28
1
2014
1682060034497_1265
67-91
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/304/242
تلخیص:
اس study میں ہندو پاک کے عظیم اسلامی سکالر اور مدرس و داعیٔ قرآن ڈاکٹر اسراراحمدؒ کی شخصیت و خدمات کا جائزہ لیاجائے گا۔
ڈاکٹراسراراحمدؒ ایک عظیم مفکر،مصلح ،ریفارمر اورعبقری(Intellectual) تھے۔ آپ برصغیر ہندوپاک میں پیداہوئے اورتحریک پاکستان کے چشم دیدگواہ اور سرگرم کارکن رہے اورپاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعدپاکستان کی طرف اولین ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔میڈیکل کی تعلیم کے دوران ڈاکٹر صاحب اسلامی جمعیت طلباء کے رکن رہے اور ایم بی بی ایس مکمل کرنے کے بعد مولانا مودودیؒ کی قائم کردہ جماعت اسلامی پاکستان میں شامل ہوئے۔ بعد میں جماعت اسلامی سے علیحدہ ہوگئے۔[1]
ڈاکٹرصاحب فکری لحاظ سے علامہ اقبال ، ڈاکٹر رفیع الدین ، ابوالإٕعلی مودودی ، حمیدالدین فراہی ، امین احسن اصلاحی ، شیخ الہند اور مولانا شبیر احمد ٕعٕثمانی سے بہت متاثر تھے ، چنانچہ موصوف کی فکرو منہج پر ان حضرات کا بڑا اثر رہا۔[2]
اس مطالعے میں ہم دیکھیں گے کہ دینی خدمات کے لیے ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے تین ادارے قائم کیے ۔ (١) انجمن خدام القرآن (٢) تنظیم اسلامی پاکستان او ر (٣) تحریک خلافت پاکستان ۔ یہ ادارے اپنے مقاصد اور عزائم کو سامنے رکھتے ہوئےملک پاکستان میں بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ برسرپیکارہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر صاحب نے تحریر اور تقریر کی سطح پر بہت کام کیاہے۔ اس موضوع پرایک عظیم موادتحقیق وجستجو اورہماری رہنمائی کے لئے دستیاب ہے۔ ڈاکٹراسراراحمدؒمرحوم کی اپنی تصانیف ایک صد کے قریب ہیں۔ علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب کے جاری کردہ تین جرائد بھی ہیں: (١) ماہنامہ میثاق (٢) سہ ماہی حکمتِ قرآن اور (٣) ہفت روزہ ندائے خلافت۔ مزید یہ کہ ڈاکٹر صاحب کے آڈیوخطابات بزبان اردو اورانگریزی کا ایک عظیم خزانہ موجود ہے۔[3]
ڈاکٹراسراراحمدؒ کی انہی خدمات کو دیکھتے ہوئے علمی اختلافات سے قطع نظر بلاشبہ ڈاکٹر صاحبؒ موصوف کو بیسویں صدی عیسوی کے تحریر و تقریر اور بالخصوص درس قرآن کے میدان کا "مجدد" کہاجاسکتاہے۔
تعارف:
ڈاکٹراسراراحمدؒ کے آباء واجداد کا تعلق یوپی کے ضلع مظفر نگر سے تھا اور وہ وہیں آباد تھے۔ ۱۸۵۷ء میں تحریک آزادی میں حصہ لینے کی وجہ سے آپ کے دادا کو انگریز سرکار کی طرف سے عتاب کا اندیشہ تھا لہٰذا وہ اپنے خاندان کے ساتھ ہجرت کرکے مشرقی پنجاب آگئے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی ولادت ۲۶ اپریل ۱۹۳۲ء کو مشرقی پنجاب کے ایک قصبہ حصار میں ہوئی۔[4]
ڈاکٹر صاحبؒ بچپن ہی سے انتہائی حساس مزاج کے حامل تھے اور اللہ نے انہیں کم عمری میں ہی شعور کی دولت عطافرمائی تھی۔ چنانچہ ۱۹۳۸ء میں جب اُنہیں علامہ اقبال کے وصال کی خبر ملی تو اُنہوں نے اسے ایک ذاتی صدمے اور قومی نقصان کے طورپر محسوس کیا جبکہ ان کی عمر صرف چھ برس تھی۔علامہ اقبال سے دلی لگاؤ کا عالم یہ تھا کہ محض ۱۰ برس کی عمر میں اُن کی اردو شاعری کے پہلے مجموعہ "بانگ درا" کا مطالعہ مکمل کرلیا۔[5] اقبال کے اُن اشعار نے آپ کو بہت زیادہ متأثر کیا جن میں امت کے پھر سے عروج کے لیے امید افزا پیغام ہےمثلاً
کتاب ملت ِ بیضا کی پھر سے شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
نوا پیراہواے بلبل کہ ہو تیرے ترنم سے
کبوتر کے تنِ نازک میں شاہین کا جگر پیدا
سبق پھر پڑھ صداقت کا شجاعت کا عدالت کا
لیاجائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
البتہ جواب شکوہ کےایک شعر نے ڈاکٹر صاحبؒ کو ہلاکر رکھ دیا:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر
اس شعر سے یہ حقیقت آپ پر واضح ہوگئی کہ امت کے زوال کا اصل سبب قرآن سے دوری ہے اور گویا اوائل عمر ہی سے خدمتِ قرآن کا جذبہ آپ کی سوچ میں سرایت کرگیا۔ اس کے بعد اسلام کو پھر سے غالب کرنے کا ولولہ آپ کے اندر بڑی شدت سے موجزن ہوگیا جب آپ نے ۱۳ برس کی عمر میں حفیظ جالندھری کا "شاہنامہ اسلام" پڑھا جس کا عنوان یہ شعر ہے کہ:
کیافردوسی ٔ مرحوم نے ایران کو زندہ
خدا توفیق دے تو میں کروں ایمان کو زندہ
خدمات:
ڈاکٹراسرار احمدؒ کی دینی خدمات کے کئی پہلو ہیں، ان کی فکر کی بے شمار جہات ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ کھلتی چلی جائیں گی۔ان کی فکری تشکیل میں مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے تصورات دین نے بنیادی کردار اداکیا۔[6] لیکن انہوں نے یقینی طورپر اس فکر کے بہت سے خلاپرکیے اور بہت سے نئے گوشے آشکارہ کیے۔ ان کی تمام جدو جہد، حرکت و عمل اور تنظیم و تحریک کامحور قرآن مجید اور سنت رسول ﷺ ہی تھا۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی تفہیم کے لیے ان کی زبان کی گرہیں کھول دی تھیں، گویا قرآن کو ان کی زبان پر آسان کردیاتھا۔ ان کے دروس قرآن کا غلغلہ نصف صدی سے زائد تک پوری دنیا میں برپا رہا اور بلاشبہ قرآن حکیم کے بیان میں ان کا کوئی ثانی اور مد مقابل نہ تھا۔ ان کی فکر کا منبع و ماخذ کل کا کل قرآن تھا۔
ڈاکٹرصاحب ؒ کا ایک مستقل'تھیسس' یہ تھا کہ کو ئی بھی اسلامی فکری تحریک اس وقت تک کوئی اجتماعی اور مؤثرتبدیلی نہیں لاسکتی جب تک اس تحریک کے ارکان "ایمان حقیقی" کی نعمت سے سرفراز نہ ہوں، اپنی انفرادی زندگیوں میں اسلام کے احکام پر مکمل طورپر عمل پیرانہ ہوں اور اپنی معاشرت و معیشت کو اسلامی خطوط میں نہ ڈھال چکے ہوں۔ اس 'تھیسس' کا اگلاجز یہ ہے کہ "ایمان حقیقی" کے حصول کے ذرائع تو بہت ہیں ، یہ نعمت عمل صالح سے بھی حاصل کی جاسکتی ہے اور صالحین کی صحبت سے بھی، لیکن ایمان حقیقی کے حصول کا مؤثرترین ذریعہ قرآن حکیم ہے۔ یہ "صالحین" بھی قرآن حکیم ہی پیدا کرے گا۔ لہٰذا قرآن کی طرف حقیقی رجوع کے بغیر صالحین کی ایسی جماعت پیدا نہیں ہوسکتی جو اسلامی انقلاب کا پیش خیمہ ثابت ہو۔
ڈاکٹر صاحب ؒ کو اس با ت کا بھی شعوری ادراک تھا کہ امت مسلمہ کے زوال کی اصل وجہ قرآن حکیم سے دوری ہے۔ جب امت نے قرآن کےپیغام کو فراموش کردیا تووہ فقہی، مسلکی اور فروعی مسائل میں الجھ کر رہ گئی۔ یو ں اختلافات کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی۔ قرآن سے امت کا تعلق محض ایک مقدس کتاب سمجھنے، حصول ثواب اور ایصال ثواب تک محدود ہوکر رہ گیا۔ چنانچہ ڈاکٹرصاحبؒ نے عظمت قرآن کو اجاگر کیا اور اس بات کو باور کرایا کہ قرآن مجید کی صورت میں امت مسلمہ کے پاس کتنی عظیم نعمت موجود ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ کا زندہ و جاوید معجزہ ہے۔ پھر انہوں نے تفصیل سے " مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق" کے عنوان سے تقاریر کیں، جو بعد میں باقاعدہ کتابی شکل میں وسیع پیمانے پر شائع کی گئیں۔ اس اشاعتِ عام کا مقصد امت کو قرآن حکیم کی طرف ہر پہلو کے اعتبار سے راغب کرناتھا تاکہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کو سمجھنے کی طرف بھی متوجہ ہو۔ یہ بلاشبہ ایک لاجواب تحریر ہے۔[7] اس کتابچے کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوئے۔جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قرآن کی طرف راغب کرنےکے لیے ڈاکٹرصاحبؒ نے حضور ﷺ کے اس قول مبارک کو عام کیا کہ " خیرکم من تعلم القراٰن وعلمہ" (صحیح بخاری) 'تم میں سے بہترین وہ لوگ ہیں جو قرآن کو سمجھیں اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیں۔
ڈاکٹرصاحبؒ نے چودھویں صدی ہجری کے عظیم مجدد، مجاہد اور رجل عظیم شیخ الہند مولانا محمود الحسن دیوبندیؒ کے درج ذیل قول سے تقویت حاصل کی اور اسے بہت عام کیا۔ حضرت شیخ الہندؒ فرماتے ہیں:
"میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہرحیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دوسبب معلوم ہوئے۔ ایک ان کا قرآن کا چھوڑدینا، دوسرا آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ اس لیے میں وہیں سے یہ عزم لے کر آیاہوں کہ اپنی باقی زندگی اس کام میں صرف کردوں کہ قرآن کریم کو لفظاً اور معناً عام کیاجائے،بچوں کے لیے لفظی تعلیم کے مکاتب بستی بستی عام کیے جائیں، بڑوں کو عوامی درس قرآن کی صورت میں اس کے معانی سے روشناس کرایاجائے اور قرآنی تعلیمات پر عمل کے لیے آمادہ کیاجائے، اور مسلمانوں کے باہمی جنگ و جدال کو کسی قیمت پر برداشت نہ کیاجائے"۔[8]
ڈاکٹرصاحبؒ کو اس تشخیص پر کامل یقین تھا، لہٰذا انہوں نے اپنی زندگی قرآن کریم کی نشرو اشاعت کے مبارک کام میں کھپادی۔ان کی اس تشخیص کو مزید تقویت بیسوی صدی عیسوی کے عظیم فلاسفر علامہ اقبال ؒ کے افکار سے حاصل ہوئی۔ وہ زمانہ ٔ طالب علمی سے ہی علامہ اقبال ؒ کی فکر سے متأثرتھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال ؒ کے افکار آپ پر آشکارا ہوتے گئے۔ چنانچہ وہ خود علامہ اقبالؒ کی عظمت کا اعتراف ان الفاظ میں کرتے ہیں:
"چنانچہ ان کےاشعار توایمان و یقین کےکیف و سرور، محبتِ الٰہی اورعشق رسول ﷺ کےسوز وگداز اور جذبۂ جوش ملی سے مملوہیں ہی، ان کے 'خطبات' بھی درحقیقت وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پر مطالعۂ قرآن حکیم ہی کی ایک کوشش کا مظہر ہیں جس کے ذریعے علامہ مرحوم نے جدید ریاضیات و طبعیات اور فلسفہ ونفسیات کا رشتہ قرآن حکیم کی اساسی تعلیمات کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کی ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس کے بغیر دور ِحاضر میں دین و مذہب کی گاڑی کا آگے چلنا محال ِ مطلق ہے"۔[9]
ڈاکٹرصاحبؒ علامہ اقبالؒ کے اشعار کے ذریعے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو یہ پیغام بھی دینا چاہتے تھے کہ قرآن کی قوت تسخیر اس قدر شدید ہے کہ مغرب و مشرق کے فلسفوں کا ماہر بھی اس کے سامنے ہیچ ہے۔ یہ فقط مذہبی ذہن کے لوگوں کوہی متاثر نہیں کرتا بلکہ علامہ اقبالؒ جیسا مغربی دنیا کے علوم سے فیضیاب ہونے والا فلسفی بھی قرآن کی عظمت کا قائل ہے ۔ وہ اقبال ؒ کو بہت بڑا ترجمان القرآن سمجھتے تھے۔ ڈاکٹرصاحب ؒ علامہ اقبالؒ سے کیوں متاثرتھے؟ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں:
"واقعہ یہ ہے کہ میرے نزدیک اس دور کا سب سے بڑا ترجمان القرآن اور سب سے بڑا داعی الی القرآن علامہ اقبالؒ ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجیدکی عظمت کا جس گیرائی اور گہرائی کے ساتھ احساس علامہ اقبالؒ کو ہوا میری معلومات کی حدتک اس درجے عظمت کا انکشاف کسی اور انسان پر نہیں ہوا۔ جب وہ قرآن مجید کی عظمت بیان کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ ان کی دید اور ان کا تجربہ ہے"۔[10]
انجمن خدام القرآن کا قیام:
ڈاکٹرصاحب ؒ کی قرآنی خدمات کے ضمن میں اولیت تو ان کے دروس قرآن کو حاصل ہے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کے بقول زمانۂ طالب علمی میں ہی ان کے دروس قرآن کا عام چرچہ تھا۔ ان دروس قرآن کے ذریعے انہوں نے لاکھوں انسانوں کو متاثر کیاا ور ان کی زندگیوں میں انقلاب برپا ہوا۔ جب ڈاکٹر صاحبؒ ۱۹۵۴ء میں ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ساہیوال میں سکونت پذیر ہوئے تو اس وقت انہوں نے ساہیوال اور گردو نواح میں حلقہ ہائے دروس قرآن قائم کیے۔ یہ دروس انتہائی مقبول ہوئے۔ جب آپ ۱۹۵۸ء میں کراچی تشریف لائے تو یہاں بھی آپ کے دروس قرآنی کا سلسلہ جاری رہا۔ ۱۹۶۵ء میں آپ مستقلاً لاہور میں رہائش پذیر ہوئے تو اس کے بعد دروس قرآ نی کے حلقے وسیع سے وسیع تر ہوتے گئے چنانچہ ڈاکٹر صاحبؒ خود لکھتے ہیں:
"۱۹۶۵ء ہی کے وسط میں راقم الحروف غلبہ ٔ اقامت دین کی جد و جہد کے پختہ ارادے ، اور تعلم وتعلیم قرآن کی منظم منصوبہ بندی کے عزم مصمم کے ساتھ دوبارہ وارد ِ لاہور ہوا۔ چنانچہ وہ دن اور آج کا دن یہی دو کام میری زندگی کا مرکزو محور رہے ہیں اور ان پچیس سالوں کے دوران الحمد للہ ثم الحمدللہ کہ میرے اوقات اور میری صلاحیتوں اور میری توانائیوں کا اکثر و بیشتر حصہ اصلاً غلبہ و اقامتِ دین کی جدوجہد اور عملاً تعلم و تعلیم قرآن کی مساعی میں صرف ہوا ہے"۔[11]
ڈاکٹر صاحبؒ کی مندرجہ بالا تحریر ۲۴ سال قبل کی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ ڈاکٹرصاحبؒ نے اپنی حیات دنیوی کا آخری لمحہ بھی اسی کام میں صرف کیاہے۔
لاہورمیں مسجد خضراء سمن آباد اور مسجد شہداء کے ہفتہ وار دروس قرآن کو بہت شہرت ملی ۔ جو لوگ ان دروس قرآن میں شریک رہے ہیں وہ ان روح پرور مناظر کے چشم دید گواہ ہیں۔ ڈاکٹرصاحبؒ کے ان دروس قرآن کا یہ سلسلہ لاہور اور اس کے مضافات تک محدود نہ رہابلکہ دوسرے بڑے شہروں میں بھی ماہانہ دروس قرآن کی محافل منعقد ہونے لگیں۔ چنانچہ کراچی میں تاج محل ہوٹل کی "شام الہدیٰ" اور اسلام آباد کے کمیونٹی سینٹر آب پارہ کے ماہانہ درس قرآن سے ہزاروں تشنگان علم سیراب ہوئے۔[12] ان سطور کا راقم بھی ۱۹۸۴ء/۱۹۸۵ء میں تاج محل ہوٹل کے ماہانہ درس قرآنی سے ہی ڈاکٹرصاحبؒ کی فکر اور شخصیت سے متعارف ہوا۔
ڈاکٹرصاحبؒ کے ان دروس قرآنی کے سامعین کی بڑی تعداد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور اہل ثروت طبقے پر مشتمل ہوتی تھی، کیونکہ ان دروس قرآن کا معیار انتہائی اعلیٰ علمی سطح کا ہوتاتھا۔ وہ خود فرماتے تھے کہ:
" میرے مخاطبین یہی لوگ ہیں، اگر سوسائٹی کا یہ طبقہ تبدیل ہوجائے تو یہ تبدیلی خود بخود نچلی سطح تک پہنچے گی، کیونکہ یہی لوگ معاشرے کا رجحان بنانے اور بگاڑنے والے ہوتے ہیں اور عام لوگ انہی کے نقش قدم پر چلتے ہیں"۔[13]
۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے قیام کےساتھ ہی محترم ڈاکٹر صاحبؒ نے دستورِانجمن میں اپنا یہ عزم ظاہر فرمادیاتھا کہ وہ انجمن کے قیام ہی کو اپنی منزل نہیں سمجھتے بلکہ ان کے پیش نظر اصل کام ایک ایسا تحریکی قافلہ تشکیل دینا ہے جو غلبہ و اقامتِ دین کی جد و جہد کے لیے اپنا تن من دھن نچھاور کرسکے۔ ۱۹۶۶ء تا ۱۹۷۴ء حلقہ ہائے دروسِ قرآن کے ذریعے شہر لاہور میں قرآن کے انقلابی پیغام کو پہنچانے کا نتیجہ یہ نکلا کہ پڑھے لکھے طبقات پر مشتمل ایک حلقہ ٔ احباب وجود میں آگیا جو اپنی تمام دینی ذمہ داریوں اور بالخصوص اقامتِ دین کی جدوجہد کے لیے قلباً اور ذہناً آمادہ ہوچکے تھے۔۱۹۷۴ء کی قرآنی تربیت گاہ کے اختتام پر ڈاکٹر صاحبؒ نے اعلان کردیا کہ وہ مذکورہ بالا مقصد کی خاطر ایک اجتماعیت تشکیل دینے کاپختہ ارادہ رکھتے ہیں۔[14]
تنظیم اسلامی کا قیام:
ڈاکٹر صاحبؒ نے ۱۹۷۵ء میں دین اسلام کے غلبے اور اقامت دین کی جدوجہد کے لیے اپنے حسبِ عزم تنظیم اسلامی قائم کی لیکن ابتدامیں اس جماعت کی امارت کی ذمہ داری قبول نہیں کی بلکہ کنوینر کے طورپر کام کرنے کا فیصلہ کیا۔[15] ڈاکٹرصاحبؒ کی خواہش تھی کہ جماعت اسلامی سے علیحدہ ہونے والے اُن بزرگ حضرات کے لیے جو ۱۹۶۷ء میں تنظیم اسلامی کے قیام پر متفق ہوئے تھے، تنظیم کے دروازے کھلے رکھے جائیں۔اور انہی میں سے کوئی بزرگ اِس جماعت کی امارت کا منصب سنبھالیں۔ ڈھائی سال کے انتظار کے باوجود کوئی بزرگ اِس کے لیے تیار نہ ہوئے۔[16] بالآخر اگست ۱۹۷۷ء میں تنظیم اسلامی کے تیسرے سالانہ اجتماع کے موقع پر ڈاکٹر صاحبؒ نے تنظیم اسلامی کی امارت کی ذمہ داری قبول کی اور طے کیا کہ اس جماعت کی اساس قرآن وسنت اور سلف صالحین کے آثار سے ماخوذ بیعت سمع و طاعت کے اصول پر ہوگی۔[17]
اسفار:
ڈاکٹرصاحبؒ کی فکرقرآنی جغرافیائی حدود سے نکل کر دوسرے ممالک تک پہنچ گئی۔ چنانچہ انہوں نے۱۹۷۹ء میں امریکہ کا پہلا دعوتی و تبلیغی دورہ کیا جو بعد میں مختصر وقفوں کے ساتھ مسلسل جاری رہا۔ امریکہ کی سرزمین آپ کی دعوت قرآنی کے لیے انتہائی سازگار ثابت ہوئی۔ ۱۹۸۴ء میں مکہ مسجد حیدرآباددکن (بھارت) میں مسلسل تین دن ہزاروں خواتین و حضرات نے آپ کے کئ کئ گھنٹوں پر محیط دروس قرآن سنے۔[18] ۱۹۸۵ءمیں آپ نے ابوظہبی کا دورہ کیا اور وہاں مختلف موضوعات پر بھرپور دروس قرآن دىئے، جن کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے۔ راقم الحروف نے یہاں ڈاکٹرصاحبؒ کے صرف ابتدائی بیرونی اسفار کاذکر کیاہے، اگر اس داستان کو مرتب کیاجائے توعلیحدہ ایک کتاب اس کی متقاضی ہے۔
پاکستانی میڈیا:
ڈاکٹرصاحبؒ کی فکرقرآنی کو اُس وقت نئی جہت ملی جب پاکستان ٹیلی وژن نے ان کے لیے اپنے دروازے کھول دیے۔ ان دروس نے آپ کی فکر اور شخصیت دونوں کو خوب متعارف کرایا۔ پاکستان ٹیلی وژن کے ان پروگراموں میں "بیان القرآن" کے عنوان سے ایک پروگرام شروع ہوا، جو چار سال تک مسلسل چلتا رہا۔ اس کے علاوہ تین سال تک ہر رمضان المبارک میں پی ٹی وی پر آپ کے پروگرام "الکتاب" ، "الم" اور "حکمت و ہدایت" جاری رہے ۔ اس کے علاوہ ربیع الاول کے ماہ میں فلسفہ ٔ رسالت کے بارے میں آپ کا پروگرام "رسول کامل ﷺ " بھی پی ٹی وی پر ٹیلی کاسٹ ہوا۔ اس پروگرام کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی موجود ہے ۔[19]
پی ٹی وی کے جس پروگرام نے ڈاکٹر صاحب ؒ کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچادیا وہ درس قرآن کا ہفتہ وار پروگرام "الہدٰی" ہے جو پندرہ ماہ تک جاری رہا۔ پھر اس پروگرام کو مخالفین کی شدید مخالفت کی وجہ سے صاحبان اقتدار نے بند کرادیا۔ پاکستانى چىنل وژن نے تو اپنے دروازے ڈاکٹرصاحبؒ پربند کردئیے لیکن فکر قرآنی کے افشاء کے لیے اللہ تعالیٰ نئے نئے راستے کھولتارہا۔ جب الیکٹرانک میڈیا آزاد ہوا اور پرائیویٹ سیکٹر میں نئے چینلز کھلنے لگے تو ڈاکٹرصاحبؒ کےدروس قرآنی کا سلسلہ مختلف چینلز پر پھر سے شروع ہوگیا۔ چنانچہ آپ کا ترجمہ و تفسیر قرآن کا پروگرام " بیان القرآن" Qtvسمیت مختلف چینلز پر لاکھوں انسانوں کے قلوب و اذہان کو مسخر کرنے کا ذریعہ بنا۔لیکن ڈاکٹرصاحبؒ کی زوردار قرآنی فکر نے پھر کچھ لوگوں کو پریشان کردیا۔ ان شرپسند عناصر نے اپنی مسلکی تنگ نظری کے باعث اس فکر انگیز پروگرام کو بند کرادیا، لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک راستہ نکال دیا، چنانچہ محترم ڈاکٹر عبدالکریم ذاکر نائیک حفظہ اللہ تعالیٰ کے Peace TVکے ذریعے آج بھی لاکھوں لوگ نورِ قرآنی سے فیض یاب ہورہے ہیں۔
دورۂ ترجمہ ٔ قرآن مجید:
ڈاکٹرصاحبؒ کی خدمات قرآنی میں ایک اہم سنگ میل نماز تراویح کے ساتھ دورۂ ترجمہ ٔ قرآن کو حاصل ہے۔ اس طرح کے طویل دورانیے کے پروگراموں کی کوئی دوسری مثال ڈاکٹرصاحبؒ سے پہلے نہیں ملتی۔ اس پروگرام کا آغاز ۱۴۰۴ھ (۱۹۸۴ء) کے رمضان المبارک میں "مسجد جامع القرآن"قرآن اکیڈمی لاہور سے ہوا۔ صلوۃ التراویح میں قرآن مجید کے جتنے حصے کی تلاوت کی جاتی، پہلے اس کا ایک رواں ترجمہ اور مختصر تفسیر بیان کردی جاتی۔ اب قاری جب قرآن کی تلاوت شروع کرتا تو سامعین پر ایک عجیب کیفیت طاری ہوجاتی ۔[20]
یہ روح پرور پروگرام رات دو اڑھائی بجے تک جاری رہتا۔ اللہ تعالیٰ نےاس پروگرام کو اس قدر پذیرائی بخشی کہ ہررمضان المبارک میں قرآن اکیڈمی کی "مسجد جامع القرآن" میں ایک عجیب ایمان پرور منظر دیکھنے کو ملتا۔ مسجد نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوتی اور انہماک بھی دیدنی ہوتا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے ملک بھر میں دورۂ ترجمہ ٔ قرآن کے پروگرام شروع ہوگئے جو آج تک جاری ہیں۔ بلامبالغہ ملک بھر میں سینکڑوں مقامات پرڈاکٹر صاحبؒ کے تلامذہ بنفس نفیس دورہٴ ترجمہ ٔ قرآن کی سعادت حاصل کرتے ہیں ۔ ان سطور کا راقم بھی انہی میں سے ایک ہے۔فلہ الحمد۔
مطالعۂ قرآن حکیم کا منتخب نصاب:
دروس قرآن کے ضمن میں "مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب مقامات" کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ اس منتخب نصاب کی بنیاد تو سورۃ العصر ہے، لیکن اس کے بعد اس کے پانچ حصے ہیں، جو سورۃ العصر کے مضامین کو ہی کھولتے ہیں۔ [21]اس میں ڈاکٹر صاحبؒ نے تصور دین کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ ایک مؤمن کے دینی فرائض کی وضاحت کی ہے۔اس منتخب نصاب کو ڈاکٹر صاحبؒ نے مختلف مواقع پر بیان کیا ہے۔ بعض دروس مختصر اور بعض بہت مفصل اور علمی سطح کے ہیں۔
اس منتخب نصاب کے علاوہ ڈاکٹر صاحب ؒ نے منتخب نصاب حصہ دوم" بھی مرتب فرمایا۔[22] یہ بھی بہت اہم ہے۔ اس حصہ میں قرآن حکیم کی روشنی میں ایک اسلامی تحریک کے رفقاء کے باہمی تعلقات ، امیر و مامور کا باہمی تعلق، تحریک کے کام کے تقاضے اور اہمیت کو واضح کیاگیاہے۔ اس میں بہت سے علمی مباحث شامل ہیں، اس کی مدد سے حضور ﷺ کی برپا کردہ اسلامی تحریک کوسمجھنے میں مددملتی ہے۔
قرآن کانفرنسز:
ڈاکٹرصاحبؒ کی قرآنی خدمات میں "قرآن کانفرنسوں" کو ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔[23] ستر اور اسی کی دہائی میں ان کانفرنسوں کو بہت شہرت ملی۔قرآن حکیم کے علوم ومعارف کو عام کرنے میں ان کانفرنسوں نے اہم کرداراداکیا۔ ان کانفرنسوں میں مختلف مکاتب فکر کے علماء اور اہل فکر و دانش کو مدعو کیاجاتا۔ ہر کانفرنس کا ایک خاص موضوع ہوتا، جس پر علماء مقالے پڑھتے اور تقاریر بھی کرتے۔ چنانچہ پاکستان کے علاوہ بھارت سے سے جید علماء ، جیسے مولانا اخلاق حسین قاسمی، مولانا سعید احمد اکبرآبادی، مولانا عبدالکریم پاریکھ اور مولانا وحید الدین خان و غیرہم کو بھی مدعو کیاجاتا۔ یہ سلسلہ چلتارہا، لیکن بعد میں ان "قرآن کانفرنسوں" کی جگہ "محاضرات قرآنی" کا سلسلہ شروع کیاگیا۔ اس حوالے سے ڈاکٹرصاحبؒ وضاحت کرتے ہیں:
"مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام اسی بنیاد پر عمل میں آیا تھا، چنانچہ اس کے اس کے زیراہتمام دسمبر۱۹۷۳ء سے مسلسل سات سال تک قرآن کانفرنسوں کے انعقاد کا سلسلہ جاری رہا۔ لاہور اور کراچی میں بفضلہ تعالیٰ ہم نے سات نہایت عالی شان سالانہ قرآن کانفرنسیں منعقد کیں۔ اس کے بعد بعض اسباب سے ہم نے عنوان بدلا، جن میں سب سے بڑا سبب جس کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے لیے باعث مسرت اور بارگاہ رب العزت میں ہماری ان حقیر کوششوں کے مقبول ہونے کا کسی درجہ میں سہی ایک مظہر بھی ہے، یہ تھا کہ "قرآن کانفرنس" کا لفظ اتنا مقبول ، اتنا معروف اور اتنا مشہور ہواکہ جابجا دوسرے اداروں کی طرف سے نہ صرف متعدد قرآن کانفرنسیں ، جنہیں بجاطورپر قرآن کانفرنسیں قراردیاجاسکتاہے، منعقد ہوئیں، بلکہ بات یہاں تک جاپہنچی کہ اگر کسی تجوید کے مدرسے کے سالانہ جلسۂ تقسیم اسناد کاانعقاد ہوا تو اس کا عنوان بھی "قرآن کانفرنس" قراردیاجانے لگا، تو ہم نے پھر اس کو چھوڑکر "محاضرات قرآنی" کی اصطلاح سے ان مجالس کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا"۔[24]
محاضرات قرآنی:
۱۹۸۹ء سے محاضرات قرآنی کا آغاز ہوا۔ یہ محاضرات کراچی میں بھی منعقد ہوئے اور لاہورمیں بھی۔ چنانچہ ایک موضوع کا انتخاب کیاجاتا، اس پر ڈاکٹرصاحبؒ متعدد قرآنی لیکچر دیتے۔ ہر لیکچر کے بعد اہل فکر و دانش کا ایک پینل اس علمی موضوع سے متعلق سوالات کرتا، ڈاکٹرصاحبؒ ان کی وضاحت کرتے۔ یہ پینل مختلف مکاتب فکر کے جید علماء، جدید فکر کے حامل اہل فکر، وکلاء اور صحافیوں پر مشتمل ہوتا۔ ۱۹۸۹ء میں منعقد ہونے والے محاضرات قرآنی کا موضوع "اسلام کا نظامِ حیات" تھا۔ ڈاکٹرصاحبؒ نے اسلام کا روحانی و اخلاقی نظام، اسلام کا معاشرتی نظام، اسلام کا سیاسی نظام اور اسلام کا معاشی نظام پر اڑھائی اڑھائی گھنٹے خطاب فرمائے اور بعد میں تیکھے اور چبھتے ہوئے سوالات کے جوابات دىئے۔ ۱۹۹۱ء میں لاہور میں منعقد ہونے والے محاضرات قرآنی کاموضوع "حقیقت ایمان" تھا۔ اس موضوع کو پانچ ذیلی موضوعات میں تقسیم کیاگیا۔ یہ محاضراتِ قرآنی اب کتابی شکل میں موجود ہیں[25]
تحریک خلافت پاکستان:
۱۹۹۱ء میں "تحریک خلافت پاکستان" کا آغاز کرنےکے بعد محترم ڈاکٹرصاحبؒ نے پورے پاکستان کا مفصل دورہ کیا، جس کے دوران تمام بڑے شہروں میں عوامی جلسوں سے خطاب فرمایا۔بعدازاں کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور، کوئٹہ اور ملتان میں ہالز اور آڈیٹوریمز کے پُرسکون ماحول میں "خطباتِ خلافت" کی صورت میں خالص علمی اور عقلی استدلال کے ساتھ نظامِ خلافت سے متعلق ان جملہ مسائل و مشکلات کا حل پیش کیا جو بالعموم نہ صرف مخالفین بلکہ موافقین کے ذہنوں میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یہ پانچ خطبات اب "خلافت کی حقیقت اور عصر حاضر میں اس کا نظام" کے عنوان سے کتابی شکل میں دستیاب ہیں۔ مذکورہ بالا محاضرات اعلیٰ علمی سطح کے حامل ہیں، ان کے ذریعے اہلِ علم و دانش تک قرآن حکیم کی دعوت کو پہنچایا گیا[26]
رفقاء کار:
ڈاکٹر صاحبؒ اس اعتبار سے انتہائی خوش قسمت انسان تھے کہ انہیں ایسے رفقاء کا ر میسر آئے جو آپ کے کا م کو جدید انداز میں محفوظ کرتے رہے۔چنانچہ ڈاکٹرصاحبؒ کے دروس قرآنی آڈیو، ویڈیو، کیسٹس، سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز میں محفوظ ہیں۔ دعوت قرآنی کی نشرواشاعت میں ان کیسٹس اور سی ڈیز نے انتہائی اہم کردار اداکیاہے۔ ان کی مدد سے لاکھوں انسان نور قرآنی سے مستفید ہورہے ہیں۔ ڈاکٹرصاحبؒ اگرچہ اب ہمارے درمیان میں موجود نہیں ہیں، لیکن جدید سائنس کا یہ کرشمہ ہے کہ ان کی آڈیو، ویڈیو، اور سی ڈیز سے ہم ان سے ایسے مستفید ہوسکتے ہیں جیسے کہ وہ ہمارے سامنے درس دے رہے ہوں۔
تحریک رجوع الی القرآن:
ڈاکٹرصاحبؒ کو اس بات کا کامل ادراک تھا کہ "رجوع الی القرآن" کی اس تحریک کو آگے بڑھانے کے لیے ٹھوس بنیادوں پرکام کرنے کی ضرورت ہے، چنانچہ انہوں نے اس کام کو ادارتی شکل میں منظم کرنے کا خواب دیکھا۔[27] ان کے بہت سے خواب ان کی زندگی میں شرمندۂ تعبیر ہوئے جبکہ کچھ کام وہ ادھورے چھوڑ گئے جو ان کے فکری وارثوں کے کرنے کی ہیں۔
انہوں نے سب سے پہلے اپنے قیام ساہیوال کے دوران ایک "قرآنی دارالمطالعہ" قائم کیا۔[28] جس میں کالج میں زیر تعلیم طلبہ کو رہائش فراہم کرکے ، انہیں عربی زبان اور قرآن حکیم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ نوجوانوں کو قرآن حکیم کی طرف لانے کی یہ اولین کوشش تھی۔
۱۹۶۵ء میں ڈاکٹر صاحبؒ نے ایک اشاعتی ادارہ "دارالاشاعت الاسلامیہ" قائم کیا۔ اس ادارے کا مقصد قرآنی مطبوعات کی اشاعت تھا۔ یہ ادارہ ڈاکٹرصاحبؒ نے اس رقم سے قائم کیا جو انہیں اپنے بھائیوں سے کاروباری علیحدگی سے حاصل ہوئی۔[29] اس ادارے نے مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی تصانیف اور ان کی معرکۃ الآراء تفسیر "تدبر قرآن" کی ابتدائی جلدیں شائع کیں۔ ماہنامہ "میثاق "جو پہلے مولانا امین احسن اصلاحی ؒ کی زیر ادارت نکلتاتھا اور کچھ عرصہ سے بند تھا، وہ بھی دوبارہ شائع کرنا شروع کیا۔[30]
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کا قیام:
ڈاکٹرصاحبؒ نے ۱۹۷۲ء میں "انجمن خدام القرآن" قائم کی۔[31] اس کے قیام کے مقاصد میں علوم قرآنی کی اشاعت اور مختلف تعلیمی اداروں کے قیام کے لیے وسائل مہیا کرناتھا۔ ڈاکٹرصاحبؒ نے ۱۹۶۷ء میں ایک قرآن اکیڈمی کا خواب دیکھاتھا۔ چنانچہ وہ خود رقمطراز ہیں:
"………ایک قرآن اکیڈمی کا قیام عمل میں لایاجائے، جو ایک طرف علوم قرآنی کی عمومی نشرواشاعت کا بند وبست کرے تاکہ قرآن کا نور عام ہو اور اس کی عظمت لوگوں پر آشکارا ہو اور دوسری طرف ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرے جو بیک وقت علوم جدیدہ سے بھی بہرہ ور ہوں اور قرآن کے علم و حکمت سے بھی براہ راست آگاہ ہوں تاکہ متذکرہ بالا علمی کاموں کے لیے راہ ہموار ہوسکے۔ علوم قرآنی کی عمومی نشرواشاعت کا اہم ترین نتیجہ یہ نکلے گا کہ عام لوگوں کی توجہات قرآن حکیم کی طرف مرکوز ہوں گی، ذہنوں پر اس کی عظمت کا نقش قائم ہوگا، دلوں میں اس کی محبت جاگزیں ہوگی اور اس کی جانب ایک عام التفات پیدا ہوگا۔ نتیجتاً بہت سے ذہین اور اعلیٰ صلاحیتیں رکھنے والے نوجوان بھی اس سے متعارف ہوں گے۔ اور کوئی وجہ نہیں کہ ان میں سے اچھی بھلی تعداد ایسے نوجوانوں کی نکل آئے جو اس کی قدروقیمت سے اس درجہ آگاہ ہوجائیں کہ پوری زندگی کو اس کے علم و حکمت کی تحصیل اور نشرواشاعت کے لیے وقف کردیں۔ ایسے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت اس اکیڈمی کا اصل کام ہوگا اوراس کے لیے ضروری ہوگا کہ ان کو پختہ بنیادوں پر عربی کی تعلیم دی جائے، یہاں تک کہ ان میں زبان کا گہرا فہم اور اس کے ادب کا ستھرا ذوق پیداہوجائے۔ پھر انہیں سبقاً سبقاً قرآن پڑھایاجائے اور ساتھ ہی حدیث نبوی ﷺ ، فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم دی جائے"۔[32]
ڈاکٹرصاحبؒ نے قرآن اکیڈمی کا خواب کیوں دیکھا؟ اس کی وضاحت بھی انہوں نے کردی۔ ڈاکٹر صاحبؒ کو اس بات کا بھی ادراک تھا کہ دینی مدارس میں قرآن کی طرف رجوع بہت کم ہے۔ پھر اس بات کی نہ کوئی ترغیب ہے، نہ اہتمام کہ عوام الناس تک قرآنی علوم پہنچائے جائیں۔ چنانچہ ڈاکٹرصاحبؒ لکھتے ہیں:
"یہ عرض کرنا غالباً خارج از محل شمار نہیں ہوگا کہ خو د علماء کے حلقوں میں تاحال قرآن حکیم پر توجہ اس درجہ مرکوز نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ راقم الحروف نے ایک بار مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے دریافت کیاکہ اس کا کیا سبب ہےکہ اصول حدیث اور اصول فقہ پر تو ہمارےیہاں ضخیم تصانیف موجودہیں لیکن اصول تفسیر پر کل دو مختصر رسالے ملتے ہیں ایک امام ابن تیمیہ ؒ کا اور دوسرا شاہ ولی اللہ دہلویؒ کا؟ اس کا جواب تو مولانا نےقدرے توقف سے یہ دیا کہ اصل میں اصول فقہ کی کتابوں میں اصول تفسیر بھی زیر بحث آجاتے ہیں لہٰذا علیحدہ تصانیف کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔ لیکن جب میں نے یہ دریافت کیا کہ اس کا کیا سبب ہے کہ آپ کے دارالعلوم میں تخصص فی الحدیث کا شعبہ بھی ہے اور تخصص فی الفقہ کا بھی ، لیکن تخصص فی التفسیر کا شعبہ موجود نہیں ہیں؟ تو اس پر مولانا نے پوری فراخ دلی کے ساتھ تسلیم فرمایا کہ یہ ہماری کوتاہی ہے"۔[33]
قرآن اکیڈمی کا قیام:
چنانچہ انہوں نے ۱۹۷۶ء میں قرآن اکیڈمی قائم کی تاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان قرآن حکیم پر غوروفکر ، بحث و تحقیق اور نشرو اشاعت کا بیڑہ اٹھائیں اور یہ ان کی زندگی کا مقصد ٹھہرے۔ قرآن اکیڈمی کے قیام کے ساتھ ہی ایسے نوجوانوں کی تیاری کا کام شروع کردیاگیا۔ ابتداءً جب دوسالہ دینی کورسز کا اجراء ہواتو نوجوانوں کو راغب کرنے کے لیے باقاعدہ وظائف بھی دیے جاتے، مفت رہائش اور خوارک کا اہتمام بھی کیاجاتا ۔ الحمدللہ نوجوانوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس کام کے لیے تیارہوگئی۔ بعدازاں ایک سالہ "رجوع الی القرآن کورس" متعارف کرایاگیا جو اب تک باقاعدگی سے جاری ہے، اس میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں۔ چنانچہ حلقۂ خواتین میں قرآنی فکر پہنچانے کے لیے اچھی خاصی تعداد خواتین مدرسین کی بھی تیار ہوچکی ہے جن میں حضرت ڈاکٹرصاحبؒ کی صاحبزادیاں بھی شامل ہیں۔
ابتداءً لاہور میں قرآن اکیڈمی قائم ہوئی، الحمدللہ اب تمام بڑے شہروں کراچی، فیصل آباد، ملتان اور جھنگ میں قرآن اکیڈمیز معرض وجود میں آچکی ہیں، لہٰذا تمام جگہوں اس نوعیت کے کورسز کا اجراء کیا جاتاہے۔ طویل کورسز کے ساتھ ساتھ مختصر دورانیے کے عربی زبان کی تفہیم کے کورسز بھی تمام جگہوں پر جاری رہتے ہیں۔ اس ضمن میں قرآن اکیڈمی کراچی اور جھنگ بہت وقیع اور عمدہ کام کررہی ہیں۔[34]
قرآن کالج کا قیام:
قرآن اکیڈمیوں کے علاوہ ۱۹۸۹ء میں قران کالج کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس کا مقصدبھی عصری علوم کے ساتھ دینی علوم خصوصاً قرآن حکیم کی تفہیم کا اہتمام کرناہے۔ اب قرآن کالج کو "کلیۃ القرآن" میں بدل کر ایک جدید اسلامی مدرسے کی شکل دی گئی ہے، جہاں درس نظامی کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہیں۔[35] قرآن کالج ، یعنی کلیۃ القرآن کے ساتھ ایک شاندار قرآن آڈیٹوریم بھی قائم ہے جہاں ڈاکٹرصاحبؒ ہفتہ وار درس قرآن دیاکرتے تھے۔ اب یہاں ان کے خلف الرشید ڈاکٹر عارف رشید صاحب ہفتہ وار درس کی ذمہ داری اداکرتے ہیں۔ نیز دیگر پروگرام ، سیمنار وغیرہ کا انعقاد یہیں ہوتاہے۔ اس سے ایک بہت بڑی ضرورت پوری ہوگئی ، ورنہ اس طرح کے پروگراموں کے لیے شہر کے وسط میں ہال کرائے پر لینا پڑتے تھے۔
قرآن یونیورسٹی کا خواب:
ڈاکٹرصاحبؒ نے ۱۹۶۸ء میں ایک قرآن یونیورسٹی کا خواب بھی دیکھا تھا، جس میں تمام علوم قرآن حکیم کے گرد گھومتے ہوں۔ چنانچہ ڈاکٹرصاحبؒ لکھتے ہیں:
"یہ کام ظاہر ہے کہ اُس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک عالم اسلام میں جابجا ایسی یونیورسٹیاں قائم نہ ہوں جن میں ہر ایک کا اصل مرکزی شعبہ "تدبر قرآن" کا ہو اور اس کے گرد تمام علوم عقلی جیسے منطق، مابعد الطبعیات، اخلاقیات، نفسیات اور الٰہیات، علوم عمرانی جیسے معاشیات، سیاسیات اور قانون اور علوم طبعی جیسے ریاضی، کیمیا، طبعیات، ارضیات اور فلکیات وغیرہ کا ایک حصار قائم ہو،اور ہر ایک طالب علم "تدبرقرآن" کی لازماً اورایک یا اس سے زائد دوسرے علوم کی اپنے ذوق کے مطابق تحصیل کرے اور اس طرح ان شعبہ ہائے علوم میں قرآن کے علم وہدایت کو تحقیقی طورپر اخذکرکے مؤثر انداز میں پیش کرسکے"۔[36]
حضرت ڈاکٹرصاحبؒ کا یہ خواب تاحال پورا نہیں ہوا۔ ان کے تلامذہ اور فکری ورثاء پر بہت سے قرض باقی ہیں جو انہوں نے چکانے ہیں۔ان کی فکر کی بہت سی تہیں ابھی کھلنی ہیں، کئ فکر ی گوشوں کو اجاگر ہوناہے۔ ان کا بہت سا فکری کام ماہنامہ "میثاق" اور "حکمت قرآن" کےصفحات میں بکھرا پڑاہے جسے مرتب و مدون کرنے کی ضرور ت ہے۔ اسی طرح ڈاکٹرصاحبؒ کے قرآنی افکار ہزاروں کی تعدادمیں کیسٹس میں محفوظ ہیں، جنہیں کتابی شکل میں لانا باقی ہے۔ کیسٹس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے، یہ دعوت کا انتہائی مؤثر ذریعہ ہیں لیکن ان کی اہمیت وہ نہیں ہے جو کتاب کی ہوتی ہے۔ کسی بھی بڑے مفکر، دانشور، ادیب اور اسکالر کے افکار کا حوالہ کتب ہوتی ہیں لہٰذا ڈاکٹرصاحبؒ کے قرآنی افکار کا کتابی شکل میں مدون ہونا باقی ہے۔ اگر ڈاکٹرصاحبؒ فرد واحد کی حیثیت سے کام کا آغاز کرکے "رجوع الی القرآن" کی اتنی عظیم تحریک برپا کرسکتے ہیں تو کیا اتنے سارے ادارے ، افراد اور وافر وسائل اس کام میں کوئی اضافہ نہیں کرسکتے؟ یہ ایک سوال ہے جو مجھ سمیت ان تمام لوگوں کو دعوت فکر دیتاہے جو ڈاکٹر صاحبؒ کی فکر کے امین اور خوشہ چین ہیں۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹرصاحبؒ کی مساعی جمیلہ کو شرف قبول عطافرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین۔
وفات:
مورخہ ۱۳/اپریل کورات ساڑھے گیارہ بجے ڈاکٹر صاحبؒ کےفرزند ڈاکٹر عارف رشید صاحب نے محسوس کیا کہ ڈاکٹرصاحبؒ کی طبعیت مضمحل ہے اور کمر کی تکلیف شدت اختیار کرگئی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹرصاحبؒ کے معالج ملک کے نامور سرجن ڈاکٹر عامر عزیز سے رابطہ کیا گیا، وہ تشریف لائے اور ضروری ادویات تجویز کیں۔ طبعیت مزید مضمحل ہوئی تو ہسپتال لے جانے کا سوچا گیا لیکن ڈاکٹر صاحبؒ نے منع کردیا۔ رات ڈھائی بجے ڈاکٹر صاحبؒ کے خادم نے محسوس کیا کہ آپ کی سانس کی آواز نہیں آرہی۔ قریب جاکر دیکھا تو آپ ساکت و ساکن تھے۔ خادم نےڈاکٹر عارف رشید صاحب کو فون کرکے بلایا۔ اُنہوں نے آکر ڈاکٹر صاحبؒ کا معائنہ کیا اور بتایاکہ اللہ کےدین کا خادم اللہ کے پاس پہنچ گیا ہے۔ إنا لله وإنا إليه راجعون۔ اللہ نے اپنے بندے پر کرم کیا اور اُس پر موت کی سختیوں کو آسان فرمادیا۔ اللہ ہم سب کو دین کی خدمت والی زندگی اور راحت والی موت عطافرمائے۔آمین۔[37]
عظیم شخصیت کے بارے میں عظیم شخصیات کے تأثرات:
ڈاکٹراسراراحمدؒ کے بارے میں ملکی اور غیرملکی عظیم اور معروف شخصیات کے کیا تأثرات ہیں۔ آىئے جائزہ لیتے ہیں:
فرزند اقبالؒ جسٹس جاوید اقبال کہتے ہیں:
"میری ڈاکٹراسراراحمد سے گہری وابستگی رہی ہے۔ ہم اکثر ٹی وی چینلز پر اظہار خیال کے لیے اکٹھے مدعو کئے جاتے تھے۔وہ مجھ سے بہت ہی محبت اور شفقت سے پیش آتے ۔میں نے ایک دو دفعہ قرآن اکیڈمی میں بھی ان سے ملاقات کی۔ وہ احیائے خلافت کے حوالے سے بہت ہی "کلیئرہیڈڈ" تھے۔وہ کہاکرتے تھے کہ نظام خلافت لازمی رائج ہوکررہے گا۔جب ایک فریق اپنے مؤقف پر اتنا convincedہوتو اس پر بات کرنا اتنا آسان نہیں ہوتا۔وہ قرآن کی تفسیر کو عام فہم انداز میں بیان کرتے تھے۔خلافت کا تصوران کا پسندیدہ موضوع رہاہے جبکہ میرا موضوع اسلام کا سیاسی فلسفہ رہاہے۔ان موضوعات پر اکثر ہمارے بحثیں ہوتی رہتی تھیں۔"[38]
معروف اسلامی اسکالر جاوید احمد غامدی فرماتے ہیں:
"ڈاکٹر اسرار احمد اسلام اور مسلمانوں کی متاع عزیز تھے۔ وہ ایک وسیع المطالعہ شخصیت تھے۔ انہوں نے جس انداز میں اپنی زندگی کا ایک مقصد متعین کیا اور پھر پوری استقامت اور عزیمت کے ساتھ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنی پوری زندگی بسر کی وہ ہمارے لیے بہترین مثال ہے۔ وہ جدید و قدیم علوم پر گہری نظر رکھتے اور اپنی بات بڑے سلیقے سے کہنے کا ہنر جانتے تھے۔ ہمارے ہاں بہت کم لوگ اتنے شائستہ اور اتنے اعلیٰ اسلوب میں اپنا مدعا بیان کرنےکی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسی صلاحیت اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹرصاحب کو دی تھی۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ جس دینی تصور کو وہ درست سمجھتے تھے اِسے لوگوں کے ذہن میں اتاریں، اس کے مطابق ان کی تربیت کریں۔اس کے لیے انہوں نے ایک بڑی تنظیم بھی قائم کی۔اس لحاظ سے وہ بڑی ہمہ جہت شخصیت تھے۔ انہوں نے اپنی زنگی کا ایک ایک لمحہ اسی عظیم مقصد کی نذر کردیا۔ ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھى کہ وہ جو کچھ صحیح سمجھتے تھے اسے برملا کہتے تھے۔ اس میں ادنی درجے کی بھی کوئی مداہنت نہیں کرتےتھے۔ انہوں نے اپنے بچوں اور اہل خاندان کو بھی اسی مسلک کا پابند کیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے رجوع الی القرآن کی ایک تحریک برپا کیے رکھی۔ بلکہ مجھے تو یاد پڑتاہے کہ جس زمانے میں ہم لوگ طالب علم تھے، یہ معلوم ہوتاتھا کہ قرآن مجید کی منادی کرنے والا ایک شخص پیدا ہوگیاہےجو صبح و شام اس کی جانب لوگوں کی توجہ دلاتاہے کہ لوگو! اللہ کی کتاب کی طرف آؤ، اللہ کی کتاب کو مضبوطی کے ساتھ پکڑو، اس کو سمجھو، اس میں تدبر کرو، اپنی زندگی اس کے مطابق تبدیل کرنےکی کوشش کرو۔ ان کا ایک بہت ہی اچھا کتابچہ ہے جس میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ "مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق" کیاہیں۔میرے نزدیک ان کی تحریروں میں وہ بہترین تحریر ہے۔ اور اس میں انہوں نے بڑی جامعیت کے ساتھ اپنا نقطہ نظر بیان کیاہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ مجھے ان کےنقطہ ہائے نظر سے شدید اختلاف رہاہے، لیکن یہ بالکل الگ چیز ہے۔اپنے نقطہ نظر پر استقامت میں وہ ایک بے نظیر شخصیت تھے۔ میرا خیا ل یہ ہے کہ ہم اسلام اور مسلمانوں کی ایک متاع عزیز سے محروم ہوچکے ہیں۔ ان کی محرومی ہم سب کی محرومی ہے اور ان کا غم ہم سب کا غم ہے۔ میں ملک سے باہر تھا۔ جس کى وجہ سے ان کے جنازے میں شریک نہ ہوسکا۔ اس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔ میرے د ل میں ان کی بے پناہ عزت ہے۔ وہ میرے محسن اور بزرگوں میں سے تھے۔ میں ان سے بڑی محبت رکھتاتھا۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ ان کو مثال کے طورپر پیش کیاجاسکتاہے کہ ایک آدمی اپنے نقطہ نظر سے کتنی محبت رکھتا تھا۔ اس کی صحت پر اسے کیسا یقین و ایمان ہے۔ اور اس مقصد کےلیے وہ بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتے تھے۔ان کا بغض اور ان کی محبت سب اسی نقطہ نظر کے تحت ہوتی تھی۔"[39]
ڈاکٹرعبدالکریم ذاکرنائیک فرماتے ہیں کہ:
"میرے نزدیک ڈاکٹراسراراحمد اردو زبان کے سب سے بہترین مفسر قرآن تھے۔ میں ان کی اردو تقریر کا بڑا فین ہوں۔ میرے نزدیک پیس ٹی وی پر جتنے اردو مقررین ہیں ان سب سے بہترین ڈاکٹراسراراحمد تھے۔ میں الحمدللہ ۱۹۹۱ میں ان سے ملاتھا۔ اس وقت سے ہمارے ان کے ساتھ تعلقات ہیں اور میں ان کی بہت عزت کرتاہوں۔ میں شیخ احمد دیداتؒ اور ڈاکٹراسراراحمد سے متأثر ہوکر دعوت کے میدان میں آیاتھا۔ ڈاکٹرصاحب نے مجھے ہدایت کی تھی کہ آپ میڈیسن اور دعوت میں سے کسی ایک فیلڈ کو اپن لئے چن لیں۔ آپ بیک وقت دونوں میں اسپیشلائز نہیں کرسکتے۔ میں نے سوچا کہ دعوتی میدان میں اسپیشلائز کرنا بہتر ہے۔ ہم نے ۲۰۰۵ء میں محترم ڈاکٹرصاحب کو بمبئی بلایاتھا اور ہمارے پاس جو وسائل اور ٹیکنالوجی میسر تھی اس سے ڈاکٹرصاحب کے لیکچرز کی ریکارڈنگ کی تھی۔ ۲۰۰۸ء میں ہم پیس ٹی وی کے لیے پورے قرآن پاک کی ریکارڈنگ کرنا چاہتے تھے لیکن افسوس کہ ملکی حالات اچھے نہ ہونے کے سبب وہ پروگرام کینسل ہوگیا اور اب جولائی ۲۰۱۰ء میں پورا ایک مہینہ ڈاکٹرصاحب کے لیکچرز ریکارڈ کرنے کا پروگرام تھا لیکن اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو ایسا منظور نہیں تھا۔ہم پوری کوشش کریں گے کہ ہمارے پاس جتنی بھی پرانی ریکارڈنگز موجود ہیں اس کو جدید ٹیکنالوجی سے improveکرکے Peace TVپر لائیں۔"[40]
اخبارات اور تعزیتی بیانات:
مفسر قرآن، بانیٔ تنظیم اسلامی ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے انتقال پر صدر و وزیراعظم کا اظہار تعزیت:
"لاہور (ثناء نیوز) ممتاز عالم دین ، معروف اسکالر اور تنظیم اسلامی کےبانی ڈاکٹراسراراحمد لاہور میں انتقال کرگئے۔ مرحوم طویل عرصے سے کمر کے درد اوردل کے عارضہ میں مبتلا تھے۔ ڈاکٹر اسراراحمد کے صاحبزادے ڈاکٹرعارف رشید نے بتایاکہ ڈاکٹر صاحب طویل عرصہ سے کمر کے درد اور دل کے عارضہ میں مبتلاتھے۔ منگل اور بدھ کی درمیانی شب کو ان کی کمر میں شدید درد ہوا جس پر انہیں ہسپتال لے جانے کا کہا گیا لیکن ڈاکٹر اسراراحمد نے انہیں منع کردیا جس پر ڈاکٹر عامر عزیز نے گھر پر آکر ان کا چیک اپ کیا۔ صبح ساڑھے تین بجے کے قریب ڈاکٹر صاحب اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ ڈاکٹرصاحب کےدرس اور فہم قرآن دنیا میں شہرت رکھتے ہیں۔ وہ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ ہوئے اور اس کے ناظم اعلیٰ بھی رہے۔ بعدازاں وہ جماعت اسلامی سے وابستہ ہوئے، تاہم بعض اختلافات کے بعد وہ جماعت سے علیحدہ ہوگئے اور تنظیم اسلامی کے نام سے اسلامی انقلابی جماعت کی بنیاد ڈالی۔ ان کی نماز جنازہ بعداز نماز عصر سنٹرل پارک ماڈل ٹاؤن میں اداکی گئی،جس میں اہم سیاسی و مذہبی شخصیات، تنظیم اسلامی کےکارکنوں اور ان کے ہزاروں عقیدت مندوں نے شرکت کی۔ صدرآصف علی زرداری، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہاز شریف، مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف، چیئرمین سینیٹ فاروق ایچ نائیک، ڈپٹی چیئرمین جان محمد جمالی، اسپیکر قومی اسمبلی فہمیدہ مرزا، ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی سمیت تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین نے ڈاکٹراسراراحمد کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے[41]
وزیراعلیٰ پنجاب سمیت نامور شخصیات کا ڈاکٹر اسراراحمد کی وفات پر اظہار تعزیت:
"لاہور(پ ر) بانی تنظیم اسلامی ڈاکٹراسراراحمد کے انتقال پر ان کے بیٹوں کے ساتھ اظہار تعزیت کے لیے قرآن اکیڈمی میں زندگی کے ہرشعبے سے تعلق رکھنے والے نمایاں افراد کا تانتا بندھا رہا۔ وفات کے دوسرے روز تعزیت کے لیے آنے والے نمایاں لوگوں میں میاں محمد شہباز شریف، مولانا امیر حمزہ، کے ایم اعظم، قاضی یونس انور، حافظ عبدالرحمن مدنی، ارشاد احمد عارف، عطاء الحق قاسمی، مصطفی صادق، جمیل اختر اور مولانا عبداللطیف شامل ہیں۔[42]
سینیٹ میں ڈاکٹراسرار احمد ؒ کے دعائے مغفرت:
"اسلام آباد (ثناء نیوز) سینیٹ میں معروف اسلامی اسکالر ڈاکٹر اسرار احمد کے لیے دعائے مغفرت کروائی گئی۔ جماعت اسلامی کے پروفیسر خورشید احمد نے نکتہ اعتراض پر کہا کہ عالم اسلام کےمعروف اسکالر او رمبلغ ڈاکٹراسراراحمد کا نتقال ہواہے۔ سینیٹ میں ان کے لیے دعائے مغفرت کرائی گئی۔ اس پر سینیٹر عبدالغفور حیدری نے ان کے لیے دعا کرائی۔[43]
Experts from some selected letters/emails
Dr. Zakir abdul kareem naik
IRF, Mumbai (India)
"One of the greatest scholars of Islam is physically no more with us in this world, but his eloquent and deeply impacted ideas, talks, writings and unmitigated work for Islam will always live on, forever with us, guiding, motivating and inspiring us to carry on his great work. His straight forward and yet articulate public talks and writings for a proper Islamic Renaissance have been a class apart, full of introspection and wisdom with deep insight. He was a rare scholar indeed! [44]
Waseem Sajjad
Leader of the opposition, Senate of Pakistan
"I was deeply grieved to learn of the sad demise….. It is a very painful and sad moment…..[45]
خلاصہ ٔ بحث (Summary):
ہم نے اس مطالعہ میں ملک کے معروف اسلامی اسکالر کی زندگی کے مختلف گوشوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس studyکے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ڈاکٹراسرار احمد ؒ جیسی شخصیت صدیوں میں پیدا ہوتی ہے۔
ڈاکٹرصاحب ؒ تو اس وقت ہم میں موجود نہیں ہیں مگر ڈاکٹرصاحبؒ کی تحریر و تقریرکا سرمایہ کثیر تعداد میں ہمارے پاس موجود ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ ایک عبقری شخصیت اور اپنی ذات میں انجمن تھے۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی ایک صد سے زیادہ تصانیف ہیں۔ علاوہ ازیں لاتعداد آڈیو/ویڈیو کی شکل میں قیمتی اثاثہ ڈاکٹر صاحب کی اصل میراث ہے۔
۱۹۹۴ء میں ڈاکٹر صاحبؒ کے قلم سے نکلنے والی کتاب "حسابِ کم و بیش" کی روشنی میں ڈاکٹر صاحب نے دنیوی اعتبار سے کوئی میراث نہیں چھوڑی۔ اور جو تھوڑی بہت جمع پونجی تھی وہ سب بھی انجمن خدام القرآن اور تنظیم اسلامی کے قیام سے قبل یا متصل بعد دین کےلیے وقف کردی۔ ایسے مذہبی اسکالر، عالم، مہتمم، لیڈر خال خال ہی ملیں گے کہ جو پورے اعتماد کے ساتھ اس بات کا اظہار کریں کہ انہوں نے دنیا میں کیا کمایا اور کیا خرچ کیا۔ یہ ڈاکٹرصاحب کاخاصا تھا کہ جب بھی بات کی پورے اعتماد اور دلائل کےساتھ کی اور کبھی کسی سے مرعوب نہیں ہوئے۔ وقت کے حکمرانوں نے ہردور میں ڈاکٹرصاحب کو خریدنے کی بھرپور کوشش کی مگر ہمیشہ ناکام رہے۔
ڈاکٹرصاحبؒ کا شمار کلمہ ٔ حق ببانگ دہل کہنے والوںمیں سرفہرست رہے گا۔ ڈاکٹرصاحبؒ قدامت پسندی اور جدیدیت کی اعلیٰ مثال تھے۔ تاریخ ہمیشہ ڈاکٹرصاحبؒ کو ایک متوازن شخصیت کے طورپر یاد رکھے گی۔شاعر نے درست کہا کہ:
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
اختتام (Conclusion) :
زیر نظر مطالعہ سے درج ذیل بنیادی مفروضات میں حقیقت کا رنگ بھرجاتا ہے :
الف:ڈاکٹر اسرار احمدؒ پاکستان و ہندوستان کے روایتی معاشرے اور اسلامی علوم کے ساتھ مغربی فکر و فلاسفہ کی آدرشوں کی تفہیم بھی رکھتے تھے۔
ب: ڈاکٹراسرار احمدؒ اسلامی نشأ ة ثانیہ کو جدید دو ر میں ممکن سمجھتے تھے۔
ج: ڈاکٹر اسراراحمدؒ اسلامی اخلاق اور روحانیت کو برقرار رکھتے ہوئے سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید سماجی علوم کی تحصیل کے ذریعہ اسلام کی نشأ ة ثانیہ کے حصول کے خواہش مند تھے۔
د: ڈاکٹر اسراراحمدؒ کا خیال تھا کہ مغرب نے جو مادی ترقی کی ہے اس کا سبب قرآن کی کتابِ فطرت اور اسلام ہےجس نے اندلس میں علمی و سائنسی علوم کے فروغ کے ذریعے مغرب کو ترقی کی راہ دکھائی ۔مگر بعد کے ادوار میں مسلم اُمہ اپنے اس ورثے کی حفاظت نہ کرسکی ،لہذا ترقی، آزادی اور مساوات دراصل اسلامی معاشرت و سیاست کی وہ صفات ہیں جنہیں مغرب نے اپنا کر عروج حاصل کرلیا۔
ہ: ڈاکٹر اسرار احمد ؒ کا خیال تھا کہ ترقی کے مغربی راستے کو اختیار کرنا، مغرب کی تقلید نہیں بلکہ مسلم امہ کی اپنی ہی متاعِ گم شدہ میراث کے حصول کی جستجو ہے۔اور یہ اقتدار و اختیار حاصل کیے بغیر ممکن نہیں۔
سفارشات (Recommendations) :
ہم سمجھتے ہیں کہ:
الف:ڈاکٹر اسراراحمد ؒ کے پیش کردہ مختلف نظریات میں اتنی جان ہے کہ ایک ایک نظریہ کو لے کر اُ س پر تحقیق کی جائے۔
ب:ڈاکٹر اسراراحمدؒ واقعتا اپنی ذات میں انجمن تھے۔ لہٰذا ڈاکٹرصاحب کی شخصیت کو زیر تحقیق لایاجائے۔
ج:ڈاکٹرصاحب سے متعلق معاشرے میں جو غلط فہمیاںموجود ہیں انہیں اس مقالے کے ذریعہ دور کیاجاسکتاہے۔
د: جو قومیں اپنے لیڈرز کی قدر نہیں کرتیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہواکرتیں۔ جیسے مولانا ابوالکلام آزاد ؒ نے فرمایا تھا کہ "اے ہندوالو! تم نے میری قدر نہیں کی"[46] لہٰذا ایسے عظیم لیڈر کی قدرکرنے کی طرف بھی پیش نظر مطالعہ میں اشارہ موجود ہے۔
حرف ِآخر:
بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے ڈاکٹر صاحبؒ پر بے مثال عنایات کی بارش کردی تھى۔ ڈاکٹر صاحبؒ کی شخصیت قول و فعل میں مطابقت ، اصولوں پر سختی سےعمل، کلمۂ حق کہنے کی زبردست جرات، خودداری، قناعت، سادگی، استقامت، بےپناہ قوت عمل اور نیک مقاصد کےساتھ سچی لگن سے آراستہ تھی۔ اُن کی زندگی پاکیزگی کا ایک انمول نمونہ دکھائی دیتی ہے۔ وہ بچپن سے لے کر بڑھاپے تک قرآن و دین کی خدمت کی لائق تحسین داستان بنے رہے۔ زندگی کے آخری ساعتوں تک اللہ کی کتاب کی تبلیغ اور اللہ کےدین کے غلبہ کی جدوجہد ایک بہت بڑی سعادت ہے جو ڈاکٹر صاحبؒ کے حصہ میں آئی۔ ایسی زندگی بلاشبہ شیرازی کے اس شعر کا مصداق نظرآتی ہے کہ:
حاصل عمر نثار رہِ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارے کردم
"میں نے اپنی زندگی کاکل سرمایہ محبوب کی راہ میں نجھاور کردیا۔
میں خوش ہوں اپنی بیتی ہوئی زندگی سے کہ میں نے وہی کیا جو مجھے کرناچاہیےتھا"
حوالہ جات
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۶۷، تحریک جماعت اسلامی ۔۔ایک تحقیقی مطالعہ، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۱۲۰
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۸۷، جماعت شیخ الہند اور تنظیم اسلامی، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۴
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار، ۲۰۱۳، فہرست مطبوعات،لاہور،انجمن خدام القرآن، صفحات ۲تا۲۲
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۱، عزم تنظیم، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۱۱
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۶
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۳۶
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۸۶تا ۱۸۸
- ↑ شفیع،مولانا مفتی محمد، ۲۰۰۸ء، وحدت امت، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۳۸
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۱۸
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۸، بیان القرآن، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۲۶تا۱۲۷
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۸
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۴۳
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۰۸
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۲۴تا۲۲۵
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، تعارف تنظیم اسلامی، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۸
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، تعارف تنظیم اسلامی، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۸
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، تعارف تنظیم اسلامی، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۹
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۴۴ تا ۲۴۵
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۴۱ تا ۲۴۲
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۳۹
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۷۸، منتخب نصاب، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۵
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۲۰۰۶، حزب اللہ کے اوصاف، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۳
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۲۱۵
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۲۰۰۲، جہادبالقرآن، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۳تا۴
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۲۱۵
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۲۰۰۱،پاکستان میں نظام خلافت کیا کیوں کیسے؟، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۷تا۱۴
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۵۱ تا ۵۶
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۱، عزم تنظیم، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۲۹
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۱، عزم تنظیم، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۳۶
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۱، عزم تنظیم، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۳۶
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۹۵
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۶۷، اسلام کی نشأۃ ثانیہ ۔۔۔ کرنے کا اصل کام، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۲۶
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۰، دعوت رجوع الی القرآن کا منظر و پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۱۱۷
- ↑ سالانہ رپورٹ انجمن خدام القرآن سندھ، کراچی، ۲۰۱۰/۲۰۱۱
- ↑ تعارف (Prospectus) قرآن کالج(کلیۃ القرآن)، ۲۰۱۱
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۷۰، مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ ۳۷ تا ۳۸
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۱۱
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۱۲
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۱۲
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۱۳
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۴۰
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۴۰
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۴۲
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۴۳
- ↑ ہفت روزہ ندائے خلافت، ۲۷/اپریل تا ۳ مئی ۲۰۱۰ء، شمارہ نمبر۱۷، صفحہ۴۳
- ↑ احمد، ڈاکٹراسرار،۱۹۹۱، تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر، لاہور، انجمن خدام القرآن، صفحہ۳۵
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Volume 28 Issue 1 | 2014 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |