36
2
2018
1682060034497_479
73-79
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/16/7
http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/16
Islam Brotherhood Equality Ummah Uniqueness Islam Brotherhood Equality Ummah Uniqueness
امت ایک خصوصی اسلامی تصور ہے جو اسلام کے نظریاتی و معاشرتی پہلووں کا مظہر ہے۔ اس خصوصی تصور کی بناء پر مسلمان دنیا میں منفرد اجتماعیت کےحامل ہیں۔ امت کے لغوی معنی جماعت ، گروہ اور طریقے کے ہیں۔مشہور ماہر لغت ابن منظور الا فریقی کے بقول: "الأمة: الجیل الجنس من کل حي". [1]
امت کے معنی ہر جاندار کے گروہ یاجنس کے ہیں۔
"والأمة الشريعة والدين. وفي التنزيل إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ"[2] امت کے معنی شریعت اور دین کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہم نے اپنے آبا ء کو ایک دین پر پایا۔
امت کے تصور میں دو باتیں خاص طور پر قابل ِ غور ہیں، ایک یہ کہ اس کی اساس نظریہ اور تصور پر قائم ہے، اس میں نسل ، خاندان یا جغرافیائی وحدت فیصلہ کن نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ اس کے لئے ایک شخصی قیادت کا وجود ضروری ہے، جو اس کے مادی وجودکو مجتمع رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے لئے نبی کریم ﷺ کی شخصیت امت کے اجتماعی وجود کے لئے نا گزیر ہے اللہ کے اس نظام میں جہاں کئی امتیں اپنا اپنا کردار ادا کرتی رہی ہیں، ایک نئی امت تشکیل دی گئی، جسے قرآن مجید میں ان الفاظ سےذکرفرمایا۔
"وَلْتَكُن مِّنكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ ۚ"[3]
اور تم میں سے ایک جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کاحکم دئے اور برے کاموں سے روکے۔
قرآن حکیم میں امت کالفظ افراد کے مجموعہ کے لیے ہی نہیں استعمال ہوا بلکہ ان کے عقیدے کےلیے بھی استعمال ہواہے۔
" كَذَٰلِكَ أَرْسَلْنَاكَ فِي أُمَّةٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهَا أُمَمٌ لِّتَتْلُوَ عَلَيْهِمُ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ وَهُمْ يَكْفُرُونَ بِالرَّحْمَٰنِ"[4]
اور اسی طرح ہم نے آپﷺکو ایک امت میں جس سے پہلے کئى امتىں گزر چکی ہیں بھیجا تاکہ آپ ﷺان کو وہ کتاب جوہم نے آپ کی طرف بھیجی، پڑھ کرسنائیں اور وہ رحمن کا انکارکرتے ہیں۔
مسلمانوں کے لیے انسانی مساوات اور یکسانیت امت کے اجتماعی وجود کےلیے ناگزیر ہے۔ امت کے لیے نسل، رنگ یاجغرافیائی حدود ضروری نہیں کیونکہ یہ اجزاء قومیت کے وجود کے لیے ناگزیر قرار دئے گئے ہیں۔قوم کی نظریاتی سمت بعد میں متعین ہوتی ہے نسلی اور وطنی اساس پہلے طے ہوتی ہے۔ امت کا مادی تشخص اس کی نظریاتی اساس کے نتیجے میں پیدا ہوتاہے اس لیے نظریاتی وحدت اور عقیدہ کی یگا نگت امت کے وجود کے لیےناگز یر ہے۔
حجتہ الوداع کے موقع پر حضور پاک ﷺنے خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا ۔
يا أيها الناس! إن ربكم واحد وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي على عجمي ولا لعجمي على عربي و لا أحمر على أسود و لا أسود على أحمر إلا بالتقوى *(إن أكرمكم عند الله أتقاكم)*، ألا هل بلغت؟ قالوا: بلى يا رسول الله! قال :فيبلغ الشاهد الغائب." [5]
اے لوگو۔تمہار رب ایک ہے کسی عربی کوعجمی پرکسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں نہ کسی کالے کو سرخ پر اور نہ کسی سرخ کو کالے پر برتری حاصل ہے بجز تقوی کے اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ متقی ہوگا۔ لوگو کیا میں اللہ کا حکم پہنچادیا سب نے یک زبان ہو کر کہا یارسو ل اللہ بے شک آ پ نے پہنچا دیا۔ فرمایاجو یہاں موجود ہیں وہ یہ حکم ان لوگوں تک پہنچادیں جو یہاں موجود نہیں ہیں۔
اخوت اور اتحاد: اسلام سے قبل تعصبات اور تفریقات میں بٹی انسانیت کو اسلام نے اس نعرے میں کہہ کر بلند کیا ،کہ تمام روئے زمین کے انسان ایک ہی اصل سے ہیں۔اس نعرے نے تعصبات اور تفریقات کی زنجیروں کو کاٹا اور اتحاد اوراخوت کی لڑی میں پرو دیاـ آنحضرت ﷺنے امت میں محبت والفت کے جذبہ کو فروغ دیتے ہوئے فر مایا:
"المؤمن للمؤمن كالبنيان يشدّ بعضه بعضًا ثم شبك بين أصابعه".[6] ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایسا ہے جیسا کہ عمارت کا ایک جزو دوسرے جز و کو قوت دیتا ہے۔ پھر اپنی انگلیوں کو ملا کر مثال بتائی۔
اسلام نے سب سے پہلے دنیا میں مساوات کا زریں سبق دیا۔ اسی سبق سے رنگ نسل اور قوم کا امتیاز مٹ جاتا ہے۔ دنیا میں حقیقی تہذیب قائم ہونے میں یہی تفریقات رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اگریہ تفریقات مٹ جائیں تو حقیقی تہذیب دنیامیں قائم ہو سکتی ہے۔
ارشاد ربانی ہے۔
"وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً ۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ. إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَ ۚ وَلِذَٰلِكَ خَلَقَهُمْ ۗ".[7]
اگر آپ کا رب چاہتا تو سب لوگوں کو ا یک امت بنادیتا اور یہ ہمیشہ مختلف رہیں گے مگر وہی جس پر آپ کارب رحم کرے اور اسی لیے پیدا کیاہے ان کو۔
’’لذلك خلقهم‘‘ سے مفسرین کا ایک گروہ انسانوں کا باہم مختلف ہونا مراد لیتا ہے جیسا کہ امام بیضاوی نے کہا۔
"إن کان الضمیر للناس فالإشارة إلی الاختلاف،،.[8] اگر(خلقهم) مىں هم ضمیر کا مرجعالناسہے تو ’’ولذلک‘‘ کا اشارہ ایسی صورت میں اختلاف کی طرف ہوگا۔
بہر حال جس طریقہ سے بھی دیکھا جائے، مشاہدہ اور تجربہ کی راہ سے ہو یا قرآن وحدیث کی روشنی میں ہو، ہرحال میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ افراد کااختلاف مصنوعی نہیں بلکہ قدرتی ہے بنانے والے نے آدمی کی ساخت ہی ایسی رکھی ہے کہ باہم ان کا مختلف ہو جاناناگزیرتھا۔
اللہ تعالی کے اس نظام میں کئ امتیں اپنا اپنا کردار ادا کر تی رہی ہیں ایک نئی امت تشکیل دی گئی یہ امت سب سے آخری امت ہے اسی امت کی آرزواور دعاابراہیم ؑ نے کی تھی۔ بىت اللہ کی بنیاد کو اٹھاتے ہوئے یہ دعا ان الفاظ میں کی گئی۔
"رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ".[9]
اے پروردگار ہم کو فرمانبردار بنائے رکھ، اور ہماری اولاد میں بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بنائے رکھ، اور پرودگار ہمیں ہمارے طریق عبادت بتااور ہمارے حال پر توجہ، فرمابے شک تو توجہ فرمانے والاہے۔
اس آیت کےضمن میں صاحب تفسیر ماجدی رقمطراز ہیں:
امت مسلمہ کے ترجمہ ’’فرمان بردارامت‘‘ میں وہ بلاغت و معنویت کہاں جو قرآنی لفظ ’’امت مسلمہ‘‘ میں ہے۔ دعاکی مقبولیت اسی سے ظاہرہے کہ وہ امت آج تک اسی نام سے مشہور چلی آتی ہے۔( من ذریتنا )یعنی ابراہیم واسماعیل علیم السلام کی مشترکہ نسل سے دعادونوں بزرگوار مل کر رہے تھے اس کے ذریت سے مراد بنی اسماعیل ہی ہو سکتے ہیں۔[10]
تو حىد الہی کى علمبردار امت کو امت مسلمہ کا نام حضرت ابراہیم علیہ السلام نے دیا تھا ارشاد باری تعالی ہے۔
"مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ ۚ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ."[11] تمہارے باب ابراہیم علیہ السلام کی امت جس نے تمہارا نام مسلمان رکھا۔
امت مسلمہ کو امت وسط، امت واحد اور امت خیر کےلقب سے نوازا گیا۔
اس آیت کی تفسیرمیں عبدالماجد دریا آبادی لکھتے ہیں:
اسلام کادوسرا نام ملت ابراہیم ہے۔ قرآن کے مخاطبین اول یعنی اہل عرب تو نسل ابراہیم علیہ السلام سے تھے یہاں ایک خاص پہلو تشویق و ترغیب کا بھی نکل رہاہے۔ یعنی یہ مذہب کوئی انوکھااوربیرونی نہیں ، یہ تو عین تمہارے جد محترم ہی کاہے ۔ دوسری امتوں اور قوموں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو دین حق کی تبلیغ رسول اللہ ﷺکے ذریعے سے ہوئی ہے۔اور مسلمانوں کے واسطہ سے دین حق ساری نسل انسانی کو پہنچاہے۔ عزم وہمت کو قائم رکھنے والی اور کشائش حیات میں ہر مصلحت نفس پر غالب رکھنے والی چیز یہی عقیدہ توحیدہے جس قدر یہ اعتمادعلی اللہ قوی ہوگا اسی درجہ میں انسان مراتب معرفت و قرب میں ترقی کرتا جائے گااور ہر غیر الہی قوت کے مقابلہ میں دلیرتر ہوتا جائے گا۔[12]
تعلیمات نبویﷺ کے آئینے میں عالمگیر امت مسلمہ کی حقیقی حیثیت:
اہل عرب نے دعوت توحید کوبھلا کر تین سو ساٹھ بتوں کو اس جگہ سجادیاتھاجو جگہ ابراہیم علیہ اسلام نے صرف اپنے ایک رب کی عبادت کے لیے تعمیرکی تھی اور جس کا اعلان بھی اپنے خالق کے حکم سے کردیاتھا۔
"وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ* وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ".[13]
اور جب ہم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ایک معبد قرار دیا اور حکم دیاکہ ہماری جبروت میں اور کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور اس گھرکو طواف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے ہمیشہ پاک و مقدس رکھنا ، نیز ہم نے حکم دیاکہ دنیا میں حج کی پکاربلند کرو، لوگ تمہاری طرف دوڑتے چلے آئیں گے ان میں پیادہ بھی ہونگے اور وہ بھی جنہوں نے مختلف قسم کی سواریوں پر دور دراز مقامات سے قطع مسافت کی ہوگی۔
اگرچہ حضرت ابراہیم علىہ نے بت پرستی کی فضا میں آنکھ کھولی تھی ، مگر اللہ تعالی نے ان کو اسلام کی نعمت سے مالا مال کیا۔اسی نعمت عظمی نے ان کے اندروہ فہم و فراست پیدا کردی تھی کہ دنیا حیران رہ گئی۔ ایسی استقامت و پا مردی کہ تن تنہا پوری قوم سے ٹکراگئے داعی الی اللہ کی حیثیت سے وہ فرض نبھایا کہ اللہ تعالی نے فردواحد کو امت کالقب عطافرمایا۔
قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کى بجائے ملت ابراہیم علیہ السلام کو اختیار کرو تو وہ دراصل اس حقیقت پر مبنی ہے کہ لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہےنہ کہ بعد کی ملتیں اور محمد ّ کا پیغام اسی ملت کی طرف ہے۔[14]
حاصل کلام یہ ہے دوسری امتوں اور قوموں کے مقابلہ میں تمہیں عالمگیر پیغام تو حید کا حامل بنایا اور ساری دینی دعوتیں جغرافیائى یانسلی قیود سے محدودر ہیں۔ صرف اسلام ہی پیغام عالمگىرىت کا درس دىتا ہے۔ حشر میں تمہیں اسی معىارسے جانچا جائے گا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
"إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتًا لِّلَّهِ حَنِيفًا وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ".[15] بلاشبہ ابراہیم( اپنی ذات میں) ایک امت تھے۔ اللہ کے فرمانبردار اور یکسورہنے والے تھے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امت کا لقب دىنے کى وجوہات:
حضرت ابراہیم علیہ اسلام پرجوامت کا اطلاق کیاگیا ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ایک قوم ایک امت مل کر جتنے نیکی کے کام کرتی یاجتنی عبادت کرتی حضرت ابراہیم علیہ السلام تنہااتنی عبادت کرتے تھے۔ اور چونکہ وہ امت کے امتیاز کا سبب تھے۔ اس وجہ سے ان کو امت کہاگیا۔
امت کا ایک معنی ’’نیکی اور خیر کی تعلیم دینے والا ہے‘‘۔ حدیث میں ہے۔
فروہ بن نوفل اشجعی بیا ن کرتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود نے کہاکہ حضرت معاذایک امت تھے، اللہ تعالی کے اطاعت گزار، باطل سے متجنت، میں نے دل میں کہا ابوعبدالرحمن نے غلط کہا۔ اللہ تعالی نے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے فرمایا ہے’’ ان ابراهيم کان امة کانتاً لله‘‘۔حضرت ابن مسعو دؓنے کہا تم جانتے ہوکہ امت کے کیامعنی ہے اور قانت کاکیا معنی ہے میں نے کہا اللہ تعالی ہی زیادہ جاننے والا ہے۔ انہوں نے کہ امت وہ شخص ہےجونیکی اور خیر کی تعلیم دے اور قانت وہ شخص ہے جو اللہ اور رسول اللہ ّ کی اطاعت کرنے والا ہو اور حضرت معاذ نیکی اور خیرکی تعلیم دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ [16]
حوالہ جات
- ↑ ۔ افریقی، ابن منظور، محمد بن مکرم، لسان لعرب دار احیاء التراث لعرابی، بیروت،۱۴۰۸ ھ۔۱۹۸۸ء، ج۱۲۲۔اص:۲۷۔
- ↑ - لسان العرب۔۱۲۔۲۳.
- ↑ - آل عمران۱۰۴:۳.
- ↑ - الرعد۳۰:۱۳.
- ↑ - بخاریؒ، ابو عبداللہ محمد اسماعیل الجامع الصحیح کتاب الحج باب الخطبہ ایام منی حدیث۱۷۴۱.
- ↑ - بخاریؒ، ابو عبداللہ محمد اسماعیل الجامع الصحیح کتاب الادب، باب تعاون المومین ،حدیث ۶۲ ۶۰.
- ↑ - هوداا۔ ۱۱۹،۱۱۸.
- ↑ - البیضاوی ، ابو عبداللہ بن عمرابوالخیر شافعی، انوار لتنزیل واسرارالتاویل ، بیروت دار لفکر ۳۔۲۶۹.
- ↑ - البقرۃ۲۔۱۲۸.
- ↑ - دریا آبادی، عبدلماجد تفسیر ماجدی تاج کمپنی لاہور۱۹۵۲ ءج ۱ ۷۴۴.
- ↑ - الحج ۲۲۔۸۷.
- ↑ - دریا آبادی، عبدالماجد تفسیر ماجدی تاج کمپنی لاہور ج ۵۔۲۹۳.
- ↑ - الحج ۲۲۔۳۶ ۔۲۷.
- ↑ - مودودی،ؒ ابوالاعلی تفہیم القرآن ادارہ ترجمان القران، لاہور۱۹۸۶ ء ج۳۔۲۱۸.
- ↑ - الخل ۱۶۔۱۲۰.
- ↑ - الطبرانی، امام ا بی القاسم بن احمد ایوب ، المعجم الکبیر۔ رقم الحدیث۹۹۴۷.
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 36 Issue 2 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |