34
2
2017
1682060034497_404
120-137
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/69/64
جغرافىہ ىا جُغرافىا اور جو غرافىہ وغىرہ كى اصطلاح قدىم بطلمىوس ( م۱۶۸ء) كى تصنىفات مىں استعمال ہوئى ہىں تاہم عربى ترجمہ صورة الارض كىا گىا چنانچہ بعض عرب جغرافىہ نگاروں نے اپنى تصنىفات كا ىہى عنوان ركھا ۔ مسعودى (م ۳۴۵ھ) نے اس اصطلاح كى تشرىح ‘‘قطع الارض’’ سے كى ’ جس كے معنى ہىں زمىن كى مساحت وپىمائش[1]۔عربوں كا جغرافىائى ادب متعدد انواع مىں منقسم تھا’ چنانچہ جغرافىہ كے مختلف پہلوؤں پر علىحدہ علىحدہ ىك موضوعى ’ تصنىفات قلمبند كى گئىں’ مثلاً كتاب البلدان’ صورة الاض’ المسالك والممالك اور علم الطرق وغىرہ۔ المسالك اىك اىسا علم ہے جس كا تعلق مقامات كا جغرافىہ ’محل وقوع متعىن كرنے سے ہے[2]۔
زمانہ قبل اسلام مىں عربوں كى جغرافىائى معلومات بعض رواىتى اور قدىم تصورات ىا جزىرہ عرب كے مقامات اور آس پاس كے علاقوں كے ناموں تك محدود تھىں۔ ىہ معلومات جن تىن بنىادى مآخذ مىں محفوظ ہىں’ وہ ىہ ہىں: قرآن مجىد’ احادىث نبوىﷺ اور قدىم عربى شاعرى۔ قرآن مجىد مىں جغرافىہ وكائنات كے متعلق جو تصورات ملتے ہىں ان كے علاوہ حضرت على رضى اللہ عنہ (م۴۰ھ) حضرت ابن عباس رضى اللہ عنہ (م ۶۹ھ)’ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضى اللہ عنہ اور دىگر صحابہ سے منسوب اىسى رواىات بھى موجود ہىں جن كا تعلق كائنات’ جغرافىہ اور دىگر متعلقہ مسائل سے ہے’ تاہم ىہ رواىات’ جن مىں عربوں كے قدىم جغرافىائى تصورات جھلكتے ہىں’ آہستہ آہستہ جمع كى گئىں ان سے مقصود ىہ تھا كہ جغرافىہ كے بارے مىں ان علمى معلومات كا ذخىرہ تىار كىا جائے جواس زمانے كے عربوں مىں مقبول ہوچكا تھا۔ عباسى عہد حكومت كے آغاز اور بغداد كے دار الخلافہ بن جانے كے بعد ہى عربوں كے ہاں زىادہ وسعت سے علم جغرافىہ سے شناسائى پىدا ہوئى[3]۔
تارىخ وجغرافىہ ان علوم مىں سے ہے كہ جن كى طرف علماء اسلام نے ابتداء ہى سے توجہ دى ’ اور اس مىں كئى وقىع كتب تصنىف كىں۔مثلاً: خوارزمى(م۲۳۲ھ) كى ‘‘صورة الأرض من المدن والجبال’’ ، ىعقوبى(م ۲۹۲ھ) كى كتاب ‘‘البلدان’’، ابن حوقل (م۳۵۰ھ) كى ‘‘كتاب صورة الارض’’ اور الاصطخرى (م ۳۴۶ھ) كى’’ المسالك والممالك’’ [4]۔ مذكورہ كتب اسلامى فن تارىخ وجغرافىہ مىں مركزى مصادر كى حىثىت ركھتے ہىں۔ لىكن ان تمام كتب مىں جس بنىادى كتاب ( ابن خرداذبہ كى المسالك والممالك ) سے استفادہ كىا گىا ہے ’ اس كے مصنف كے حالات زندگى كا كوئى قابل ذكر مواد مرتب انداز مىں سامنے نہىں آىا ہے نہ ہى ان كى كتاب ‘‘ المسالك والممالك’’كا علمى و ناقدانہ جائزہ سامنے آىا ہے۔اسى پس منظر مىں ذىل كے مضمون مىں ابن خرداذبہ اور ان كے كتاب ‘‘المسالك والممالك’’ كا درج ذىل مباحث كے تحت علمى جائزہ پىش كىا جاتاہے:
مبحث اول: شخصى زندگى
مبحث دوم: علمى زندگى
مبحث سوم: آپ كے دور كے سىاسى حالات
مبحث چہارم: كتاب ‘‘المسالك ولممالك’’ كا جائزہ۔
مبحث اول: شخصى زندگى
الف۔ نام وكنىت:
آپ كا نام عبىد اللہ بن عبد اللہ ’ كنىت ابو القاسم اور آپ ابن خرداذبہ كے نام سے مشہور ومعروف ہىں’ آپ نے اپنى كتاب المسالك والممالك مىں صراحت كے ساتھ اپنے نام كابھى تذكرہ كىا ہے: ابو القاسم عبيد الله بن عبد الله بن خرداذبه [5]۔ ابن ندىم (م۴۳۸ھ) نے اپنى كتاب الفہرست مىں بھى آپ كا ىہى نام وكنىت ذكر كىا ہے[6]۔
ابن خرداذبہ ىعنى خرداذبہ كے بىٹے ’ اس سے معلوم ہوتاہے كہ خرداذبہ كا لفظ آپ كے والد محترم كے لىے استعمال كىا جاتاتھا ’ ان كا اصل نام عبد اللہ تھا’ اور آپ نوىں صدى ہجرى كے اوائل مىں طبرستان جنوبى بحر قزوىن كے حاكم (گورنر ) تھے [7]۔ گورنرى كا ىہ عہدہ دنىوى اعتبار سے ىقىنا باعث عزت واحترام تھا اس لىے بعض اہل علم نے لكھا ہے كہ خرداذبہ فارسى تركىب ہے اور اگر اس كے عربى ترجمہ كىا جائے تو اس معنى خلقہ خرہ افضل [8]۔ بعض اہل علم نے خُرْداذبہ كو خُرَّداذبہ لكھا ہے[9], لىكن ان دونوں اسماء كا اىك ہى معنى ہے ىعنى خالق كى حمد۔ پہلا نام خُرْداذبہ اگر بولا جائے تو اس كا معنى ‘‘خُرْداد افضل’’ [10]ہے اور دوسرا نام خُرَّداذبہ جس كا معنى ‘‘ خلقہ خرُّافضل’’[11]۔ ىہ دونوں نام خالق كى بڑائى كے لىے بولے جاتے ہىں۔
ب۔ خاندانى پس منظر:
آپ كے خاندان كا تعلق فارس (اىران) سے تھا آپ كے دادا مجوسى تھے’ بعد مىں برامكہ كے توسل سے اسلام قبول كر لىا [12]۔اس اعتبار سے ىہ كہنا بے جا نہ ہوگا كہ آپ كے آباؤاجداد مسلمان تھے, خاندان كے بارے مىں مزىد معلومات دستىاب مصادر مىں نہىں ملى جس سے ان كى خاندان كے افراد كى تعداد ىا نام كے بارے مىں پتا چل سكے۔
نوى صدى ہجرى كے آغاز مىں آپ كے والد خلافت عباسى كے طرف سے بحر قزوىن كے جنوبى شہر طبرستان كے گورنرتھے۔ انہوں نے آس پاس كے علاقوں كو فتح كر كے اسلامى خلافت كى وسعت مىں اضافہ كىا جس كى وجہ سے آپ كو شہرت ملى, جىسا كہ طبرى(م۳۱۰ھ) نےاشارہ كىا ہے: ‘‘سال ۲۰۱ھ مىں عبد اللہ بن خرداذبہ والى طبرستان نے دىلم كے شہر لارز اور شندكو فتح كر كے بلاد اسلام مىں داخل كرلىا’’[13]۔
ج۔ جائے پىدائش ’ تارىخ ولادت اور وفات:
آپ كى جائے پىدائش كے بارے مىں تارىخى مصادر مىں ذكر نہىں ہے البتہ ىہ ذكر موجود ہے كہ وہ اہل خراسان [14]سے ہىں ’ اسى بناء پر حاجى خلىفہ نے ىہ خىال ظاہر كىا ہے كہ آپ كے نام كے ساتھ لفظ خراسانىكا اضافہ اس بات كى طرف اشارہ كرتا ہے كہ ابن خرداذبہ خراسان مىں پىدا ہوئے[15]۔
آپ كى تارىخ ولادت كے حوالےسے مؤرخىن كى درمىان مىں اختلاف ہے’ بعض مصادر مىں تارىخ ولادت ۲۱۱ھ درج ہے, جب كہ بعض نے ۲۰۵ھ كےلگ بھگ ذكركىا ہے[16], ابو سعىد (م: ۶۷۵ھ), نے لكھا ہے كہ آپ كى صحىح سن ولادت ۲۰۷ھ/۸۲۲ء) ہے[17]۔
ابن خرداذبہ كى سن پىدائش كى طرح سن وفات مىں بھى كئى آراء سامنے آتى ہىں چنانچہ,اندرىہ مىكىل (م: ء۱۰۵۰) نے تارىخ وفات ۲۸۰ ھ لكھى ہے۔بعض مؤرخىن نے لكھا ہے كہ ابن خرداذبہ كى سن وفات كے بارے مىں كوئى ىقنىى معلومات نہىں ہىں ’ لىكن وہ ۳۰۰ھ/ ۹۱۲ء كو ترجىح دى ہے جىسا كہ ابن الندىم(م ۳۸۵ھ), حاجى خلىفہ(۱۰۶۷ھ), اور كراتشوفسكى (م۱۹۵۱ء)نے ۳۰۰ھ /۹۱۲ء لكھا ہے[18] جب كہ ابو سعىد المغربى (م۶۸۵ھ) نے ۳۰۰ھ/ ۹۱۳ء كو ترجىح دى ہے[19]۔تاہم ڈاكٹر عبد الرحمن حمىدہ نے تاكىد كے ساتھ ابن خرداذبہ كى وفات ۲۷۲ھ/ ۸۸۵ء قرار دىا ہے[20]۔
مبحث دوم : علمى زندگى
الف۔ اخذ علم
ابن خرداذبہ نے اپنى زىادہ تر زندگى اپنے والد اور خاندان كے درمىان گزارى[21]۔ مقامى طور پر ابتدائى تعلىم حاصل كرنے كے بعد اختصاصى علوم كے لىے ابن خرداذبہ كو ان كے والد عبد اللہ نے عراق بھىجا جہاں رائج علوم وفنون كى تعلىم حاصل كى چنانچہ علم موسىقى انہوں نے اسحق الموصلى (م: ۲۳۵ھ)سے حاصل كى جو ان كے والد كے گہرے دوست اور اپنےزمانے كےمشہور موسىقار تھے[22] ۔ مسعودى نے آلات موسىقى , غنا, توقىع (تال) اور رقص كے موضوع پر ابن خرداذبہ كا اىك بىان نقل كىا ہے جس كے الفاظ كچھ ىوں ہىں: ‘‘‘المغني الحاذق يا أمير المؤمنين: مَن تمَّكن من أنفاسه، ولطف في اختلاسه، وتفرع في أجناسه.’’[23]۔ىعنى اے امىر المؤمنىن , ماہر مُغنّى وہ ہے جس كا سانس مضبوط ہو’ اس كى اٹھان لطىف ہو اورفن موسىقى كے مختلف اصناف مىں نئى نئى تفرىعات نكال سكتا ہو ۔
تعلىم سے فراغت كے بعد كم سنى ہى مىں آپ حكومت عباسىہ مىں تار كے نظام سے منسلك رہے بعد مىں الجبل مىدىا (موجودہ اذر بىجان اور كردستان)مىں ڈاك اور خبررسانى كے محكمے كے ناظم (صاحب البرىد والخبر) كے اہم عہدے پر مامور ہوئے[24]۔ خلىفہ وقت كے قرىبى رفقاء مىں آپ شمار كىا جاتاتھا۔
ابن خرداذبہ كے بارے مىں دستىاب معلومات سے ىہ بات اخذ كى جاسكتى ہے كہ انہوں نے بلاد اسلامى كے علاوہ كہىں اسفار نہىں كىے بلكہ غىر اسلامى بلاد كے بارے مىں حالات سركارى دستاوىزات اور زبانى معلومات جو كہ انہوں نے اپنى ملازمت كى بدولت حاصل كى تھى تحرىر كىں ہىں[25]
ب۔ شىوخ واساتذہ
ابن خرداذبہ نے جن شخصىات سے اكتساب علم كىا ’ ان مىں درج ذىل علم شخصىات شامل ہىں:
۱۔ اسحاق الموصلى: آپ كا پورا نام اسحاق بن ابراہىم بن ماہان بن بہمن بن نسك اور كنىت ابو محمد ہے۔ ان كا تعلق فارس سے تھا’ ابن الندىم الموصلى كے نام سے مشہور ہوئے۔ ۱۵۰ھ مىں الرى مىں پىدا ہوئے , بعد ازاں بنو امىہ كے مظالم سے فرار اختىار كر كے كوفہ آئے۔ شعر واخباركے راوى تھے[26]۔ آپ كے كچھ اشعار كو محمد العزىزى نے جمع كر كے (دىوان اسحاق الموصلى) كے نام سے شائع كىاہے ۔آپ كى وفات ۲۳۵ھ/۸۵۰ء مىں ہوئى[27]۔
۲۔ على بن الجہم’ آپ كا پورا نام على بن الجہم بن بدر بن مسعود الحارث بن سامہ’ كنىت ابوالحسن اور خراسان سے تعلق تھا’ خلىفہ المتوكل كے خواص مىں آپ كا شمار ہوتا تھا۔آپ ۱۸۸ھ مىں پىدا ہوئے[28]۔ اىك دفعہ خلىفہ متوكل كى ہجو كى جس پر ان كو نىسابور مىں پھانسى دى گئى[29] ۔ اىك اور رواىت مىں اىك لڑائى مىں قتل كىے گئے[30] ىہ ۲۴۹ ھ كا واقعہ ہے[31]۔
ج۔ ابن خرداذبہ سے رواىت كرنے والے شاگرد
خرداذبہ كے اہم شاگردوں مىں درج ذىل افراد شامل ہىں:
۱۔ جعفر بن قدامہ بن زىاد كنىت ابو القاسم اور اہل بغداد مىں سے ہے[32]۔ خطىب بغدادى (م ۴۶۳ھ) نے ان كى مدح مىں بىان كىا ہے: ‘‘ كتاب كے مشائخ اور علماء مىں سے اىك ہىں ادب مىں ماہر اور معلومات ومعرفت والے تھے[33]۔ وفات ۳۱۹ھ مىں ہوئى [34]۔ ابن ندىم نے ان كے بارے مىں لكھا ہے : ‘‘ آپ سوچ نہىں سكتے كہ كوئى چىز اىسى نہ تھى جس سے اسے دسترس حاصل نہ ہو[35]۔
جعفر نے ابن خرداذبہ سے درج ذىل اىك دلچسپ رواىت نقل كى ہے :
’’ابن خرداذبة قال حدثني علي بن الجهم: قال: كنت يوما عند المتوكل وهو يشرب ونحن بين يديه، فدفع إلى محبوبة تفاحة مغلفة فقبلتها’’[36]۔ ىعنى مجھ سے ابن خرداذبہ نے على بن الجہم كى سند سے رواىت نقل كى ہے كہ اىك دفعہ ہم خلىفہ المتوكل كے ساتھ بىٹھے تھے اور وہ شراب پى رہا تھا كہ اس دوران اپنى اىك چہىتى باندى كو خلىفہ نے سىب دىا تو باندى نے اس سىب كو چومتے ہوئے لىا ۔
۲۔ حسىن بن القاسم الكوكبى بن جعفر :
آپ ادىب مؤرخ اور اخبار مىں ثقہ تھے[37]۔ ابن حجر ( م: ۸۳۲ھ) نے آپ كے متعلق لكھا ہے:
’’أخباري مشهور، رأيت في أخباره مناكير كثيرة بأسانيد جياد’’[38]ىعنى آپ مشہور مؤرخ ہىں ’ مىں نے دىكھا كہ آپ كى رواىات مىں اگرچہ غىر معروف رواىات بہت ہىں لىكن ان كابىان اچھى سند كے ساتھ ہے’ سن ۳۲۷ھ مىں آپ كا انتقال ہوا[39]۔ ابن النجار بغدادى نے لكھا ہے آپ نے ابن خرداذبہ سے تارىخ اور ادب مىں رواىات نقل كى ہىں[40]۔
۳۔ محمد بن عبد الملك التارىخ :
آپ كى كنىت ابوبكر ہے ’ آپ كا تعلق بغدادسے تھا۔ اپنے دور كے علماء نحو مىں شمار كىے جاتے تھے, تراجم اور سىر كى كتابوں مىں سال وفات كا تذكرہ نہىں ملا ہے ’ آپ نے خرداذبہ سے تارىخ كے حوالے سے رواىات نقل كىں ہىں[41]۔
۴۔ محمد احمد الحكىمى :
پورا نام محمد بن ابراہىم بن قرىش الحكىمى اور كنىت ابو عبد اللہ ہے[42]۔ ۲۵۲ ھ مىں پىدا ہوئے[43]۔ جب كہ ۳۳۴ھ مىں وفات پائى[44]۔
آپ مؤرخ تھے۔ آپ كى كئى اىك تصنىفات ہبں جن مىں سرفہرست حلىتہ الاولىاءہے۔ الحكىمى نے ابن خرداذبہ سے صرف تارىخ رواىت كسرى پروىز كےقتل كے بارے مىں نقل كى ہے[45]۔
مبحث سوم: آپ كے دور كے سىاسى حالات
ابن خرداذبہ كى شخصىت كا جائزہ لىنے سے ىہ بات واضح ہوتى ہےكہ آپ كى تربىت اور نشوء پر اس وقت كے ماحول اور سىاسى پس منظر كا گہرا اثر تھا,تىسرى صدى ہجرى كا دور جس مىں وہ رہے ىہ عباسى حكومت كا مشكل دور تھا,عباسى خلفاء ىكے بعد دىگرے منصب خلافت پر متمكن ہوئے,جن مىں سے پہلے المامون (۱۹۸ھ تا ۲۱۸ھ) اور آخرى خلفىہ المعتمد (۲۵۶ھ تا ۲۷۹ھ) تھے۔تركوں كا عروج خلافت پر اثرا انداز ہونا شروع ہوگىا تھا[46] , اس كے ساتھ ساتھ خراسانى تحرىك كا بھى آغاز ہوا, عباسىوں نے خراسانىوں كو حكومت مىں شامل كر كے ان كى قوت مىں اضافہ كىا۔بنو عباس مىں اصول جانشىنى كا فقدان بھى تھاپھر اقتصادى بحران بھى بنو عباس كے پستى كا سبب بنا[47]۔
باوجود سىاسى كمزورى اور كشمكش كے اس وقت ثقافتى وتمدنى ترقى عروج پر تھى,اور بغداد علوم وآداب كا مركزعلماء وادباء سے مزىن اور علماء كا قبلہ تصور كىا جاتاتھا[48]’ ان كى شہرت علاقائى سطح سے بڑھ كر بىن الاقوامى سطح پر تھى اور اس علمى ترقى كا اثر آپ علم المسالك والممالك پر بھى ہوا جو دور خلافت عباسى مىں عروج پر پہنچا, ابن خرداذبہ نے اپنى كتاب المسالك والممالك كى تصنىف بھى اسى دور مىں كى[49]۔
ثقافت وتمدن كى ترقى كے اس دور مىں عالم اسلام كے مختلف اطراف مىں نقل وحركت كے آسان ذرائع دستىاب ہوچكے تھےىعنى اس دور مىں عباسى خلافت كى تقسىم مستقل ممالك مىں نہىں تھى’ تمام علاقے اسلامى مملكت ىا دار الاسلام مىں شامل تھے اس لىے مسلمان آسانى سے اىك شہر ىا علاقہ سے دوسرے شہر ىا علاقے كى طرف آتے جاتے تھے[50]۔ اس وجہ سے مسلمانوں نے دنىا كى نئى جہتوں اور مختلف علوم وفنون كو سىكھنے كے لىے سفر كىے۔المسالك والممالك مىں ابن خرداذبہ نے ان علاقوں اور شہروں كا گہرے انداز سے تذكرہ كىا ہے۔ اس دور مىں دوسرى زبانوں سے عربى مىں ترجمے نے بھى بہت ترقى كى۔ مسلمانوں نے بڑے پىمانے پر بہت سى ثقافتوں اور علوم وآداب كو فارسى , ہندى, سرىانى اور ىونانى سے عربى مىں ترجمہ كىے گئے’ مثلاً : طب, رىاضىات, فلكىات, تارىخ, اور جغرافىا وغىرہ كے ترجمے كىے گئے[51],ان تراجم كى بدولت عربوں نے بہت سے علوم جو وہ نہىں جانتے تھے ىا اىسى معلومات حاصل كى جن كو انہوں نے پہلے نہىں پاىا تھا۔ علم وادب كى ترقى كے اس دور كى طرف جاحظ(م۲۵۵ھ) نے اشارہ كرتے ہوئے لكھا ہے: ‘‘ ’’ (اب عالم اپنے علم كے اظہار مىں كوئى انتظار نہىں كرتے اور نہ حق پرست حق كى مدد مىں كوئى كسر چھوڑتے ہىں, اس دور مىں علماء كا طوفان اٹھا اورعلم وبىان كا بازار گرم ہوا)[52]۔
مبحث چہارم: المسالك والممالك كا علمى جائزہ
الف ۔ تصنىف كا پس منظر اور طباعت:
ىہ كتاب ابن خرداذبہ نے عباسى خلىفہ معتمد عباسى(۲۵۶ تا ۲۷۹ھ) كى درخواست پر لكھى اور جس كا مواد انہوں نے سركارى دفاتر (Archives)سے جمع كىا ابن خرداذبہ كو ىہ رسالہ جغرفىہ لكھنے پر كس چىز نے آمادہ كىا اس كے متعلق اس كا اپنا بىان ہے كہ ىہ خلىفہ كى خواہش كى تعمىل تھى’ جو تارىخ جغرافىہ كے بارے مىں اىك اہم ماخذ ہے اور بعد مىں جغرافىہ نوىسوں مثلاً ابن الفقىہ‘ ابن حوقل المقدسى اور الجىہانى اپنى اپنى تصانىف مىں اس سے بھر پور استفادہ كرتے رہے ہىں[53]۔
طباعت:
اس كتاب كو پہلى باربىہ دمىنار نے مع ترجمہ شائع كىا (۱۸۶۵ء) اور دوبارہ ڈخوىہ نے سلسلہ لائڈن ( ۱۸۹۰ ھ مىں مع فرانسىسى ترجمہ كے ساتھ) جس مىں دوسرے نسخوں سے بھى استفاد كر كے فرانسىسى ترجمہ كے شائع كىا[54]۔ جىسا ڈخوىہ نے ثابت كىا ہے اس كا كوئى مكمل نسخہ موجود نہىں ہے ۔ وہ اپنى تحقىقات سے اس نتىجہ پر پہنچا كہ ابن خرداذبہ نے ىہ كتاب ۲۳۲ھ مىں لكھى تھى اور پھر رفتہ رفتہ ا س مىں اضافے كرتا رہا اور ىوں ىہ دوسرى دفعہ شائع ہوئى’ اگرچہ اس كى مكمل اشاعت ۲۷۲ ھ سے پہلے نہ ہوئى[55]۔ اس كتاب كو پہلى بار دار احىاء التراث العربى نے الدكتور محمد مخزوم كى تحقىق كے ساتھ ۱۹۸۸ء مىں شائع كىا۔ اس كتاب كى مع فہارس كے كل ۲۰۳ صفحات ہىں۔
ب۔ انداز بىان وخصوصىات:
ابن خرداذبہ كى اس تصنىف كى اہم خصوصىت ىہ ہے كہ وہ دنىا كو چار حصوں مىں تقسىم كرتے ہىں اور اس كے مطابق اپنے مواد كى ترتىب وتشرىح چہار سمت , ىعنى مشرق , مغرب , شمال اور جنوب , كو پىش نظر ركھتے ہوئے كرتے ہىں۔
ابن خرداذبہ كے اس طرىق بىان كى اصل لازماً كوئى اىرانى جغرافىائى رواىت ہوگى اور عرب جغرافىہ نگاروں كے سامنے ضرور كوئى اىسا نمونہ ہوگا جس كى انہوں نے تقلىد كى ۔ ابن خرداذبہ كو بابائے جغرافىہ كہا جاسكتا ہے , كىونكہ انہوں نے عربى زبان مىں جغرافىہ نگارى كے اسلوب اور نمونے كى طرح ڈالى؛ لىكن جىسا كہ كرىمرز ( Karmers) كہتے ہىں كہ اس نمونے ىا اسلوب كى كوئى سابقہ تصنىف ضرور اس كے پىش نظر رہى ہوگى۔ اس بات كا بڑا امكان ہے كہ اس كے سامنے كوئى قدىم پہلو تصنىف ىا اس كا عربى ترجمہ ہوگا۔ وہ اپنى كتاب مىں نہ صرف مملكت اسلام كے جغرافىائى حالات كو لىتا ہے بلكہ اس كى حدود, رىاستوں اور ہمساىہ اقوام كے حالات بھى درج كرتا ہے ۔ انہوں نے دنىا كے آباد حصوں كے حدود اور براعظموں كا جو تصور پىش كىا ہے ’ اس سے ىہ واضح ہوتاہے كہ وہ جغرافىہ بطلىموس [56]سے واقف تھا‘ ىہى وجہ ہے انہوں نے اروفا ‘ لوبىا‘ تىوفىا اور اسقوتىا وغىرہ كے ىونانى الفاظ استعمال كىے ہىں[57]۔
ابن خرداذبہ كتاب كے شروع مىں صفة الارض ىعنى زمىن كى صفت بىان كرتے ہوئے لكھتے ہىں كہ زمىن گول ہے اىك گىند كى مانند اور آسمان كے درمىان ہوا مىں گھرى ہوئى ہے[58]۔ موجودہ دور مىں سائنس كى اس قدر ترقى كے بعد معلوم ہوا كہ زمىن گول اور اس كے ارد گرد ہوا ہے ىعنى خلاء كا تصور دىا ۔ ىہ وہ نظرىہ ہے جو ابن خرداذبہ نے تىسرى صدى ہجرى مىں پىش كىا تھا۔ اور اسى طرح وہ زمىن كو بنىادى طور پر خط استواء كے ذرىعے دو حصوں مىں تقسىم كرتے ہىں ۔ ىہ خط زمىن كے مشرق سے شروع ہوكر مغرب كى انتہاء تك جاتى ہے اور اس طرح ىہ خط دنىا كا سب سے بڑا خط بن جاتا ہے۔ ابن خرداذبہ نے اس خط كا ىعنى خط استواء كى پىمائش كا انداز بھى لگاىا ہے ۔
ابن خرداذبہ مختلف شہروں كے سمت قبلہ كے حوالے سے ذكر كرتے ہىں كہ ارمىنىہ, آذر بائىجان, بغداد, مدائن, بصرہ, كوفہ, طبرستان, كشمىر وغىرہ كا قبلہ خانہ كعبہ كا وہ حصہ ہے جس طرف خانہ كعبہ كا دراوزہ ہے ۔ اسى طرح باقى اطراف كے شہروں كا قبلہ بھى متعىن كرتے ہوئے لكھتے ہىں : ‘‘ قبلہ كى جہت كا تعىن خانہ كعبہ كى كسوٹى پر اس لىے پركھا گىا كہ خانہ كعبہ پورى دنىا كے بالكل وسط اور درمىان مىں ہے اسى لىے جہت متعىن كرنے كا معىار بناىا گىا[59]۔
ملوك الارض, فى اول الزمان ومملكتهم كے عنوان كے تحت بادشاہوں كے زمانے اور ان كى سلطنتوں كے بىان مىں سب سے پہلے فرىدون بادشاہ كا ذكر لكھتے ہىں كہ فرىدون نے اپنى سلطنت كو اپنے تىن بىٹوں مىں تقسىم كردىا تھا۔ چنانچہ روم كے بادشاہ بھى اس كى اولاد مىں سے تھے اور تركى , چىن وغىرہ كے شاہ بھى اس كى نسل سے تھے اور اىران وعراق كے بادشاہ بھى۔[60]
ابن خرداذبہ نے عراق كو اىران شہر كے مساوى قرار دىا ہے ۔ السواد كا ضلع, جسے قدىم زمانوں مىں دل اىران شہر كہا جاتاتھا, اس كا نظام جغرافىہ مركزى حىثىت حامل كاتھا چنانچہ وہ اسى كے حالات سے اپنے بىان كا آغاز كرتا ہے۔
ابن خرداذبہ بادشاہوں كے القاب كاذكر كرتے ہوئے لكھتے ہىں كہ عام لوگ عراق كے بادشاہوں كو كسرى كے نام سے جانتے تھے جب كہ ا ن كا صحىح لقب ‘‘ شہنشاہ‘‘ ہوا كرتا تھا۔ اس طرح روم كے بادشاہ قىصر كے نام سے مشہور تھے لىكن اس كا لقب ‘‘باسىل’’ تھا۔ اس طرح اطراف عالم كے شاہوں كے القاب تھےجن كا ابن خرداذبہ نے ذكر كرنے پر لكھا كہ ىہ سب فرىدون كى اولاد مىں سے تھے۔
بادشاہوں كى ملكىت اور القاب كے تذكرے كے بعد زمىن كے اىك چوتھائى حصہ جو مشرق ربع ارض كے تحت لكھتے ہىں ’’وهو ربع المملكة‘‘۔ اور پھر اس كے مشرق مىں جتنے ملك وشہر آتے ہىں ان كے باہمى فاصلہ اور ان كى طرف جانے والے راستوں كے بارے مىں لكھتے ہىں : ‘‘ من بغداد الى نهروان اربعة فراسخ‘‘ ىعنى مشہور شہر بغداد سے شہر نہروان كا فاصلہ چار فسخ ہے وہاں سے شہر دىر باز بھى چار فرسخ ہے اور پھر دىربازما سے دسكرة شہر تك فاصلہ آٹھ فرسخ ہے وغىرہ [61]۔
اسى طرح مغرب كے بارے مىں لكھا ہے كہ ىہ بھى زمىن كا اىك چوتھائى ہے ۔ اور خرداذبہ دىگر شہروں كے راستے اور فاصلے بىان كرنے كى طرح ‘‘حمص’’ سے دمشق كا راستہ بتاتا ہے كہ من حمص الى جوسىہ ىعنى حمص سے جوسىہ تك فاصلہ سولہ مىل ہے وہاں سے قارا تىس اور وہاں سے قسطنطنىہ اور قطفىہ سے دمشق تك كا فاصلہ بھى لكھا ہے ۔ اور خرداذبہ نے دمشق شہر كے قدىم ہونے كے متعلق لكھا ہے كہ ىہ نوح علىہ السلام كے وقت سے پہلے كا شہر ہے[62]۔
اعراض البربر كے تحت خرداذبہ نے بربر قوم كے متعلق بھى لكھا ہے اور بتاتاہے ان كى اصل دھرتى ارض فلسطىن ہے : ’’ وكان دار البربر فلسطىن‘‘[63] اور ان كا بادشاہ جالوت تھا جس كو داؤد علىہ السلام نے قتل كىا تھا۔ اور جب بربر قوم كا بادشاہ مارا گىا تو مغرب كى طرف چلے گئے۔
روم اور اس كے عجائبات كے متعلق عبد اللہ بن عمرو بن العاص كا قول نقل كىا ہے : ‘‘عجائب الدنىا اربعه’’ [64]ىعنى دنىا مىں چار عجائب ہىں جن مىں سے اىك تىونس مىں واقع اسكندرىہ كا مىنار ہے او راس مىں لگا ہوا شىشہ جس كے نىچے اگر آدمى بىٹھ كر دىكھے تو قسطنطىنہ نظر آتا ہے جب كہ تىونس اور قسطنطنىہ كے درمىان اىك سمندر حائل ہے ۔ اور دوسرى عجىب چىز ‘‘ وفرس من نعاس كان بارض اندلس’’ اندلس مىں تانبے سے بنا ہوا اىك گھوڑا ہے جو اپنى اگلى ٹانگوں كو اس طرح پھىلائے ہوئے ہے جىسے كہہ رہا رہوكہ مىرے پىچھے چلنے والا كوئى نہىں اور نہ ہى اس سرزمىن كو روندنے والا كوئى ہے۔ اور تىسرا وہ منار جو تانبے سے بنا ہوا ہےاور اس كےا وپر تانبے كا ركب ہے جب حرمت والے مہىنے آتے ہىں تو اس مىنار سے پانى نكلتاہے جس سے لوگ اپنے حوض بھر تے ہىں اور فصلوں كو پانى دىتے ہىں۔ لىكن جب ىہ حرمت والے مہىنے ختم ہوتے ہىں تو ىہ پانى خشك ہوجاتاہے۔
اور چوتھا تانبے كا وہ درخت ہے جس كے اوپر كوئل پرندہ بنا ہواہے , جب زىتون كا پھل پك جاتا تو اس پرندے كا رنگ زرد ہوجاتا اور كوئل پرندے زىتون تىن تىن دانے ىعنى دو پاؤں مىں اور اىك منہ مىں اٹھا كر اس تانبے كے پرندے كے اندر ڈالتے ۔ روم كے لوگ ان جمع شدہ دانوں كو نكال كر ان سے تىل نكالتے اور باقى ضرورىات كے لىے استعمال كرتے ۔
ابن خرداذبہ نے جربى شمال كا ذكر كىا ہے كہ اس مىں ارمىنہ اذر بائىجان وغىرہ ہىں جن كو فارسىوں كے زمانے مىں آذربادكان كے نام سے جانا جاتاتھا۔ اسى خطے مىں طبرستان , جىلان وخراسان كے علاقے شامل ہىں۔ اور ان كے آپس كے فاصلے اور ان كى طرف جانے والے راستوں كا تذكر كىا ہے[65]۔
كتاب كا دلچسپ ترىن حصہ
عجائبات دنىا كا ذكر تے ہوئے وہ ىاجوج وماجوج كے بار ے مىں سلام ترجمان(م)[66] سے ىہ رواىت نقل كرتے ہىں كہ سلام ترجمان سے مىں نے سنا كہ وہ ىا جوج وماجوج كى دىوار كے متعلق بىان كر رہے تھے كہ خلىفہ واثق باللہ عباسى (۲۲۷ تا ۲۳۲ھ) نے خواب مىں دىكھا تھا كہ سد ىاجوج ماجوج كا كچھ حصہ كھل گىاہے ۔ اس كى تحقىق كے لىے آدمى بھىجنا چاہا۔ اشناس جو كہ خلىفہ كا معتمد تھا’ اس نے رائے دى كہ اس كام كے لىے سلام ترجمان سے موزوں كوئى آدمى نہىں كىونكہ وہ تىس زبانىں جانتاہے ۔ خلىفہ نے اس كو پچاس مستعد اور مضبوط جوانوں كے ساتھ اس مہم پر روانہ كىا۔ اورساتھ پورے سال كے لىے فى كس اخراجات بھى دىے۔ىہ مہم ۱۶ ماہ مىں سرمن سےچل كر تغلىس (آمىنىا)‘ سرىر‘ لان‘ فىلان شاہ‘ طرخان‘(خزر) كے گورنروں كے احكامات اور ہداىات كى سہولتوں مىں سد پہنچى دوران سفر ۲۲ ساتھى ہلاك ہوئے۔پانچ رہنماؤں نےجو طرخان والى خزر نےساتھ كردىے تھے ان كو۲۶ روز بعد ارض سودا منتنہ’’ ىعنى سىاہ بدبو دار سرزمىن’ پہنچاىا۔ دس دن تك اس علاقے مىں ىہ لوگ چلتے رہے بدبو سے بچنے كے لىے وہ سركہ سونگھتے تھے۔ اس كے بعد ۲۰ دن كى مسافت مىں ‘‘ مدن خراب’’ ىعنى وىران شہر كا علاقہ طے كىا ۔ ان شہروں كو ىاجوج وماجوج نے بربادكىا تھا۔ اس كے بعد قلعےشروع ہوئے۔ ىہ اىك اىك دو دو فرسخ كے فاصلے سے بنے ہوئے تھے۔ ىہاں اس وقت جو لوگ آباد تھے وہ مسلمان تھےاور ان كى زبان عربى اور فارسى تھى اور قرآن پڑ’ھتے تھے۔ ىہاں مكتب اور مسجدىں بھى تھىں۔ ان لوگوں كوجب مہم كے آدمىوں سے ملنے كا اتفاق ہوا تو چونكہ اسلامى ملكوں كے حالات سے بالكل ناواقف تھے‘ اس لىے امىر المؤمنىن كانام سن كر تعجب كرنے لگے۔ انہوں نے سوال كىا كہ وہ بوڑھے ہىں ىا جوان؟ جب جواب مىں جوان كہا گىاتو اس كو بھى تعجب سے سنا۔ حتى كہ وہ اپنے دار الخلافہ(عراق) سے بھى ناوقف تھے۔ قلعوں كےبعد اىك شہر ‘‘ اىكہ’’ آىا ىہاں سے سد تىن دن مىں پہنچے۔ درمىان مىں قلعے اور دىہات تھے۔ سدكےپاس اىك بلند گول پہاڑ پر اىك قلعہ تھا جو سد ذو القرنىن نے بنائى ہے , وہ اىك راستہ دو پہاڑ وں كے درمىان تھا ۔ ىہ دوسو ہاتھ چوڑا تھا۔ اس راستہ سے ىاجوج ماجوج قتل وغارت كے لىے آىا كرتے تھے۔ ذو القرنىن نے اس راستہ كو بند كرنے كے لىے جو دىواراٹھائى اس كى بنىاد ۳۰ ہاتھ گہرى كھداوائى پھر اس كو لوہے اور تانبے سے بنوا كر زمىن كے برابر تك لاىا ۔ راستے كے دونوں پہلوؤں پر پہاڑ سے ملے ہوئے دو بازو بنوائے۔ ہر بازو ۲۵ ہاتھ چوڑا اور ۵۰ ہاتھ اونچا تھا۔ ىہ سب لوہے كى اىنٹوں كا تھا, جس پر تانبا پگھلا كر ڈال دىا گىا ۔ ہر اىنٹ ۴ انگل موٹى اور ڈىڑھ ہاتھ لمبى اور چوڑى تھى۔ لوہے اور تانبىے كى ىہ سارى عمارت پہاڑ كى چوٹى تك جاتى ہے ۔ اس كے اوپر لوہے كى ۳۷ برجىاں ہىں۔ ہر برجى ۵ ہاتھ لمبى اور ۴ ہاتھ چوڑى ہے۔ پھاٹك لوہے كا ہے اس كے دوپٹ ہىں ہر پٹ ۵ ہاتھ چوڑا اور ۷۵ ہاتھ لمبا اور ۵ ہاتھ موٹا ہے دروازے اور پہاڑ مىں اتنى درز بھى نہىں كہ ہوا آسكے ۔ دروازہ پر قفل ہے۔ ىہ ۷ ہاتھ لمبا اور اىك ہاتھ موٹا گول ہے اس كو دو آدمى اپنے گھىرے مىں نہىں لے سكتے۔ ىہ زمىن سے ۲ ہاتھ اونچا ہے۔ اس كى كنجى ڈىڑھ ہاتھ لمبى ہے اور اس مىں ۱۲ دندانے ہىں ۔ اس كى گولائى ۴ بالشت ہے ۔ دروازے كے ساتھ دو قلعے ہىں۔ ان كے پھاٹكوں پر دو درخت ہىں ۔ دونوں قلعوں كے درمىان آب شىرىن كا چشمہ ہے ۔ سد ىاجوج ماجوج كى تعمىر كے وقت لوہے كى دىگدان (چولہے) اور ہانڈىاں‘ جن مىں تانبا پگلاىا گىا تھا‘ وہ سب ىہاں موجود ہىں۔ ىہ تمام بىان جس مىں اىك اىك چىز كى پىمائش كى گئى ہے ابن خرداذبہ نے اپنى كتاب مىں درج كىا ہے [67]۔
واضح رہے كہ ابن خرداذبہ نے اس مہم كى واپسى كوسمرقند كے سامنے سے ذكر كىا ہے اسى بنا پر ىہ رائے قائم ہوگئى ہے كہ سد ذوالقرنىن دنىا كے شمال مغربى حصہ مىں ہے [68]۔ الادرىسى كى كتاب المسالك والممالك مىں ابن خرداذبہ كى اس تارىخى رواىت كى تائىد ہوئى ہے۔
كتاب ‘‘المسالك والممالك’’ سے متعلق علماء كا نقد:
آپ كى علمى خدمات مىں كوئى شك نہىں’ ان كى جغرافىہ مىں تصنىف ‘‘ المسالك والممالك’’ سے جن مؤرخىن نے استفادہ حاصل كىا ہے ان مىں چند اىك ىہ ہىں: المسعودى (م۳۴۶ھ) ’المقدسى (۳۳۶ھ) اور ابن حوقل (م ۳۶۷ھ) نےاپنى اپنى تصنىفات مىں كتاب المسالك والممالك پر اعتماد كىا ہے ۔ اسى طرح ابن خلدون (م ۳۸۵ھ) اور الادرىسى (م ۵۶۰ھ) نے بھى اپنى تصنىفات مىں اسے اہم مصدر كى حىثىت دى ہے ۔ تاہم ابن خرداذبہ كى وصف بىان كرتے ہو ئے ان كى تالىف كے بارے مىں لكھتے ہىں كہ ىہ قابل اعتماد ہىں ‘ اور اسے جغرافىہ معلومات كا اىك اہم ذخىرہ قراردىا كىا ہے تو وہاں بعض علماء نے ان پر تنقىد بھى كى ہے‘ مثلاً مقدسى ان سے معلوم لىنے كے معترف ہىں اور ان سے احداث وواقعات كا مجموعہ نقل كرتے ہىں مگر وہ ساتھ ىہ بھى ذكر كرتے ہىں كہ ان كى معلومات مختصر اور معتبر ہونے كے باوجود زىادہ فائدہ كى حامل نہىں ہے لىكن پھر بھى ان كے علم ومعرفت كے معترف ہىں[69]۔
ابن خرداذبہ كى صلاحىت كا اندازہ ان كے دنىا منصب سے بھى كىا جاتاہےچنانچہ اس بارے مىں المقدسى البشارى (م ۳۷۵ھ) نے لكھا ہے كہ امىر المؤمنىن كے خزانوں كو بہترىن انداز مىں سنبھالنے كے ماہر تھے[70]۔
ابو الفرج الاصفہانى (م ۳۵۶ھ) نے آپ پر تنقىد كرتے ہوئے لكھا ہے كہ جو رواىت ابن خرداذبہ نقل كرتے ہىں ان مىں بہت كم صحىح ہىں مثلاً وہ لكھتے ہىں كہ ابن خرداذبہ نے ذكر كىا ہے كہ معبد جو بنوامىہ كے دور كے اولىن مغنى (گلوگار) تھے انہوں نے عباسى دور بھى پاىا اور آخرى وقت مىں فالج كے سبب ان كى آواز مىں ارتعاش تھا اور جب وہ گاتا تھا تو لوگ ان كا مذاق اڑاتے تھے۔ جب كہ معبد كا الولىد بن ىزىد كے دور مىں دمشق مىں انتقال ہوا۔ اور ىہ كہ ان كے آواز مىں فالج كى وجہ سے ارتعاش پىدا ہوا تھا‘ اور اس نے بنى عباس كا دور بھى دىكھا ىہ سوائے ابن خرداذبہ كے كسى نے بھى رواىت نہىں كىا جو صحىح نہىں’’[71]۔ اسى طرح ابو الفداء (م۷۳۲ھ) آپ كى كتاب پر تنقىد كرتے ہوئے لكھتے ہىں كہ ناموں كو پورے اور صحىح انداز مىں ذكر نہىں كرتے اس لىے ان كے بىشتر ذكر كردہ نام اور جگہىں معلوم نہىں ہىں جس كى وجہ سے پورا فائدہ حاصل نہىں ہوتا[72]۔
ابن شداد (م ۶۸۴ھ) نے تعلىق كرتے ہوئے لكھا ہے ان كے ذكر كى ہوئى معلومات مىں نامكمل ور خلط ملط زىادہ ہىں جب كہ ٹھوس معلومات بہت كم ہىں[73]۔
ىہاں صر ف اختصار كى غرض سے چند باتىں لى گئىں ہىں’ بتانا مقصود ہے كہ ابن خرداذبہ بلاشبہ مسلمانوں جغرافىہ دانوں مىں چوٹى كا مقام ركھتے ہىں اور ان كى كتاب مىں مختلف علاقوں كے جغرافىہ اور پىمائش كا علم موجودہ دور كے جغرافىہ دانوں كے لىے اىك سنگ مىل كى حىثىت ركھتاہے, تىسرى صدى ہجرى مىں بىان كى ہوئى پىمائش اور آج كے ترقى ىافتہ دور كى پىمائش مىں انتہائى معمولى فرق ہے ‘ جىسا كہ ابن خرداذبہ نے ہجرت مدىنہ كے عنوان كے تحت مكہ‘ مدىنہ’ شام ’ بىت المقدس اور ہندوستان كے جس فاصلے كا ذكر كىا ہے آج بھى وہى ہے۔
نتائج بحث
۱۔ ابن خرداذبہ كو انتظامى جغرافىہ كا بانى سمجھنا بے جا نہ ہوگا كىونكہ اس دور مىں و ہ ڈاك اور پرچہ نوىسى كے محكموں كے ناظم تھے, المسالك والممالك كے عنوان سے سب سے پہلى كتاب ابن خرداذبہ نے تحرىر جو بعد مىں كتاب علم جغرافىہ پر كام كرنے والے كے لىے اىك نمونہ اور اساس قرار پائى ۔
۲۔ انہوں نے عباسى سلطنت كا جغرافىہ اور سڑكوں كا نظام بىان كرنے كے علاوہ طبائع انسانى اور اقتصادى جغرافىہ سے بھى بحث كى ہے۔ ابن خرداذبہ كى كتاب سے ىہ نتىجہ اخذ كىا سكتا ہے كہ ان كى تقسىم ارض سىاسى اور انتظامى اسباب پر مبنى ہے۔
۳۔ ابن خرداذبہ نے جغرافىہ كا اسلامى تصور دىا اور جغرافىائى مواد كى ترتىب مىں مكے اور مدىنہ كو سب سے مقدم ركھا ہے۔
۴۔ اس مىں مملكت اسلام كے حغرافىائى حالات ’ رىاستى حدود اور ہمساىہ اقوام كے حالات بھى درج كىے ہىں۔ انہوں نے ىہ معلومات وہاں كے باشندوں سے براہ راست حاصل كى تھىں اس لىے ابن خرداذبہ پر زىادہ اعتماد كىا جاتا ہے مختصر ىہ كہ ابن خرداذبہ كى كتاب المسالك والممالك كو علم جغرافىہ مىں اىك بنىادى مصدر كى حىثىت حاصل ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔ المقدسى البشارى ’ ابو عبد اللہ محمد بن احمد’ احسن القاسىم معرفة الاقالىم’ دار صادر’ بىروت’ ۱۹۹۱ء’ ص
- ↑ ۔ حوالہ مذكور۔
- ↑ ۔ ابن الفقىہ’ ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن اسحاق’ البلدان’ تحقىق: ىوسف الہادى’ عالم الكتب ’ بىروت’ ط/ ۱’ ۱۹۹۶ء’ ص ۲۵۔
- ↑ ۔ كراتشكى فسكى’ تارىخ الادب الجغرافى العربى’ ترجمہ: صلاح الدىن ہاشم’ جامعتہ الدول العربىہ’ ۱۹۶۱ء القسم الاول ص ۱۰۱۔
- ↑ ۔ابن خرداذبہ, ابو القاسم عبىد اللہ بن عبد اللہ , المسالك والممالك وضع مقدمتہ وہوامشہ وفہارسہ, محمد مخروم, دار احىاء التراث العربى, د/ ت, ص ۱۵۔
- ↑ ۔ ابن ندىم, محمد بن اسحاق, وراق, الفہرست, اردو ترجمہ, محمد اسحاق بھٹى, ادارہ ثقافت اسلامىہ , كلب روڈ لاہرو, ص ۳۴۴۔
- ↑ ۔ طبرى, ابى جعفر محمد بن جرىر, تارىخ طبرى, اردو ترجمہ, نفىس اكىڈىمى لاہور, پاكستان, اپرىل ۲۰۰۴ء۔ ج ۶, ص ۲۸۳۔
- ↑ ۔ ابن خرداذبہ, ابو القاسم عبىد اللہ بن عبد اللہ , المسالك والممالك وضع مقدمتہ وہوامشہ وفہارسہ, محمد مخروم, دار احىاء التراث العربى, د/ ت, ص ۱۵۔
- ↑ ۔ كارل بروكلمان, تارىخ الادب العربى, عربى ترجمہ الدكتور رمضان عبد التواب, دار الكتتاب الاسلامى, قم اىران,سطن, ج۴, ص ۲۳۴۔
- ↑ ۔ كا رتشوفسكي، اغناطيوس نوفو فتش، تاريخ الادب الجغرافي العربي، نقله الى العربية: صلاح الدين عثمان هاشم ، ط ٢ ، دار الغرب الاسلامي ، تونس : ٢٠٠٨ م ،. ص ١٦٧
- ↑ ۔ حوالہ مذكور۔
- ↑ ۔ ابن الندىم, الفہرستت, ص ۲۳۹؛ حمىد, عبد الرحمن , اعلام الجغرافىن العرب, ص ۱۰۶۔
- ↑ ۔حوالہ مذكور۔
- ↑ ۔ خراسان, پہلے زمانے مىں اىك وسىع رىاست كو كہا جاتاہے جس كے حدود عراق سے لے كر ہندوستان , طخارستان, غزنہ, سجتان اور كرمان پر مشتمل تھا,(ىاقوت الحموى , معجم البلدان, ج ۲, ص ۳۵۰)۔
- ↑ ۔ حاجى خلىفہ, كشف الظنون, ج۲, ص ۲۸۷؛ عمر رضا كحالة , معجم المؤلفىن, المكتبہ العربىہ بدمشق,۱۹۵۸ء ج۲, ص ۲۴۹۔
- ↑ ۔ ابن سعىد المغربى, ابوالحسن , على بن موسى بن سىعد, كتاب جغفرافىا, تحقىق: اسماعىل العربى, ط۱, منشورات المكتب التجارى, بىروت, ۱۹۷۰ء, ص ۳۴۔
- ↑ ۔حوالہ مذكور۔
- ↑ ۔ ابن ندىم, الفہرست, ص ۲۳۹؛ حاجى خلىفہ, كشف الظنون, ج۲, ص ۲۸۷؛ كراتشوفسكى, تارىخ الادب الجغرافى العربى, ص ۱۶۹۔
- ↑ ۔ ا بن سعىد المغربى, كتاب الجغرافىا, ص ۳۴۔
- ↑ ۔حمىدہ, عبد الرحمن, اعلام الجغرافىىن العرب, ص۔ ۱۰۶۔
- ↑ ۔ابو سعىد, المغربى, كتاب الجغرافىا, ص ۳۴۔
- ↑ ۔كراتشكوفسكى, تارىخ الادب الجغرافى, ص ۱۶۸۔
- ↑ ۔ المسعودى:محمد بن حسىن, مروج الذہب ومعادن الجواہر, ج۲, ص ۲۳۴۔
- ↑ ۔ كراتشكوفىكى, تارىخ اﻷدب الجغرافى العرب, ص ۱۶۷؛ بروكلمان, تارىخ الادب العربى, ج ۴, ۲۳۴۔
- ↑ ۔ مىكلىل, اندرىة, جغرافىة دار الاسلام البشرىة حتى منتصف القرن الحادى عشر, ترجمة, ابراہىم خورى, منشورات وزرات الثقافة, سورىا, ۱۹۸۵ء, ج۲, ص ۱۳۵۔
- ↑ ۔ ابن الندىم‘ الفہرست‘ ص ۲۲؛ الخطىب البغدادى, تارىخ مدىنة السلام ‘ ج۵/ ص ۳۵۔
- ↑ ۔ ابن الندىم‘ الفہرست ص ۲۔
- ↑ ۔ المرزبانى ‘ معجم الشعراء‘ ص ۱۴۰؛ بروكلمان‘ تارىخ الادب العربى‘ ج۲, ص ۴۳۔
- ↑ ۔ حوالہ مذكور ۔
- ↑ ۔بروكلمان, تارىخ الادب العربى ج۲/ ص ۴۔
- ↑ ۔ البغدادى, ہدىتتہ العارفىن ج۱/ ص ۳۔
- ↑ ۔ الصفدى, الوافى بالوفىات , ج۱, ص ۱۵۲۷؛ الزكلى اﻷعلام , ج۲/ ص ۱۲۶؛ كحالہ عمر رضا, معجم المؤلفىن ج۳/ ص ۱۴۲۔
- ↑ ۔ خطىب : تارىخ بغداد ج۸/ ص ۱۱۔
- ↑ ۔ الزركلى, اﻷعلام ۳/ ۱۲۶۔
- ↑ ۔ ابن ندىم ‘ الفہرست , ص ۳۰۳۔
- ↑ ۔ اﻹصفہانى, ابو الفرج‘ كتاب اﻷغانى‘ ج۲/ ص ۸۔
- ↑ ۔ ابن نجازذىل تارىخ بغداد, ج۲, ص ۱۰۔
- ↑ ۔ ابن حجر العسقلانى‘ لسان المىزان‘ دار الكتب العلمىة ‘ ج۲/ ص ۲۲۷۔ نمبر ۱۲۲۷۔
- ↑ ۔ الصفدى’ صلاح الدىن خلىل بن ابىك بن عبد اللہ ’ الوافى بالوفىات’ تحقىق: احد الارناؤوط وتركى مصطفى’ دار احىاء التراث ۔ بىروت’ ۱۴۲۰ھ’ ج ۱۳’ ص ۱۸۷۔
- ↑ ۔ ابن نجار’ ذىل تارىخ بغداد’ دار الكتب العلمىہ ’ بىروت۔ ۲۰۰۱ء ’ ج ۲ ص ۸۷۔
- ↑ ۔ ابن الندىم ‘ الفہرست ‘ ص ۱۲۹؛ ابن الجوزى ‘ المنتظم فى تارىخ الملوك والامم , ج ۳, ص ۴۔
- ↑ ۔ىاقوت الحموى‘ معجم الادباء ج۱۷/ ص ۱۴۵؛ البغدادى‘ اسماعىل باشاہ ‘ ہدىتہ العارفىن ‘ ج۱/ ص ۴۶۳۔
- ↑ ۔ ابن الا ثىر ‘ اللباب فى تہذىب الانساب ‘ ج ۱/ ص ۳۷۔
- ↑ ۔ حوالہ مذكور۔
- ↑ ۔ ابن النجار ‘ ذىل تارىخ بغداد ج۲/ ص ۱۰ ؛ الذہبى‘ سىر الاعلام النبلاء ‘ ج۱۳ / ص ۱۲۔
- ↑ ۔ البلاذري ، احمد بن يحيى ( م ٢٧٩ ھ) فتوح البلدان ،تحقيق:صلاح الدين ،ط ١ ، مكتبة نهضة مصر، )القاهرة : ١٩٨٠ م، ج ٢/ ص ٢٢٩ ؛ حسن ، احمد حسن ، الشريف ، احمد اب ا رهيم ، العالم الاسلامي في العصر. ٣١٨- العباسي ط ١، دار الفكر العربي ، بيروت : ١٩٨٠ م ، ص ٣١٧
- ↑ ۔ حسن احمد وابرهيم الشريف ، العالم الاسلامي في العصر العباسي ،ص ٣٤٥
- ↑ ۔ابن خلدون ، عبد الرحمن بن محمد المغربي ( ت: ٨٠٨ ه) المقدمة ، ط ٤ ، دار القلم ، بيروت : ١٩ ٨١ م ، )٩٥- ص ٤٣٤ ؛ احمد امين ، ضحى الاسلام ، دار الكتاب العربي ، بيروت :د/ت ، ج ١/ ص ۱۶۰۔
- ↑ ۔حوالہ مذكور۔
- ↑ ۔متز ، ادم ، الحضارة الإسلامية في القرن ال ا ربع الهجري ، ترجمة : محمد عبد الهادي أبو ريده ، مكتبة الخانجي - بيروت : د/ت ، ج ١/ ص ٢١۔
- ↑ ۔ابن خلدون ، المقدمة ، ص ٤٣٤ ؛ كاشف ، سيدة إسماعيل ، مصادر التاريخ الإسلامي ط ١، مكتبة الخانجي ،. القاهرة : ١٩٧٦ م ، ص
- ↑ ۔ الجاحظ ، أبو عثمان عمرو بن بحر( ت : ٢٥٥ھ ) الحيوان ، تحيق: عبد السلام هارون ، ط ١ ، مطبعة .٠٨٧- مصطفى ألبابي الحلبي ، القاهرة : ١٩٤٥ م ، ص
- ↑ ۔ كراتشكوفىكى, تارىخ اﻷدب الجغرافى العرب, ص ۱۶۷۔
- ↑ ۔ابن سعىد المغربى, كتاب الجغرافىا, ص ۳۴۔
- ↑ ۔مىكلىل, اندرىة, جغرافىة دار الاسلام البشرىة حتى منتصف القرن الحادى عشر, ترجمة, ابراہىم خورى, منشورات وزرات الثقافة, سورىا, ۱۹۸۵ء, ج۲, ص ۱۳۵۔
- ↑ ۔ بطلمىوس عربى رسم الخط لكھا جاتاہے جب كہ لاطىنى نام Ptolemacus مستعمل ہے ۔ ا س كى نسبت چھٹے رومى شہنشاہ Claudius كے بىٹے كى طرف كى جاتى ہے۔ بطلىموس مشرقى علم ہئىت’ جعفرافىہ اور ىہاں تك كہ تمام علوم پر دسترس ركھتا تھا۔ جس كا اثر بعد كے آنے ولے اہل علم پر ہوا۔ انہوں نے پورى دنىا كا قدىم ترىن تصور پىش كىا ۔سن وفات ۱۶۷ء ہے عہد بنو عباس مىں جغرافىہ بطلىموس كا ترجمہ كئى بار ہوا۔ تاہم اس وقت صرف محمد بن موسى الخوارزمى كى كتاب موجود ہے ’ جو بطلىموس كى تصنىف سے ماخوذ ہے۔ تفصىل كے لىے دىكھئے: اردو دائرہ معارف اسلامىہ ’ دانش گاہ پنجاب’ ج ۴’ ص ۶۲۵۔
- ↑ ۔ Karmers, J.H, Analecta Orientalia, Lidon Publication 1956, p 153 تاہم ىہ واضح رہے خود ابن خرداذبہ كا بھى بىان ہے كہ اس نے بطلمىوس كى كتاب كو پڑھا اور اس كا ترجمہ كىا تھا’ ىہ ممكن ہے ىہ كتاب ىونانى زبان تھا۔
- ↑ ۔ ابن خرداذبہ , المسالك والممالك, تحقىق: الدكتور محمد مخزوم, دار احىاء التراث العربى, بىروت, ۱۹۸۸ء, ص ۱۵۔
- ↑ ۔ حوالہ مذكور‘ ص ۱۷۔
- ↑ ۔ حوالہ مذكور , ص ۲۹۔
- ↑ ۔حوالہ مذكو ص ۳۱۔
- ↑ ۔حوالہ مذكور ص ۳۵۔
- ↑ ۔حوالہ مذكو ص ۱۲۰
- ↑ ۔حوالہ مذكور , ص ۹۹۔
- ↑ ۔حوالہ مذكور’ ص ۱۰۵
- ↑ ۔حوالہ مذكور
- ↑ ۔حوالہ مذكور ’ ص ۱۶۲۔ ۱۷۰۔
- ↑ ۔الرازى : تفسىر كبىر ج۵/ ص ۷۸۶۔
- ↑ ۔مسعودى‘ مروج الذہب ومعادن الجوہر‘ ج۱, ص ۱۴؛ المقدسى البشارى‘ شمس الدىن ابو عبد اللہ محمد بن احمد ‘ حسن التقاسىم فى معرفة الاقالىم ‘ مكتبة مدىولى ‘ القاہرہ‘ ۱۴۱۱ھ ص ۳۶۲۔
- ↑ ۔ المقدسى البشارى ‘ احسن القاسىم معرفة الاقالىم , ص ۳۶۲۔
- ↑ ۔الاصفہانى‘ الاغانى‘ ج۱/ ص ۳۶۔
- ↑ ۔ ابو الفداء ‘ عماد الدىن اسماعىل بن عمر ‘ تقوىم البدلان‘ ط۱/ ار الصادر بىروت ص ۱۴۔
- ↑ ۔عز الدىن محمد بن على بن ابراىہم ‘ الاعلاق الخطىرة فى ذكر امراء الشام والجزىرة ‘ ج۳/ ص ۱۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |