36
1
2018
1682060034497_647
101-116
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/27/20
http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/27
Tafseer Imam Alūsī Rooh Ul Ma’Ânī Methodology Tafseer Imam Alūsī Rooh ul Ma’ânī Methodology
قرآن کریم کی توضیح وتشریح کے لیے تفسیر کالفظ استعمال ہوتا ہے، قرون اولٰی سے دور حاضر تک ہزاروں علماء اور مفسرین نے قرآن مجید کے معانی و مفہوم کی وضاحت کے لیے تفاسیر لکھی ہیں، ہر تفسیر میں مصنف کا اپنا منہج ہوتا ہے، جسے معلوم کیے بغیر اس تفسیر سے استفادہ کرنا صحیح معنوں میں مشکل ہوتا ہے، تفسیر روح المعانی، امام شہاب الدین آلوسی ؒ کی تصنیف ہے،زیر نظر مقالہ میں آپ کا تفسیری منہج تحقیقی انداز میں بیان کیا جاتا ہے، مگر اس سے پہلے امام آلوسی ؒ کے مختصر حالات پیش کیے جاتے ہیں۔
امام آلوسی رحمہ اللہ کا مختصر تعارف
نام ونسب
سید شہاب الدین محمود بن سید عبد اللہ آفندی،الآلوسی[1]،بغدادیؒ[2]۔ابوالثناء کنیت اور شہاب الدین لقب تھا[3]۔شریف النسَبین تھے۔ والد کی طرف سے نسبی حُسینی اور والدہ کی طرف سے حَسَنی تھے۔ اپنے نسب کے بارے میں سورۃ الشعراءکے آخر میں رقم طراز ہیں:
میں اس بات پراللہ سبحانہ وتعالیٰ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ مجھے عالی نسب میں پیدا کیا اورایمان کے زیور سے آراستہ کردیا،سید الکونین ﷺ کے اولاد میں ولادت نصیب فرمائی،کیونکہ میں ماں کی طرف سے سیدنا حسن اور باپ کی طرف سے سیدنا حسین کے اولاد میں سے ہوں[4]۔
ولادت
آپ نے 14شعبان بروز جمعہ1217ھ =1802ء کو بغداد میں سيد عبد الله بن محمود الآلوسی کے ایک ایسے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی[5]۔ جہاں کے شب وروز دینی اذکار و اسلامی فکار سے مملو تھے،جس میں مجالس العلم منعقد ہوتے تھےاورجہاں سے علوم اسلامیہ کے سرچشمے پھوٹتے تھے۔
حصول علم
علامہ آلوسیؒ کا تعلق بغداد کے معروف علمی خاندان سے تھا۔آپ کا گھر علم کی تجلیوں سے معمور تھا۔ آپ کے والد خود مدرس تھے جن کی آغوش تربیت میں علامہ آلوسیؒ نے پرورش پائی اور صغر سنی سے طلب علم کا شوق پروان چڑھنے لگا ۔خداداد ذہانت و فطانت اور اپنے شوق کی وجہ سے سب سے پہلے امام آلوسیؒ نے قرآن حفظ کیا۔اس کے بعد علوم دینیہ کے حصول میں لگ گئے، دس سال کی عمر تک تمام ابتدائی علوم اپنے والد سے حاصل کیے۔طلب علم کے سلسلے میں صرف اپنے علاقے تک محدود نہیں رہے بلکہ بغداد اور قرب وجوار کے ممتاز علماء اور اکابرین فقہاء سے استفادہ کیا[6]۔جن میں سے چند مشہور شیوخ کے نام زیب قرطاس ذیل ہیں:
سیدعبد اللہ بن محمود آلوسیؒ، سید علی بن سید احمؒد، خالد بن حسين، ضياء الدين النقشبندیؒ، عبد العزیز بن محمد شوافؒ، شیخ یحییٰ المزورى العمادیؒ، عبد الغفار بن عبد الواحد بن وہب، المعروف بعبد الغفار الاخرسؒ، محمد اسعد حیدریؒ،ملادرویشؒ اور حمد الزندؒ۔
حلقہ درس اورتلامذه
علم وفضل میں کمال کے سبب اللہ تعالٰی نے آپ کو بڑی شہرت وناموری عطاء فرمائی تھی۔ آپ کی ذات طالبانِ علوم کی مرجع بن گئی۔شباب ہی سے آپ اہل علم کی توجہ کا مرکز بن گئے تھے۔اسی وجہ سے بغداد اور دیگر علاقوں کے طالبان علم جوق درجوق آپ کی مجلس درس میں حاضر ہو کر اکتساب علم وفن کرنے لگے۔آپ کی پر وقار مجلس سے فیض پانے والوں کی تعداد شمار سے زیادہ ہے،سید محمو د شکری آلوسی ؒان کے تلامذہ کے متعلق لکھتے ہیں:آپ کی علمی مجلسوں سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ہر طرف سے طالبان علم ان کے حلقہ درس میں شامل ہوکر اپنا علمی پیاس بجھاتے رہے[7]۔
صاحب فہرس الفہارس لکھتے ہیں: آپ کے علمی فیضان سے بہت سے لوگ بہرہ یاب ہوئے[8]۔
ان کے تلامذہ کے صفوں میں ایسے مقتدر اصحاب علم بھی ہیں جو آسمان علم پر چاند سورج بن کر چمکے اور ان کی تابانیوں سے ایک عالم منور ہوا، چندنامورتلامذہ یہ ہیں:
سید عبدالرحمن آلوسیؒ، سيد عبد الحميد آلوسیؒ، عبداللہ بہاء الدین بن محمود بن عبد اللہ آلوسیؒ، سعد الدين بن محمود المعروف بعبد الباقیؒ، عبد الفتاح بن الحاج شواف زاده بغدادیؒ، محمد امين آفندیؒ، محمدبن حسینؒ اور محمد امين ادہمیؒ۔
مؤلفات
علامہ شہاب الدین آلوسیؒ نے جہاں اپنے علم وفن سے درس وتدریس کے ذریعہ لوگوں کو فائدہ پہنچایا وہیں اپنے وسیع معلومات اور علمی تحقیقات سے مستقبل میں آنے والی نسلوں کے استفادہ کے لیے مختلف الانواع گراں قدر مصنفات یادگار چھوڑیں جو کمیت وکیفیت ہر لحاظ سے کافی اہمیت رکھتی ہے۔انہوں نے ایسے اہم موضوعات پر قلم اٹھایا جس کا آپ کے زمانہ میں سخت ضرورت تھی۔
آپ کی تصنیفات کے متعلق محمد بہجۃ اثری لکھتے ہیں:علامہ آلوسی ؒ کی قلمی کاوشیں حسن تحریر،دلکش طرز تصنیف اوراسلوب بیان کے ساتھ ساتھ آپ کے تبحر علمی اورآزادی فکرکی وجہ سے امتیازی حیثیت رکھتی ہیں۔فتاویٰ،رسالہ جات اور اشعار کے علاوہ بیس سے زائدکتابیں آپ کی قلم سے منصہ شہود پر آئیں[9]۔
آپ کی بعض کتابیں امتداد زمانہ سے ناپید ہوگئی ہیں مگر ان کے تذکرے سیر وتاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں،چند اہم تصانیف درج ذیل ہیں۔
روح المعانی فی تفسیر القرآن العظيم والسبع المثانی، الأجوبة العراقية عن الأسئلة الإراضية، حاشية شرح القطر، البيان شرح البرهان فی إطاعة السلطان، شرح سلم العروج، دقائق التفسير، فوائد وتعليقات فی النحو۔
تفسیر روح المعانی کا تعارف
نام
علامہ آلوسی ؒ نے اپنی تفسیر کا نام ”روح المعاني في تفسیر القرآن العظيم والسبع المثاني“رکھا ہے۔ مقدمہ میں اس نام کی وجہ تسمیہ لکھتے ہیں:میں نے اس تفسیر کو مکمل کرنے کے بعد اس کے نام کے بارے میں سوچنا شروع کیا تو کوئی پسندیدہ نام ذہن میں نہیں آیا، میں نے اپنی اس مشکل کا اظہار وزیراعظم علی رضاپاشاکے سامنے کیا،انہوں نے فی الفور اس کا نام ” روح المعاني في تفسیر القرآن العظيم والسبع المثاني“تجویز کیا[10]۔
سببِ تالیف
علامہ آلوسی ؒ تفسیر روح المعانی کا سبب تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:کئی بار میرے دل میں یہ بات آئی کہ میں اپنے خیالات وافکار کوتحریر کے پنجرہ میں قیدکرلوں ۔ لیکن تشویش خاطر، تنگی دل اور شدت تھکاوٹ کی وجہ سے میں ایسا نہ کرسکا ۔ یہاں تک کہ میں نےرجب 1252 ہجری میں خواب دیکھا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے مجھے زمین و آسمان لپیٹنے اور زمین کو طولاً عرضاً جدا کرنے کا حکم دیا تو میں نے ایک ہاتھ آسمان کو اٹھایااور دوسرے ہاتھ کو پانی کے مستقرسے نیچے رکھا۔میرے خیال میں یہ کوئی برا گندہ خواب نہیں تھا نیز میں اسےوہم کاخیال نہیں سمجھتا تھا۔جب میں بیدار ہوا اورمیں نے خواب کی تعبیر تلاش کرنا شروع کیا تو بعض کتب میں تعبیر ملا کہ یہ تالیف تفسیر کو اشارہ ہے۔ تو میں نے اللہ تعالیٰ کا نام لے کر تفسیر لکھنا شروع کیا۔
زمانۂ تالیف
علامہ آلوسیؒ نے اس تفسیر کو پندرہ سال کی شبانہ روز محنت کے بعد مکمل کیا۔ مقدمہ میں رقم طراز ہیں:میں نے اس تفسیر کا آغاز 16 شعبان 1252 ھ کو بوقت شب کیا اور اس وقت میری عمر چونتیس سال تھی[11]۔تفسیر کی تکمیل کی تاریخ ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: منگل کی رات 1277ھ کو مجھے قرآن کریم کی تفسیر مکمل کرنے کی سعادت نصیب ہوئی[12]۔
علامہ آلوسیؒ کا منہج
علامہ آلوسیؒ کی تفسیر کا شمار عربی زبان کے ممتاز تفاسیر میں ہوتا ہے، انہوں نے اس تفسیر میں مختلف قسم کے علوم وفنون جمع کیے ہیں۔یہ تفسیر ہر لحاظ سے تفسیر القرآن بالقرآن، تفسیربالماثور،فقہی مسائل، علم النحو، علم الصرف وغیرہ علوم وفنون کا ذخیرہ ہے۔
تفسیری اصولوں کا التزام
تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی ؒ نے روایت اور درایت دونوں کا منہج اختیار کیا ہے،اسی وجہ سے تفسیر بالرائے کے اقسام میں روح المعانی کوتفسیر بالرائے المحمود کا درجہ ملاہے۔ علامہ آلوسیؒ کسی آیت کا تفسیر کرتے وقت تفسیر القرآن بالقرآن،تفسیر القرآن بالسنۃ،تفسیر القرآن باقوال الصحابۃ اور تفسیر القرآن باقوال التابعین کا اصول مدنظر رکھتے ہیں۔یہ بنیادی اصول تفسیر روح المعانی میں بالترتیب ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ اولاً تفسیر القرآن بالقرآن کا اہتمام کرتے ہیں اور اس کو تمام تفاسیر پر مقدم کرتے ہیں۔ تفسیر بالقرآن کے بعد ان کی دوسری نمایاں کوشش تفسیر بالسنۃ ہوتی ہے۔ مختلف روایات واحادیث ذکر کرتے ہوئے حدیث کا جائے ورود / سبب ورود پیش کرنے کا اہتمام کرتے ہیں اور آخر میں ترجیحی روایت پیش کرتے ہیں۔قرآن کی تفسیر صحابہ کے اقوال سے کرتے ہیں اور پھر تابعین وتبع تابعین اور ائمہ سلف کے آثار بھی نقل کرتے ہیں۔
سورۃ کا تعارف کرنا
امام شہاب الدین آلوسیؒ سورۃ کی تفسیر کے آغاز میں اس سورۃ کا نام ذکر کرتے ہیں، پھر اس سورۃ کے مکی یا مدنی ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں اور اس میں علماء کرام کے آراء نقل کرتے ہیں،اقوال کی ترجیح وتضعیف بھی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرسورۃ الفاتحہ کے آغاز میں لکھتے ہیں:
"اختلف فيها، فالأکثرون علی أنها مكية بل من أوائل ما نزل من القرآن علی قول وهو المروی عن علي وابن عباس وقتادة وأکثر الصحابةCite error: Invalid tag; invalid names, e.g. too many ".
سورۃ کے دیگر نام کا تذکرہ کرنا
اگر ایک سورۃ کے متعدد نام ہوں تو ان کا تذکرہ بھی کرتے ہیں۔بعض اوقات ساتھ میں وجہ تسمیہ بھی بیان فرماتے ہیں مثلا سورۃ الفاتحہ کے اسماء کے متعلق لکھتے ہیں:”ولهذه السورة الکريمة أسماء أوصلها البعض إلی نيف وعشرين، أحدها: فاتحة الکتاب لأنها مبدؤه علی الترتيب المعهود لا لأنها يفتتح بها في التعليم وفي القراءة في الصلاة[13] ".
مکی ومدنی ہونے کی وضاحت کرنا
اگرسورۃ یا آیات کے مکی مدنی ہونے میں اختلاف ہو تو اس کی وضاحت بھی کرتے ہیں، جیسے سورۃ الانعام ہی کی ابتداء میں لکھتے ہیں:
"أخرج النحاس في ناسخه عن الحبر أنها مکية إلا ثلاث آيات منها فإنها نزلت بالمدينة ﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ﴾ إلی تمام الآيات الثلاث وأخرج ابن راهويه في مسنده وغيره عن شهر بن حوشب أنها مکیة إلا آيتين﴿قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ﴾ واللتي بعدها[14]".
تعداد آیات کی وضاحت کرنا
تعداد آیات میں اختلاف کی وضاحت بھی کرتے ہیں،سورۃ الانعام ہی کے بارے میں لکھتے ہی:
”وعدة آياتها عند الکوفيين مائة وخمس وستون وعند البصريين والشاميين ست وستون وعند الحجازيون سبع وستون[15]“.
اسبابِ نزول ذکر کرنا
اگر آیت یا سورۃ کا شان نزول ہو تو علامہ آلوسی ؒ اُسے بھی نقل کرتے ہیں لیکن فضائل وبرکات کی طرح اس میں بھی صحیح ترین سبب نزول بیان کرتے ہیں اور ضعیف سببِ نزول کی تردید کرتے ہیں۔مثلا تحویل قبلہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
"أخرج البخاري ومسلم في صحيحهما عن البراء رضي الله عنه قال: صلينا مع رسول الله صلی الله عليه وسلم بعد قدومه إلی المدينة ستة عشر شهرا نحو بيت المقدس، ثم علم الله تعالیٰ هوی نبيه عليه الصلاة والسلام فنزلت﴿قَدْ نَرَى ﴾الآیة[16]".
سورۃ کے فضائل وبرکات کا تذکرہ کرنا
اگر کسی سورۃ کے فضائل موجود ہوں تو اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں،جیسے سورۃ الانعام ہی کے فضائل میں وارد مرویات (کہ یہ سورۃ اس شان سے نازل ہوئی ہے کہ ہزاروں فرشتے اس کی جلو میں تسبیح پڑھتے ہوئے آئے تھے وغیرہ) میں ضعیف آثار کی طرف رہنمائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:” وغالبها فی هذا المطلب ضعیف وبعضها موضوع[17]“.
ربط ومناسبت سورۃ/آیات بیان کرنا
اس کے بعد سابقہ سورۃ سے ربط اور مناسبت کا ذکرکرتے ہیں،سورۃ البقرۃ کا سورۃ الفاتحہ سے ربط کے متعلق رقم طراز ہیں:
”ووجه مناسبتها لسورة الفاتحة أن الفاتحة مشتملة علی بيان الربوبية أولا والعبودية ثانیا وطلب الهداية في المقاصد الدينية والمطالب اليقينية ثالثا، وکذا سورة البقرة مشتملة علی بيان معرفة الرب أولا کما في ﴿يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ﴾ وأمثاله ولی العبادات وما يتعلق بها ثانيا وعلی طلب ما يحتاج إلیه في العاجل والآجل آخرا وأيضا في آخر الفاتحة طلب الهداية وفي أول البقرة إيماء إلی ذلك بقوله:﴿هُدىً لِلْمُتَّقِينَ﴾[18]“.
بسا اوقات اگر کسی آیت کی خاص فضیلت وارد ہو تو اس کا بھی ذکر کرتے ہیں۔جیسےسورۃ البقرۃ کی آخری آیتوں کی تفسیر کے بعد اس کی فضیلت میں سیدنا ابن مسعود کی مرفوعاروایت نقل کرتے ہیں :(من قرأ الآيتين من آخر سورة البقرة فی ليلة کفتاه) جس شخص نے رات کو سورۃ البقرۃ کے آخری آیات پڑھ لیں تو یہ اس کے لئے کافی ہیں[19]۔
تشریح ِ لغات
عربی بہت ہی وسیع زبان ہے۔اس کےمفردات کا حل بھی لازمی ہے۔اس لئےاکثر مفسرین قاری قرآن کو آسانی سے سمجھانے کے لئے عربی لغت کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ آیات کی تفسیر کرتے وقت لغوی تحقیق میں انتہاء تک پہنچ جاتے ہیں۔ تفسیرروح المعانی میں عربی لغات سے استناد کا ایک ضخیم ذخیرہ موجود ہے۔ یہی حل مختصر اور سہل ہے لیکن بہت ہی عمدہ اور نہایت آسان ہے۔ مثال کے طور پر سورۃ بقرۃ کی آیت﴿وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ ﴾(اور جو کچھ ہم نے انہیں دیا ہے[20]) میں لفظ”الرزق“کے اشتقاق سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”والرزق بالفتح لغة الإعطاء لما ينتفع الحيوان به وقيل: إنه يعم غيره کالنبات وبالکسر إسم منه ومصدر أيضا علی قول. وقيل: أصل الرزق الحظ ويستعمل بمعنی الرزق المنتفع به. وبمعنی الملك وبمعنی الشکر عند أزد. واختلف المتکلمون فی معني شرعا فالمعول عليه عند الأشاعرة ما ساقه الله تعالیٰ إلی الحيوان فانتفع به سواء کان حلالا أو حرام من المطعومات أو المشروبات أو الملبوسات أو غير ذلك والمشهور أنه إسم لما يسوقه الله تعالیٰ الی الحيوان ليتغذی[21]“.
قراءات پر بحث کرنا
علامہ آلوسی قراءات کی اختلاف کا بھی تفصیل سے ذکر کرتے ہیں، اس لحاظ سے یہ قراءات قرآنی کا ایک جامع انسائیکلوپیڈیا بھی ہے۔مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ میں ﴿وَمَا يَخْدَعُوْنَ ﴾ میں مختلف قراءات نقل کرتے ہیں،لکھتے ہیں:
”وقرأ الحرميان وأبو عمرو: وما يخادعون. وقرأ باقي السبعة: وما يخدعون. وقرأ الجارود وأبو الطالوت: وما يخدعون بضم الياء مبينا للمفعول. وقرأ بعضهم: وما يخادَعون بفتح الدال مبينا للمفعول أيضا. وقرأ القتادة والعجلي: وما يخدعون من خدع مضاعفا مبينا للفاعل. وبعضهم بفتح الياء والخاء وتشديد الدال المکسورة وما عدا القراءتين الأولين شاذة[22]“.
نحوی قواعدبیان کرنا
نحو سے علامہ موصوف کو بہت شغف ہے، اور مسائل نحویہ کے ذکر میں انتہائی افراط سے جاتے ہیں، یہاں تک کہ قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ گویا وہ نحو کی کسی کتاب کو پڑھ رہا ہے،اس تفسیر میں مسائل نحو اتنے وافر مقدار میں موجود ہیں،اگر ان کو تفسیر سے نکال دیا جائے تو یہ تفسیر پندرہ کی بجائے دس جلدوں میں آ جائے۔
مسائل نحویہ کے بحث میں تمام ائمہ نحاۃ کے اقوال ذکر کرتے ہیں، اور تائید کے لیے متن بھی پیش کرتے ہیں، جیسے”الـم“کے اعراب کا ذکر بڑی بسط وتفصیل سے کیا ہے،لکھتے ہیں:
”وقد اختلف الناس في إعرابها حسبما اختلفت أقوالهم فیها فإن جعلت أسماء للسور مثلا کان لها حظ من الإعراب رفعا ونصبا وجرا فالرفع علی أنها خبر مبتدأ محذوف أو مبتدأ خبر محذوف والنصب بتقدير فعل القسم أو فعل يناسب المقام وجاز النصب بتقدير فعل القسم فيما وقع بعده مجرور مع الواو ونحو﴿ق وَالْقُرْآنِ﴾ مع أنه يلزم المخالفة بين المتعاطين فی الإعراب أن جعلت الواو للعطف واجتماع قسمين علی شيء واحد إن جعلت للقسم وهو مستکره کما قاله الخليل وسيبويه لأن المعطوف عليه في محل يقع فيه المجرور فيکون العطف علی المحل وہقدر الجواب من جنس ما بعد أن کانت للقسم أولا حاجة للتقدير ويکتفی بجواب واحد إذ لا مانع من أحد القسمين مؤکدا للآخر من غير عطف أو يقال هما لما کانا مؤکدين لشيء واحد وهو الجواب جاز ذلك ولا وجه وجيه للإستکراه وإن کان للضلالة أب فالتقليد أبوها. والجر علی إضمار حرف القسم. وقول ابن هشام أنه وهم لأن ذلك مختص عند البصريين بإسم الله سبحانه وبأنه لا جواب للقسم في سورة البقرة ونحوها ولا يصح جعل ما بعد جوابا وحذفت اللام کحذفها في قوله:
ورب السماوات العلی وبروجها والأرض وما فیها المقدر کائن[23]“.
اشعار سے استشہادکرنا
صحابہ کرام اور تابعین قرآ ن کریم کے مشکل الفاظ کی وضاحت اشعار عرب اور لغت سے کرتے تھے۔مولانا موصوف ادبی ذوق بھی رکھتے ہیں۔ آپ اکثر مقامات پر موقع اور محل کے مناسبت سے آیت کی تفسیر وتوضیح میں نقل کرتے ہیں،مثلا:
”والظاهر أن ﴿وَمَا كانُوْا مُهْتَدِيْن ﴾ عطف علی ما ربحت للقرب مع التناسب والتفرع بإعتبار المعنی الکنائي وبتقدير المتعلق لطرق الهداية یندفع توطم أن عدم الإهتداء قد فهم مما قبل فيکون تکرارا لما مضی وهو إما من باب التکميل والإحتاس کقوله:
فسقی ديارک غير مفسدهاصوب الغـام وديمة تهمی
أو من باب التتميم کقوله:
کأن عيون الوحش حول خبائنا وأرحلنا الجزع الذی لم یثقب[24]“.
اسرائیلیات کے بارے میں علامہ آلوسیؒ کا موقف
روح المعانی ایک تفسیرہے اور تفسیرمیں نقل کا عمل دخل زیادہ ہےاسی لئے مفسرین کو تفسیر کے حوالے سے جو بھی روایت ملتی ہے،اُس کو بلا چوں وچراں قبول کرتے ہیں۔ساتھ ہی اہل کتاب کے نو مسلم لوگوں کے قصے بھی تفسیرمیں شامل کئے گئے۔نتیجتاً تفسیر میں ہر قسم کےرطب ویابس (ضعیف،باطل،موضوعی اور اسرائیلی) روایات کو جگہ مل گئی۔ تفسیرروح المعانی اسرائیلیات سے بالکل خالی ہے ۔بلکہ علامہ آلوسیؒ اسرائیلیات اور اخبار مکذوبہ پر شدید رد کرتے ہیں،فرماتے ہیں کہ یہ اہل کتاب کے ذنادقہ کی وضع کردہ ہے ۔اور ان مفسرین پر تعجب کا اظہار کیا ہے جنہوں نے اپنے کتب تفسیر میں ذکر کیا ہے ۔حافظ ابن کثیر کے بعد علامہ آلوسی ہی واحد مفسر معلوم ہوتے ہیں جنہوں نے اسرائیلیات کے ساتھ محاربہ کیا ہے ۔
مثلاًاللہ تعالیٰ کے قول﴿وَيصْنَعُ الْفُلْکَ﴾(چنانچہ وہ کشتی بنانے لگے[25]) کی تفسیر میں لکھتے ہیں: سیدنا نوح علیہ السلام نے جس لکڑی سے کشتی بنائی تھی،ہم اس کے متعلق بہت سی کہانیاں روایت کرتے ہوئے پاتے ہیں ۔ اس کی لمبائی ،چوڑائی اور اونچائی کے بارے میں اور اس جگہ کے بارے میں جہاں یہ بنائی گئی تھی ۔ان سب کے بعد کہتے ہیں کہ میری تحقیق اور رائے اس کشتی کے متعلقات کے بارے میں یہ ہے کہ یہ سواری کے لئے درست نہیں تھی کیونکہ یہ عیوب اور نقصانات سے خالی نہیں تھی ۔
بلکہ صرف یہ یقین رکھنا ہی کافی ہے کہ سیدنانوح علیہ السلام نے کتاب اللہ میں بیان کئے ہوئے کہانی کے مطابق کشتی بنائی ۔ اس کی لمبائی، چوڑائی اور اونچائی کے بارے میں غور وحوض (بحث) نہ کیا جائے اور اسی طرح اس لکڑی کے بارے میں بھی جس سے کشتی بنی ہوئی تھی اورنہ وقت کے بارے میں وغیرہ وغیرہ ،کیونکہ اس کے بارے میں نہ قرآن کریم ناطق ہے اور نہ صحیح احادیث نے اس کی وضاحت کی ہے[26]۔
مراجع کی نشاندہی کرنا
علامہ آلوسی ؒآیات کی تفسیر کرتے ہوئے مراجع ومصادر کی نشان دہی بھی کرتے ہیں تا کہ قاری اگر مصادر اصلیہ کی طرف رجوع کرنا چاہے تو اسے کوئی تکلیف نہ ہوبلکہ وہاں سے براہ راست مستفید ہو سکے۔اسی لئے آلوسیؒ اکثر مؤلفین کے نام اور کبھی کبھی اُن کی کتابوں کے حوالے دیتے جاتے ہیں۔
علامہ آلوسیؒ اور کائناتی مسائل
علامہ آلوسی ؒاپنی تفسیر میں کائناتی مسائل میں استطراد(طوالت) سے کام لیتے ہیں اور اہل فلکیات اور فلاسفہ کے باتوں کا تذکرہ کرتے ہیں ان میں جو قول ان کو پسند ہو،اسے ذکر کرتے ہیں اور ناپسند مسترد کرتے ہیں ۔
اشاری تفسیر کرنا
تفسیر روح المعانی آیات مبارکہ سے تصوف کے باریک نکات کا استنباط بھی کرتے ہیں۔ علامہ آلوسی ؒنے احصاء نہیں کیا ہے تا ہم جابجا آیات سے مستنبط اہم فوائد بھی ذکرکرتے ہیں۔مثال کے طور پر:
”ومن باب الإشارة أنه تعالیٰ مثل البدن بالأرض والنفس بالسماء والعقل بالماء وما أفاض علی القوابل من الفضائل العلمية والعملية المحصلة بواسطة استعمال العقل والحس وازدواج القوی النفسانية والبدنية بالثمرات المتولدة من ازدواج القوی السماویة الفاعلة والأرضية المنفعلة بإزن الفاعل المختار، وقد يقال: إنه تعالیٰ لما امتن عليهم بأنه سبحانه خلقهم والذين من قبلهم ذکر ما يرشدهم الی معرفة کيفية خلقهم فجعل الأرض التی هي فراش مثل الأم التی يفترشها الرجل وهي أيضا تسمی فراشا، وشبه السماء التی علت علی الأرض بالأب الذی یعلو علی الأم ويغشاها، وضرب الماء النازل من السماء مثلا للنطفة التی تنزل من صلب الأب وضرب ما يخرج من الأرض من الثمرات مثلا للولد الذي يخرج من الأم، کل ذلك ليؤنس عقولهم ويرشدها الی معرفة کيفية التخليق وبعرفها أنه الخالق لهذا الولد والمخرج له من بطن أمه کما أنه الخالق للثمرات ومخرجها من بطون أشجارها ومخرج أشجارها من بطن الأرض، فإذا وضح ذلك لهم أفردوه بالألوهية وخصوه بالعبادة وحصلت لهم الهداية[27]“.
حدیث پر حکم لگانا
تفسیر روح المعانی میں بے شمار روایات منقول ہیں۔علامہ آلوسی ؒ اکثر حدیث کو باحوالہ نقل کرتے ہیں اور بسا اوقات حدیث پر صحیح اور ضعیف کا حکم بھی لگاتے ہیں، شاذ ونادر مواقع پر اس کی تصحیح یا تضعیف نہیں فرماتے۔تا ہم شاذ ونادر مواقع پر مفتی صاحب نے حدیث پر صحیح اور ضعیف کا حکم بھی لگایا ہے۔
”من قال بکراهة أن يقال سورة کذا بل سورة يذکر فيها کزا بناء علی ما روي عن أنس وابن عمر من النهي عن ذلك لا يعتد به إذ حديث أنس[28] ضعيف أو موضوع وحديث ابن عمر[29] موقوف عليه وإن روی عنه بسند صحيح[30]“.
فرق باطلہ کا ردکرنا
علامہ آلوسی ؒنے نہ صرف قرآن کریم کی تفاسیر احادیث وآثار صحابہ سے کی ہے بلکہ وہ اپنی تفسیر میں جابجا باطل فرقوں کا رد بھی کرتے چلے آئے ہیں۔مثلا آیت﴿وَاُوْلٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ کی تفسیر میں لکھتےہیں:
”وتثبت المعتزلة والخوارج بهذه الآية لخلود تارك الواجب فی العذاب لأن قصر جنس الفلاح علی الموصوفين يقتضی انتفاء الفلاح عن تارك الصلاة والزکاة فيکون مخلدا فی العذاب وهذا أوهن من بيت العنکبوت[31]“.
فقہی مسائل پر بحث کرنا
علامہ آلوسیؒ احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں۔ فقہاء کے اختلافی اقوال و دلائل بھی بیان کرتے ہیں اوراس سلسلے میں تعصب سے کام نہیں لیتے۔ مثلاً بسم اللہ الرحمن الرحیم کو قرآن کریم کی آیت قرار دیتےہوئے لکھتے ہیں کہ یہ قرآن میں سورۃ نمل کاجزء ہے اور اس پر بھی اتفاق ہے کہ سوائے سورۃ توبہ کے ہر سورۃ کے شروع میں لکھی جاتی ہے لیکن اس میں ائمہ مجتہدین کا اختلاف ہے کہ بسم اللہ سورۃالفاتحہ یا تمام سورتوں کا جزء ہے یانہیں؟ اس کے بارے میں آپ نے کئی اقوال ذکر کرکے مختلف فقہاء کرام کے حوالے دئے ہیں ۔حنفی مسلک کا قول(بسملہ علیحدہ آیت ہے سورتوں کے درمیان تبرکا فصل کرنے کے لئے نازل کی گئی ہے) ذکر کرنے اور اس کی تائید کرنےکے بعد لکھتے ہیں:یہ ہمارا مشہور مذہب ہے[32]۔
نتائج البحث
علامہ آلوسیؒ خاتمۃالمحققین، عمدۃالمحققین،عمدۃالمدققین اور امام المفسرین ہیں۔آپ کی تفسیر روح المعانی کا شمار عربی زبان کے معتبر ترین تفاسیر میں ہوتا ہے۔ تفسیرروح المعانی ایک ایساقیمتی تفسیری انسایئکلوپیڈیا ہےجو اپنی جامعیت، وسعت اور مختلف علوم وفنون کی مجموعے کی بناء پر ممتاز ہے۔آپ نے انتہائی جہد سے کام لیتے ہوئے تفسیر بالماثور، رائے محمود، فقہی، نحوی، بلاغی اور صوفی اشاری وغیرہ مختلف جہات سے اس تفسیر پہ کیا کام ہے، نیزانہوں نےانتہائی احتیاط سے اپنی تفسیر میں سلف کے اقوال اور خلف کے مقبول آراء کو درج کیا ہے، اسرائیلیات و اخبار مکذوبہ پر شدید تنقید کی ہے۔انہی خصوصیات کی وجہ سے آپ کی تفسیروقتِ تصنیف سے لے کر آج تک مسلسل اطرافِ عالم میں مقبول ہے۔
حوالہ جات
- ↑ آلوس کی طرف نسبت ہے جو شام کے قریب دریائے فرات کے کنارے ایک بستی کا نام ہے۔( معجم البلدان246:1)
- ↑ عبد الرزاق بن حسن بن ابراہیم البیطارمیدانی دمشقی،حلیۃ البشر فی تاریخ القرن الثالث والعشر،تحقیق:محمد بہجہ بیطار1450:1، دارصادربیروت 1413ھ=1994ء
- ↑ پطرس بستانی،دائرۃ المعارف الاسلامیہ344:1،بیروت،طبع 1956ء
- ↑ آلوسی،شہاب محمود بن عبد اللہ حسینی،روح المعانی فی تفسیر القرآن العظیم والسبع المثانی، تحقیق:ماہر حبوش190:1،مؤسسۃ الرسالۃ 1431ھ = 2010 ء
- ↑ الاعلام 176:7
- ↑ غرائب الاغتراب ونزہۃ الالباب3
- ↑ المسک الاذفر 135
- ↑ فہرس الفہارس 140:1
- ↑ اعلام العراق 25
- ↑ === تفسير روح المعانی 101:1 ===
- ↑ === تفسير روح المعانی 102:1 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 485:29 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 172:1 ===
- ↑ === ابن راہویہ،ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن مخلد بن ابراہیم الحنظلی المروزی،مسند اسحاق ابن راہویہ،تحقیق:ڈاکٹر عبد الغفور بن عبد الحق البلوشی، 230:4، حدیث:2038، مکتبۃ الایمان مدینہ منورہ،طبع اول 1412ھ=1991ء ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 8:5 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 18:3 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 8:6 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 318:1 ===
- ↑ === صحیح بخاری،کتاب المغازی(64)باب،حدیث:4008؛صحیح مسلم،کتاب صلاۃ المسافرین وقصرہا(6)باب فضل سورۃالفاتحہ وخواتیم سورۃ البقرۃ(43)حدیث:255-(807) ===
- ↑ === سورۃ البقرۃ3:2 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی361:1 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 425:1 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی 332:1 ===
- ↑ تفسیر روح المعانی 458:1
- ↑ سورۃ ہود38:11
- ↑ تفسیر روح المعانی 441:11
- ↑ === تفسیر روح المعانی27:2 ===
- ↑ سیدنا انس کی روایت ہے: لا تقولوا سورة البقرة ولا سورة آل عمران وسائر القرآن ولکن قولوا: السورة التی یذکر فیها البقرة والسورة التی يذكر فيها آل عمران والقرآن على نحو هذا۔ (بیہقی،ابو بکر،احمد بن حسین بن علی بن موسیٰ خسروجردی،شعب الایمان،تحقیق:ڈاکٹڑ عبد العلی عبد الحمید حامد کتاب تعظیم القرآن(19)فصل فی الاستشفاء بالقرآن، حدیث:2346، مکتبۃ الرشد للنشر والتوزیع بالریاض بالتعاون مع الدار السلفیۃ بمبی ہند،طبع اول 1423ھ=2003ء)یہی روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں عبیس بن میمون ہیں جو امام بخاری اور امام احمد کے نزدیک منکر الحدیث جب کہ امام ابو داؤد اور یحییٰ بن معین کی تصریح کے مطابق ضعیف ہے۔ (امام بخاری،ابو عبد اللہ،محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرۃ،التاریخ الکبیر79:7،ت:359،دائرۃ المعارف الاسلامیہ حیدرآباد دکن،بدون تاریخ؛ابن عدی،ابو احمد بن عدی جرجانی، الکامل فی ضعفاء الرجال،تحقیق:عادل احمد عبد الموجود وغیرہ90:7، ت:1537،دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان،طبع اول1418ھ=1997ء ) امام بیہقی روایت نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:اس میں عبیس منکر الحدیث ہے،روایت درست نہیں۔(شعب الایمان172:4)
- ↑ سیدنا ابن عمر کی روایت ہے: لا تقولوا سورة البقرة ولکن قولوا :السورة التی یذکر فیها البقرة۔ (شعب الایمان،کتاب تعظیم القرآن(19)فصل فی الاستشفاء بالقرآن،حدیث:2347) شعب الایمان میں یہی روایت سیدنا ابن عمرسے موقوفا مروی ہے۔
- ↑ تفسیر روح المعانی 171:1
- ↑ === تفسیر روح المعانی378:1 ===
- ↑ === تفسیر روح المعانی182:1 ===
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |