28
1
2014
1682060034497_406
200-218
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/311/249
امت مسلمہ میں اختلاف اور اس کے حل کے حوالے سے متعدد کاوشیں کی جا چکی ہیں چنانچہ اس موضوع پر اشعری ِ ، بغدادی، اسفرائنی ، شہرستانی اور ابن حزم جیسے اکابر علمائے متکلمیں نے بہت ہی مفصل گفتگو کی ہے ، فرقہ بندی کے تناظر میں اگر تاریخی طور پر دیکھاجائے تو امت مسلمہ اس حوالے سے منفرد نہیں بلکہ اس سے پہلے یہود ونصاری میں فرقہ بندی اپنے زوروں پر رہی ہے ۔ چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (افترقت اليهود علي احدى وسبعين فرقة والنصارى مثل ذالك, وتفترق أمتي علي ثلث وسبعين فرقة)[1]
یہ حدیث مبارک اگرچہ مختلف امتوں کے حوالے سے اپنے مدعی کے اعتبار سے محل خلاف نہیں، کیونکہ مقصود اس سے مختلف امتوں کے درمیان پیدا ہونے والے افتراق وانتشار کو بیان کرنا ہے تاہم اسی حدیث کے بعض دوسری طرق کے حوالے سے مسلم دنیا میں شدید مغالطہ پیدا ہوا جن میں 72 فرقوں کے جہنمی ہونے کا اضافہ موجود ہے جیسا کی حضر ت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے " قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: ليأتين على أمتي ما أتى على بنى اسرائيل حذو النعل بالنعل، حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية، لكان فى أمتي من يصنع ذالك، وإن بنى اسرائيل تفرقت على اثنتين وسبعين ملة، وتفترق أمتي على ثلث وسبعين ملة، كلهم فى النار إلا ملة واحدة، قالوا: من هى يارسول الله؟ قال: ما أناعليه وأصحابي[2]. چنانچہ ہر ایک فرقہ نے خود کو ناجی قرار دے کر دوسرے فرقوں پر فتوے لگانے شروع کر دئیے ۔ اور یوں اسلامی فرقوں کےمابین افتراق وانتشار کی خلیج مزید وسیع ہوتی گئی ، اور آہستہ آہستہ پورا عالم اسلام مذہب کے نام پر مختلف ٹولیوں میں تقسیم ہوگیا۔
امتِ مسلمہ میں انتشار کی ابتداء حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت سے ہوئی اور اس کے فورا بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں شیعہ اور خوارج جیسے فرقے سامنے آئے ، ساتھ ہی یہ سیاسی مسئلہ مذہبی رخ اختیار کرگیا۔ اور مرتکب کبیرہ اور امامت جیسے مسائل میں مناظرہ ومجادلہ شروع ہوگیا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ہر فرقے نے اپنے اجماع کو اپنے متبعیں کے لیے حجت قرار دیا اور دوسرے فرقوں کو اسی اجماع کا منکر قرار دے کر کفر کے فتوے جاری کئے جانے لگے۔ ان تمام باتوں کے پیش ِ نظر اختلافِ امت سے متعلق روایات پر ایک تحقیقی اور تنقیدی نگاہ ڈالنا بہت ضروری ہے تاکہ امتِ مسلمہ کے درمیان اتفاق واتحاد اور مذہبی رواداری کی فضاء قائم کی جاسکے ۔
افتراقِ امت والی روایات کا علمی جائزہ:
افتراق ِ امت والی حدیث دراصل کئی طرق سے روایت کی گئی ہے ۔ جس میں ایک روایت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی ہے جسے ہم نے مقدمے میں ذکر کردیا۔ البتہ بعض روایات کے اندر ان فرقوں کی انجام کا تذکرہ ہے ۔ اس قسم کی روایات حضرت معاویہ بن ابی سفیان ، عوف بن مالک اور انس بن مالک رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہیں اور تمام اصحابِ سنن نے ان کی تخریج کی ہے ۔ذیل میں ہم اس قسم کی بعض روایات ذکر کرتے ہیں :
- عن أبي عامر الهوزني عن معاوية أنه قام فينا فقال: ألا إن رسول الله صلي الله عليه وسلم قام فينا فقال: ألا إن من قبلكم من أهل الكتاب افترقوا علي ثنتين وسبعين ملة وإن هذه الامة ستفترق علي ثلث وسبعين، ثنتان وسبعون فى النار وواحدة في الجنة وهي الجماعة. [3]
ترجمہ : عامر ہوزنی حضر ت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ ہمارے درمیان کھڑے ہوگئے اور فرمایا: سن لو ! ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے درمیان کھڑے ہوکر یہ فرمایا تھا: خبردار! تم سے پہلے اہل کتاب 72 فرقوں میں بٹ گئے ااور میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوجائے گی، جن میں سے 72 فرقے جہنم میں جائیں گے اور ایک فرقہ جنتی ہوگا جو کہ جماعت ہے ۔
- عن عوف بن مالك قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"افترقت اليهود على إحدى وسبعين فرقة فواحدة في الجنة وسبعون في النار، وافترقت النصارى على ثنتين وسبعين فرقة فإحدى وسبعون في النار وواحدة في الجنة، والذي نفس محمد بيده لتفترقن أمتي على ثلاث وسبعين فرقة واحدة في الجنة وثنتان وسبعون في النار، قيل يا رسول الله من هم؟ قال الجماعة".[4]
ترجمہ: عوف بن مالک سے روایت ہے کہ بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہود 71 فرقوں میں بٹ گئے جن میں سے ایک فرقہ جنت میں جائے گا اور 70 جہنم میں اور نصاری 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے جن میں ایک فرقہ جنتی ہے اور باقی 71 جہنم میں جائیں گے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد کی جان ہے ، میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہو گی ، جن میں ایک فرقہ جنت میں جائےگا اور باقی 72 فرقے جہنم میں ، پوچھا گیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ: وہ کونسا فرقہ ہوگا؟ فرمایا: وہ فرقہ جماعت والا فرقہ ہوگا۔
- عن أنس بن مالك قال:قال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم:إِنَّ بني إِسرائيلَ افترقتْ على إِحدى وسَبْعِينَ فرقةً وإِن أمّتي ستفترق على اثْنَتَيْن وسَبْعِينَ فرقةً كلُّها في النَّارِ إلا واحدةً وهي الجماعةُ۔[5]
ترجمہ: انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بنی اسرائیل 71 فرقوں میں تقسیم ہوئے اور میری امت 72 فرقوں میں بٹ جائے گی ، سوائے ایک فرقے کے سب کے سب جہنم میں جائیں گے ۔ اور وہ جماعت والا فرقہ ہوگا۔
مذکورہ روایات کو اگر دیکھا جائے تو صحیحین میں اس قسم کی کسی روایت کا ذکر نہیں ملتا البتہ حاکم نے مستدرک میں حدیثِ ابی ہریرہ کو مسلم کی شرط پر صحیح قرار دیا ہے اور اس کے بعد حدیثِ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ماقبل کے لیے بطور ِ شاہد کے پیش کیا ہے ۔[6] ، اسی طرح ابن تیمیہ اس حدیث کے حوالے سے:ّّ الحديث ٍصحيح مشهور فى السنن والمسانيد ّّ[7] کہہ کر اس کی توثیق کی ہے اور ابن کثیر درج بالا روایت پر تبصرہ کرتے ہوئے رقمطراز ہیں : حديث معاوية إسناده حسن وحديث عوف اسناده لا بأس به وحديث أنس إسناده جيد قوي علي شرط الصحيحين.[8]
تاہم دوسرے بعض محققین کی طرف سے اس حدیث کی سند اور متن پر کئی لحاظ سے اعتراض کیا گیا ہے ، جہاں تک اس حدیث کے متن کا تعلق ہے تو اس میں مذکور فرقوں کی تعداد کے حوالے سے کافی اختلاف واقع ہو ا ہے چنانچہ فخر الدین رازی لکھتے ہیں :
وطعن بعضهم فى صحة هذا الخبر فقال: إن أراد بالثنتين وسبعين فرقة أصول الأديان فلم يبلغ هذا القدر وإن أرادالفروع تتجاوز هذاالقدرالي أضعاف ذالك.[9]
يعنی بعض حضرات نے اس حدیت کی صحت پر کلام کیا ہے اور یہ کہا ہے کہ اگر 72 فرقوں سے مراد وہ فرقے ہوں جن کے مابین اصولی اختلاف ہے تو اسلامی فرقوں کی تعداد اس سے کافی کم ہے اور اگر فروعی اختلافات والے فرقے مراد ہوں تو ان کی تعداد اس سے دگنی ہے۔
عصر حاضر کے محققین میں ڈاکٹر عبدالرحمن بدوی نے اس حدیث پر بحث کرتے ہوئے اس کے عدم قبولیت کی وجہ بیان کرتے ہو ئے لکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ وہ مستقبل میں بننے والے فرقوں کی تعداد کے بارے میں پیش گوئی کرسکے اور اسی طرح دوسری اور تیسری صدی ہجری میں مدون ہونے والے احادیث کے مجموعوں میں اس حدیث کا تذکرہ بھی کہیں نہیں ملتا۔ [10]
تاہم ڈاکٹر بدوی کا یہ کہنا محل ِ نظر ہے کہ نبی کریم ﷺ کے لیے یہ بات ممکن نہیں کہ آپﷺ فرقوں کی تعداد کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرسکیں حالانکہ ہمارا عقیدہ تو یہ ہے کہ نبی کریمﷺ وحی کی روشنی میں پیش گوئی کرتے ہیں ، اگر کسی نبی میں خبر دینے کی قدرت ہی نہیں تو ہم انہیں نبی کس بنیاد پر کہتے ہیں ؟ جہاں تک ڈاکٹر صاحب کا دوسرا نکتہ ہے ، تو یہ بھی علمی لحاظ سے درست نہیں ، کیونکہ ابوداود ، ترمذٰی اور امام احمد کے اس حدیث کو تخریج کرنے کے بعد یہ کہنا کہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کے مجموعہ احادیث میں اس کا تذکرہ نہیں ملتا ، یقینا ایک شدید علمی مغالطہ ہے ۔
اس حوالے سے قابل قبول نظریہ یہی بنتا ہے کہ حدیث ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ تمام کبار محدثین کے ہاں ایک مقبول اور متداول حدیث ہے تاہم جن روایات کے اندر (کلها فی النار الا واحدة ) کی زیادتی موجود ہے تو یہ زیادتی دراصل اللہ تبارک وتعالی کے شانِ کریمی سے متصادم ہے اور ان تمام نصوص سے متعارض ہے جن کے اندراللہ تبارک وتعالی کی رحمت بے کراں کا تذکرہ ہے ۔ لہذا اس اضافے کی زیادہ مناسب توجیہ یہی ہوسکتی ہے کہ یہ ادراج فی المتن ہے ، جس کی تفصیل یہ ہے کہ اموی دور میں جماعت کا مفہوم سیاسی پیرائے میں استعمال ہونے لگا تھا تو اس وجہ سے شاید اس وقت کے سیاسی حالات کی وجہ سے حدیث میں یہ زیادتی متداول ہوئی ۔ تاہم جہاں تک ابن وزیر نے اس حدیث کے ایک راوی کو ناصبی کہہ کر اس کی صحت کا انکار کیا ہے تو یہ بات اس لیے قابل قبول نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اس صورت میں خود شیعہ حضرات بھی طعن سے نہیں بچ سکتے ، جیسا کہ بقول ابن الجوزی فضائل کے باب میں حدیث گھڑنے کے اصل مؤجدین خود شیعہ حضرات ہیں ، جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ کی فضیلت میں احادیث گھڑنے کی ابتداء کی ، چنانچہ جب مخالفین نے دیکھا کہ ان کے خلاف احادیث گھڑنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے تو انھوں نے بھی اس کے ردِ عمل میں احادیث گھڑ لیں ۔ [11]
اختلاف محمود اور اختلاف مذموم:
اختلاف امت کی بنیادی طور پر دو صورتیں ہیں ، اصولی اختلاف اور فروعی اختلاف ، تاہم حدیث کی رو سے اگر دیکھا جائے تو فروعی اختلاف کو رحمت کا درجہ دیا گیا ہے تاہم اگر اختلاف اصول و عقائد میں ہوجائے تو یقینا یہ ایک مذموم اور ناقابل ِ قبول صورت بن جاتی ہے۔ اختلاف امت کے حوالے سے وارد شدہ روایات کا تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روایا ت کے اندر دو قسم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں ، کہیں پر لفظ ملۃ آیا ہے اور کہیں پر فرقۃ کا لفظ مذکور ہے ۔ جس سے اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اختلاف مذموم اس صورت میں ہوسکتا ہے ، جب دین اور ملت میں پید ا ہوجائے ۔ چنانچہ اما م قرطبی فرماتے ہں :
إن الافتراق المحذر منه فى الآية والحديث إنما هو في أصول الدين وقواعده، لأنه قد أطلق عليها مللا وأخبر أن التمسك بشئ من تلك الملل موجب لدخول النار ومثل هذا لا يقال فى الفروع. [12]
يعنی آیت کریمہ کے اندر مذموم اختلاف وہی ہے جو اصول ِ دین اور اسلام کے بنیادی عقائد میں ہو کیونکہ اس پر لفظ ملل کا اطلاق کیا گیا ہے۔ اور یہ بتایا گیا ہے کہ ان اصولی اختلاف کے نتیجے میں بننے والے فرقوں کا حصہ بن جانا جہنم کا موجب ہے اور ظاہر ہے یہ بات فروعی اختلاف کے بارے میں نہیں کہی جاسکتی ۔
فخرالدین رازی لکھتا ہے :
المراد من الدين ما لا يختلفون فيه من معرفة ذات الله سبحانه وتعالي وصفاته وأما الشرائع فإن الاختلاف فيها لا يسمى اختلافا فى الدين.[13]
يعنی دین میں اختلاف سے مراد وہ اختلاف ہے جو اللہ تبارک وتعالی کی ذات و صفات کے حوالے سے ہو جہاں تک شرائع میں اختلاف کی بات ہے تو اس کو دین میں اختلاف نہیں کہاجاسکتا۔
ان اقوا ل کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فروعی مسائل کے اندر اختلاف کوئی مذموم چیز نہیں ہے اور جب تک فروعی مسائل میں اختلاف تعصب اور منافرت کی حد تک نہ چلا جائے ، ایک سود مند چیز رہتی ہے جس طرح کہ فقہائے اربعہ کے مابین اختلاف محض نقطہ نظر اور علمی قسم کا اختلاف ہوا کرتا تھا۔ اور وہ اختلاف جو عقیدے کی بنیاد پر ہو اور جنگ وجدل تک لے جائے جیسے مسئلہ امامت ، تو وہ یقینا ایک مذموم چیز ہے ۔ اس حوالے شہرستانی لکھتا ہے :
وأعظم خلاف بين الأمة خلاف الإمامة، إذ ما سل سيف فى الاسلام علي قاعدة دينية مثل ما سل على الإمامة فى كل زمان.[14]
يعني امت مسلمہ میں سب سے بڑا اختلاف امامت کے مسئلے پر ہے ، کیونکہ ہر زمانے میں امامت کے مسئلے پر نوبت تلوار تک جاپہنچی ۔
یہی وجہ ہے کہ اسلامی ریاست سے خروج کرنے والوں کو احادیث میں قتل کرنے حکم دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جو لوگ اسلامی ریاست کے خلاف خروج کریں تو گویا انہوں نے اسلام کی چادر اتار دی اور اگر وہ اسی پر مر یں تو جاہلیت کی موت مریں گے۔
حدیث میں وارد فرقوں کی تعداد کا مسئلہ:
بعض لوگوں کو حدیث میں مذکور فرقوں کی تعداد کے حوالے سے اشکال پیدا ہوا چنانچہ ان میں سے بعض نے اسی کو بنیاد بنا کر اس حدیث کی صحت کا انکار کردیا ۔ اس بات کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آیا حدیث کے اندر فرقوں کی یہ تعداد حصری ہے یا بلحاظ ِ کثرت انہیں اس اسلوب میں بیان کیا گیا ہے ؟
تو اس حوالے سے قدیم علمائے کلام کی عبارات کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان روایات میں عدد بذاتِ خود مقصود ہے ، اور حصر کا فائدہ دے رہا ہے ، اس لیے انہوں نے اسلامی فرقوں کو ترتیب وار ذکر کرکے ان کی تعداد 73 تک پہنچا دیا ہے ۔ چنانچہ بغدادی اپنی کتاب (الفرق بین الفر ق ) میں رقم طراز ہیں :
عشرون روافض ، وعشرون خوارج، وعشرون قدرية ، وعشر مرجئة, وثلاث نجارية و بكرية وجهمية وكرامية، فهذه ثنتان وسبعون فرقة، وأما الفرقة الثالثة والسبعون فهي اهل السنة والجماعة.[15]
يعنی گمراہ فرقوں میں بیس روافض کے فرقے ہیں ، بیس خوارج ، بیس قدری ، دس مرجئہ اور تین نجاریۃ ، بکریۃ ، جہمیۃ اور کرامیہ کے فرقے ہیں ۔ تو یہ کل 72 فرقے بن گئے اور تریہتر واں فرقہ اہل سنت والجماعت کا ہے ۔
لیکن ظاہر ہے کہ یہ گنتی فرقوں کی تعداد کے اعتبارسے درج بالا روایات سے مطابقت نہیں رکھتی ۔ چنانچہ اس مرحلے میں اسفرائنی اپنی کتاب "التبصير فی الدين "میں درج بالا فرقوں میں عدد کی تصحیح کرنے کوشش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
الروافض عشرون، والخوارج عشرون، والقدرية عشرون والمرجئة سبع والنجارية خمس فهذه اثنتان وسبعون فرقة أما الثالثة والسبعون فهي أهل السنة والجماعة.[16]
یعنی روافض کے بیس فرقے ہیں ، خوارج کے بیس ، قدریہ کے بیس ، مرجئہ کے سات اور نجاریہ کے پانچ فرقے ہیں، یہ کل 72 فرقے ہوئے اور تریہہترواں فرقہ اہل السنۃ والجماعۃ ہے ۔
البتہ قرونِ اولی میں فرقوں میں اس طرح حصر قائم کرنا درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ اس زمانے کے بڑے فرقوں نے چھوٹے فرقوں کو اپنی رائے پر قائل کرنے کے لیے قدرے تعسف سے کام لیا تھا، اور ساتھ ساتھ یہ تاریخ ِ فرق کا ابتدائی دور بھی تھا ، تو اس دور میں فرقوں کی اس طور پر درجہ بندی کرنا صحیح نہیں ۔ اس وجہ سے زیادہ مناسب بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ یہاں پر حدیث میں فرقوں کی تعداد کا ذکر بلحاظِ کثرت ہے ، اور درج بالا وجوہ کی وجہ سے ان کی تعداد میں حصر قائم کرنا مشکل ہے۔ چنانچہ مختلف نصوصِ شرعیہ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ تکثیر کو بیان کرنے کے لیے عدد کو اسی اسلوب کے ساتھ کئی مقامات پر لایا گیا ہے ۔ ذیل میں قرآ ن پاک سے اس کی چند مثالیں ملاحظہ کیجئے :
- (استغفرلهم أو لا تستغفرلهم أن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم).[17]
- (ثم في سلسلة ذرعها سبعون ذراعا فاسلكوه).[18]
- (مثل الذين ينفقون أموالهم كمثل حبة أنبتت سبع سنابل فى كل سنبلة مأة حبة والله يضاعف لمن يشاء والله سميع عليم)[19]
ان تمام آیات کے اندر عدد کا ذکر کثرت کو بیان کرنے کے لیے وارد ہوا ہے نہ کہ حصر کے لیے ہے ۔ اسی طرح احادیث کے اندر بھی تکثیر کو بیان کرنے کے لیے مبالغتہ عدد کو مختلف مقامات پر لایا گیا ہے ۔ جس کی دو مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
اس بات میں اب یقینا شک کی گنجائش نہیں رہی کہ اس قسم کے نصوص میں عدد کا تذکرہ محاورۃ کثرت کو بیان کرنے کے لیے ہوتا ہے اور اس کی رو سے حدیث کے اندر عدد کو موضوع بحث بنانا قطعا درست معلوم نہیں ہوتا۔
فرقہ ناجیہ کے حوالے سے اختلاف :
اختلاف امت کے حوالے سے وارد شدہ روایات کا اگر تتبع کیا جائے ، تو راہ ِ حق پر قائم فرقہ کو کئی اوصاف کے ساتھ متصف کیا گیا ہے ، کہیں اسے فرقہ کہا گیا اور کہیں اسے طائفۃ کہا گیا اور بعض مقامات پر اسے جماعۃ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے ۔ البتہ یہاں پر چونکہ ہمارا مقصود ناجی فرقہ کی تعیین میں ہے ، اس لیے ان اوصاف کے ساتھ بحث کرنا ضروری نہیں ۔
جہاں تک ناجی فرقہ کے مصداق کا تعلق ہے ، تو اس کی تعیین میں انتہائی شدید قسم کا اختلاف ہے ، اور اس کی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ ہر فرقے نے اس حدیث کی تشریح میں اپنے نظریے اور نقطہ نظر کو سامنے رکھا۔ اور خود کو اس فرقے کا مصداق قرار دیا ۔ چنانچہ اہل سنت خود کو ناجی فرقہ قرار دیتے ہیں جیسا کہ ماقبل میں بغدادی اور اسفرائنی کے کلام سے واضح ہوا ، اسی طرح اہل سنت پر جماعۃ کا اطلاق اسے کثرت سے ہونے لگا کہ یہ ان کے نام بھی حصہ بن گیا اور اہل سنت والجماعت میں تبدیل ہوگیا۔
امامی شیعہ بھی ناجی فرقہ ہونے کا دعوی کرتے ہوئے دلیل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف درج ذٰیل قول منسوب کرتے ہیں:
"وأما الفرقة الناجية المهدية المؤملة المؤمنة المسلمة الموافقة المرشدة فهي المؤتمة بي، المسلمة لأمري، المطيعة لي، المتبرئة لعدوي".[22]
يعني حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نجات پانے والا ، ہدایت یافتہ ، خوش امید ، مومن ، مسلمان ، موافقت کرنے والا اور ہدایت دینے والا فرقہ وہ ہے جو مجھے امام تسلیم کرے ، میرا حکم تسلیم کرے، میری اطاعت کرے اور میرے دشمن سے براءت کا اظہار کرے۔
دوسری طرف معتزلہ خود کو اہل عدل وتوحید قرار دیتے ہیں اور دوسرے فرقوں کی تکفیرکرتے ہیں حتی کہ انہوں نے اہل سنت کو بھی مشبہہ قرار دیا۔ خوارج بھی خود کو اہل حق اور ناجی سمجھتے ہیں ، اگرچہ ہمارے نزدیک وہ خوارج ہیں ۔
اب چونکہ یہاں پر ان مختلف فرقوں کے نقطہ ہائے نظر کو تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کی گنجائش نہیں ہے ِ، اس لیے ہم ناجی فرقہ کے حوالے سے اہل سنت والجماعت کے موقف کے بیان پر اکتفاء کریں گے۔
ناجی فرقہ کے حوالے سے خود اہل سنت والجماعت کے بعض طوائف کے درمیان اختلاف ہے ، اور مختلف علماء نے مختلف طوائف کے لوگوں کو اس کا مصداق قرار دیا ہے ، ذیل میں ہم اس کی کچھ تفصیل پیش کرتے ہیں ۔
- اہل علم کی جماعت :
اہل سنت میں بعض علماء جن میں امام بخاری بھی شامل ہیں ، اہل علم کو ناجی فرقہ قرار دیتے ہیں ۔ یہ حضرات اپنے استدلال میں یہ حدیث پیش کرتے ہیں :
" لا تزال طائفة من أمتي ظاهرين علي الحق يقاتلون، وهم أهم العلم" [23]
یعنی نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کہ میری امت میں حق کے لیے لڑنے والی کی ایک جماعت ہمیشہ موجود رہے گی اور وہ اہل علم کی جماعت ہے ۔
جمہور اصولی حضرات کی عبارات بھی اس رائے کی غمازی کرتے دکھائی دیتے ہیں ، چنانچہ اجماع کی تعریف میں جماعت کے لفظ کو واضح کرتے ہوئے امام غزالی کہتے ہیں ؛
" الاجماع عبارة عن اتفاق اهل الحل والعقد" [24]يعنی اجماع اہل حل و عقد کے متفق ہونے پر قائم ہوتا ہے ، تو ظاہر ہے اہل حل وعقد اہل علم ہی ہوسکتے ہیں ۔
- اہل حدیث کی جماعت :
اہل حدیث بھی چونکہ اہل علم ہی ہیں تو ان کو الگ سے ذکر کرنے کی ضرورت بہر حال نہیں تھی ، تاہم چونکہ اہلِ حدیث حضرات کا اس حوالے سے بڑا اصرار ہے کہ ناجی فرقہ سے مراد صرف وہی ہیں تو اس وجہ مستقل ان کو ذکر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چنانچہ جب احمد بن حنبل سے ایک دفعہ فرقہ ناجیۃ کے بارے میں دریافت کیا گیا۔ تو انھوں نےکہا : (ان لم يكونوا أهل الحديث فلا أدري من هم؟) يعنی اگر ناجی فرقہ سے مراد اہل حدیث نہ ہو تو پتہ نہیں ، ان سے پھر کون مراد ہوگا۔ گویا کہ امام احمد نے اس سوال پر تعجب کا اظہارکیا کہ اہل حدیث کے ہوتے ہوئے بھی کوئی دوسرا ناجی ہونے کا دعوی کرسکتا ہے ! قاضی عیاض امام احمد بن حنبل کے اس کلام کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ( إنما أراد احمد بن حنبل أهل السنة والجماعة من يعتقد مذهب أهل الحديث )[25]. يعنی امام احمد بن حنبل کی مراد اہل سنت والجماعت ہیں جو مذہب اہل حدیث کی تقلید کرتے ہیں ۔
امام بخاری کے استاذ علی بن مدینی کا میلان بھی اس طرف دکھائی دیتا ہے ۔چنانچہ انھوں نے حدیث " لا تزال طائفة من امتی ظاهرين علی الحق[26] " کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں " هم أهل الحديث" يعنی طائفہ سے مراد اہل حدیث کی جماعت ہے ۔ ابن مدینی کے بعد ابن تیمیۃ بھی اس موقف کی پرزور الفاظ میں تائید کرتے ہوئے نظر آئے ۔
لکھتے ہیں : إن أحق الناس بأن تكون هي الفرقة الناجية أهل الحديث والسنة الذين ليس لهم متبوع يتعصبون له الا رسول الله صلي الله عليه وسلم وهم أعلم الناس بأقواله وأحواله وأعظمهم تمييزا بين صحيحها وسقيمها"[27]
يعنی ناجی ہونے کا سب سے زیادہ حقدار اہل حدیث وسنت ہیں ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی کو اپنا مقتدا نہیں سمجھتے اور وہ نبی کریم ﷺ کے اقوال وافعال کو سمجھنے اور ان کے درمیان صحیح اور سقیم کی پہچان میں سب سے زیادہ دسترس رکھتے ہیں ۔
- صحابہ کرام کی جماعت:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے نزدیک ناجی فرقہ سے مراد صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی جماعت ہے ۔ فرماتے ہیں :
"من کا ن منکم مستنا فليستن بمن قد مات فإن الحي لا تؤمن عليه الفتنة، أولئك أصحب محمد، كانوا أفضل هذه الأمة، أبرها قلوبا، وأعمقها علما، وأقلها تكلفا، قوم اختارهم الله لصحبة نبيه وإقامة دينه، فاعرفوا لهم فضلهم واتبعوهم فى آثارهم وتمسكوا بمن استطعتم من أخلاقهم ودينهم فإنهم كانوا على الهدي المستقيم".[28]
یعنی تم میں سے جو ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کو چاہئے کہ ان سے ہدایت حاصل کرے جو ہم میں نہیں رہے ، کیونکہ زندے فتنوں سے مامون نہیں ہوسکتے ۔ وہ اصحاب رسول ﷺ ہیں، جو اس امت کے سب سے افضل ترین لوگ تھے ۔ پاکیزہ قلوب والے ، گہرا علم والے اور بے تکلف ہستیاں تھیں ۔ جنہیں اللہ تبارک وتعالی نے اپنے بنی ﷺ کی صحبت اور دین کی اقامت کے لیے چنا۔ لہذا ان کی فضیلت پہچانو اور ان کے نقشِ قدم پر چلو اور جتنا ہوسکے ، ان کے عقیدے اور اخلاق واطوار کو اپناؤ ، کیونکہ وہ ہدایت کے سیدھے راستے پر تھے۔
بعد میں عمر بن عبدالعزیز نے اس موقف کی پرزور تائید کی ، ان کے علاوہ ابن قیم نے تفصیل سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی افضلیت کو ثابت کرنے کے لیے اپنی کتاب میں اس پر چھیالیس دلائل دئیے ۔ [29]
- سواد ِ اعظم:
بعض علمائے کرام کے نزدیک ناجی فرقہ سے مراد سوادِ اعظم ہیں ۔ یہ حضرات اپنی دلیل میں ان احادیث کو پیش کرتے ہیں ، جس میں صراحۃ سواد اعظم کا لفظ مذکور ہے ، مثال کے طور پر ملاحظہ کیجئے :
" عن أنس بن مالك رضي الله عنه يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم "إن أمتي لا تجتمع على ضلالة، فإذا رأيتم اختلافا فعليكم بالسواد الأعظم".[30]
یعنی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: میری امت گمراہی پر کبھی اکھٹی نہیں ہوسکتی ا ور جب تم ان میں اختلاف دیکھو تو سواد اعظم کی پیروی کرو۔
اس حوالے سے ایک اور حدیث وہی ہے جو حضرت ابو امامہ سے منقول ہے : "(قال رسول الله صلي الله عليه وسلم: افترقت بنو اسرائيل على إحدي وسبعين فرقة، تزيد عليها أمتى، كلها فى النار إلا السواد الأعظم).[31]
يعنی بنی اسرائیل 71 فرقوں میں بٹ گئے اور میری امت ان سے زیادہ فرقوں میں بٹ جائے گی ، جن میں ماسوائے ایک کے تمام فرقے جہنم میں جائیں گے اور وہ نجات والا فرقہ سواد اعظم ہوں گے ۔
سواد اعظم کے لفظ کی تفسیر میں ابن منظور کہتے ہیں : " السواد الأعظم جملة الناس ومعظمهم الذين يجتمعون على طاعة السلطان وسلوك النهج المستقيم".[32] يعنی سواد اعظم سے مراد لوگوں کی وہ کثیر تعداد ہے جو سلطان کی اطاعت کے اندر رہتے ہوئے راہ راست پر چلیں ۔
شاطبی اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیں :" فعلى هذا القول يدخل فى الجماعة مجتهد والأمة وعلماءها وأهل الشريعة والعاملون بها، ومن سواهم داخلون حكمهم لأنهم تابعون لهم ومقتدون بهم، فكل من خرج عن جماعتهم فهم الذين شذوا، وهم نهبة الشيطان، ويدخل فى هؤلاء جميع أهل البدع". [33]
یعنی اس بنیاد پر جماعت کا لفظ علمائے امت ، اہل شریعت اور علماء کی اقتداء کے اندر رہتے ہوئے شریعت پر عمل کرنے والے لوگوں کو شامل ہوجاتا ہے ۔ اور جولوگ اس جماعت سے نکل جائیں تو درحقیقت وہی انتہاء پسند اور شیطان کے پیروکار ہیں اور ان میں تمام اہل بدع شامل ہیں ۔
- مجاہدین کی جماعت:
تعجب کی بات یہ ہے کہ بہت ہی کم لوگوں نے جماعت سے مراد مجاہدین کی جماعت لی ہے ۔ حالانکہ حدیث کے اندر يقاتلون کا لفظ چیخ چیخ کر اس بات کو بیان کر رہی ہے کہ یہاں پر مجاہدین ہی اس حدیث کے مصداق ہیں ۔ لیکن دوسری طرف امام بخاری اس حدیث کی تفسیر میں يقاتلون کی تفسیر اہل ِ علم سے کرتے ہیں ۔ ایک دوسری روایت اس طرح ہے :
أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ :" لا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي يُقَاتِلُونَ عَلَى الْحَقِّ , ظَاهِرِينَ عَلَى مِنْ نَاوَأَهُمْ , حَتَّى يُقَاتِلَ آخِرُهُمُ الْمَسِيحَ الدَّجَّالَ [34]"
کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا: میری امت میں ایک جماعت ایسی ہوگی جو ہرزمانے میں حق پر قتال کرے گی اور اپنے مخالفیں پر غالب رہے گی ۔ یہاں تک کہ ان میں آخری شخص دجال سے جنگ کرے گا۔
- روایات کا عمومی تجزیہ اور ترجیح :
درج بالا روایات سے پتہ چلتا ہے کہ گمراہ فرقوں کی تعیین میں مسلمانوں کے مابین شدید قسم کا اختلاف ہے ، لہذا اگر ان روایات کاموضوعی انداز میں مطالعہ کیا جائے تو لگتا ہے کہ ساری امت معاذاللہ گمراہ ہوچکی ہے اور ان میں کوئی بھی راہ ِحق پر نہیں ، جو کہ ایک خلاف ِ واقعہ بات ہے ۔اور ناجی فرقہ کی تعیین میں ان کے مابین اختلاف کے ہوتے ہوئے کسی ایک کو ناجی قرار دینا بھی ایک کھٹن فیصلہ ہے ، لہذا ہم ذٰیل میں تحقیقی اور محتاط انداز میں ان روایات کا عمومی تجزیہ کرکے کسی ترجیحی پہلو کو متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
احقر کی عاجزانہ رائے یہ ہے کہ متاخرین میں جو ایک تکفیری سوچ کی ارتقاء ہوئی تھی وہ قرن ِ اول میں مکمل طور پر معدوم تھی ، چنانچہ معمولی فروعی مسائل پر ایک دوسرے کی تکفیر کرنے سے آج امت ِ مسلمہ اس موڑ پر آپہنچی کہ ان میں ناجی فرقہ کی تعیین کی ضرورت پڑ گئی ، لیکن جب ہم قرون ِ اولی کی بات کرتے ہیں تو یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں تکفیری سوچ تقریبا معدوم تھی۔ خوارج کی تکفیر میں متاخرین نے بہت ہی شدت سے کام لیا حالانکہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ان کا بارے میں پوچھا جاتا ہے تو فرماتے ہیں :
" أكفار هم؟ قال: من الكفر فروا، قيل: فمنافقون؟ قال: إن المنافقين لا يذكرون الله الا قليلا، قيل: فما هم ؟ قال: هم قوم أصابتهم فتنة وقاتلونا فقاتلناهم".[35]
یعنی حضرت علی سے پوچھا گیا ، کیا وہ(خوراج ) کافر ہیں ؟ حضرت علی نے جواب دیا: وہ کفرہی سے تو بھاگے ہیں ۔ پوچھا گیا: تو کیا وہ منافقیں ہیں ؟ فرمایا: کہ منافقین تو اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں ۔ پوچھا گیا؟ پھر وہ کون ہیں ؟ فرمایا: وہ ایک جماعت ہے جو فتنے میں مبتلا ہوگئی ہے ۔ چنانچہ انھوں نے ہم سے جھگڑا کیا تو ہم نے بھی ان سے جھگڑا کیا ۔
اس رو سے جب ہم محققین حضرات کی عبارات کا جائزہ لیتے ہیں تو وہ عموما تکفیر کے معاملے میں بہت ہیں محتاط نظر آتے ہیں ، صفی الدین بغدادی لکھتے ہیں :
" والحقيقة أنه لا يرد كل مكفر ببدعته لأن كل طائفة تدعى أن مخالفيها مبتدعة، وقد تبالغ وتكفر مخالفيها فلو أخذ ذالك على الإطلاق لاستلزم تكفير جميع الطوائف". [36]
يعني حقیقت یہ ہے کہ ہر تکفیر کرنے والے کی بدعت کو بنیاد بنا کر اس پر رد نہ کیا جائے ِ، کیونکہ ہر فرقہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مخالف فرقہ بدعتی ہے ، چنانچہ اس میں مبالغہ ہوسکتا ہے اور بات تکفیر تک پہنچ سکتی ہے اور اگر اس بنیاد پر تکفیر کا سلسلہ شروع کیاجائے تو تمام گروہوں کی تکفیر ہوجائے گی۔
خلاصہ یہ کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کے حوالےسے اپنے نظریات کی تصحیح کرلیں۔ اور یہ جان لیں کہ ان کے درمیان جنم لینے والا ہر فرقہ امت مسلمہ ہی کا ایک قسم ہے نہ کہ قسیم اور ان میں سے ہر ایک مسلمانوں کا ایک فرقہ ہے نہ کہ اسلام کے مقابلے میں ایک الگ ملت ہے ۔ تاہم وہ لوگ ان سے ضرور مستثنی ہیں جو اسلامی عقائد میں تحریف کے مرتکب ہوئے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ روایات کے تتبع سے پتہ چلتا ہے کہ جن لوگوں نے ناجی فرقہ کی تفسیر کرنے کی کوشش کی ہے ، انھوں نے اس موضوع سے متعلق تمام نصوص کو سامنے نہیں رکھا ، بلکہ ہر ایک نے بعض نصوص کو موضوع ِ بحث بنایا ، چنانچہ ان کے بارے میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ انھوں نے کسی حد تک حق بات کہی ہےِ، تاہم مکمل بات نہیں کہی ۔ افلاطون کے ہاں ان حضرات کی مثال یہ ہوسکتی ہے :
" إن الحق لم يصبه الناس في كل وجوهه والخطأ فى كل وجوهه بل أصاب كل إنسان جهة، ومثال ذالك عميان انطلقوا الى فيل وأخذ كل منهم جارحة منه وظنها فيلا". [37]
يعنی حق کو کسی نے مکمل جہات سے نہیں پہچانا اور نہ ہی کسی نے باطل کو تمام جہات سے پہچانا بلکہ ہر انسان نے ان میں سے ایک جہت کو پایا۔ اس کی مثال ان اندھوں کی سی ہے ، جنہوں نے ہاتھی کو ہاتھوں سے ٹٹولا اور ہر ایک نے ایک ایک عضو کو ہاتھ لگاکر اسی عضو کو ہاتھی سمجھ لیا۔
روایات کے اندر امت کا لفظ ضمیر متکلم کی طرف مضاف ہے ، اور متکلم ظاہر ہے رسول اللہﷺ ہیں ، تو اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ میری امت تفرقے میں پڑ جائے گی ۔ اس وجہ سے علماء کے ہاں لفظ ِ امت کی تحدید میں اختلاف ہوا کہ یہاں پر امت سے مراد امت دعوت ہے یہ امت اجابت ؟
اس حوالے سے قدیم علماء کی رائے یہ ہے کہ امت سے مراد امتِ اجابت یعنی امتِ مسلمہ ہی اس سے مراد ہے ۔ جیسا کہ بیضاوی کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے .[38] لیکن ظاہر ہے۔ اس توجیہ کی رو سے اکثر امت مسلمہ کا جہنمی ہونا لازم آتا ہے ۔ اس وجہ سے معاصرین میں ایک محقق سقاف علی کاف کی تحقیق یہ ہے کہ امت سے مراد یہاں پر امت دعوت ہے ۔ اور جہنمی وہ لوگ ہیں جنہیں اسلام کی دعوت پہنچی اور انھوں نے اسے قبول نہیں کیا اور ناجی فرقہ اس صورت میں امت مسلمہ قرار پائے گا۔ [39]
البتہ احقر کی عاجزانہ رائے یہ ہے کہ سقاف صاحب نے یہاں پر حقیقت سے راہِ فرار اختیار کرنے کی کوشش کی ہے ، کیونکہ حدیث کے الفاظ پر اگر غور کیا جائے تو یہود و نصاری کا تذکرہ وہاں پر صراحت کے ساتھ موجود ہے ، اب ان کو امت دعوت قرار دے کر امتِ مسلمہ کو ناجی قرار دینا یقینا ایک شدیدعلمی تسامح ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دراصل مسئلہ یہاں پر امت کے تفرقے کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ حدیث کے اگلے جز میں وارد شدہ عبارت کے حوالے سے ہے ، جو ان فرقوں کے انجام کی تحدید کرتا ہے ، اور وہ زیادتی اکثر علماء کے ہاں ثابت بھی نہیں ۔
گزشتہ اقوال کا اگرجائزہ لیا جائے تو جو لوگ اس فرقے سے مراد سوادِ اعظم لیتے ہیں تو ان کے نزدیک اختلاف کی صورت میں فیصلہ اکثریت کی حق میں ہوجاتا ہے ، لیکن یہ اس صورت میں قابل ِ قبول ہوسکتا ہے ، جب اسلامی دنیا پر عادل حکمران موجود ہو اور وہ قرآن وسنت کے مطابق حکومت کرتاہو ۔ جیسا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا دور تھا۔ البتہ بعد کے ادو ار میں مسلم حکمرانوں نے قرآن و سنت کو پسِ پشت ڈالا اور طاغوت پر اپنے فیصلے کرنے لگے ۔ تو اس صورت میں اگر کثیر تعداد میں لوگ ان حکمرانوں کی حمایت پر کمر بستہ ہو بھی جائیں، تو انہیں سوادِ اعظہم نہیں کہا جاسکتا۔ ابن کثیر کہتے ہیں :
"فأهل الحق هم أكثر الأمة ولا سيما في زمان الصدر الأول لا يكاد يوجد منهم من هو على بدعة، وأما فى الأعصار المتأخرة فلا يعدم الحق عصابة يقومون به".[40]
یعنی اہلِ حق امت کی اکثریت ہے ، خصوصا صدر ِ اول کے زمانے میں کہ جب ان میں سے کوئی بھی بدعت پر نہیں تھا۔ تاہم بعد کے زمانوں میں بھی ہمیشہ ایک جماعت حق پر قائم رہی ۔
اس سے معلوم ہوا کہ عصبیت ، لسانیت اور اندھی تقلید کے اس دور میں اکثریت کو حق کے لیے معیار قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ بلکہ حق پر قائم جماعت چاہے وہ مٹھی بھر ہی کیوں نہ ہوں ، سواد ِ اعظہم کہلائے گی۔
جہاں تک اہل علم کی جماعت کا تعلق ہے تو یقینا وہ اہل حل وعقد ہیں اور انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں ، اور ان کے سینوں میں ایک عظیم امانت ہے ، اس لحاظ سے وہ لوگوں کے مقتداء ہیں ، لیکن معاملہ اس صورت میں بگڑتا ہے جب یہی علماء حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونے بن جائیں اور رحمن کی بجائے سلطان کی رضا کو ترجیح دینے لگے۔ تو کیا یہ اس وقت بھی ناجی کہلائیں گے؟ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ نے فرمایا:
"مثل أصحابي في أمتي كالملح فى الطعام، لا يصلح الطعام إلا بالملح". قال الحسن: فقد ذهب ملحنا، فكيف نصلح؟[41]
یعنی میری امت میں میرے اصحاب کی مثال کھانے میں نمک کی طرح ہے ، اور کھانا نمک ہی سے ٹھیک بنتا ہے ۔ حضرت حسن اس حدیث کی ذیل میں فرماتے ہیں : ہمارا نمک ہی ختم ہوگیا تو ہم کیسے ٹھیک ہوجائیں۔ لہذا اس قسم کے علماء کو اہل علم کہنا ہی درست نہیں، چہ جائے کہ ہم انہیں جماعت کا مصداق قرار دیں۔
جہاں تک اہلِ حدیث کا تعلق ہے تو یقینا ان کو اہلِ سنت کہنے پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں ، البتہ اہل ِ سنت والجماعت کہنا یقینا محل ِ نظر ہے، کیونکہ اہلِ سنت والجماعت کی اصطلاح حضرت حسن اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان خلافت کے معاملے میں صلح کے بعد رائج ہوا ۔ اور اسی سال کو جماعت کا سال کہا جانے لگا۔ تو گویا اس وقت برسرِ اقتدار پارٹی کو جماعت اس لیے کہا گیا تاکہ اسےاپوزیشن سے جدا کیا جاسکے ۔ جو اس وقت شیعوں اورخوارج کی صورت میں موجود تھی ۔ چنانچہ برسرِ اقتدار طبقہ پورا اہل حدیث پر مشتمل نہیں تھا۔ چنانچہ عبدالقاہر بغدادی کہتے ہیں :
" إن أهل السنة ثمانية أصناف فهم أهل الحديث والفقهاء وأهل التفسير واللغة والزهاد والمرابطون فى الثغور وأهل الكلام الذين تبرأوا من التشبيه والتعطيل".[42]
يعنی اہل ِ سنت کے آٹھ اصناف ہیں ۔ جو کہ اہل ِ حدیث ، فقہاء ، اہل تفسیر ، اہل لغت، صوفیاء ، مجاہدین اور وہ اہل ِ کلام حضرات جو تشبیہ اور تعطیل سے بری ہیں ۔
جہاں تک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا تعلق ہے تو بلاشبہ صحابہ کرام کے زمانے کو خیرالقرون کہا گیا ہے ۔ اور یقینا وہ روئے زمین کی سب سے بہترین جماعت ہے تاہم صحابہ کرام کو جماعت کہنے کا مطلب ان کے بعد آنے والوں کے لیے یہ دعوت ہے ۔ کہ وہ ان کے نقشِ قدم پر چلیں ۔
جن لوگوں کے خیال میں جماعت سے مراد وہ لوگ ہیں جو ایک حکمران کے ماتحت جمع ہوتے ہیں ، تو یہ رائے باہمی قتل وقتال کے سد باب کے حوالے سے تو قابل قبول ہے ، لیکن اس سے معاملہ سلجھتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ دراصل اختلاف کی وجہ صرف امامت نہیں ہے بلکہ بسا اوقات دیگر دینی اصولوں کے حوالے سے بھی امت کے مابین اختلاف ہوتا رہا ہے۔
حرف ِ آخر:
درج بالا تفصیل کے بعد یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ لفظ ِ جماعت کی تفسیر میں اختلاف ایک نوعی قسم کی ہے ، اور اس میں حقیقی اختلاف نہیں ہے ۔ چنانچہ یہ بات ضروری نہیں کہ ناجی فرقہ سے مراد کوئی خاص جماعت ہو، بلکہ ہر فرقے میں سے کچھ لوگ راہِ حق پر ہوسکتے ہیں اور ان کا مجموعہ ناجی فرقہ کہلائے گا۔ ابن کثیر کہتے ہیں :
"وقد ادعى كل قوم فى إمامهم أنه المراد بهذا الحديث، والظاهر ـ والله اعلم ـ أنه يعم جملة أهل العلم من كل طائفة، وكل صنف من أصناف العلماء، من مفسرين ومحدثين وفقهاء ونحاة ولغويين إلی غير ذالك من الأصناف".[43]
يعنی ہر فرقے نے یہ سمجھ لیا کہ حدیث سے مراد ان کا امام ہے ۔ لیکن (واللہ اعلم ) ظاہر یہ ہوتا ہے کہ حدیث ہر جماعت کے اہلِ علم حضرات کو شامل ہے ۔ اور مفسرین، محدثین، فقہاء، نحویین اور لغویین تما م کے تمام اس حدیث کا مصداق ہیں ۔
اس رائے کی تائید نووی کے کلام سے بھی ہوتی ہے ، چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
" يجوز أن تكون الطائفة جماعة متعددة من أنواع الأمة مابين شجاع وبصيربالحرب ، وفقيه ومفسر ومحدث وقائم بالأمر بالمعروف والنهي عن المنكر وزاهد وعابد ، ولا يلزم اجتماعهم ببلد واحد".[44]
یعنی اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں کہ جماعت سے مراد امتِ مسلمہ کے مختلف کرداروں کے حامل افراد ہوں ، بہادر اور جنگجو ، فقیہ ، مفسر، محدث ، امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والا ، زاہد ، عبادت گزارسب اس کے مصداق ہوں ، اور یہ بات بھی ضروری نہیں کہ وہ کسی ایک علاقے میں ہوں۔
دوسری بات یہ ہے کہ اختلاف ِ امت سے متعلق روایات بنی نوعِ انسان کے حوالے سے اللہ تبارک وتعالی کی سنت کو بتارہی ہیں ۔ کہ ہر زمانے میں کوئی بھی امت ایسی نہیں رہی جو اختلافات کا شکار نہ ہوئی ہو۔ چاہے وہ یہود ہوں ، نصاری ہوں یا امت ِمسلمہ ہوں۔
اس مطالعے کی روشنی میں یہ بات بھی اخذ کی جاسکتی ہے کہ امتِ مسلمہ کی بقاء دو چیزوں میں مضمر ہے : کلمہ توحید اور اتحاد واتفاق نیز امت کے صفوں میں اتحاد واتفاق کا قیام ایک عظیم دینی فریضہ ہے۔
مطالعہ سے یہ بھی پتہ چلا کہ اصل میں مذموم اختلاف اصولی اختلاف ہے ، جہاں تک فروعی اختلاف کا تعلق ہے تو اس کا وقوع کوئی نقصان دہ چیز نہیں۔
اختلافِ امت کے حوالے سے وارد روایات میں عدد کا تذکرہ کثرت کو بیان کرنے کے لیے آیا ہے نہ کہ حصر کو بیان کرنے کے لئے۔
مختلف اسلامی فرقوں کا یہ دعوی کرنا کہ ان میں سے ہرایک ناجی فرقہ ہے ، درست نہیں۔ ہم قطعا یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جو شیعہ ، خوارج اور معتزلہ وغیرہ کہتے ہیں ، سو فیصد غلط ہے ۔ اور نہ ہم اہل سنت کے بارے میں قطعا یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ سو فیصد درست ہیں ۔ بلکہ ان سے بھی کسی جزئیے میں غلطی کا احتمال ہے ۔
جب قرآن نے اہلِ کتاب سے متفقہ نکات پر مناقشے اور گفت وشنید پر زور دیا ہے تو اسلامی فرقوں کے مابین مناقشے اور ڈائیلاگ کی فضاء بدرجہ اولی قائم رہنی چاہیے ۔ تاکہ ہم یہ ثابت کرسکے کہ امت مسلمہ باوجود مختلف نقطہ ہائے نظر کے بہر حال ایک ہی امت ہے ۔
حوالہ جات
- ↑ ۱. الحاکم ، المستدرک علی الصحیحین، ج۔ 1۔ ص ۔ 47-48
- ↑ . ـ الجامع الصحيح ـ أبواب الإيمان، باب افتراق هذه الأمة، 2779
- ↑ .أبوداود، سنن أبي داودو كتاب السنة، باب شرح السنة، 4597
- ↑ َََ۔ ابن ماجۃ : سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب افتراق الامم، 3992
- ↑ . ابن ماجة، مرجع سابق، 3993
- ↑ َ۔ حاکم نیسابوری، المستدرک علی الصحیحین، ج۔ 1، ص۔ 217-218
- ↑ .جمعة ، عبد الرحمن بن محمد النجدي, مجموع فتاوي شيخ الاسلام احمد بن تيمية، ج ـ 3، ص ـ 347، دار عالم الكتب، الرياض، 1991 م
- ↑ . ابن کثیر الدمشقی ، النہایۃ فی الفتن والملاحم، تحقیق، محمد احمد عبدالعزیز ۔ ج ۔ 1، ص۔ 35-36
- ↑ . الرازي ، فخرالدين, التفسير الكبير, ج-22, ص ـ 219
- ↑ َ ۔ بدوی ، عبدالرحمن، مذاہب الاسلامیین، ج ـ 1، ص ۔ 34، دارالعلم للملایین، 1998
- ↑ ۔ ابن الجوزی ، ابوالفرج الرحمن بن علی، الموضوعات، تحقیق: محمود القیسیۃ، ج۔ 1 ص ۔ 368، مؤسسۃ النداء ، ابو ظبی، 2003۔
- ↑ . القرطبي, الحامع لأحكام القرآن ج ـ 14, ص ـ 130
- ↑ . الرازي, فخر الدين, التفسير الكبير, ج ـ 23 ص: 104
- ↑ . الشهرستاني ، الملل والنحل ، ج ـ 1، ص ـ 28، مكتبة ومطبعة محمد علي صبيح ، القاهرة، 1999
- ↑ . أبو منصور، عبد القاهر بن طاهر البغدادي ، الفرق بين الفرق ، تحقيق: محمد زاهد كوثري، ص ـ 19، دار احياء التراث العربي، بيروت، 1367هـ
- ↑ . أبو المظفر، اسفرائني، التبصير فى الدين وتمييز الفرق الناجية من الفرق الهالكة، ص ـ 22-23، المكتبة الأزهرية، القاهرة، 1999.
- ↑ . سورة التوبة: 8
- ↑ . سورة الحاقة: 32
- ↑ . البقرة : 261
- ↑ . ابن ماجة، سننن ابن ماجة، 2274
- ↑ . البخاري، صحيح البخاري، باب أمور الإيمان، ج ـ 1، ص ـ 8
- ↑ . الهلالي، سليم بن قيس ، كتاب سليم بن قيس، تحقيق، محمد باقر خوئيني، ص ـ 169، ايران، 1997
- ↑ . بخاري، صحيح البخاري، كتاب الاعتصام بالكتاب والسنة، ج ـ 8 ص ـ 149
- ↑ . أبو حامد، الغزالي، المنخول من تعليقات الأصول،ج ـ 1 ص ـ 303، دارالفكر، دمشق، 1980.
- ↑ َ السبكي، علي بن عبد الكافي، الابهاج فى شرح المنهاج، ج ـ 2، ص ـ 389، مكتبة الكليات الأزهرية، قاهرة، 1981
- ↑ ۔ الترمذي ، جامع الترمذي، كتاب الفتن، باب ما جاء فى الأئمة المضلين، 2229
- ↑ ََ ابن تيمية، مجموع الفتاوى، ج ـ 3، ص ـ 347
- ↑ . ابن ابی العز ، شر ح العقيدة الصحاوية، ص ۔ 432
- ↑ َ۔ ابو عبداللہ، محمد بن ابو بکر بن القیم ِ أعلام الموقعين عن رب العالمين، ج ۔ 4، ص ۔ 123، مكتبة الكليات الآزهرية, 1968
- ↑ . ابن ماجة، سنن ابن ماجة، كتاب الفتن، باب السواد الأعظم، 3950.
- ↑ .الطبراني، المعجم الكبير، ج ـ 8، ص ـ 274
- ↑ َ ابن منظور، لسان العرب، مادة (سود)، و الجزري، ابن الأثير، النهاية فى غريب الحديث والاثر، ج ـ 2، ص ـ 377، دار الكتب العلمية، بيروت، 1997. و الزبيدي، تاج العروس فى جواهر القاموس، ج 8، ص228، دار الهداية للطباعة والنشر، والتوزيع، بيروت، 1999.
- ↑ . الشاطبي، ابراهيم بن موسي، الاعتصام، ص ـ 260 ـ 261، المكتبة التجارية الكبرى، القاهره، 1995.
- ↑ َ أبو داود ، سنن أبو داود، 2128
- ↑ َ عبد الرزاق ، مصنف عبد الرزاق، ج ـ 10، ص ـ 150،
- ↑ . بغدادي، صفي الدين، قواعد الاصول ومعاقد الفصول ، تحقيق: أحمد محمد شاكر، ص ـ 256 عالم الكتب، بيروت، 1986
- ↑ . أبو زهره، محمد ، تاريخ المذاهب الاسلامية، ص ـ 7ـ 8 ، دار الفكر العربي ، القاهرة ، 1991 .
- ↑ . المناوي ، فيض القدير، ج ـ 6 ـ ص ـ 396
- ↑ . سقاف علي الكاف، حقيقة الفرقة الناجية، ص ـ 92، 93، دار العلم، القاهرة، 1999،
- ↑ . ابن كثير، النهاية فى الفتن والملاحم، ج ـ 1، ص ـ 36، دار احياء التراث العربي، بيروت 1992.
- ↑ . الطيبي، شرح الطيبي على مشكاة المصابيح، ج ـ 12 ـ ص ـ 3845، دارالكتب الكبري، القاهرة، 1998،
- ↑ . بغدادي، عبد القاهر، الفرق بين الفرق، ص ـ 300 ـ 303 ، مر تفصيله
- ↑ . ابن كثير، النهاية فى الفتن والملاحم، ج ـ 1، ص ـ 39.
- ↑ . المناوي ، فيض القدير، ج ـ 6، ص ـ 396
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |