کوئی گوشہ فتح کر سکا؟ سائرس کے لئے ہمیں کوئی ارسطو نہیں ملتا، اس نے انسانی حکمت کی درسگاہ کی جگہ قدرت کی درسگاہ میں پرورش پائی تھی۔ تاہم اس نے سکندر کی طرح صرف ملکوں ہی کو نہیں بلکہ انسانیت و فضائل کی مملکتوں کو بھی مسخر کر لیا تھا!سکندر کی تمام فتوحات کی عمر اس سے زیادہ نہ تھی، جتنی خود اس کی عمر تھی، لیکن سائرس کی فتوحات نے جو اینٹیں چن دی تھیں وہ دو سو برس تک نہ ہل سکیں۔ سکندر کی فتوحات صرف جسم کی فتوحات تھیں، جنہیں قہر و طاقت نے سر کیا تھا، لیکن سائرس کی فتوحات روح و دل کی فتوحات تھیں جنہیں انسانیت اور فضیلت نے سر کیا تھا۔ پہلی سر اٹھاتی ہے اور ٹکتی نہیں، دوسری ٹک جاتی ہے اور ٹلتی نہیں۔” (26)
مولانا کی اس تمام تحقیق کا نچوڑ یہ نکلتا ہے کہ سائرس ہی دراصل ذوالقرنین تھا، کیونکہ تاریخ و جغرافیائی شواہد اور دلائل اسی کی توثیق کرتے ہیں۔ مگر یہ بحث ابھی مکمل نہیں ہوئی کیونکہ اگر سائرس ہی کو ذوالقرنین مان لیا جائے تو اس کا سب سے کڑا امتحان سائرس کے مذہب کی تحقیق کے بارے میں اب بھی باقی رہ جاتا ہے۔ قرآن کی آیات ثابت کرتی ہیں کہ ذوالقرنین موحد تھا۔ اب دیکھا جائے گا کہ کیا سائرس بھی موحد تھا؟ اور اگر غور کیا جائے تو اس امتحان میں پاس ہو جانے کے بعد کوئی وجہ باقی نہیں بچتی کہ سائرس کو ذوالقرنین تسلیم نہ کر لیا جائے۔
مولانا کا کہنا ہے کہ سائرس مذہب زردشت کا پیروکار تھا۔ مگر اس کے ساتھ ہی اس کی وضاحت میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ زردشت مذہب ابتداءمیں وحدانیت پرست مذہب کی حیثیت رکھتا تھا اور اس کی تمام تر تعلیمات انسانیت کی فلاح و بہبود اور ایک خدا کی عبادت کی دعوت دیتی تھیں۔ مگر صدیوں سے رائج مجوسیت کی تعلیمات سے یہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا اور اس کے خالص توحیدی اعتقادات کو ثنویت کے اعتقادات نے خود میں مدغم کرنے کی کوشش کی۔مولانا کے مطابق جس طرح روم کی مسیحیت قدیم رومی بت پرستی کے رد عمل سے محفوظ نہ رہ سکی، اسی طرح زردشت کی خالص خدا پرستانہ تعلیم بھی قدیم مجوسیت کے رد عمل سے بچ نہ سکی۔ خصوصاً ساسانی عہد میں جب وہ از سرِ نو مدون ہوئی تو اصل تعلیم سے بالکل ایک مختلف چیز بن چکی تھی۔ (27)
مولانا کی تحقیق کے مطابق زردشت کی وفات 550قبل از مسیح سے583قبل از مسیح ہے جبکہ سائرس کی تخت نشینی کا واقعہ تمام مورخین کی شہادتوں کی روشنی میں 550 قبل از مسیح میں پیش آیا۔ اس سے مولانا نے ثابت کیا کہ سائرس، زردشت کا ہم عصر تھا، اس نے زردشت سے اس کی تعلیمات کو سمجھا اور اسی مذہب کو قبول کر لیا اور اس لحاظ سے وہ سب سے پہلا بادشاہ تھا جسے زردشت مذہب کا سب سے پہلا فرمانروا ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔چونکہ قرآن مجید میں ذوالقرنین کے حوالے سے جو صیغہ استعمال ہوا ہے وہ “قلنا”کا ہے یعنی :
" قُلْنَا يَا ذَا الْقَرْنَيْنِ إِمَّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمَّا أَن تَتَّخِذَ فِيهِمْ حُسْنًا (28)
ترجمہ: “ ہم نے کہا اے ذوالقرنین (اب یہ لوگ تیرے اختیار میں ہیں) تو چاہے انہیں عذاب میں ڈالے، چاہے اچھا سلوک کر کے اپنا بنا لے۔”
چنانچہ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ خدا تو ہمیشہ نبی ہی سے براہِ راست مخاطب ہوتا ہے اور قرآن میں جہاں جہاں یہ صیغہ استعمال ہوا ہے وہ نبی ہی کے لئے استعمال ہوا ہے، تو کہیں ایسا تو نہیں کہ ذوالقرنین اللہ کے برگزیدہ نبی تھے؟اس جگہ پر ان مفسرین کا استدلال بے بنیاد ہوتا نظر آتا ہے جوسکندر مقدونی ہی کو ذوالقرنین بنانا چاہتے ہیں ۔ اب اپنی دلیل میں وہ “قلنا”کے منطوق کی بجائے اس کے مفہوم کی وضاحت پیش کرتے ہیں۔ مگر ظاہر ہے کہ اس مفروضہ کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔مولانا آزادؒنے اس کی مختلف توجیہات بیان فرمائی ہیں۔ لکھتے ہیں:
“اس میں شک نہیں کہ “قلنا”کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ بالواسطہ خطاب ہو یعنی اس عہد کے کسی پیغمبر کے ذریعے ذوالقرنین کو مخاطب کیا گیا ہو جیسا کہ فقلنا اضربوہ ببعضھا (273:) میں ہے۔ یا خطاب قولی نہ ہو، تکوینی ہو جیسا کہ قیل یا ارض ابلعی ماءک ویا سماءاقلعی(44:11) اور قلنا یا نار کونی بردا وسلاما علی ابراھیم(69:21) وغیرہا آیات میں ہے۔ لیکن اس طرح کا مطلب جب ہی قرار دینا چاہئے کہ اس کے لئے قوی وجوہ موجود ہوں اور یہاں کوئی وجہ موجود نہیں۔ آیت کا صاف صاف مطلب یہی ہے کہ ذوالقرنین کو اللہ نے براہِ راست مخاطب کیا اور اس پر اللہ کی وحی نازل ہوئی تھی۔ باقی رہی یہ بات کہ یہ وحی نبوت کی وحی تھی یا اس طرح کی وحی تھی جیسی حضرت موسیٰ کی والدہ کی نسبت بیان کی گئی ہے کہ و اوحینا الی ام موسی ان ارضعیہ(7:28) تو صحابہؓ و سلف سے جو تفسیر منقول ہے تو وہ یہی ہے کہ ذوالقرنین نبی تھا اور متاخرین میں شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اور ان کے شاگرد حافظ ابن کثیرؒ بھی اسی تفسیر کی تائید کرتے ہیں۔” (29)
مفسرین کے لئے ایک اور الجھن یاجوج و ماجوج سے متعلق رہی ہے۔ یہ کون تھے؟ اور ان کا تعلق کس علاقے سے تھا؟ مختلف حضرات نے مختلف آراءاس بارے میں دی ہیں ۔مولانا شبیر احمد عثمانیؒ نے اس موضوع پر کہ یاجوج و ماجوج کون تھے؟ واللہ اعلم کے الفاظ پر اکتفا کیا ہے۔ مگر ساتھ ہی ایک ضعیف روایت کعب احبار کی نقل کی ہے۔ لکھتے ہیں کہ:
“کعب احبار نے فرمایا اور نووی نے فتاویٰ میں جمہور علماءسے نقل کیا ہے ان کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے آدم علیہ السلام پر منتہی ہوتا ہے مگر ماں کی طرف سے حوا تک نہیں پہنچتا۔ گویا وہ عام آدمیوں کے محض باپ شریک بھائی ہوئے۔” (30)
اگر مولانا کا یہ جواب درست مان لیا جائے تو اس سے چند شبہات پیدا ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا تو یہ کہ اس تفسیر سے حضرت آدم علیہ السلام کی ذات مبارکہ پر حرف لازم آتا ہے یعنی یہ کہ قرآن، حدیث اور تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی حوا کے علاوہ کوئی اور بیوی بھی تھیں۔ ایسی صورت میں یہ روایت یاجوج ماجوج کی وضاحت کی بجائے حضرت آدم علیہ السلام کی مبارک ذات پر ایک انتہائی ناشائستہ الزام چھوڑ جاتی ہے۔ اس روایت کے راوی کے بارے میں اگر ہم غور کریں تو اسماءالرجال کی متعدد کتب اس کو غیر ثقہ اور واضعِ حدیث تسلیم کرتی ہیں۔ مولانا احمدسعید دہلویؒ نے بھی کشف الرحمن میں اس کے متعلق کوئی تحقیقی قول نقل نہیں کیا اور اس معاملہ کو مستقبل کے انکشافات پر اٹھا دیا ہے۔ فرماتے ہیں:
“یاجوج و ماجوج کوئی غیر معمولی طاقت کی مالک ہو گی۔ اگرچہ اس وقت تک اس قوم کا پتہ اور اس دیوار کا سراغ نہیں مل سکا لیکن کیا عجب ہے کہ مستقبل قریب میں یا بعید میں پتہ لگ جائے۔ جس طرح بعض براعظم اب سے پہلے معلوم نہ تھے اور بعد میں معلوم ہوئے۔”(31)
مولانا دریابادیؒ نے اس پر تفصیل سے مختلف اقوال بڑی تحقیق و تدقیق کے ساتھ بیان فرمائے ہیں۔ مگر اپنی کوئی حتمی اور قطعی رائے قائم نہیں کی ۔ ا ن کے مطابق بہ ظاہر یہ منگولی قبیلے کے معلوم ہوتے ہیں جو پہاڑوں کی دوسری طرف آباد تھے، اور کبھی کبھی موقع پا کر یلغار کرتے ہوئے تُرکوں کے درمیان گھس آتے تھے۔ یاجوج اور ماجوج کا اشتقاق اہلِ لغت نے مادہ “اُج” سے کیا ہے، جس کے معنی آگ کے شعلہ مارنے اور پانی کے تموج و تلاطم کے ہیں۔ ان کے یہ نام ان کی شدتِ شورش کی بنا پر پڑے۔۔۔ عہدِ عتیق کے صحیفہ خرقی ایل کے باب 38-39 میں یاجوج و ماجوج کا ذکر بار بار آیا ہے اور پیشین گوئیاں بھی درج ہیں لیکن کچھ تفصیلات بیان نہیں ہوئی ہیں۔ بائبل کے شارحین بھی آج تک ان کی تعیین میں مضطرب ہیں۔ کوئی یاجوج و ماجوج کو دو قومیں قرار دیتا ہے اور کوئی کہتا ہے کہ یاجوج قوم کا نہیں مقام کا نام ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ یاجوج یافث بن نوحؑ کی نسل سے ہے۔ عام طور پر ان لوگوں کی سکونت ایشیاءکوچک اور آرمینیا میں سمجھی گئی ہے اور بعض نے کہا کہ یہ وہی قومیں ہیں جو ستیہین (Saythins) یا تو رانی کہلاتی ہیں۔ بہر حال بائبل اور اس کی شروح سے قرآنی یاجوج و ماجوج پر کچھ زیادہ روشنی نہیں پڑتی۔(32)
مولانا آزادؒ نے بھی عہدِ عتیق کی روایت کو بنیاد بنایا ہے جس میں یاجوج و ماجوج کے بارے میں مختلف پیشین گوئیاں بیان کی گئی ہیں۔ مگر مولانا نے یہاں ایک اور نقطہ بیان کیا کہ یاجوج و ماجوج کی اس روایت سے پہلے سائرس کا ذکر تفصیلاً آیا ہے اور یہودیوں کی آزادی سائرس کے ہاتھوں ہونے کی پیشین گوئیاں بیان ہو چکی ہیں۔ اس کے فوراً بعد یاجوج و ماجوج کا ذکر کیا گیا۔ چنانچہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں پیشن گوئیاں ایک وقت میں پیش آئیں اور ان کا زمانہ قریب قریب ہے اور اس سے مولانا اپنے دعویٰ (یعنی ذوالقرنین و سائرس کی مشابہت) میں بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں کہ قرآن میں صاف صاف کہا۔ ذوالقرنین نے یاجوج و ماجوج کے حملوں کی روک تھام کے لئے ایک سد(دیوار) تعمیر کر دی تھی اور یہی واقعہ سائرس کے ساتھ بھی پیش آیا۔ لہٰذا یہ ذوالقرنین کے سائرس ہونے کی ایک اور دلیل ہوئی۔
اس سوال کے جواب میں کہ یاجوج و ماجوج کون تھے، مولانا کی تحقیق یہ ہے کہ تمام تاریخی قرائن متفق طور پر شہادت دے رہے ہیں کہ اس سے مقصود صرف ایک ہی قوم ہو سکتی ہے۔ اس کے سوا کوئی نہیں۔ یعنی شمال مشرقی میدانوں کے وہ وحشی مگر طاقتور قبائل جن کا سیلاب قبل از تاریخ سے لے کر نویں صدی مسیحی تک برابر مغرب کی طرف امنڈتا رہا، جن کے مشرقی حملوں کی روک تھام کے لئے چینیوں کو سینکڑوں میل لمبی دیوار چین بنانی پڑی تھی، جن کی مختلف شاخیں تاریخ میں مختلف ناموں سے پکاری گئی ہیں اور جن کا آخری قبیلہ یورپ میں میگر کے نام سے روشناس ہوا اور ایشیاءمیں تاتاریوں کے نام سے۔ اس قوم کی ایک شاخ تھی جسے یونانیوں نے سیتھین (seythian) کے نام سے پکارا ہے اور اسی کے حملوں کی روک تھام کے لئے سائرس نے سد تعمیر کی تھی۔شمال مشرق کے اس علاقے کا بڑا حصہ اب منگولیا کہلاتا ہے۔ لیکن “منگول” لفظ کی ابتدائی شکل کیا تھی؟ اس کے لئے جب ہم چین کے تاریخی مصادر کی طرف رجوع کرتے ہیں (اور ہمیں اسی طرف رجوع ہونا چاہئے کیونکہ وہ منگولیا کے ہمسایہ میں ہے) تو معلوم ہوتا ہے کہ قدیم نام “موگ” تھا یقینا یہی “موگ” ہے جو چھ سو برس قبل مسیح یونانیوں میں “میگ” اور “میگاگ” پکارا جاتا ہو گا اور یہی عبرانی میں “ماجوج” ہو گیا۔ (33)
اس قوم کی بربریت کا اندازہ ساتویں صدی عیسوی میں مسلمانوں کے خلاف اس قوم کے خروج سے لگایا جا سکتا ہے، جسے اسلامی مملکت کی کوئی متمدن اور ترقی یافتہ سلطنت بھی نہ روک سکی۔ وسط ایشیاءسے لے کر عراق تک کوئی ملک بھی ایسا نہ بچا جو ان کی بربریت کا شکار نہ ہوا ہو۔ منگولوں کی اس بربریت کو اگر یاجوج و ماجوج کے وحشیانہ طرزِ عمل پر منطبق کیا جائے تو ان کے مابین کوئی فرق باقی نہیں بچتا۔مولانا کے مطابق اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یاجوج و ماجوج سے مقصود یہی منگولین قوم اور اس کی تمام صحرا نورد اور وحشی شاخیں ہیں۔(34)
سورہ انبیاءکے تشریحی نوٹ میں مولانا نے بخاری شریف کی ایک حدیث (جس کی راوی حضرت زینبؓ ہیں) کا ذکر کیا ہے۔ جس میں ہے کہ ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے اٹھے تو آپ کا چہرہ مبارک شدتِ تاثر کی وجہ سے سرخ ہو گیا تھا۔ آپ فرما رہے تھے لا الہ الا اللّٰہ اس شر سے جو عرب کے قریب آ گیا افسوس! پھر انگلی کے اشارے سے بتایا کہ یاجوج و ماجوج کی روک میں اتنا (ایک سکّہ کے برابر) رخنہ پڑ گیا ہے۔ اس حدیث کی تشریح میں مولانا لکھتے ہیں کہ
اس حدیث سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
اولاً: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یعنی ساتویں صدی مسیحی میں یاجوج و ماجوج کی روک کھلنا شروع ہو گئی تھی۔ لیکن اتنی نہیں کھلی تھی کہ قدم باہر بڑھا سکیں۔ یہ حقیقت خواب میں اس طرح دکھائی گئی، جیسے ایک دیوار ہے اور اس میں ذرا سا سوراخ بن گیا ہے۔ چنانچہ تاریخ اس کی ہو بہو تصدیق کرتی ہے۔ ٹھیک یہی زمانہ ہے جب منگولی قبائل نے اس راہ کے علاوہ جسے ذوالقرنین بند کر چکا تھا، ایک دوسری راہ کا سراغ پا لیا۔ یعنی بحرِ خزر اور بحرِ اسود کی درمیانی راہ کی جگہ بحیرہ یورال اور بحرِ خزر کا درمیانی راستہ۔ چھٹی صدی میں تاتاریوں کے بعض قبائل اس طرف بڑھ آئے اور دریائے جیحوں کی وادیوں میں آباد ہو گئے۔
ثانیاً: یاجوج و ماجوج کے ظہو رمیں عرب کے لئے ہلاکت تھی، کیونکہ “ویلل العرب” فرمایا “للمسلمین” نہیں فرمایا، چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو نسل عربی اقتدار و عرو ج کے انقراض کا باعث ہوئی، وہ یہی منگولی نسل ہے۔ اس لیے یقینا یاجوج و ماجوج سے مقصود یہی نسل تھی۔ عربی اقتدار کی ہلاکت کی ابتدا بھی اسی نسل کی مختلف شاخوں سے ہوئی۔ یعنی تُرکوں اور سلجوقیوں سے اور انتہا بھی اسی کے نئے ظہور سے ہوئی۔ یعنی منگولی اور تاتاریوں سے۔(35)
یاجوج و ماجوج کی تحقیق کے بعد یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ سد (دیوار) کہاں واقع ہے جس کا ذکر قرآن نے کیا ہے؟ اور موجودہ نقشہ میں اسے کس مقام پر ڈھونڈا جا سکتا ہے۔مولانا تھانویؒ نے صاحب روح المعانی کے حوالے سے اس سوال کا جواب دیا ہے مگراپنی کوئی رائے اس بارے میں پیش نہیں کی۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
“رہا یہ شبہ مخالفین کا کہ ہم نے تمام زمین کو چھان ڈالا مگر اس (سد کا پتہ نہیں ملا اور اسی شبہ کے جواب کے لئے ہمارے مولفین نے پتہ بتلانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اس کا صحیح جواب وہ ہے جس کو صاحب روح المعانی نے اختیار کیا ہے۔ حاصل ترجمہ اس کا یہ ہے کہ ہم کو اس کا موقع معلوم نہیں اور ممکن ہے کہ ہمارے اور اس کے درمیان بڑے بڑے سمندر حائل ہوں اور یہ دعویٰ کرنا کہ ہم تمام خشکی و تری کو محیط ہو چکے ہیں واجب التسلیم نہیں اور عقلاً یہ جائز ہے کہ امریکہ کی طرح سمندر کے درمیان میں کوئی حصہ زمین کا ایسا ہو جہاں اب تک رسائی نہ ہوئی ہو۔” (36)
تاہم مولانا آزادؒ نے اس سد کا مقام کاکیشیا کے پہاڑی سلسلے کے آخر میں واقع دیوار دربند اور درہ داریال کو قرار دیا ہے۔ عرب مورخین نے ان کی تعمیر کو نوشیرواں عادل بادشاہ کے ساتھ منسوب کیا ہے۔ مگر مولانا نے ثابت کیا کہ یہ دیوار نوشیرواں (579۔ 531 ق۔م) کے زمانے سے پہلے کی ہے، جسے اس سے پہلے کے مورخین نے اپنی کتب تاریخ میں بیان کیا ہے۔مغربی مورخین نے اسے سکندر سے منسوب کیا ہے۔ مگر یہ بات اس لیے درست نہیں کہ سکندر کی کسی مہم میں بھی کاکیشیا کی لڑائی کا ذکر موجود نہیں ہے۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ یہ سد دربند ہے یا درہ داریال ہے یا یہ دونوں ہیں؟ تو مولانا لکھتے ہیں:
“قرآن میں ہے کہ ذوالقرنین دو پہاڑی دیواروں کے درمیان پہنچا، اس نے آہنی تختیوں سے کام لیا، اس نے درمیان کا حصہ پاٹ کے برابر کر دیا، اس نے پگھلا ہوا تانبا استعمال کیا۔ تعمیر کی یہ تمام خصوصیات کسی طرح بھی دربند کی دیوار پر صادق نہیں آتیں۔ یہ پتھر کی بڑی بڑی سلوں کی دیوار ہے اور دو پہاڑی دیواروں کے درمیان نہیں ہے بلکہ سمندر سے پہاڑ کے بلند حصے تک چلی گئی ہے۔ اس میں آہنی تختیوں اور پگھلے ہوئے تانبے کا کوئی نشان نہیں ملتا پس یہ قطعی ہے کہ ذوالقرنین والی سد کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔البتہ درہ داریال کا مقام ٹھیک ٹھیک قرآن کی تصریحات کے مطابق ہے۔ یہ دو پہاڑی چوٹیوں کے درمیان ہے اور جو سد تعمیر کی گئی ہے۔ اس نے درمیان کی راہ بالکل مسدود کر دی ہے۔۔۔ بہر حال ذوالقرنین کی اصل سد یہی سد ہے۔” (37)
خلاصہ کلام یہ کہ مولانا آزادنے سورة الکہف کے تشنہ مقامات کی سیر حاصل اور پر مغز تحقیقی تفسیر بیان فرمائی ہے اور زمانہ حال کے معترضین کو جو قرآن کے اس مقام کو اپنے معاندانہ استہزا ءکا سب سے زیادہ نشانہ بناتے تھے، انتہائی مدلل اور علمی جواب دیا ہے۔ بلاشبہ یہ اور اسی طرح کے دیگر بہت سے مقامات پر مولانا نے انتہائی دقیق اور مشکل مقامات کو بہت خوبصورت اور اچھوتے پیرائے میں بیان فرمایا ہے، جن پر متقدمین نے بحث کرنے میں خود کوعاجز سمجھا ہے۔ آج جب کے ہمیں علم وتحقیق کے جدیدوسائل میسر ہیں ، اس بات کا تقاضا پیدا ہوتا ہے کے ہم ان وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے سورة الکہف جیسے قرآن کریم کے مشکل مقامات کی علمی و سائنسی تشریح و توجیہ پیش کریں ۔اس عمل سے جہاں مولانا آزاد اور ان جیسے دیگر محققین کی علمی معروضات کوجدید تحقیق کی کسوٹی پر پرکھا جاسکے گا وہیں اس حوالے سے پایا جانے والا علمی خلا بھی پورا ہوسکےگا۔
حوالہ جات
- آزاد،ابو لکلام ،مولانا،ترجمان القرآن ،ساہتیہ اکیڈمی،دہلی، ج1،ص59
- مرجع سابق، ج1،ص63
- مرجع سابق، ج1،ص63۔64
- مرجع سابق، ج1،ص 17
- الکہف،آیت 23۔24
- تھانوی،اشرف علی،مولانا،بیان القرآن، مکتبة الحسن،لاہور،س۔ن، ج2، ص 238
- دہلوی، احمد سعید،کشف الرحمن، محمد مسلم بن برکت اللہ،کراچی،1965 ج1، ص 468
- دریابادی،عبد الماجد،مولانا،تفسیر ماجدی، مجلس نشریات اسلام،کراچی، ج3، ص 97
- ترجمان القرآن، ج2، ص393
- مرجع سابق، ج2، ص 394
- عثمانی ،شبیر احمد،مولانا،تفسیر عثمانی،دار التصنیف لمیٹڈ،کراچی، 1395ھ، ص381
- تفسیر ماجدی، ج3، ص 96
- سورة الکہف، آیت17
- بیان القرآن، ج2، ص232
- کشف الرحمن، ج1، ص 471
- تفسیر ماجدی، ج3، ص 101
- ترجمان القرآن، ج2، ص 395
- مرجع سابق، ج2، ص398
- بیان القرآن، ج2، ص254
- تفسیر عثمانی، ص 392
- کشف الرحمن، ج2، ص484
- تفسیر ماجدی، ج3، ص151
- ترجمان القرآن، ج2، ص400
- مرجع سابق، ج2، ص401
- مرجع سابق، ج2، ص405
- مرجع سابق، ج2، ص410
- مرجع سابق، ج2، ص416
- سورة الکہف،آیت85
- ترجمان القرآن، ج2، ص430
- تفسیر عثمانی، ص 393
- کشف الرحمن، ج2،ص 384
- تفسیر ماجدی، ج3،ص 851
- ترجمان القرآن، ج2، ص122
- مرجع سابق، ج2، ص392
- مرجع سابق، ج2، ص522
- بیان القرآن، ج2، ص 52
- ترجمان القرآن، ج2، ص922
حوالہ جات
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |