33
2
2016
1682060034497_640
65-85
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/93/86
تعارف
بنی نوع انسان کی ہدایت اور راہنمائی کے لئے اللہ تعالیٰ نے جہاں انبیاء علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا وہاں آسمانی کتابوں اور صحائف کو بھی نازل فرمایا۔
بحیثیت مسلمان ہمار ایمان ہے کہ تمام آسمانی کتب اور صحف سماوی منجانب اللہ برحق تھیں اور اپنی اپنی متعلقہ امتوں کے لئے ہدایت کا پورا سامان رکھتی تھیں لیکن چونکہ قرآن کریم کے علاوہ باقی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود نہیں لی تھی لہٰذا وہ مرورِ زمانہ کے ساتھ انسانی تحریف وتبدل سے پاک نہیں رہ سکیں۔ منچلوں نے ان میں یہاں تک ترمیم وتبدیلی کر دی کہ آدمی یقین نہیں کرسکتا کہ خالق کائنات کا کلام بھی اس طرح ہوسکتا ہے۔ اس لئے کہ عربی کا ایک مشہور مقولہ ہے " کلام الملوک ملوک الکلام "(بادشاہوں کا کلام لوگوں کے کلام کا بادشاہ ہوتا ہے)البتہ یہ مقولہ قرآن پر بالکل صحیح اترتا ہے ۔ اس لئے کہ خداوند تعالیٰ جل جلالہ نے خو د اس کی ہر قسم کی ذمہ داری لی ہوئی ہے قرآن میں ارشاد ہے: " إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ[1]" یعنی بے شک ہم ہی نے اس نصیحت کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔اسی حفاظت خداوندتعالیٰ کی وجہ سے قرآن ہمیشہ سے ہر قسم کی تحریفات سے محفوظ رہا ہے اس وجہ سے باقی کتب سماوی سے ممتاز ہے۔ البتہ دوسری آسانی کتابوں میں کچھ باتیں مضامین ایسے بھی ہیں جن کا ٹکراؤ قرآن اور اسلام کے عین مزاج سے نہیں آتا جس سے قاری کو یہ گمان ہوتا ہے کہ شاید یہ مضامین تحریف کا شکار نہیں ہوئے بہر حال زیر نظر تحریر میں ہم قرآن اور زبور کی تعلیمات کے مابین تطبیق اور تفریق کا جائز ہ لیں گے۔ سب سے پہلے تطبیق اور پھر تفریق کے حوالے سے بحث ہو گی۔
حصہ تطبیق
تطبیق :۱
زبور کی پہلی کتاب باب نمبر۱ کی آیات نمبر ۱ اور ۲ میں درج ہے :
مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطا کاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹا بازوں کی محفل میں نہیں بیٹھتا بلکہ خداوند کی شریعت میں اس کی خوشنودی ہے اور اس کی شریعت پر دن رات اس کا دھیان رہتا ہے[2]
قرآن کریم مومنین کی صفات میں بھی ایک صفت کو یوں بیان کرتا ہے :
وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ[3]" اور وہ جو بے فائدہ بات اور کام سے منہ پھیر نے والے ہیں۔"
وَإِذَا مَرُّوا بِاللَّغْوِ مَرُّوا كِرَامًا[4] " اوراگراتفاقاًبیہودہ مجلسوں کے پاس سے گزریں تو سنجیدگی اور شرافت سے گزرتے ہیں۔"
وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ[5] یعنی اورجب کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیرلیتے ہیں۔
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا[6] یعنی جو اپنی راتوں کو اپنے رب کے سامنے سجدہ اور قیام میں گذارتے ہیں۔
تطبیق:۲
زبور میں آتا ہے :" جب میں پکاروں تو مجھے جواب دے ، اے میرے صداقت کے خدا۔[7]" ۔
اسی طرح ایک اور جگہ بھی درج ہے :" جب میں خداوند کو پکاروں گا تو وہ سن لے گا۔[8]"
قرآن کریم اس مضمون کو یوں بیان کرتا ہے :
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ[9]"( اے رسول ﷺ) جب آپ سے میرے بندے میرے متعلق دریافت کریں تو آپ بتا دیجئے کہ میں قریب ہی ہوں ، دعا مانگنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے دعا مانگے۔"
اسی طرح قرآن کریم میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ [10]"( اللہ تعالیٰ کے علاوہ) بھلا کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ بے قرار اس کو پکارتا ہے اور تکلیف ومصیبت کو دور کرتا ہے۔"
اسی طرح ارشاد ہے: رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ [11]" اے رب ہمارے ! ہم سے قبول فرما، بے شک تو ہی ہے سنتا جانتا " ۔
تطبیق :۳
تورات میں ہے:" اور خدا وند پر توکل کرو[12] ۔" جبکہ قرآن یوں کہتا ہے:وَعَلَى اللَّهِ فَتَوَكَّلُوا[13]"اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھو۔"
وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ[14]" اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے"۔
تطبیق :۴
زبور میں ہے:" جان رکھو کہ خداوند نے دینداروں کو اپنے لئے الگ کر رکھا ہے[15]۔"
قرآن کا بھی یہی مضمون ہے
إِنَّ اللَّهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُمْ مُحْسِنُونَ[16]یعنی اللہ تعالیٰ پرہیز گاروں اور احسان کرنے والوں کے ساتھ ہیں۔
وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ[17]"اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔"
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا[18] " یعنی اللہ تعالیٰ ایمان والوں کا دوست ہے"۔
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ[19]" اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔"
تطبیق :۵
زبور کا مضمون ہے :" خداوند ! فقط تو ہی مجھے مطمئن رکھتا ہے[20] ۔ "
قرآن کریم اس بارے میں یو ں کہتا ہے :
أَلَا بِذِكْرِ اللَّهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ [21]" یعنی آگاہ رہو کہ دلوں کا اطمینان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے ہے "۔
تطبیق :۶
زبو میں آتا ہے : اے میرے بادشاہ! اے میرے خدا! میری فریاد کی آواز کی طرف متوجہ ہو کیونکہ میں تجھ ہی سے دعا کرتا ہوں[22]۔
قرآن مجید بھی کہتا ہے :
رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ[23]" یعنی اے ہمارے پروردگار ہماری اس دعا کو قبول فرما۔"
اسی طرح ایک اور جگہ ارشاد ہے: إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ[24]یعنی ہم خاص تجھ سے مدد مانگتے ہیں۔
تطبیق :۷
زبور کا بیان ہے :" تو ان کو جو جھوٹ بولتے ہیں ہلاک کرے گا[25] ۔"
قرآن کی کی تعلیم اس ضمن میں یہ ہے :
إِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي مَنْ هُوَ كَاذِبٌ كَفَّارٌ[26] " بے شک اللہ تعالیٰ کسی جھوٹے اور احسان فراموش کو راہ ہدایت نہیں دکھاتا ۔"
تطبیق :۸
زبور کا مضمون ہے
" اس نے گڑھا کھود کر اس کو گہرا کیا اور اس خندق میں جو اس نے بنائی تھی خود گرا ، اس کی شرارت الٹی اس کی سر پر آئے گی، اس کا ظلم اس کی کھوپڑی پر نازل ہوگا[27]۔"
اس بارے میں یوں گویا ہے:
إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَى أَنْفُسِكُمْ مَتَاعَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا[28]" تمہاری شرارت تم ہی پر ، نفع اٹھا لو دنیا کی زندگی کا ۔"
اسی طرح فرمایا: لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ[29]یعنی جو نیکی وہ کرے وہ اس کے لئے اور جو برائی وہ کرے وہ اس پر ہے۔
تطبیق :۹
زبور میں آتا ہے :" کیونکہ خداوند کے سوا اور کون سا خدا ہے اور ہمارے خدا کو چھوڑ کر اور کون چٹان ہے[30]۔"
قرآن مجید میں آتا ہے : هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ[31]"وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔"
بلکہ قرآن کریم تو توحید کے مضامین سے بھرا پڑا ہے :وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ[32]"اور معبود تمہارا ، معبود ایک ہے ۔"
تطبیق :۱۰
زبور کا بیان ہے :" خدا وند میں مطمئن رہ اور صبر سے اس کی آس رکھ[33] ۔"
قرآن مجید بھی صبر اور اللہ تعالیٰ سے امید کی تعلیم دیتا ہے:وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ[34]"اور صبر اور نماز سے مدد چاہو۔ "
تطبیق :۱۱
زبور کا مضمون یہ ہے :"تو کیا خدا اسے دریافت نہ کرے گا ؟ کیونکہ وہ دلوں کے بھید جانتا ہے[35]۔"
اس ضمن میں قرآنی تعلیمات یوں ہیں
يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور[36]"جو کچھ وہ چھپاتے ہیں اور جو کچھ ظاہر کرتے ہیں ، اللہ اُسے جانتا ہے ،وہ تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے۔"
إِنَّ اللَّهَ عَالِمُ غَيْبِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[37]"بے شک اللہ تعالیٰ ہی آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتوں کا جاننے والا ہے، وہ تو دلوں تک کی باتوں سے آگاہ ہے۔"
ثُمَّ إِلَى رَبِّكُمْ مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[38]"پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے پھر جو کچھ تم کرتے رہے وہ تم کو بتائے گا وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں تک سے آگاہ ہے۔ "
تطبیق :۱۲
زبو ر میں وارد ہے:"وہ تمام روئے زمین کا شہنشاہ ہے[39]۔ "
دوسری جگہ آیا ہے :"کیونکہ خدا ساری زمین کا بادشاہ ہے[40]۔"
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[41]"اور آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ ہر چیز پرقادر ہے ۔ "
وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا[42]"اور آسمان اور زمین اور جو کچھ ان دونوں میں ہے سب پر اللہ ہی کی بادشاہی ہے۔"
تطبیق:۱۳
اللہ تعالیٰ سے مغفرت اور رحمت طلب کرنے میں بھی دونوں کتابوں میں مکمل تطبیق پائی جاتی ہے۔ زبو ر میں وارد ہے:اے خدا ! اپنی شفقت کے مطابق مجھ پر رحم کر۔ اپنی رحمت کی کثرت کے مطابق میری خطائیں مٹاد ے[43]۔
نیز یہ بھی آتا ہے:میری گناہوں کی طرف سے منہ پھیرو [44]۔
رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ[45]"اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ "
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ[46]"اور اللہ سے دعا کرو، کہ میرے پروردگار مجھے بخش دے اور (مجھ پر) رحم کر اور تو سب سے بہتر رحم کرنے والا ہے۔ "
أَنْتَ وَلِيُّنَا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الْغَافِرِين[47]"تو ہی ہمارا کار ساز ہے تو ہمیں (ہمارے گناہ) بخش دے اور ہم پر رحم فرما ، اور تو سب سے بہتر بخشنے والا ہے۔ "
رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّار[48]
تطبیق :۱۴
زبور کا بیان ہے:"وہ کسی کو پست کرتا ہے اور کسی کو سر فرازی بخشتا ہے[49] ۔"یہی مضمون قرآن میں یوں بیان ہوا:
قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ[50] "کہو کہ اے اللہ (اے) بادشاہی کے مالک تو جس کو چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لے۔ "
فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير[51]"پھر وہ جسے چاہے مغفرت کرے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ "
وَأَنَّهُ هُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى[52]"اور یہ کہ وہ ہنساتا اور رلاتا ہے۔"
وَأَنَّهُ هُوَ أَغْنَى وَأَقْنَى[53]"اور یہ کہ وہی دولت مند بناتا اور مفلس کرتا ہے۔"
تطبیق:۱۵
حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کیلئے دریا پھٹنے کا ذکر زبور اور قرآن دونوں میں وارد ہے۔ زبور میں آتا ہے:
"اس نے سمندر کے دو حصے کر کے ان کوپار اتارا اور پانی کو تودہ کی طرح کھڑا کر دیا[54]۔"
اور قرآن کریم میں آتا ہے:فَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَكَانَ كُلُّ فِرْقٍ كَالطَّوْدِ الْعَظِيمِ[55] "تو دریا پھٹ گیا اور ہر ایک ٹکڑا (یوں) ہو گیا (کہ) گو یا بڑا پہاڑ ۔ "
تطبیق :۱۶
بنی اسرائیل کیلئے چٹان سے پانی کے چشمے جاری ہونے سے متعلق قرآن کریم اور زبور کی مطابقت ملا حظہ ہو۔
زبور میں آتا ہے:"اس نے چٹان میں سے ندیاں جاری کیں اور دریاؤں کی طرح پانی بہایا[56]۔
قرآن میں یوں آتا ہے: وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا[57] "اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کیلئے (اللہ تعالیٰ سے ) پانی مانگا تو ہم نے کہا کہ اپنی لاٹھی پتھر پر مارو (انہوں ے لاٹھی ماری) تو پھر اس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے ۔ "
أَنِ اضْرِبْ بِعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانْبَجَسَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْنًا[58]"اور جب موسیٰ علیہ السلام سے ان کی قوم نے پانی طلب کیا تو ہم نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی لاٹھی پتھر پر ماردو۔ تو اُس میں سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے۔"
تطبیق :۱۷
بنى اسرائىل کی نافرمانی پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مختلف قسم کے عذابوں کا ذکر بھی قرآن و زبور میں ایک جیسا وارد ہے۔
زبور میں آتا ہے:
"اس نے مصر میں اپنے نشان دکھائے اور ضُعن کے علاقہ میں اپنے عجائب۔ اور ان کے دریاؤں کو خون بنا دیا اور وہ اپنی ندیوں سے پی نہ سکے ۔ اس نے ان پر مچھروں کے غول بھیجے جو ان کو کھا گئے اور مینڈک جنہوں نے ان کو تباہ کر دیا اِس نے ان کی پیداوار کیڑوں کو اور ان کی محنت کا پھل ٹڈیوںکو دے دیا[59]۔"
قرآن کریم میں آتا ہے:
فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِينَ[60]تو ہم نے ان پر طوفان اور ٹڈیاں اور جوئیں اور مینڈک اور خون کتنی کھلی ہوئی نشانیاں بھیجیں۔
تطبیق:۱۸
بنی اسرائیل کے بچھڑے کی عبادت سے متعلق بھی زبور اور قرآن کی تعلیمات میں تطبیق پائی جاتی ہے۔ زبور میں آتا ہے:
"انہوں (بنی اسرائیل) نے حو رب میں ایک بچھڑا بنایا اور ڈھالی ہوئی مورت کو سجدہ کیا۔ یوں انہوں نے خدا کے جلال کو گھاس کھانے والے بیل کی شکل سے بد ل دیا[61]۔"
قرآن میں آیا ہے:
وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ[62] "اور جب ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے چالیس رات کا وعدہ کیا تو تم نے ان کے پیچھے بچھڑے کو (معبود) مقرر کر لیا اور تم ظلم کر رہے تھے۔ "
ایک اور جگہ ارشاد ہے:
وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنْفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُوا إِلَى بَارِئِكُمْ[63]"اور جب حضرت موسی ٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے لوگوں سے کہا کہ بھائیو! تم نے بچھڑے کو (معبود) ٹھہرانے میں (بڑا) ظلم کیا ہے تو اپنے پیدا کرنے والے کے آگے توبہ کرو۔"
نیز یہ بھی آیا ہے:
وَلَقَدْ جَاءَكُمْ مُوسَى بِالْبَيِّنَاتِ ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَنْتُمْ ظَالِمُونَ[64]"اور موسیٰ علیہ السلام تمھارے پاس کھلے ہوئے معجزات لے کر آئے تو تم ان کے کوہ طور جانے کے بعد بچھڑے کو معبود بنا بیٹھے اور تم اپنے حق میں ظلم کرتے تھے۔ " !==== تطبیق :۱۹ ====
"زبور میں آتا ہے ان کے منہ ہیں پر وہ بولتے نہیں،آنکھیں ہیں پر وہ دیکھتے نہیں۔ ان کے کان ہیں پر وہ سنتے نہیں[65]۔"
وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ[66]"اور ہم نے بہت سے جن اور انسان دوزخ کیلئے پیدا کیے ہیں ان کے دل ہیں لیکن اُن سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں پران سے سنتے نہیں۔ "
حصہ تفریق
تفریق :۱
زبور کی پہلی کتاب باب۲ آیت ۷میں یوں آتا ہے:
" میں اس فرمان کو بیان کروں گا ، خداوند نے مجھ سے کہا تو میرا بیٹا ہے آج تو مجھ سے پیدا ہوا[67]۔"
جبکہ قرآن کی ساری تعلیمات اس کے بالکل برعکس ہیں، ارشاد ہے :
قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ اللَّهُ الصَّمَدُ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ[68]"( اے پیغمبر ﷺ) فر ما دیجئے کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے وہ بے نیاز ہے ، نہ اس نے کسی کو جنا ہے اور نہ وہ کسی سے جنا اور نہ ہی کوئی اس کا ہمسر ہے " ۔
هُوَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ[69]"وہی ہے اللہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔"
وَإِلَهُكُمْ إِلَهٌ وَاحِدٌ[70]"اور معبود تمہارا ، معبود ایک ہے ۔"
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ[71]"یعنی کوئی چیز اس جیسی نہیں ہے" ۔
تفریق :۲
زبور کا بیان ہے :" اے خداوند تو نے خود یہ دیکھا ہے ، خاموش نہ رہ خداوند ! مجھ سے دور نہ رہ ، اٹھ میرے انصاف کے لئے جاگ[72]۔"
(ایک اور جگہ پر آیا ہے :"اے خداوند جاگ، تو کیوں سوتا ہے؟ اُٹھ ! ہمیشہ کیلئے ہم کو ترک نہ کر تو اپنا منہ کیوں چھپاتا ہے۔ اور ہماری مصیبت اور مظلومی کو بھولتا ہے؟[73]"
درج ذیل عبارت بھی ملا حظہ ہو:
"تب خداوند گویا نیند سے جاگ اُٹھا، اُس زبردست آدمی کی طرح جوتے کے سبب سے للکارتا ہو اورا س نے اپنے مخالفوں کو مار کر پسپا کر دیا۔ اس نےان کو ہمیشہ کیلئے رسوا کیا[74]۔"
جبکہ قرآن کے مضمون کے مطابق انصاف قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو جگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ جگانا تو اس کو پڑتا ہے جس کو نیند آئے ا ور جس کو نیند تو کیا اونگھ تک نہ آتی ہو اس کو کیا جگائیں گے لہٰذا قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے:
اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْمٌ[75] "اللہ (وہ معبود برحق ہے کہ ) اُس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔ زندہ ہمیشہ رہنے والا ۔ اسے نہ اونگھ آتی ہے اور نہ نیند۔"
قَالَ عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي فِي كِتَابٍ لَا يَضِلُّ رَبِّي وَلَا يَنْسَى[76]"کہا کہ ان کا علم میرے پروردگار کو ہے (جو) کتاب میں (لکھا ہوا ہے) میرا پروردگار نہ چوکتا ہے نہ بھولتا ہے۔ "
البتہ فوری طور پر مظلوم اور ضعیف کی مدد نہ کرے تو یہ اس کی حکمت کا تقاضا ہے کیونکہ وہ حکیم اور طبیب ذات ہے ، وہ صبر کا امتحان بھی لیتا ہے ۔
تفریق :۳
زبور میں آتا ہے:"اے خدا!لوگوں نے تیری آمد دیکھی۔ مقدس میں میرے خدا میرے بادشاہ کی آمد گانے والے آگے اور بجانے والے پیچھے پیچھے چلے ۔ دف بجانے والی جوان لڑکیاں بیچ میں[77]۔"
درج بالا عبارت میں اللہ تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) دنیوی بادشاہوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جیسے سج دھج کے ساتھ مغرور بادشاہوں کی آمد ہوتی ہے اور ان کو پروٹوکول دیا جاتا ہے ، حالانکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ایس تمام باتوں سے منزہ ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:
فَلَا تَضْرِبُوا لِلَّهِ الْأَمْثَالَ إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[78]"پس اللہ کے بارے میں مثالیں نہ بناؤ۔ بے شک اللہ تعالیٰ جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے ۔ "
دوسری جگہ ارشاد ہے:
لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ[79] "کوئی چیز اُس جیسی نہیں ہے۔ "
نیز یہ بھی ارشاد ہے:
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِير[80]"(وہ ایسا ہے کہ ) نگاہیں اُس کا ادراک نہیں کر سکتیں اور وہ نگاہوں کا ادراک کرسکتا ہے۔ اور وہ بھید جاننے والا خبردار ہیں۔ "
جس ذات کو ہماری آنکھیں مشاہدہ نہیں کر سکتیں، اُس کی آمد کا ایسا نقشہ کھینچنا سمجھ سے بالا تر ہے قرآنی تعلیمات کے مطابق بنی اسرائیل مطالبہ کرنے کے باوجود بھی مشاہدہ نہ کر سکے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَنْ نُؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنْتُمْ تَنْظُرُونَ[81]
"اور جب تم نے کہا کہ موسیٰ ،جب تک اللہ کو سامنے نہ دیکھ لیں گے ، تم پر ایمان نہیں لائیں گے تو تم کو بجلی نے آگھیرا اور تم دیکھ رہے تھے۔"
حتی کہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام باوجود اپنے اشتیاق کے دیدار الہٰی نہ کر سکے ۔ ارشاد ہے:
وَلَمَّا جَاءَ مُوسَى لِمِيقَاتِنَا وَكَلَّمَهُ رَبُّهُ قَالَ رَبِّ أَرِنِي أَنْظُرْ إِلَيْكَ قَالَ لَنْ تَرَانِي وَلَكِنِ انْظُرْ إِلَى الْجَبَلِ فَإِنِ اسْتَقَرَّ مَكَانَهُ فَسَوْفَ تَرَانِي فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا فَلَمَّا أَفَاقَ قَالَ سُبْحَانَكَ تُبْتُ إِلَيْكَ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُؤْمِنِينَ[82]
"اور جب موسیٰ علیہ السلام ہمارے مقرر کئے ہوئے وقت پر (کو طور پر ) پہنچے اور اُن کے پروردگار نے اُن سے کلام کیا تو کہنے لگے کہ اے پروردگار مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار (بھی ) دیکھوں ۔پروردگار نے فرمایا کہ تم مجھے ہر گز نہ دیکھ سکو گے۔ ہاں پہاڑ کی طرف دیکھتے رہو اگر یہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھ کو دیکھ سکو گے۔ جب اُسں کے پروردگارنے پہاڑ پر تجلی ڈالی تو اُس کو ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ علیہ السلام بیہوش ہر کر گر پڑے۔ "
تفریق :۴
زبور کا بیان ہے
"میرے آگے آگے اپنی راہ کو صاف کر دے کیونکہ ان کے منہ میں ذراسچائی نہیں ، ان کا باطن محض شرارت ہے۔ ان کا گلہ کھلی قبر ہے ، وہ اپنی زبان سے شرارت کرتے ہیں ۔ اے خدا! تو ان کو مجرم ٹھہرا ، وہ اپنے ہی مشوروں سے تباہ ہو ، ان کو ان کے گناہوں کی کثرت کے سبب سے خارج کر دے کیونکہ انہوں نے تجھ سے سرکشی کی ہے"[83]۔
زبورہی میں ایک اور مقام پر درج ہے:
میرے دشمن سب کے سب تیرے سامنے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان کا دستر خوان اُن کیلئے پھندا ہو جائے اور جب وہ امن سے ہوں تو جال بن جائے۔ اُن کی آنکھیں تاریک ہو جائیں تاکہ وہ دیکھ نہ سکیں اور ان کی کمریں ہمیشہ کا نپتی رہیں۔ اپنا غضب ان کو اُنڈیل دے اور تیرا شدید قہر ان پر آپڑے ان کا مسکن اُجڑ جائے، اُن کے خیموں میں کوئی نہ بسے کیونکہ وہ اُس کو جسے تو نے مارا ہے ستاتے ہیں اور جن کو تونے زخمی کیا ہے، ان کے دکھ کا چرچا کرتے ہیں ان کے گناہ پر گناہ بڑھا اور وہ تیری صداقت میں داخل نہ ہوں۔ ان کے نام کتاب حیات سے مٹا دئے جائیں اور صادقوں کے ساتھ مندرج نہ ہوں۔[84]
نیز یہ بھی آیا ہے :
میری جان کے مخالف شرمندہ اور فناہو جائیں۔ میرا نقصان چاہنے والے ملامت اور رسوائی سے ملبس ہوں [85]۔
درج ذیل عبارت بھی ملاحظہ ہو۔ اے خدا میرے محمود! خاموش نہ رہ کیونکہ شریروں اور دغا بازوں نے میرے خلاف منہ کھولا ہے----تو کسی شریرآدمی کو اس پر مقرر کر دے اس کے بچے یتیم ہو جائیں اور اُس کی بیوی بیوہ ہو جائے، اس کے بچے آوارہ ہو کر بھیک مانگیں۔ ان کو اپنے ویران مقاموں سے دور جا کر ٹکڑے مانگتا پڑے۔ قرض خواہ اس کا سب کچھ چھىن لے۔ اور ہر دیسی اس کی کمائی لوٹ لیں۔ کوئی نہ ہو جو اس ہر شفقت کرے۔نہ کوئی اس کے یتیم بچوں پر ترس کھائے۔ اس کی نسل کٹ جائے اور دوسری پشت میں ان کا نام مٹا دیا جائے۔ وغیرہ[86]۔
جبکہ قرآن مجید کامضمون یہ ہے جس کی رو سے نبی اپنی امت کے لئے باعث رحمت ، انتہائی شفیق ، مہربان اور دعا گو رہتا ہے :
لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ[87]" تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس سے ہیں جن کو تمہاری ایذا کی بات نہایت گراں گذرتی ہے جو تمھاری منفعت کے بڑے خواہشمند رہتے ہیں ، ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق اور مہربان ہیں۔"
اسی طرح فرمایا : وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ [88]" جب تک آپ ﷺ ان میں موجود رہیں گے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب نہیں بھیجے گا۔"
بلکہ اس سے بھی بڑھ کر فرمایا: وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ[89]"یعنی ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے" ۔
قرآن کریم میں حضرت شعیب علیہ السلام کے حوالے سے ذکر ہے: فَتَوَلَّى عَنْهُمْ وَقَالَ يَا قَوْمِ لَقَدْ أَبْلَغْتُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَنَصَحْتُ لَكُمْ[90]"تو شعیب علیہ السلام اُن میں سے نکل آئے اور کہا کہ بھائیو میں نے تم کو اپنے پروردگار کے پیغام پہنچادیئے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کی تھی ۔ "
أُبَلِّغُكُمْ رِسَالَاتِ رَبِّي وَأَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ أَمِينٌ[91]"میں تمہیں اللہ کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا امانتدار خیر خواہ ہوں۔ "
تفریق:۵
زبور میں اللہ تعالیٰ کو اس انداز سے مخاطب کیا گیا ہے جیسے کسی انسان کو غیرت دلایا جاتا ہے۔درج ذیل عبارت ملاحظہ ہو: اے خداوند ! کب تک؟ کیا تو ہمیشہ کیلئے ناراض رہے گا؟ کیا تیری غیرت آگ کی طرح بھٹرکتی رہے گی؟ اپنا قہران قوموں پر جو تجھے نہیں پہنچا نتیں اور ان مملکتوں پر جو تیرا نام نہیں لیتیں، انڈیل دے [92]۔
نیز یہ بھی آیا ہے:
اے خدا ! خاموش نہ رہ۔ اے خدا چپ چاپ نہ ہو اور خاموشی اختیار نہ کر ! کیونکہ دیکھ تیرے دشمن اودھم مچاتے ہیں اور تجھ سے عداوت رکھنے والوں نے سر اُٹھایا ہے کیونکہ وہ تیرے لوگوں کے خلاف مکاری سے منصوبہ باندھتے ہیں اور ان کے خلاف جو تیری پناہ میں ہیں ،مشورہ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا آؤ ہم ان کو کاٹ ڈالیں کہ ان کی قوم ہی نہ رہے اور اسرائیل کے نام کا پھر ذکر نہ ہو[93]۔
درج بالا عبارت سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے کسی غافل اور بے خبر لیڈر کو جگایا جاتا ہے۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کے کسی بھی عمل سے غافل نہیں ہے۔ درج ذیل قرآنی آیات ملاحظہ ہوں۔
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ[94]"اور (مومنو) مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں اللہ اُن سے بے خبر ہے۔ وہ اُن کو اُس دن تک مہلت دے رہا ہے جبکہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ "
وَاللَّهُ غَالِبٌ عَلَى أَمْرِهِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ[95]"اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔"
وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُون[96]"اور اللہ تمہارے عملوں سے بے خبر نہیں۔"
تفریق: ۶
دعا ایک عبادت ہے جس میں بندہ اپنے عجز و انکساری اور اللہ تعالیٰ کے فاعل حقیقی و قادر مطلق ہونے کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن زبور میں دعا ایسے الفاظ سے درج ہے جو کہ مناسب معلوم نہیں ہوتی ، جو کہ انسانی تحریف معلوم ہوتی ہے۔دعا کے الفاظ درج ذیل ہیں۔
"میری جان کی حفاظت کر کیونکہ میں دیندارہوں[97]۔ "
اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنے کا انداز قرآن کریم یوں بیان کرتا ہے:
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيم[98]"
اے پروردگار ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بناتے رہیو۔ اور (پروردگار) ہمیں ہمارے طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے والا مہربان ہے۔ "
اسی طرح ارشاد ہے:وَلَمَّا بَرَزُوا لِجَالُوتَ وَجُنُودِهِ قَالُوارَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ[99]
"اور جب وہ لوگ جالوت اور اُس کے لشکر کے مقابل میں آئے تو (اللہ سے ) دعا کی کہ اے پروردگار ہم پر صبر کے دہانے کھول دے اور ہمیں (لڑائی میں) ثابت قدم رکھ اور (لشکر) کفار پر فتح یا ب کر ۔"
درج ذیل آیت بھی ملاحظہ ہو:
رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلَانَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ[100]"
اے پروردگار جتنا بوجھ اُٹھانے کی ہم میں طاقت نہیں اتنا ہمارے سر پر نہ رکھیو اور (اے پروردگار) ہمارے گناہوں سے درگزر کر اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم فرما۔ تو ہی ہمارا مالک ہے اور ہم کو کافروں پر غالب فرما۔ "
نبی کریم ﷺ کو تعلیم دی گئی ہے کہ :
وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا[101]"اور دعا کرو کہ میرا پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے۔ "
اسی طرح زبور میں درج ہے :
"میں اپنے سب استادوں سے عقل مندہوں کیونکہ تیری شہادتوں پر میرا دھیان رہتا ہے۔ میں عمر رسیدہ لوگوں سے زیادہ سمجھ رکھتا ہوں کیونکہ میں نے تیرے قوانین کو مانا ہے[102]۔ "
حالانکہ زبور ہی کا دوسرا مضمون اس کے بالکل برعکس ہے۔ درج ذیل دعا ملاحظہ ہو:
"میں تیرا بندہ ہوں ۔ مجھ کو فہم عطا کر تاکہ تیری شہادتوں کو سمجھ لوں[103]۔"
قرآن کریم انبیاء علیہم السلام کے دعا مانگنے کا اندازاور عجز کا اظہار کرنا یوں بیان کرتا ہے:
وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ۔ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ[104]"
اور جب ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام بیت اللہ کی بنیادیں اونچی کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ ) اے پروردگار ہم سے یہ خدمت قبول فرما بے شک تو سننے والا (اور ) جاننے والا ہے۔ اے پروردگار ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے رکھیو اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک گروہ کو اپنا مطیع بناتے رہیو۔ اور (پروردگار) ہمیں ہمارے طریق عبادت بتا اور ہمارے حال پر (رحم کے ساتھ) توجہ فرما۔ بے شک تو توجہ فرمانے ولا مہربان ہے۔"
إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيًّا۔ قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَائِكَ رَبِّ شَقِيًّا۔ وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا۔ يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا[105]
"جب انہوں نے اپنے پروردگار کو دبی آواز سے پکارا ۔ (اور) کہا کہ اے میرے پروردگار میری ہڈیاں بڑھاپے کے سبب کمزور ہو گئی ہیں اور سر ( ہے کہ) بڑھاپے (کی وجہ سے) شعلہ مارنے لگا ہے۔ اور اے میرے پروردگار میں تجھ سے مانگ کر کبھی محروم نہیں رہا اور میں اپنے بعد اپنے بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے ۔تُو مجھے اپنے پاس سے ایک وارث عطا فرما جو میری اور اولاد یعقوب کی میراث کا مالک ہو۔ اور (اے ) میرے پروردگار اس کو خوش اطوار بنائیو۔ "
اللہ تعالیٰ کے سامنے نبی کریم ﷺ کا گڑگڑانا قرآن یوں بیان کرتا ہے: إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ[106] "جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کرتے تھے تو اُس نے تمہاری دُعا قبول کر لی (اور فرمایا) کہ (تسلی رکھو) ہم ہزار فرشتوں سے جو ایک دوسرے کے پیچھے آتے جائیں گے تمہاری مدد کریں گے۔ "
بہر حال پہلے حصے کی تطبیق کو دیکھ کر آدمی یوں کہہ سکتا ہے کہ اپنے اپنے مضامین کے اعتبار سے تمام آسمانی کتابیں منجانب اللہ تعالیٰ برحق تھیں اور ان کے مضامین اور بنیادی نکات میں کوئی فرق نہیں تھا۔ سب کا مقصد بھی ایک تھا قرآن ان تعلیمات الٰہی کی تکمیل ہے ۔ جوکچھ پہلی آسمانی کتابوں میں تھا، قرآن کریم میں ان کی نظیر بھی ملتی ہے اور ان سے بڑھ کر قرآن میں وہ کچھ ہے جو کہ پہلی آسمانی کتب میں نہیں تھا۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ مجھے تورات کے بدلے سبع طوال ملے ہیں، زبور کے بدلے میں ملے ہیں، انجیل کے بدلے مثانی ملے ہیں اور مفصل خاص ہیں میرے ساتھ[107]۔ جبکہ دوسرے حصہ کی تفریق سے پتہ چلتا ہے کہ زبور انسانی ہاتھوں کی تحریف وتبدل سے بچ نہ سکی جس کی وجہ سے انسانی کلام ، کلام الٰہی سے خلط ملط ہو گیا ۔ اس سے یہ بات واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ جہاں زبور کے مضامین کا آپس میں تعارض یا قرآن کریم سے اس کا تعارض سامنے آتا ہے تو یہ انسانی تحریف کی وجہ سے ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام اپنے ہی کلام کے مخالف اور متضاد ہرگز نہیں ہو سکتا ۔
حوالہ جات
- ↑ ۔الحجر : ۹
- ↑ ۔کتاب مقدس پرانا اور نیا عہد نامہ، بائبل سوسائٹی انار کلی لاہور، زبور پہلی کتاب،ص۵۲۹، باب نمبر ۱، آیات:۱،۲
- ↑ ۔المومنون: ۳
- ↑ ۔فرقان:۷۲
- ↑ ۔القصص: ۵۵
- ↑ ۔الفرقان: ۶۴
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ،ص ۵۳۰ ،باب نمبر ۴، آیت:۱
- ↑ ۔ کتاب مقدس ،زبور ،پہلی کتاب ،ص ۵۳۰،باب نمبر۴، آیت :۳
- ↑ ۔البقرۃ :۱۸۶
- ↑ ۔النحل:۶۲
- ↑ ا۔لبقرہ: ۱۲۷
- ↑ ۔کتاب مقدس ،زبور ،پہلی کتاب ،ص، ۵۳۰،باب نمبر ۴، آیت:۵
- ↑ ۔المائدہ :۲۳
- ↑ ۔آل عمران: ۱۲۲
- ↑ ۔کتاب مقدس ،زبور ،پہلی کتاب ، ص۵۳۰ باب نمبر ۴ ، آیت :۳
- ↑ ۔النحل :۱۲۸
- ↑ ۔ال عمران :۱۳۴
- ↑ ۔البقرۃ: ۲۵۷
- ↑ ۔البقرۃ:۱۶۵
- ↑ ۔کتاب مقدس ،زبور ،پہلی کتاب ،ص۵۳۰ باب ۴، آیت: ۸
- ↑ ۔الرعد: ۲۸
- ↑ ۔کتاب مقدس ،زبور ،پہلی کتاب ، ص ۵۳۰،باب نمبر۵، آیت: ۲
- ↑ ۔ابراہیم:۴۰
- ↑ ۔الفاتحہ: ۵
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ، ص ۵۳۰، باب ۵، آیت:۶
- ↑ ۔الزمر :۳
- ↑ ۔کتاب مقدس ،زبور ،پہلی کتاب ،ص ۵۳۱،۵۳۲،زبور ، پہلی کتاب ، باب ۷ ، آیات :۱۵، ۱۶
- ↑ ۔القرآن ،یونس: ۲۳
- ↑ ۔القرآن ،البقرۃ:۲۸۶
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ، ص۵۳۷، باب ۱۸، آیت: ۳۱
- ↑ ۔الحشر: ۲۳
- ↑ ۔البقرہ : ۱۶۳
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ،ص۵۴۷، باب ۷ ۳، آیت ۷
- ↑ ۔البقرۃ: ۴۵
- ↑ ۔زبور ، دوسری کتاب ص: ۵۵۳ ، باب:۴۴ ، آیت:۲۱
- ↑ ۔ھود:۵
- ↑ ۔فاطر:۳۸
- ↑ ۔الزمر :۷
- ↑ ۔زبور دوسری کتاب، ص:۵۵۴ ،باب: ۴۷، آیت: ۳
- ↑ ۔زبور دوسری کتاب، ص:۵۵۴ ،باب: ۴۷، آیت: ۷
- ↑ ۔آل عمران: ۱۸۹
- ↑ ۔المائد : ۱۷
- ↑ ۔زبور دوسری کتاب، ص: ۵۵۶ :۵۵۷، باب: ۵۱، آیات:۲،۱
- ↑ ۔زبور دوسری کتاب، ص: ۵۵۷، باب: ۵۱، آیت:۹
- ↑ ۔المومنون: ۱۰۹
- ↑ ۔المومنون: ۱۱۸
- ↑ ۔اعراف: ۱۵۵
- ↑ ۔آل عمران :۱۶
- ↑ ۔زبور تیسری کتاب، ص:۵۷۱ ،باب: ۷۵ ، آیت: ۷
- ↑ ۔آل عمران : ۲۶
- ↑ ۔البقرہ: ۲۸۴
- ↑ ۔النجم : ۴۳
- ↑ ۔النجم : ۴۸
- ↑ ۔زبور، تیسری کتاب، ص :۵۷۲،باب: ۷۸، آیت:۱۳
- ↑ ۔الشعراء:۶۳
- ↑ ۔زبور، تیسری کتاب، ص :۵۷۲ ، باب:۷۸ ، آیت: ۱۲
- ↑ ۔البقرہ: ۶۰
- ↑ ۔اعراف: ۱۶۰
- ↑ ۔زبور، تیسری کتاب، ص :۵۷۳ ،باب: ۷۸آیات: ۴۳ ۔ ۴۶
- ↑ ۔اعراف: ۱۳۳
- ↑ ۔زبور، تیسری کتاب، ص :۵۹۱،باب: ۱۰۶، آیات: ۱۹ ،۲۰
- ↑ ۔البقرہ: ۵۱
- ↑ ۔البقرہ: ۵۴
- ↑ ۔البقرہ: ۹۲
- ↑ ۔زبور، تیسری کتاب، ص: ۵۹۷،باب:۱۱۵،آیات:۶،۵
- ↑ ۔اعراف: ۱۷۹
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ، باب ۲، آیت ۷ ، ص ۵۲۹
- ↑ ۔اخلاص:۱-۲
- ↑ ۔الحشر: ۲۳
- ↑ ۔البقرہ : ۱۶۳
- ↑ ۔الشوریٰ : ۱۱
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ، ص: ۵۴۷،باب :۳۵ ، آیات :۲۳،۲۲
- ↑ ۔زبور، دوسری کتاب ، ص: ۵۵۳، باب: ۴۴، آیات: ۲۳، ۲۴
- ↑ ۔زبور، تیسری کتاب، ص ۵۷۴:، باب: ۷۸ ،آیات: ۶۶،۶۵
- ↑ ۔البقرہ:۲۵۵
- ↑ ۔طہ :۵۲
- ↑ ۔زبور، دوسری کتاب (داؤد کا مزمور ) ، ص: ۵۶۵ ، باب: ۶۸، آیات :۲۴، ۲۵
- ↑ ۔النحل :۷۴
- ↑ ۔الشوریٰ : ۱۱
- ↑ ۔الانعام :۱۰۳
- ↑ ۔البقرہ: ۵۵
- ↑ ۔الاعراف: ۱۴۳
- ↑ ۔کتاب مقدس، زبور ،پہلی کتاب ،ص:۵۳۰،۵۳۱، باب :۵، آیات:۱۰،۹
- ↑ ۔زبور دوسری کتاب (داؤد کامزمور) ص: ۵۶۶ ، ۵۶۷، باب: ۶۹، آیات :۱۹ ۔ ۲۸
- ↑ ۔زبور ،دوسری کتاب (داؤد کامزمور) ص: ۵۶۸،باب: ۷۱، آیت: ۱۳
- ↑ ۔زبور ،پانچویں کتاب (داؤد کامزمور) ص: ۵۹۴۔۵۹۵، باب: ۱۰۹ ،آیات ۱۔۱۷
- ↑ ۔التوبہ:۱۲۸
- ↑ ۔الانفال: ۳۳
- ↑ ۔الانبیاء: ۱۰۷
- ↑ ۔اعراف : ۹۳
- ↑ ۔اعراف: ۶۸
- ↑ ۔زبور ،تیسری کتاب ،ص: ۵۷۵، باب :۷۹ ،آیات :۵، ۶
- ↑ ۔زبور ،تیسری کتاب ،ص:۵۷۶، باب :۸۳، آیات :۱۔۴
- ↑ ۔ابراہیم:۴۲
- ↑ ۔یوسف :۲۱
- ↑ ۔البقرہ : ۷۴
- ↑ ۔زبور ،تیسری کتاب ،ص :۵۷۸، باب :۸۶ (داؤد کی دعا) ،آیت: ۲
- ↑ ۔البقرہ :۱۲۸
- ↑ ۔البقرہ: ۲۵۰
- ↑ ۔البقرہ :۲۸۶
- ↑ ۔طہ: ۱۱۴
- ↑ ۔زبور ،پانچویں کتاب ،ص: ۶۰۲،باب:۱۱۹، آیات: ۹۹۔۱۰۰
- ↑ ۔زبور ،پانچویں کتاب ،ص: ۶۰۳، باب: ۱۱۹،آیت: ۱۲۵
- ↑ ۔البقرہ: ۱۲۷،۱۲۸
- ↑ ۔مریم: ۳ ۔ ۶
- ↑ ۔الانفال : ۹
- ↑ ۔امام احمد بن محمد بن حنبل ، (م : ۲۴۱ھ)، مسند احمد، مؤسسۃ الرسالہ، بیروت ۱۴۲۱ ھ / ۲۰۰۱ م ، ج:۲۸، ص: ۱۸۸، رقم: ۱۶۹۸۱
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |