34
2
2017
1682060034497_637
98-119
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/68/63
http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/68
Tasawoof Salasil Muslim Society Tasawoof Salasil Muslim Society
انسانی بدن دو چیزوں(جسم اور روح) کا مجموعہ ہے۔ جسم کی طرح روح کو بھی بیماریاں لاحق ہوتی ہیں۔ جسمانی بیماریوں کے علاج کے لیے لوگ اس مرض کے ماہر کے پاس جا کر اپنا علاج کراتے ہیں،تو روحانیات کے علاج اور اس کا خیال رکھنے کے لیے جو علاج مقرر کیا گیا ہے اسے تصوف کہا جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیاہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
"وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ"[1]"اور ہم نے انسان اور جن کو عبادت کے لیے ہی پیدا کیا ہے"
عبادت کے لیے ایک اہم عنصر صفائی وطہارت قلب ہے، جب تک انسان علائقِ دنیا سے تعلق توڑ کر رب کی طرف مکمل توجہ نہیں کرے گا، عبادت کی تکمیل نہ ہوگی، تکمیلِ عبادت کے اسی زینے کا نام تصوف ہے۔ تصوف وسلوک کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ شریعت کے احکام میں قلبی محبت اور ہمہ دم استحضار شامل ہوجائے اور شرعی احکام انسان کا طبعی و دلی تقاضا اور حال بن جائے، جب یہ کیفیت انسان کے دل میں پیدا ہو تی ہے تو اس کی پوری زندگی اسی کیفیت کے زیر اثر آجاتی ہے۔ اسی کیفیت ِ قلبی کا نام رسول اللہ ﷺ نے حدیث ِ جبرئیل میں احسان بتایا ہے۔ یہی احسان پورے دین کا مغز اور خلاصہ ہے اس کے حاصل ہونے کے بعد انسان کو خدا کا خصوصی قرب نصیب ہو جاتا ہے۔ یہ ولایتِ خاصہ مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ شریعت اور طریقت کے اس اعتباری فرق کو اس انداز میں بیان کیا گیا ہے،کہ
" شریعت سر جھکانا ہےاور طریقت دل لگانا ہے[2]۔"
ویسے لوگوں میں تصوف کےچار سلسلے مشہورہیں اور عام طورپر یہ خیال بھی کیا جاتا ہے کہ تصوف ان چار سلسلوں میں منحصر ہے،جب کہ ان کے علاوہ اور بھی کئی سلسلوں کے نام مختلف کتابوں میں دیکھے اور لوگوں سے سنے جاتے ہیں۔ ان سلاسل کا تعارف کیاہے؟ کیا واقعی تصوف ان چار سلاسل میں محصورہے؟ یا یہ دوسرے سلاسل بھی درست ہیں؟ ان چار سلسلوں کی شہرت کے وجوہات کیا ہیں؟ ان غیرمشہور سلسلوں کی حیثیت کیا ہے؟ اوروہ کیوں غیر مشہور ہیں؟ زیرِ نظر مضمون ، ان مذکور اشکالات کودورکرنے کی ایک کوشش ہے، جس میں پہلے تصوف کا تعارف پیش کیا گیا ہے، پھر ان مشہور اور غیر مشہور سلاسل کی وضاحت کی گئی ہے اورآخر میں ان کی حیثیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
تصوف کا تعارف
لغوی معنیٰ
تصوف کا لفظ بابِ تفعل کا مصدر ہےجس کا معنی ہے : فلان صار من الصوفية" فلاں آدمی صوفیا ءمیں سے ہو گیا[3]"۔
باب تفعل کے خاصیات میں سے ایک خاصیت تکلف ہے چنانچہ مصباح اللغات میں ہے:
"صوفی بننا یا صوفیوں سی عادت بنانا[4]۔"
اصطلاحی معنیٰ
تصوف کی کئی تعریفات کی گئی ہیں، چنانچہ مشہور صوفی قطب الدین ابو المظفر المروذیؒ نے اپنی کتاب میں تصوف کی بیس تعریفیں نقل کی ہیں[5]۔ علامہ قشیر ی ؒنے اپنی کتاب میں پچاس سے زیادہ تعریفیں لکھی ہیں اور کہا ہے کہ یہ تعریفیں میں نے متقدمین صوفیاء سے اخذ کی ہیں[6]۔ مشہور مستشرق نکلسن نے اٹہتر(۷۸) تعریفات ذکر کی ہیں[7]۔الحامدی نے اپنی کتاب "الانسان والاسلام" میں لکھا ہے کہ تصوف کی دو ہزار سے زیادہ تعریفات منقول ہیں[8]۔
ذیل میں تصوف کی چند مشہور تعریفات کو ذکر کیا جاتا ہے:
- امام غزالی ؒ فرماتے ہیں:
"التصوف شيئان: الصدقُ مع الله وحسنُ المعاملة مع الناس، فكلُّ من صدق مع الله تعالى وأحسن معاملة الخلق فهو صوفيٌّ[9]
"تصوف دو چیزیں ہیں : اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ بولنا اور لوگوں کے ساتھ اچھا معاملہ کرنا، پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ بولے اور مخلوق کے ساتھ اچھا معاملہ کرے تو وہ صوفی ہے"۔
- زین الدین محمد عبدالرووف نےلکھا ہے:
الوقوف مع الآداب الشرعية ظاهرا فيرى حكمها من الظاهر في الباطن، وباطنا فيرى حكمها من الباطن في الظاهر[10]
"شریعت کے ظاہری امور سے باخبر ہو کر اس پر باطن کو سنوارنا اور باطن سے باخبر ہو کر اس سے ظاہر کو سنوارنا۔ "
- المعجم الوسیط میں ہے:
(التصوف) طريقة سلوكية قوامها التقشف والتحلي بالفضائل لتزكوا النفس وتسموا الروح[11]
"وہ سلوکی طریقہ جس میں فضائل پر بندہ مزین ہو جاتا ہے اور اور نفس رذائل سے پاک ہوجاتا ہے اور روح بلند ہو جاتا ہے۔"
- معجم لغة الفقهاء میں ہے:
الصدق مع الله، والتحرر من سطوة الدنيا، وحسن التعامل مع الناس.هذا هو المشروع منه.[12]
"اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچ بولنا اور دنیا کی محبت سے اپنے آپ کو بچا نا اور لوگوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا۔"
صوفی کی وجہ تسمیہ
اہل تصوف کو صوفی کہنے کی کئی وجوہات ہیں:* اس لیے کہ ان کے عقائد صاف ہوتے ہیں۔
- بشر بن حارث الصوفیؒ بیان فرماتے ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے دل کو صاف کر دے، اسے صوفی کہا جاتا ہے۔
- صوفی اللہ تعالیٰ کے سامنے صف اول میں ہوں گے۔
- ان کے اوصاف اہل صفہ کے اوصاف کے قریب تر ہوتے ہیں۔
- اس لیے کہ وہ صوف یعنی اونی لباس پہنا کرتے تھے[13]۔
تصوف کی ابتدا
لفظ تصوف کوئی نیا لفظ نہیں بلکہ یہ بہت پہلے سے استعمال ہوتا ہے، تا ہم جس طرح لفظ تصوف کے اصل اور اس کی تعریف میں اختلاف ہے اسی طرح اس امر میں بھی اختلاف ہے کہ اس لفظ کا استعمال کب ہوا ؟اور سب سے پہلے کس نے یہ لفظ استعمال کیا ؟
ابن تیمیہؒ ، ابن الجوزیؒ اور ابن خلدونؒ وغیرہ کا اس بارے میں موقف یہ ہے کہ یہ لفظ ابتدائی تین صدیوں تک استعمال نہیں ہوا اور ۳۰۰ ھ تک ہمیں کہیں بھی اس لفظ کے بارے میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔اسں کے بعد یہ لفظ مستعمل ہوا ،تاہم کئی اسلاف کے بارے میں منقول ہے کہ انہوں نے اس لفظ کو استعمال کیا ؛مثلا امام احمد بن حنبلؒ ، ابو سلیمان دارانی ؒاور سفیان ثوریؒ سے یہ الفاظ منقول ہیں اور ان کے مخطوطات اور خطبات میں بھی اس لفظ کا ذکر ملتا۔ [14]بلکہ سراج طوسی نے اپنی کتاب میں اس پر ایک باب قائم کیاہے اور ان لوگوں پر رد کرتے ہوئے فرمایا:
" اگر کوئی پوچھنے والا یہ کہے کہ ہم نے تو اصحاب رسول اللہ ﷺ میں صوفی کا لفظ نہیں سنا اور نہ ہی تابعین یا تبع تابعین میں سے کسی نے اس لفظ کو استعمال کیا ، اس زمانے میں تو عباد، زہاد، سیاحین، فقرا اور صالحین کے الفاظ استعمال ہوتے تھے۔ کسی نے بھی صحابی کے لیے لفظ صوفی کا استعمال نہیں کیا۔ تو اس بارے میں یہ کہوں گا کہ رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہونا شان اور مرتبے والا مقام ہے اور اس شرف پر چند حضرات ہی فائز ہوئے ہیں۔ یہ لفظ مخصوص حضرات کے لیے استعمال ہوا اور یہ اتنی عظمت والا لفظ تھا کہ اس کے ہوتے ہوئے ان لوگوں کے لیے کسی اور لفظ کے استعمال کو مناسب نہ سمجھا گیا۔ صحابہ کرام زہاد، متوکلین ، فقرا ، صالحین کے ائمہ تھے اور انہوں نے حضور ﷺ کی صحبت کی وجہ سے ہی یہ مقام حاصل کیا تو جب صحبت کی وجہ سے انہیں صحابی کا لفظ ملا جو کہ عظیم ترین لقب ہے، تو ان کے لیے اس سے کم تر کسی لقب کا استعمال کیسے ہو سکتا ہے[15]۔"
سفیان ثوری ؒ سے منقول ہے ، وہ فرماتے ہیں:
" اگر ابو ہاشم صوفی نہ ہوتے تو میں کبھی بھی ریا اور دکھلاوے کو سمجھ نہ پاتا انہوں نے مجھے اس کی صحیح تعریف سمجھائی۔"
سفیان ثوری ؒ نے محمد بن اسحاقؒ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اسلام سے قبل ایسا وقت بھی تھا جب بعض اوقات طواف کرنے والا ایک آدمی بھی نہیں ہوتا تھا، دور دراز سے کوئی صوفی آتا اور طواف کرنے کے بعد چلا جاتا، تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام سے قبل بھی یہ لفظ معروف تھااور اس زمانے میں اس لفظ کااستعمال نیک لوگوں کے لیے کیا جاتا تھا[16]۔
عبد الرحمٰن جامیؒ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو ہاشم کوفی سب سے پہلے وہ شخص تھا جس نے صوفی کا لفظ استعمال کیا۔ اس سے قبل یہ لفظ کبھی استعمال نہیں ہوا۔ شام کے علاقہ رملہ میں سب سے پہلے صوفیوں کے لیے خانقاہ بنی، اور اسے بنانے والا وہاں کا عیسائی بادشاہ تھا۔ اس بارے میں یہ واقعہ نقل کیا ہے:
" ایک دفعہ رملہ کا عیسائی بادشاہ کسی جگہ گیا تو اس نے دو صوفی دیکھے جو آپس میں گفتگو کر رہے تھے ۔بادشاہ کے دل میں خیال آیا کہ ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنی چاہیے، اس وقت ان لوگوں نے اکٹھے کھانا شروع کیاتھا اور انتہائی اچھے اخلاق کے ساتھہ آپس میں پیش آرہے تھے۔بادشاہ ان کے معاملات اور اچھے اخلاق دیکھ کر بہت خوش ہوا، اس نے صوفیوں میں سے ایک کو بلایا اور دوسرے کے بارے میں پوچھا کہ یہ کون ہے؟ تو اس نے کہا کہ میں اس کو نہیں جانتا۔ بادشاہ نے پوچھا : تمھارا اس کے ساتھ تعلق کیا ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں۔ بادشاہ نے پوچھا : تو پھر تمہارے درمیان اتنی محبت اور اچھے اخلاق کیسے ہیں؟ درویش کہنے لگا:یہ ہمارا طریقہ اور اسلوب ہے۔ بادشاہ نے کہا کہ تمہارے پاس کوئی رہنے کی جگہ یا ٹھکانہ ہے؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہمارے پاس ایسا کچھ بھی نہیں۔بادشاہ نے کہا کہ اچھا میں تمہارے لیے رہائش کا انتظام کرتا ہوں چنانچہ اس نے رملہ میں ان کے لیے خانقاہ قائم کی[17]۔"
تصوف کی قسمیں
تصوف کی دوقسمیں ہیں۔ایک وہ جوقرآن وسنت سے ماخوذہو،جب کہ دوسری وہ جوان سے متصادم ہو۔پہلی قسم ممدوح اور جائز ،جب کہ دوسری قسم مذموم اور ناجائز ہے۔
تصوف کے سلسلے
صحیح تصوف کے جتنے بھی سلسلے ہیں ان سب کا بنیادی مقصد رضائے الہٰی کا حصول ہے، تاہم رضائے الہٰی کے حصول کے راستے ہر ایک کے اپنے اور الگ الگ ہوتے ہیں۔ اس لیے بعض نے ذکر و اذکار کا ایک طریقہ اپنایا ہےتو بعض نے دوسرا، کوئی ذکر کے علاوہ دوسرے ریاضات اور مجاہدات کو ترجیح دیتے ہیں۔ غرض ہر ایک کا طریقہ مختلف ہے ،چنانچہ مولانا نظام الدینؒ اپنی کتاب سلوکِ کامل میں لکھتے ہیں:
"ان سلسلوں میں روحانیت کا بنیادی اصول ایک ہی رہا ہے اور وہ ہے ذکر الہٰی کی کثرت، البتہ ذکر الہٰی کے طریقوں میں ہر صاحبِ سلسلہ نےمختلف رنگ اختیار کیا ہے۔ اس طریقہ کار میں جزوی اختلافات کی وجہ ممکن ہے۔ طریقِ تربیت میں اختلاف آب وہوا ،مزاج اور طبائع کے اختلاف کی وجہ سے کیا گیا ہے، جیسے ایک ماہر طبیب ایک ہی دوائی مختلف مزاج والے مریضوں کو مختلف صورتوں میں دیا کرتا ہے[18]۔"
تصوف کےکئی سلسلے ہیں،جن میں چار کوشہرت ملی ،جب کہ باقی غیرمشہور ہیں:
قادریہ:
اس سلسلہ کے بانی شیخ محی الدین عبد القادر بن موسى بن عبد الله جیلانی ؒ (۴۷۱ھ ۔ ۵۶۱ھ) ہیں۔ طبرستان کے قریب جیلان کے علاقے میں پیدا ہوئے۔ اسی علاقے کی طرف نسبت کرتے ہوئے جیلانی کہلاتے ہیں[19]۔ جنوبی ہند میں اسے کافی شہرت حاصل تھی۔ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبالؒ کا تعلق اسی سلسلے سے تھا۔ اس سلسلے کے سید محمد میاں غیر مسلموں سے برداشت اور معاشرتی خدمات کے لیے شہرت رکھتے تھے[20]۔
سہروردیہ
اس سلسلے کی بنیاد بغداد کے شہاب الدین عمر بن محمد صدیقی سہروردیؒ(۵۳۹ھ ۔ ۶۳۲ھ)نے رکھی، جو کہ خلیفہ اول سیدنا ابوبکرؓ کے اولاد میں سے تھے۔[21] یہ سلسلہ منگولوں کے حملے کے عرصے میں مقبول ہوا تھا۔ برصغیرمیں یہ سلسلہ بہاؤ الدین زکریا ملتانی نے متعارف کرایا[22]۔
نقشبندیہ:
یہ سلسلہ دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس کے بانی شیخ بہاؤ الدین نقشبندی ؒ (۷۱۸ھ۔۷۹۱ھ) ہیں، جو کہ امام حسینؓ کے اولاد میں سے تھے۔ اس سلسلے میں ذکر جہری اور سماع نہیں بلکہ ذکر خفی ہے۔[23] اس کے گیارہ اصول ہیں۔ اسے برصغیر پاک وہند میں خواجہ باقی باللہ ؒ نے پروان چڑھایا۔ اس سلسلے کے مشہور شخصیات شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانیؒ اور شاہ ولی اللہ ؒ ہیں[24]۔
چشتیہ:
اس سلسلے کے بانی خواجہ ابو ابدال چشتی ؒ ہیں اور ہندو پاک میں ا س سلسلے کے مرید خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ ہیں۔ یہ سلسلہ اپنی خانقاہیں بنانے میں شہرت کا حامل ہے۔ جس میں امن،سخاوت اور انسانیت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس سلسلے کے مشہور مشائخ خواجہ نظام الدین اولیاء، قطب الدینؒ اور فرید الدین ؒ ہیں[25]۔
تصوف کے غیر مشہور سلسلے
تصوف کے کئی سلسلے ایسے ہیں جو کہ غیرمشہور ہیں،جن کے نام یاتو کتابوں تک محدود ہیں یا بعض علاقوں میں ان کے نام سنے جاتےہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان سلسلوں کا تعارف کیا ہے؟اور ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ذیل میں تصوف کے چند غیر مشہور سلسلے الف بائی ترتیب سے ذکر کئے جاتے ہیں۔
اباحیہ
یہ صوفیوں کا ایک باطل فرقہ ہے جو تمام چیزوں کو جائز اور مباح سمجھتا ہے۔ اباحیہ کا لفظ اباحت سے ہےجس کا معنیٰ ہے جائز کرنا۔ اس فرقے کے نزدیک انسانوں کو گناہوں سے دور جانے کی قدرت حاصل نہیں اور نہ دیگر مامورات بجالانے کی طاقت ہے،نیز دنیا کی کوئی شے کسی کی ملکیت نہیں، اس لیے مال اور بیویوں میں تمام لوگ شریک ہیں۔ اس فرقے کو دنیا کا بدترین فرقہ کہا جاتا ہے[26] ۔الموسوعۃ الفقہیۃ میں اباحیہ والوں کو زنادقہ میں سے ذکر کیا گیاہے، چنانچہ اس میں ہے:
وَمِنَ الزَّنْدَقَةِ: الإْبَاحِيَّةُ، وَهِيَ: الاِعْتِقَادُ بِإِبَاحَةِ الْمُحَرَّمَاتِ، وَأَنَّ الأمْوَال وَالْحُرَمَ مُشْتَرَكَةٌ.[27]
"زنادقہ میں سے اباحیہ ہے اور اباحیہ وہ ہیں جو محرمات کے مباح ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں اور یہ کہ اموال اور محرمات مشترک ہیں۔"
سلسلہ احمدیہ یا البدویہ
تصوف کے اس غیر مشہور سلسلے کے بانی شیخ احمد البدوی(۶۲۷ھ ) ہیں۔ یہ سلسلہ مصر میں پھیلا[28] ۔اس کے مشہور شیخ یحییٰ ؒ ہیں جو کہ مجدد الف ثانی ؒ کے چھوٹے فرزند تھے۔ مجدد الف ثانی ؒ کے وفات کے بعد آپ نے اس سلسلہ کے اسباق کی تکمیل کی[29]۔
سلسلہ احسنیہ نقشبندیہ یا احسنیہ مجددیہ
اس سلسلہ تصوف کے بانی خواجہ سید آدم بنوری ؒ ہیں، جو کہ شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانیؒ کےمشہور خلفاء میں سے تھے۔ سید محمد میاں صاحب ؒ بیان فرماتے ہیں:
"حق جل مجدہ نے آپ کو سلسلہ طریقت میں ایک مخصوص طریقہ مرحمت فرمایا جوطریقہ احسنیہ نقشبندیہ ہے[30]۔"
یہ سلسلہ احسنیہ مجددیہ کے ساتھ بھی مشہور ہے۔ یہ سلسلہ بنگلہ دیش، ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں پھیلا[31]۔
سلسلہ اویسیہ
اس سلسلہ کو اویسی نسبت بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے مشہور بزرگوں میں سے خواجہ بہاؤ الدین نقشبندی ؒقابل ذکر ہیں۔ آپ ہی سے خواجہ خاوند عرف حضرت ایشاں ؒ نے بھی باطنی علوم حاصل کئے۔دوسرے معروف بزرگ اس سلسلے کے حضرت امیر کبیر سید علی ہمدانیؒ ہیں۔ آپؒ سے اس سلسلہ میں خرقہ ٔ خلافت شیخ یعقوب صوفی کشمیری ؒنے حاصل کی[32]۔
سلسلہ برہانیہ دسوقیہ
اس سلسلہ کے بانی شیخ ابراہیم بن ابو المجد بن قريش بن محمد الدسوقیؒ ہیں[33]۔مصر کے ایک علاقے دسوق کے رہنے والے تھے۔ اپ کا نسب امام حسینؓ سے جا ملتا ہے۔ بڑے صوفی تھے۔ یہ سلسلہ کئی علاقوں میں پھیلا ،جیسے؛ لبنان، شام، اردن، سعودی عرب، مصر، کویت، مراکش، ناروے، ڈنمارک، ہالینڈ، اٹلی، روس اور پاکستان وغیرہ[34]
سلسلہ تجانیہ
تصوف کے اس سلسلے کا بانی ابو العباس احمد بن محمد التجانی (۱۲۳۰ھ) ہیں۔ اس کے پیروکاروں کو احباب بھی کہا جاتا ہے۔یہ لوگ کسی اور سلسلے میں داخل نہیں ہو سکتے۔ ان کا سب سےبڑا اصول یہ ہے کہ اولو الامر کی اطاعت کی جائے۔ یہ لوگ دن کے مخصوص اوقات میں خاص قسم کے ذکر میں مشغول رہتے ہیں۔ اگر چہ اس سلسلے کی اشاعت مصر، عرب اور ایشیا کے دوسرے شہروں میں بھی ہوئی لیکن جو ترقی اسے فرانسیسی افریقہ میں نصیب ہوئی اور کسی جگہ پر نہیں ہوئی۔ اس کے ایک مبلغ محمد الحافظ بن مختار نے اس سلسلے کی نشر واشاعت نہایت کامیابی سے کی۔اس نے مراکش کے انتہائی جنوب کے اہلِ صحرا میں اس سلسلے کو روشناس کرایا اور بڑی تعداد میں لوگ اس سلسلے میں داخل ہوئے۔ ایک اور مبلغ الحاج عمر نے اس کی کافی اشاعت کی۔ جہاں جہاں یہ سلسلہ موجود ہے وہاں وہاں اس نے قادریہ سلسلے کی جگہ لے لی ہے[35]۔
جلوتیہ
یہ ترکی کا ایک سلسلہ ہے جس کی بنیاد استنبول کے نزدیک سقوطری کے شیخ عزیز محمود بن فضل اللہ بن محمود رومی(۱۰۳۸ھ) نے رکھی۔ رومی حنفی واعظ تھا۔ خلاصة الأخبار في أحوال النبي المختار اورحياة الأرواح ونجاة الاشباح کے علاوہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں[36] ۔ جلوتیہ جلوہ سے مشتق ہے۔ اس کا مفہوم اصطلاح تصوف میں بیان کیا گیا ہے۔ کہ انسان غور وفکر یعنی مراقبے کے ذریعے خلوت سے نکل کر ہستی باری تعالیٰ میں گم ہو جائے۔ یہ ایک خاص طریقہ ہےجس کی بنیاد سات اسماء ِ باری تعالیٰ کے ذکر پر ہے۔ آپ بڑے نرم گفتار اور خوش بیان تھے[37]۔
سلسلہ جنیدیہ
یہ سلسلہ جنیدیہ حضرت خواجہ ابو القاسم جنید بن محمد البغدادی(۲۹۷ھ) سے منسوب ہے جس کا تعلق نھاوند سے تھا اور پرورش عراق میں پائی تھی[38] ۔ آپ اپنے زمانے میں طاؤس العلماء اور سید الطائفہ کے القابات سے ملقب تھے۔ آپ کا مسلک سلسلہ طیفوریہ کے برعکس صحو ہے جو مشہور مسلک ہے کیونکہ اکثر مشائخ عظام کایہی مسلک رہا ہے۔ اس موضوع (صحو وسکر) کے علاوہ ان کے مابین اور بھی فرق ہے۔ جنیدیوں کا طریقہ مراقبہ باطن ہے اور ریاضت اور مجاہدات کا مقصد نفس کے زور کو کم کرنا ہے[39]۔
سلسلہ حکیمیہ:
سلسلہ حکیمیہ ابو عبد اللہ محمد بن علی الحکیم ترمذی ؒ(۳۲۰ھ) سے منسوب ہے، جو امام وقت تھے۔[40] آپ کے بارے میں طبقات الصوفیہ میں ہے:
وقيل فضّل الولاية على النبوة، وردّ بعض العلماء هذه التهمة عنه[41]
"کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت پر ولایت کو فضیلت دی یعنی یہ کہا کہ ولی نبی سے افضل ہوتا ہے۔ بعض علماء نے اس تہمت کو رد کیا ہے۔"
جملہ ظاہری وباطنی علوم میں آپ کی کئی تصانیف ہیں۔ آپ کا مخصوص مسلک اور مقصد اثبات ِ ولایت ہے ،جس کی حقیقت سمجھانے کی آپ نے کوشش کی ہے۔ نیز آپ نے اولیاء کرامؒ کے مدارج اور ان مدارج کے حصول کے طریقوں پر بحث کی ہے۔ آپ کی تعلیمات کی ابتدا یہ ہے کہ انسان کو جاننا چاہیے کہ حق تعالیٰ کے ایسے برگزیدہ اولیاء ہیں جو دیگر خلق سے ممتاز ہیں جنہوں نے دنیا کی دلچسپیوں سے بالاتر ہو کر نفسانی خواہشات سے پیچھا چھڑا لیا ہے۔ ان میں سے ہر ایک کا علیحدہ مقام ہے[42]۔
حلال خوریہ یا حروفیہ
اس کے بانی فضل اللہ استر اباذی تھا۔ یہ ایک بدعتی فرقہ ہے۔ فضل اللہ ۷۴۰ ھ میں پیدا ہوا۔ آپ ایک نیک ، صالح اور صوفی تھے۔زندگی کا آغاز ہی ایک صوفی کی حیثیت سے کیا۔ حرام کھانے سے حد درجہ اجتناب کرتے تھے۔ اس معاملے میں وہ اس قدر محتاط تھے کہ آپ حلال خور کے ساتھ مشہور ہوئے ۔ آپ کا یہ سلسلہ حلال خوریہ کے ساتھ مشہور ہوا۔چالیس سال کی عمر میں فضل اللہ تبریز میں اقامت گزیں تھا تو اسے نیا تجربہ ہوا۔ اسے حروف خفیہ کے معنی اور نبوت کی اہمیت کا علم حاصل ہو گیا۔ تین دن اور رات اس وجدانی کیفیت میں رہے۔ اس کے بعد وہ ایک نئی مذہبی تحریک کا بانی بن گیا جسے حروفیہ کہتے ہیں۔ تیمور لنگ کی عتاب سے بچنے کے لیے اس کے بیٹے میران شاہ کے ہاں پناہ لی، لیکن میران شاہ نے اس کی مدد کی بجائے اسے قید کرکے ۷۹۶ھ کو قتل کیا۔ بعد میں اس فرقہ کا عقیدہ یہ رہا کہ کائنات قدیم ہے۔ اللہ تعالیٰ کے صفات اس کے مترادف ہیں۔ انسان سے مراد قدرتی طور پر پاک، بالخصوص پاک اور مقدس انسان فضل اللہ ہے۔ تمام دنیا خود خدا ہے ۔ آدم روح ہے اور سورج چہرہ ۔ انہوں نے قرآن مجید کی اپنی ایک باطنی تفسیر کی ،نیز ہر ذرہ ایک "زبان" ہے جو بولتی ہے[43]۔
سلسلہ حلمانیہ:
اس سلسلے کے بانی ابو حلمان علی الفارسی الحلبی ہے۔ ابو عبد الرحمٰن السلمی نے آپ کو طبقات صوفیہ میں ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ آپ شام میں رہے ہیں[44] ۔ اشاعرہ نے اسے بعض عقائد کی بنیاد پر اسلام سے خارج قرار دیا ۔ ابو حلمان کے عقیدے یہ تھے کہ خدا جسمانی طور پر خوب صورت اشخاص کےاندر موجود ہے اور ہر چیز اس شخص کے لیے جائز ہے جو یہ جانتا ہو کہ اس چیز میں ذات باری تعالیٰ کی پرستش کس طرح کی جائے[45]۔
سلسلہ خرازیہ:
خرازیہ سلسلہ کے لوگ حضرت ابراہیم خراز سے منسوب ہیں۔ اس سلسلہ کی تصانیف بہت مشہور ہیں اور تجرید پر انہوں نے بہت کچھ لکھا ہے۔ یہاں تک کہ فنا اور بقا کی اصطلاحات بھی سب سے پہلے انہوں نے تحریر کی ہیں، اور اپنی طریقت کو ان دو الفاظ پر مشتمل سمجھا ہے۔ ان کے نزدیک فنا سے مراد اولیائے کرام کے کمالات اور بلند روحانی مقامات ہیں ۔یعنی ان حضرات کے کمالات جو مجاہدات کی تفصیل سے آزاد اور تغیر احوال سے بالاتر ہو جاتے ہیں، جو مطلب سے گزر کر مطلوب تک پہنچ جاتے ہیں اور جو ان کمالات کو پہنچا ہوا نہیں ہوتا، وہ بقا کی حالت میں ہوتا ہے[46]۔
سلسلہ خفیفیہ
اس سلسلے کے بانی ابو عبد اللہ محمد بن خفیف شیرازی ؒ تھے جس کی والدہ نیشاپور کی رہنے والی تھی۔ آپ اپنے وقت میں شیخ المشائخ تھے۔ آپ کئی بزرگوں کی صحبت میں رہے جس میں رویما، جریری، ابو العباس بن عطاء ، طاہر مقدسی اور حسین بن منصوف رحمہم اللہ قابل ذکر ہیں۔ علوم ظاہری اور باطنی دونوں کے جامع تھے۔ ۳۷۱ ھ کو فوت ہوئے[47] ۔طریقت کی کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ آپ کے مناقب زیادہ ہیں۔ مختصر یہ کہ آپ اپنے زمانے کے بڑے بزرگ ، متقی اور پرہیز گار شخص تھے اور نفس کشی میں مشہور تھے[48]۔
سلسلہ رفاعیہ:
رفاعیہ سلسلے کے بانی شیخ احمدبن علی بن یحیٰ الرفاعی الحسینیؒ(۵۱۲ھ ۔۵۷۸ھ) ہیں۔آپ عراق کے حسن نامی گاؤں میں پیدا ہوئے[49]۔آپ کے مریدوں کے عجیب وغریب احوال منقول ہیں، چنانچہ البدایہ والنہایہ میں ہے کہ آپ کے مرید زندہ سانپ کو کھاتے اور جلتی آگ میں داخل ہوتے تھے[50]۔اس سلسلے کے پیروکار نہ صرف عرب اور مشرق وسطی بلکہ ترکی، بلقان اورجنوبی ایشیا میں بھی پائے جاتے ہیں[51]۔رفاعیہ درویشوں کا ایک سلسلہ حریریہ کہلاتا ہے جس کے بانی علی بن حسن حریری (۶۴۵ھ) تھے۔ اس کے ایک عقیدے کی وجہ سے ابن تیمیہ ؒ نے اسےناجائز قرار دیا تھا[52]۔
سلسلہ روحانیہ
اس سلسلے کو روشنیہ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے بانی بایزید انصاریؒ ہیں جو کہ پاکستان صوبہ خیبر پختونخوا کا ایک صوفی ہے۔ نسلا پٹھان ہے۔ سلسلہ نسب ابو ایوب انصاریؓ سے ملتا ہے۔ ان کی زیادہ تر توجہ صوفیانہ ریاضتوں اور دوسرے مذہبی فرائض کی معلومات حاصل کرنے کی طرف رہی۔ چنانچہ سولہ برس کی عمر میں خواجہ اسماعیل سے ملاقات کی۔ جب آپ نے تبلیغ کا کام شروع کیا تو آپ کی بہت زیادہ مخالفت کی گئی، تاہم آپ کی رسائی بنگش قوم اور پھر اورکزئیوں، تیراہیوں اور آفریدیوں تک ہوئی۔ پشاور کے بھی کئی قبائل آپ کے ساتھ ہو گئے۔ آپ کی شخصیت ہمیشہ مختلف فیہ رہی ہے۔ ان کے حامی آپ کو پیر روشاں اور مخالفین پیر تاریک کا خطاب دیتے ہیں۔ ان کے مریدوں کے نزدیک یہ ولی کامل تھے[53]۔
سعدیہ یا جباویہ
اس سلسلے کے بانی سعد الدین بن مزید الجباوی الشیبانی (۶۲۱ھ)ہیں۔ جبا کے علاقے میں مقیم تھے۔جبا کی طرف نسبت کی وجہ سے جباویہ کہلاتا ہے۔ آپ عہدِ شباب میں ڈاکوؤں کی جماعت کاسرغنہ تھے۔ پھر توبہ کیا اور والد کے ساتھ زاویہ دمشق میں رہے۔ اور جبا میں مدفون ہوئے۔[54] تصوف کے بارے میں لکھنے والے اصحاب نے اس فرقے کی جانب بہت کم توجہ دی ہے،اور جنہوں نے ان کی طرف توجہ دی بھی ہے تو وہ صرف اجمالی ذکر سے آگے نہیں بڑھے[55]۔
سلسلہ سہلیہ:
یہ سلسلہ حضرت ابو محمد سہل بن عبد اللہ بن يونس بن عيسى بن عبد الله تستریؒ کی طرف منسوب ہے، جن کا شمار تصوف کے بڑے اولیاء اور اکابر میں سے ہوتا ہے۔ آپ اپنے وقت کے بادشاہ (ولایت)تھے۔ آپ طریقت میں اہل حل وعقد میں سے تھے۔ آپ کا مسلک مجاہدہ وریاضت ہے، جس کے ذریعے مریدین کو بلند مقامات پر پہنچا دیتے تھے۔ ۲۹۳ھ یا ۲۸۳ھ کو فوت ہوئے[56]۔
سلسلہ سیاریہ
اس سلسلے کے بانی ابو العباس قاسم بن قاسم بن مہدی سیاریؒ تھے۔ آپ کا تعلق مرو علاقہ سے ہے۔ وہاں کےشیخ اور پہلے متکلم تھے۔علم الکلام اورعلم حدیث میں کمال حاصل کیاتھا۔ آپ ابوبکر محمد بن موسیٰ الفرغانی الواسطیؒ کے صحبت میں رہے[57]۔آپ کے سلسلے کے پیرو کار اب بھی موجود ہیں، اگر چہ مرور زمانہ کی وجہ سے تمام سلسلوں میں تبدل وتغیر آجاتا ہے لیکن یہ سلسلہ آج تک بدستور قائم ہے اور کسی بھی وقت یہ علاقہ مشائخ سے خالی نہیں رہا[58] ۔فرقہ حلولیہ کے کچھ لوگ اس فرقے کی طرف اپنی نسبت کرتے ہیں، حالانکہ سیارہ سلسلے اور حلولیہ فرقے کے عقائدالگ الگ ہیں۔ فرقہ حلولیہ کے لوگ کافر ہیں کیونکہ وہ حلول اور تناسخ کے عقیدے کے قائل ہیں، جب کہ سیاریہ اسلامی تصوف کا ایک سلسلہ ہے[59]۔
سلسلہ سیفیہ
یہ سلسلہ آخوند[1]زادہ[2]سیف[3]الرحمن کے نام کی نسبت سے سیفی کہلاتا ہے، اُن کے مریدین اور پیروکاروں کو سیفی کہا جاتا ہے۔ سیفی سلسلہ کے افراد پاکستان، افغانستان اور دنیا کے دیگر ممالک میں کثیر تعداد میں موجود ہیں۔اس سلسلہ میں چاروں سلسلہ ہائے تصوف (نقشبندیہ، قادریہ، چشتیہ اور سہروردیہ)کے باقاعدہ خلافت و اجازت دی جاتی ہے اور ان سلاسل کے تمام اسباق اپنے مریدین کو درجہ بدرجہ سکھائے جاتے ہیں اور خلافت مطلق انہیں ملتی ہے جو ان چاروں سلاسل کے تمام اسباق مکمل کر لیں۔ ان سلاسل اربعہ میں وہ خلفاء جن کو باقاعدہ طور پرسند خلافت جاری کی جا چکی ہے ان کی تعداد چالیس ہزار سے متجاوز ہے[60]۔
سلسلہ شاذلیہ:
سلسلہ شاذلیہ تصوف کا ایک سلسلہ ہےجس کے بانی ابوالحسن[4]علی[5]بن[6]عبدالله[7]شاذلی[8]المغربی ہے۔شاذلہ جو جبل زعفران کے نزدیک تیونس میں واقع ہےاسی نسبت سے شاذلی کہلاتے ہیں۔آپ نسبا سادات بنی حسن سے ہیں۔ جن کا سترہ واسطوں سے نسب سیدنا حسنؓ کے ساتھ ملتا ہے۔آباواجداد کا مولد ومسکن مغربی اقصیٰ مراکش(شمالی[9]افریقا)ہے۔ موصوف نے اوائل عمری میں تونس میں مقیم ہو کر تحصیل علم کیا اور طریقت میں تونس کے شیخ عبدالسلام بن مشیش سے فیض یاب ہوئے۔ طریقہ شاذلیہ بواسطہ جابر جعفی سیدنا امام حسن سے جاملتا ہے[61] ۔شیخ محمد بن سخاوی اس سلسلے کے ایک معروف ولی تھے۔ آپ سے شیخ علی متقی ؒ نے سلسلہ قادریہ کے ساتھ ساتھ اسی سلسلہ میں بھی خرقۂ خلافت حاصل کیا تھا[62] ۔تصوف کے اس سلسلے کے دو طریقے کافی شہرت کے حامل ہیں:
الف: الدرقاویہ:
جس کے بانی ابو عبد اللہ محمد العربی بن احمد بن الحسین الدرقاویؒ (۱۱۵۰ھ ۔۱۲۳۹ھ) ہیں۔ آپ نے مغرب میں یہ طریقہ پھیلایا۔ بنو زروال میں پیدا ہوئے اور وہی وفات پائی[63]۔
ب: الشرطیہ:
اس سلسلے کے بانی علی بن محمد(۱۲۱۱ھ ۔ ۱۳۱۶ھ) ہیں۔ آپ نے زیادہ وقت فلسطین میں گزارا ۔ آپ کا سلسلہ شام میں پھیلا۔ فتنے کے خوف سے خلافت عثمانیہ نے آپ کو جزیرہ قبرس میں نذر بند کردیا[64]۔
سلسلہ شطاریہ:
اس سلسلہ ٔ تصوف کے بانی شیخ پیر میرٹھی شطاریؒ ہیں، جو نور الدین جہان گیر بادشاہ کے عقیدت مندوں میں سے تھے۔۱۰۴۲ھ میں آپ نے وفات پائی[65] ۔ سید علی ترمذی المعروف بہ پیر بابا (۹۹۱ھ) جو کہ صوبہ خیبرپختونخوا کے ایک بزرگ اور صوفی تھے ۔ آپ نے بھی شطاریہ سلسلے میں خرقۂ خلافت حاصل کیا تھا ،چنانچہ آپ کے ایک مرید اخون درویزہ نے اپنی کتاب تذکرۃ الابرار والاشرار میں لکھا ہے:
" میں ایک طویل مدت تک پیر بابا کی خدمت میں رہا اور میں نے اپنی عمر کا بڑا حصہ آپ کی قدموں میں بسر کیا چونکہ حضرت متقدمین کی طرف سے پانچ خانوادوں میں مجاز تھے۔ ان میں سے ایک خانوادے نے آپ کو اپنے دادا کی طرف سے اجازت دی تھی اور چار میں شیخ سالار کی طرف سے ۔ یہ سلسلے درج ذیل ہیں: سلسلہ کبرویہ، سلسلہ چشتیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ شطاریہ اور سلسلہ ناجیہ صلاجیہ[66]۔"
سلسلہ طیفوریہ
یہ سلسلہ حضرت خواجہ ابو یزید ؓ طیفور بن عیسیٰ بن سرو شان بسطامی سے منسوب ہے جن کا شمار اکابرِ مشائخِ طریقت میں ہوتا ہے۔ صاحب طبقات الصوفیہ نے آپ کو صوفیا ءکے طبقہ اولیٰ میں ذکر کیا ہے۔ آپ کے دادا سروشان مجوسی تھے پھر اسلام قبول کیا۔ آپ کے تین بھائی تھے: آدم، طیفور اور علی ، تینوں زاہد تھے[67]۔ آپ کا مسلک غلبہ سکر، استغراق اور غلبہ ٔ عشقِ الٰہی تھا ۔ سکر و مستی کسبی نہیں(کوشش سے حاصل نہیں ہوتی )اور جو چیز کوشش سے باہر ہے اس کو اپنی طرف منسوب کرنا غلط ہے، لیکن بعض کا خیال ہے کہ تکلف سے راہ ِ سکر اختیار کرنی چاہیے کیونکہ رسول اللہ ﷺ سے نے فرمایا ہے:
ابْكُوا، فَإِنْ لَمْ تَبْكُوا فَتَبَاكَوْا[68] "تم رو یا کرواگر رونا نہیں آتا تو رونے کی صورت اختیار کرو۔"
اس کی دو صورتیں ہیں: اول یہ ہے کہ ریا کاری سے اس گروہ کی شکل و صورت بنائی جائے یہ صریحی شرک ہے۔ دوم یہ کہ نیک لوگوں کی شکل وصورت اس نیت سے اختیا رکی جائے کہ خدا تعالیٰ اسے ان حضرات کے مقام تک پہنچا دیں جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :
مَنْ تَشَبَّهَ بِقَوْمٍ فَهُوَ مِنْهُمْ[69] " جس نے کسی قوم کے ساتھ مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے[70]۔"
سکر اور صحو کا مفہوم:
صحو اور سکر کا مطلب بیان کرتے ہوئے شرح کشف المحجوب میں لکھا ہے:
"تجھے خدا عزت دے تجھے جاننا چاہیے کہ اربابِ حقیقت کے نزدیک سکر اور غلبہ سے مراد محبتِ الٰہی کا غلبہ ہے اور صحو کا مطلب مقامِ ہوشیاری میں آنا ہے۔سکر سے مراد وہ بے خودی اور محویت ہے کہ جو سالک پر قربِ حق میں طاری ہو جاتی ہے۔ یہ استغراقِ مقام فنا فی اللہ کا ثمرہ ہے صحو کا مطلب ہے ہوشیاری، جب سالک مقامِ فنا کو ترک کرکے مقام دوئی پر واپس آتا ہے تو غلبہ استغراق سے نکل جاتا ہے۔ مشائخ کے نزدیک سکر سے صحو زیادہ افضل ہے کیونکہ اس میں کثرت سےعبادت کا موقع ملتا ہے[71]۔"
سلسلہ قصاریہ
اس سلسلے کا بانی حضرت ابو صالح حمدون بن احمد بن عمارۃ القصار ؒ (۲۷۱ھ)ہے جو بڑے عالم ِ دین اور شیخِ طریقت تھے۔ مسائل تصوف میں آپ کا کلام بہت بلند ہے۔ آپ فرماتے تھے:
من شغله طلب الدُّنْيَا عَن الْآخِرَة ذل إِمَّا فِي الدُّنْيَا وَإِمَّا فِي الْآخِرَة[72]
"جس کو دنیا آخرت سےمشغول کر دے وہ یا تو دنیا میں ذلیل ہو گا یا آخرت میں[73] "
سلسلہ قلندریہ
یہ ایک صوفی سلسلہ ہے جس کے بانی جمال الدین محمد الساوجی ہیں۔ برصغیر پاک وہند میں اس کے سب سے پہلےشیخ، کشمیر کے صوفی شیخ بابا سلطان تھا ۔ وہ صوفی جو مارا پھرتا ہو، اسے قلندر کہا جاتا ہے اسی مناسبت سے یہ سلسلہ قلندریہ کے ساتھ مشہور ہے[74]۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ماضی میں یہ سلسلہ والے متبعین ِ سنت نہیں تھے اور اپنے سروں اور چہرے کے بال مونڈواتے تھے۔ اس لیے ابن تیمیہ ؒ نے انہیں گمراہ کہا ہے[75] ۔سر اور چہرے کے بالوں کے علاوہ پلکیں اور بھوویں بھی صاف کیا کرتے تھے[76]۔
سلسلہ کبرویہ:
نجم الدین کُبرِی احمد بن عمر خوارزمی (۶۱۸ھ) اس سلسلے کے بانی تھے۔ آپ خوارزم کے شیخ تھے۔ غربا کا ملجأتھے۔ دینی بات کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سےنہ ڈرتے تھے۔ آپ نے صوفیہ کے طرز پر بارہ(۱۲) جلدوں میں تفسیر لکھی[77]۔آپ کے علاوہ اس سلسلے کے مشہور ولی مولانا یعقوب صاحب صرفیؒ تھے۔ مجدد الف ثانی ؒ نے بھی مذکورہ طریقہ حاصل کیا تھا[78]۔
سلسلہ مجددیہ:
اس سلسلے کے بانی عبد الغنی بن ابی سعيد بن الصفی العمری الدہلوی المجددی ہیں جو کہ محدث اور حنفی فقیہ تھے[79]۔اس میں پابندیٔ سنت رسول اور مخالفتِ بدعات اس کا خاص امتیاز ہے۔ آپ کے مرید حضرت آدم ؒ ان امتیازی خصوصیت میں نرالےشان کے مالک تھے[80]۔
سلسلہ محاسبیہ:
محاسبیہ مکتبِ فکر کے ارباب کا تعلق ابو عبد اللہ حارث بن اسد حارث المحاسبی(۲۴۳ھ) سے ہے[81]۔ آپ کو محاسبی اس لیے کہتے ہیں کہ آپ دن رات سختی سے اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے تھے۔ آپ ایک بڑے صوفی اور اصولی تھے۔آپ سارے زمانے میں مقبول النفس اور مقتول النفس مانے جاتے ہیں۔ابن عربیؒ فرماتے ہیں کہ وہ اپنے اعمال کا محاسبہ کرنے کے علاوہ اپنی نیات اور خیالات ِ قلبی کابھی محاسبہ کرتے تھے کیونکہ خاصانِ خدا کو برے خیالات کی بھی سزا ملتی ہے[82]۔
سلسلہ محمدیہ:
طریقۂ محمدیہ کے مؤسس بھارت کے مشہور مصلح و مجاہد سید احمد بریلویؒ ہیں[83]۔ رامپور میں حکیم غلام حسین نائب والی ریاست کے بڑے بھائی حکیم عطاء اللہ اور میاں محمد مقیم نے ایک روز بڑے ادب سے عرض کیاکہ جناب والا، پہلے طریقہ چشتیہ،قادریہ، نقشبندیہ اور مجددیہ میں بیعت لیتے ہیں، اس کے بعد طریقہ محمدیہ میں داخل فرماتے ہیں، اس کا سبب سمجھ نہیں آیا، اگر یہ سب طرق طریقۂ محمدیہ ہی ہیں، تو ان طرق کے بعد طریقہ محمدیہ میں بیعت لینے کی کیا ضرورت ہے؟آپ نے فرمایا کہ اس کا اجمالی جواب تو یہ ہے کہ اصحاب طرق نے اپنے اپنے طریقہ کے مطابق اشغال کی تعلیم دی ہے، مثلا طریقہ چشتیہ اور قادریہ کے شیوخ یہ بتاتے ہیں کہ ذکر جہر اس طرح کیا جائے اور ضرب اس طرح لگائی جائے، نقشبندی اورمجددی طرق کے شیوخ بتاتے ہیں کہ ذکر خفی کریں اور یہ لطیفہ[10]قلب ہے اور وہ لطیفہ روح، اور یہ لطیفہ نفس ہے اور وہ لطیفہ سر، لطیفہ خفی یہ ہے اور لطیفہ اخفی فلاں، اور اسی طرح وہ تمام لوازم جو ہم اور تمام پیران طریقت اپنے مریدوں کو تعلیم کرتے ہیں، ان طرق کی نسبت آنحضرت ﷺ سے باطنی ہے، لیکن ہم طریقۂ محمدیہ کے اشغال کی تعلیم اس طرح کرتے ہیں کہ کھانا اس نیت سے کھایا جائے، کپڑا اس نیت سے پہنا جائے، نکاح اس نیت سے کیا جائے، سونے کی نیت یہ ہے، کپڑا پہننے کی نیت یہ ہو، زراعت، تجارت، ملازمت کی نیت یہ ہونی چاہیے، اس طریقے کی نسبت آنحضرت ﷺ سے ظاہری ہے[84]۔
سلسلہ مولویہ
مولانا جلال الدین رومیؒ کے سلسلہ کے لوگوں کوسلسلہ مولویہ کہا جاتا ہے۔آج کل ایشیائے کوچک، شام، مصر اور قسطنطنیہ میں لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا ۔ دوسری جنگ عظیم سے قبل بلقان، افریقا اور ایشیا میں مولوی طریقت کے پیروکاروں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی ، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتا کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور گانے بھی بجاتے ہیں[85]۔
سلسلہ نوریہ
سلسلہ نوریہ کا تعلق حضرت شیخ ابو الحسن احمد بن نوری ؒ سے ہے جن کا شمار اکابر اولیاء اللہ میں ہوتا ہے۔ آپ اپنے بلند کلمات اور واضح بیانات کی وجہ سے مشہور زمانہ تھے اور آپ کا مسلک ہر دلعزیز تھا۔ آپ کے مسلک کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ آپ دوستی ( صفوت) کو درویشی پر فوقیت دیتے ہیں۔ اس اصول میں آپ خواجہ جنید ؒ کے ہم مسلک تھے۔ آپ کے نوادرات طریقت میں سے ایک بات یہ ہے کہ درویشوں کے ساتھ محبت کے آداب میں سے آپ کا ایک اصول ایثار ہے یعنی آپ ہمیشہ دوسروں کو اپنے سے زیادہ مستحق سمجھتے تھے اور جس مسلک میں ایثار نہ ہو آپ اسے حرام سمجھتے تھے[86]۔
خلاصۂ بحث:
خلاصہ کلام یہ ہے کہ تصوف دین کے دوسرے شعبوں کی طرح ایک شعبہ ہے۔ جس طرح دوسرے شعبوں میں بعض غلط لوگ موجود ہونے کی وجہ سے اسے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ٹھیک اسی طرح تصوف میں بعض غلط عقائد والے لوگوں کی موجودگی کی وجہ سے صحیح عقائد والے صوفیوں پر اعتراض کرنا غلط ہے۔اس کی ابتدا رسول اللہ ﷺکے زمانے میں ہی ہو چکی ہے۔ تصوف کےمشہور سلسلے چار(نقشبندیہ، قادریہ ، سہروردیہ اور چشتیہ) ہیں، جب کہ اس کے غیر مشہور سلسلے کئی ہیں۔کافی تلاش کے بعد اس مضمون میں تیس غیر مشہور سلسلوں کو جمع کیا گیا ہے۔جو کہ عموما بڑے بڑے صوفیاء اور نیک لوگوں کو منسوب ہیں۔ان سلسلوں میں سلسلہ اباحیہ، سلسلہ حلال حوریہ، سلسلہ حلمانیہ، سلسلہ رفاعیہ اور سلسلہ حلولیہ کو علمائےشریعت نے ناجائز اور غیرشرعی قرار دیا ہے،جب کہ باقی سارےسلسلے جائز ہیں۔ان سلاسل کے عدم شہرت کی وجوہات میں سے ایک وجہ ان سلسلوں کے پیروکاروں کی کمی تھی،جب کہ دوسری وجہ بعض سلسلوں کی تعلیمات اور اسباق میں سختی اور مشقتیں تھیں،جن کی وجہ سے لوگ زیادہ وقت کے لئے ان پر کاربند نہ ہوسکے۔ان سلاسل کے علاوہ اورسلسلوں کے امکان کوبھی رد نہیں کیا جاسکتا،مگریہ سلسلے جس شکل میں بھی ہوں،انہیں قرآن وسنت کی کسوٹی پر پرکھنا ضروری ہے۔
حوالہ جات
- ↑ ۔سورۃ الذاریات ۵۱: ۵۶
- ↑ ۔مولانا اعجاز احمد ، تصوف ایک تعارف:۹، مکتبہ ضیاء الکتب خیر آباد، انڈیا، طبعہ دوم، ۲۰۱۵ء
- ↑ ۔المعجم الوسيط، مجمع اللغة العربية بالقاهرة، ۱: ۵۲۹، دار الدعوة، قاهرة( س-ن)
- ↑ ۔ ابو الفضل مولانا عبد الحفیظ ، مصباح اللغات: ۴۶۳، مکتبہ قدوسیہ، اردو بازار لاہور،۱۹۹۹ء
- ↑ ۔ عبد الوهاب بن احمد بن علي الحَنَفی الشعرانی، الطبقات الکبریٰ للشعرانی۲: ۱۴، مطبعہ عمامریہ عثمانیہ، القاہرہ، ۱۳۰۵ھ
- ↑ ۔عبد الکریم القریشی،الرسالةالقشیریة ۱: ۶۵، دار الکتب الحدیث، القاہرہ،۱۹۷۴ء
- ↑ ۔ عبدا لرحمٰن الجامی، نفحات الانس: ۳۹، فارسی ایڈیشن، ایران، ۱۳۳۷ھ
- ↑ ۔ محمد ابو الہدی الرفاعی،قلادةالجواهرفیذکر الرفاعی اتباعهالاکابر: ۳۷۵،دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۰۰ ھ
- ↑ ۔محمد عميم الإحسان المجددي، التعريفات الفقهية: ۵۷،دار الكتب العلمية، بیروت، الطبعةالأولى، 1424هـ - 2003ء
- ↑ ۔زين الدين محمد عبد الرؤوف بن تاج العارفين بن علي بن زين العابدين:۹۸، عالم الكتب، القاهرة، الطبعة: الأولى، 1410ه/1990ء
- ↑ ۔المعجم الوسيط ۱: ۵۲۹
- ↑ ۔محمد رواس قلعجي-حامد صادق قنيبي، معجم لغة الفقهاء: ۱۳۳، دار النفائس للطباعة والنشر والتوزيع، الطبعة: الثانية، 1408 هـ / 1988ء
- ↑ ۔أبو بكر محمد بن أبي إسحاق بن إبراهيم بن يعقوب الكلاباذي ، التعرف لمذهب أهل التصوف:۲۱، دار الكتب العلمية، بيروت(س-ن)
- ↑ ۔ الرسالةالقشیریة، ۱: ۸۴
- ↑ ۔شہید الاسلام احسان الہٰی ظہیر، تصوف تاریخ وحقائق، ادارہ ترجمان السنہ، لاہور، طبع اول اگست ۲۰۱۰ء
- ↑ ۔ابو طالب المکی، قوة القلوب ۱: ۲۶۷، دار صادر بیروت( س۔ن)
- ↑ ۔ابن عجیبہ الحسنی، ایقاظ الهمم: ۲۱۳، مکتبہ مصطفیٰ البابی حلمی، بیروت، تیسرا ایڈیشن، ۱۴۰۲ھ
- ↑ ۔نفس مصدر
- ↑ ۔ خیر الدین بن محمود الزرکلی، الاعلام ۴: ۴۷، دار العلم للملایین،الطبعہ خامس عشر ۲۰۰۲ء
- ↑ ۔ تاریخ جماعت ششم: ۸۷ - ۸۸
- ↑ ۔ مزرعۃ الاخرۃ ۲: ۱۰۲۹
- ↑ ۔ تاریخ جماعت ششم: ۸۷ - ۸۸
- ↑ ۔علامہ حافظ سید عبدا لقادر جیلانی حسینی، مزرعۃ الاخرۃ، ۲: ۱۰۲۹ اور ۱۰۳۰، مکتبہ رحمانیہ حیدر آباد، اشاعتِ اول ۱۴۲۲ھ
- ↑ ۔ تاریخ جماعت ششم، خیبر پختونخوا ٹیکسٹ بک بوڑد پشاور: ۸۷ - ۸۸، تعلیمی سال ۲۰۱۶ اور ۲۰۱۷ء
- ↑ ۔نفس مصدر
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب: ۲۱۰
- ↑ ۔وزارة الأوقاف والشئون الإسلاميةالكويت، الموسوعة الفقهية الكويتية ۶: ۱۷۸، دارالسلاسل الكويت، الطبعة الثانية1427ه
- ↑ ۔https://ur.wikipedia.org/wiki/تصوفکے غیر مشہور سلاسل، ماخوذ ۲۳ جنوری، ۲۰۱۷ء
- ↑ ۔مولانا سید محمد میاں، علمائے ہند کا شاندا ر ماضی، ۱: ۱۶۸، جمعیت پبلیکیشنز، لاہور، اشاعت ششم اپریل ۲۰۱۰ء
- ↑ ۔ محمد اقبال مجددی، تذکرہ علماء و مشائخ پاکستان و ہند ۲: ۹۸۶، پروگریسیو بکس، لاہور، ۲۰۱۳ء
- ↑ ۔علمائے ہند کا شاندار ماضی ۱: ۱۶۹ اور ۱۷۰۔ تصوف کے غیر مشہور سلاسل، ماخوذ ۲۳ جنوری، ۲۰۱۷ء https://ur.wikipedia.org/wiki/
- ↑ ۔علمائے ہند کا شاندا ر ماضی: ۲۱۲ اور ۲۲۳
- ↑ ۔الاعلام، ۱: ۵۹
- ↑ ۔ تصوف کے غیر مشہور سلاسل، ماخوذ ۲۳ جنوری، ۲۰۱۷ء https://ur.wikipedia.org/wiki/
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب، ص ۱۹۵ - ۱۹۶
- ↑ ۔ الاعلام ۷: ۱۸۰
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب: ۲۰۱ - ۲۰۲
- ↑ ۔محمد بن الحسين بن محمد بن موسى، طبقات الصوفیه: ۱۲۹،دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الأولى، ۱۴۱۹ھ
- ↑ ۔ کپتان واحد بخش سیال ،شرح کشف المحجوب: ۵۴۸ - ۵۶۴، الفیصل ناشران وتاجران کتب لاہور( س۔ ن
- ↑ ۔الاعلام ۶: ۲۷۲
- ↑ ۔طبقات الصوفیه، ص ۱۷۵
- ↑ ۔ شرح کشف المحجوب : ۵۹۰
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب: ۲۰۰ -۲۰۱
- ↑ ۔ أبو الفضل أحمد بن علي بن محمد بن أحمد بن حجر، لسان الميزان۷: ۳۶، مؤسسة الأعلمي للمطبوعات بيروت، لبنان، الطبعة الثانية، 1390ه
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب: ۱۹۶
- ↑ ۔شرح کشف المحجوب : ۶۴۳ - ۶۴۴
- ↑ ۔ طبقات الصوفیه: ۳۴۶
- ↑ ۔ شرح کشف المحجوب: ۶۵۳ - ۶۵۴
- ↑ ۔الاعلام ۱: ۱۷۴
- ↑ ۔أبو الفداء إسماعيل بن عمر بن كثير، البداية والنهاية۱۲: ۳۱۲، دار الفكر، بیروت، 1407 ه
- ↑ ۔ سلسلہ رفاعیہ، ماخوذ ۲۳ جنوری، ۲۰۱۷ء https://ur.wikipedia.org/wiki/
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب:۱۹۴
- ↑ ۔نفس مصدر:۱۹۷ - ۱۹۸
- ↑ ۔الاعلام ۳: ۸۴
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب: ۲۰۹ - ۲۱۰
- ↑ ۔شرح کشف المحجوب :۵۶۴
- ↑ ۔ طبقات الصوفیه: ۳۳۰
- ↑ ۔ شرح کشف المحجوب: ۶۵۸
- ↑ ۔نفس مصدر:۶۶۹
- ↑ ۔سلسلہٴ سىفىہ، ماخوذ ۲۳ جنورى ۲۰۱۷ء، HTTPS://ur.wikipedia.org/wiki
- ↑ ۔بحوالہٴ مقدمہ دعاء حزب البحر شاہ ولى اللہ رحمہ اللہ تعالي، رحمانى پبلىکىشنز، کراچى۔http://astanaqudsi.com/hizb_muqadhma.htm شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ تعالیٰ، رحمانی پبلیکیشنز کراچی
- ↑ ۔علمائے ہند کا شاندار ماضی ۱: ۲۰۴
- ↑ ۔الاعلام ۴: ۲۲۳
- ↑ ۔نفس مصدر۴: ۲۶۲
- ↑ ۔علمائے ہند کا شاندار ماضی۱: ۲۲۱
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب: ۱۹۸
- ↑ ۔طبقات الصوفيه: ۶۷
- ↑ ۔ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، سنن ابن ماجه۲: ۱۴۰۳، حديث: ۴۱۹۶، دار إحياء الكتب العربية، بيروت(س-ن)
- ↑ ۔أبو داود سليمان بن الأشعث، سنن أبي داود ۴، ۴۴، حدیث(۴۰۳۱) المكتبة العصرية، صيدا، بيروت
- ↑ ۔ شرح کشف المحجوب: ۵۳۱
- ↑ ۔نفس مصدر:۵۳۲
- ↑ ۔طبقات الصوفیه: ۱۱۲
- ↑ ۔شرح کشف المحجوب: ۵۱۴
- ↑ ۔تاریخ ( درسی کتاب برائے جماعت ششم):۸۷
- ↑ ۔ أحمد بن إبراهيم بن محمد بن خليل، كنوز الذهب في تاريخ حلب۲: ۳۳۷، دار القلم، حلب، الطبعة الأولى، 1417 ه
- ↑ ۔مکالمہ بین المذاہب:۲۰۲
- ↑ ۔الاعلام ۱: ۱۸۵
- ↑ ۔علمائے ہند کا شاندار ماضی ۱: ۱۵
- ↑ ۔الاعلام ۴: ۳۳
- ↑ ۔علمائے ہند کا شاندار ماضی ۱: ۱۶۹
- ↑ ۔ طبقات الصوفية:۵۸
- ↑ ۔شرح کشف المحجوب:۵۱۴
- ↑ ۔عبد الباطن جون پوری، سیرت مولانا کرامت علی جونپوری: ۱۲۵، مرکز طالب العلوم، جونپور( س۔ن)
- ↑ ۔بحوالہٴ سىرت سىد احمد شہىد، ۲:۵۴۶_۵۴۷، http://ur.wikipedia.org/wiki/
- ↑ ۔ماخوذ، ۲۳ جنورى ۲۰۱۷، https://farzana.wordpress.com/2007/12/16/maulana-jalal-ud-din-rumi
- ↑ ۔ شرح کشف المحجوب: ۵۵۰
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 34 Issue 2 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |