32
1
2016
1682060034497_641
38-48
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/137/129
تمہید:
اس وقت پوری دنیا میں تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے کوششیں ہورہی ہیں،مختلف تنظیمیں اور این جی اوز اپنی طرف سے کورسز اور کانفرنسیں منعقد کررہی ہیں،اِن کانفرنسوں میں ماہرین اور اہلِ رائے کی تجاویز پڑھائی اور سنائی جارہی ہیں،تاکہ اِن تمام تگ ودو کے ذریعے طلبہ کے لیےتعلیم کا ایک مثالی نظام قائم کیا جاسکے۔
یہ بات مسلّم ہے کہ کوئی بھی نظام اس وقت تک مثالی نہیں بن سکتا،جب تک اُس میدان کے ماہرین کی تجزیات، مشوروں اور تجربات سے فائدہ نہ اٹھایا جائے،مشہور عربی مقولہ ہے"صاحب البيت ادرى بما فيه" گھر کے مالک کو اپنے گھر کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔اور وہی اُس گھر کے نشیب وفراز سے آگاہ رہتا ہے۔
انہی ماہرین میں سے ایک مثالی استاد امام بخاری بھی ہیں،جن کے تدریسی تجربات،مفید مشورےاور قابل قدر تجزیات سے آج بھی استفادہ کیا جاسکتاہے۔امام بخاری ایک ہمہ گیر شخصیت تھے،زندگی کے ہر موڑ پر اُمت نے آپ سے استفادہ کیا ہے، چونکہ آپ ایک محدث کی حیثیت سے زیادہ مشہور ہیں،اس لئے تعلیمی میدان میں آپ کايه پہلو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا، حالانکہ تدریس اور تعلیم آپ کی فطرتِ ثانیہ بن گئی تھی،یہی وجہ ہے کہ امام بخاری کی صحیح البخاری میں ذکر کردہ کتاب العلم سے تعلیمی نظام کی اصلاح کے لیے ایک پورا نصاب مرتب کیا جاسکتاہے۔
اس تحقیقی مضمون کا اصل ہدف امام بخاری کے انہی اقوال کا تحقیقی اور تطبیقی جائزہ لینےکی ایک کوشش ہے،تاکہ نظامِ تعلیم کے لیے مفید اور نقصان دہ چیزوں سے آگاہی حاصل کی جاسکے۔
اُستاد کو درس کے متعلق ہدایات:
(۱)درس کے دوران آواز بلند کرنا:امام بخاری کا خیال یہ ہے کہ استاد کو بلند آواز سے درس دینا چاہیے،اس لیے کہ بسا اوقات طلباء آہستہ آواز نہیں سنتے،اپنے اس دعوے کے لیے امام بخاری نے عبد اللہ بن عمرو حدیث نقل کی ہے،چنانچہ وہ فرماتے ہیں:ایک مرتبہ سفر کے دوران نماز کا وقت ہوگیا،ہم جلدی جلدی وضو کررہے تھے،آپﷺ نے بلند آواز سے فرمایا: (وضو کے دوران خشک رہنے والے)"ایڑیوں کے لیے آگ کا عذاب ہے۔"[1]
درس میں آواز کا بلند کرنا کبھی تو طلباء کی کثرت کی وجہ سے ہوتا ہے،[2] اور کبھی مضمون کی مناسبت سے ہوتا ہے، اس لیے کہ استاد کامضمون کی مناسبت سے آواز کو بلند اور آہستہ کرنا سمجھانے کے لیے مفید ہوتا ہے،چنانچہ جابر بن عبد اللہ فرماتے ہیں:رسول اللہﷺ جب خطبےکے دوران قیامت کا تذکرہ فرماتےتو آپﷺ کی آواز بلند ہوجاتی تھی،[3] اورسفیان ابن عیینہ فرماتے ہیں:میں ایک مجلس کے پاس سے گزر رہا تھا،تو وہاں سے امام ابو حنیفہ اور اس کے شاگردوں کی سبق پڑھنے اور پڑھانے کی آوازیں آرہی تھیں۔[4]
(۲)درس کے دوران شاگردوں کے مزاج کی رعایت رکھنا:
امام بخاری کے مطابق بہترین استاد وہ ہے،جو طلبہ کی نفسیات کو مدنظر رکھتے ہوئے سبق پڑھائے۔ اپنے تیار کیے ہوئے سبق کو پورا پڑھانا ضروری نہیں ہے،بلکہ شاگردوں کی نشاط اور بیداری سبق کے سمجھنے کے لیے انتہائی مفید ہوتى ہے،اس دعوے کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری نے یہ باب مقرر کیا:" باب ما كان النبى ﷺ يتخولهم بالموعظة والعلم كى لا ينفروا"[5] یعنی رسول اللہؐ نصیحت اور پڑھانے کے دوران صحابہ کرام کی نگرانی کرتے تھے،کہ وہ اکتاہٹ کے شکار نہ ہوجائىں۔
سبق اور نصیحت اس وقت مفید ہوتی ہے جب سننے والے مشتاق ہوں،کسی بھی آدمی کے فصیح اور بلیغ ہونے کی علامت بھی یہی ہے کہ وہ اپنی بات ایسے وقت اور انداز میں بیان کرے،کہ سننے والوں کے دل اس کو قبول کرے۔ [6]
عمار بن یاسر فرماتے ہیں،رسول اللہﷺنے فرمایا:"لمبی نماز اورمختصر خطبہ آدمی کے سمجھدار ہونے کی علامت ہے۔"[7] لہذا امام بخاری استاد کے لیے ایسی لمبی تقریریں کرنا مناسب نہیں سمجھتا،جو شاگرد کو اکتاہٹ کا شکار کرے۔
(۳) پڑھانےکے لیےشاگردوں کو فہم اور ذہانت کے اعتبار سے مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا:
امام بخاری کا خیال ہے،کہ تمام طلبہ کو ایک انداز سے پڑھانا مناسب نہیں ہے، بلکہ لوگ سمجھ کے اعتبار سے مختلف ہوتے ہیں،چنانچہ ان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا چاہیے،اور پھر دورانِ درس طلبہ کے معیار کے مطابق درس دینا چاہیے ،اس منہج کو ثابت کرنے کے لیے امام بخاری نے باب مقرر کیا ہے" باب من خص بالعلم قوما دون قوم كراهية ان لا يفهموا "اور اس باب کے تحت حضرت علیؓ کا قول نقل کیاہے،کہ لوگوں سے ان کی سمجھ کے مطابق باتیں کرو،کہىں وہ اللہ اور رسول کی تکذیب نہ کرے۔[8] اس لیے کہ جو بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ،وہ فائدہ کے بجائے نقصان کا سبب بنتا ہے۔[9] چنانچہ ہر بات ہر کسی سے بیان کرنے کی نہیں ہوتی۔
(۴) شاگردوں کے ذمے کام لگانا:
علم میں پختگی تب آتی ہے، جب استاد شاگردوں کو سمجھانے کے بعد کچھ کام اُن کے ذمے بھی لگائے،اس سے طالب علم کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوتا ہے،عرفِ عام میں اسے اسائمنٹ کہتے ہىں،امام بخاری نے اس اسلوب کو ثابت کرنے کے لیے وفدِ عبد القیس کى حدیث کا یہ حصہ " ويخبروا من ورائهم "اپنے ترجمۃ الباب کا حصہ بنایا ہے،رسول اللہﷺ نے وفد عبدالقیس کو تعلیم دینے کے بعد ان کو ارشاد فرمایا:"یہی باتیں اپنے علاقے والوں کو بھی بتادینا۔"اسی ترجمۃ الباب میں امام بخاری نے مالک بن حویرث کا یہ قول بھی نقل کیا ہے،کہ ہمیں رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:"اپنے گھر جاکر ان کو دین کی باتیں سکھاؤ۔"[10]
سوال اور جواب کے متعلق ہدایات
(۱)دورانِ درس سوال پوچھنا:
امام بخاری کے مطابق استاد کى گفتگو کے دوران شاگردکاسوال کرنا آداب کے خلاف ہے،[11] اس سے سلسلہ کلام منقطع ہوجاتا ہے،اور استاد اور دوسرے شاگردوں کی توجہ بھی منتشر ہوجاتی ہے،البتہ اگر کسی نے غلطی سے پوچھ بھی لیا،تو استاد سبق کے دوران اس کا جواب نہ دے،بلکہ سبق ختم کرکے سائل کے سوال کا جواب دے،اس دعوے کے لیے امام بخاری نے باب باندھاہے،" باب من سئل علما وهو مشتغل فى حديثه فأتم الحديث ثم اجاب السائل " اور اس کے تحت اعرابی کا واقعہ نقل کیا ہے،جب اس نےرسول اللہﷺ سےقیامت کےبارےمیں پوچھا،تورسول اللہﷺ اپنی بات مکمل کرکےفرمانےلگے:قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں ہے؟[12] رسول اللہ ﷺ نے دورانِ گفتگو جواب نہ دے کر اس کو یہ ادب سکھاىا کہ دوران درس سوال پوچھنا خلافِ ادب ہے۔
(۲)طلباء کے سوال پر استاد کا ناراض ہونا:
بعض اساتذہ سوال کرنے پر ناراض ہوتے ہیں،امام بخاری کے نزدیک استاد کا ناراض ہونا مناسب نہیں ہے،بلکہ سائل کے سوال کا جواب دینا چاہیے،چنانچہ رسول اللہﷺ نے درمیانِ کلام میں قیامت کے بارے میں سوال کرنے والے کو جواب دیا،اور فرمایا:" جب امانتیں ضائع ہونے لگىں تو سمجھو قیامت نزدیک ہے۔"اس اعرابی نے سوال پر سوال پوچھا،امانتیں کیسے ضائع ہوںگی؟رسول اللہﷺ نے فرمایا:"جب معاملات نا اہلوں کے سپرد ہوجائىں۔"[13] اس حدیث سے معلوم ہوگیا کہ رسول اللہﷺ سائل کے کثرتِ سوالات اور آداب سوال سے نابلد ہونے کے باجود ناراض نہیں ہوئے،بلکہ اس سے نرمی کا معاملہ کرتے ہوئے اس کے تمام سوالات کا جواب خوش اسلوبی سے دیا۔[14]
طالب علم کے لیے ہدایات
(۱) استاد سے پڑھے بغیر صرف مطالعہ سے علم حاصل کرنے کے متعلق ہدایات:
آج کل یہ رواج عام ہوگیا ہے کہ طلباء از خود صرف مطالعہ سے علم حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں،امام بخاری کا خیال ہے،کہ محض اپنے مطالعہ سے کوئی عالم نہیں بن سکتا،بلکہ کسی ماہر ِفن سے باضابطہ طور علم حاصل کرنا چاہیے،چنانچہ امام بخاری فرماتے ہیں:" إنما العلم بالتعلم "[15] اس لیے کہ محدثین کےہاں اس آدمی کا علم بالکل معتبر نہیں ،جس نے استاد کے بغیرصرف کتابوں سےعلم حاصل کیا ہو،[16] اور اہلِ عرف کےہاں بھی محض مطالعہ سے کوئی عالم اور جاننے والا نہیں بنتا،چنانچہ ہمارے معاشرے میں صرف طب اور قانون کی کتابوں سےکوئی ڈاکٹر اور قانون دان نہیں بنتا۔لہذا کتابوں کے بجائے علماء اور اساتذہ سے علم حاصل کرنا زیادہ مفید ہوسکتاہے۔[17] بغیر استاد پڑھنے میں ایک قباحت یہ بھی ہے کہ طالب علم کو اپنى غلطی کا احساس نہیں ہوتا اور اس کی مثال اس شخص کی طرح ہوگی،جو بغیر کسی ماہرتیراک کے خود گہرے پانی میں اُتر جائے۔
ہر قسم کے استاد سے پڑھنا بھی مناسب نہیں ،بلکہ ہر فن کو صرف صاحبِ فن سے پڑھنا زیادہ بہتر ہے،اس لیے کہ غیر متخصص سے پڑھنے میں خطاء کااندیشہ زیادہ ہے۔[18]
(۲) لکھنے کی ترغیب: طالب علم کے لیے زمانۂ طالب علمی سے لکھاری ہونا ایک بہت بڑی صفت ہے،لکھنے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے امام بخاری نے کتاب العلم میں باب قائم کیا ہے،" باب كتابة العلم "[19] امام شعبی فرمایا کرتے تھے،"علم کی ہر سنی ہوئی بات کو لکھا کرو،اگر چہ دیوار پر لکھنا پڑے"[20]
لکھنے کی وجہ سے آدمی کی شخصیت اپنے ہم عصروں سے ممتاز ہوجاتی ہے،چنانچہ صحابہ کرام میں کاتبینِ وحی کو الگ مقام حاصل تھا،حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں،صحابہ کرام میں سوائے عبداللہ بن عمرو کےسب سے زیادہ احادیث کا ذخیرہ میرے پاس تھا،اس لیے کہ وہ لکھاکرتےتھے،اور میں نہیں لکھتا تھا۔[21] رسول اللہﷺ خود بھی لکھنے کی ترغیب دیا کرتے تھے،چنانچہ عبداللہ بن عمرو فرماتے ہیں،میں رسول اللہﷺ کی ہر بات لکھا کرتا تھا،تو قریش نے مجھے ایسا کرنے سے منع کیا،رسول اللہ نے مجھے فرمایا :لکھا کرو،اس لیےکہ میری زبان سے نکلی ہوئی ہر بات حق ہوتی ہے۔[22] اور یمنی صحابی کی درخواست پر صحابہ کرام کو فرمانے لگے:" اكتبوا لأبى شاه " ابو شاہ کے لیے لکھو۔[23]
لکھنے کی اہمیت تعلیمی اداروں میں بھی مسلم ہے،لہذا آدمی کی ترقی کا معیار اس کے لکھنے پر موقوف ہے،نئى نئى تحقیقات کا رونما ہونا بھی لکھنے کی بدولت ممکن ہوا۔
(۳)علم حاصل کرنے کے لیے سفراور مشقت برداشت کرنا:
انسان جب تک اپنے آپ کو فارغ کرکے علم حاصل کرنے کے لیےسفر نہ کرے،اس وقت تک پورا فائدہ حاصل کرنا مشکل ہے،ہمیشہ سے یہی طریقہ آرہا ہے،امام بخاری نےاس اہم ادب کو بیان کرنے کے لیے باب مقرر کیا ہے،" باب الخروج فى طلب العلم " چنانچہ حضرت جابر بن عبد اللہ نے ایک حدیث کو سیکھنے کے لیے عبد اللہ بن اُنیس کی طرف ایک مہینے کا سفر کیا۔[24] حضرت جابر کا یہ سفر صرٖ ف حصولِ علم کے لیے تھا، چنانچہ عنداللہ بن اُنیس نے حدیث بیان کرنے کے بعد انہیں اپنےہاں ٹھہرنے کا کہا،تو اس نے انکار کیا اور واپس لوٹ گئے۔[25]
تحقیقی اور علمی کاموں کےلیے سفر، مشقت اور فارغ البالی انتہائی اہم ہیں،امام بخاری نے حصولِ علم کے لیے مشقت برداشت کرنے کے بارے میں باب مقرر کیا ہے،" باب ما ذكر فى ذهاب موسىٰ فى البحر الى الخضر "[26] اور اس کے تحت حضرت موسیؑ کا خضرؑ کی طرف سفر کرنے کاتذکرہ کیا ہے۔ حضرت موسیؑ نے طلبِ علم کے لئے سفر اور انتہائی مشقت برداشت کی،لہذا اگر کوئی ایک مسئلہ سیکھنے کے لیے مشرق سے مغرب کا سفر کرے،تو یہ کوئی مہنگا سودا نہیں۔[27]
(۴) تعلیمی ادارے میں داخلہ(Admission):
امام بخاری کے ہاں علم حاصل کرنے اورکسی معتبر استاد کے پاس جانے کے لیے تعلیمی ادارے میں داخلہ اور وہاں کے شرائط وضوابط تسلیم کرنا شرط ہے،چنانچہ امام بخاری نے حضرت موسیؑ اور خضرؑ کے واقعے کی ابتداء میں اس مقصد کو بیان کرنے کے لئے اللہ تعالی کے فرمان"هَلْ أَتَّبِعُكَ عَلَى أَنْ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا"[28] کو بطور عنوان ذکر کیا ہے۔
اسی آیت سے ثابت ہوتا ہے،کہ موسیٰ نےعلم حاصل کرنے کے لیے بہت سارےآداب اور قوانین کا لحاظ رکھا،اپنے آپ کو استاد کے تابع کیا،اس تابعداری کی پیشگی اجازت طلب کی،جسکو عرفِ عام میں داخلہ (Admission)کہا جاتا ہے،اپنی لاعلمى اور استاد کی علمیت کا اعتراف کیا،اور پھر اپنی تابعداری کی وجہ صرف حصولِ علم قرار دیا۔[29]
(۵)طالب علم کا باحیاء ہونا:
حیاء انسانی صفات میں بہترین صفت ہے،لیکن علم حاصل کرنے سے روکنےوالی حیاء مذموم ہے،البتہ استاد کی عزت اور احترام میں اختیار کی جانے والی حیاء پسندىدہ ہے۔[30] طالب علم کو ان دونوں قسموں کی وضاحت کرنے کے لیے امام بخاری نے یہ با ب قائم کیاہے" باب الحياء فى العلم " پھر پہلی قسم کی مزید وضاحت کرنے کے لیے امام مجاہد اور حضرت عائشہ کا قول نقل کیا ہے،مجاہدفرماتے ہیں:حیاء کرنے والااور تکبر کرنے والا علم حاصل نہیں کرسکتا،اور حضرت عائشہ فرماتی ہیں:انصار کی عورتیں بہت اچھی ہیں،حیاء انہیں دین کی سمجھ حاصل کرنے سے نہیں روکتیں۔اور دوسری قسم کی وضاحت کرنے کے لیے ام سلمہ اور عبد اللہ بن عمرکی روایت نقل کی ہے،چنانچہ ام سلمہ نے عورتوں سے متعلق مسئلہ پوچھتے وقت اپنے چہرے کو حیاء کی وجہ سے چھپایا،اور حضرت عبد اللہ بن عمر نے بڑوں کی موجودگی میں جواب دینے کی جرأت نہیں کی۔[31]
امام بخاری نے باحیاء طالب علم کو علم حاصل کرنے کا ایک متبادل طریقہ بھی سکھادیا،تاکہ حیاء بھی برقرار رہے اور علم بھی حاصل ہوجائے،چنانچہ فرمایا:جو خود شرماتا ہو وہ دوسروں کے ذریعے استاد سے پوچھے،اس لیے کہ حضرت علی نے حضرت مقداد کے ذریعے مذی کا مسئلہ پوچھا تھا۔[32]
(۶) علم سیکھنے کے لئے تعلیمی اوقات کا لحاظ رکھنا:
بعض طلباء غیر تعلیمی اوقات میں استاد کے ساتھ علمی گفتگو کی وجہ سے پریشانی کا باعث بنتے ہیں،اس پریشانی اور بے انتظامی سے بچنے کے لیے تعلیمی اداروں نے کلاس اور پیریڈ کا وقت مقرر کیا ہوتاہے،اور بعض اساتذہ رسمی اوقات کے علاوہ ملنے کو اچھا نہیں سمجھتے۔امام بخاری کا مؤقف یہ ہے کہ سیکھنے کے لیےوقت مقرر کرنا زیادہ مناسب ہے۔اسی مقصد کو بیان کرنے کے لیے امام بخاری کے الفاظ یوں ہىں:" باب من جعل لأهل العلم اياما معلوما "[33] یعنی سیکھنے کے لیے متعین دن مقرر کرنا۔اس طرح کرنے سے بے ترتیبی بھی ختم ہوجاتی ہے ،اورسہولت بھی رہتی ہے، اور استاد کے ذاتی اوقات میں دخل اندازی بھی نہیں کرنی پڑتی۔
عورتوں کی تعلیم کے بارے میں ہدایات
(۱) عام عورتوں کی تعلیم کا انتظام:
بعض لوگوں کا خیال ہے،کہ تعلیم صرف مردوں کا حق ہے،اسلام کے بارے میں یہ افواہ بھی مشہور ہے کہ اسلام عورتوں کی تعلیم کی اجازت نہیں دیتا۔امام بخاری کا نظریہ یہ ہے،کہ مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کا اہتمام بھی اربابِ حل وعقد کے لیے ضروری ہے،چنانچہ اس مقصد کے لیے ایک عنوان یوں باندھا ہے:"باب عظة الامام النساء وتعليمهن"(استاد کا عورتوں کو نصیحت کرنا اور تعلیم دینا)۔اور پھر اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے رسول اللہ ﷺ کا واقعہ نقل کیا ہے،کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کو خطبہ کے بعد یہ خیال آیا کہ شاید عورتوں نے پوری بات نہ سنی ہو،تو ان کے قریب جاکر ان کو الگ سے نصیحت فرمائی۔[34] اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے، کہ عورتوں کو اسلامیات کی تعلیم دینا مستحب ہے، اور استاد کو ان کی تعلیم کے بارے میں فکر مند ہونا چاہیے،کہ کوئی کمی نہ رہ جائے۔[35]
(۲)اپنے گھر والیوں کی تعلیم کا اہتمام کرنا:
معاشرے کی تعمیر میں پہلی اور بنیادی سیڑھی اپنا گھر ہے، وہ تحریک کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتی، جس کی ابتداء اپنے گھر سے نہ ہو، امام بخاری کا نظریہ ہے کہ جس وقت استاد پورے معاشرے سے جہالت کی تاریکی ختم کرنے اور علم کی روشنی پھیلانے کی کوشش کر رہا ہو،عین اُسی وقت میں اسے اپنے گھر کی خبر بھی لینی چاہیے، یہاں تک کہ گھر والوں کے ساتھ ساتھ گھر میں کام کاج کرنے والی عورتوں کی تعلیم کا بھی انتظام کرے، چنانچہ اس مقصد کے لیے یہ عنوان قائم کیا،" باب تعليم الرجل أمته وأهله "(آدمی کا اپنےگھر کی عورتوں اور باندی کو تعلیم دینا) اور اپنے مؤقف کی وضاحت کے لیے رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا،کہ جس نے اپنی باندی کو ادب اور تعلیم سکھانے کا انتظام کردیا،اس کو دوگنا اجرملے گا۔[36]
(۳) عورتوں کا مردوں کے ساتھ مخلوط نظامِ تعلیم((Co-Education:
تعلیم بہت بڑی نعمت ہے،اس لیے اس کو بہر حال حاصل کرنا چاہیے،لیکن امام بخاری کا خیال ہے،کہ عورتیں اس نعمت سے پوری طرح تب مستفید ہوسکتی ہیں جب اُن کا نظامِ تعلیم مردوں سے الگ ہو، اس نظریہ میں اختلاف کی وجہ سے امام بخاری نے سوالیہ انداز میں باب قائم کیا ہے:" باب هل يجعل للنساء يوما على حدة فى العلم "( کیا عورتوں کی تعلیم کے لیے الگ دن مقرر کیا جا سکتا ہے؟) اور پھر جواب کے لیے صحابیات کی یہ درخواست نقل کی ہے،جب انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا؛آپ کی مجلس میں ہر وقت مردوں کی کثرت رہتی ہے،لہذا ہمارے لیے الگ دن مقرر کیجئے،تاکہ ہم اُس دن تعلیم حاصل کرىں،اور آپ سے مسائل پوچھ سکىں،رسول اللہ ﷺ نے اُن کے لیے الگ دن مقرر کیا۔[37]
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے،کہ عورتیں فطرتاً باحیاء ہوتی ہیں،اس لیےوہ مردوں کے سامنے پوری طرح استفادہ نہیں کرسکتیں۔
مخلوط نظامِ تعلیم کی بے شمارقباحتوں سے اِس نظام کے علمبردار بھی تنگ آگئے ہیں اوراب وہ بھی الگ الگ نظامِ تعلیم کے حق میں آوازیں بلند کر رہے ہیں۔
نتائج اور سفارشات:
اسلام تعلیم اور پڑھنے پڑھانے کی ترغیب روزِ اول سے دیتا چلا آرہا ہے،قرآن کریم اور احادیث نبوی میں جا بجا علم اور اس سے متعلق الفاظ کا تذکرہ اس بات کا واضح ثبوت ہے،چنانچہ امام بخاری نے اپنى صحیح میں کتاب العلم کے عنوان کے تحت تعلیمی نظام کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنے کے لیےانتہائی اہم ہدایات ارشاد فرمائی ہیں،جسے اپنانے سے موجودہ نظام میں کافی بہتری آسکتی ہے۔
انہی ہدایات سے مندرجہ ذیل نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں:
- سبق پڑھانے کے دوران طلبہ کی نفسیات کو مدنظر رکھنا سمجھانے کے لیے مفید ہو تا ہے۔
- دورانِ درس طلبہ کی تعداداور مضمون کی مناسبت سے آواز کو بلند اور آہستہ کرنا انتہائی اہم آداب میں سے ہے۔
- فہم اور ذہانت کے اعتبار سے طلبہ کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرنا چاہیے۔
- طلبہ کے ذمہ کام لگانے سے ان کے اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔
- دورانِ درس سوال کرنا مناسب نہیں۔
- طلبہ کے سوالات پر ناراض نہیں ہونا چاہیے۔
- استاد سے پڑھے بغیر صرف کتابوں سے حاصل کیا ہوا علم معتبر نہیں ہوتا۔
- علم حاصل کرنے کے لیے سفر اور مشقت برداشت کرنا چاہیے۔
- تعلیم حاصل کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں داخلہ اور وہاں کے قوانین کی پاسداری ٖ ضروری ہے۔
- غیر تعلیمی اوقات میں تعلیمی سرگرمی استاد کی پریشانی کا باعث بن سکتی ہے۔
- مردوں کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تعلیم کی فکر اربابِ تعلیم کی ذمہ داری ہے۔
- مخلوط تعلیمی نظام میں عورتیں پوری طرح استفادہ نہیں کرسکتیں،اور اس نظام کی تباہ کاریاں بہت زیادہ ہیں۔
حوالہ جات
- ↑ ۔بخاری،محمد بن اسماعیل،صحیح البخاری،باب من رفع صوتہ بالعلم،رقم:60،ج۱ص۲۲،دار الطوق النجاۃ
- ↑ ابن حجر،احمد بن على،فتح الباری،ج۱ص۱۴۳،دار المعرفۃ،بیروت
- ↑ نبل،ابو عبد اللہ احمد بن محمد،مسنداحمد،مسند جابر بن عبداللہ،رقم:۱۴۶۳۰،ج۲۲ص۴۶۷،موسسۃ الرسالۃ،بیروت
- ↑ ابن بطال،ابو الحسن علی بن خلف،شرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۳۸،مکتبۃ الرشد،الریاض
- ↑ صحیح البخاری،ج۱ص۲۵
- ↑ ابن رجب،زین الدین عبد الرحمٰن بن احمد،جامع العلوم والحکم،ج۲ص۷۶۰،دار السلام ،الریاض
- ↑ النیسابوری،مسلم بن الحجاج،صحیح مسلم،باب تخفیف الصلوۃ والخطبہ، رقم:۸۶۹،ج۲ص۵۹۴،دار احیاء التراث العربی،بیروت
- ↑ صحیح البخاری،ج۱ص۳۷
- ↑ ابن عبد البر ،یوسف بن عبد اللہ القرطبی،جامع بیان العلم وفضلہ،ج۱ص۵۴۰،دارابن الجوزی،السعودیہ
- ↑ ٍٍصحیح البخاری،ج۱ص۲۸
- ↑ ابن بطال،شرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۳۸
- ↑ صحیح البخاری،رقم:۵۹،ج۱ص۲۱
- ↑ حوالہ بالا
- ↑ عینی،بدر الدین محمود بن احمد،عمدۃ القاری،ج۲ص۷،دار احیاء التراث العربی،بیروت
- ↑ صحیح البخاری،ج۱ص۲۴
- ↑ عمدۃ القاری،ج۲ص۴۲
- ↑ البغدادی،ابوبکر احمد بن علی الخطیب،الفقیہ والمتفقہ،ج۲ص۱۹۲،دار ابن الجوزی،السعودیۃ
- ↑ الشوکانی،محمد بن علی الیمنی،أدب الطلب ومنتھی الأدب،ص۷۶،دار ابن حزم،بیروت
- ↑ صحیح البخاری،ج۱ص۳۳
- ↑ ابن بطال،شرح صحیح البخاری،ج۱ص۱۸۸
- ↑ صحیح البخاری،باب کتابۃ العلم،رقم:۱۱۳،ج۱ص۳۴
- ↑ لسجستانی،ابو داؤد سلیمان بن الأشعث،سنن ابی داؤد،باب فی کتاب العلم،رقم:۳۶۴۶،ج۳ص۳۱۸،المکتبۃ العصریۃ،بیروت
- ↑ صحیح البخاری،باب کیف تعرف لقطۃ اہل مکۃ،رقم:۲۴۳۴،ج۳ص۱۲۵
- ↑ ٍٍصحیح البخاری، ج1ص26
- ↑ الکشمیری،محمد انورشاہ بن معظم شاہ،فیض الباری،ج۱ص۲۶۰،دار الکتب العلمیۃ،بیروت
- ↑ ٍٍصحیح البخاری،ج1ٍٍص۲۶
- ↑ الرازی،فخر الدین محمد بن عمر،مفاتیح الغیب(التفسیر الکبیر)،ج۲۱ص۴۷۹،داراحیاء التراث العربی،بیروت
- ↑ ٍٍسورۃ الکھف:۶۶
- ↑ ٍلتفسیر الکبیر،ج۲۱ص۴۸۳
- ↑ ٍٍابن بطال،شرح صحیح البخاری،ج۱ص۲۱۰
- ↑ ٍٍصحیح البخاری،باب الحیاء فی العلم،ج۱ص۳۸
- ↑ ٍٍحوالہ بالا
- ↑ ٍٍصحیح البخاری، ج۱ص۲۵
- ↑ ٍٍصحیح البخاری،باب عظۃ الامام النساء وتعلیمھن،رقم:۹۸،ج۱ص۳۱
- ↑ ٍٍعمدۃ القاری،ج۲ص۱۲۴
- ↑ ٍٍصحیح البخاری،باب تعلیم الرجل أمتہ وأھلہ،رقم:۹۷،ج۱ص۳۱
- ↑ ٍٍصحیح البخاری،باب ھل یجعل للنساء یوما علی حدۃ فی العلم، رقم:۱۰۱،ج۱ص۳۲
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |