34
2
2017
1682060034497_405
44-58
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/64/59
خالق کائنات نے پہلا انسان تخلیق کیا تو اسی وقت اسے اپنا نائب اور پیغمبر بھی منتخب کیا۔ اللہ تعالی نے ایک لحظہ کے لئے بھی انسان کو اپنی ہدایت سے محروم نہیں فرمایا۔ ہدایت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد رسول اللہ ﷺ پر اختتام پذیر ہوا۔ تاہم اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ نبوت کے سلسلہ کا اختتام ہدایت الہی کا اختتام ہو۔ بلکہ یہ ہدایت قرآن و سنت کی شکل میں تاقیامت قائم رہی گی۔ تاہم یہ بھی واضح ہے کہ قرآن و سنت میں بیان شدہ احکامات محدود ہیں جب کہ مرور زمانہ کے ساتھ نئے مسائل کا پیش آنا ایک قدرتی امر ہے۔ انہی مسائل کے حل کے لئے اسلام نے اجتہاد کا دروازہ کھلا رکھا تاکہ ہر دم انسان کی رہنمائی ممکن ہوسکے ۔ انفرادی سطح پر اگر ان مسائل کے حل کی کوشش اصحاب علم کی طرف سے ہو تو انفرادی اجتہاد کہلاتا ہے اور اگر مجتہدین اجتماعی طور پر شرعی اصول و ضوابط کی روشنی میں ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش کریں تو اس کی شکل اجتماعی اجتہاد کی ہوگی اور اگر اس تصور کو مزید پھیلایا جائے تو یہی اجتماعی اجتہاد اجماع کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔
اجتہاد کا لغوی معنی کسی کام میں اپنی بھرپور کوشش صرف کرنے کے ہیں۱ جب کہ اصطلاح میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہےـ
" بذل المجتهد وسعه فی طلب العلم بالأحکام الشرعية بطريق الاستنباط"2
یعنی طلب علم میں مجتھد کا شرعی احکام کے استنباط کے لئے بھر پور کوشش کرنا۔
اجتہاد کا جواز:
اجتہاد ایک ایسا عمل ہے جس کا جواز قرآن پاک، سنۃ رسول ﷺ اور تعامل صحابہ سے ثابت ہوتا ہے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔
هُوَ الَّذِي أَخْرَجَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ مِنْ دِيَارِهِمْ لِأَوَّلِ الْحَشْرِ مَا ظَنَنْتُمْ أَنْ يَخْرُجُوا وَظَنُّوا أَنَّهُمْ مَانِعَتُهُمْ حُصُونُهُمْ مِنَ اللَّهِ فَأَتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ حَيْثُ لَمْ يَحْتَسِبُوا وَقَذَفَ فِي قُلُوبِهِمُ الرُّعْبَ يُخْرِبُونَ بُيُوتَهُمْ بِأَيْدِيهِمْ وَأَيْدِي الْمُؤْمِنِينَ فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَار۔3
( وہی ہے جس نے کفار اہل کتاب یعنی (بنی نضیر) کو ان کے گھروں سے پہلی مرتبہ اکھٹا کرکے نکال دیا اے مسلمانوں تم کو یہ گمان بھی نہ تھا کہ وہ نکل جائیں گے اور وہ خود یہ خیال کئے بیھٹے تھے کہ ان کہ قلعے ان کو اللہ کے ہاتھ سے بچا لیں گے پھر اللہ تعالی کا عقاب ان پر ایسی جگہ سے آیا جس کا ان کو خیال بھی نہ تھا اور اللہ تعالی نے ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیا کہ وہ کفار اہل کتاب اپنے گھروں کو خود اپنے ہاتھوں سے بھی برباد کررہےتھے لہذا اے آنکھوں والو عبرت حاصل کرو۔)
اس آیت میں بصیرت رکھنے والوں کو عبرت حاصل کرنے کا کہا گیا ہے۔ یعنی اعتبار کا معنی ہے کسی چیز کی نظیر کی طرف لوٹانا۔4
ایک اور جگہ ارشاد ہے۔
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ5
( اور مائیں اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ حکم اس کے لئے ہے جو شیر خوارگی کی مدت پوری کرنی چاہے۔ اور ان دودھ پلانے عورتوں کا روٹی کپڑا دستور کے مطابق بچے والے یعنی باپ کے ذمہ ہے۔)
اس آیت مىں معروف کا لفظ استعمال ہوا ہے جب کہ رزق اور کپڑے کے حوالے سے معروف کی معین مقدار مذکور نہیں ہے اس لئے لا محالہ اس کی تعین کے لئے اجتہاد کی ضرورت ہوگی۔
اسی طرح اجتہاد کے جواز کے حوالے سے کئی احادیث موجود ہیں مثلا ًرسول اللہ ﷺ کا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرمانا: اقض بالكتاب والسنة إذا وجدتهما فإن لم تجد الحكم فيهما فاجتهد برأيك6 (کسی شرعی امر کے بارے میں) قرآن اور سنۃ کے مطابق فیصلہ کرو اور اگر کوئی حکم تم ان دو میں نہیں پاتے تو اپنی رائے کے مطابق اجتہاد کریں۔)
حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ اجتہاد کے بارے میں رسول اللہ ﷺ کا یہ قول مبارک نقل کرتے ہیں۔
«إِذَا حَكَمَ الْحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ فَأَصَابَ فَلَهُ أَجْرَانِ، وَإِذَا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ فَأَخْطَأَ فَلَهُ أَجْرٌ»7 (جب ایک حاکم نے اجتہاد کرکے صحیح فیصلہ کیا تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور جب خطاء کی تو اس کے لئے ایک اجر ہے)
رسول اللہ ﷺ نے جب حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بھیجا تو آپ کے اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان حسب ذیل گفتگو ہوئی۔
" كَيْفَ تَقْضِي إِذَا عَرَضَ لَكَ قَضَاءٌ؟ " قَالَ: أَقْضِي بِكِتَابِ اللهِ ، قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدْهُ فِي كِتَابِ اللهِ؟ "، قَالَ: أَقْضِي بِسُنَّةِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَإِنْ لَمْ تَجِدْهُ فِي سُنَّةِ رَسُولِ اللهِ؟"، قَالَ: أَجْتَهِدُ بِرَأْيٍ، لَا آلُو، قَالَ: فَضَرَبَ بِيَدِهِ فِي صَدْرِي، وَقَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي وَفَّقَ رَسُولَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَا يُرْضِي رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".8
(حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ ﷺ نے انہیں یمن بھیجا تو فرمایا کہ تم فیصلے کیسے کروگے؛ میں نے جواب دیا؛ میں اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلے کروں گا۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ اگر تم کتاب اللہ میں نہ پا ؤ تو پھر ؟ میں نے جواب دیا رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق، پھر رسول اللہ ﷺ نے پوچھا کہ اگر سنۃ الرسول ﷺ میں نہ پاؤ تو پھر؟ میں نے جواب دیا کہ پھر میں اپنی رائے کے مطابق اجتہاد کروں گا اور کسی قسم کی کوتاہی نہ کروں گا ۔ (یہ سن کر) رسول اللہ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا اور اللہ تعالی کی حمد کی جس نے رسول اللہ ﷺ کے ایلچی کو اس بات کی توفیق دی جس سے اللہ تعالی کا رسول ﷺ راضی ہے)
تعامل صحابہ سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے مختلف مواقع پر پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے اجتہاد سے کام لیا مثلاحضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کلالہ کی میراث کے بارے اجتہاد فرمانا9۔ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اجتہادی مسائل کی تعداد تو بہت زیادہ ہیں۔10
اجتہاد ایک انفرادی عمل ہے جب کہ اس کی ایک صورت اجتماعی اجتہاد ہے جب اس اجتماعی اجتہاد پر کسی زمانہ کے مجتہدین کا اتفاق ہو جائے تو یہ اجماع کہلاتا ہے۔
اجماع کا کلمہ جمع یعنی ج- م – ع سے ہے جس کا معنی جمع یعنی اکھٹا کرنا ہے۔ الجَمْع: ضمّ الشيء بتقريب بعضه من بعض، يقال: جَمَعْتُهُ فَاجْتَمَع11
لغۃ میں اجماع کسی کام کے بارے میں پختہ ارادہ کرنے کو کہتے ہیں12 جب کہ اصطلاح میں اس کی تعریف یہ کی گئی ہے۔
وَهُوَ اتِّفَاقُ الْمُجْتَهِدِينَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ - عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ - فِي عَصْرٍ عَلَى حُكْمٍ شَرْعِيٍّ13 اجماع کا مطلب( رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد) امت مسلمہ کے مجتہدین کا کسی خاص دور میں کسی شرعی حکم پر متفق ہونا ہے۔
حجیت اجماع
علماء اصول الفقہ حسب ذیل قرآنی آیتوں سے عموما استدلال کرتے ہیں کہ ان سے اجماع کی حجیت ثابت ہوتی ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا 14
( اے ایمان والو تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور ان کی بھی جو تم میں سے صاحب حکم ہوں پھر اگر تم کسی بات میں باہمی جھگڑنے لگو تو اس بات کو اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹایا کرو بشرطیکہ تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہو یہ طریقہ بہتر اور انجام کے اعتبار سے بہت اچھا ہے)
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا15
( اور جو شخص بعد اس کے کہ اس پر امر حق واضح ہوچکاتھا پھر پیغمبر کی مخالفت کرے گا اور مسلمانوں کی راہ یعنی اعتقاد و عمل چھوڑ کر دوسری راہ اختیار کرے گا تو ہم اس کو اس کے اختیار کردہ راہ کے سپرد کردیں گے اور اس کو جہنم میں داخل کریں گے اور وہ دوزخ بہت بری بازگشت ہے)
امام غزالی نے اس حوالے سے امام شافعیؒ کی رائے نقل فرمایا ہے
"فَإِنَّ ذَلِكَ يُوجِبُ اتِّبَاعَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ. وَهَذَا مَا تَمَسَّك بِهِ الشَّافِعِيُّ"16 (یہ آیت راہ مؤمنین کی اتباع کے وجوب کی دلیل ہے اور اسی پر امام شافعیؒ نے تمسک کیا ہے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "مَا كَانَ اللَّهُ لِيَجْمَعَ هَذِهِ الْأُمَّةَ عَلَى الضَّلَالَةِ أَبَدًا"17 ( اللہ تعاليٰ اس امت کو کبھى گمراہى پر اکٹھا نہىں کرىں گے)
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"من فارق الجماعة ولو قيد شبر فقد خلع ربقة الإسلام من عنقه"18 ( جس نے مسلمانوں کی جماعت کو چھوڑا چاہے اسے معمولی سی بیعت کیوں نہ ہو تو گویا کہ اس نے اپنی گردن سے اسلام کی رسی نکال دی)
اسی طرح رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کی جماعت سے علحیدگی سے منع فرمایا، ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مَنْ شَذَّ شَذَّ في النَّارِ"19( جس نے اس جماعت سے علحیدگی اختیار کی) تو جھنم میں وہ اکیلا ہوگیا)۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اجماع پر عمل کرنا واجب ہے۔20
یہ امر واضح ر ہے کہ عہد رسول اللہ ﷺ میں آپ ﷺ کی ذات مبارک بحیثیت شارع کی موجود تھی اس لئے اس عہد میں اجماع کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا تا ہم رسول اللہ ﷺ کےوصال کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تعامل سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ انہوں نے کئى امور میں اجماع کیا ہے۔مثلا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں مانعین زکوۃ کے خلاف جہاد کرنا21 ، حضرت عمر رضی اللہ کے عہد میں مفتوحہ زمینوں کو مجاہدین میں تقسیم کرنے کے بجائے اسلامی حکومت کی تصرف میں دینا اور آپ ہی کے عہد میں سمندری پیداوار پر بھی زکوۃ عائد کىا جانا۔22
اجماع کی اقسام
اجماع کی دو اقسام ہیں اجماع صریح اور اجماع سکوتی اجماع صریح سے مراد یہ ہے کہ مجتہدین امت کسی در پیش شرعی مسئلہ کے متعلق صراحتا اپنی رائے کا اظہار کریں۔23
اجماع سکوتی
اس سے مراد ہے کہ جب کسی امر شرعی پر مجتہدین کا اتفاق حاصل ہو جائے اور اس کی اطلاع پھر دوسرے مجتہدین کو مل جائے اور وہ اس کے متعلق خاموشی اختیار کریں یعنی نہ تائید کریں اور نہ کو ئی نقد و جرح کریں۔ اس قسم کے اجماع کو اجماع سکوتی کہتے ہے۔ تا ہم اس قسم کے اجماع کی حجیت کے بارے میں آراء کا اختلاف پایا جاتا ہے ۔
امام شافعیؒ اور امام مالکؒ کے نزدیک اس قسم کے اجماع کو بطور اجماع نہیں مانا جا سکتا۔24
جب کہ امام احمدؒ اور اکثر فقہاء کے نزدیک اجماع سکوتی نہ صرف اجماع ہے بلکہ یہ حجت بھی ہے۔ تا ہم وہ اس کی قبولیت کی پانچ شرائط پیش کرتے ہیں۔
1: سکوت میں کسی نہ کسی طرح تائیدی یا اگر مطلوب ہو تو تردیدی علامات کا ہونا ضروری ہے۔
2: جو مجتہدین ، اجماع صریح کے ذریعے اپنی رائے ظاہر کر چکے ہوں ، ان کی رائے کو باقی معاصرین اہل نظر اور اہل علم تک پہنچانے کا مناسب بندوبست بھی ہو۔
3: مجتہدین کی ایسی آراء کے ابلاغ کے بعد معقول مدت تک ، جو غور فکر اور بحث و تمحیص کے لئے ضروری ہو، انتظار کیا جائے تا کہ باقی مجتہدین کو اپنی رائے کے اظہار کے مناسب ذرائع اور مواقع مل سکیں۔
4: ضروری ہے کہ بحث و تمحیص اور آراء کا اظہار اجتہادی امور پر ہو۔
5: یہ بھی ضروری ہے کہ کہ اجتہادی مسائل کے سکوت تمام رکاوٹوں سے مبرا ہو اور آراء کسی مصلحت کی وجہ سے نہ ہو۔ اہل علم اس وجہ سے سکوت اختیار نہ کرتے ہوں کہ انہیں بولنے پر حاکم وقت کے عتاب کا خوف ہو یا کسی زیر بحث قانون کے متعلق مجتہدین کو اتنا کم وقت دیا جائے کہ وہ اس پر غور نہ کر سکیں۔25
عصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد اور اجماع کا امکان
درج بالا بحث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ قرون ماضیہ میں اجماع کا امکان تھا اور خصوصا صحابہ کرام کے دور میں کئے امور پر اجماع ہو بھی گیا۔ عصرحاضر میں بھی انعقاد اجماع کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا تا ہم اس راہ میں مشکلات ضرور پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر اجماع کے بجائے اجتماعی اجتہاد کے تصور کو فروغ دیا جائے تو فقہی لحاظ سے اور معاشرتی لحاظ سے بھی بہت سے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
مثلا ایک مرتبہ کسی شرعی امر پر انعقاد اجماع کے بعد اسی طرح کے مسائل اور جدید حالات میں تبدیلی کے تناظر میں نئے اجماع کا قیام ایک دقت طلب امر ہوگا لیکن اگر اس کے بجائے اس مخصوص مسئلہ میں اجتماعی اجتہاد کیا جائے اور مسئلہ کا حل ڈھونڈا جائے پھر مستقبل میں نئے حالات کے تناظر میں ایک نیا اجتماعی اجتہاد کرنا آسان بھی ہوگا اور قابل نفاذ بھی۔ تاہم ہر مرحلہ میں صرف انہی لوگوں کو اجتماعی اجتہاد میں شامل ہونے کی اجازت ہوگی جن میں اجتہاد کرنے کی صلاحیت ہوگی۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کو قرآن پاک ، سنۃ رسول ﷺ ، فقہ، اصول الفقہ ، عربی زبان، مقاصد شریعت، عصر حاضر کے تقاضوں سے باخبری اور اجتہاد کرنے کی فطری صلاحیت موجود ہو اور اگر کوئی شخص ان اوصاف کا حامل نہ ہو کر اجتہاد کر نے کی کوشش کرے گا تو اس کی مثال اس عطائی کی ہوگی جس کو طب کے علم پر عبور حاصل نہیں ہوتا اور مریض کا علاج کرتا ہے، تو اس صورت میں اگر اس کی نیت صحیح بھی ہوگی تو اس کا علاج مریض کے لئے مزید نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ اسی طرح اگر ایک غیر مجتہد اس میدان میں اترتا ہے تو فائدہ کے بجائے اس کا نقصان زیادہ ہوگا۔ اجتماعی اجتہاد کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ انفرادی طور پر جو اجتہاد کیا جاتا ہے تو اس میں خطاء کا امکان کم سے کم ہوتا جائے گا اور عین ممکن ہے کہ یہی اجتماعی اجتہاد ایک دن اجماع کی صورت اختیار کرے۔
اجماع طلب اہم مسائل
اگر چہ مسلمانوں کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے تا ہم ان میں قابل ذکر اور اجتہاد طلب امور مندرجہ ذیل ہیں:
(1) شئیرز کی شرعی حیثیت (2) کاغذی زر ( 3) کمرشل انٹرسٹ (4) انشورنس (5) کریڈٹ کارڈ (6): اعضاء کی پیوند کاری(7) پوسٹ مارٹم (8) بلڈ بینک (9) ٹیسٹ ٹیوب بے بی(10) کلوننگ (11) مرابحہ(12) جدید مسائل زکوۃ (13) بیع حقوق (14) ضرورت و حاجت کا تعین(15) طبی اخلاقیات(16) انسانی حقوق (17): حقوق نسوان (18) آبادی کے مسائل (19) ماحولیاتی مسائل (20) جمہوریت اور عصر حاضر(21) ووٹ کی شرعی حیثىت(22) خواتین کی نصف دیت کا مسئلہ(23) خواتین کا محرم کے بغیر سفر کرنا(24) غیر مسلم کی شہادت(گواہی) (25) قرائنی شہادت (26) غیر مسلم ممالک میں مسلم اقلیتوں کے مسائل(27) نظام حکومت(28) ضبط ولادت (29) فلموں اور ٹی وی کی حیثیت(30) غیر سودی بینکاری (31) لیزنگ اور اجارہ (32) عورتوں کے حجاب کے حدود (33) خواتین کی شہادت کا مسئلہ(34) ڈی این اے کی شرعی حیثیت (35) ہنگامی حالات میں حکومت کا دائرہ کار (36) نکاح میں ولی کے اختیارات (37) مسلم اور غیر مسلم کے تعلقات(38) عہد حاضر میں دار کا تصور؛ دار اسلام، دار کفر، دارالعہد، دار الحرب (39) انٹر نىٹ کے ذریعے نکاح اور خرید و فروخت کے احکامات (40) ذبیحے سے متعلق احکامات۔
یہ اور اس قسم کے دیگر مسائل کے لیے الحمد للہ مسلمانوں کے کئے ادارے فعال کردار ادا کررہے ہیں۔ ان میں سے چند کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
المجمع الفقہی الدولی مکہ مکرمہ:
مسلمانوں کو در پیش مسائل کے حل میں یہ ادارہ بھر پور کردار ادا کرسکتا ہے۔ یہ ادارہ رابطہ عالمی اسلامی کی ایک شاخ کے طور پر وجود میں آیا۔
اس ادارہ کے اہداف حسب ذیل ہیں:
ا:مسلمانوں کے درمیان فکری ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کرنا۔
ب:اجتماعی اجتہاد کے ذریعے مسلمانوں کو درپیش فقہی اور قانونی مسائل کا حل پیش کرنا اور ایک مسئلہ کے حل کے بارے میں فقہاء کے ایک سے زیادہ آراء کی صورت میں کسی ایک رائے کو ترجیح دینا۔
ج:مسلمانوں کے دیگر فقہی اکیڈمیوں کے ساتھ عام روابط کے قیام کے ساتھ ساتھ فتاوى کے نفاذ کے لئے روابط قائم کرنا۔
د:فقہی مسالک اور مکاتب فکر کے درمیان روح اعتدال اور روح تسامح کو اس طرح سے پیدا کرنا کہ اس سے تکفیر، مذہبی انتہاپسندی اور مذہبی تعصب کا مقابلہ ہو۔
ھ:دین کے مسلمہ اصولوں اور قواعد کے خلاف دی گئی فتوؤں کا مقابلہ اور رد کرنا۔
و: اسلامی شریعت کے مطابق قانون سازی آسان بنانےکے لئے ، عصر حاضر کی مشکلات پر رائے دینا۔
ز:فقہ اسلامی جس کی بنیادیں اسلامی فکر و ثقافت پر ہو، کے دائرہ کار کےتوسیع کے لئے کوششیں کرنا۔
ح:مسلمانوں کو درپیش فقہی و قانونی مسائل کا اجتماعی اجتہاد کے ذریعے حل نکالنا اور ایک سے زیادہ آراء کی صورت مىں مسلمانوں کے مصالح کو مد نظر رکھ کر کسی ایک رائے کو ترجیح دینا۔
ط: مسلم ممالک سے باہر رہنے والے تاریکین وطن کے مسائل ان کے مخصوص حالات کے پیش نظر ان کی اسلامی اقدار و ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے نکالنا کہ اس سے ان کی آئندہ نسل کی شناخت بھی برقرار رہے۔
ی: فقہاء اسلام کے درمیان قربت پیدا کرنا اور فتوؤں اور قراردادوں کے اصدار کے وقت ان کی آراء کا لینا اور ان کا احترام کرنا اور اس بات کا خیال رکھنا کہ اکیڈمی میں ان مذاہب اسلامیہ کی نمائندگی ہو۔
ک: زندگی کے عام امور کے بارے میں شرعی رہنمائی فراہم کرنا۔
ل:اصول استنباط، اصول الفقہ، ادلہ و قواعد شرعیہ اور مقاصد شرعیۃ پر عمل کرتے ہوئے فقہ اسلامی کی ترویج و ترقی کےلئے کوششیں کرنا۔26
اسلامی فقہی اکیڈمی انڈیا
عالم اسلام کے فقہی اکیڈمیوں میں یہ ادارہ ایک ممتاز مقام کا حامل ہے۔ اور بہت کم عرصہ میں اس ادارہ نے بڑے بڑے علماء اور ماہرین کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ اپنی مطبوعات اور فقہی سیمناروں کے حوالے سے یہ ادرہ ایک منفرد تشخص کا حامل ہے۔ یہ ادارہ اصحاب دانش کو مل بیھٹنے کا زرین موقع فراہم کرتا ہے تا کہ یہ اصحاب علم مل بیٹھ کے مسلمانوں کو درپیش مسائل کا اجتماعی اجتہاد کے ذریعے کوئی حل نکالے۔ اس ادارہ کے اہداف و مقاصد حسب ذیل ہیں۔
1: موجودہ دور کی معاشی، معاشرتی،سیاسی و صنعتی تبدیلیوں اور جدید ترقی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دشواریوں کا اسلامی قانون کے مطابق قرآن و سنۃ ، آثار صحابہ،اور ائمہ مجتہدین،و سلف صالحین کی تشریحات کی روشنی میں حل تلاش کرنا۔
2: جدید عہد میں پیدا ہونے والے مسائل یا ایسے مسائل جو بدلتے ہوئے حالات میں بحث و تمحیص کے متقاضی ہیں فقہ اسلامی کے اصول کی روشنی میں اجتماعی تحقیق کے ذریعہ ان کا حل تلاش کرنا۔
3: مصادر فقہ، قواعد و کلیات،اور فقہی نظریات کی تشریح اور اس عہد میں اس کی تطبیق کے موضوع پر تحقیق کرنا۔
4: عصری تقاضوں کی روشنی میں فقہی موضوعات پر تحقیق و ریسرچ کرنا۔
5: جدید پیش آمدہ مسائل میں محقق علماء اور مستند دینی اداروں سے ذمہ دارانہ تحریریں اور فتاوی حاصل کرکے عام مسلمانوں کو باخبر کرنا۔
6: ملک و بیرونی ملک کے تمام فقہی و تحقیقی اداروں سے رابطہ قائم کرنا ، باہم ایک دوسرے کی علمی کاوشوں سے باخبر رہنااور ان سے استفادہ کرنا۔
7: فقہی موضوعات پر کئے گئے کاموں کا انڈکس تیار کرنا۔
8:ملک کے مستند اداروں اور اشخاص کی طرف سے جاری ہونے والے وہ فتاوی و تحقیقات جن کی حیثیت علمی اور فقہی ورثے کی ہے،ایسے مطبوعہ و غیر مطبوعہ فتاوے و تحقیقات کا انتخاب ، اور ان کو عصری اسلوب میں مرتب کرکے پیش کرنا۔
9: موجودہ اقتصادی،سماجی، طبی نیز مختلف ممالک اور علاقوں کے عرف و رواج ، ماحولیات و عمرانیات کے میدان میں ملک و بیرون ملک میں پیدا ہونے والی دشواریوں اور ان موضوعات پر کی گئی تحقیقات کے نتائج سے واقف کرانا۔
10: قوانین شرع اسلامی کے بارے میں مختلف حلقوں کی طرف سے پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں اور غلط تعبیرات کا جائزہ ، اور ان کے بارے میں صحیح نقطہ نظر پیش کرنا۔
11: جدید سوالات اور اسلام کو درپیش چیلنج کے حل پر مشتمل ایسا لٹریچر تیار کرنا جو عصری اسلوب سے ہم آہنگ ہو۔
12: نئے باصلاحیت علماء کی صلاحیت کو علمی و تحقیقی رخ دینا اور ان کی حوصلہ افزائی کرکے علم و تحقیق کا ماحول سازگار کرنا ، اور پختہ علمی ذوق رکھنے والے علماء اور اہل دانش کو باہم مربوط کرنے کی کوشش کرنا۔
13: مدارس اسلامیہ سے فارغ ہونے والے ذہین اور باصلاحیت ٖفضلاء کو ضروری عصری علوم میں ، اور یونیورسٹیز سے فارغ ہونے والے ذہین اور باصلاحیت افراد کو دینی اور فقہی علوم میں مناسب معلومات فراہم کرنے کے لئے ضروری انتظام کرنا۔
14: مختلف مسالک کے علمی و فقہی ذخیرہ سے استفادہ کا رجحان پیدا کرنا۔
15: مندرجہ بالا اغراض و مقاصد کے تحت سیمینار و سمپوزیم منعقد کرنا ، اسٹدی ٹیم بنانا ،تربیتی و فقہی کیمپ منعقد کرنا اور علمی و تحقیقی ادارے قائم کرنا ، نیز اپنے وسائل کے مطابق تمام وہ کام کرنا جو ان اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے مفید اور مناسب ہوں27
مجمع البحوث الاسلامیۃ:
عالم اسلام میں الازہر الشریف کا ہمیشہ سے ایک منفرد اور مثبت کردار رہا ہے۔ مصری صدر جمال عبد الناصر کے عہد میں الازہر کی عربوں اور امت اسلامیہ کے لئے خدمات کے اعتراف کرتے ہوئے اسے اسلامی ثقافت اور دینی امور کی توضیح و تشریح کا سب سے بڑا ادارہ قرار دیا گیا۔ اس حوالے سے سے شیخ الازہر کو "الامام الاکبر" کا درجہ دیا گیا۔ جب کہ الازہر کو بہتر طریقے سے چلانے کےلئے اسے پانچ بڑے اداروں میں تقسیم کرکے شیخ الازہر کو ان کا نگران بنا دیاگیا۔ یہ ادارے حسب ذیل ہیں۔
۔مجلس اعلی برائے الازہر
۔مجمع البحوث الاسلامیہ
۔ادارہ الثقافۃ و البعوث الاسلامیہ
۔جامعۃ الازہر
۔الازہر سکول سسٹم
مجمع البحوث الاسلامیہ کو حسب ذیل ذمہ داریاں سونپی گئیں۔
۔ اسلامی علوم کی مختلف فروع میں گہری بحث و تحقیق
۔ اسلامی ثقافت کے احیاء اور اس کے خلاف ہر قسم کے شبہات اور تعصبات کے خاتمے کےلئے مساعی
۔اسلام کی علمی وسعتوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر طبقے اور ہر ماحول کے اعتبار سے اسلامی ثقافت کو پیش کرنا۔
۔اسلام کے علمی ورثے کی تحقیق اور نشر و اشاعت
۔سماجی اور اقتصادی مشکلات کے حل میں دینی رہنمائی
۔حکمت اور اخلاق حسنہ کے ذریعے اسلام کی تبلیغ
۔پوری دینا میں اسلام سے متعلق چھپنے والا مواد میں درست باتوں کی تائید اور غلط بیانیوں کی علمی تردید۔28
اسلامی نظریاتی کونسل
پاکستان میں قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈالنے کے لئے اسلامی نظریاتی کونسل کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس ادارے نے اب تک بہت سے مروجہ قوانین کا اسلامی نقطہ نظر سے جائزہ لیا ہے جو ان کی مختلف رپوٹس کی صورت میں موجود ہیں۔ تاہم بد قسمتی سے پارلیمنٹ نے اب تک ان ترمیمات اور تجاویز کی روشنی میں قانون سازی میں تساہل سے کام لیا ہے ۔ دستور پاکستان ۱۹۷۳ کی دفعہ ۲۳۰ کونسل کی کارہائے منصبی سے متعلق ہے اس میں یہ واضح طور پر یہ کہا گیا ہے کہ
- اسلامی کونسل کے کارہائے منصبی حسب ذیل ہونگے۔
(ا) ] مجلس شوری (پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں سے ایسے ذرائع اور وسائل کی سفارش کرنا جن سے پاکستان کے مسلمانوں کو اپنی زندگیاں انفرادی اور اجتماعی طورپر ہر لحاظ سے اسلام کے ان اصولوں اور تصورات کے مطابق ڈھالنے کی ترغیب اور امداد ملے جن کا قرآن پاک اور سنت میں تعین کیا گیا ہے۔
(ب)کسی ایوان، کسی صوبائی اسمبلی، صدر یا کسی گورنر کو کسی ایسے سوال کے بارے میں مشورہ دینا جس میں کونسل سے اس بابت رجوع کیا گیا ہو کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلامی احکام کے منافی ہے یا نہیں؛
(ج) ایسی تدابیر جن سے نافذ العمل قوانین کو اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔ نیز ان مراحل کی جن سے گذر کر محولہ تدابیر کا نفاذ عمل میں لانا چاہیے، سفارش کرنا؛ اور
(د) [مجلس شوری(پارلیمنٹ) اور صوبائی اسمبلیوں کی رہنمائی کے لئے اسلام کے ایسے احکام کی ایک موزون شکل میں تدوین کرنا جنہیں قانونی طور پر نافذ کیا جاسکے۔29
جدید مسائل کے حل میں اسلامی نظریاتی کونسل ایک مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے تاہم اگر اس کے ارکان کا انتخاب سیاسی ترجیحات سے بالا تر ہوکر صرف ان کی علمیت، اجتہادی صلاحیت اور تقوی کی بناء کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اس ادارہ کا شمار عالم اسلام کے ممتاز اداروں میں نہ ہو۔
هيئة الکبار العلماء
سعودی عرب میں یہ جید علماء کا اعلی ترین ادارہ ہے۔ حکومت اس ادارہ کے لئے علماء کا انتخاب کرتی ہے۔ یہ علماء حکومت اور دیگر اداروں کے استفسارات کے جوابات دىتے ہىں۔ اس ادارہ کی معاونت کےلئے "اللجنة الدائمة للبحوث والافتاء" قائم کی گئی ہے۔30 مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے یہ ادارہ بھی ایک مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ تا ہم اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ اس کا دائرہ کاربھی بڑھایا جائے اور اور اس ادارہ کی تشکیل میں دیگر اسلامی فرقوں کو کما حقہ نمائندگی دی جائے۔
خلاصہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن و سنۃ کے تفصیلی احکامات محدود ہیں، جب کہ زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں کے مسائل بھی بڑھ جاتے ہیں اور ان کی نوعیت بھی تبدیل ہوتی رہتی ہے، جن کا حل بغیر اجتہاد کے نہیں ہوسکتا۔ اور یہ وہ راستہ ہے جو اسلام کو تمام لوگوں اور تمام زمانوں کے لئے قابل عمل اور قابل قبول بنا دیتا ہے۔ تاہم اجتہاد کی تین ممکنہ صورتیں ہو سکتی ہیں۔ ایک یہ کہ ہر مجتہد انفرادی طور پر حل مسائل کے لئے اجتہاد کریں اور دوسرا یہ کہ مجتہدین مل کر اجتماعی اجتہاد کریں اور تیسرا یہ کہ تمام مجتہدین اجتماعی اجتہاد کر کے اس کو اجماع کی صورت دیں ۔ اس مقصد کے لئے مذکورہ بالا ادارے مؤثر کردار ادا کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بھی ملحوظ رہے کہ مذکورہ بالا کے علاوہ بھی کئى ادارے مثلا دائرۃ الافتاء العام الاردنیۃ،دار الافتاٗ المصریۃ،قطاع الافتاء والبحوث الشرعیۃ ، کویت ، یورپی مجلس برائے افتاء و تحقیق مجمع فقہاء الشریعۃ ، امریکہ اس حوالے سے مفید خدمات سرانجام دے رہےہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کو درپیش مسائل کے حل کے لئے اجماع ہی ایک بہتر صورت ہو سکتی ہے تاہم اس کے راستہ میں حائل رکاوٹوں کو نظر انداز بھی نہیں کیا جاسکتا تو اس صورت میں اس کا نعم البدل اجتماعی اجتہاد ہی ہوسکتا ہے۔
حواشی
1:الافریقی، محمد بن مكرم بن على، أبو الفضل، جمال الدين ابن منظور، لسان العرب،مادہ جہد،ط دار صادر، 1414ھ
2: الغزالی، أبو حامد محمد بن محمد الطوسي، المستصفی،ج 1 ص 281، دار الکتب العلمیۃ،1993
3: الحشر: :2: 59
4: السرخسی، محمد بن أحمد بن أبي سهل شمس الأئمة ألاصول ج 2 ص 125 ط دار المعرفة - بيروت
5: البقرۃ :233
6: الرازی، أبو عبد الله محمد بن عمر بن الحسن بن الحسين التيمي الرازي المحصول ج 5 ص 39 ط مؤسسة الرسالة، بیروت 1997
7: ابو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السجِسْتاني، السنن، کتاب الاقضیۃ ، باب فی القاضی یخطیء ط المكتبة العصرية، صيدا - بيروت س ن
8: البیھقی، أحمد بن الحسين بن علي بن موسى الخُسْرَوْجِردي الخراساني، أبو بكر ، السنن الكبرى، کتاب آدَابِ الْقَاضِي بَابُ مَا يَقْضِي بِهِ الْقَاضِي وَيُفْتِي بِهِ الْمُفْتِي، ط دار الكتب العلمية، بيروت، 2003
9: سعید احمد مولانا، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ، ص 397ط مکتبہ رشیدیہ، کراچی، س ن
10: شبلی نعمانی، الفاروق، ص 344 ط مکتبہ رحمانیہ، لاہورس ن
11: الاصفہانی، أبو القاسم الحسين بن محمد، المفردات في غريب القرآن،ج 1 ص 201ط دار القلم، الدار الشامية- دمشق بيروت،1412ھ
12: لسان العرب مادہ، جمع
13: التفتازانی، سعد الدين مسعود بن عمر، شرح التلويح على التوضيح،ج 2 ص 81 ط مكتبة صبيح بمصر س ن
14: النساء :59
15: النساء : 115
16: الغزالی، أبو حامد محمد بن محمد، المستصفى، ص، 138 ط دار الكتب العلمية، 1993م
17: الشيباني، أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد، السنة
بَابُ مَا ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْرِهِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ، وَإِخْبَارِهِ أَنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ ج 1 ص 39 ط المكتب الإسلامي – بيروت 1400
18: السجستانی، أبو داؤد سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي، السنن کتاب السنة ، باب فی قتل الخوارج،ط المكتبة العصرية، صيدا – بيروت
19: الترمذی، محمد بن عيسى بن سَوْرة بن موسى بن الضحاك، السنن، ابواب الفتن، باب لزوم الجماعۃ ا، ط شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي – مصر 1975
20: الشیبانی، أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد، السنة بَابُ مَا ذُكِرَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَمْرِهِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ، وَإِخْبَارِهِ أَنَّ يَدَ اللَّهِ عَلَى الْجَمَاعَةِ، ج 1 ص 39 ط المكتب الإسلامي – بيروت 1400ھ
21: ابن الاثیر، أبو الحسن علي بن أبي الكرم محمد بن محمد بن عبد الكريم بن عبد الواحد الشيباني الجزري، الكامل في التاريخ،ج 2 ص 201 ط دار الكتاب العربي، بيروت – لبنان،1997
22: محمد حمید اللہ، عمر بن الخطاب ؓ، دائرہ المعارف الاسلامیہ ج14 ص 212 ط دانش گاہ پنجاب لاہور 1982
23:الخلاف، عبد الوہاب، علم أصول الفقه،ص 51 ط مکتبۃ الدعوۃ شباب الازھر، س ن
24: ایضا
25: شام، شہزاد اقبال، اسلامی قانون ایک تعارف، ج1 ص103 شریعہ اکیڈمی اسلام آباد 2009
27: تاج الدین الازہری، مجمع البحوث الاسلامیہ،اجتماعی اجتہاد،محمد طاہر منصوری( ایڈیٹر) ص 322 ، ط ادارہ تحقیقات اسلامی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد،2007
28: اسلامی جمہوریہ پاکستان کا دستور، مفہومی ترجمہ تصنیف جسٹس (ریٹائرڈ) محمد منیر ص 300 ط پی ایل ڈی پبلشرز لاہور،1999
29: سہیل حسن، هيئة الکبار العلماء-سعودی عرب، اجتماعی اجتہاد ص 349
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |