Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 36 Issue 1 of Al-Idah

نقد رجال میں امام بوصیری كا منہج مصباح الزجاجہ کی روشنی میں |
Al-Idah
Al-Idah

اسلام کے بنیادی ماخذمیں قرآن مجید کے بعد احادیث مبارکہ ہیں، جب کچھ لوگوں نے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنے کے لیے خود ساختہ احادیث پیش کیں تو علماء نے احادیث صحیحہ کو من گھڑت احادیث سے جدا کرنے کی جو مبارک سعی کی اس کے صلے میں اللہ پاک نے مسلمانوں کو علم اسماء الرجال اور علم جرح وتعدیل عطا کیا،یقینا یہ مہتم بالشان علم ہے عبداللہ بن مبارک اس علم کے بارے میں فرماتے ہیں "الْإِسْنَادُ مِنَ الدِّينِ، وَلَوْلَا الْإِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَاءَ مَا شَاءَ "[1] اسناد یعنی اسماء الرجال اور جرح وتعدیل دین کا حصہ ہے ورنہ جس کے دل میں جو آئے گا وہ کہے گا۔ علم جرح و تعدیل میں مسلمانوں کا ثانی کوئی نہیں ہے،مسلمان علماء نے اپنے نبی ﷺ کی احادیث مبارکہ کو محفوظ کرنے کے لیے اپنی پوری پوری زندگیاں وقف کی ہیں ،یوں تو جرح و تعدیل کا آغاز دور صحا بہ ہی سے ہوچکا تھا ،صحابہ کے بعد تابعین نے اس کام کو آگے بڑھایا تابعین کے زمانے میں اس کی ضرورت زیادہ تھی کیونکہ فتنہ وضع حدیث نے سر اٹھا لیا تھا اور جو جنگ وہ میدان کارزار میں ہار چکے تھے اسے اس طرح جیتنا چاہتے تھے۔ مگر تابعین کرام اور تبع تابعین نے اس دور کے مطابق جرح و تعدیل کے ذریعے اس فتنہ کی سرکوبی کی بالخصوص امام شعبہ جرح و تعدیل کے مرد میدان بن کر نمودار ہوئے[2]۔پھر ان کے تلامذہ نے اس کام کو آگے بڑھایا یہاں تک کھرے کھوٹے کی خوب پہچان کر کے جرح و تعدیل کی کھڑى نگرانی میں اور حفاظت ربانی میں کتب الصحاح الستہ وجود میں آئیں اور یہی دور اصحاب الستہ کا دور متقدمین اور متاخرین آئمہ جرح و تعدیل کے مابین حدفاصل ہے۔

تیسری صدی کے اختتام پر تدوین حدیث کا کام تقریبا مکمل ہو چکا تھااور چند ہی کتابیں ایسی تھیں جو چوتھے اور پانچویں دور میں مدون ہوئیں چوتھی صدی کے اختتام پر ائمہ پر نئے اقوال نقد (جرح و تعدیل ) کا دروازہ بند ہو گیا کیونکہ کہ تقریبا تمام رواۃ حدیث کے احوال پر تنقیدی کام مکمل ہو چکا تھا اس کے بعد ان ہی اقوال کی جمع و ترتیب ، تشکیل و تدوین ، استنباط و استخراج ، بحث و مباحثہ ، قواعد و ضوابط ، تطبیق و ترجیح ، اور آئمہ ناقدین کے احوال و انداز تجریح و تعدیل کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوا ، ابتداء ہی سے ہمیں ہر دور میں أئمہ رجال كے كارناموں كا تذكرہ ملتا ہے، جنہوں نے اپنے اپنے منہج كے مطابق رجال حدیث پر نقد كیا اور انكے احوال كو دنیا كے آگے واضح انداز میں پیش كر كے أحادیث رسول كریم ﷺ كی خدمت فرمائی، دور صحابہ میں مشہور نام ابوبکر صدیق”رضی اللہ عنہ عمر بن الخطاب “رضی اللہ عنہ کے ہیں جنہوں نے نقد رجال كی داغ بیل ڈالی،[3] تابعین میں ہمیں عامر بن شراحبیل الشعبی،محمد بن سیرین ، سعید بن المسیب،سعید بن جبیر کے نام ملتے ہیں۔[4]

بعد كے ادوار میں إمام أوزاعی شعبہ بن الحجاج إمام بخاری إمام مسلم أبو حاتم أبو زرعہ اورإمام دارقطنی قابل ذكرہیں۔متاخرین میں إمام مزی، إمام ذہبی إمام ابن حجر عسقلانی، إمام سخاوی كسی تعارف كے محتاج نہیں[5]۔ ان کے علاوہ اور بھی بھی بہت سے آئمہ ہیں جن کے اقوال نقد بھی معتبر ہیں مگر یہ مقالہ سب کا احاطہ کرنے کا متحمل نہیں ہے۔ ائمہ جرح و تعدیل میں سے کچھ آئمہ ایسے ہیں جو جرح و تعدیل میں کثیرا لاقوال ہیں جیسے امام مالک ، امام شعبہ بن الحجاج ۔ کیونکہ ان آئمہ کو جرح و تعدیل کی جرورت زیادہ پیش آئی تو ان کو بمطابق ضرورت کلام بھی زیادہ کرنا پڑا۔اور کچھ آئمہ وہ ہیں جو قلیل الکلام ہیں انھوں نے بہت کم راویوں پر کلام کیا ہے۔جیسے امام ابو حنیفہ ، امام شافعی، ابن عیینہ ان حضرات کو ضرورت ہی کم پیش آئی ہے اس لیے حسب ضرورت ہی کلام کیا ہے۔

ان ہی جبال العلم میں امام بوصیری ہیں جنہوں نے زوائد احادیث کے رواۃ پر کلا م کیا ہے ذیل میں امام بوصیری اور ان کی کتاب مصباح الزجاجہ اور ان کے منہج کا ذکر کیا جا رہا ہے۔

امام بوصیری کا نام و نسب

آپ کا نام احمد بن ابی بکر( عبدالرحمان )ابن اسماعیل بن قائماز بن عثمان بن عمر الشافعی ہے،آپ کو الشیخ، الحافظ ،شہاب الدین کے القاب سے نوازا گیا[6]، إمام زركلی نے متقدمین سے تفرد اختیار كرتے ہوئے انكے والد كا نام عبد الرحمن ذكر كیا ہے[7]۔یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کے والد کی کنیت ابوبکر اور اصل نام عبدالرحمان ہو۔

پیدائش و وفات

امام بوصیری ؒ مصر کے شہرابوصیر میں محرم 762ھ بمطابق 1360ھ میں پیدا ہوئے۔ اپنے ایک استاد کے کہنے پر ابوصیر سے قاہرہ منتقل ہوئے۔گراں قدر علمی خدمات سرانجام دینے کے بعداسی قاہرہ میں واقع مدرسہ السلطان حسن میں 8محرم الحرام سن 840 ھ بمطابق 1436ھ کو راہی عالم بقاء ہوئے۔ آپ نے عمر78 سال پائی۔طشتمر الدوادار میں دفن کیے گئے۔[8]

اولاد و اخلاف

اگرچہ مصادر میں انكی اولاد كا ذكر نہیں ملتا لیكن إمام سخاوی نے انكے ایك بیٹے كا ذكر فرمایا[9] ، جنكا نام تحقیق كے بعدمحمد معلوم ہوتا ہے[10]۔

تعلیم و تربیت

امام بوصیری نے ابتدائی تعلیم بوصیر میں حاصل کی بعدازاں علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کرنے کے لیے قاہرہ تشریف لائے ہی لیا [11]جہاں آپ نے رائج الوقت علوم اسلامیہ میں مہارت حاصل کی ۔ [12]آپ کے شیوخ میں شیخ نورالادمی، شیخ یوسف بن اسماعیل انبابی (823ھ)، قاضی القضاۃ عزالدین ابو عمربن عبدالعزیز بن قاضی القضاۃ بدالدین ابی عبداللہ محمد بن ابراہیم بن سعداللہ بن محمد بن ابراہیم بن جماعۃ(م768) ، ابراہیم بن احمدبن عبدالواحد التنوحی(م800ھ) ،بدرالدین قدسی ، حافظ عبدالرحیم بن الحسین بن عبدالرحمان بن ابو الفضل ذین الدین العراقی ثم المصری(806ھ) ، علی بن ابی بکر بن سلیمان بن ابی بکر بن عمر بن صالح نورالدین الھیثمی المصری(م807ھ) شامل ہیں اورحافظ احمد بن علی بن محمد المعروف ابن حجر عسقلانی (م852ھ)سے بھی استفادہ کیا اور ان کی شہرہ آفاق کتاب لسان المیزان اور دیگر تصانیف کی سماعت کی۔[13] امام بوصیری کے شاگردوں کا تذکرہ کتب تراجم و تواریخ میں بہت کم ملتا ہے۔بلکہ آپ کی حیات کے جملہ پہلو اسی تشنگی کا شکار ہیں۔ مگر یہ بات بھی قرین قیاس اور ناقابل تردید ہے کہ آپ سے بہت سے ناموراہل علم نے اکتساب فیض کیا ہو گا یہ الگ بات ہے کہ تاریخ نے اس رشتہ کو اپنے ریکارڈ میں محفوظ نہیں کیا۔ بلکہ علامہ سخاوی فرماتے ہیں’’ سمع مِنْهُ الْفُضَلَاء‘‘آپ سے فضلاء نے سماعت کی ۔[14] البتہ آپ کے ایک شاگرد کا ذکر کتب تراجم میں صراحت كے ساتھ ملتا ہے جن کا نام نجم الدین عمر بن محمد بن محمد بن محمدبن محمد الھاشمی المکی الشافعی المعروف بابن فھد(م885ھ)الامام العالم العریق" ذكر كیا جاتا ہے۔[15]

تصنیفات و تالیفات

امام بوصیری نے کل آٹھ (8)کتابیں تصنیف کی ہی

۱ :مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه:

اس کتاب میں سنن ابن ماجہ کی زوائد احادیث کی تخریج کے ان پر حکم لگانے کے ساتھ رواۃ پر بحث کئی گئی ہے۔

۲: اتحاف المهرة الخیرۃ بزوائد المسانید العشرۃ:

امام بوصیری نے اس کتاب میں’’ المسانید العشرہ ‘‘ کے زوائد کی تخریج کرکے احادیث پر حکم لگایا ہے۔

۳: فوائد المنتقیٰ لزوائد البيهقي:

اس کتاب میں امام بوصیری نے امام بىہقى کی السنن الکبریٰ کی ان روایات کی تخریج کی ہے جو صحاح ستہ میں شامل نہیں ہیں[16]،

۴ :جزء فی احادیث الحجامه:

اس کتاب میں امام بوصیری نے حجامہ کے موضوع پر احادیث جمع کی ہیں۔

۵ :عمل الیوم واللیله:

اس کتاب میں روزمرہ معمول کے اذکار و معمول صالحی کا ذکر ہے ۔اس کتاب کا تذکرہ مصادر ہی میں ملتا ہے ابھی تک ہماری دسترس اس کے مطبوعہ نسخہ تک نہیں ہو سکی۔

۶ :جزء فی ’’خصال تعمل قبل الموت فیمن یجری عليه عمله بعد الموت‘‘ ایصال ثواب کے ثبوت اور فضائل پر مشتمل ہے۔

۷: تحفة الحبیب الی الحبیب بالزوائد فی الترغیب والترهيب اس کتاب میں امام بوصیری نے امام منذری کی کتاب الترغیب والترھیب میں سے ان احادیث کو ذکر کیا ہے جو صحاح ستہ میں نہیں ہیں۔

۸ : زوائد نوادرالاصول للحکیم الترمذی:

نوادر الأصول في أحاديث الرسول صلى الله عليه وسلم محمد بن علي بن الحسن بن بشر، أبو عبد الله، الحكيم الترمذي (المتوفى: نحو 320هـ نے یہ کتاب تصنیف کی ہے امام بوصیری نے اس کتاب کے زوائد و مفارید پر زوائد نوادرالاصول للحکیم الترمذی نام کی کتاب لکھی ۔[17]

مصباح الزجاجہ فی زوائد ابن ماجہ کا تعارف

صحاح ستہ میں شامل کتاب سنن ابن ماجہ کو اہل علم اور طلبہ حدیث کے ہاں بہت مقبولىت حاصل ہے۔اور آغاز ہی سے اس کتاب کے مختلف جوانب و اطراف پر تحقیقی، تشریحی، تدریسی ، تنقیدی کام ہوتے رہے ۔اسی سلسلے کی ایک کڑی زوائدابن ماجہ بھی ہے۔زوائد سے مراد وہ احادیث ہیں جو صرف ابن ماجہ میں ہیں باقی صحاح خمسہ میں نہیں ہیں ۔ زوائد ابن ماجہ کی اہل علم نے اپنی اپنی بساط کے مطابق ان کی نشان دہی کی ہے،مگر اس سلسلے میں سب سے اچھا کام اپنے دور میں امام بوصیری نے کیا ہے۔انھوں نے تمام زوائد کو جمع کیا ہے، ہر حدیث پر حکم بھی لگایا ہے، شواہد اور متابع بھی پیش کیے ہیں اور راویوں پر کلام بھی کیا ہے۔امام بوصیری کے اس عظیم الشان کام کو بعد میں اہل علم کے ہاں مقبولیت حاصل ہوئی بلکہ بوصیری کی وجہ شہرت اور دوام بھی یہی کام بنا ،اگر امام بوصیری کے حصہ میں یہ کام نہ آتا تو شاہد آج اہل علم امام بوصیری سے متعارف ہی نہ ہوتے۔اور ابن ماجہ پر کسی بھی نوعیت کا تحقیقی کام کرنے کے لیے مصباح الزجاجہ مصدر کی حیثیت رکھتی ہے۔اس کتاب کی تکمیل 20 صفر 815ھ میں ہوئی ۔اس کتاب کو جدید طرز پر مکتبہ دارالعربیہ بیروت نے 1984ء بمطابق 1404ھ نے چار جلدوں میں شائع کیا ہے۔ [18]

نقدِ رجال میں امام بوصیری كا منہج

  1. امام بوصیری غیر معروف راوی کا مختصر مگر جامع ترجمہ پیش کرتے ہیں۔مثلا حَدثنَا مُحَمَّد بن عبد الله بن نمير حَدثنَا أبي عَن مُحَمَّد بن إِسْحَاق عَن عبد السَّلَام عَن الزهری عَن مُحَمَّد بن جُبَير بن مطعم عَن ابیه قَالَ قَامَ رَسُول الله صلى الله علیه بالخيف من منى فَقَالَ نضر الله امْرأ سمع مَقَالَتي فبلغها فَرب حَامِل فقه غير فقیه وَرب حَامِل فقه إِلَى من هو افقه منه حَدثنَا عَليّ بن مُحَمَّدحَدثنَا خَالِي يعلى ح وَحدثنَا هشام بن عمارثَنَا سعيد بن يحيى قَالَا حَدثنَا مُحَمَّد بن إِسْحَاق عَن الزهری عَن مُحَمَّد بن جُبَير بن مطعم عَن أَبیه عَن النَّبِي صلى الله علیه بنحوه هذا إِسْنَاد ضَعِيف لضعف عبد السَّلَام وهو ابْن أبي الْجنُوب [19]اس روایت کی سند میں عبدالسلام کا ترجمہ ابن ابی الجنوب پیش کرکے جامع مانع انداز میں ترجمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ابہام ختم کرکے عبدالسلام کو ممتاز کردیا۔
  2. ایک نام کے بہت سے رواۃ ہیں جن کے نام کے ساتھ کوئی ایسی علامت نہیں ہوتی جس سے اس کی تعیین ہو سکے اور اس کی تعیین کے لیے دقت نظر سے غور و فکر کرنا پڑتا ہے امام بوصیری ایسے مقامات پر تعیین کرتے ہیں،مگر بسا اوقات اصل نام کی تعیین میں امام بوصیری سے سہو بھی ہوجاتاہے۔مثلا حَدثنَا هشام بن عمار حَدثنَا الْوَلِيد بن مُسلم حَدثنَا إِسْحَاق بن عبد الله الْمَدِينِيّ قَالَ سَمِعت عبد الله بن أبي مليكَة يَقُول سَمِعت عبد الله بن عَمْرو بن الْعَاصِ يَقُول قَالَ رَسُول الله صلى الله علیه وسلم أَن للصَّائِم عِنْد فطره لدَعْوَة مَا ترد فَقَالَ ابْن أبي مليكَة سَمِعت عبد الله بن عَمْرو يَقُول إِذا أفطر اللهم إِنِّي أَسأَلك بِرَحْمَتك الَّتِي وسعت كل شَيْء أَن تغْفر لي هذا إِسْنَاد صَحِيح رجاله ثِقَات رَوَاه الْحَاكِم فِي الْمُسْتَدْرك عَن عبد الْعَزِيز بن عبد الرَّحْمَن الدباس عَن مُحَمَّد بن عَليّ بن زيد عَن الحكم بن مُوسَى عَن الْوَلِيد به حَدثنَا إِسْحَاق فَذكره وَرَوَاه البهیقی من طَرِيق إِسْحَاق بن عبيد الله قَالَ عبد الْعَظِيم الْمُنْذِرِيّ فِي كتاب التَّرْغِيب وَإِسْحَاق هذا مدنِي لَا يعرف قلت قَالَ الذَّهبی فِي الكاشف صَدُوق وَذكره ابْن حبَان فِي الثِّقَات لِأَن إِسْحَاق بن عبيد الله[20] بن الْحَارِث قَالَ النَّسَائِيّ لَيْسَ به بَأْس وَقَالَ أَبُو زرْعَة ثِقَة وَبَاقِي رجال الْإِسْنَاد على شَرط البُخَارِيّ[21]امام بوصیری نے اسحاق مدنی کی تعیین اسحاق بن عبداللہ بن الحارث بن کنانہ القرشی العامری سے کی ہے ۔ حالانکہ یہ حدیث ضعیف ہے اور اسحاق سے مرادإسحاق بن عبيد الله بن أبى المهاجر المخزومى ( أخو إسماعيل )ہے [22]اسحاق بن عبداللہ بن الحارث بن کنانہ القرشی العامری کے اساتذہ میں ابو ملیکہ نام کا کوئی شیخ تراجم میں مذکور نہیں اور نہ ہی ان کے تلامذہ میں الولید بن المسلم نام کا کوئی تلمیذ موجود ہے۔
  3. امام بوصیری اسناد پر کلام کرتے ہوئے اپنے استاد امام ابن حجر[23]کے انداز کو اپناتے ہیں، یعنی ائمہ ناقدین کے اقوال کی روشنی میں حکم لگاتے ہیں لہذا جرح و تعدیل میں آپ ناقد سے زیادہ ناقل ہیں،[24]
  4. جس راوی کے متعلق ائمہ اناقدین کے اقوال مختلف ہوتے ہیں آپ اس کے بارے میں مختلف فیہ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ حَدثنَا هشام بن عمارحَدثنَا عبد الحميد بن حبيب حَدثنَا الْأَوْزَاعِيّ حَدثنَا عبد الْوَاحِد بن قيس حَدثنِي نَافِع عَن ابْن عمر قَالَ كَانَ رَسُول الله صلی الله علیه وسلم إِذا تَوَضَّأ عَرك عارضیه بعض العرك ثمَّ شَبكَ لحيته باصابعه من تحتها هذا إِسْنَاد فیه عبد الْوَاحِد وهومُخْتَلف فیه[25]
  5. دیگر ائمہ محدثین و ناقدین کی طرح امام بوصیری بھی فیہ نظر اور فیہ مقال کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں: حَدثنَا الْعَبَّاس بن الْوَلِيد وَأحمد بن الازهر قَالَا حَدثنَا مَرْوَان بن مُحَمَّد حَدثنَا يزِيد بن السمط حَدثنَا الْوَضِين بن عَطاء عَن مَحْفُوظ بن عَلْقَمَة عَن سلمَان الْفَارِسِي أَن رَسُول الله صلی الله علیه وسلم تَوَضَّأ فَقلب جُبَّة صوف كَانَت علیه فَمسح بها وجهه هذا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات وَفِي سَماع مَحْفُوظ عَن سلمَان نظر[26]
  6. امام بوصیری اکثر اسی حدیث پر حکم لگاتے ہیں جو حکم کی مستحق ہو یعنی دیگراہل علم نے بھی اس پر کوئی حکم لگایا ہو۔ورنہ صرف تخریج کرتے ہیں۔
  7. امام بوصیری توثیق میں اکثر اوقات ابن حبان پر اعتماد کرتے ہیں اور ان کے اقوال بھی نقل کرتے مثلا وقیع کے بارے میں فرماتے ہیں هذا إِسْنَاد فیه مقَال وَكِيع ذکره ابْن حبَان فِي الثِّقَات وذکره الذهبی فِي الْمِيزَان[27]
  8. امام بوصیری بسا اوقات کسی حدیث اور راوی پر حکم لگاتے ہیں تو جب دوبارہ وہ روایت یا راوی مذکورہو تو اس پر پہلے والے حکم کے خلاف بھی حکم لگا دیتے ہیں ۔ جیسا کہ الحارث الاعور کے متعلق آپ نے مختلف حکم لگایا ہے ایک مقام پر فرمایا یہ ضعیف ہے [28]دوسرے مقام پر فرمایا اس کے ضعیف ہونے پر سب کا اتفاق ہے،[29] تیسرے مقام پر فرمایا مدینی نے اسے کذاب قرار دیا ہے۔[30]
  9. اور بسا اوقات آپ راوی پر کوئی حکم لگانے سے احتراز کرتے ہیں وہاں آپ فیہ نظر کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں اور جن احادیث و اسناد پر آپ نے سکوت اختیا رکیا ہے ان میں سے بعض صحیح، قابل اعتبار،اور قابل حجت بھی ہیں بلکہ ان کے متن اور رجال باقی صحاح خمسہ میں بھی ہیں ، ان کے شواہد و متتابعات بھی باقی صحاح میں موجود ہیں جس سے ان احادیث پر ضعف کا شبہ ساقط ہو جاتا ہے مثلاوَإِن أَبَا بردة اسْمه بريد بن عبد الله فیه نظر وَإِن اسمه عَمْرو بن يزِيد كَمَا ذكره الْمزي فِي الْأَطْرَاف والتهذیب۔[31]
  10. امام بوصیری کا توثیق میں ایک ہی اسلوب ہے ۔ ’’ هذا اسناد صحيح رجاله ثقات‘‘۔ یہ اسناد صحیح ہے اور اس کے رجال (رواۃ) ثقہ ہیں اور کبھی فرماتے ہیں ’’ھذا إسناد صحيح رجاله کلهم‘‘[32] یہ اسناد صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں یہ الفاظ توثیق اسناد تو ثابت کرتے ہیں مگر توثیق متن ان الفاظ سے ثابت نہیں ہوتا ہے ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ حدیث کی سند میں تمام راوی ثقہ ہوں مگر متن میں کوئی ایسی علت ہو جس کی بناپر حدیث پر صحیح کا حکم لگانا درست نہ ہوامام ذیلعی فرماتے ہیں’’ وَصِحَّةُ الْإِسْنَادِ يَتَوَقَّفُ عَلَى ثِقَةِ الرِّجَالِ، وَلَوْ فُرِضَ ثِقَةُ الرِّجَالِ لَمْ يَلْزَمْ منه صِحَّةُ الْحَدِيثِ، حَتَّى يَنْتَفِيَ منه الشُّذُوذُ وَالْعِلَّةُ ‘‘ [33]یعنی سند کی صحت راویان کی وثاقت پر موقوف ہے،اور اگر راویان کی وثاقت معلوم ہوجائے تو اس سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ حدیث بھی صحیح ہے یہاں تک کہ وہ(صحیح الاسناد) روایت علت اور شذوذ سے پاک ثابت نہ ہو۔امام ابن حجرفرماتےہیں۔لايلزم من کون رجاله ثقات ان يکون صحيحا [34]یعنی رجالہ ثقات کہنے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ حدیث صحیح بھی ہو۔ اور دور حاضر کے محقق عالم ڈاکٹر سراج الاسلام حنیف فرماتے ہیں’’ رجالہ ثقات اس کے راوی ثقہ ہیں ، ان الفاظ کے وارد ہونے سے یہ ضروری نہیں کہ حدیث کو صحیح تسلیم کیا جائے اس لیے کہ ممکن ہے کہ وہ معلول ہو وررجالہ ثقات میں بسا اوقات ثقہ رواۃ کے درمیان کوئی راوی ضعیف بھی ہوتا ہے‘‘[35] اور تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ امام بوصیری کسی سند پر رجالہ ثقات کا حکم لگاتے ہیں مگر اس سند کے تمام راوی ثقہ نہیں ہوتے بلکہ ضعیف بھی ہوتے ہیں۔
  11. علاوہ ازیں توثیق کے لیے جو بلند کلمات مثلا اوثق الناس ،اضبط الناس ،الیہ المنتھیٰ فی التثبت، لااعرف لہ نظیرا یا تاکیدی کلمات ثقۃ ثقہ،ثبت ثبت ، ثقہ ثبت، یا ثقہ جبل کہیں بھی نہیں استعمال کیے حالانکہ بہت سی اسناد میں اس درجہ کے رواۃ بھی موجود تھے۔اسی طرح ایک آدھ بار کسی راوی کے بارے میں صدوق کہا ہے،گویا امام بوصیری کی توثیق و تعدیل میں مراتب تعدیل کا کوئی لحاظ نہیں رکھا گیا ہے پہلے درجہ اور چھٹے درجہ تعدیل کے رواۃ کے لیے بھی ایک ہی پیمانہ ہے رجالہ ثقات۔
  12. البتہ جرح میں امام بوصیری مراتب جرح کا لحاظ رکھتے ہیں اور کذاب، متروک،منکر، مجہول، ضعیف، مدلس کا حکم لگاتے ہیں۔مگر بسااوقات وضاع اور کذاب کے بارے میں متفق علی ضعفه اور ضعیف بالاتفا قکہہ کر جرح شدید کو سہل کردیتے ہیں۔
  13. امام بوصیری بسا اوقات کسی قابل جرح راوی سے چشم پوشی بھى کر جاتے ہیں مثلا حَدثنَا مُحَمَّد بن حسان الْأَزْرَقثَنَا عبد الْمجِيد بن أبي دَاوُدثَنَا مَرْوَان بن سَالم عَن صَفْوَان بن عَمْرو عَن شُرَيْح بن عبيد الْحَضْرَمِيّ عَن أبي الدَّرْدَاء قَالَ قَالَ َسُول الله صلی الله علیه وسلم إِن أحسن مَا زرتم الله به فِي قبوركم ومساجدكم الْبيَاض هذا إِسْنَاد ضَعِيف شُرَيْح بن عبيد لم يسمع من أبي الدَّرْدَاء قاله الْمزي فِي التهذیب كَذَا قَالَ العلائي فِي الْمَرَاسِيل والمزي فِي التهذیب لم يذكر أَن روایته عَن أبي الدَّرْدَاء مُرْسلَة بل ذکرھا ساكتا علیها[36]

امام بوصیری نے شریح بن عبید کی وجہ سے سند کو ضعیف کہا ہے مگر مروان بن سالم پر کوئی بحث نہیں کی ہے جبکہ آئمہ ناقدین کا کلام ان پر موجود ہے۔مراوان بن سالم ابو عبداللہ جزری ، شامی ، قرقسانی ، غفاری ، تابعی صغیر۔امام بخاری نے اسے منکر الحدیث قرار دیا ہے ۔امام نسائی نے متروک کہا ہے۔ساجی نے اسے وضع حدیث سے موصوف کیا ہے۔ابن حجر نے بهی اسے متروک کہا ہے[37]

  1. امام بوصیری سے بسا اوقات ملتے جلتے ناموں کی تعیین میں بھى تسامح ہو جاتا ہے جیسا کہ اسامہ بن زید لیثی کو عدوی سمجھو کر حدیث پر ضعف کا حکم لگا دیا۔اسامہ بن زید ، ابوزید مدنی دو ہیں عدوی اور لیثی۔ان میں فرق ان کی نسبت سے کیا جا سکتا ہے یعنی عدوی اور لیثی سے عدوی ضعیف ہیں اور لیثی صدوق ہیں اور ان کے حفظ میں کچھ ضعف ہے، مسلم کے رواۃ میں شامل ہیں۔امام بوصیری نے انہیں عدوی سمجھ کر ضعیف قرار دیا ہے۔اور مذکورہ حدیث پر ضعیف کا حکم بهی لگایا ہے جبکہ اس کے تمام رواۃ مسلم کے رواۃ بهی ہیں یعنی حدیث امام مسلم کی شرط پر ہے اور اسامہ بن زید کی بنا پر حسن ہے کیونکہ ان کے حافظہ میں کچہ ضعف بهی ہے نیز حدیث کا متن ثابت بهی ہے اور اس کے شواہد بھى موجود ہیں۔[38]
  2. امام بوصیری بسا اوقات ذو احتمال ناموں کی مکمل وضاحت نہیں کرتے ہیں مثلا۔ حَدثنَا مُحَمَّد بن الْمُصَفّى الْحِمصِي حَدثنَا بَقِيَّة عَن عبد الله بن وَاقد عَن مُحَمَّد بن عجلَان عَن عَمْرو بن شُعَيْب عَن ابیه عَن جدہ قَالَ نهیٰ رَسُول الله صلی الله علیه وَسلم عَن الاحتباء يَوْم الْجُمُعَة يَعْنِي وَالْإِمَام يخْطب هذا إِسْنَاد ضَعِيف بَقِيَّة هو ابْن الْوَلِيد مُدَلّس وَشَيْخه إِن كَانَ الهروِيّ فقد وثق وَإِلَّا فهو مجهول وله شاهد من حَدِيث أنس بن مَالك رَوَاہ أَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيّ وَقَالَ حَدِيث حسن۔[39] بقیہ کے شیخ عبداللہ بن واقد کے بارے میں دو احتمال ہیں یا تو یہ ہروی ہیں یا پہر حرانی ہیں اگر یہ ہروی ہیں تو ثقہ ہیں اور اگر حرانی ہیں تو ضعیف ہیں۔ مگر امام بوصیری إِن كَانَ الهروِيّ فقد وثق وَإِلَّا فهو مجهول فرما تے ہیں۔
  3. امام بوصیری بعض اوقات کسی راوی کے متعلق یوں فرماتے ہیں کہ میں نے ان پر کسی کی جرح وتعدیل نہیں دیکھى ۔یہ بھى کسی راوی کے مجہول ہونے کی دلیل ہے کہ ائمہ فن اسے جانتے ہی نہیں ورنہ ضرور اس کی تو ثیق یا تضعیف کی جاتی۔
  4. امام بوصیری مدلسین کی صراحت سماعت کو تلاش کرکے ذکر کرتے ہیں اور تدلیس کے عیب کو بھى زائل کرتے ہیں کرتے ہیں [40]
  5. امام بوصیری بسا اوقات کسی سند پر رجالہ ثقات کا حکم صادر فرماتے ہیں مگر درحقیقیت وہ حکم درست نہیں ہوتا جیسا کہ حَدثنَا مُحَمَّد بن إِسْمَاعِيل الرَّازِيّ حَدثنَا عبيدالله بن مُوسَى أَنبأَنَا الْعَلَاء بن صَالح عَن المنهال عَن عباد بن عبد الله قَالَ قَالَ على أَنا عبد الله وأخو رَسُوله صلى الله علیه وسلم وَأَنا الصّديق الْأَكْبَرلَا یقولها بعدِي إِلَّا كَذَّاب صليت قبل النَّاس بِسبع سِنِين هذا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات [41]
  6. امام بوصیری نے اس سند پر رجالہ ثقات کا حکم لگایا ہے مگر اس کے تمام رجال ثقات نہیں ہیں، عباد بن عبداللہ ضعیف اور متروک ر۱وی ہے، اور اس کے بارے میں امام بخاری نے فرمایا: فيہ نظراور وہی حدیث کے بطلان کا سبب ہے، امام ذہبی نے فرمایا یہ حدیث علی رضی اللہ عنہ پر جھوٹ ہے، [42]
  7. امام بوصیری نے بعض احادیث کو زوائد میں شمار کیا ہے حالانکہ وہ زوائد میں سے نہیں ہیں جیسا کہ حَدثنَا أَبُو بكر بن أبي شيبَة حَدثنَا شَبابَة عَن ابْن أبي ذِئْب عَن الزُّهريّ عَن عُرْوَة عَن عَائِشَة وَحدثنَا عبد الرَّحْمَن بن إِبْرَاہيم الدِّمَشْقِي ثَنَا الْوَلِيد بن مُسلم ثَنَا الْأَوْزَاعِيّ عَن الزهری وهذا حَدِيث أبي بكر قَالَت كَانَ رَسُول الله صلی الله علیه وسلم يُصَلِّي بَين أَن يفرغ من صَلَاة الْعشَاء إِلَى الْفجْر إِحْدَى عشرَة رَكْعَة يسلم منكل اثْنَتَيْنِ ويوتر بِوَاحِدَة وَيسْجد فیهن سَجْدَة بِقدر مَا يقْرَأ أحدكُم خمسين آيَة قبل أَن يرفع راسه فَإِذا سكت الْمُؤَذّن من الْأَذَان الأول من صَلَاة الصُّبْح قَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ خفيفتين هذا إِسْنَادہ صَحِيح رجاله ثِقَات رَوَاہ مُسلم بعضه من حَدِيث عَائِشَة وَرَوَاہ النَّسَائِيّ فِي الْكُبْرَى عَن قُتَيْبَة عَن مَالك عَن الزهری وَرَوَاہ بن حبَان فِي صَحِيحه عَن عبد الله بن مُحَمَّد بن مُسلم عَن عبد الرَّحْمَن بن إِبْرَاهیم الدِّمَشْقِي به[43]ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء کے بعد سے فجر تک گیارہ رکعت پڑہتے تہے، اور ہر دو رکعت پر سلام پہیرتے، اور ایک رکعت وتر پڑہتے تہے، اور ان رکعتوں میں سجدہ اتنا طویل کرتے کہ کوئی سر اٹہانے سے پہلے پچاس آیتیں پڑہ لے، اور جب مؤذن صبح کی پہلی اذان سے فارغ ہو جاتا تو آپ کہڑے ہوتے، اور دو ہلکی رکعتیں پڑہتے۔ یہ حدیث صحاح ستہ میں مذکور ہے۔[44]بوصیری نے اس حدیث کی تخریج میں سنن کبریٰ کا ذکر کیا ہے، جب کہ یہ سنن صغری میں ہے، اس لئے یہ زوائد میں سے نہیں ہے،
  8. امام بوصیری باقی ناقدین کی جرح پر نقد بهی کرتے ہیں جیساکہ خالد بن ابی الصلت کے بارے میں فرماتے ہیں۔ وَقد أَخطَأ من زعم أَن خَالِد بن الصَّلْت مجهول جس نے خالد بن ابی الصلت کو مجہول سمجھا اس نے خطا کی ہے۔[45]
  9. امام بوصیری بسا اوقات ان رجال کی تعدیل بهی کرتے ہیں جن کو باقی ناقدین نے مجروح قرار دیا ہے۔امام بوصیری ان سے جرح کو دور بهی کرتے ہیں ۔حَدثنَا هشام بن عمار حَدثنَا الْوَلِيد بن مُسلم حَدثنَا ثَوْر بن يزِيد عَن رَجَاء بن حَيْوَة من وراد كَاتب الْمُغيرَة بن شُعْبَة عَن الْمُغيرَة بن شُعْبَة أَن رَسُول الله صلى اللہ عَلیه وَسلم مسح أَعلَى الْخُف وأسفله قيل الْوَلِيد مُدَلّس وثور مَا سمع من رَجَاء بن حَيْوَة وَكَاتب الْمُغيرَة أرْسله وهو مجهول أُجِيب عنه بِأَن الْوَلِيد قَالَ حَدثنَا ثَوْر فَلَا تَدْلِيس وَسَمَاع ثَوْر قد أثْبته البهیقی وَصرح بِأَن ثورا قَالَ حَدثنَا رَجَاءوَكَاتب الْمُغيرَة ذكر الْمُغيرَة فَلَا إرْسَال وَكاتب الْمُغيرَة اسْمه وراد كَمَا صرح به ابْن ماجة وکنیته أَبُو سعيد روى عنه الشّعبِيّ وَغَيرہ [46]اس اسناد کے تین افراد پر جرح تھی ۔ ولید بن مسلم مدلس ہے، ثور کا رجاء بن حیوہ سے سماع ثابت نہیں، کاتب مغیرہ مجہول ہے۔ امام بوصیری نے تینوں کی تعدیل کی ہے وہ اس طرح کہ ولید بن مسلم نے صیغہ سماع کی صراحت حدثنا سے کردی ہے اور اس سے تدلیس زائل ہو گئی ۔ اور ثور بن یزید کے سماع از رجاء بن حیوہ کو امام بىہقى نے ثابت کیا ہے اور اور مغیرہ کے کاتب کا نام وراد ہے کنیت ابو سعید ہے اور شعبی کے شیخ ہیں لہذا مجہول نہیں ہیں۔
  10. امام بوصیری سند پر حکم لگانے میں احتیاط سے کام لیتے ہیں اور شواہد کو مدنظر رکہتے ہیں جیسا کہ حَدثنَا مُحَمَّد بن مُوسَى الوَاسِطِيّ حَدثنَا الْمُعَلَّى بن عبد الرَّحْمَنحَدثنَا ابْن أبي ذِئْب عَن نَافِع عَن ابْن عمر قَالَ قَالَ رَسُول الله الْحسن وَالْحُسَيْن سيدا شباب اهل الْجنَّةوأبوہما خير منها [47]محمد بن موسیٰ الواسطی از معلیٰ بن عبدالرحمان از ابن ابی ذئب از نافع عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں، اور ان کے والد ان سے بہتر ہیں .امام بوصیری نے اس حدیث پر ان الفاظ میں حکم لگایا ہے۔وَهذاإِسْنَاد ضَعِيف الْمُعَلَّى بن عبد الرَّحْمَن اعْترف بِوَضْع سبعين حَدِيثا فِي فضل عَليّ ابْن أبي طَالب قَالَہ ابْن معِين وأصل الحَدِيث فِي التِّرْمِذِيّ وَالنَّسَائِيّ من طَرِيق زر بن حُبَيْش عَن حُذَيْفَة یہ حدیث ضعیف ہے بقول ابن معین معلی بن عبدالرحمان نے حضرت علی کی شان میں ستر احادیث گھڑنے کا اعتراف کیا ہے۔ مگر اصل حدیث ترمذی اور نسائی میں زر بن حبیش از حذیفہ کے طریق سے مذکور ہے ۔ معلی بن عبدالرحمن ضعیف اور ذاہب الحدیث ہیں اور وضاع ، لیکن شواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، جیسا کہ ترمذی اور نسائی نے حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے،
  11. امام بوصیری احادیث میں مبہم افراد کی وضاحت بهی کرتے ہیں حَدثنَا يحيى بن الْفضل الْمقريحَدثنَا أَبُو عَامرحَدثنَا حَمَّاد بن سَلمَة عَن عَاصِم عَن أبي صَالح عَن أبي هريْرَة أَن رجلا من الْأَنْصَار أرسل إِلَى رَسُول الله صلی الله علیه وسلم أَن تعال فَخط لي مَسْجِدا فِي دَاري أُصَلِّي فیه وَذَلِكَ بعد مَا عمي فجَاء فَفعل از یحییٰ بن الفضل المقری از ابو عامر از حماد بن سلمہ از عاصم از ابو صالح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ انصار کے ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خبر بھىجى کہ آپ تشریف لائیں اور میرے گہر میں مسجد کے لیے حد بندی کر دیں تاکہ میں اس میں نماز پڑھا کروں، اور یہ اس لیے کہ وہ صحابی نابینا ہو گئے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ان کی مراد پوری کر دی هذاإِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات وَالرجل الْمُبهم فی هذا الحَدِيث هو عتْبَان بن مَالك وهو فِي الصَّحِيحَيْنِ وَالنَّسَائِيّ من حَدِيث عتْبَان بن مالک۔[48]یہ اسناد صحیح ہے اس کے رجال ثقات ہیں اور انساری مرد سے مرادصحابی رسول عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں اور صحیحین و نسائی میں عتبان بن مالک ؓ کا نام مذکور ہے۔
  12. امام بوصیری توثیق کرتے ہوئے عموما پوری سند پر حکم لگاتے ہیں جیسا کہ ہذا اسناد صحیح رجالہ ثقات یہ سند صحیح ہے اور اس کے رجال ثقات ہیں مگر بسا اوقات جب کسی راوی کی و ثاقت غیر مشہور ہو تو اس کی وضاحت کرتے ہیں اور جو زیادہ مشہور ہوں تو ان کے بارے میں فرماتے ہیں لَا يسْأَل عَن حالهم لشهرتهم ان کی شہرت کی بناء پر ان کا حال پوچہنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ جیسا کہ حَدثنَا مُحَمَّد بن الصَّباح أَنبأَنَا سُفْيَان عَن عبد الْكَرِيم عَن مُجَاهد عَن عبد الله بن عَمْرو قَالَ قَالَ رَسُول الله صلى الله علیه وَسلم من ادّعى إِلَى غير أَبیه لم يرح رَائِحَة الْجنَّة وَإِن ریحها ليوجد من مسيرَة خَمْسمِائَة مائَة عَام عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اپنا والد کسی اور کو بتائے، وہ جنت کی خوشبو نہیں سونگہ سکے گا، حالانکہ اس کی خوشبو پانچ سو سال کی مسافت سے محسوس ہوتی ہے"۔هذا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات لِأَن مُحَمَّد بن الصَّباح هو أَبُو جَعْفَر الْجِرْجَانِيّ التَّاجِر قَالَ ابْن معِين لَا بَأْس به وَقَالَ أَبُو حَاتِم صَالح الحَدِيث وَذكرہ ابْن حبَان فِي الثِّقَات وَبَاقِي رجال الْإِسْنَاد لَا يسْأَل عَن حالهم لشهرتهم رَوَاہ الإِمَام أَحْمد فِي مُسْندہ من حَدِيث عبدالله بن عُرْوَة أَيْضا وَرَوَاہ أَبُو بكر بن أبي شيبَة فِي مسنده من طَرِيق الحكم عَن مجاهد إِلَّا انه قَالَ من ادّعى غير موَالِي وَقَالَ سبعين عَاما وَفِي آخِرہ زِيَادَة وله شاهد فِي الصحيحن وَغَيرهما من حَدِيث سعد بن أبي وَقاص وَأبي بكرامام بوصیری کے کلام میں بسا اوقات تعارض بھى ہوتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ بالا روایت میں عبدالکرىم کی وثاقت کے مشہور ہونے کا حکم لگایا مگر دوسرے مقام پر ان کے ضعف پر سب کا اتفاق نقل کرتے ہیں [49]
  13. امام بوصیری کی توثیق و تعدیل میں مراتب تعدیل کا کوئی لحاظ نہیں رکہا گیا ہے پہلے درجہ اور چھٹے درجہ تعدیل کے رواۃ کے لیے بهی ایک ہی پیمانہ ہے رجالہ ثقات۔
  14. امام بوصیری اسناد میں علمی نکات و لطائف کو بھى واضح کرتے ہیں مثلا حَدثنَا أَبُو بكر بن أبي شيبَة ثَنَا عبيد الله عَن شَيبَان عَن الْأَعْمَش عَن عَمْرو بن مرّة عَن يُوسُف بن ماهک عَن عبيد بن عُمَيْر عَن عَائِشَة قَالَت قَالَ رَسُول الله صلى الله علیه وَسلم أَن أعظم النَّاس فِرْيَة لرجل هاجی رجلا فهجا الْقَبِيلَة بأسرها وَرجل انْتَفَى من ابیه وزنى أمه(ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بڑا بہتان لگانے والا وہ شخص ہے جو کسی ایک شخص کی ہجو و مذمت کرے، اور جواب میں وہ اس کی ساری قوم کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ شخص جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کو باپ بنائے، اور اپنی ماں کو زنا کا مرتکب قرار دے)" هذا إِسْنَاد صَحِيح رِجَاله ثِقَات وَعبيد الله هو ابْن مُوسَى الْعَبْسِي أَبُو مُحَمَّد وشيبان هو ابْن عبد الرَّحْمَن النَّحْوِيّ أَبُو مُعَاوِيَة الْمُؤَدب وَالْأَعْمَش وهو سُلَيْمَان بن مهرَان وَفِي هذا الْإِسْنَاد لَطِيفَة أَرْبَعَة من التَّابِعين يروي بَعضهم عَن بعض۔ اس روایت میں چار تابعین جمع ہیں جو ایک دوسرے سے روایت کرتے ہیں یعنی اعمش ، تابعی عمرو بن مرہ تابعی سے اور وہ یوسف بن ماہک تابعی سے اور وہ عبید بن عمیر تابعی سے روایت کرتے ہیں ۔
  15. امام بوصیری توثیق میں متساہل ہیں ضعیف رواۃ کی بھى توثیق کر دیتے ہیں۔لہذا امام بوصیری کے قول ’’رجالہ ثقات ‘‘کا بلاتحقیق اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے۔
  16. امام بوصیری جرح میں متشدد نہیں ہیں۔لہذا امام بوصیری کسی راوی پر جرح کریں تو واری واقعی مجروح ہوتا ہے۔
  17. امام بوصیری تعدیل میں مراتب تعدیل کا خیال نہیں کرتے آپ نے کسی بھی موثوق راوی کے لیے توثیق اور تعدیل کے اعلیٰ درجہ کے الفاظ ذکر نہیں کیے ہیں۔اور جو تعدیل کے اعلیٰ مرتبہ پر ہو اس کو بھی اعلیٰ مرتبہ نہیں دیتے بلکہ’’ هذا اسناد صحیح رجاله ثقات ‘‘ ہی کہتے ہیں جیساکہ عبدالرحمان بن مهدی کے بارے ناقدین کے اقوال توثیق بہت بلند ہیں ابن المدینی فرماتے ہیں ما رایت اعلم منه[50] اور امام ذهبی فرماتے ہیں الحافظ، الامام العالم، کان افقه من یحییٰ القطان[51] اور امام ابن حجر فرماتے ہیں ثقة ثبت حافظ عارف بالرجال والحديث جبکہ ہشام بن عمار اور ابراہیم بن عبداللہ جمہور کے نزدیل توثیق کے مرتبہ پر فائز نہیں جبکہ تعدیل کے مرتبہ چہارم پر ہیں مگر امام بوصیری ان کے لیےبھی هذا اسناد صحیح رجاله ثقات کے الفاظ استعمال کرتے ہیں اور امام بوصیری کا یہی ایک اسلوب ہے توثیق میں مراتب کا لحاظ بالکل نظر نہیں آتا ہے۔البتہ جب کسی حدیث پر صحیح کا حکم لگانا مقصود ہو ار اس میں کوئی راوی شدید مجروح ہو تو وہاں توثیق کا انتہائی کم مرتبہ استعمال کرتے ہیں جیسا کہ جمیل بن حسن کے متعلق ناقدین کے شدید الفاظ جرح موجود ہیں جن میں سے امام بوصیری صرف عبدان کا قول نقل کر کے فرماتے ہیں وارجو انه لاباس به [52]
  18. امام بوصیری نے کسی بھی راوی کے لیے جرح کے سخت ترین الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں مثلا اکذب الناس ، الیه المنتهیٰ فی الکذب،هو رکن الکذب، منبع الکذب ، معدن الکذب جیسے الفاظ کسی بھی راوی کے لیے استعمال نہیں کیے ہیں ، جرح میں سب سے شدید اور اعلیٰ مرتبہ کے لیے کذاب ، وضاع، متفق علیٰ ضعفه کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔محمد بن محصن العکاشی کے لیے ناقدین نے شدید الفاظ جرح استعمال کیے ہیں اور اسے کذاب ، وضاع ، متروک، متہم ساقط قرار دیا ہے جب کہ امام بوصیری صرف اتنا ہی فرماتے ہیں وَقد اتَّفقُوا على ضعفه [53]
  19. اسی طرح جرح کے کم مرتبہ کے لیے فیه مقال ،ضعیف،منکر، لم أر من تكلم فِيهِ، لم أرمن جرحه وَلَا من وَثَّقَهُ ،مُخْتَلف فِيهِ جیسے الفاظ استعمال کیے ہیں
  20. امام مزی کامشہور قول ہے ’’کل ما انفرد به ابن ماجه فهو ضعیف‘‘[54] (کہ ہر وہ روایت جو سنن ابن ماجہ میں ہو اورصحاح ستہ کی کسی دوسری کتاب میں نہ ہو تو وہ ضعیف ہے۔) کی تحقیق کرتے ہوئے امام ابن حجر نے دو نتائج تک رسائی کی۔اول: وليس الأمر في ذلك على إطلاقه باستقرائي وفي الجملة ففیه أحاديث منكرة مطلق طور پر تمام زوائدابن ماجہ ضعیف نہیں البتہ ان زوائد میں بہت سی احادیث منکر ہیں۔یعنی امام مزی کا قول کلی طور پر درست نہیں ہے۔دوم:لكن حمله على الرجال أولى وأما حمله على أحاديث فلا يصح[55]علامہ مزی کے قول کو رجال ( اسناد) پر محمول کرنا بہتر ہے اور احادیث ( متون حدیث) پر محمول کرنا درست نہیں ہے۔ امام بوصیری کی کتاب مصباح الزجاجہ پر تحقیقی کام کرنے سےمعلوم ہوا کہ امام مزی کی بات کو کلی طور پر رجال پر محمول کرنا بھى درست نہیں ہے۔اس لیے کہ زوائد ابن ماجہ کے رجال میں ثقہ ، ثبت ، صدوق،کذاب ، متروک،ضعیف ہر طرح کے رجال موجود ہیں ۔اور زوائد ابن ماجہ کے رجال میں احمد بن ثابت الجحدری،ابوبکر البصری، احمدبن محمد بن یحییٰ بن سعید القطان،ابوسعید البصری،احمد بن منصور بن سیار البغدادی الرمادی ابوبکر،ابراہیم بن محمد بن عبداللہ،بن جحش الاسدی ،ارقم بن شریح الاودی الکوفی،اسحاق بن ابراہیم بن داود،السواق البصری،اسماعیل بن ابراہیم البالسی،اسماعیل بن عبداللہ بن جعفربن ابی طالب الہاشمی،اسید بن المتشمس بن معاویہ التمیمی السعدی،ایوب بن محمد الہاشمی البصری ، المعروف قلب وغیرہ جیسے ثقات و اثبات موجود ہیں۔لہذا کلی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ رجال زوائد ابن ماجہ ضعیف ہیں۔ہاں یہ بات درست ہے کہ زیادہ تر ضعیف راوی ہیں۔

 

حوالہ جات

  1. القشیری، مسلم بن الحجاج ، ابوالحسن ، نیشابوری(المتوفى: 261هـ)، صحيح مسلم بنقل العدل عن العدل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم،تحقیق:محمد فواد عبدالباقی،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت،
  2. ابن صلاح، عثمان بن عبدالرحمان، معرفة أنواع علوم الحديث، تحقیق، عبد اللطيف الهميم ، ماهر ياسين الفحل ،ط1 : 2002 م، دار الكتب العلمية1/491
  3. دادی کی میراث کے مسئلہ میں جب مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ ﷺ کا ایک فیصلہ سنایا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مغیرہ سے گواہ طلب کیا ، اس مطالبے پر حضرت محمد بن مسلمہ نے گواہی دی ترمذی ، محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، ، أبو عيسى (المتوفى: 279هـ) سنن الترمذی تحقيق ، أحمد محمد شاكر شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابی الحلبي مصر4/420(2101)سنن ابی داود(2894)،سنن ابن ماجه(2724)اسی طرح دروازے پر دستک دینے کے متعلق جب ابو موسیٰ اشعری ؓنے حدیث پیش کی تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے گواہی طلب کی تو ابو سعید خدری ؓ نے گواہی دی سنن ابی داود(5180)
  4. ابن عدى ،أبو أحمد الجرجاني (المتوفى: 365هـ) الكامل في ضعفاء الرجال تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود ط: 1997م الكتب العلمية - بيروت-لبنان1/100تا150
  5. السخاوی، محمد بن عبد الرحمن بن محمد بن أبي بكر بن عثمان بن محمد (المتوفى:902هـ) المتكلمون في الرجال تحقيق عبد الفتاح أبو غدة ط: 1990 دار البشائر بيروت93تا 103 ؛غوری، سید عبد الماجد، معجم الفاظ الجرح والتعدیل، ط:2009، زمزم للطباعة والنشر والتوزیع، کراچی، پاکستان، 13تا 68
  6. السخاوی ، محمد بن عبد الرحمن بن محمد (المتوفى: 902هـ)، الضوء اللامع لأهل القرن التاسع ط: منشورات دار مكتبة الحياة بيروت 1/251 ؛ عبد الرحمن بن أبي بكر، جلال الدين السيوطي (المتوفى : 911هـ) ،حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة المحقق : محمد أبو الفضل إبراهيم۔ط 1: 1967م دار إحياء الكتب العربية ، عيسى البابي الحلبي وشركاه ،مصر1/206؛ إسماعيل بن محمد أمين بن مير سليم الباباني البغدادي (المتوفى: 1399ه)ـ، هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين،ط: 1951 دار إحياء التراث العربي بيروت، لبنان1/124
  7. خير الدين بن محمود بن محمد بن علي بن فارس، الزركلي الدمشقي ،الأعلام ط15: 2002 م ، دار العلم للملايين 1/104
  8. السخاوي، محمد بن عبد الرحمن بن محمد شمس الدين أبو الخير (المتوفى: 902هـ)الضوء اللامع لأهل القرن التاسع1/251: حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة 1/206؛ أعلام1/104
  9. الضوء اللامع لأهل القرن التاسع1/252
  10. ايضا
  11. ايضا
  12. أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ)، إنباء الغمر بأبناء لعمر۔المحقق، د حسن حبشي ط: 1969المجلس الأعلى للشئون الإسلامية ،لجنة إحياء التراث الإسلامي، مصر جلد2/471
  13. عبد الحي بن أحمد بن محمد ابن العماد العَكري الحنبلي، أبو الفلاح (المتوفى: 1089هـ) شذرات الذهب في أخبار من ذهب المحقق: محمود الأرناؤوط ،ط1: 1986 م دار ابن كثير، دمشق – بيروت9/340، الضوء اللامع 251/1؛هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين1/225؛ حسن المحاضرة في تاريخ مصر والقاهرة1/363؛شذرات الذهب في أخبار من ذهب9/340
  14. الضوء اللامع لأهل القرن التاسع1/252
  15. شذرات الذهب في أخبار من ذهب9/512؛الضوء اللامع لأهل القرن التاسع6/126،131
  16. الضوء اللامع 1/252
  17. إسماعيل بن محمد أمين بن مير سليم الباباني البغدادي (المتوفى: 1399هـ)۔ هدية العارفين أسماء المؤلفين وآثار المصنفين ط: 1951دار إحياء التراث العربي بيروت – لبنان1/125
  18. الشيخ مختار حسين ۔تصحيح و تعليق على زوائد ابن ماجه۔ط: 1993دار الكتب العلمية، بيروت لبنان کا بالاستیعاب مطالعہ کرنے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے (محقق)
  19. مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه1/33(87)
  20. یہاں عبیداللہ کا لفظ ہے جبکہ بعض شروح میں عبداللہ ہے جیسا کہ ابو الحسن، نور الدين السندي (المتوفى1138) نے کہا:وفی الزوائد اسنادہ صحیح لان اسحاق بن عبد الله بن الحارث قال النسائی لیس بہ باس وقال ابوزرعۃ ثقة حاشية السندي على سنن ابن ماجه، 1/ 533
  21. مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه۔ 2/81بَاب دَعْوَة الصَّائِم636
  22. ابن عساکر نے ان ہی کے ترجمہ میں یہ حدیث ذکر کی ہے أبو القاسم علي بن الحسن بن هبة الله المعروف بابن عساكر (المتوفى: 571هـ)۔ تاريخ دمشق۔المحقق: عمرو بن غرامة العمروي ط: 1995 م دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع8/255 (653)
  23. أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر العسقلاني (المتوفى: 852هـ قاہرہ میں پیدا ہوئے اور قاہرہ ہی میں فوت و مدفون ہوئے۔علم حدىث ورجال کے ائمہ میں سے تھے۔ آپ کی بہت سی کتابیں آپ کی زندگی ہی میں قبو لیت عامہ کا درجہ حاصل کر چکی تھیں ۔آپ کی تصانیف میں لسان المیزان، تقریب التھذیب، الاصابہ فی تمیزاسماء الصحابہ ،نزھۃ النظر فی توضیح نحبۃ الفکر ،فتح الباری فی شرح صحیح البخاری کو بہت شہرت حاصل ہوئی الاعلام لزرکلی 1/178
  24. متقدمین ناقدین تھے وہ خود رواۃ کی جرح یا تعدیل کرتے تھے ، لیکن متاخرین ناقلین ہیں یعنی وہ خود جرح یا تعدیل نہیں کرتے بلکہ متقدمین کے اقوال جرح وتعدیل کو جمع کرکے کسی راوی کی حالت طے کرتے ہیں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ بذات خود نقد بھی کرتے ہیں لیکن اکثر یہ حضرات بھی متقدمین کے اقوال ہی پر اپنے فیصلہ کی بنیاد رکھتے ہیں ۔اسی طرح امام بوصیری بھی ہیں۔
  25. مصباح الزجاجة في زوائد ابن ماجه 1/63(177)
  26. ایضا 1/67(190)
  27. ایضا 1/26 (66)
  28. ایضا 4/69(1228)
  29. ایضا1/142(116)
  30. ایضا1/56(154)
  31. ایضا 2/26(526)
  32. تمام رواۃ او روایات کی توثیق وتصحیح میں امام بوصیری کا یہ ایک ہی انداز ہے۔(محقق)
  33. نصب الرایہ 1/347(1480)
  34. تلخیص الحبیرفی تخریج احادیث الرافعی الکبیر3/384(1183)
  35. معرفت علوم حدیث141
  36. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 4/84
  37. الكاشف 2/253 (5366
  38. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 2/48(580) باب ماجاء فی البکاء علی المیت میں
  39. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/137(409)
  40. حدثنا محمد بن یحییٰ احمد بن خالد الوهبی حدثنا محمد بن اسحاق عن یحی بن عباد بن عبدالله بن الزبیر عن ابیه عن عائشه عَائِشَة قَالَت لَو كنت اسْتقْبلت من أَمْرِي مَا اسْتَدْبَرت مَا غسل النبیﷺ غیرنسائه هذا اسناد صحیح رجاله ثقات وَمُحَمّد بن إِسْحَاق وَإِن كَانَ مدلسا وَرَوَاہ بالعنعنة فِي ہذَا الْإِسْنَاد فقد رَوَاہ ابْن الْجَارُود وَابْن حبَان فِي صَحِيحه وَالْحَاكِم فِي الْمُسْتَدْرك من طَرِيق ابْن إِسْحَاق مُصَرحًا بِالتَّحْدِيثِ فَزَالَتْ تهمة تدليسه۔(مصباح الزجاجہ2/25،524) مذکورہ سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہے اور اس کی جو اسناد یہاں موجود ہے وہ عنعنہ کے ساتہ ہے جو کہ ضعیف ہے مگر ابن جارود اور ابن حبان نے اپنی صحیح میں اور حاکم نے مستدرک میں محمد بن اسحاق کی اپنے شیخ(یحییٰ بن عباد)سے صیغہ سماع کی تصریح کر دی ہے لہذا تدلیس کا عیب دور ہو گیا۔
  41. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/20(49)
  42. الموضوعات لابن الجوزی: 1/341، وتلخیص المستدرک للذهبی وتنزیه الشریعة: 1/384، وشیخ الاسلام ابن تیمیه وجهوده فی الحدیث وعلومه: 310،
  43. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 2/6(481)باب ما جاء فی کم یصلی باللیل
  44. صحیح بخاری1/127(619) باب الآذان،3 (1123) باب التهجد، صحیح مسلم 1/508(122) سنن ابی داود 2/39(1336)؛ سنن ترمذی1/209() ؛سنن نسائی3/251(1756) إِبَاحَةُ الصَّلَاةِ بَيْنَ الْوِتْرِ وَبَيْنَ رَكْعَتَيِ الْفَجْرِ
  45. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/47(130)
  46. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/79(227)بَاب فِي مسح أَعلَى الْخُف وأسفله
  47. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/20(48) باب فی فضل علی بن ابی طالب
  48. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/96(285) بَاب الْمَسَاجِد فِي الدّور
  49. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 3/118(929)باب من ادعى إلى غير أبيه أو تولى غير مواليه
  50. تقریب التہذیب 1/351(4018)
  51. ایضاً
  52. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه /116(346)
  53. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 1/10(18)
  54. محقق کو تلاش بسیار کے باوجود علامہ مزی کی کسی کتاب میں یہ قول نہیں ملا ہے البتہ تھذیب التھذیب میں علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں وجدت بخط الحافظ شمس الدين محمد بن علي الحسيني مالفظه سمعت شيخنا الحافظ أبا الحجاج المزي يقول كل ما انفرد به بن ماجة فهو ضعيف يعني بذلك ما انفرد به من الحديث عن الأئمة الخمسة، العسقلاني أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر أبوالفضل (المتوفى: 852هـ)۔ تهذيب التهذيب۔ ط1: 1326هـ، مطبعة دائرة المعارف النظامية، الهند9/531
  55. مصباح الزجاجه فی زوائد ابن ماجه 2/25،524)
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index