Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 31 Issue 2 of Al-Idah

اسلام اور دوسرے مذاہب میں خدا کے تصور کا تحقیقی و تقابلی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

31

Issue

2

Year

2015

ARI Id

1682060034497_411

Pages

44-65

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/163/155

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/163

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

لفظ خدا اور اس کا مدلول اگرچہ بظاہر عام فہم معلوم ہوتا ہے، تاہم مختلف مذاہب میں خدا کے تصور کا اگر مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ در حقیقت اس لفظ کا مدلول مختلف زمانوں میں ایک طویل ارتقائی مراحل سے گزرا ہے۔ چنانچہ اساسی عہد کے انسان کے ہاں اس کے تعددنانہ مفہوم اور پھر تفرد کا مرحلہ اور آخر میں یہ لفظ توحید کے مرحلے پر پہنچ کر اپنا مفہوم مکمل کرتا ہے، چونکہ دین انسان کی ایک روحانی ضرورت ہے ، اور خدا کے حوالے سے انسان جو نظریہ رکھتا ہے، اس کا اثر براہ راست اس کے کردار ، سلوک ، اخلاق اور پھر معاشرے پر پڑتا ہے، اسی وجہ سے آج تک کوئی بھی ملت مذہب کے عنصر کو مکمل طور پر نظر انداز نہ کرسکی ، اور نہ ہی تاریخ میں ہمیں کوئی ایسی تہذیب نظر آتی ہے ، جو مذہب سے مکمل طور پر بیزار ہو کر بام عروج کو پہنچی ہو، گویا کسی بھی معاشرے کی ترقی میں دین اور دینی نظریات بہت ہی بنیادی کردار کا حامل ہیں ۔ چونکہ مذہب کے حوالے سے انسان کی تمام سرگرمیوں کا محور تصورِ خدا ہے اس وجہ سے زیرِ نظر مقالہ میں اس حوالے سے مختلف مذاہب کے عقائد کا اجمالی علمی جائزہ پیش کرنے کی کوشش کی گئ ہے ۔

بابلی مذاہب میں خدا کا تصور:

بابلیوں کے ہاں خدا کے بارے میں مختلف قسم کے نظریات پائے جاتے تھے۔اہل ِ بابل خدا کے حوالے سے تعدد کے قائل تھے، تاہم ان کے ہاں خداوں کے مختلف درجات تھے۔ چنانچہ وہ توحید کی بجائے تفرید کے قائل تھے۔ یعنی وہ کچھ خداوں کو انفرادی حیثیت دیتے تھے لیکن ساتھ ساتھ دوسرے معبودوں کو بھی مانتے تھے[1]۔ بابلیوں کے معبودان عمومی طور پر کائنات کے مختلف مظاہر ہوا کرتے تھے ۔ جن میں افلاکی مظاہر کے معبودان کو بلند درجہ حاصل تھا۔ چنانچہ فلکی خدا ﴿انو﴾ ان کے ہاں کائنات میں حقیقی تصرف کا مالک تھا[2]۔ دوسرا مرتبہ فضاء اور ہواوں سے تعلق رکھنے والے معبودان کا ہوتا تھا۔ چنانچہ انلیل جو کہ فضاوں سے تعلق رکھنے والا خدا تھا۔آنو کے بعد دوسرے مرتبے پر فائز تھا، اس کے بعد زمینی خداوں کا مرتبہ تھا۔ چنانچہ آنکی ﴿زمین کا سردار ﴾ جو کہ حکمت و دانائی اور قوت تخلیق کا مالک تھا۔ تیسرے درجے پر فائزتھا۔ اس کے علاوہ آنو کے بیٹے عشتار اور قمر﴿ چاند﴾ کو کائنات کے امور چلانے میں اپنے باپ کا معاون سمجھا جاتا تھا[3]۔

بابلیوں کے مطابق آنکی نے انسان کو پانی اور مٹی سے پیدا کیا اور اس کے اندر زندگی کی روح پھونکی اور آنکی نے انسان کی تخلیق کے سلسلے میں اپنے بیٹے مردوخ سے بھی مدد مانگی[4]۔ اسی طرح چاند بھی ان کے ہاں خدا تصور کیا جاتا، چنانچہ جزیرہ عرب اور شام کی علاقوں میں لوگ چاند کی پرستش کرتے[5]۔ اس کے علاوہ بابلیوں کے اور بھی بہت سے معبودان تھے جن کی تعداد عقاد کے مطابق ۴ ہزار سے متجاوز ہے ۔ چنانچہ لکھتے ہیں "يصل ارباب بابل الى اربعة آلاف رب ، لها انداد من الشياطين والعفاريت " یعنی بابلیوں کے معبودان کی تعداد چار ہزارتک پہنچتی ہے۔ اور ان کے علاوہ بہت سے شیاطین اور جنات تھے جو ان خداوں کے ہم پلہ تھے[6]۔ بابلیوں کے ہاں اوتو ﴿سورج﴾ دیوتا عدل وانصاف اور حق کا دیوتا تھا۔ اور سومریوں کے ہاں یہ وہی خدا تھا۔ جس نے حمورابی پر ان کے قوانین کا الہام کیا تھا[7]۔ بابلی قوم اپنے معبودوں کی خوب تعظیم کرتی تھی اور ان سے ہر وقت خائف رہتی تھی۔ چنانچہ مشہور بابلی بادشاہ اشور نے اپنے معبودان کے مجسمے بنانے کے بعد ان کے سامنے یوں دعاکی ۔ اے ۔ میرے معبودو۔ یقینا میں تم سے بہت ڈرتا ہوں ۔ مجھے طویل زندگی اور دل کا سرور عطا فرمائیں۔[8]

یوں بابلی قوم کا خدا کے حوالے سے تصور ثالوثیت سے شروع ہوکر بت پرستی پر اختتام پزیر ہوتا ہے۔ اور بابلی قوم خدا کےحوالے سے توحید کی بجائے تفرید کا قائل نظر آتی ہے ۔ اس کے علاوہ ان کے بعض دیوتا بھلائی سے قطع نظر شر کے خالق سمجھے جاتے تھے ۔ اوربعض خیروشر دونوں کا خالق تصور کئے جاتے تھے[9]۔

مصری مذاہب میں خدا کا تصور:

سابقہ اقوام میں اہل مصر سب سے زیادہ متدین تھے۔ چنانچہ ان کی تمام سرگرمیوں اور روز مرہ زندگی میں مذہب اور مذہبی تصورات کا کافی دخل تھا[10]۔ چنانچہ آثار قدیمہ کے ماہرین کے توہمانہ تصویروں میں بھی وہ کسی معبود کے سامنے عبادت کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح ان کی طرف منسوب مخطوطات اور کتابیں بھی چند مذہبی صحیفوں کے مجموعوں سے عبارت ہیں [11]۔ مصری مذہبی تاریخ اس وجہ سے امتیازی حیثیت کا حامل ہے۔ کیونکہ اس قوم نے مختلف زمانوں میں مختلف قسم کے مذہبی نظریات کو اپنایا۔ چنانچہ کسی وقت یہ مقدس ارواح کی پیرو کار رہے ، کبھی وہ مرنے کے بعد جزاء وسزا کے قائل بن گئے، کبھی انھوں نے مردوں کی پرستش کی ، اور کبھی ان میں اسلاف پرستی ، مظاہر پرستی ، حیوان پرستی اور بادشاہ پرستی زوروں پر رہی[12]۔ بابلیوں کی طرح مصریوں کے معبودان بھی یا تو فلک کے مظاہر ہوتے تھے جیسے چاند سورج وغیرہ یا زمین کے مختلف مظاہر ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح مصریوں کے ہاں حیوان پرستی بھی ایک عرصے تک عروج پر رہی ۔ تاہم ابتداء وہ ان حیوانات کو مختلف معبودان کے علامات کے طور پوجتے تھے مثلا بکرے کے سر کو وہ ﴿توت ﴾ دیوتا کی نشانی قرار دیتے تھے اور اس طرح بچھڑے کے سر کو ﴿فتاح﴾ دیوتا کی نشانی قرار دے کر پوجتے تھے ۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ نشانیاں اپنی رمزی علامات سے ہٹ گئیں اور بطور معبودان اصلی ان کی پرستش ہونے لگی[13]۔ اس کے علاوہ مصریوں کے ہاں بھی خدا کا تصور توحید کی بجائے تفرید پر قائم تھی اور وہ متعدد معبودان کے ہوتے ہوئے ایک معبود اعظم کے قائل تھے[14]۔

فارسی مذاہب میں خدا کا تصور

ایشائی اقوام میں تاریخی لحاظ سے فارسی مذہب بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس کا ہندی، طورانی، بابلی اور یونانی مذاہب سے خصوصی ارتباط ہے۔ چنانچہ آج بھی فارسی مذہب کا یہودی اور مسیحی مذاہب کے ساتھ تاریخی لحاظ سے گہرا اتصال پایا جاتا ہے[15]۔ مذہب فارسی اور اس سے متفرع ہونے والے دوسرے مذاہب نظریہ ثنویت پر قائم تھے۔ دراصل ایران کا علاقہ فلسفہ ثنویہ کا گہوارہ تھا[16]۔ امام شہرستانی لکھتے ہیں ۔ "ان هذه الثنويه الزم سمات المذاهب المجوسيه لانها تظهرفي كل مذهب بلا استثناء[17]۔ یعنی یقینا مذکورہ عقیدہ ثانویت مجوسی مذاہب کے لیے ایک لازمہ ہے، کیونکہ یہ مجوسیوں کے ہر مکتبہ فکر میں ظاہر ہوتا ہے۔ مجوسی مذاہب میں زرتشت ایک خدا کے تصور کے ساتھ سب سے زیادہ معتدل مذہب تصور کیا جاتا ہے، چنانچہ دساتیر میں خدا کے اوصاف اس طرح بیان کئے گئے ہیں :

  1. He is one
  2. Nothing resembles him.
  3. He is without an origin or end.
  4. He has no father or mother, wife or son.
  5. Without a body or form.
  6. Neither the eye can behold him, nor the power of thingking can concive him.
  7. He is above all that you can imagine of.
  8. He is nearer to you than your own self.[18]

زرتشت مذہب کی تاریخ تقریبا ٦٦۰ سے ۵۸۳ قبل مسیح ہے، خدا کے حوالے ان کے تصورات کافی حد تک توحید پر مبنی تھے، چنانچہ ان کے نزدیک خدا اس ہستی کا نام ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی مثل ہے، اللہ خیروشر دونوں سے بالاتر ذات ہے، تاہم خیر کی نسبت وہ اللہ کی طرف کرتے اور شر کے حوالے سے وہ نور الہی کے تاریکی کے ساتھ خلط ہوجانے کی وجہ سے پیدا ہونے والی چیز سمجھتے[19]۔

زرتشت سے قبل ایران میں مظاہر پرستی اور اصنام پرستی زوروں پر تھی۔ چونکہ ایران کا ذریعہ معاش زارعت تھا ، اس وجہ سے ایرانیوں نے ہر اس مظاہر قدرت کی پوجا کی جو ان کی زراعت کے لیے مفید تھے[20]۔

زرتشت پکا موحد تھا، ان کے خدا کا نام اہور امزدا تھا، اہور کے معنی مالک اور مزد کے معنی دانا ہیں ، یعنی دانا مالک۔ زرتشت اللہ تعالی کے متعلق کہتے ہیں۔ تو ہی خدا ہے یہ میں جانتا ہوں، اے قادر مطلق۔ تو ہی اول تھا، جب زندگی نے جنم لیا۔ جس طرح تیرے ابدی قانون میں مرقوم ہے کہ برائی کا انجام برا ہے، اور اچھائی کا انجام اچھا ہے، قیامت تک تیری مصلحت کے تحت یہ بات مقرر ہوچکی ہے[21]۔ صفات الہیہ کے حوالے سے زرتشت کہتے ہیں، سمیرام اسپ ہاسمیرام ہروار ﴿یکسنیت نہ یک درشمار﴾ کہ خدا ایک ہے مگر اس کی توحید عددی نہیں بلکہ احدیت ذاتی ہے، ﴿ہتما ندارد﴾ یعنی اس کا کوئی ہمسر نہیں ، ﴿ہیچ چیز باد نماند﴾ یعنی اس کی کوئی مثل نہیں ۔ ﴿ہستی وہ ہمہ ﴾ یعنی وہ ہر چیز کو ہست کرنے والی ذات ہے[22]۔ زرتشت کی طرف منسوب اس قسم کی کثیر اقوال سے اس بات کا ٕثبوت ملتا ہے، کہ بنیادی طور تصورِ خدا کے حوالے سے زرتشت کا نقطہ نظر توحید پر مبنی تھی۔ تاہم ۳۳١ قبل مسیح میں زرتشت کے مرنے کے بعد مقدونی فاتح سکندر اعظم نے ایران پر حملہ کیا اور اس حملے کے نیجے میں زرتشت کے بڑے بڑے علماء پہاڑوں اور غاروں میں روپوش ہوگئے۔ یوں زرتشت مذہب کا زوال شروع ہوا ۔ اس کے بعد جب زرتشت مذہب کا دوبارہ احیاء ہوا تو پروہتوں کے حافظوں کی مدد سے دوبارہ زرتشت مذہب کی کتب تدوین کی گئیں۔ چنانچہ ان کتب میں تحریف کا پایا جانا ایک یقینی امر تھا۔ لہذا جہاں زرتشت کی کتاب میں لفظی تحریف کی گئی ، وہاں معنوی تحریف لازمی تھی، توحید کی جگہ مظاہر پرستی نے لے لی، ایک انگریز مورخ مذہب لکھتا ہے۔

زرتشت کے بعد جب یہ مذہب انبیاء کے دائرہ سے نکل کر ملکی سیاست دانوں کے قبضے میں آیا تو پھر خدائے واحد اہورامزدا کا تخیل ایک شہنشاہ کا سا ہوگیا، لوگوں نے اعتقاد قائم کرلیا، کہ وہ دنیا کا خالق اور مدبر ہونے میں بہت سے خداوں کے مدد کا محتاج ہے۔ اور ان کو چھوٹے چھوٹے خدا تصور کرلیا[23], اور یوں توحید پر قائم یہ مذہب بھی بت پرستی کی تاریک گھٹاوں میں ہمیشہ کے لیے گم ہوگیا۔

ہندو مت میں خدا کا تصور :

ہندو مت کا وجود دراصل اس کے مقدس کتب ویدوں کی تدوین سے بہت پرانا ہے، بعض مورخین کے ہاں ہندو مت کی جڑیں بابلی اور مصری تہذیبوں سے ملتی ہے، چنانچہ ہندو مت بھی قدرتی مظاہر سے لیکر روح پرستی حیوان پرستی شجر حجر پرستی، آتش پرستی اور ہوا پرستی میں مبتلا رہی[24]۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک لکھتے ہیں:

Hindusism is commonly perceived as a polytheistic religion. Indeed, most Hindus would attest to this, by professing belief in a multitude of Gods. Some Hindues belive in the system of three God while some Hindus actually believe in the existence of thirty three corore i.e 330 million Gods.[25]

١۔ برہمن۔ براہمی مت اسلاف پرستی اور مظاہر پرستی پر یقین رکھتا ہے، اس کے علاوہ یہ فرقہ حیوان پرست خصوصا گائے پرست نیز سانپ پرست بھی ہے۔ اس فرقے کے نزدیک انسان اور حیوان میں کوئی امتیاز نہیں کیونکہ اس کے نزدیک ان میں سے ہر ایک روح سے عبارت ہے اور ارواح چونکہ انسان اور حیوان دونوں میں منتقل ہوتے رہتے ہیں، لہذا ان میں سے ہر ایک الہ بن سکتا ہے۔ اور اس طرح یہ معبودوں کا ایک سلسلہ ہے[26]۔ اس کے علاوہ چونکہ ہندومذہب تناسخ ارواح کا قائل ہے اور اس کی رو سے ایک انسان جون بدل کر ایک حیوان کی صورت میں بھی دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے۔ اس وجہ سے ان کے ہاں یہ بات عین ممکن ہے کہ کوئی بھی انسان حیوان کی شکل میں اپنے گناہوں کی سزا پانے کے لیے دوبارہ پیدا کیا جائے، پھر یہ بات بھی کسی حد تک ممکن ہے کہ مذکورہ حیوان پہلے جون کے اندر کسی کا باپ یا کوئی اور قریبی رشتہ دار ہو[27]۔

پروفیسر مکس مولر کے مطابق دراصل ویدوں کی تدوین سے پہلے ہندو مت میں ایک ایسے خدا کا تصور تھا جو تین اقانیم یا اسماء کا مجموعہ تھا[28]۔ پہلا اقنوم براہما تھا جو سورج دیوتا تھا، جس کی طرف تمام اشیاء کی تخلیق منسوب تھی۔ دوسرا سیپا اوسیوا جو کہ تخریب کاری اور تباہی کا خدا تھا اور آگ کی طرف منسوب ہوتا تھا۔ تیسرا دیوتا وشنو تھا جوکہ تمام مخلوقات کا محافظ سمجھا جاتا اور اس کی ہستی کو کرشنا میں محصور کیا جاتا۔ اس کے بعد عیسائیوں نہج پر اس تثلیث کو برہما کی شخصیت میں ایک الہ کا طور پر تفریدی حیثیت سے تسلیم کیا گیا[29]۔

براہمہ کا یہ بھی دعوی ہے کہ خدا نے انسانوں کو مختلف درجات میں تخلیق کیا چنانچہ برہمن کو خدا نے اپنے منہ سے پیدا کیا ، تو اس کا مقام بھی سب سے اونچا ہے۔ اس لیے برہمن استاذ ،جادوگر اور قاضی بن سکتا ہے، کھشتری کو خدا نے اپنے بازوں سے پیدا کیا۔ گویا وہ سپاہ گری کے لیے پیدا ہوا۔ ویش کو رانوں سے پیدا کیا ۔ اس لیے ان کے ذمے زراعت اور کھیتی بڑی کا کام ہے، اور شودر کو اپنے پاوں سے پیدا کیا اس لیے ان کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ پہلے تین طبقون کی خدمت گزاری کریں[30]۔ خدا کا یہ عمومی تصور ابھی تک ہندو معاشرے میں موجود ہے، تاہم مرور ِ زمانہ کے ساتھ ہندوں کے ہاں ایک اور فرقہ وجود میں آیا جس کو جن مت کہا جاتا ہے، دراصل جن مت بھی بدھ مت کی طرح ہندو مت کا ردعمل تھا ، چنانچہ جینی ٍٍٍذات پات کی تقسیم اور بت پرستی کو نہیں مانتے اور نہ ہی کسی عبادت اور دیوتا کے قائل ہیں ، اس وجہ سے انہیں ملاحدہ کہا گیا، البتہ وقت ی کے گزرنے ساتھ جینیوں نے بھی اپنے مذہبی پیشوا مہاویر کے بتوں کی پرستش کرنے لگے[31]۔

بدھ مت میں خدا کا تصور:

بدھ مت ابتداء کوئی مستقل مذہب نہیں تھا۔ بلکہ یہ ہندو مت کے طبقاتی نظام اور ظالمانہ رسوم کے خلاف ایک معاشرتی تحریک تھی، چنانچہ گوتم بدھ کے تعلیمات میں براہ راست تصور خدا کے حوالے سے کوئی ٹھوس نظریہ ہمیں نہیں ملتا[32]۔ گوتم بدھ کے بارے میں ان کے پیروکار تقریبا ایسا عقیدہ رکھتے ہیں جس طرح عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کے بارے میں رکھتے ہیں، چنانچہ گوتم بدھ نے متعدد خداوں کے تصور کا انکار کیا البتہ انسانیت کی خلاصی ان کے نزدیک صرف ایک خدا کی عبادت سے حاصل نہیں ہوسکتی تھی۔ بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان نفسانی خواہشات کو کچل کر اور شر سے اجتناب کرکے پاکی وطہارت کے اعلی مرتبہ پر فائز ہوجائے[33]۔ گوتم بدھ نے انسان کی نجات کے لیے ایک دس نکاتی تعلیمات کا درس دیا جو کہ صحیح عقیدہ، عزم، حق بات، درست عمل، درست طرز معاش، کامل ریاضت، درست رائے اور اچھی سوچ سے عبارت ہیں[34]۔ گوتم بدھ کی مذکورہ تعلیمات توراة کے احکام عشرہ سے مکمل طور پر مشابہ رکھتے ہیں[35]۔ گویا گوتم بدھ کا سارا فلسفہ حیات امن ومحبت کے گرد گھومتاہے، تاہم وقت کے گزرنے ساتھ گوتم بدھ کے پیروکاوں کی ان کی حقیقی تعلیمات کو بھلا دیا، جو کہ سراسر معاشرتی تعلیمات تھے۔ اور ساتھ ساتھ گوتم بدھ کو خدا کا رتبہ دے کر ان کی پرستش کرنے لگے، بدھ مت پیروکاروں نے گوتم بدھ کے بڑے بڑے مجسمے بنائے اور ان کے سامنے جھکنے لگے، درآنحالیکہ انھوں نے بت پرستی سے سختی سے منع کیا تھا[36]۔

سکھ مت میں خدا کا تصور :

خدا کے بارے سکھ مت کا عقیدہ اسلام اور ہندومت کے بین بین ہے، سکھ مت ایک خدا کا قائل ہے، اور بت پرستی کو ممنوع قرار دیتی ہے، چنانچہ سری گرونتھ میں لکھا ہے :

There is exists but one God, who is called the true, the creater, free from fear and hate, immortal not begotten, self-existant, Great and compassionate.[37]

سکھ تعلیمات میں انسانوں کے درمیان محبت کا درس ملتا ہے، تاہم سکھ مت شراب نوشی کو جائز قرار دینے کے ساتھ تناسخ ارواح کا بھی قائل ہے[38]۔ سکھ مذہب میں خدا کے تصور کے حوالے سے کسی بھی سکھ کے تصورات کو بہتر انداز میں منترا میں بیان کیا جاتا ہے۔مول منترا سکھوں کے بنیادی عقائد کا مجموعہ اور اس کو ان کی مذہبی کتاب گروگرنتھ صاحب کے شروع میں بیان کیا گیا ہے۔سری گرنتھ۔صاحب کی جلد اول ’’جیپوجی کا پہلا منتر ہی توحید کے عقیدہ پر دلالت کرتا ہے صرف ایک خدا کا وجود ہے۔جو حقیقتا پیدا کرنے والا ہے وہ خوف اور نفرت سے عاری ہے وہ کسی سے پیدا نہیں ہوا۔مگر لافانی ہے۔وہ خود سے لافانی ہے۔وہ خود سے وجود رکھنے والا عظیم اور رحیم ہے[39]۔

مذکورہ بالا منتر سے واضح ہوتا ہے کہ سکھ مت میں توحید کا عقیدہ پایا جاتا ہے۔ان کے یہاں ایک ہی رب اعلی ہے۔وہ ایک غیر واضح اور مبہم صورت میں موجود ہے۔

سکھوں کی مذہبی کتاب ایک کی گنتی سے شروع ہوتی ہے۔آخری حقیقت (خدا )کی وحدت کو واضح کرنے کے لئے گورو نانک ایک کی گنتی استعمال کرتے ہیں اسی گنتی کے بعد اوم کا لفظ آتا ہے جس کا تلفظ ایک اوماکار کیا جاتا ہے اوم کے ذریعہ جو حقیقت ظاہر کی گئی ہے[40]۔ وہ ایک ہے اگر تم اسے نام دینا چاہتے ہوتو اسے سیتہ (دائمی حق )کہو وہ ہر شے کا فاعل ہے ۔

سکھ مذہب میں ایک خدا کے لئے واہے گرو ایک سچا خدا کے الفاظ بھی آتے ہیں۔سکھ مت میں توحید کے پکے عقیدہ کو جتلانے والا ایک اور منتر ہے جس میں گوروگو بند سنگھ جپ جی فرماتے ہیں﴿سکھوں کے یہاں گوروگوبند سنگھ کے جپ جی کی وہی اہمیت ہے جو گورو نانک کے جیپوجی کی ہے﴾ کہ خدا ایک ہی ہے۔ستیہ ہے ‘عظیم ہے داتا ہے۔اس کا کوئی چکر نہیں ہے۔کوئی نشان نہیں ہے۔کوئی رنگ نہیں۔کوئی ذات اور سلسلہ نصب نہیں۔کوئی خاکہ کوئی طریقہ کسی طرح بھی اس کو بیان نہیں کرسکتا۔وہ غیر متحرک ہے۔بے خوف ہے روشن ہے اس کی طاقت بے اندازہ ہے۔وہ بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔[41]ڈاکٹر گوپال سنگھ کہتا ہے ۔

جیسا کہ دیکھا جاسکتا ہے۔سکھ مت شدت سے توحید کا قائل ہے۔وہ کسی چیز کو نہیں مانتا سوائے ایک بالا و برتر خدا کے جو ماورا ہے۔اس کے باوجود ہر ایک میں سرایت کئے ہوئے ہے۔ازلی و ابدی ہے۔خالق ہے۔علت العلل ہے۔عداوت و نفرت سے پاک ہے۔محیط کا ہے۔اپنی مخلوق میں بھی اور اس سے ماورا بھی وہ ایک قوم یا ایک مذہب کا خدا نہیں ہے۔اس کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک رشک سے جلنے والا یا صرف انصاف کرنے والا خدا نہیں بلکہ بلکہ رحیم وکریم خدا ہے۔اس نے انسان کو اس لئے نہیں پیدا کیا کہ وہ اسے اس کے گناہوں پر عذاب دے بلکہ اس لئے کہ وہ اس کائنات میں اپنے حقیقی مقصد کو حاصل کرلے[42]۔

چینیوں کے ہاں خدا کا تصور :

وسیع جغرافیائی رقبے پر پھیلے ہوئے چینیوں میں کثرت آبادی اور کثرت قبائل کے حساب سے تقریبا خدا کے حوالے سے تمام قسم کے نظریات پائے جاتے رہے، تاہم کثیر نظریات کے حامل اہل چین اہل مصر، بابل، ہندو، فارسی اور عرب کی طرز پر تصور خدا کے حوالے سے کوئی دعوتی پیغام دنیا کو نہ دے سکے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ تاریخی لحاظ سے چینی تہذیب نے خدا کے حوالے سے بذات خود کوئی نظریہ پیش نہیں کیا۔ بلکہ اپنے تمام تر نظریات دوسری اقوام مثلا بدھ مت، مجوسیت ، اسلام اورمسیحیت سے اخذ کیا۔ صرف جاپانی وہ واحد قوم ہے جس نے چین سے کنفیوشس نظریات کا اخذ کیا۔

دین کی اہمیت چینی معاشرے میں روایتی فنون سے زیادہ نہیں تھا۔ مجموعی طور پر چینیوں میں ارواح پرستی کا رواج رہا ہے تاہم ارواح میں بھی آباء واجداد پرستی سر فہرست ہے۔ چنانچہ ان ارواح کو مختلف قدرتی مظاہر میں مشکل سمجھ کر ان کی پرستش کی جاتی ہے۔ جن میں سب سے اونچا مرتبہ آسمانوں کے دیوتا شانگ تی کا ہے اس کے بعد سورج دیوتا کا مرتبہ ہے[43]۔ ابتداء میں اہل چین صرف شانگ تی کی پرستش کرتے تھے[44]۔ لیکن بعد میں سیاسی حالات کی وجہ سے رفتہ رفتہ شانگ تی گم ہوگیا اور لوگوں نے بادشاہ وقت کو شانگ تی دیوتا کا خلیفہ قرار دے کر ان کی پرستش کرنے لگے۔ اورساتھ ساتھ بادشاہ کے احکامات کو مقدس آسمانی قوانین کا درجہ دے دیا گیا[45]۔ تاہم کنفیوشس نے آکر ایک بار پھر خاندان اور سلطنت کے تاروں کو سلجھا کر حالات کو قابو کرلیا[46]۔ شانگ تی دو عناصر کا مجموعہ ہے ایک ﴿ین﴾ یعنی حالتِ سکون کا عنصر اور دوسرا یانگ یعنی حرکت کا عنصر، سکون کا عنصر درحقیقت راحت اور نعمت کی علامت تھی اور حرکت کا عنصر بدبختی اور عذاب کی علامت سمجھی جاتی تھی[47]۔

اس کے بعد بارہویں صدی عیسوی میں مشہور فلاسفر شوہی نے بدھ مت سے ملتا جلتا خدا کا تصور پیش کیا۔ اور ایک ایسے دین کی طرف دعوت دی جس میں صرف ایک حقیقی معبود کے وجود کو تسلیم کیا گیا تھا[48]۔

جہاں تک کنفیوشس کا تعلق ہے تو یہ اکثر مفکرین کے نزدیک کوئی مستقل مذہب نہیں ہے۔ بلکہ دنیاوی امور سے متعلق چند حکمتوں اور اقوال زرین کا مجموعہ ہے[49]۔ جو کفیوشس سے منقول تھے، کنفیوشس مختلف جگہوں میں گھوم پھر کر اپنا پیغام پہنچایا کرتے تھے[50]۔ کنفیوشس سے دوسرے مذاہب کی طرح کسی قسم کے مخصوص تعلیمات یا عبادات منقول نہیں اور نہ ہی ان کی تعلیمات میں عبادت کے لیے کسی مخصوص مقام کا تذکرہ ملتا ہے[51]۔ مگر عمومی طور پر وہ بھی آسمانی دیوتا شانگ ٹی کا معتقد معلوم ہوتا ہے ، گوتم بدھ کی طرح کنفیوشس کے ماننے والے بھی ان کے حقیقی تعلیمات سے ہٹ گئے اور ان کے مرنے کے بعد ان کا مجسمہ بناکر پوجنے لگے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے[52]۔ جہاں تک تاوازم کا تعلق ہے تو لاوزرے کی نظریات عمومی طور پر کنفیوشس سے بہت مختلف تھے۔ کیونکہ لاوزرے کے نزدیک ایک خوشگوار زندگی کے قیام کے لیے سب سے ضروری چیز تاو پر ایمان لانا تھا[53]۔ لیکن لاوزرے کے مرنے کے بعد بھی ان کے تعلیمات میں تحریف کی گئی۔ اور بات حیوان پرستی سے بھی آگے نکل گئی[54]۔اور بالآخر تاوازم کے عقائد سے متاثرہ چین میں بدھ مت وسیع حد تک پھیل گیا[55]۔

جاپانیوں کے ہاں خدا کا تصور

خدا کے حوالے سے جاپانیوں کا کوئی اپنا تصورنہیں تھا بلکہ اس کو ہم چینی سیناریو کا دہراو کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ جاپانیوں میں بھی آباو اجداد پرستی اور مظاہر پرستی کئی صدیوں سے چلی آرہی ہے[56]۔اہلِ جاپان چینی مذاہب کے علاوہ ہندومت، بدھ مت اور اسلام سے بھی کافی حد تک متاثر ہوئے۔ چنانچہ وہ خدا کے حوالے سے کئی دیوتاوں کے پرستش کے ساتھ ایک زبردست دیوتا کے تفرید کے بھی قائل رہے۔ چنانچہ وہ ایک ازاناجی ۔ نومیکوتو کو الہ اعظم خیال کرتے تھے[57]۔

شنٹوازم اپنے مفہوم کے اعتبار سے دو چیزوں یعنی شن اور تاو سے ماخوذ ہے شن کا مطلب مقدس ارواح اور تاو وہ مذہب تھا جسے لاوزرے نے چین میں متعارف کیا تھا۔ چنانچہ جاپانیوں کے ہاں ارواح کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے[58]۔ شنٹوازم میں انسان طہارت اور پاکیزگی کا مظہر ہے، اس وجہ سے اس مذہب میں جسمانی صفائی کے ساتھ روحانی صفائی کے لیے مقدس مقامات کی زیارت اور متعدد دیوتاوں کی عبادت بھی لازمی امر ہے[59]۔ شنٹوازم میں اگرچہ دوسرے دیوتاوں کے ہوتے ہوئے ایک عظیم دیوتا کا تصور موجود ہے۔ تاہم ان کے نزدیک اس الہ عظیم کی عبادت ضروری نہیں کیونکہ وہ انسانی معاملات میں پڑتا ہی نہیں۔ تاہم چونکہ بادشاہ ان کے نزدیک انسانی معاملات میں دخیل ہے اس وجہ اس کی رضا جوئی کے لیے اس کی عبادت ضروری امر ہے[60]۔ دوسری جنگ عظیم تک اہل جاپان یوں بادشاہ پرستی پر قائم رہے۔ لیکن دوسری جنگ عظیم میں شکست کے بعد اہل جاپان کا بادشاہوں کے حوالے سے الوہیت کا عقیدہ متزلزل ہوگیا۔ چنانچہ وطن پرستی کی طرف رجحان بڑھ گیا[61]۔

یونانیوں کے ہاں خدا کا تصور:

خدا کے حوالے سے اہل یونان کا عقیدہ کئی ایک مراحل سے گزرا، پہلے پہل خدا کے حوالے سے اہل یونان کریتی مذہب کے نظریے سے متاثر ہوئے جو درحقیقت ایک مکمل بت پرست مذہب تھا۔ چنانچہ یونانیوں نے مختلف طبعی مظاہر یعنی جمادات، حیوانات اور پرندوں کو خدا کے طور پر تسلیم کیا[62]۔

دوسرے مرحلےمیں اہل یونان نے ترقی کرتے ہوئے یہ تصور قائم کیا کہ دراصل خدا ایک طبعی قوت ہے۔ اور ضروری ہے کہ وہ اپنے احسن ترین اور کامل شکل میں ہو۔ چنانچہ انھوں نے خدا کو ایک حسین وجمیل مشخص انسان کی شکل میں تصور کیا، جوکہ انتہائی خوبصورت پوشاک پہنتا ہے، بعد کے ادوار میں انھوں نے ایک عظیم دیوتا کے تصور کو اپنالیا اور اسے زووس کا نام دیا[63]۔ یونانی اپنے خداوں کے حوالے سے اہل بابل کی طرح تشبیہ کے قائل تھے۔ چنانچہ انھوں نے اپنے خداوں کو تمام بشری صفات یعنی صورت، اعضاء و جوارح اور کھانے پینے وغیرہ کے ساتھ متصف کردیا[64]۔ تاہم چونکہ ان کو ہمیشگی حاصل تھی اورانسانی قوت سے بڑھ کر غیر معمولی امور بجا لاتے تھے ، اس حیثیت سے وہ انسانوں سے مختلف تھے[65]۔

یونانیوں کے پاس مقدس کتاب یا شریعت نہیں تھی، لہذا ان کے مذہبی تعلیمات عرف و عادات اور مختلف فلاسفہ اور عقلاء کے اقوال سے عبارت تھے[66]۔

تیسرا مرحلے میں اہل یونان رہبابیت کی طرف مائل ہوگئے، یہ مرحلہ نسبتا تاریخی حوالے سے مبہم رہا۔ غالبا یہ دور ارفیوس کی نسبت سے اورفیہ کا دور کہلایا جس کا مطلب رہبانیت کا دور ہے[67]۔

مذہبی لحاظ اہل یونان کے ہاں چوتھا مرحلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ اس دور میں خدا نیز مظاہر کائنات کی تشریح کے حوالے سے یونانی فلسفہ اور فلسفیانہ نظریات نے سر اٹھایا۔ چنانچہ فلسفہ کی دہری نقطہ نظر سے کائنات کے تمام حوادث کو زمانے کی طرف منسوب کیا گیا۔ جہاں تک تکوینی امور کا تعلق ہے تو وہ اس فلسفیانہ نقطہ نظر سے اتفاقی طور پر حرکت اور دوران کے نتیجہ میں مادی عناصر کا باہم ارتباط یا افتراق تھا ۔ اور اس کی کوئی خاص علت نہیں تھی[68]۔ تاہم افلاطون کے فلسفے نے صرف ایک خدا کے وجود پر زور دیا۔ اور یہ دعوی کیا کہ دراصل کائنات کی ایک علت ہے جو زیوس یعنی اللہ ہے۔ اور مادہ اپنی ذات میں ایک محرک کا محتاج ہے۔ جس کی دلیل افلاطون کے ہاں کائنات کی یہ عظیم الشان مربوط نظام تھا۔ جس کا حدوث اتفاقی طور پر ناممکن تھا[69]۔

افلاطون کے نزدیک اللہ تعالی حرکت سے پاک ہے کیونکہ ان کے نزدیک اگر کوئی شی حرکت سے پاک ہو تو اس میں تغیر کے امکانات نہیں ہوتے اور وہی چیز حقیقتا کامل، ازلی اور ابدی ہوسکتی ہے[70]۔ ارسطو کا تصور خدا بھی افلاطون سے ملتا جلتا تھا۔ ارسطو کے نزدیک اللہ اس کائنات کے لیے علت فاعلہ ثابتہ غیر متحرکہ ہے، کیونکہ متحرک چیز کو تغیر لازم ہوتا ہے[71]۔

رومیوں کے ہاں خدا کا تصور :

اہل چین کی طرح اہل روم بھی مذہبی اعتبار سے بیرونی نظریات سے متاثر رہے۔ اہل روم ابتداء مذہبی حوالے سے مختلف توہمات اور خرافات کے قائل تھے[72]۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اہل روم بھی اہل یونان کی طرح کائنات کے حوالے جعل جاعل کے قائل ہوگئے تاہم کائنات کے نظام کو چلانے کے حوالے سے ان کا نظریہ یہ تھا کہ اس کو کئی دیوتا مل کر چلاتے ہیں۔ چنانچہ انھوں نے یہ نظریہ اپنایا کہ یہ نظام مختلف سیاروں یعنی مشتری ، مریخ ، زحل اور عطارد وغیرہ کے زیر انتظام ہے۔ البتہ رومیوں کے ہاں عبادت کے لیے مخصوص مقامات یا دیوتاوں کے مجسموں کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اور ان کے جملہ عبادات بعض نجی محفلوں اور رسومات سے عبارت تھے ، جو گھروں کے اندر ہی بجا لائے جاتے۔ اور مخصوص چیزیں پکا کر اپنے معبودوں کی نذر کرتے ۔ خدا کے بارے میں ان کا تصور صرف اتنا تھا کہ طبعی قوتوں میں سے ایک قوت ان کے زیر اثر سمجھی جاتی تھی۔ جس میں لوگوں کو نفع یانقصان پہنچانے کی صلاحیت موجود ہو مثلا آندھی یا طوفان وغیرہ[73] ۔

بعد میں مختلف جنگی شرگرمیوں اورسیاسی روابط کی وجہ سے روم کے اندر خدا کے حوالے سے مشرقی تصورات نے جگہ بنالی، جیسا مصری اور بابلی نظریات نے رومیوں میں حیاة ثانیہ کے تصور کو جنم دیا ۔ اس تصور میں وہ اس قدر آگے بڑھے کہ مردوں کی پرستش شروع کردی[74]۔

تصور خدا کے حوالے سے جنم لینے والے اس قسم کے مختلف نظریات نے رومیوں کو مذہبی لحاظ سے بے حد منتشر کر دیا۔ اور اللہ کا مفہوم ان کے ہاں ایک بہت ہی متنازعہ صورت اختیارکر گیا جس کی وجہ سے بعض لادین عناصر نے بھی سر اٹھانا شروع کیا۔ بعد میں قسطنطین کے مسیحیت کو سرکاری مذہب قرار دینے کی وجہ اس قسم کے نظریات نے کسی حد تک دم توڑ دیا[75]۔

مسیحیت میں خدا کا تصور :

یہود عیسی علیہ السلام کا بہت شدت سے انتظار کررہے تھے اس امید پر کہ عیسی علیہ السلام ایک فاتح سپہ سالار ہوگا جو ان کے نظریے کے مطابق یہودیت کا سب سے بڑا نجات دہندہ ہوگا۔ اور یہود کے دشمنوں کو سخت قسم کی سزا دے گا۔ چنانچہ جب مسیح موعود کے آنے میں دیر لگی تو وہ ناامیدی کے عالم میں روحانی اورتصوراتی مسیح کے قائل ہوگئے۔ اس پیچیدہ فکری ماحول میں مسیح بن مریم مبعوث ہوئے[76]۔ بعثت کے وقت مسیح علیہ السلام کی عمر تیس سال تھی اور آپ علیہ السلام کو اللہ تبارک وتعالی نے مختلف معجزات اور نشانیوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا[77]۔ مسیح علیہ السلام نے انہیں ایک ایسے خدا کا تصور دیا جو ایک ازلی ہستی اور ہمیشہ رہنے والی مقدس ذات تھی، ان کے افعال اور ارادوں کے حوالے سے انسان اتنا ہی جانتا ہے، جتنا اسے اس عظیم ہستی پر ایمان لانے کی غرض سے اجازت ہو، وہ ایک ایسی ذات ہے کہ جس نے جب اس کائنات کو وجود بخشنے کا ارادہ فرمایا تو صرف اس کے ارادے سے یہ سب کچھ ہوگیا جس کا انسان اس کائنات کی شکل میں مشاہدہ کررہا ہے اور جو اس کے مشاہدے سے ماوراء ہے[78]۔ چنانچہ انجیل متی میں واضح طور ارشاد ہے کہ ﴿کہ خدا ہمارا ایک ہی رب ہے اور اس کے علاوہ کوئی دوسرا خدا نہیں﴾[79]۔

عیسی علیہ السلام نے کہیں بھی خود کو مسیح نہیں کہا بلکہ یہ نام ان کے دنیا سے اٹھائے جانے کے بعد ان کے پیروکاروں نے ان پر چسپان کردیا۔ اسی طرح اناجیل اربعہ بھی ان کی زندگی میں مدون نہ ہوسکے اور عیسی علیہ السلام کے دنیا سے اٹھائے جانے کے تقریبا تین سو سال بعد ان کی تدوین ہوئی[80]۔

یوں خدا کے حوالے سے عیسائی تصور ابتداء خالص توحید کی بنیاد پر قائم رہا، تاہم حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد شاوول نامی ایک ایسا شخص ﴿جس نے بعد میں اپنا نام تبدیل کرکے پولس رکھ دیا﴾ عیسائیت کا عالمبردار بن گیا جو کٹر فریسی یہودی تھا۔ جس نے نہ کبھی عیسی علیہ السلام کو دیکھا تھا اور نہ ان سے کچھ سننے کا موقع اسے ملا تھا۔ چنانچہ اس شخص نے عیسائیت کی تبلیغ شروع کردی۔ چونکہ اس شخص کو عیسائیت کے حوالے سے کافی معلومات حاصل تھیں اور ساتھ ساتھ سیاسی لحاظ سے بھی کافی اثر ورسوخ رکھتا تھا، چنانچہ انھوں نے یہود کی توجہ حاصل کرنے کے لیے عیسائیت کے اندر بہت ساری یہودی تعلیمات کی آمیزش شروع کردی اور عیسی کے حوالے سے یہ نظریہ اپنایا کہ وہ ایسی ہستی ہے جو نجات دہندہ ہے، سردار ہے اور نجات اور خلاصی اسی کے ہاتھ میں ہے وغیرہ وغیرہ[81]۔ چنانچہ پولس کے تعلیمات کا یہ اثر ہوا کہ کچھ ہی عرصے میں عیسائی دنیا میں خدا کے حوالے توراة کا پیش کردہ وحدانی نظریہ متزلزل ہوگیا۔ اور تین اقانیم پر مشتمل تثلیثی وحدت میں تبدیل ہوگیا[82]۔ اور خدا کے حوالے سے تثیلیث کا نظریہ دراصل پولس کا بدھسٹ یونان سے درآمد کردہ تھا[83]۔ اس طرح کے من گھڑت نظریات پر پولس نے جدید عیسائیت کی بنیاد رکھ دی[84]۔

عیسائیوں کا سب سے پرانا فرقہ جن کو ""اَبیون"" کہتے ہیں، موحد شمار ہوتا ہے ۔ وہ حضرت عیسی علیہ السلام کو صرف خدا کا رسول سمجھتے ہیں اور الوہیت کے مقام کوذات اقدس الہی میں منحصر کرتے ہیں ۔ ابتدائی صدیوں میں بہت سے ایسے خطوط لوگوں کے پاس موجود تھے جن میں حضرت عیسی کو دوسرے پیغمبروں کی طرح پیغمبر اور خدا کو واحد بتلایا گیا تھا ۔ ان خطوط میں دو عجیب و غریب نکتے قابلِ ذکر ہیں : اول یہ کہ اکثر وبیشتر خطوط میں حضرت عیسی کو خدا کا رسول اور نبی کے عنوان سے پیش کیا گیا ہے اور خدا،خالق یا رب کے لفظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے ۔ دوسرے عیسائیت کے آغاز میں ایسے خطوط پائے جاتے ہیں جن میں انقلابیوں کی حمایت اور سرمایہ داری اور اہلِ حکومت کی مخالفت موجود تھی [85]۔ گزشتہ چند صدیوںمیں یورپ میں توحید کے حامل طبقات کا دوبارہ سے احیاء شروع ہوگیا ہے ۔ ١٦٠٠ عیسوی میں ایک افراطی پروٹستی مکتب پیدا ہوا جس نے عیسائیوں کے صحیح مکتب پر حملہ کیا ،اس مکتب کا نام سوسیانزم تھا ، کیونکہ اس کے موسس کا نام سوسیونوس تھا ۔ سوسینوس کے ماننے والے کتاب مقدس کو قبول کرتے تھے ،لیکن اس میں نقص کے بھی قائل تھے ،ان کو اس میں بہت زیادہ غلطیاں نظر آتی تھیں، یہ لوگ تاکید کرتے تھے کہ جو چیز بھی عقل ، یا معمولی منطق کے مخالف ہو ، یا اخلاقی لحاظ سے بے فائدہ ہو ، اس میں الہی الہام نہیں ہوسکتا ۔ وہ تثلیث کے عقائد کو جو کہ ان کے عقیدہ کے مطابق فلاسفہ یونان کے ناقص عقائد سے متاثر ہونے کی وجہ سے ان کے اعتقاد میں داخل ہوگیا تھا ، مردود سمجھتے تھے ، حضرت عیسی علیہ السلام کی الوہیت کو قبول نہیں کرتے تھے ،لیکن ان کو بہترین انسان سمجھتے تھے [86]۔

جہاں تک خدا کے وجود کا تعلق ہے تو وہ بھی خدا کو تقریبا انہی صفات کے ساتھ تسلیم کرتا ہے، جو دوسرے مذاہب میں اس کے لیے بیان کی جاتی ہیں۔ مارس ریلٹن لکھتا ہے کہ عیسائیت کا خدا کے بارے میں یہ تصور ہے کہ وہ ایک زندہ جاوید وجود ہے، جو تمام امکانی صفات کمال کے ساتھ متصف ہے۔ اسے محسوس تو کیا جاسکتا ہے، لیکن پوری طرح سمجھا نہیں جاسکتا، اس لیے اس کی حقیقت کا ٹھیک ٹھیک تجزیہ ہمارے ذہن کی قوت سے ماوراء ہے[87]۔ یہاں تک بات واضح ہے ، لیکن بعد کے اندر عیسائی دنیا میں خدا کے تصور کی جو تفصیلا ت پیش کی گئی ہیں ، وہ بڑی الجھی ہوئی ہیں اور ان کا سمجھنا آسان نہیں ہے۔ دراصل عیسائی مذہب میں خدا تین اقانیم یعنی باپ ، بیٹا اور روح القدس سے مرکب ہے۔ جسے عقیدہ تثلیث کہا جاتا ہے۔ لیکن اس عقیدے کی تشریح میں خود عیسائی علماء کے بیانات اس قدر مختلف اور متضاد ہیں کہ یقینی طور سے کوئی ایک بات کہنا نہایت مشکل ہے۔ وہ تین اقانیم کون ہیں؟ جن کا مجموعہ ان کے نزدیک خدا ہے۔ خود ان اقانیم کی تعیین میں بھی اختلاف ہے ، بعض کہتے ہیں کہ خدا باپ ، بیٹا اور روح القدس کے مجموعے کا نام ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ باپ ، بیٹا اور کنواری مریم وہ تین اقنوم ہیں جن کا مجموعہ خدا ہے[88]۔ پھر ان تین اقانیم میں سے ہر ایک کی انفرادی حیثیت کیا ہے؟ اور خدائے مجموع سے جسے ثالوث ﴿Trinity﴾ کہتے ہیں اس کا کیا رشتہ ہے۔ اس سوال کے جواب میں ایک زبردست اختلاف پیدا ہوگیا ، جس کا حل آج تک کوئی بھی عیسائی عالم پیش نہیں کرسکا ۔ اور یوں خدا کا تصور عیسائی مذہب میں بھی ایک خواب پریشان بن کر رہ گیا۔

اسلام میں خدا کا تصور :

بعثت تاریخی لحاظ سے عربوں میں بت پرستی کا عمومی رواج ضرور قائم رہا، تاہم اس بت پرستی کے باوجود ان میں خدا کا واضح تصور موجود تھا۔ چنانچہ وہ بتوں کو اللہ سے قربت کے حصول کی غرض سے پرستش کرتے تھے[89]۔ اسلام کا ظہور ایک ایسے وقت میں ہوا جب عربوں میں تصور خدا سے ہٹ کر بھی مختلف قسم کی برائیاں پھیلی ہوئی تھیں۔ اب ضرورت اس بات کی تھی کہ تصور خدا کے حوالے ان نظریات کی تصحیح کی جائے اور ساتھ ساتھ ان روحانی بیماریوں سے بھی عرب معاشرہ کو پاک کیا جائے ۔ اس صورتحال کے پیش نظر اسلام کے فلسفہ توحید نے نہ صرف خدا کے حوالے سے انسانوں کے منتشر نظریات کی تصحیح کی بلکہ اس کے علاوہ کئی اور فکری خرابیوں کو بھی درست کردیا[90]۔

تصور خدا کے حوالے سے قرآن اور دوسری الہامی کتب کا فلسفہ ایک ہی ہے۔ تاہم دوسری الہامی کتب میں تحریف کی وجہ سے انسانوں پر خدا کا وحدانی تصور ابہام میں چلا گیا تھا۔ چنانچہ قرآن پاک میں واضح طور پر آیا ہے "وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنزِلَ إِلَيْنَا وَأُنزِلَ إِلَيْكُمْ وَإِلَهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ"[91] ﴿ترجمہ﴾ِ، اور تورات کے سفر تکوین میں بھی یہی بات واضح طور اس طرح منقول ہے ﴿سنو اے اسرائیل۔ ہمارا رب صرف ایک ہی خد ہے۔

اسلام نے خد کے بارے میں ایک مکمل تصور دیا۔ جس میں کسی قسم کا بھی کوئی سقم نہیں ہے[92]۔ اسلامی نقطہ نظر سے اللہ ساری کائنات کا خالق ہے اور اس تخلیقی عمل میں کوئی اس کا شریک نہیں[93]۔ اب اگر خدا کے حوالے یہ تصور قائم ہوجائے تو اس میں شرک اور مشابہت کا کوئی شبہ باقی نہیں رہتا۔

﴿لا اله الا الله﴾ کا مفہوم ہی انسانوں کو ایک یگانہ مالک حقیقی کے لیے ایک ایسی مضبوط توحیدی بنیاد فراہم کرتا ہے جس سے متعدد خداوں کے نظریات کی مکمل طور پر تردید ہوجاتی ہے۔ اور یہی فلسفہ اللہ رب العزت کی ہستی کو انسانی وجود سے بالاتر مقام پر فائز کرتاہے۔ اس طرح ﴿بسم الله الرحمن الرحیم﴾ کے اندر اسی یگانہ ہستی کی صفتِ رحمانیت اور رحیمیت جیسی حقیقی صفات کی طرف اشارہ ہے۔ اللہ تبارک وتعالی کے تمام اوصاف قائم لذاتہ اور کسی بھی قسم کی تغیر وتبدل سے پاک ہیں۔ علامہ شہرستانی اپنی کتاب ﴿الملل والنحل﴾ میں لکھتے ہیں

﴿اعلم أن جماعة كبيرة من السلف كانو يثبتون لله تعالى صفات ازلية من العلم والقدرة والعزة والعظمة والارادة والمشيئة والقول والكلام والرضا والسخط والحياة والارادة والسمع والبصر، الكلام والجلال والاكرام والجود والانعام والعزة والعظمة﴾[94]۔

یعنی سلف میں سے ایک بڑی جماعت اللہ تبارک وتعالی کے صفات مثلا علم وقدر، عزت وعظمت، اراردہ، کلام، رضا، زندگی، سننا، بولنا، جلال واکرام، سخاوت اور عظمت کو ازلی قرار دیتے ہیں۔

اسلام انسان کا خدا سے رشتہ خالق اور مخلوق کا ہے اور خدا کا رسول سے رابطے کا ذریعہ براہِ راست ایک کامل وحی ہے۔ اور وحی کا یہ سلسلہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس دنیا سے رحلت کر جانے کے بعد مکمل ہوا[95]۔ اسلامی نقطہ نظر سے خدا نے کسی زمانے میں جسدی روپ نہیں دھارا اور نہ ہی الوہیت میں کسی کو شریک بنایا چنانچہ قرآن نے بھر پور انداز میں اس تجسیدی نظریے کی تردید کرتے ہوئے مسیح کی بشریت اور رسالت کو واضح کیا ہے[96]۔

ابن سینا کہتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالی کائنات پر اپنی ذات، مرتبہ اور معلولیت کے اعتبار سے مقدم ہے۔ کائنات کا اللہ تبارک وتعالی سے متاخر ہونا اس وجہ سے محال ہے کیونکہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالی نے کسی زمانے میں اس کائنات کو بنانے کا فیصلہ کیا، یعنی پہلے اللہ کا ارادہ نہیں تھا۔ پھر بنانے کا ارادہ کیا، حالانکہ اللہ تبارک وتعالی کے ارادے میں کسی قسم کا تغیر محال ہے[97]۔

گویا تصور خدا کے حوالے سے اسلام کا نظریہ خالص توحید پر مشتمل ہے جس میں تعدد اور شراکت کا کسی قسم کا کوئی شائبہ نظر نہیں آتا۔ قرآن پاک میں متعدد جگہوں پر اللہ کو لفظ واحد کے ساتھ موصوف لایا گیا ہے۔ اور ہر جگہ اس کے استعمال میں حصر اور تاکید کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے ۰(انما هو اله واحد)[98]. اسی طرح ایک اور مقام پر ارشاد ہے (فألهكم اله واحد)۔[99] اسی طرح ارشاد باری ہے (وما من اله إلا الله الواحد القهار)[100]۔ ایک اور مقام پر عقیدہ ثنویت کی نفی کرتے ہوئے ارشاد ہے (ولا تتخذوا إلهين اثنين، انما هو اله واحد)[101]. اس قسم کی تمام آیاتِ کریمہ کے اندر اللہ کے بارے میں توحیدی نقطہ نظر واضح انداز میں بیان کیا گیا ہے۔

نتائج:

  1. تصور خدا اوراس حوالے سے انسان کا نقطہ نظر ایک قدیم فکری مسئلہ رہا ہے۔ جس پر مختلف زمانوں میں عقل کے گھوڑے دوڑائے گئے۔ اسی طرح اس تصور کے اندر مختلف زمانوں میں ماحول، اجتماعی اور سیاسی حالات کے مطابق تبدیلیاں رونما ہوئی۔ چنانچہ اب بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ اسلام کے آنے کے ساتھ یہ تصور مطلق توحید پر آکر ختم ہوا اور بعض حضرات کے نزدیک اس تصور میں اب بھی ارتقائی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔
  2. تاریخی اعتبار سے یہ مسئلہ تعددیت، ثانویت ، ثالوثیت، تفرید اور تفضیل کے مراحل سے گزر کر الہامی مذاہب کے آنے پر توحید پر پہنچ کر حل ہوا ۔
  3. مختلف ترقی یافتہ تہذیبوں میں کسی نہ کسی طرح تصور خدا کے ہوتے ہوئے یہ بات واضح طور پر نظرآتی ہے کہ ہرمرتبہ یہ تصور توحید پر مشتمل اپنی حقیقت کی طرف ابراہیم علیہ السلام سے لے کر محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک وحی کی روشنی میں ہی لوٹ کر مکمل ہوا ۔ البتہ انبیاء کے واضح تعلیمات کے باوجود ہر دفعہ اس تصور میں بعض سیاسی اور معاشرتی حالات کی وجہ سے تغیر رونما ہوتا رہا۔
  4. اس بحث کے نتیجے میں اس بات کا بھی واضح طور پر ملاحظہ ہوا کہ توحید ہی ایسی چیز ہے جو کسی بھی قوم کے عروج اور زوال میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ چنانچہ بابلی معاشرہ خصوصا اختانون کے دور میں اہل مصر میں خدا کے وحدانی تصور نے ان اقوام کو تہذیبی لحاظ سے عروج پر پہنچا دیا دوسری طرف مجوسی اور فارسی معاشروں میں جوں جوں یہ تصورتوحید سے ہٹ کرثانویت ، تفرید اور تفضیل کی طرف مائل ہوگیا تو تاریخ میں وہ قومیں تہذیبی لحاظ سے بھی بہت پیچھے رہ گئے۔

۵۔ اگر چہ اسلام سے پہلے الہامی تعلیمات نے کسی حد تک خدا کے تصور کو واضح کرکے انسان اور خدا کا رشتہ واضح کردیا تھا تاہم اسلام نے اس توحیدی تصور کو بہت ہی واضح اور مکمل اندازمیں پیش کردیا۔ جس سے عقیدہ توحید ہر طرح سے واضح ہوگیا۔

References

  1. ۔ رشدي عليان و سعدون الساموك ، الاديان دراسه تأريخية مقارنة ، القسم الاول ، الديانات القديمه ، مطبعة وزارة التعليم العالي ،بغداد 1976، ص65
  2. ۔عقاد ۔ سابقہ مرجع ، ص ۔ ١۰۵ ،
  3. ۔ سليمان مظهر ، قصة الديانات دار الوطن العربي ، ط1 ، بيروت ، 1965 ص۔ ۴۴
  4. ۔عقاد ، ابراهيم ابو الانبياء ، دار الرشاد ، بيروت ، ص 204
  5. ۔عقاد ،ابراہیم ابو النبياء ، مرجع سابق ، ص ۔ ۲۰۴ ۔
  6. ۔عقاد ، الله ، سابقہ مرجع ، ص109
  7. ۔ سليمان مظهر ، سابقہ مرجع ، ص 46
  8. ۔ رشدي عليان ، سابقہ مرجع ، ص 71
  9. ۔ رشدي عليان ، سابقہ مرجع ، ص 71
  10. ۔ رشدي عليان ، سابقہ مرجع ، ص 53
  11. ۔ شارل سنيوبوس،تاريخ الحضارات ترجمة محمد كرد علي ؛ مطبعة القاهره 1908 ،ص 14
  12. ۔عقاد . الله ، سابقہ مرجع ، ص 65
  13. ۔ سليمان مظهر ، سابقہ مرجع ، ص 11 ، وكذلك رشدي عليان ، سابقہ مرجع ، ص 55
  14. ۔ رشدي عليان ،سابقہ مرجع ، ص
  15. ۔ عباس محمودعقاد ، الله ، كتاب في نشأة العقيده الالهيه ،ط2 ، دار المعارف ، القاهره ، 1960 ، ص ۔ ۹١
  16. ۔ رشدي عليان ، سابقہ مرجع ، ص 140
  17. ۔ الشهرستاني ، الملل والنحل ، الجزء الثاني دار العلم ، بيروت ، 1968 ، ص 49
  18. . Dasatir e Asmani, Pag-71, Dar Ghadir, Tehran, Iran, 1997
  19. ۔ رشدي عليان ، سابقہ مرجع ، ص 140
  20. ۔ چیمہ ، پروفیسر غلام رسول، تاریخِ مذاہب ِ عالم، ص ، ۲١۴ ، علام وعرفان پبلیشر، لاہور ، ۲۰۰٦
  21. ۔ چیمہ ، پروفیسر غلام رسول، تاریخِ مذاہب ِ عالم، ص ، ۲١۵ ، علام وعرفان پبلیشر، لاہور ، ۲۰۰٦
  22. ۔ دساتیر ۔ نامہ شت وخشور زرتشت، مطبوعہ بمبئی، ١۹۵۹۔
  23. ۔Our Oriental Heritage : Chap XIII , P, 366
  24. ۔ رشدي عليان، ، سابقہ مرجع ص 91.
  25. . Naik. Zakir Abdul Karim, Concept of God in Major Religions, p-7, Islamic Research Foundation, New Dehli, India, 2009
  26. ۔ المصدر نفسه ، ص 91 ، 92 ،عقاد ، الله سابقہ مرجع ص 75 ، 76
  27. ۔ المصدر نفسه، ،ص 75، 76
  28. ۔عقاد ، الله، سابقہ مرجع ص 75 ـ 84، رشدي عليان سابقہ مرجع ص 92
  29. ۔ الشيخ محمد أبو زهرة، مقارنات الأديان، دار الفكر العربي، القاهرة، ص 27، بلا عام
  30. ۔ رشدي عليان، سابقہ مرجع ص 96 .
  31. ۔ رشدي عليان، سابقہ مرجع ص 96
  32. ۔ رشدي عليان سابقہ مرجع ص 101
  33. ۔ محمد أبو زهرة، سابقہ مرجع ص 164
  34. ۔ محمد أبو زهرة، ، ج4، سابقہ مرجع ص 163
  35. ۔ المصدر نفسه سابقہ مرجع ص 99-100
  36. ۔ ر شدي عليان ، م، ص 101
  37. . Sri Guru Granth Sahib, Vol. 1, Japuji, p.15, Sankia Publishing Agency , Bumbai, India, 1999
  38. ۔ شبكة الانترنت موقع البرغوثي الفرق الضاله ، السيخية , ص 1-8
  39. . (سری گرنتھ صاحب جلد اول، ص ۔ ۲،
  40. . گرنتھ صاحب انگلش ترجمہ جلد دیباچہ صفحہ ۲/بحوالہ سکھ مت اور توحید
  41. ۔ سکھ ریلجن ،جلد پنجم صفحہ ۲۶/ بحوالہ سکھ مت اور توحید
  42. ۔ گرنتھ صاحب /انگلش ترجمہ ،جلد اول ،دیباچہ عنوان ،سکھ مت کی فلاسفی ،صفحہ ۱۲۵
  43. ۔عقاد ، الله، سابقہ مرجع ص 85-91 .
  44. ۔ رشدي عليان، ، سابقہ مرجع ص 107
  45. ۔ المصدر نفسه، ص 107
  46. ۔ أحمد الشنتاوي، الحكماء الثلاثة، المطبعة العربية،ط1 ، القاهرة، 1953، ص 146-
  47. ۔عقاد : الله، سابقہ مرجع ص 85-91
  48. ۔ :عقاد ، الله، سابقہ مرجع ص 85-91
  49. ۔ أحمد الشنتاوي ، سابقہ مرجع ص 110
  50. ۔ أحمد الشنتاوي، ، سابقہ مرجع ص 126
  51. ۔ رشدي عليان، ، سابقہ مرجع ص 108
  52. ۔ سليمان مظهر ، سابقہ مرجع ص 246
  53. ۔ أحمد الشنتاوي، ، سابقہ مرجع ص 133
  54. ۔ أحمد الشنتاوي ـ سابقہ مرجع ، ص 114
  55. ۔ عبادة تشانغ ـ تي والكونفوشيوسية والبوذية،ـ سليمان مظهر، ، سابقہ مرجع ص 242
  56. ۔عقاد : الله، سابقہ مرجع ص 88
  57. ۔ رشدي عليان، سابقہ مرجع ص 119
  58. ۔ رشدی علیان، سابقہ مرجع ، ص 118
  59. ۔ سليمان مظهر، سابقہ مرجع ص 246
  60. ۔ سليمان مظهر ، سابقہ مرجع ص 246
  61. ۔ سليمان مظهر ، سابقہ مرجع ص 272
  62. ۔ محمد أبو زهرة ، سابقہ مرجع ص 102
  63. ۔ شارل سنيو بوس ، سابقہ مرجع ص 68-69
  64. ۔ محمد أو زهرة ، سابقہ مرجع ص 13
  65. ۔ محمد أبو زهرة، سابقہ مرجع ص 13
  66. ۔ رشدي عليان، سابقہ مرجع ص 75
  67. ۔ عبد الرحمن بدوي، ربيع الفكر اليوناني، خلاصة الفكر الأوربي، سلسلة الينابيع، ط5، وكالة المطبوعات، الكويت ودار القلم ـ بيروت 1979 ، ص 85 .
  68. ۔ عبد الرحمن بدوي ـ سابقہ مرجع ، ص19
  69. ۔ نديم الجسر، قصة الايمان، ط3 ، مطابع المكتب الاسلامي، بيروت، 1969، ص 39، 40 كذلك انعام الجندي، م،س، ص54 كذلك رشدي عليان، سابقہ مرجع ص، 77 ،
  70. ۔ محمد عبده ، سابقہ مرجع ص، 36
  71. ۔عقاد ، الله سابقہ مرجع ص 121 ـ
  72. ۔ رشدي عليان سابقہ مرجع ص80
  73. ۔ سامي سعيد ، الإله زووس، ،ص 177، ط1 مطبعة الجامعة ، بغداد 1970
  74. ۔ سامي سعيد، سابقہ مرجع ص 183
  75. ۔ رشدي عليان ، سابقہ مرجع ص 81 ، 82.
  76. ۔ عقاد ،الله ،سابقہ مرجع ، ص
  77. ۔ احمد شلبي ، مقارنة الاديان ، المسيحية ،ط2 ، القاهرة ،1978 ، ص 39
  78. ۔ سالم الرياشي ،رسالتي الى اليهود ،1966 ،بلا مطبعة ولامكان ،ص 7 .
  79. ۔ مرقس 13 : 30 ـ 31 .
  80. ۔عقاد ، الله ، سابقہ مرجع ، ص 147
  81. ۔ المصدر نفسه ، ص 147 ـ157
  82. ۔احمد شلبي ، سابقہ مرجع ،ص 84
  83. ۔ احمد السقا ، سابقہ مرجع ، ص 78 ، 79
  84. ۔احمد شلبي ، سابقہ مرجع ، ص 84 ، 85
  85. ۔ جلال الدین آشتیانی، تحقیقی در دین مسیح، ص 52.
  86. ۔ ویلیم هارن، راهنمای الهیات پروتستان، ص 34.
  87. ۔ Maurice Relton: Studies in Christian Doctrine, Macmillan, London, 1960, P.3
  88. ۔ Hibbert Journal, XXIV No. 1, as quoted by Encyclopadia of Britannica, 1950, P. 479, V.22, Trinity.
  89. ۔عقاد ، الله، م،س، ص158
  90. ۔عقاد ، الله، م،س، ص158 ـ 164
  91. ۔ العنكبوت (46)
  92. ۔عقاد ، الله، م،س، ص 158 ـ 164
  93. ۔ مهنا يوسف حداد، الرؤية اليهودية ، ص ـ 120 ، دار السلاسل ،كويت ،1989
  94. ۔ الشهرستاني،م ،س ، ص116
  95. ۔ ويدجيري، سابقہ مرجع ص 130
  96. ۔ المصدر نفسه، ص 131
  97. ۔ محمد جلال شرف، الله والعالم والانسان في الفكر الإسلامي، دار المعارف، مصر، 1971، ص18.
  98. ۔ سورة ابراهيم ،الآيه 52 ...
  99. ۔ سورة الانبياء الآيه 108
  100. ۔ سورة ص،الآيه 65 .
  101. ۔ سورة النحل، الآيه51= مصادر ومراجع: =
    1. : القرآن الكريم .
    2. العهد القديم .
    3. بدوي ۔عبد الرحمن ، ربيع الفكر اليوناني، خلاصة الفكر الأوربي، سلسلة الينابيع، الطبعة الخامسة، وكالة المطبوعات، دار القلم ـ بيروت 1979 .
    4. أبو زهرة ۔محمد ، مقارنات الأديان، دار الفكر العربي، القاهرة .
    5. جرجس، الاصول الايمانية في معتقدات الكنيسة القبطية، بيروت ،1980 .
    6. جيمز هنري ، تطور الفكر والدين في مصر القديمه ، ترجمه زكي سوس ، دار الكرنك للنشر والطبع والتوزيع ، القاهره ، 1961.
    7. چیمہ ، پروفیسر غلام رسول، تاریخِ مذاہب ِ عالم، ص ، ۲١۴ ، علام وعرفان پبلیشر، لاہور ، ۲۰۰٦
    8. حداد۔ مهنا يوسف ، الرؤية اليهودية ،دار السلاسل ،الكويت ،1989 .
    9. الحيني ،محمد جابر عبد العال ، دراسه اسلاميه في العقائد والاديان ، الهيئه المصريه العامه ، القاهره ، 1971.
    10. ويد جيري۔ البان ، المذاهب الكبرى في التأريخ من كونفوشيوس الى تونبي ترجمه ذوقان قرقوط ،ط2 ، دار القلم ، بيروت، 1979 .
    11. رشدي عليان وسعدون الساموك ، الاديان ، دراسه تأريخية مقارنه ، القسم الاول ، مطبعة وزارة التعليم العالي بغداد ، 1976 .
    12. الرياشي ۔سالم ،رسالتي الى اليهود ،1966 ،دار النشر ـ نامعلوم ۔
    13. سوسة۔ احمد ، مفصل العرب واليهود في التأريخ ، ط5 ، دار الرشيد ، بغداد ، 1981
    14. سعادة ۔ انطوان ، شهود يهوه والاسرار ، المطبعة البوليسيه ، لبنان .
    15. سامي سعيد ، الإله زووس،ط1 مطبعة الجامعة ، بغداد 1970 .
    16. الساموك۔ سعدون ، الاديان دراسه تأريخية مقارنة ، القسم الاول ، الديانات القديمه ، مطبعة وزارة التعليم العالي، بغداد 1976 .
    17. الشنتاوي۔ أحمد ، الحكماء الثلاثة، المطبعة العربية،ط1، القاهرة، 1953 .
    18. الشهرستاني ، الملل والنحل ، ج2 ، مطبعة البابي الحلبي ، دمشق ، 1961 .
    19. شبكة الانترنت ، منتدى الاسلام ، الفرق الضالة، المسيحية .
    20. شلبي ۔ا حمد ، مقارنة الاديان ، المسيحية ،ط2 ، القاهرة ،1978 .
    21. شرف، محمد جلال ، الله والعالم والانسان في الفكر الإسلامي، دار المعارف، مصر، 1971 .
    22. عقاد۔عباس محمود ، ابراهيم ابو الانبياء ، دار الرشاد الحديثه، بيروت .
    23. عقاد۔عباس محمود ، الله ، كتاب في نشأة العقيده الالهيه ،ط2 ، دار المعارف ، القاهره ، 1960.
    24. الميسري ،عبد الوهاب ، اليد الخفيه ، دراسه في الحركات اليهوديه ،ط1 ، دار الشروق ، القاهره ، 1998 .
Loading...
Issue Details
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index