29
2
2014
1682060034497_644
142-153
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/230/218
تفسیر کے معنی:
تفسیر باب تفعیل سے مصدر کا صیغہ ہے جس کی لفظی معنی واضح کرنے، بیان کرنے اور بے حجاب کرنے کے ہیں۔ [1]جبکہ اصطلاحی معنی میں قرآنی آیات سے اللہ تعالیٰ کی مراد معلوم کرنے کو تفسیر کہتے ہیں [2]
تفسیر دو بڑے اقسام پر مشتمل ہیں۔ تفسیر بالماثور اور تفسیر بالراَی۔
پہلی قسم میں نبی کریم ﷺ ، صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین اور تابعین کے تفسیری روایات شامل ہیں اور مفسر کی ذاتی رائے کو ثانوی درجہ حاصل ہے۔ دوسری قسم، تفسیر بالراَی میں مفسر کی ذاتی رائے بهى شامل ہوتی ہے۔ اس کی بعض قسمیں ممدوح اور بعض مذموم ہیں۔ اگر یہ تفسیر قرآنی ہدایت کے قریب ہو تو ممدوح ہے اور اگر بعید ہو مذموم ہے۔
مفسر جلال الدین السیوطیؒ:
آپ محمد بن سابق الدین الخصیری السیوطی ہیں، قاہرہ )مصر( میں پیدا ہوئے۔علم تفسیر کے میدان میں الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور آپ کا مشہور تصنیفی کارنامہ ہے ۔ نوىں صدى ہجرى کے بلند پاىہ عالم تھے۔
تفسیر الدر المنثور فی تفسیر با الماثور کا تعارف:
تفسیر الدر المنثور فی التفسیر بالماثور جلال الدین السیوطی کی مشہور تصنیف ہے۔ امام موصوف نے اپنے تفسیر میں بہت سے روایات نقل کی ہیں لیکن صحت کا التزام نہىں رکھا۔ اور نہ ہى رواة پر جرح وتعدىل کى۔ جس کى وجہ سے بہت سے ضعىيف، موضوع اور غىر مستند رواىات تفسىر مىں شامل ہوگئىں۔ ذيل مىں بعض موضوع رواىات کى نشاندہى کى گئى ہے۔
احادیث نبوی ﷺ کا اعتبار ختم کرنے کی ناپاک کوششوں میں وضاعین حدیث کا بنیادی کردار رہا ہے۔ جس کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے پہلے سے امت کو خبردار کیا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ہے۔
سيکون فی آخر امتی اناس يحدثونکم ما لم تسمعوا انتم و لا ابائکم فاِياکم واِياهم۔ [3]
ترجمہ: آخر زمانہ میں ایسے جھوٹے اور جعل ساز پیدا ہوں گے جو تمہارے سامنے ایسی حدیثیں (گھڑ گھڑ کر) بیان کریں گے جو نہ کبهی تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء و اجداد نے، ان سے بچتے رہنا (کہیں تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور مبتلائے فتنہ ،فساد نہ بنا دیں)۔
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں کہ:
لكونهم لا يعانون صناعة أهل الحديث، فيقع الخطأ فى رواياتهم، ولا يعرفونه، ويرون الكذب ولا يعلمون أنه كذب[4]
ترجمہ: اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس قسم کے لوگ فن حدیث سے علمائے حدیث جیسی واقفیت نہیں رکھتے اس لئے ان کی روایات میں بلا ارادہ خطا سرزد ہو جاتی ہے، وہ ان جھوٹی روایات کو بیان کرتے ہیں اور انہیں علم تک نہیں ہوتا کہ وہ جھوٹی روایت بیان کرتے ہیں۔
حافظ ابن الصلاح فرماتے ہیں:
والواضعون للحديث أصناف، واعظمهم ضررا قوم من المنسوبين إلى الزهد وضعوا الحديث احتساباً فيما زعموا فتقبل الناس موضعاتهم ثقة منهم بهم وركونا إليهم، ثم نهضت جهابذه الحديث بكشف عوارها ومحو عارها، والحمد الله.[5]
ترجمہ: واضعین حدیث کی چند قسیں ہیں، ان میں سے زیادہ ضرر رساں وہ لوگ ہیں جو زہد و تقوی کی طرف منسوب ہیں مگر اتنے سادہ ہیں کہ حدیث گھڑ کر سمجھتے رہے کہ اس میں ثواب ملے گا۔ لوگوں نے ان کی ظاہری حالت پر اعتماد کرکے ان سے عقیدت رکھتے ہوئے ان کی موضوع روایتوں کو قبول کر لیا۔ پھر فن حدیث کے اعلی ماہرین ان موضوعات کے عیب کے کھولنے اور ان کی عار مٹانے کے لئے اٹھے۔ پس سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔
موضوع کی تعریف:
موضوع لغت میں اسم مفعول کا صیغہ ہے۔ وضع کے معنی انحطاط اور کمزوری کے ہیں اور اصطلاح میں وہ بنایا یا گھڑا ہوا جھوٹ جس کی نسبت رسول اللہ ﷺ کی طرف کی گئی ہو۔[6]
نبی کریم ﷺ پر افتراء کرنا اور جھوٹی حدیث بیان کرنا بد ترین گناہ ہے، اس لئے کہ جھوٹی روایت بیان کرنے والوں کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
من حدّث عنى بحديث يري أنه كذب فهو أحد الكاذبين. [7]
"جس نے میری طرف نسبت کرکے کوئی جھوٹی حدیث بیان کی تو ایسا شخص جھوٹوں میں سے ایک ہے"۔
ایک دوسری موقع پر فرمایا:
"من كذب على متعمدا فليتبوأ مقعده من النار"
"جو کوئى مجھ پرقصدا جھوٹ بولے تووہ اپنا ٹھکانا جہنم مىں بنالے"۔[8]
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:
واتفقوا علی تحريم رواية الموضوع الا مقرونا ببيان وضعه [9]
محدثین اس بات پر متفق ہیں کہ موضوع روایت کو بیان کرنا حرام ہے، صرف اس وقت اس کی اجازت ہوگی کہ اس کا موضوع ہونا بیان کیا جائے۔
امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
"انه لا فرق فى تحريم الكذب عليه بين ما كان فى الاحكام، وما لا حكم فيه كالترغيب والترهيب والمواعظ وغير ذلك فكله حرام من أكبر الكبائر، وأقبح القبائح بإجماع المسلمين الذين يعتدبهم فى الاجماع"[10]
جان لینا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے کے حرام ہونے میں کوئی فرق نہیں ہے، خواہ اس کا تعلق احکام سے ہو یا غیر احکام سے جیسے ترغیب و ترہیب اور وعظ و نصیحت سے ، بہر حال آپ ﷺ پر جھوٹ بولنا حرام ، گناہ کبیرہ اور بد ترین جرم ہے، اس پر ان مسلمانوں کا اجماع ہے، جن کی اجماع حجت ہے۔
اس ضمن میں سورہ ا لنساء اور سورہ المائدہ میں بعض موضوع روایات کی درج ذىل نشاندہی کی گئی ہے ۔
سورہ ا لنساء اور سورہ المائدہ میں بعض موضوع روایات:
اخرج البيهقي فى الأسماء والصفات عن علي بن أبى طالب قال: أول من يكسى يوم القيامة إبراهيم قبطتين والنبى صلى الله عليهوسلم حلة حبرة، وهو عن يمين العرض.[11]
ترجمہ: امام بیہقی نے الاسماء والصفات میں علی بن ابی طالب ؓ سے نقل کیا ہے کہ قیامت کے روز سب سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دو قبطی (چادریں) اور بنی ﷺ کو حبرہ کا حلہ پہنایا جائے گا جبکہ نبی کریم عرش کی دائیں جانب تشریف فرما ہوں گے۔
البانی نے اس حدیث کو موضوع کہا ہے۔[12]
اس کے اسناد میں عثمان بن عمیر ہے جس کو احمد بن معین بن نمیر اور الحاکم وغیرھم نے ضعیف کہا ہے۔ الدار قطنی نے مترو ک اور بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے۔ [13]
الرافعی نے علی سے موقوفا روایت کیا ہے۔ [14]
اس کو البزار نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں لیث بن ابی سلیم مدلس ہے۔[15]
عباس الدوری نے عیسی بن معین کے حوالے سے کہا ہے کہ عثمان بن قیس کے حدیث ‘‘لیس بشیء’’ ہے۔[16]
امام بخاری کہتے ہیں کہ عثمان بن قیس سے مراد ابن عمیر ہے۔[17]
وأخرج الحاکم فی التاريخ والديلمی وابن عساکر عن انس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (ان الله يقول کل يوم: انا ربکم العزيز، فمن أراد عز الدارين فليطع العزيز [18]
ترجمہ: حاکم نے تاریخ میں، دیلمی اور ابن عساکر نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی ہر روز فرماتا ہے ۔ میں تمہارا غالب رب ہوں جو آدمی جہانوں کی عزت چاہتا ہے وہ اس غالب کی اطاعت کرے۔
البانی نے موضوع کہا ہے۔[19]
ابن جوزی کہتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ [20]
ابن ابی حاتم کہتے ہیں کہ ابی الفرات قوی راوی نہیں ہے اور یہ منکر روایات نقل کرتے ہیں[21]
واخرج ابن أبى الدنيا فى الاخلاص والبيهقى في الشعب عن ثوبان سعمت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: طوبى للمخلصين أولئك مصابيح الهدى تتجلى عنهم كل فتنة ظلماء [22]
ترجمہ: ابن ابی الدنیا نے اخلاص میں اور بیہقی نے شعب الایمان میں ثوبان سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے مخلصوں کو مبارک ہو، یہ لوگ ہدایت کے چراغ ہیں، ان سے تمام تاریک فتنے چھٹ جاتے ہیں۔
البانی نے اسے موضوع کہا ہے۔[23]
اس کے اسناد میں عمرہ بن عبد الجبار ہے جو ابن عدی کے مطابق اپنے چچا سے مناکیر روایت نقل کرتے ہیں۔[24]
وأخرج ابن أبى حاتم وابن مردويه وابن عساكر عن أبى سعيد الخدرى قال: نزلت هذه الآية (يايها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك) على رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم غدير خم، فى على بن أبى طالب۔[25]
ترجمہ: ابن ابی حاتم، ابن مردویہ اور ابن عساکر نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیت (يايها الرسول بلغ ما أنزل إليك من ربك) علی رضی اللہ عنہ کے متعلق غدیر خم کے روز سول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی۔
البانی نے اسے موضوع کہا ہے۔ [26]
اسکے اسناد میں علی بن عابس ضعیف راوی ہے۔ [27]
ابن عدی نے علی بن عابس کو لیس بشیء کہا ہے۔ [28]
وأخرج الحكيم الترمذي في نوادر الأصول عن زيد بن أرقم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم (من قال لا إله إلا الله مخلصا دخل الجنة، قيل: يا رسول الله صلى الله عليه وسلم وما اخلاصها؟ قال: ان تحجزه عن المحارم [29]
ترجمہ: امام ترمذی نے نوادر الاصول میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے اخلاص سے لا الہ الا اللہ کہا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔ عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ اخلاص سے کیا مراد ہے ؟ فرمایا اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس کو محارم سے روک دے۔
البانی نے موضوع کہا ہے[30]
طبرانی نے اس حدیث کو زید بن ارقم کے اسناد کی وجہ سے ضعیف کہا ہے۔ [31]
اسناد میں محمد بن عبد الرحمن بن غزوان اور اسحاق عن زید ابن ارقم سے مرفوعا روایت کیا ہے۔ [32]
الذھبی اور الدار قطنی وغیرہ نے انہیں کذاب کہا ہے [33]
حاکم کہتے ہیں کہ وہ مالک اور ابراھیم بن سعد سے موضوع احادیث روایت کرتے ہیں[34]
اس کو ابو یعلی نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں یزید الرقاشی ضعیف ہے[35]
وأخرج ابن أبى حاتم عن القاسم بن محمد، أنه سئل عن النرد أهي من الميسر؟ قال: كل ما الهى عن ذكر الله وعن الصلاة فهو ميسر[36].
ترجمہ: ابن ابی حاتم نے قاسم بن محمد سے نقل کیا ہے کہ ان سے چوسر کے بارے میں پوچھا گیا کیا یہ بھی جوا ہے تو انہوں نے فرمایا: ہر وہ چیز جو اللہ کے ذکر اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے۔
البانی نے اسے موضوع کہا ہے[37]
صاحب نصب الرایہ نے اس کو مرفوعا غریب کہا ہے[38]
وأخرج الحكيم الترمذي فى نوادر الأصول وابن عساكر عن نافع قال: كنا مع ابن عمر فى سفر فقيل ان لسبع فى الطريق قد حبس الناس، فاستحث ابن عمر راحلته، فلما بلغ إليه برك، فعرك أذنه وقعده، وقال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول (انمايسخط علي ابن آدم من خافه ابن آدم، ولو أن ابن آدم لم يحف إلاالله لم يسلط عليه غيره، وانما وكل ابن آدم عن رجال ابن آدم، ولو ان ابن آدم لم يرج إلا الله لم يكله إلى سواه.[39]
ترجمہ:حکیم ترمذی نے نوادر الاصول میں اور ابن عساکر نے نافع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ہم سفر میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھے۔ عرض کی گئی کہ راستہ میں ایک درندے نے لوگوں کو روک رکھا ہے۔ ابن عمر نے سواری کو تیز کیا جب اس تک پہنچے تو سواری کو بٹھایا۔ اس درندے کا کان ملا اور اسے نیچے بٹھایا۔ فرمایا میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ابن آدم پر وہ غصہ ہوتا ہے جس کو ابن آدم خوف زدہ کرتا ہو، اگر ابن آدم اللہ کے علاوہ کسی سے نہ ڈرے تو اللہ اس پر کوئی اور چیز مسلط نہیں کرتا، بعض لوگوں کی جانب سے معاملات انسانوں کے سپرد کر دیے جاتے ہیں۔ اگر ابن آدم اللہ تعالی کے سوا کسی سے امید نہ رکھے تو اللہ تعالی اسے کسی اور کے سپرد نہ کرے گا۔
البانی نے اس حدىث کو موضوع کہا ہے[40]۔
اس روایت میں وھب بن ابان مجھول اور لیس بشئی ہے۔ [41]
مراجع و مآخذ
- القاموس المحیط،محمد بن یعقوب فیروز آبادی، داراحیاالتراث العربی، ۱۴۱۷ ھ ) ۱۹۹۷ ء(
- مناہل العرفان فی علوم القرآن، ۱؍۳۳۴؛
- حجۃ اللہ البالغۃ ، شاہ و لی اللہ ،مترجم از عبدالرحیم، قومی کتب خانہ لاہور، ۱۹۸۳ء
- صحیح مسلم، مسلم بن حجاج، ترقیم محمد فواد عبدالباقی مصطفی البابی ، مصر سطن۔
- شرح صحیح مسلم، النوی دارالفکر، بیروت، سطن
- مقدمہ ابن الصلاح ، المکتبہ السلفیہ ، مدینہ منورہ، ۱۳۸۹
- نزھۃ النظر لابن حجر فی توضیہ نخبتہ الفکر، احمد بن علی العسقلامی ، مطبع الصباح، دمشق، سطن
- صحیح بخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل،التاریخ الکبیر،دار الفکر،بیروت،۱۴۰۶ھ۔
- شرح نخبۃ الفکر، بیروت، سطن
- البرہان فی علوم القرآن، ۱؍۱۳
- الاسماء والصفات، بیہقی، ابوبکر احمد بن الحسین، مکتبہ السوادی،جدہ،۱۹۸۷ء۔
- سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ والموضوعة، البانی ، شیخ محمد ناصر الدین، المعارف الریاض، سطن
- جامع الاحادیث القدسیہ، ابن المدینی، ابو الحسن علی بن عبداللہ ، المکتبہ اسلامی بیروت ، ۱۹۸۰
- اعجاز القران و البلاغۃ النبویہ، الرافعی، مصطفی صادق بن عبد الرزاق بن سعید بن احمد، دار الکتاب العربی، بیروت، ۱۴۲۵ھ؍۲۰۰۵ء
- مجمع الزوائد ومنبع الزوائد، دارالفکر، بیرت، ۱۴۱۲ ھ
- تہذیب التہذیب، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۱۴۲۵ھ
- تاریخ الکبیر، ،بخاری ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل، دار الفکر، بیروت، ۱۴۰۶ھ
- تاریخ بغداد، خطیب البغدادی، دار الکتب العلمیہ،بیروت،۱۹۹۶ء۔
- السلسلۃ الضعیفہ، ۱۲؍۵۶۱، ۵۷۵۲۔
- الموضوعات لابن جوزی، ابو الفرج ، عبدالرحمان بن علی، المکتبہ السلفیہ ، مدینہ منورہ ، ۱۳۸۶ ھ/ ۱۹۶۶ ء
- لسان المیزان، ابن حجر العسقلانی ، موسستہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت، ۱۳۰۶ ھ/ ۱۹۸۴ ء
- خطیب ،تاریخ بغداد
- سلسلہ احادیث الضعیفہ
- الکامل فی الضعفاء
- تفسیر ابن ابی حاتم، عبدالرحمن ابن ابی خاتم ، تفسیر قرآن العظیم، المکتبہ العصریہ ، بیروت ، سطن
- سلسلۃ احادیث الضعیفہ
- میزان الاعتدال، فی نقدالرجال ، الذھبی ، شمس الدین ، دارالمعرفہ، بیروت ۱۳۸۲ ھ/ ۱۹۴۳ ء
- نوادر الاصول فی احادیث الرسول، حکیم الترمذی،محمد بن علی بن الحسن ،مکان للنشر،بیروت،۱۹۹۲ء۔
- احیاء علوم الدین، الامام الغزالي، دار المعرفة – بيروت سطن
- المغنی عن حمل الاسفار فی فضیلتہ الذکر، ابو الفضل زین الدین عبد الرحیم بن الحسین بن عبد الرحمن بن ابی بکر، دار ابن حزم، بیروت، ۱۴۲۶ھ؍۲۰۰۵ء
- الکامل فی ضعفاء الرجال ابن عدی، عبداللہ، ،دار الفکر،بیروت،۱۴۰۹ھ
- نصب الرایہ ، الزیلعی، جمال الدین ابو محمد عبداللہ بن یوسف،دارالفکر،بیروت،۱۴۱۸ھ؍۱۹۹۷ء۔
- الجرح و التعدیل، ابو حاتم رازی، المکتبہ العلمیہ ، بیروت ، سطن
- السیوطی، الجامع الصغیر، مع الکتاب : احکام محمد ناصر الدین البانی، غیر مطبوع
- فتح العزیز بشرح الوجیز(الشرح الکبیر) الرافعی القزوینی، دار الفکر، بیروت، سطن
- موسوعہ اقوال لامام احمد ، جمع و ترتیب السید ابو المعاطی النوری، دارالنشر، بیروت، ۱۴۱۷ھ؍۱۹۹۷ء
- تاریخ دمشق، ابن عساکر، علی بن الحسن، ،دار الفکر،بیروت،۲۰۰۲ء۔
- تھذیب التھذیب، ابن حجر عسقلانی، ، دائرہ المعارف النظامیۃ ، الھند، ۱۳۲۶ھ
- السیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر ، جامع الاحادیث القدسیۃ،، سطن
- العلل، ابن المدینی، ابو الحسن ، علی بن عبداللہ بن جعفر السعدی، المکتبہ الاسلامی، بیروت، ۳۱۹۸۰
- اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ، ابن الاثر، ابو بن محمد الجزری، المکتبہ اسلامیہ، الریاض، ۱۹۹۱م
- ابن المنذر الرازی، عبد الرحمن بن ابی حاتم محمد بن ادریس ، بیروت، دار احیاء التراث، سطن۔
- لسان المیزان ابن حجر، احمد بن علی العسقلانی، ، مؤسسۃ العلمی للمطبوعات،بیروت،۱۴۰۶ھ؍۱۹۸۶ء۔
- تقریب التہذیب، دار الرشید، سوریا، ۱۴۰۶ھ
- جامع البیان فی تاویل القرآن، ابن جریر الطبری، ابی جعفر محمد، دار لکتب العلمیہ، بیروت، ۱۹۹۹م
- صفوۃ الصفوۃ،ابن جوزی، ابو الفرج، عبد الرحمن بن علی، دار العلم، بیروت، ۱۹۸۵م
- مسند احمد، احمد بن حنبل اشیبانی، مو سسۃ قرطبہ، اقاہرہ، ۲۰۰۲م
- تفسير القرطبی، محمد بن احمد، تحقیق عبد الرزاق المہدی، دار الکتاب، بیروت، ۱۹۹۷م
- مجمع الزوائد و منبع الفوائد، الھیثمی،علی بن ابوبکر ،دار الفکر،بیروت،۱۴۱۲ھ۔
- الاعلام، زرکلی،خیر الدین بن محمود بن محمد، دار العلم للملابین، ۲۰۰۲ء
- نصب الرایہ لاحادیث الھدایہ، الزیلعی، جمال الدین ابو محمد عبداللہ بن یوسف، دارالفکر،بیروت،۱۴۱۸ھ؍۱۹۹۷ء۔
- سنن ابن ماجہ، ترقیم فواد عبد الباقی، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ۱۹۷۵م
- الجامع الصغیر و زیادہ،البانی، محمد ناصر الدین، المکتب السلامی، سطن
- مسند أبي يعلى ، أبو يعلى ، دار المأمون، دمشق، 1984م
- الدر النثور في التفسير بالمأثور، دارالفكر، بيروت،
- تاريخ دمشق، ابن عساكر، دار الفكر بيروت، 1995م
- لسان العرب، ابن منظور، دار صادر – بيروت، 1414 هـ
- البحر المحيط في التفسير، أبو حيان الأندلسي، دار الفكر - بيروت 1420 هـ
نتائج تحقیق:
تفسیر الدرالمنثور فی تفسیر با لماثر میں مذکورہ بعض موضوعی روایات کی طرح دوسری موضوعی روایات اس تفسیر کا حصہ بن چکی ہیں۔ لہذا تفسیر میں موضوعی روایات کی نشاندہی ایک امر ضروری ہے۔
حوالہ جات
- ↑ القاموس المحیط،۲؍۱۱۰؛ لسان العرب، ۲؍۳۶۱؛ بحر المحیط، ۱؍۱۳
- ↑ مناہل العرفان فی علوم القرآن، ۱؍۳۳۴؛ البرہان فی علوم القرآن، ۱؍۱۳
- ↑ صحیح مسلم، المقدمہ، باب النبی عن الروایۃ عن الضعفاء، ۴، حدیث ۶،۷
- ↑ شرح صحیح مسلم، ۱:۹۴
- ↑ مقدمہ ابن الصلاح ۱۳۱، نوع ۲۱۔
- ↑ نزھۃ النظر لابن حجر، ۱؍۱۰۷، ۱۱۲۔
- ↑ صحیح مسلم، مقدمہ، ۱:۹
- ↑ صحیح بخاری، کتاب العلم، باب من کذب علی النبی ﷺ(۱۰۷
- ↑ شرح نخبتہ الفکر، ۸۱
- ↑ شرح صحیح مسلم، ۱:۹۴
- ↑ بيہىقى فى شعب الايمان، ۲/۲۷۸، (۸۴۰)
- ↑ سلسلہ أحادیث الضعیفہ والموضوعة، ۴؍۱۰۹، ۱۶۰۵۔
- ↑ جامع الاحادیث القدسیہ، ۱؍۵۵، ۱۰؍۳۱۳ )العلل، ۳۶۰۳، ۳۵۳۹(
- ↑ اعجاز القرآن والبلاغة النبوية، ۳؍۳۸۴، A؍۳ موسوعہ اقوال الامام احمد، ۵؍۲
- ↑ مجمع الزوائد، ۸؍۳۷۰ ، (۱۳۷۶۵(
- ↑ تھذیب التهذيب ، ۴۵۰۷
- ↑ التاریخ الکبیر، ۶؍۲۴۵ (۲۲۹۵(
- ↑ تاریخ بغداد، ۸؍۱۷۱؛ تاريخ دمشق ابن عساکر، ۱؍۱۹۶
- ↑ سلسلۃ الاحاديث الضعیفہ، ۱۲؍۵۶۱، ۵۷۵۲۔
- ↑ الموضوعات لابن جوزی، کتاب التوحید، ۱؍۱۱۹۔
- ↑ لسان المیز۴۹، ۱۸۱
- ↑ ابن ابى الدنىا، ۱/۲، شعب الايمان للبيهقي ۹/۱۷۷ (۶۴۴۸)
- ↑ سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، ۵؍۲۵۲ (۲۲۲۵)۔
- ↑ الکامل فی الضعفاء ، ۵؍۱۴۱۔
- ↑ تفسیر ابن ابی حاتم،سورہ المائدہ،آیت۶۷،حدیث نمبر۶۶۰۹؛ تاريخ دمشق،۵؍۳۹۳۔
- ↑ سلسلۃ الاحادیث الضعیفہ، ۱۰؍۴۵۴ (۴۹۲۲(
- ↑ میزان الاعتدال، ۳؍۳۴ (۵۸۷۲)۔
- ↑ الکامل فی الضعفاء ، ۶؍۳۲۲ (۱۳۴۷)۔
- ↑ نوادر الاصول،ج۱،ص۹۱۔
- ↑ احیاء علوم الدین، ۲؍۷۸۔
- ↑ المغنی عن حمل الاسفار فی فضیلتہ الذکر، ۱، ۲۴۴
- ↑ الكامل في الضعفاء، ۸۳؍۷۔
- ↑ جامع الاحادیث، ۱؍۱۰ (۴۲۰۹)۔
- ↑ مجمع الزوائد، ۱؍۱۶؛ ۱۱؍۳۱۳ (۱۸)(۱۸۵۰۴)۔
- ↑ مسند ابي ىعلىٰ، ۷/۱۵۸، ۱۶۴
- ↑ ابن ابی حاتم، رقم، ۲۰۵۶
- ↑ سلسلہ الاحادیث الضعیفہ، ۱۴؍۱۰۱۶ (۶۹۳۶)۔
- ↑ نصب الرایہ، ۴؍۲۷۵۔
- ↑ نوادر الاصول، ۱/۱۷۶
- ↑ سلسلہ الاحادیث الضعيفة، ۷ ؍۲۱۲، ( ۳۲۲۶)؛ الجامع الصغیر، ۱۱؍۳۲۴، ( ۴۸۷۷(
- ↑ الجرح و التعدیل ، ۲؍۳۸۴
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |