29
2
2014
1682060034497_481
154-184
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/231/219
قرآن مجید انسانوں کے لیے ایک مکمل نظام حیات کے طورپر نازل ہواہے، یہ ایسی کتابِ ہدایت ہے، جو انسانیت کو سب سے سیدھی او رمعتبر راہ دکھاتی ہے : ’’ان هذا القرآن يهدي للتى هى أقوم‘‘۔[1]
ترجمہ: بے شک یہ قرآن سب سے سیدھے او رمضبوط راستے کی راہ نمائی کرتا ہے۔یہ ایک مینارہٴ نور ہے، جس سے سارا عالم رہتی دنیا تک تاریکی سے نجات پاتا رہے گا۔قد انزل الله إليکم ذکراً، رسولاً يتلو عليکم آيت الله مبيناتٍ ليخرج الذين آمنواوعملوا الصٰلحٰت من الظلمٰت إلی النور[2]
ترجمہ: الله نے تمہارے لیے قرآن نازل کیا، رسول تم پر الله کی واضح آیات پڑھ کر سناتے ہیں، تاکہ ایمان اورعمل صالح کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائیں۔
یہ ایک نسخہٴ کیمیا ہے، جو خاک کو کیمیا اور ذرہ کو جوہر بناتا ہے، اس میں بیماروں کے لیے شفا اور صحت مندوں کے لیے سامانِ سکون ہے، یہ خدا کا ایسا قیمتی اور عظیم الشان عطیہ ہے کہ اگر مضبوط اور بلند وبالا پہاڑوں پر اتارا جاتا تو وہ اس کا وزن برداشت نہ کر پاتے اور ہیبت سے ریزہ ریزہ ہو جاتے: " لَوْ أَنزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَّرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْيَةِ اللَّهِ" ترجمہ:اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم دیکھتے کہ وہ لرزہ براندام ہے اور ہیبت الہٰی سے ریزہ ریزہ ہو چکا ہے۔
قرآن آج بھی تمام طاقتوں کا سرچشمہ اور ساری مشکلات کا حل ہے، جس طرح قرآن نے صدیوں پیشتر ایک حد سے زیادہ گری ہوئی قوم کو بلندیوں کے آسمان پر پہنچا دیا تھا اور اسی کتاب ہدایت کی بدولت ایک انتہائی پچھڑا ہوا معاشرہ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ او رمہذب معاشرے میں تبدیل ہو گیا، جن لوگوں کو کسی مہذب اور شریف آدمی کی نقل اتارنے کا سلیقہ نہیں تھا، وہ ساری مہذب اور تعلیم یافتہ دنیا کے لیے آئیڈیل بن گئے، جن کو اپنا چھوٹا سا گاؤں چلانے کی لیاقت نہیں تھی، ان میں پوری روئے زمین پرحکم رانی کی اہلیت پیدا ہو گئی، جن کو ایک چھوٹی سی سوسائٹی پر کنٹرول نہیں تھا اور جو ساری دنیا میں اپنی خانہ جنگی اور سر پھٹول کے لیے بدنام تھے، ان کو ایسا قانون مل گیا جس نے ساری انسانیت کو ایک لڑی میں پرو دیا… یہ سب اسی کتاب مقدس کا اعجاز تھا… اس کی معجزانہ قوتیں آج بھی زندہ ہیں، ان کو برتنے او ر استعمال میں لانے کی ضرورت ہے، آج اس کتابِ ہدایت کو ہم نے سرد خانے میں ڈال دیا ہے اوراس ہدایت وانقلاب والی کتاب کو صرف ایک برکت والی کتاب میں تبدیل کر دیا ہے ۔
ضرورت ہے کہ جائزہ لیا جائے کہ وہ کیا چیزیں تھیں، جن کو برت کر ایک گئی گذری قوم اتنی آگے بڑھ گئی اور وہ کیا باتیں تھیں، جن کو چھوڑ کر آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرنے والی قوم پستی کی گہرائیوں میں چلی گئی، بقول ڈاکٹر اقبال ؒ
وہ زمانہ میں معزز تھے مسلماں ہو کر اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر
قرآن آج بھی قوموں اور افراد کو بنانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے، شخصیتوں کی تعمیر کانسخہ آج بھی پوری طرح کار گر ہے، قرآن کا دامن اس قسم کے شہ پاروں سے بھرا پڑا ہے، ہم ان میں سے بطورِ نمونہ چند کو ذکر کرتے ہیں۔
قوت ِ ایمانی:
جہاں تک میں نے قرآن کو پڑھا ہے، قرآن نے سب سے زیادہ زور ایمان ویقین پر دیا ہے، کسی فرد یا قوم کی تعمیر میں سب سے بڑا رول اسی قوت ایمان کا ہے، ایمان کا درجہ فرد یا قوم کی زندگی کے لیے روح کا ہے، یہ شخصیت بنتی ہے اسی بنیاد پر، اس کو ہٹا کر کی جانے والی ہر کوشش فقط خسارہ کا سودا ہے، جس کا نظارہ ہر دور میں چشم فلک نے کیا ہے او رجس پر ماہ وسال کی گردشیں گواہ ہیں، قرآنِ کریم نے صدیوں کے اسی تجربہ پر تصدیق کی مہر لگائی ہے:
وَالْعَصْرِ۔ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ، إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ [3]
ترجمہ: قسم ہے زمانے کی، بے شک انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ایمان والوں کے، جنہوں نے نیک اعمال کیے، ایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کی۔
یہ سورت شخصیت سازی کے مسئلے میں سب سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے، اس سورة کا موضوع ہی انسانیت کی تعمیر اور نفع ونقصان کے معیار کا تعین ہے، قرآن پورے یقین کے ساتھ ( اور قرآن کا ہر بیان یقینی ہوتا ہے ) اورہر قسم کے شک وشبہ کی نفی کرتے ہوئے کہتا ہے کہ : جو لوگ ایمان و الے نہیں ہیں، وہ گھاٹے میں ہیں، اگر چہ کہ و ہ بہ ظاہر نفع میں دکھائی دیں اور اگر کوئی صاحبِ ایمان گھاٹے میں دکھائی دیتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے اپنے ایمان پر محنت کرنی چاہیے، قرآن کریم نے ایسے ایمان والوں کو ہدایت کی ہے: "يَا ايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا آِمُنوْا" (اے ایمان والو! تجدید ایمان کرو)[4] قرآن اور صاحبِ قرآن نے نزول قرآن کے آغاز سے پوری مکی زندگی صرف ایمان کی محنت پرگزاری او رعمل کی جگہ پر نماز او ر تلاوت قرآن کے علاوہ کوئی حکم شرعی، بندوں کو نہیں دیا گیا، بندوں میں یہ یقین بنایا گیا کہ اصل چیز الله کی رضا ہے، ساری محنت اس لیے کی جانی چاہیے کہ الله ہم سے راضی ہو جائے، اس لیے زندگی کے ہر مسئلے میں یہ دیکھنا ہو گا کہ الله کی مرضی کیا ہے ؟ الله کی مرضی او راس کا حکم جان لینے کے بعد پھر اپنی کوئی مرضی باقی نہیں رہ جاتی۔
ارشاد باری تعالی ہے : "إِنِ الْحُكْمُ إِلاَّ لِلّهِ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ"[5] ترجمہ:فیصلہ صرف خدا کا چلے گا، اسی پر میرا بھروسہ ہے اوربھروسہ کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
"وَمَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللّهُ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ"[6] ترجمہ: الله کے نازل کردہ قانون کے مطابق جو لوگ فیصلہ نہیں کرتے وہ فاسق ہیں۔
"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ "[7] ترجمہ: جب الله اور اس کے رسول نے کسی قضیہ میں فیصلہ سنا دیا تو پھر کسی مؤمن مرد یا عورت کے لیے اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔
نماز اور تلاوتِ قرآن بھی اگرچہ عمل کے درجہ کی چیز ہے، لیکن یہ بھی ایمان ہی کا تکملہ ہیں، ایمان کو غذا انہیں کے وسیلے سے ملتی ہے، خدا سے رابطہ کا یہی ذریعہ ہیں، بندہ انہیں واسطوں سے اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے، یہ دونوں چیزیں عبد ومعبود کے رشتے کو مضبوط کرتی ہیں، اس طرح گویا یہ بھی ایمان ویقین ہی کا حصہ ہیں۔
ایمان نام ہے دل سے مان لینے کا او راسلام نام ہے سرِ تسلیم خم کر دینے کا، جس کو قرآن اتباع، اطاعت اور انقیاد وغیرہ اصطلاحات سے ذکر کرتا ہے، قرآن اپنے ماننے والوں کاشروع سے یہ ذہن بناتا ہے کہ رب کے سامنے اپنے کو ہر طرح جھکاکر دینا ہی بندگی ہے، ایسے لوگوں کو قرآن رضوانِ الہٰی کا پروانہ دیتا ہے: " رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ"[8] ترجمہ: الله ان سے راضی ہے اور وہ الله سے راضی ہیں، یہ سعادت رب سے ڈرنے والوں کو ملتی ہے۔
قرآن نے یہ فکر دی ہے کہ قوتوں کا سرچشمہ رب العالمین ہے، موت وحیات کے تمام مسائل کی ڈوراسی کے ہاتھ میں ہے، مال واسباب صرف ظاہری ذرائع ہیں، نہ یہ کسی کو زندگی دے سکتے ہیں اور نہ کسی مسئلے کو بنا سکتے ہیں، فیصلے تمام تر احکم الحاکمین کے دربار سے ہوتے ہیں: " يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ أَخْلَدَهُ.كَلَّا لَيُنبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ "[9] ترجمہ:” کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال اس کو ہمیشہ زندہ رکھے گا، ہر گز نہیں یہ سارا مال جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ " إِن يَنصُرْكُمُ اللّهُ فَلاَ غَالِبَ لَكُمْ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ وَعَلَى اللّهِ فَلْيَتَوَكِّلِ الْمُؤْمِنُونَ"[10]
ترجمہ: اگر الله تمہارا مدد گار ہو تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا او راگر الله تمہیں رسوا کریں تو پھر اس کے بعد تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا، پس بھروسہ صرف الله پر کرنا چاہیے۔“اسی طرح کی بے شمار آیات ہیں، جن میں قرآن نے بندہ کا رشتہ پروردگار سے جوڑنے پر زور دیا ہے او رجب بندہ کا تعلق اپنے رب سے ہو جاتا ہے، تو دنیا کے سارے رشتے اس کے زیر سایہ چلے آتے ہیں، انسان میں خدا اعتمادی سے خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے، انسان کے دل میں اپنے پروردگار کی بنائی ہوئی ایک ایک چیز سے پیار جاگ جاتا ہے او رتمام وہ اچھی باتیں جو الله کو پسند ہیں، وہ ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ہر ایسے کام سے ڈرتا ہے، جن سے پروردگار ناراض ہوتا ہے، اس طرح انسان فضائل واخلاق کاپیکر، امن ومحبت کا پیکر، امن ومحبت کا پیام بر اور خدا شناسی وخود شناسی کا سنگم بن جاتا ہے، اس کو دیکھنے سے خدا یاد آتا ہے، اس کی پیشانی میں خدا کا نورجھلکتا ہے، اس کے پاس بیٹھنے کو جی چاہتا ہے، اس کی باتیں دل میں اترتی چلی جاتی ہیں، اس طرح ایک معیاری اور تعمیر پسند سوسائٹی کی بنیاد پڑتی ہے…
تو انسان کی شخصیت کی تعمیر میں سب سے بڑا حصہ ایمان ویقین کا ہے، یہ نہ ہو تو ساری چیزیں کھوکھلی ہیں۔
حسنِ عمل:
انسان کی شخصیت کی تعمیر میں دوسرا اہم ترین درجہ عملِ صالح کا ہے، قرآن کریم نے سورہٴ العصر میں اس کو دوسرے مقام پر رکھا ہے، جو لوگ آرزوؤں او رخوابوں کی دنیا میں رہتے ہیں او رکام سے زیادہ منصوبے بنانے پر اپنے اوقات صرف کرتے ہیں او رچاہتے ہیں کہ دنیا میں ان کی تعریف ہو، قرآن ان کو متوجہ کرتا ہے کہ اچھے کاموں کے بغیر دنیا یا آخرت میں کوئی اچھا انسان نہیں بن سکتا، اچھی شخصیت اچھے کاموں سے بنتی ہے، پھر اچھے اعمال کی ایک طویل فہرست ہے، جو قرآن میں بکھری پڑی ہے، اہل علم ان سے بہ خوبی واقف ہیں، بطورنمونہ ایک دو آیات کا حوالہ دیتا ہوں:
سورہٴ مومنون کی درج ذیل آیات میں بعض اعمال کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کو کام یابی کا مدار قرار دیا گیا ہے :"
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ. الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُونَ. وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ".[11]
ترجمہ:بے شک ایمان والے کام یاب ہیں، جو اپنی نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں، جو بے کار باتوں سے پرہیز کرتے ہیں، جو زکوٰة ادا کرتے ہیں، جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں،…،… جو اپنی امانتوں اور وعدوں کا لحاظ کر تے ہیں اور جو نمازوں کے پابند ہیں۔
سورہٴ بقرہ میں ہے: ’’ لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَى حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّآئِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُواْ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاء والضَّرَّاء وَحِينَ الْبَأْسِ أُولَئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ‘‘[12]
ترجمہ: نیکی یہی نہیں ہے کہ اپنا رخ مشرق ومغرب کی جانب کرو، بلکہ اصل نیکی یہ ہے کہ الله پر، روز آخرت پر، فرشتوں پر، کتاب اور نبیوں پر ایمان ہو ( اور اعمال میں) اور مال سے بے پناہ محبت کے باوجود اس کو اپنے رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں، مانگنے والوں اور غلاموں کے آزاد کرانے کے لیے خرچ کرے، نماز ادا کرے، زکوٰة دے، وعدہ کرے تو اس کو پورا کرے، مصیبت وتکلیف او رجنگ میں صبر وثبات کا مظاہرہ کرے، یہی لوگ راست باز اور تقویٰ والے ہیں۔
سورہٴ فرقان میں ہے :
"وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِينَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا. وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا. وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا. إِنَّهَا سَاءتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا. وَالَّذِينَ إِذَا أَنفَقُوا لَمْ يُسْرِفُوا وَلَمْ يَقْتُرُوا وَكَانَ بَيْنَ ذَلِكَ قَوَامًا. وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَن يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا. يُضَاعَفْ لَهُ الْعَذَابُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَيَخْلُدْ فِيهِ مُهَانًا. إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوْلَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا. وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّهِ مَتَابًا. وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا. وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا. وَالَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا.[13]
ترجمہ: ’’اور الله کے نیک بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی سے چلتے ہیں او رجب ناسمجھ لوگ ان کو مخاطب کرتے ہیں تو سلام کہہ کر گزر جاتے ہیں، جو راتوں میں اٹھ کر پروردگار کے حضور سجدہ وقیام کا نذرانہ پیش کرتے ہیں، جو کہتے ہیں کہ اے پروردگار! ہم سے جہنم کا عذاب دور فرما، اس کا عذاب پوری تباہی ہے اور وہ برا ٹھکانہ او رمقام ہے، جو خرچ میں نہ بخل کرتے ہیں اور نہ فضول خرچی کرتے ہیں، بلکہ اعتدال سے کام لیتے ہیں، جو الله کے علاوہ کسی معبود کو نہیں پکارتے، جوکسی جان کا بے گناہ خون نہیں کرتے، جس کو خدا نے منع کیا ہے، سوائے حق شرعی کے اور نہ بد کاری کرتے ہیں، کہ جو ایسا کرے گا وہ گنہگار ہو گا …،…اور جو جھوٹے کام میں شامل نہیں ہوتے او رجب کبھی لغویات سے گزرتے ہیں تو سنجیدگی اور وقار سے گزر جاتے ہیں او رجب خدا کی آیات ان کو سنائی جائیں تو وہ اندھے او ربہرے نہیں ہو جاتے اور یہ دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار! ہم کو ہمارے بیوی بچوں سے آنکھ کی ٹھنڈک بخش او ر ہم کو پرہیز گاروں کا پیشوا بنا‘‘۔
اسی طرح سورہٴ شوریٰ،آل عمران، قصص، دہر وغیرہ میں متعدد آیات میں اعمال خیر کی تفصیل دی گئی ہے۔
موافق ماحول:
تیسرا اہم ترین محرک اچھا ماحول ہے، جس کو قرآن نے " وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ "[14] ( او رایک دوسرے کو حق کی اور صبر کی تلقین کریں ) سے تعبیر کیا ہے،اس لیے کہ جس سوسائٹی میں حق بات کہی اور سنی جاتی ہو اور جس کی بنیاد محض جذباتیت اور اشتعال کے بجائے صبر وتحمل اور ایک دوسرے کے لیے برداشت کے جذبہ پر ہو، اس سے بہتر سوسائٹی دنیا میں کیا ہو سکتی ہے؟
انسان کی ذہنی تشکیل اورشخصیت کی تعمیر میں ماحول کا بڑا حصہ ہے، انسان کو اگر اچھا ماحول او رموافق گردوپیش میسر آجائے تو اس کی شخصیت بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کرتی ہے، بہتر ماحول علم وعمل کی کمی کی بھی تلافی کر دیتا ہے، یعنی علم وعمل میں انسان نسبتاً کمتر ہو، لیکن اسے موافق ماحول او راچھی صحبت مل جائے تو علم وعمل کی کمی کے باوجود وہ اپنا مقام بنا لیتا ہے، انسان کے آگے بڑھنے کے لیے ماحول سے بڑھ کر کوئی مددگار نہیں ہوتا،علم وعمل کی تمام خوبیوں کے باوجود اگر انسان کو موافق ماحول اور بہتر مواقع میسر نہ ہوں تو اس کی ترقی وتعمیر میں بڑی مشکلات پیش آئیں گی، علم وعمل کو ماحول ہی پروان چڑھاتا ہے، اسی لیے نماز، روزہ اور دیگر عبادت میں الله نے ماحول بنانے پر زور دیا ہے، یہ نماز باجماعت، رمضان کا اجتماعی روزہ، حج کا اجتماع، عید، جمعہ، کسوف، استسقا وغیرہ کا اجتماع، یہ سب اسی لیے ہے کہ عمومی ماحول میں کوئی بڑا سے بڑا کام بھی آسان ہو جاتا ہے، اس طرح سوسائٹی کے اکثر افراد کو نیک کاموں کی توفیق ہو جائے تو ایک شان دار معاشرہ وجود میں آسکتا ہے، قرآن کریم نے درج ذیل آیت میں اسی حقیقت کی طرف بلیغ اشارہ کیا ہے: " كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ[15] ترجمہ: تم ایک بہتر امت ہو جو اچھائیوں کی تلقین کرتے ہو اور برائیوں سے روکتے ہو۔
قرآن زندگی کے تمام معاملات میں اسی طرح کی وحدت کو پسند کرتا ہے اور معاشرے کی انار کی او رانتشار کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے، آیت کریمہ ہے" وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ "[16] ترجمہ: اور خدا کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے پکڑ لو اور باہم انتشار مت پیدا کرو۔
ایک جگہ ارشاد ہے : " وَأَطِيعُواْ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَلاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ"[17] ترجمہ:الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑا نہ کرو، ورنہ ہمت ہار بیٹھو گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی۔
قرآن چاہتا ہے کہ اسلامی معاشرہ باہم محبت واخوت کی بنیاد پر ترقی کرے اور سب بھائی بھائی کی طرح ایک دوسرے کے مدد گار ہوں: " إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ"[18] ترجمہ:سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں اس لیے اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کراؤ۔
قرآن حسب ونسب سے زیادہ دینی اخوت کا وکیل ہے: " فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ[19] ترجمہ: اگر تم کو ان کے خاندان کا علم نہ ہو تو وہ تمہارے بھائی اوراہلِ تعلق ہیں۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:"سارے مسلمان مل کر ایک آدمی کے مثل ہیں کہ اگر اس کی آنکھ بھی دکھے توسارا بدن دکھ محسوس کرتا ہے او راگر سر میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف میں ہوتا ہے"[20]
آج یہی چیز مسلم سوسائٹی سے ختم ہو گئی اور وہ رنگ ونسل، خاندان، علاقہ او رزبان کی تنگ نظریوں میں مبتلا ہو گئی اور انسان کی ترقی اور اس کی شخصی تعمیر کا راستہ مشکل ہو گیا۔
حسنِ ادب:
اسلام میں ادب کی بڑی اہمیت ہے، ادب سے شخصیت میں نکھار، وقار او رزندگی میں جاذبیت اورمحبوبیت پیدا ہوتی ہے، اگر بچہ میں شروع سے ادب کی عادت ڈالی جائے او راچھے آداب اسے سکھائے جائیں تو وہ بڑا انسان بن سکتا ہے اور قوم وملت کے لیے بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے، زندگی کے ہر مرحلے کے لیے قرآن نے ادب کا درس دیا ہے، ہم بطور نمونہ دو تین چیزوں کا تذکرہ کرتے ہیں:
انسان جب ایک ساتھ رہتا ہے تو ایک دوسرے کے یہاں آنے جانے کی بھی ضرورت پڑتی ہے، ایسے موقع پر اگر انسان حدود کی رعایت نہ کرے تو بہت سے فتنے پیدا ہوں گے، اس لیے قرآن نے اس کے لیے کچھ حدود وآداب مقرر کیے ہیں، مثلاً اجازت لے کر جاؤ، نیز اجازت کا طریقہ یہ ہے کہ : دروازہ سے باہر سلام کرو! ذیل کی آیت کو پڑھئے:
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ "[21] ترجمہ: اے ایمان والو! اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں میں مت جاؤ، مگر اجازت لے کر او رگھر والوں کو سلام کرکے، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے، تاکہ تم سبق حاصل کرو۔
اگر دوسرے کے گھر کی عورتوں سے کچھ لینا ہو تو اس کا ادب یہ بتایا گیا: ’’‘وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ‘‘[22] ترجمہ: جب ان گھر والیوں سے کچھ مانگو تو پردہ کے پیچھے سے مانگو، اسی میں تمہارے او ران کے دلوں کے لیے پاکی ہے۔
آپس میں سلام کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ سلام کا جواب سلام سے بہتر ہونا چاہیے: " وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاء حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ[23] ترجمہ: جب تم کو سلام کیا جائے تواس کا جواب او ربہتر پیرایے میں دو یا کم از کم اسی کو دہرادو۔
حضور صلی الله علیہ وسلم سے خصوصی ملاقات کے آداب پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کہتا ہے : "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ فَقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيْ نَجْوَاكُمْ صَدَقَةً ذَلِكَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَأَطْهَرُ فَإِن لَّمْ تَجِدُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ"[24]
ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم رسول سے اکیلے میں ملنا چاہو تو پہلے صدقہ کرو، اس میں تمہارے لیے خیر او رپاکیزگی ہے، اگر اس کی طاقت نہ ہو تو الله بخشنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔اس حکم کا ایک مخصوص پس منظر تھا، جو کچھ دنوں کے بعد ختم کر دیا گیا، لیکن فی الجملہ اس سے بڑوں کے دربار میں جانے کے آداب پر روشنی پڑتی ہے او رچھوٹوں کو کیا تیاری کرنی پڑتی ہے اس کی حیثیت جھلکتی ہے او راس سے چھوٹوں میں کچھ کرنے کا جذبہ بھی بیدار ہوتا ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم سے گفت گو کے آداب پر قرآن نے بتایا کہ آپ سے عام لوگوں کی طرح گفتگو نہ کرو، بلکہ اس کا دھیان رکھو کہ تمہاری آواز نبی صلی الله علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہونے پائے: " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ "[25] ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آواز نبی صلی الله علیہ وسلم کی آواز سے اونچی نہ کرو۔ آپ کو مخاطب کرنے کا ادب قرآن نے یہ بتایا کہ عام لوگوں کی طرح نام لے کر نہ آواز دو، بلکہ آپ کے شایان شان القاب کا استعمال کرو:" لَا تَجْعَلُوا دُعَاء الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاء بَعْضِكُم بَعْضًا "[26]
ترجمہ:رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اس طرح نہ پکارو جس طرح باہم لوگوں کو پکارتے ہو۔کسی مجلس میں ہو تو آپس میں کا ناپھوسی کرنے کو خلاف ادب قرار دیا گیا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: "إِنَّمَا النَّجْوَى مِنَ الشَّيْطَانِ"[27] ترجمہ: کانا پھونسی کرنا شیطان کا کام ہے۔
عائلی زندگی میں ایک ساتھ رہتے ہوئے بہت سی دشواریاں پیش آتی ہیں اور کبھی ایک کی بات دوسرے کو پسند نہیں آتی ہے، اس تعلق سے قرآن نے ادب کی تلقین کی: "وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَى أَن تَكْرَهُواْ شَيْئًا وَيَجْعَلَ اللّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا "[28] ترجمہ: بیویوں کے ساتھ معروف طریقے پر زندگی گزارو، اگر تم کو وہ پسند نہ آئیں تو بھی ممکن ہے کہ ایک چیز تم کو اچھی نہ لگے او رالله نے اس میں بہت خیر رکھی ہو۔
اسی بات کو ایک حدیث میں ارشاد فرمایا: "اپنی بیویوں میں کوئی برائی دیکھ کر ان سے نفرت نہ کرو کہ غور کرو گے تو اس میں کوئی دوسری بات اچھی نکل آئے گی۔"[29] زمین پر چلنے کا ادب بتایا گیا: " وَلاَ تَمْشِ فِي الأَرْضِ مَرَحًا إِنَّكَ لَن تَخْرِقَ الأَرْضَ وَلَن تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُولاً"[30] ترجمہ: زمین میں اکڑ کر نہ چلو کہ نہ تو زمین کو پھاڑ سکتا ہے اور نہ پہاڑوں تک اونچائی میں پہنچ سکتا ہے۔
ایک دوسری جگہ ارشاد ہے : "وَلَا تَمْشِ فِي الْأَرْضِ مَرَحًا إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ"[31] ترجمہ: زمین میں اکڑ کر نہ چل، بے شک الله کسی مغرور او رمتکبر کو پسند نہیں کرتا۔گفتگو کا سلیقہ بتایا گیا کہ نرمی اور ملائمت کے ساتھ اور سامنے والے کی عزتِ نفس کا خیال کرتے ہوئے بات کی جائے، ارشاد ہے: " فَقُولَا لَهُ قَوْلًا لَّيِّنًا "[32] ترجمہ: ان سے نرمی کے ساتھ بات کرو۔ " وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ "[33]
ترجمہ: پست آواز میں بات کر و،اس لیے کہ سب سے بُری آواز گدھے کی ہے۔ " قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّن صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَآ أَذًى"[34] ترجمہ: اچھی بات کہنا اور درگزر کرنا، اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دل آزاری ہو۔
اس طرح قرآنی آداب کی بے شمار مثالیں ہیں، یہاں صرف بطورنمونہ چند چیزیں پیش کی گئی ہیں۔
تزکیہ:
شخصیت کی تعمیر کے لیے تزکیہ کی بھی شدید ضرورت ہے، قرآنِ کریم نے ایسے شخص کی کامیابی کی ضمانت دی ہے جس نے اپنا تزکیہ کیا: قد افلح من زکھا[35] ترجمہ: جس نے اپنا تزکیہ کیا وہ یقینا کام یاب ہو گیا۔ قرآن کریم نے فرائضِ رسالت میں اس کو شمار کیا ہے: "يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ "[36] ترجمہ: رسول الله صلی الله علیہ وسلم ان کو خدا کی آیات سناتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں۔
تزکیہ کا مطلب ہے اصلاح قلب اور اصلاح باطن، جب تک انسان کا باطن درست نہیں ہوتا، ظاہری وضع داری سے کچھ نہیں ہوتا، بلکہ باطن کے فساد کے ساتھ دکھاوے کا تقویٰ نفاق کو جنم دیتا ہے او را س سے شخصیت بننے کے بجائے اور بگڑجاتی ہے، دورخاپن انسانیت کے لیے بدترین لعنت ہے، قرآن اور صاحبِ قرآن نے اصلاحِ باطن پر بہت زیادہ توجہ دی ہے اور ایمان کو دل ونگاہ میں راسخ کرنے کی تلقین کی او راس کے لیے خوف خدا، آخرت کی جواب دہی، جہنم کا ڈر اور دنیا وآخرت کی ذلت ورسوائی کے حوالے دیے ہیں اور دکھاوے کے ہر عمل پر وعید سنائی ہے۔
نماز بہت بڑی عبادت ہے، لیکن غفلت وریا کے ساتھ ادا کی جائے تو ثواب کے بجائے گناہ بن جاتی ہے :" فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّينَ. الَّذِينَ هُمْ عَن صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ. الَّذِينَ هُمْ يُرَاؤُونَ."[37] ترجمہ:ان نمازیوں کے لیے ہلاکت ہے، جو اپنی نمازوں سے غافل ہیں اورمحض دکھانے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔ " إِنَّ الْمُنَافِقِينَ يُخَادِعُونَ اللّهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ وَإِذَا قَامُواْ إِلَى الصَّلاَةِ قَامُواْ كُسَالَى يُرَآؤُونَ النَّاسَ وَلاَ يَذْكُرُونَ اللّهَ إِلاَّ قَلِيلاً" [38]ترجمہ: منافقین خدا کو دھوکا دیتے ہیں، حالاں کہ وہ خود دھوکہ میں مبتلا ہیں، یہ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو بڑی سستی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اور الله کو بس برائے نام ہی یاد کرتے ہیں۔
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُبْطِلُواْ صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالأذَى كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاء النَّاسِ وَلاَ يُؤْمِنُ بِاللّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ "[39] ترجمہ:اے ایمان والو! اپنے صدقات کو احسان جتلا کر، یا ایذا پہنچا کر ضائع مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے او رالله اور روزِ آخرت پر یقین نہیں رکھتا۔
دورُ خے پن کو قرآن نے منافقوں کی خاص عادت قرار دیا ہے:
" وَإِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْاْ إِلَى شَيَاطِينِهِمْ قَالُواْ إِنَّا مَعَكْمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِؤُونَ [40]
ترجمہ: اور جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں او رجب اپنے شیطانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو صرف مسلمانوں کو بیوقوف بناتے ہیں۔
ایسے لوگوں کے لیے احادیث میں بھی شدید وعیدیں آئی ہیں:
ایک حدیث میں آیا ہے کہ"قیامت کے دن خدا کے نزدیک سب سے بدتر دورُخے شخص کو پاؤگے جوکچھ لوگوں کے پاس جاتا ہے تو اس کا رخ اور ہوتا ہے اور دوسروں کے پاس جاتا ہے تو اور"[41]
ایک اور حدیث میں ہے:"دنیا میں جس شخص کے دورخ ہوں گے قیامت کے دن اس کے منھ میں دو زبانیں ہوں گی۔"[42]
ایک بار حضرت عبدالله بن عمرؓ سے کہا گیا کہ ہم لوگ امراء وحکام کے پاس جاتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں او روہاں سے نکلتے ہیں تو کچھ کہتے ہیں؟ بولے ہم لوگ عہدِ رسالت میں اس کا شمار نفاق میں کرتے تھے۔[43]
انسان کے باطنی امراض میں بدگمانی خطرناک مرض ہے، ایسے شخص کو کبھی سکون نہیں ملتا اور نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دیتا ہے، قرآن اس کو بڑا گناہ قرار دیتا ہے او راس سے بچنے کی تلقین کرتاہے۔
" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ "[44]
ترجمہ: اے ایمان والو! زیادہ بدگمانی سے بچا کرو، بے شک بعض بدگمانی گنا ہ ہے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس طرح بد گمانی سے بچنا ضروری ہے، اسی طرح بدگمانی کے مواقع سے خود کو بچانا بھی ضروری ہے۔
ایک دفعہ حضور صلی الله علیہ وسلم اعتکاف میں تھے، رات کو ازواجِ مطہرات میں سے کوئی آپ سے ملنے آئیں، آپ صلی الله علیہ وسلم اُن کو واپس پہنچانے چلے کہ اتفاقاً راستہ میں دو انصاری صحابی آگئے، وہ آپ کو دیکھ کر واپس پھرنے لگے، آپ نے فوراً آواز دی اور فرمایا یہ میری بیوی فلاں ہیں، انہوں نے عرض کیا: یا رسول الله! اگر مجھے بدگمانی ہی کرنی ہوتی تو آپ کے ساتھ کرتا؟! ارشاد ہوا شیطان انسان کے اندر خون کی طرح گردش کرتا ہے۔[45]
باطنی بیماریوں میں ایک بڑی بیماری بخل ہے، قرآن نے اس کی اصلاح کی طرف توجہ دی ہے، ارشاد فرمایا: " وَلاَ يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللّهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُمْ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُواْ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ[46] ترجمہ: اور جو لوگ اس مال کو، جو خدا نے اپنی مہربانی سے ان کو دیا ہے، روکے رکھتے ہیں، وہ اس کو اپنے حق میں بہتر نہ سمجھیں، بلکہ وہ ان کے حق میں بدتر ہیں، جس مال کو بچانے کے لیے وہ بخل کے شکار ہیں، وہ ان کے گلے میں طوق بنا کر لٹکا دیا جائے گا۔
اس مضمون کی بہت سی آیات قرآن میں موجود ہیں، طوالت کے خوف سے ترک کرتا ہوں۔
اسی طرح حرص وطمع، حسد وبے ایمانی، غیظ وغضب، بغض وکینہ، فخر وغرور، خود بینی وخود نمائی اور خود رائی وغیرہ بہت سے اندرونی امراض ہیں، جن کا تعلق انسان کے دل ودماغ سے ہے، جن کا قرآن نے خصوصیت سے تذکرہ کیا ہے اوران کی اصلاح پر زور دیا ہے، طوالت کے ڈر سے صرف آیات کے حوالے پر اکتفا کرتا ہوں( دیکھیے نساء:9، حشر:1، حجر:6، نساء:5، کہف:10، بقرہ:32، نساء:1، اعراف:24، حشر:1، حجر:4، اعراف:2،4،5، ابراہیم:3، مومنون:3، ہود:3، مومن:4، نحل:3، بنی اسرائیل:4، لقمان:2، نساء:8، بقرة:13، وغیرہ)۔
تعلیم:
شخصیت سازی کے لیے جس طرح عملی زندگی میں ادب واخلاق، صلاح تقویٰ، کردار کی بلندی، دل ونگاہ کی پاکیزگی اور لب ولہجہ کی شائستگی ضروری ہے، وہیں تعلیم وتربیت اور فکری بالیدگی کی بھی شدید ضرورت ہے کہ اس سے زندگی میں دوام اور شخصیت میں آفاقیت پیدا ہوتی ہے اور انسان دور رس نتائج کے حامل کارناموں کو انجام دینے کے قابل ہو جاتا ہے، اسی لیے قرآن پاک نے جہاں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے فرائض منصبی پر روشنی ڈالی ہے، وہاں ایمان واخلاق کے بعد تعلیم کا تذکرہ بھی کیا ہے:
"لَقَدْ مَنَّ اللّهُ عَلَى الْمُؤمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُّبِينٍ"[47]
ترجمہ: خدا نے اہل ایمان پر بڑا احسان کیا کہ ان ہی میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں او ران کا تزکیہ کرتے ہیں، کتاب وحکمت کی تعلیم دیتے ہیں، جب کہ پہلے یہ لوگ گمراہی میں مبتلا تھے۔
یہ آیت کریمہ فرائض رسالت اور کارہائے نبوت کے سلسلے میں سنگِ میل کا درجہ رکھتی ہے، اس میں قرآن کریم نے کارِ نبوت کی تمام تفصیلات کو صرف تین عنوانات کے تحت سمیٹ کر رکھ دیا ہے۔ تلاوت آیات تزکیہ اخلاق وعمل تعلیم کتاب وحکمت۔
تلاوت آیات میں بنیادی تعلیم ( جس کو قرأت بھی کہہ سکتے ہیں ) او رایمان ویقین کی آبیاری او رمحنت کی ساری تفصیلات داخل ہیں، اس لیے کہ شخصیت کی ابجد قرت سے شروع ہوتی ہے او راسی راستے سے قلب وروح میں ایمان اور عقیدہ کا تخم پڑتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ اس میں رسوخ حاصل ہوتا ہے، اسی لیے وحی کا پہلا سبق اس طرح شروع کیا گیا " اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ[48] ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے، جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو بستہ خون سے پیدا کیا۔
عبد او رمعبود کے درمیان رابطہ اور تعلق کی جتنی تفصیلات ہیں، وہ بھی تلاوت آیات کی ضمن میں آتی ہیں، اس لیے کہ قرآن خدا کا کلام ہے او رخدا کا کلام پڑھنا گویا اس سے ہم کلامی کا شرف حاصل کرنا ہے، رابطہ کی ابتدا بھی یہی ہے اور انتہا بھی یہی، اسی لیے پوری مکی زندگی میں جس کو ہم مختصر لفظوں میں ایمانی دور کہہ سکتے ہیں، اس میں کلمہٴ ایمان او رنماز اورتلاوت کے ماسوا کوئی حکم شرعی (اعمال کی قبیل سے) ہم کو نہیں ملتا اور یہ سب رابطہٴ الہٰی ہی کی مختلف شکلیں ہیں۔
خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالا آیت بتاتی ہے کہ ایمان یعنی الله اور بندے کے تعلق پر محنت فرائض نبوت کی پہلی منزل ہے او رانسان کی شخصیت کی تعمیر بھی اس کا درجہ اولین ہے، جیسا کہ گذشتہ سطور میں ہم عرض کر چکے ہیں۔
دوسرا مرحلہ تزکیہ ہے، اس کی اہمیت پر ہم پچھلے صفحات میں گفت گو کرچکے ہیں۔تیسرا اور آخری مرحلہ تعلیم وتفکیر ہے، یہی چیز نبی آخر الزماں صلی الله علیہ وسلم کو تمام نبیوں اور رسولوں میں امتیاز بخشتی ہے، یہی آپ کا نسخہٴ انقلاب ہے، یہی بات اس آخری امت کو امتِ وسط بناتی ہے، یہی دعائے خلیل علیہ السلام اور نوید مسیحا علیہ السلام کا حاصل ہے، یہ ختم نبوت کی علامت ہے، اسی سے حضور خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کے بعد اس امت کی بقا وابستہ ہے اور یہی چیز افراد واقوام کو زندگی کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔
کتاب سے مراد قرآنِ کریم ہے اور اس میں خدا کی وہ کتاب بھی شامل ہے، جو وسیع کائنات میں چہار طرف پھیلی ہوئی ہے، خود قرآنِ کریم بھی بار بار انسانوں کو خدا کی اس کھلی کتاب کی طرف متوجہ کرتا ہے اور عہدِ گذشتہ کے واقعات سے عبرت آموزتا ثر پیدا کرتا ہے:
"أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ. وَإِلَى السَّمَاء كَيْفَ رُفِعَتْ. وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ. وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ. فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ. لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ"[49]
ترجمہ: کیا یہ نہیں دیکھتے کہ اونٹ کیسے پیدا کیے گئے، آسمان کس طرح اٹھائے گئے، پہاڑ کس طرح نصب کیے گئے اور روئے زمین کیسے پھیلائی گئی؟ آپ ان کو سمجھائیں، آپ ناصح او رسمجھانے والے ہیں، ان پر زبردستی کرنے والے نہیں ہیں۔
اسی طرح کی بے شمار آیات قرآن کریم میں موجود ہیں، بطور نمونہ یہی ایک کافی ہے۔قرآن اس نئے دور میں علم وعرفان اور فکر وفلسفہ کا بانی ہے، پہلے کبھی علم کو وہ درجہ نہیں دیا گیا، جو اسلام میں دیا گیا، اسی لیے پہلے کی تاریخوں میں وہ آفاقی شخصیتیں بھی نہیں ملتیں جو عہدِ اسلامی کے آغاز کے بعد ملتی ہیں، قرآن نے دنیا کو نیاذہن اور نئی فکر دی، اشیا کے حقائق او ران سے پیدا ہونے والے نتائج کی طرف ذہنوں کو متوجہ کیا او ران کو علم وعرفان اور ظلم وجہل کا فرق بتایا، علم کے نور سے شخصیتوں میں چار چاند لگائے او رانسانوں کو ایک نئے علمی دور کے لیے تیار کیا، یہ قرآن کا وہ معجزانہ کارنامہ ہے، جو اسلام سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا۔
ہم اس موقع پر قرآن کے اندازِ تربیت، ذہنی ارتقا کے مراحل اورکچھ علمی نکات کی طرف اشارہ کرنا مناسب سمجھتے ہیں، جس سے اندازہ ہو گا کہ قرآن علم کی بنیاد پر افراد واقوام کو کس طرح تیار کرتا ہے اور قرآنی تعلیمات کی بدولت ایک عام انسان کس طرح بڑے کارناموں کے لائق ہو جاتا ہے۔
ذہن سازی:
قرآن نے ایمان وعمل کے بعد انسان کو علم وجہل، نور وظلمت اور تمدن ووحشت کا فرق سمجھایا، اس لیے کہ ذہنی تیاری کے بغیر کوئی نصب العین پورا نہیں ہو سکتا، جب تک انسان کو خیر وشر میں امتیاز نہ ہو گا، وہ شعوری طور پر خیر کو نہیں اپنا سکے گا، ارشاد باری تعالی ہے: "قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ "[50] ترجمہ: اے نبی! آپ کہہ دیجیے کیا وہ لوگ جو علم رکھتے ہیں اور وہ جونہیں رکھتے ہیں، برابر ہو جائیں گے؟ عقل والے ہی بات سمجھ سکتے ہیں۔
قرآن نے اس قوم کی ترقی کی ضمانت دی جو علم ومعرفت کے راستے پر گامزن ہو: " يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ"[51] "الله تم میں سے ایمان والوں کے اور اہل علم کے درجات بلند کرتے ہیں"
قرآن نے عقل وفکر سے جاہلانہ جمود ختم کرنے کے لیے آفاق وانفس میں غور کرنے کی دعوت دی:
"إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ. الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ"[52]
ترجمہ: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور شب وروز کی گردش میں نشانیاں ہیں، عقل والوں کے لیے جو الله کا ذکر کرتے ہیں، کھڑے اور بیٹھے او رکروٹ پر لیٹے ہوئے اور غور کرتے ہیں آسمانوں اور زمین کی خلقت میں (پھر بول اٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تونے یہ سب بلاوجہ پیدا نہیں کیا، تو ہر عیب سے پاک ہے، ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
دعوت انقلاب:
جب قرآن نے محسوس کیا کہ اب اس قوم کی حسیت جاگ اٹھی ہے اوراس کی قوت فکر یہ اپنی پرواز کے لیے کسی وسیع خلا کو ڈھونڈھ رہی ہے، تو فوراً اس نے انقلاب او رحرکت وعمل کی دعوت دی او راس کو سمجھایا گیا کہ دنیا میں انقلابات عدم کے پیٹ سے وجود میں نہیں آجاتے، بلکہ اس کے لیے زبردست محنت کرنی پڑتی ہے، زندہ قوم اپنی تقدیر کے فیصلے اپنے عزم کے ہاتھوں لکھتی ہے، وہ امکانات اور وسائل کے انتظار میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنا گوارا نہیں کرتی، بلکہ ناممکنات سے امکانات او رمشکلات سے آسانیوں کو فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے، وہ حالات کے بدلنے کا انتظار نہیں کرتی، بلکہ دستِ ہمت سے وہ حالات کا رخ پلٹ دیتی ہے اور اندھیروں سے ڈر کر، وہ اپنا سفر موقوف نہیں کرتی، بلکہ احکام الہٰی کے چراغ اندھیرے راستوں پر جلاتی ہوئی چلی جاتی ہے۔
تقدیر کے پابند نباتات وجمادات مومن فقط احکام الہٰی کا ہے پابند
"إِنَّ اللّهَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللّهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلاَ مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُم مِّن دُونِهِ مِن وَالٍ"[53]
ترجمہ: بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنے آپ کو نہ بدل ڈالے اور جب الله کسی قوم کو برے دن دکھانے کا ارادہ فرماتا ہے تو پھر اُسے کوئی ٹال نہیں سکتا او رالله کے سوا ایسوں کا کوئی بھی مدد گار نہیں ہو سکتا۔
[ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
قرآن نے قوموں کے خیروشر کا مدار خود اس کے اپنے اعمال پر رکھ دیا ہے، جو قوم یہ کہتی ہو کہ کیا کریں حالات اور قسمت نے ہمیں پیچھے کر دیا؟ وہ درحقیقت اپنی بزدلانہ کم ظرفی کا اظہار کرتی ہے، قرآن کہتا ہے کہ جو قوم جیسا عمل کرتی ہے اس کے ساتھ قدرت کا فیصلہ اسی کے مطابق ہوتا ہے:
"فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ. وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ"[54]
ترجمہ: جو ذرہ برابر بھی نیک عمل کرے گا وہ اس کو دیکھ لے گا او رجو ذرہ برابر بُرا عمل کرے گا وہ بھی اس کو دیکھ لے گا۔
قرآن نے صاف طور پر اس قوم کو خسارہ کا سودا کرنے والی قرار دیا ہے، جس میں نورِ باطنی کے ساتھ ساتھ اخلاق وعمل کی اسپرٹ موجود نہ ہو اور قرآن اس کے لیے تاریخ عالم اور حوادث روز گار کو بطور شہادت پیش کرتا ہے، جیسا کہ سورہٴ العصر کے حوالہ سے پچھلے سطور میں عرض کیا گیا۔
انقلابی ہدایات
یہ کسی قوم کو تدریجی انقلاب کی طرف لانے کے لیے قرآن کے طرزِ تعلیم کا دوسرا مرحلہ تھا، فکر وعمل کی پیہم تاکیدات کے بعد جب یہ قوم کسی عمل کے لائق ہو گئی اور علم وفن، تہذیب وتمدن اور تجارت وسیاست کے میدان میں اترنے کے قابل ہو گئی، تو اس کو کچھ اشارات دیے گئے، ہدایات واحکام سے نوازا گیا، اسرارِ عالم سے پردہ اٹھایا گیا، عقل وخرد اور فکر وفن کے وہ راز بتائے گئے جو آج تک کسی مصلح قوم نے اپنی قوم کو نہ بتائے تھے اور خود خالق کائنات نے اپنی دنیا کے بعض حقائق وعلل کی نشان دہی کی، جس کی روشنی میں چل کر آج دنیا فلسفہٴ جدید اور سائنٹفک دور تک پہنچی۔
حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے جس کتاب الہٰی نے فکر وفلسفہ کی بنیاد ڈالی اور لوگوں کو آسمان وزمین او رمخلوقات عالم میں غور کرنے کی دعوت دی وہ قرآن تھا، قرآن سے قبل کسی بڑے سے بڑے آشنائے راز نے بھی ان حقائق کا پردہ چاک نہ کیا، جو خدا کے خرانہٴ غیب میں مستور تھے، اس طرح گویا قرآن ہی کتابِ ہدایت ہونے کے ساتھ فکر وفن کی بھی پہلی کتاب ہے، مگر افسوس کہ خود ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں کی اور غیروں کے کاسہ لیس ہو کر رہ گئے:
دیکھ آکر کوچہٴ چاک گریباں میں کبھیقیس تو، لیلیٰ بھی تو، صحرا بھی تو، محمل بھی تو وائے نادانی کہ تو محتاجِ ساقی ہو گیا مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی توزبان وقلم کی ضرورت:
قرآن نے عہدِ جدید کی تخلیق کے لیے زبان وقلم پر زور دیا، اس لیے کہ عالم الغیب والشہادة خوب جانتا تھا کہ اب جو دور آنے والا ہے، وہ سائنٹفک دور ہو گا، وہ خود اس نئے دور کی بنیاد رکھ رہا تھا اور سائنٹفک دور زبان وقلم پر تعمیر ہو گا، چناں چہ سب سے پہلی وحی جو نبیِ کریم صلی الله علیہ وسلم پر نازل ہوئی، اس کے الفاظ یہ تھے:
"اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ. خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍ. اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ. الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ[55] ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا انسان کو بستہ خون سے، پڑھ اور تیرا رب بڑا کریم ہے، جس نے علم سکھایا۔
قرآن میں ایک پوری سورت ہی قلم کے نام سے ہے،اس سورہ کی ابتدا ہی میں الله نے قلم اور لکھنے کی قسم کھائی ہے، جو قرآنی اسلوب میں قلم کے لیے بہت بڑا اعزاز ہے: " ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ[56] ترجمہ: قلم کی قسم اور اس کی جو لوگ لکھتے ہیں۔
ایک طرف قرآن نے مسلمانوں کو زبان وقلم کی جانب متوجہ کرکے ان کو ذرائع ابلاغ وترسیل سے نوازا تو دوسری طرف رموز کائنات کے تعلق سے بعض ایسے اشارات دیے جن سے قوت فکر کو مہمیز ملتی ہے۔
ظواہر طبیعی:
قرآن نے بعض آیات میں ان اسباب طبعی کی کرشمہ سازیوں کا ذکر کیا ہے، جو اکثر لوگوں کی نگاہوں کے سامنے رہتے ہیں، مگر جمود یا غفلت کی بنا پر وہ ان میں غور نہیں کرتے او رنہ ان سے کوئی سبق حاصل کرنا چاہتے ہیں:
"أَنزَلَ مِنَ السَّمَاء مَاء فَسَالَتْ أَوْدِيَةٌ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّيْلُ زَبَدًا رَّابِيًا وَمِمَّا يُوقِدُونَ عَلَيْهِ فِي النَّارِ ابْتِغَاء حِلْيَةٍ أَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهُ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الْحَقَّ وَالْبَاطِلَ فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء وَأَمَّا مَا يَنفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللّهُ الأَمْثَالَ"[57]
ترجمہ: آسمان سے پانی اسی نے برسایا، پھر ندی نالے اپنی اپنی گنجائش کے مطابق بہہ نکلے اور پانی کے ریلے نے ابھرتے ہوئے جھاگ کو اوپر اٹھالیا اور آگ میں تپا کر زیور بناتے وقت یہ کام کی دوسری کوئی دھات کو بھٹی میں پگھلایا جاتا ہے، اس میں بھی ایسا ہی جھاگ اٹھ کر اوپر آجاتا ہے، اسی طرح الله حق وباطل کی مثال بیان کرتے ہیں، تو جوکوڑا کرکٹ ہوتا ہے، وہ سوکھ کر ضائع ہو جاتا ہے اور لوگوں کے نفع کی چیز زمین میں رہ جاتی ہے، اسی طرح الله سچی مثالیں بیان کرتا ہے۔
" أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاء كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ أَفَلَا يُؤْمِنُونَ[58] ترجمہ: کیا انکار کرنے والوں نے نہیں دیکھا کہ آسمان وزمین دونوں بند تھے، پھر ہم نے ان کو کھول دیا اور ہم نے پانی سے ہر جان دار چیز کو بنایا، کیا پھر بھی وہ ایمان نہیں لاتے؟
اس آیت میں زمین وآسمان کی ابتدائی حالت کا نقشہ کھینچا گیا ہے، جس کو موجودہ زمانے میں” بگ بینگ“ نظریہ کہا جاتا ہے، جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق زمین وآسمان کا تمام مادہ ایک بہت بڑے گولے (سپرایٹم) کی شکل میں تھا، معلوم طبیعاتی قوانین کے تحت اس وقت اس کے تمام اجزا اپنے اندرونی مرکز کی طرف کھنچ رہے تھے او رانتہائی شدت کے ساتھ باہم جڑے ہوئے تھے، پھرنا معلوم اسباب کی بنا پر اس گولے کے اندر ایک دھماکہ ہوا اور اس کے تمام اجزا بیرونی سمتوں میں پھیلنے لگے، اس طرح بالآخر یہ وسیع کائنات وجود میں آئی، جو آج ہمارے سامنے ہے: "وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ أَن تَمِيدَ بِهِمْ وَجَعَلْنَا فِيهَا فِجَاجًا سُبُلًا لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ. وَجَعَلْنَا السَّمَاء سَقْفًا مَّحْفُوظًا وَهُمْ عَنْ آيَاتِهَا مُعْرِضُونَ "[59] ترجمہ: او رہم نے زمین میں پہاڑ بنائے کہ وہ ان کو لے کر جھک نہ جائے اور اس میں ہم نے کشادہ راستے بنائے، تاکہ لوگ راہ پائیں اورہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنایا اور وہ اس کی نشانیوں سے اعراض کیے ہوئے ہیں۔
اس آیت میں زمین کی چند نشانیوں کا ذکر کیا گیا ہے، جن میں ایک پہاڑوں کے سلسلے ہیں، جو سمندروں کے نیچے کے کثیف مادہ کو متوازن رکھنے کے لیے سطح زمین پر ابھرآئے ہیں، اس سے مراد غالباً وہی چیز ہے، جس کو جدید سائنس میں ارضی توازن (Apostasy) کہا گیا ہے، اسی طرح زمین کا اس قابل ہونا بھی ایک بڑی نشانی ہے کہ اس میں انسان اپنے لیے راستے بناسکتا ہے، زمین کہیں ہموار ہے تو کہیں پہاڑی درے او رکہیں دریائی شگاف ہیں۔
اسی طرح آسمان کا محفوظ چھت ہونا بھی بہت بڑی نشانی ہے کہ آسمان او راس کے ساتھ پھیلی ہوئی پوری فضا کی ترکیب اس طرح پر ہے کہ وہ ہم کو سورج کی نقصان دہ شعاعوں سے بچاتی ہے او رشہاب ثاقب کی یورشوں سے محفوظ رکھتی ہے۔
"وَسَخَّر لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَآئِبَينَ وَسَخَّرَ لَكُمُ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ. وَآتَاكُم مِّن كُلِّ مَا سَأَلْتُمُوهُ وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَتَ اللّهِ لاَ تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنسَانَ لَظَلُومٌ كَفَّارٌ"[60]
ترجمہ: اور سمندر میں کشتیاں تمہارے تابع کر دیں، جو اس کے حکم سے چلتی ہیں او ربہتی ہوئی ندیوں اور نہروں کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا اور سورج اور چاند کو تمہاری ضرورتوں کی تکمیل کے لیے مقرر کیا، جو ایک ضابطہ پر مسلسل چل رہے ہیں او رات اور دن کو بھی تمہارے کام میں لگا دیا اور تمہاری ضرورتوں کے ہر ایک سوال کو اس نے پورا کیا او رالله کی نعمتوں کو اگر تم گننا چاہو تو گنتی کا شمار پورا نہ کر سکو گے، بے شک انسان بڑا بے انصاف اورناشکرا ہے۔
اس آیت میں قرآن نے تسخیر کائنات کے اغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی ہے اور پہلی بار اس راز سے پردہ اٹھایا کہ دنیا کی یہ تمام چیزیں انسان کی خدمت گزار ہیں، ان کا درجہ انسانوں سے بالاتر نہیں، بلکہ فروتر ہے، اسلام سے قبل انسان نادانی کی بنا پر وسیع کائنات کی عظیم الشان مخلوقات سے اتنا مرعوب تھا کہ ان کی پرستش میں اپنی خیر محسوس کرتا تھا، سب سے پہلے قرآن نے اس مرعوبیت کا خاتمہ کیا او رانسان کو اس کا مقام یا د دلایا ;
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
" وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاء مَاء فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ" [61]
ترجمہ: بوجھل اوررس بھری ہوا کے جھونکے بھیج کر ہم نے آسمان سے پانی برسایا، پھر تم کو خوب سیراب کیا، جب کہ تم اپنی ضرورت کے مطابق پانی کا خزانہ جمع نہیں رکھ سکتے تھے۔
اس آیت کی کسی دقیق علمی تفسیر سے گریز کرتے ہوئے، اگر ظاہری معنی ہی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ظواہرِ طبیعی کے چند مہمات پر روشنی پڑتی ہے، آیت میں تو بظاہر ہوا کا فائدہ بیان کیا گیا ہے کہ ہواؤں کے چلنے سے ابرباراں کا نزول ہوتا ہے، مگر قدرتی طور پر یہاں ابروباد کے رشتہ پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ ہوا چلنے سے بادلوں کا سفر شروع ہوتا ہے، اس سفر کے دوران بادلوں کے درمیان تصادم ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں کڑک اور اس کے ساتھ ہی بجلی پیدا ہوتی ہے اور پھر اس کے بعد بارش کی فیاضی شروع ہوتی ہے… اس طرح صرف اس ایک آیت سے کڑک، بجلی کی چمک اور بارش کے نزول کے بارے میں کتنے سائنسی نکتے معلوم ہو جاتے ہیں، بلکہ یہیں سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ بجلی کی تخلیق مثبت اور منفی اثرات کے آبی تصادم سے ہوتی ہے، اس انکشاف سے انسانی عقل اس حقیقت تک پہنچی، جو آج ہمارے پاس الیکٹرک نظام کی شکل میں موجود ہے۔
چند علمی حقائق:
قرآن میں جہاں ظاہر بینوں اور عام عقل والوں کی ہدایت وروشنی کے لیے ظواہر طبیعی سے استدلال کیا گیا ہے، وہیں اہل نظر اور ارباب علم وعقل کے لیے دقیق علمی وتکوینی نکات سے بھی بحث کی گئی ہے، صحیح ہے کہ قرآن کوئی فلسفہ وسائنس اور فنونِ لطیفہ کی کتاب نہیں، بلکہ یہ اصل میں کتابِ ہدایت ہے، جس کا مقصد ساری انسانیت کو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی دعوت پر جمع کرنا ہے، مگر چوں کہ یہ ایک کامل ومکمل کتاب ہے اور ہر دور کے لیے کافی رہنمائی کی صلاحیت رکھتی ہے، اس بنا پر اس میں عام عقلی وبد یہی استدلالات سے لے کر دقیق سائنسی حقائق سے بھی تعرض کیا گیا ہے، تاکہ ہر قسم کا مذاق رکھنے والوں کے لیے یہ کتاب بہتر غذا مہیا کرسکے، ہمارے محققین نے اس موضوع پر بہت کام کیا ہے، اس لیے تفصیل کے لیے انہیں کی طرف مراجعت کی جائے۔
میرا مقصد صرف کرگسوں میں پلے ہوئے شکست خوردہ شاہینوں کو یہ بتانا ہے کہ جس علم وفن کی تلاش اور جس آبِ حیات کی جستجو میں وہ مغرب کے بت کدوں کی خاک چھان رہے ہیں، وہ خود ان کے گھر میں موجود ہے، مغرب انہیں علم وفن کی بعض جزئیات سے آگاہ کرسکتا ہے اور آبِ حیات کے چند قطرات فراہم کرسکتا ہے، جب کہ خو دان کے گھر میں علم وفن کی کلیات پر مشتمل کتاب ( قرآن ) موجود ہے، وہ ایک قطرہٴ آب کے لیے پریشان ہیں، حالاں کہ خود ان کے مذہب کی سلبیسل سے چشمہٴ حیات بہہ رہا ہے، وہ یورپ کے آشیانوں میں شاہبازی کے آداب سیکھنے جارہے ہیں، جب کہ قرآن ان کو اس سے بدر جہا بہتر طور پر سکھانے کو تیار ہے، بشرطیکہ وہ اس پر توجہ دیں :
وہ شکست خوردہ شاہین جو پلا ہو کرگسوں میں اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ ورسمِ شاہبازی
اس ضمن میں چند نمونے پیش کرتا ہوں:
سورج کے بارے میں قرآنی تصور:
سورج کے بارے میں قرآن کا تصور یہ ہے کہ وہ اپنے مدار میں گردش کرتے ہوئے اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے:
" وَالشَّمْسُ تَجْرِي لِمُسْتَقَرٍّ لَّهَا ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ. وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّى عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ. لَا الشَّمْسُ يَنبَغِي لَهَا أَن تُدْرِكَ الْقَمَرَ وَلَا اللَّيْلُ سَابِقُ النَّهَارِ وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ. وَآيَةٌ لَّهُمْ أَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّيَّتَهُمْ فِي الْفُلْكِ الْمَشْحُونِ[62]
ترجمہ: اور سورج اپنے ٹھکانہ کی طرف چل رہا ہے، یہ عزیز وعلیم پروردگار کا مقرر کردہ نظام ہے او رچاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں، یہاں تک کہ وہ لوٹ کر کھجو رکی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے، نہ سورج کے بس میں ہے کہ وہ چاند کو پکڑ لے او ر نہ رات دن سے پہلے آسکتی ہے، سب آسمانی سمندر میں تیر رہے ہیں۔
اس آیت میں قرآن نے سورج کی حرکت کے بارے میں کتنا دو ٹوک نظریہ دیا ہے، مگر سائنس کی حیرانی وپریشانی دیکھیے کہ ایک زمانہ میں سائنس نے یہ نظر یہ قائم کیا تھا کہ سورج اپنی جگہ ٹھہرا ہوا ہے اور زمین اپنے محور پر گردش کر رہی ہے اور اسی سے لیل ونہار وجود میں آرہے ہیں، مگر کچھ ہی دنوں کے بعد حقائق نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ نظر یہ غلط تھا اور صحیح نظر یہ یہ ہے کہ: سورج بھی اپنے مدار پر گردش کر رہا ہے۔
مغربی سائنس دانوں نے اس انکشاف کو جو اہمیت دی، اس کا اندازہ ایک مشہور ماہر فلکیات محقق” سیمون“ کی کتاب کے اس اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے، جو انہوں نے بڑے اعتماد کے ساتھ لکھا ہے:” اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ سب سے اہم ترین حقیقت کیا ہے، جس کا انکشاف انسانی عقل نے کیا ہے؟ تو میں اس کے جواب میں سورج، چاند اور ستاروں کے نام لوں گا، جن کے بارے میں میں یہ انکشاف کیا گیا کہ یہ سب بسیط فضا میں گول گنبد کی طرح بڑی تیزی کے ساتھ گردش کر رہے ہیں، جو ہمارے احساس سے بالاتر ہے۔[63]
کواکب کے بارے میں قرآنی نظریہ:
کواکب وسیارات کے بارے میں قرآنی نظریہ یہ ہے کہ وہ آسمان کی نچلی سطح کو خوب صورت بھی بناتی ہیں او رمضر اثرات او رطاغوتی یورشوں سے حفاظت کا کام بھی کرتے ہیں:
"إِنَّا زَيَّنَّا السَّمَاء الدُّنْيَا بِزِينَةٍ الْكَوَاكِبِ. وَحِفْظًا مِّن كُلِّ شَيْطَانٍ مَّارِدٍ. لَا يَسَّمَّعُونَ إِلَى الْمَلَإِ الْأَعْلَى وَيُقْذَفُونَ مِن كُلِّ جَانِبٍ. دُحُورًا وَلَهُمْ عَذَابٌ وَاصِبٌ. إِلَّا مَنْ خَطِفَ الْخَطْفَةَ فَأَتْبَعَهُ شِهَابٌ ثَاقِبٌ.[64]
ترجمہ: ہم نے آسمان کو زرق برق ستاروں سے سجایا او رہر شیطان سرکش سے اس کو محفوظ کیا، وہ ملأ اعلیٰ کی طرف کان نہیں لگاسکتے اورہر طرف سے مارے جاتے ہیں، تاکہ ان کو بھگایا جائے او ران کے لیے ایک دائمی عذاب ہے، مگر جو شیطان کوئی بات اچک لے تو ایک دہکتا ہوا شعلہ اس کا پیچھا کرتا ہے۔
زمین کے متعلق قرآنی تصور:
قرآن نے آج سے چودہ صدی پیشتر ہی زمین کی خلقت، اس کی تشکیل اور اس کی حرکت کے متعلق مباحث دنیا کے سامنے رکھ دیے تھے، جس پر جدید سائنس ایک حرف کا بھی اضافہ نہ کرسکی۔
زمین کی خلقت کے متعلق قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ: زمین انسانی آبادی کے قابل چھ مرحلوں کے بعد ہو سکی: " هُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ"[65] ترجمہ: الله وہی ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، چھ دنوں میں، پھر وہ عرش پر متمکن ہوا۔
قُلْ أَئِنَّكُمْ لَتَكْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ذَلِكَ رَبُّ الْعَالَمِينَ. وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاء لِّلسَّائِلِينَ[66]
ترجمہ: اے نبی! کہہ دیجیے کیا تم لوگ اس ہستی کا انکار کرتے ہو، جس نے زمین کو دو دن میں بنایا اور تم اس کے لیے ہم سر ٹھہراتے ہو؟ وہ رب ہے تمام جہان والوں کا اور اس نے زمین کے اوپر پہاڑ بنائے اور اس میں فائدے کی چیزیں رکھ دیں اور اس کی غذاؤں کا نظام چاردنوں میں بنایا، ضرورت مندوں کی تکمیل کے لیے۔
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین وآسمان او رکائنات کو الله نے چھ (6) یوم میں پیدا کیا، اس کے بعد ہی زمین انسانی آبادی کی متحمل ہو سکی، مگر یوم سے مراد یہاں لیل ونہار کے دومدار نہیں ہیں، جو سورج کی چوبیس (24) گھنٹے کی گردش سے مکمل ہوتا ہے اور نہ قطب ارضی مراد ہے جو عموماً چھ(6) ماہ کی گردش کے بعد دن یا رات کی صورت میں پیدا ہوتا ہے،بلکہ یوم سے مراد وہ قرآنی مدت ہے، جس کو قرآن کی دوسری آیات میں بیان کیا گیا ہے : " وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ "[67] ترجمہ: بے شک ایک دن تیرے رب کے نزدیک تمہارے شمار کے ہزار (1000) سال کے برابر ہے۔
"تَعْرُجُ الْمَلَائِكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ"[68] ترجمہ: فرشتے اور روح الامین وہاں تک ایک دن میں چڑھ کر پہنچتے ہیں، جس کی مقدار پچاس ہزار (50000) سال کے برابر ہے۔
اس طرح ان آیات سے وضاحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل اصطلاحی طور پر چھ یوم یاچھ مرحلوں کے بعد ہوئی، جو ایک طویل ترین مدت ہے۔ آغاز کے وقت سے تکمیل تک کے درمیانی مراحل کیا تھے؟ قرآن اس کے بارے میں خاموش ہے اورسائنس کی بھی مجال نہیں کہ وہ اپنی طرف سے ایک حرف بھی بتا سکے۔
زمین کا ابتدائی مادہ:
قرآن زمین کے ابتدائی مادہ کے بارے میں کہتا ہے کہ : یہ پہلے پانی میں پوشیدہ تھا اور پانی ہی اس کی اصل علت ہے، زمین اس کے اندر سے نمودار ہوئی:
"وَهُوَ الَّذِي خَلَق السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاء لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً[69]
ترجمہ: اور وہی ذات ہے جس نے آسمانوں او رزمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا، جب کہ اس کا عرش پانی پر تھا، تاکہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرتا ہے۔
علم زولوجی کی رسائی بھی اس سے آگے تک نہیں ہو سکی ہے، اس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ : ” زمین کو اس کی ابتدائی حالت میں بخارات نے ڈھانپ رکھا تھا، جو بعد میں پانی سے تبدیل ہو گیا، پھر وہ پانی نشیب میں اترنے لگا اور اس سے نہریں او رسمندر بنتے چلے گئے۔[70]
درمیانی مراحل:
عملِ تخلیق کے آغاز کے بعد زمین جن مختلف مراحل سے گزری، قرآن ان کو اشاراتی طور پر زمانی ترتیب کے ساتھ بیان کرتا ہے : " وَالْأَرْضَ بَعْدَ ذَلِكَ دَحَاهَا. أَخْرَجَ مِنْهَا مَاءهَا وَمَرْعَاهَا. وَالْجِبَالَ أَرْسَاهَا.[71] ترجمہ: اور زمین کو اس کے بعد پھیلایا، اس سے اس کا پانی اور چارہ نکالا اور پہاڑوں کو قائم کر دیا۔
اس آیت سے زمین کے عملِ تخلیق کے درمیانی مراحل پر روشنی پڑتی ہے کہ زمین کا مادہ جو عالم آب میں مستور تھا، وہ ظاہر ہونے کے بعد پھلینا شروع ہوا اور پھر سطح ارض کے نشیبی حصوں میں پانی اترنے لگا، جس سے نہریں اور سمندر بنتے چلے گئے، اس کے بعد اس کے اندر سے پہاڑی چٹانیں برآمد ہوئیں، جو بتدریج اونچے پہاڑوں کی شکل میں تبدیل ہو گئیں۔
زمین کا قالب:
قرآن نے زمین کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا کہ زمین کی شکل وصورت کیسی ہے ؟ آج کے جدید سائنسی دور میں یہ مشہور سی بات ہے کہ زمین کرہ ( گیند) کی طرح گول ہے۔ یعنی خط استوا سے دیکھا جائے تو وسیع ترین نظر آتی ہے او راس کے قطبین سے دیکھا جائے تو وہ چھوٹی اور معمولی نظر آتی ہے، مگر سائنس کا بیان قرآن کے بیان پر اضافہ نہیں ہے، قرآن نے بھی زمین کے قالب کا یہی نقشہ اپنے الفاظ میں کھینچا ہے:
"أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِي الأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا وَاللّهُ يَحْكُمُ لاَ مُعَقِّبَ لِحُكْمِهِ وَهُوَ سَرِيعُ الْحِسَابِ"[72]
ترجمہ: کیا انہو نے غور نہیں کیا کہ زمین کو ان پر ہم اس کے کناروں سے کم کرتے ہیں؟حکم صرف الله کا ر ہے گا، کوئی اس کے حکم کوٹال نہیں سکتا اورحساب لینے میں اسے کچھ بھی دیرنہیں لگے گی۔
" بَلْ مَتَّعْنَا هَؤُلَاء وَآبَاءهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغَالِبُونَ [73]
ترجمہ: بلکہ ہم نے ان کو اور ان کے باپ داداؤں کو ایک مدت تک برتنے کو سامانِ زندگی دیا اور طویل عمر گزرنے پر بھی حق بات ان کی سمجھ میں نہ آسکی، کیا وہ نہیں دیکھتے کہ زمین کو ہم چاروں طرف سے ان پر کم کرتے ہیں توکیا اب بھی کچھ امکان رہ گیا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے۔
" نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا" ننقص من اطرافھا کا مطلب اگر یہ لیا جائے کہ زمین اپنے کناروں سے چھو ٹی معلوم ہوتی ہے، تو زمین کا کروی قالب ہونا صاف ثابت ہوتا ہے، اس لیے کہ ہر گول جسم خطِ استوا سے وسیع اور طرفین سے چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔
خلقت انسانی کے بارے میں قرآنی نظریہ:
اسی طرح قرآن نے انسانی تخلیق او راس کے درمیانی مراحل پر بھی بھرپور روشنی ڈالی ہے، قرآن کے بیان کے مطابق جب مرد کا نطفہ عورت کے رحم میں جاتا ہے تو کچھ مدت کے بعد وہ بستہ خون بن جاتا ہے، اس کے بعد یہ خونِ بستہ، گوشت کے لوتھڑے میں تبدیل ہو جاتا ہے، اس کے بعد اس میں ہڈیاں پیدا ہوتی ہیں او رپھر اس پر گوشت کی موٹی تہیں جم جاتی ہیں او رکچھ دنوں رحم مادر میں تربیت او رنشو ونما پاکر ایک نئی صورت میں دنیا کی کھلی فضا کے اندر وہ آجاتا ہے، جس کو ہم ولادت کہتے ہیں :
"ثُمَّ جَعَلْنَاهُ نُطْفَةً فِي قَرَارٍ مَّكِينٍ. ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَةَ عَلَقَةً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَةَ مُضْغَةً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَةَ عِظَامًا فَكَسَوْنَا الْعِظَامَ لَحْمًا ثُمَّ أَنشَأْنَاهُ خَلْقًا آخَرَ فَتَبَارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخَالِقِينَ"[74]
ترجمہ: پھر ہم نے پانی کی ایک بوند کی شکل میں اس کو ایک محفوظ ٹھکانے میں رکھا، پھر ہم نے پانی کی بوند کو بستہ خون کی شکل دی، پھر بستہ خون کو گوشت کا ایک لوتھڑا بنایا، اس کے بعد لوتھڑے کے اندر ہڈیاں پیدا کیں، پھر ہم نے ہڈیوں پر گوشت چڑھا دیا، پھر ہم نے اس کو ایک نئی صورت میں بنا کر کھڑا کیا، پس بڑا ہی بابرکت ہے الله،جو بہترین پیدا کرنے والا ہے۔
یہ چند نمونے ہیں جو قرآن کے جدید علمی حقائق کے تعلق سے پیش کیے گئے۔
علم کی طلب:
قرآنِ کریم کی ان تعلیمات نے مسلمانوں میں حصولِ علم کی اسپرٹ پیدا کی اور وہ اس راہ میں بڑھتے چلے گئے، ان کے جذبہٴ صادق پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے الفاظ نے مہمیز کا کام کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے علماء کو انبیاء کا وارث قرار دیا:
"إن العلماء الأنبياء،وإن الأنبياء لم يورثوا ديناراً ولا درهماً، وإنما ورثوا العلم، فمن أخذه بحظ وافر"[75]
ترجمہ: بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں او رانبیاء کی وراثت درہم ودینار نہیں ہے، بلکہ ان کی وراثت علم ہے، پس جس نے علم حاصل کیا، اس نے بڑا وافر حصہ پایا۔
پھر یہ کارواں بڑھتا گیا اور علمی طور پر ساری دنیا پر چھا گیا اور پوری روئے زمین ان کے زیرنگیں آگئی، اس لیے کہ علم تمام قوتوں کا سرچشمہ ہے، علم کے ساتھ صدیوں کا سفر لمحوں میں طے ہو سکتا ہے اور علم کے بغیر دس قدم بھی پہاڑ ہو جاتا ہے۔
عہد ماضی کی ایک جھلک:
ہم اگر اپنے ماضی کا جائزہ لیں تو ہم کو نظر آئے گا کہ مسلمان علم وفن کے میدان کے کیسے شہسوار تھے او رساری دنیا میں امامت کا مقام ان کو کس طرح حاصل ہوا؟ یہ تاریخ کی ایسی حقیقت ہے، جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا، اس موقعہ پر میں کسی مسلم مؤرخ کا حوالہ دینے کے بجائے ایک غیر مسلم مؤرخ کا حوالہ دینا مناسب سمجھتا ہوں، ایک انگریز مؤرخ جارج سارٹن نے اپنی کتاب ” قدمة فی تاریخ العلم“ ( جو پانچ ضخیم جلدوں میں ہے ) میں علوم وفنون کی تاریخ، ان سے متعلق تجدیدی کارناموں کی تفصیل او رتجدیدی کام کرنے والی اقوام وشخصیات کا جائزہ پیش کیا ہے، اس نے تاریخی حوالوں کے ساتھ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہر نصف صدی کے بعد حالات اور تقاضے بدل جاتے ہیں او رنئے حالات کے مطابق علوم وفنون کی تجدید واصلاح کا کام کرنے لیے کوئی نہ کوئی مرکزی شخصیت ضرور پیدا ہوتی ہے، اس طرح اس نے ہر نصف صدی پر ایک مجدد کی تلاش کی ہے ۔
وہ 450 قبل مسیح سے لے کر 400 مسیح کے وقفہ کو ” عہدِ افلاطون“ (ولادت427 وفات 347 قبل مسیح) کہتا ہے۔ اس کے بعد کی صدیوں میں یکے بعد دیگرے ارسطو (ولادت384 وفات322 قبل مسیح) پھر اقلیدس (300 قبل مسیح)، پھر ارخمیدس (ولادت287 وفات212 قبل مسیح) نے علوم کی تجدید واصلاح کا کام کیا، اس کے بعد چھٹی صدی عیسوی کے آغاز سے ساتویں صدی کے آغاز تک کا زمانہ اس کی نزدیک چین کے علمی ارتقاء وتجدید کا زمانہ ہے، اس کے بعد 750ء سے لے کر 1100ء تک کا ساڑھے تین سو (350) سالہ طویل عہد خالص مسلمانوں کا عہد ہے، اس پوری مدت میں علوم وفنون کی تمام تر خدمات مسلمانوں نے انجام دیں، یکے بعد یگرے ان میں مجددین علوم آتے رہے او رعلوم کی خدمت انجام دیتے رہے، جابر بن حیان (815ء) سے لے کر خوارزمی (849ء)، رازی (932-864ء) تاریخ داں، سیاح مسعودی (956ء) البیرونی (1048-973ء) اور عمر خیام (1132ء) تک مجددین وخُدّ ام علوم کی لمبی فہرست ہے، جنہوں نے علم کیمیا، الجبرا، طب، جغرافیا، ریاضیات، الفیزیا اور فلکیات کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دیں، جن میں کوئی عربی ہے تو کوئی ایرانی، کوئی ترکی ہے تو کوئی افغانی، خطہ اور رنگ ونسل سے گزر کر محض اسلامیت نے ان سب کو خدمت وتجدیدِ علوم سے جوڑ رکھا تھا، جارج سارٹن کی نگاہ میں اتنے طویل عرصے تک یورپ میں کوئی قابل ذکر آدمی نظر نہیں آتا، گیارہوں صدی کے بعد ہی جرارڈ کرمونی اور روچر بیکن جیسے کچھ مفکرین پیدا ہوئے اور علم وعقل میں مقام حاصل کیا، درمیان کی صدیاں بھی اسلامی مفکرین سے خالی نہیں رہیں، بلکہ علامہ ابن رشد (1198-1126ء) نصیرالدین محمدموسیٰ (1273-1200ء) ابن النفیس مصری (1288ء) او رابن خلدون (1404-1332ء) جیسے عبقری علماء نے علم وفن کی وہ خدمات انجام دیں جن کے سامنے یورپی علماء کے کارنامے پھیکے نظر آتے ہیں۔[76]
یہ تو وہ علوم ہیں، جن کو علوم جدیدہ کہا جاتا ہے اور جن پر نئی دنیا فخر کرتی ہوئی نہیں تھکتی، رہ گئے علوم اسلامی، ادب وبلاغت، فنون لطیفہ، آرٹ، تعمیر وغیرہ، علوم اخلاق، فلسفہ اخلاق، فلسفہٴ تاریخ، سیر وتراجم، سلوک وروحانیت، فقہ وقانون، زراعت وتجارت اور سیاست وقیادت وغیرہ تو ان کے خادموں او رمجددوں کی بہت لمبی فہرست ہے، جن میں کوئی قوم وملت مسلمانوں کی ہم سری کا دعویٰ نہیں کرسکتی۔
یہ ہے اس کتابِ مقدس کا اعجاز، جوہر زمانے میں اور ہر محاذ پر شخصیات اور افراد کی کھیپ کی کھیپ تیار کرتی رہی ہے اور انسانیت کی تعمیر و ترقی میں پیش پیش رہی ہے اور اس کی یہ صلاحیت آج بھی اسی طرح قائم ہے، فقط ہمیں اس سے کام لینے اور فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے:
اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے مشرق ومغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلینہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیرہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
حوالہ جات
- ↑ سورہ بنی اسرائيل آيت ۹
- ↑ سورۃ الطلاق ۱۰ تا۱۱
- ↑ سورۃ العصر ا تا ۳
- ↑ سورۃ النساء ۱۳۶
- ↑ سورہ يوسف ۸
- ↑ سورۃ المائده ۴۷
- ↑ سورۃ الاحزاب ۳۶
- ↑ سورۃ البينة ۸
- ↑ سورۃ الهمزة ۳ تا ۴
- ↑ سورہ آل عمران ۱۰
- ↑ سورۃ المؤمنون ۱ تا ۹
- ↑ سورۃ البقرۃ ۱۷۷
- ↑ سورۃ الفرقان ۶۳ تا ۷۴
- ↑ سورۃ العصر ۳
- ↑ سورہ آل عمران ۱۱۰
- ↑ سورہ آل عمران ۱۰۳
- ↑ سورۃ الانفال ۶
- ↑ سورۃ الحجرات ۱۰
- ↑ سورۃ الاحزاب ۵
- ↑ صحیح مسلم، کتاب البر والصلة، ج2 ص:389،مصر
- ↑ سورۃ النور ۲۷
- ↑ سورۃ الاحزاب ۵۳
- ↑ سورۃ النساء ۸۶
- ↑ سورۃ المجادلة ۱۲
- ↑ سورۃ الحجرات ۲
- ↑ سورۃ النور ۶۳
- ↑ سورۃ المجادلة ۱۰
- ↑ سورۃ النساء ۳
- ↑ صحیح بخاری، کتاب النکاح، باب الوصية بالنساء
- ↑ سوره بنی اسرائيل ۳۷
- ↑ سورۂ لقمان ۱۸
- ↑ سورہ طه ۴۴
- ↑ سورہ ٔ لقمان۱۹
- ↑ سورۃ البقرۃ ۲۸۳
- ↑ سورۃ الشمس ۹
- ↑ سورة آل عمران ۱۶۴
- ↑ سورۃ الماعون ۴ تا ۵
- ↑ سورۃ النساء ۱۴۲
- ↑ سورۃ البقرۃ ۲۶۴
- ↑ سورۃ البقرۃ ۱۴
- ↑ بخاری، کتاب الأدب، باب ماقيل فی ذی الوجهين
- ↑ ابوداؤد، کتاب الادب، باب ذی الوجهين
- ↑ صحیح بخاری، باب ماقیل فی ذی الوجهين
- ↑ سورۃ الحجرات ۱۲
- ↑ صحیح مسلم، باب انه يستحب لمن رؤی خالياً بامرأة… يقول هذه فلانة.
- ↑ سورۂ آل عمران ۱۸۰
- ↑ سورۂ آل عمران ۱۶۴
- ↑ سورۃ العلق ۱ تا ۲
- ↑ سورۃ الغاشية ۱۷ تا ۲۲
- ↑ سورۃ الزمر ۹
- ↑ سورۃ المجادلة ۱۱
- ↑ سورۂ آل عمران ۱۹۰ تا ۱۹۱
- ↑ سورۃ الرعد ۱۱
- ↑ سورۃ الزلزال ۷ تا ۸
- ↑ سورۃ العلق ۱ تا ۵
- ↑ سورۃ القلم ۱
- ↑ سورۃ الرعد ۱۷
- ↑ سورۃ الانبياء ۳۰
- ↑ سورۃ الانبياء ۳۱ تا ۳۲
- ↑ سوره ابراهيم ۳۲ تا ۳۴
- ↑ سورۃ الحجر ۲۲
- ↑ سورہ یٰس ۳۸ تا ۴۰
- ↑ مضمون جريان الشمس: عبدالرحمن فرتاس، مجلہ العلم والايمان:1976ء
- ↑ سورۃ الصفٰت ۶ تا ۱۰
- ↑ سورۃ الحدید ۴
- ↑ حم السجدۃ ۹ تا ۱۰
- ↑ سورہ حج ۴۷
- ↑ سورۃ المعارج ۴
- ↑ سورہ هود ۷
- ↑ احمد محمود سليمان، مضمون القرآن والعلم: مجلہ العلم والايمان، شمارہ 71 ، نومبر1981ء
- ↑ سورۃ النازعٰت ۳۰ تا ۳۲
- ↑ سورۃ الرعد ۴۱
- ↑ سورۃالانبياء ۴۴
- ↑ سورۃ المؤمنون ۱۳ تا ۱۴
- ↑ مشکوٰۃ المصابيح
- ↑ مضمون، أمة العلم من أجل نهضة علمية في العالم الاسلامی: الأستاذ عبدالسلام، رساله: الیونسک آب۔ ایلول1981ء، ص:51
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Volume 29 Issue 2 | 2014 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |