31
2
2015
1682060034497_765
1-19
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/161/153
عورت معاشرے کی تعمیر و تشکیل اور قیام میں اہم مقام رکھتی ہے ، عورت کے بغیر نسل انسانی کا استحکام اور نشو ونما ناممکن ہے، اس اہمیت کے باوجود معاشرے میں بڑی حد تک اسے ظلم و تعدی کا نشا نہ بنایا جاتارہا ہے،اس کی اہم وجوہات میں اسلامی تعلیمات سے متصادم بعض مقا می رسوم، قدامت پسندی اور حقیقی اسلامی تعلیمات سےبے خبری وغیرہ شامل ہیں۔قرآن و حدیث میں حقوق نسواں کا بر ملا ذکر کیا گیا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں بعض ثقافتی و تہذیبی رسومات اورمنفی رویوں نے دین سے دوری کی وجہ سے عورت کے معاشرتی کردار پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں .
يٰٓاَيُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ وَّخَلَقَ مِنْھَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالًا كَثِيْرًا وَّنِسَاۗءً وَاتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِيْ تَسَاۗءَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيْبًا[1].
"اے لوگو اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں پھیلائیں اس اللہ سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہو اور رشتہ داری کے تعلقات کو بگاڑنے سے بچو، بےشک اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے"۔
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ کا ارشادِہے :
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّــقَوْمٍ يَّتَفَكَّرُوْنَ [2].
"اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ تمہارے لیے تمہیں میں سے بیویاں پیدا کیں تاکہ ان کے پاس چین سے رہو اور تمہارے درمیان محبت اور مہربانی پیدا کر دی، جو لوگ غور کرتے ہیں ان کے لیے اس میں نشانیاں ہیں"۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: إنماالنساءشقائق الرجال[3]
ترجمہ: بے شک عورتیں مردوں کے مساوی ہیں ۔
شقیق یا شقیقہ عربی زبان میں کسی چیز کے درمیان سے پھٹے ہوئے دو برابر برابر حصے کو کہتے ہیں۔ اسی سے درد شقیقہ بولا جاتا ہے یعنی وہ درد جو سر کے آدھے حصے میں ہو ۔ اوپر کی روایت میں اسی مفہوم میں عورت کو مرد کا شقیقہ کہا گیا ہے ۔ یہ عورت کی حیثیت کی نہایت صحیح تعبیر ہے ۔ اسلام کے مطابق عورت اور مرد دونوں ایک کل کے دو برابر برابر اجزاء ہیں ۔ اس کل کا آدھا عورت ہے اور اس کا آدھا مرد ۔ اس اعتبار سے یہ بات عین درست ہوگی کہ عورت کو نصفِ انسانیت کا لقب دیا جائے ۔ [4]
ایک اورحدیث میں ارشاد ہے :
مااستفادالمؤمن بعد تقوى الله عزوجل خيرا من زوجة صالحة، إن أمرها أطاعته، وإن نظر إليها سرته، وإن أقسم عليها أبرته، وإن غاب عنها نصحته في نفسها وماله[5].
"مومن شخص اللہ تبارک وتعالی کے ہاں تقویٰ کے بعد کسی چیز سے اتنا فائدہ نہیں اٹھاتا جتنا نیک بیوی سے ، ایسی بیوی کہ اگر شوہر اسے کوئی حکم دے تو بجالائے، اس کی طرف دیکھے تو خوش ہوجائے، اگر اس کے متعلق (کسی بات پر ) قسم کھائے تو وہ عورت (اس قسم میں اپنے شوہر کو جھوٹا ہونے سے ) بری کردے اور اگر کہیں چلا جائے تو وہ عورت اپنی اور اس کے مال کی حفاظت کرے"۔
خواتین کے احترام میں نبی کریم صلی اللہ کھڑے ہوجاتے ، چنانچہ ایک مرتبہ ارشاد فرمایا: اللهم أنتن من أحب الناس لي[6]. ترجمہ: کہ آپ تمام لوگوں میں میرے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے خوب پیار فرماتے ،گھر کے کام کاج میں ازواج مطہرات کی مدد کرتےاور زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کے ساتھ کھیل کود میں شرکت فرماتے ،کبھی حضرت عائشہ جىت جاتی اور کبھی آپ صلی اللہ جىت جاتے اور مزاحاً فرماتے"هذه بتلك"[7] یعنی یہ جیت اس ہار کے جواب میں ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عید کی نمازوں میں شریک ہونے کا حکم دیا اور فرمایا : لولم يكن لهن جلباب فليستعرنه من جارتهن[8]. جن دو عورتوں کے پاس اپنا برقع یا چادریں نہ ہوں تو نمازِ عید میں شرکت کے لیے وہ اپنے پڑوسنوں سے مانگ لیا کریں ۔ اس کے علاوہ انہیں نماز جنازہ اور نماز باجماعت میں شریک ہونے کے حوالے سے ارشاد فرمایا:لاتمنعواإماءالله مساجدالله[9].یعنی اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں حاضری سے نہ روکو۔
قولی ارشادات کے ساتھ ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی طور پر بھی عورتوں کوعزت و احترام کا مقام عطا فرمایا ، چنانچہ آپ ان کے مشورے کو توجہ سے سنتے بلکہ کئی امور میں آپﷺ نے ان کی رائے کو وقعت دی، نزولِ وحی کا واقعہ بھی آپ ﷺ نے سب سے پہلے اپنی زوجہ مطہرہ حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا ہی سے ذکر فرمایا تھااور ان کی گفتگو سے آپﷺ کی ڈھارس بندھی [10]۔
یہاں صلح حدیبیہ کا تذکرہ بھی افادہ سے خالی نہ ہوگا ، نبی ﷺ نے مدنی دور میں جب قریش مکہ سے وہ معاہدہ کیا جو معاہدۂ حدیبیہ کے نام سے مشہور ہے تو صحابہ میں سخت بے چینی پھیل گئی کیونکہ یہ معاہدہ بظاہر دب کر کیا گیا تھا اور اس میں کئی باتیں صریح طور پر مخالفین کے حق میں تھیں چنانچہ صحابہ میں بہت زیادہ غم و غصہ تھا ۔ معاہدہ کی تکمیل کے بعد آپ نے صحابہ سے فرمایا کہ اب ہمیں مکہ نہیں جانا ہے بلکہ حدیبیہ سے واپس ہوکر مدینہ جانا ہے اس لیے قربانی کے جانور جو تم اپنے ساتھ لائے ہو ، ان کو یہیں ذبح کردو اور سر منڈالو ۔ مگر کوئی بھی صحابی اس کے لیے تىار نہىں تھا۔ آپﷺ نے تین بار اپنے حکم کو دہرایا پھر بھی تمام صحابہ خاموش رہے اور کوئی اپنی جگہ سے نہ اٹھا ۔رسول اکرمﷺ رنج کی حالت میں وہاں سے لوٹ کر اپنے خیمہ میں گئے جہاں آپﷺ کی اہلیہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا موجود تھیں ۔ انہوں نے آپﷺ کو غمگین دیکھ کر اس کا سبب پوچھا ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ آج وہ ہوا جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا ، میں نے مسلمانوں کو حکم دیا مگر ان میں سے کوئی بھی میرے حکم کی تعمیل کے لیے نہیں اُٹھا تو آپ رضی اللہ عنہا نے انہیں مشورہ دیا جس کے الفاظ خود انہی کی زبانی اس طرح ہیں:
لاتلمهم، فإنهم قد دخلهم أمرعظيم ممادخلت على نفسك من المشقة في أمرالصلح، ولكن أخرج ولاتكلم أحدا منهم، وانحربدنك، واحلق رأسك، فإنهم يفعلون كمافعلت. فكان الأمركماقلت[11]۔
" آپ انہیں ملامت نہ کیجئے کیونکہ وہ صلح کے معاملہ میں اسی دردناک کیفیت میں مبتلا ہیں جس میں آپ خود ہیں، البتہ آپ ان کی طرف تشریف لے جائیں اور کسی سے کچھ نہ کہیں بلکہ اپنی قربانی کا اونٹ ذبح کیجئے اور اپنا سرمنڈوائیے، نتیجتاً وہ بھی ایسا ہی کریں گے۔ چنانچہ (فرماتی ہیں) کہ وہی ہوا، جیسا میں نے مشورہ دیا تھا"۔
مذکورہ واقعہ کوئی سادہ واقعہ نہیں ۔ وہ دراصل اسی چیز کی ایک کامیاب مثال ہے جس کو ہم نے مرد اور عورت کے درمیان Intellectual Exchange کا نام دیا ہے ۔ یقیناً رسول اکرمﷺ اور زوجۂ رسول کے درمیان اس موقع پر ایک مکمل گفتگو ہوئی ہوگی ۔ اس کے بعد وہ صورت پیش آئی جس کا حدیث وسیرت کی کتابوں میں ذکر ہوا ہے ۔ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے فکری مشیر کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ دونوں کے درمیان جس طرح بےتکلف گفتگو ہوسکتی ہے ویسی گفتگو کسی اور کے ساتھ ہونا سخت مشکل ہے ۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ایک دوسرے کے لیے کتنے زیادہ اہم ہیں ۔ دونوں ہی ایک دوسرے کی لازمی ضرورت ہیں[12]۔
حسن بصریؒ(مشہور تابعی) نے ستّر سے زیادہ صحابہ کو دیکھا تھا اور ان سے سنا تھا ۔ وہ پیغمبر اسلام ﷺ کے بارے میں بتاتے ہیں :كان النبي يستشير حتی المرﺃة فتشير عليه بالتي فيأخذ به [13]یعنی آپﷺ کا طریقہ تھا آپﷺ کثرت سے مشورہ کرتے تھے یہاں تک کہ آپﷺ عورت سے بھی مشورہ کرتے تھے اور عورت کبھی ایسی رائے دیتی تھی جس کو آپ ﷺ قبول کرلیتے ۔
پیغمبر اسلام ﷺ کا یہ اسوہ محدود معنوں میں نہیں ہے ۔ وہ وسیع معنوں میں ہے اس کا تعلق زندگی کے تمام معاملات سے ہے ۔ اس کے اندر سماج کا ایک ایسا نقشہ نظر آتا ہے جس میں تعلیم و تربیت کے اعتبار سے ایسی سرگرمیاں جاری ہوں جو عورتوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ سماج کا ایک صحت مند حصہ بن سکیں ۔ وہ اپنی صلاحیت کے اعتبار سے اس قابل ہوں کہ معاملات میں صحیح مشورہ دیں ۔ وہ کسی معاملہ میں بحث و تبادلہ کے وقت اپنا مفید کردار ادا کرسکیں [14]۔
حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے عورت کو معاشرے کا ایک اہم ستون قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ۔ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ[15]۔
ترجمہ: اورعورتوں کےبھی ویسےہی حقوق ہیں جیسےان پرمردوں کےہیں۔
اسی طرح اسلام نے عورت کو مرد کے برابر تمام قسم کے بنیادی وشخصی حقوق سے نوازا ، اسی طرح عورت کو مرد کی طرح تمام قسم کے فرائض وواجبات کا مکلف بناکر عورت کو نصف معاشرہ قرار دیا۔
چنانچہ ارشادِ باری ہے :
فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّىْ لَآ اُضِيْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى بَعْضُكُمْ مِّنْۢ بَعْضٍ [16]
ترجمہ: پھر ان کے رب نے ان کی دعا قبول کی کہ میں تم میں سے کسی کام کرنے والے کا کام ضائع نہیں کرتا خواہ مرد ہو یا عورت۔
ان قرآنی تعلیمات کے نتیجے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "وخيركم خيركم لأهله،وأناخيركم لأهلي[17].
ترجمہ: تم میں سےبہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے والا ہو اور میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر برتاؤ کرنے والا ہوں ۔
مذکورہ قولی و عملی تعلیمات کی روشنی میں مسلم معاشرہ میں عورتوں کا مقام بلند ہوا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صدرِ اول میں ہی بڑی تعداد میں خواتین نے حدیث و فقہ اور دین کی تبلیغ و اشاعت میں بھرپور عملی حصہ لیا اور زندگی کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دینے والی خواتین کی ایک بڑی تعداد سامنے آگئ۔
لیکن بدقسمتی سے رفتہ رفتہ اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے اسلامی معاشروں میں خواتین کے ساتھ ناروا سلوک کا آغاز ہوا اور رفتہ رفتہ معاشرہ میں مردوں کے کئی غیر اسلامی اقدامات کو درست سمجھا جانے لگا کیونکہ ان کے یہ اقدامات ان کے غیر اسلامی رسم و رواج سے میل کھاتے تھے ۔ ذیل میں ان منفی رویوں میں سے چند ایک کا اسلامی تعلیمات کے تناظر میں جائزہ پیش کیا جاتا ہے :
- لڑکی کی مرضی کے بغیر اس کا نکاح کرادینا:
اسلام نے عورت کواپنے لیے شوہر کے اختیار کا حق عطا کیا ہےچنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کى روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
لاتنكح الأيم حتى تستأمر، ولاتنكح البكرحتى تستأذن. قالوا: يارسول الله، وكيف إذنها,،قال: أن تسكت[18].
ترجمہ: بغیر مشورہ لیے بیوہ کی شادی نہ کرائی جائے اور نہ ہی بغیر اجازت کے باکرہ لڑکی کی شادی کرائی جائے۔ صحابہ کرام نےسوال کیا کہ اے اللہ کے رسول! اس کی اجازت کیسے ہوگی ؟ فرمایاکہ وہ خاموش رہے۔ (یعنی کنواری لڑکی کی خاموشی اظہارِ رضامندی سمجھی جائے گی کیونکہ کسی مرد سے اپنی شادی کے متعلق سوال پر واضح اظہار مندی سے عموماً کنواری لڑکی شرماتی ہے)
اسی طرح حضرت خنساء بنت خذام کا واقعہ روایت میں آتا ہے کہ:
أن أباهازوجها –وهي ثيب – فكرهت ذلك، فأتت رسول الله، فردنكاحها، أي أبطله[19].
ترجمہ : ان کے والد نے ان کی شادی ( درآنحالیکہ وہ شوہر دیدہ تھیں ) کا نکاح کرایا جسے وہ ناپسند کرتی تھیں تو وہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں (اظہارِ ناپسندیدگی کے لئے ) حاضر ہوئیں چنانچہ آپﷺ نے اس کا نکاح واپس لوٹایا یعنی اسے مسترد قرار دیا ۔
ان احادیث کی بنیاد پر اسلام نے عاقلہ بالغہ لڑکی( چاہے وہ باکرہ ہو یا ثیبہ) ہر حال میں انہیں اپنے لیے شوہر کے اختیار کا حق دیا ہے اور اس کے والد یا کسی اور رشتہ دار کو یہ اختیار نہیں دیا کہ وہ اسے اس کی مرضی کے برخلاف شادی پر مجبور کرے۔
شادی میں شوہر کے اختیار کے بارے میں بھی اس روایت سے ہدایت ملتی ہے جس میں مذکور ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک باندی خریدی جس کا نام بریرۃ رضی اللہ عنہا تھا پھر انہیں آزاد کردیا، آزادی کے بعد انہیں یہ اختیار دیا گیا کہ آیا وہ اپنے غلام شوہر کے ساتھ رہے یا اس کو چھوڑ دے۔ انھوں نے اپنے شوہر کو چھوڑ دیا چنانچہ ان کے سابقہ شوہر پر یہ بات بہت گراں گزری اور وہ انہیں راضی کرنے کی غرض سے مدینے کی گلیوں میں روتے ہوئے پھرنے لگے۔ چنانچہ نبی کریمﷺکو ان پر بڑا ترس آیا اور آپﷺ نے بریرہ رضی اللہ عنہا سے ارشاد فرمایا: کیا ہی اچھا ہوگا کہ اگر آپ ان کی طرف رجوع کریں۔ بریرہ رضی اللہ عنہ نے سوال کیا! اے اللہ کے رسول! کیا آپﷺ مجھے ان سے رجوع کرنےکا حکم دے رہے ہیں؟ تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ـ إنما أنا شافع" یعنی میں تو صرف سفارش ہی کررہاہوں ، اس پر حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا نے یہ کہتے ہوئے ( کہ مجھے اس شوہر کی کوئی حاجت نہیں ) ان سے رجوع کرنے سے انکار کردیا۔[20]
کم عمری میں لڑکی کی شادی کرنا
ویسے تو اسلام نے شادی کے لیے عمر کی کوئی قطعی حد بندی نہیں کی ہے تاہم عمر کے بارے میں ایک سنجیدہ فیصلہ کی طرف رہنمائی کے عمومی اشارے ضرور پائے جاتے ہیں، جیسا کہ قرآن ِ مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشادہے:
وَابْتَلُوا الْيَتٰمٰى حَتّٰى اِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَيْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَلَا تَاْكُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ يَّكْبَرُوْا.[21]
" اور یتیموں کی حالت پر نظر رکھ کر انہیں آزماتے رہو (کہ ان کی سمجھ بوجھ کا کیا حال ہے؟) یہاں تک کہ وہ نکاح کی عمر کو پہونچ جائیں۔ پھر اگر ان میں صلاحیت پاؤ تو ان کا مال ان کے حوالہ کردو اور اس خیال سے کہ بڑے ہوکر مطالبہ کریں گے، فضول خرچی کرکے جلد جلد ان کا مال کھا ہی نہ ڈالو۔"
حیاتیاتی طور پر بیویوں کے ساتھ (جو جسمانی طور پر ابھی پختہ نہیں ہوئیں) مباشرت درد اور زخم کا باعث بن سکتی ہے نیز یہ کہ اگر حمل قرار پائے تودونوں ( ماں اور بچے ) کی زندگی کے لئے خطرے کا سبب بن سکتا ہے ۔ اس لیے بہتر ہوگا کہ کم عمری میں لڑکیوں کی شادیاں نہ کی جائیں۔
بیوی کے نان و نفقے سے مرد کی لا پرواہی :
بیوی کے نان نفقے اور عورت کی ضروریات کی تکمیل و انتظامات کے سلسلے میں شوہر کے کردار کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہے :
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلی النِّسَاۗءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَھُمْ عَلی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَيْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰهُ وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا[22]
"مرد عورتوں پر حاکم ہیں اس واسطے کہ اللہ نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے اور اس واسطے کہ انہوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں پھر جو عورتیں نیک ہیں وہ تابعدار ہیں مردوں کے پیٹھ پیچھے اللہ کی نگرانی میں (ان کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا خطرہ ہو تو انہیں سمجھاؤ اور سونے میں جدا کر دو اور مارو پھر اگر تمہارا کہا مان جائیں تو ان پر الزام لگانے کے لیے بہانے مت تلاش کرو بیشک اللہ سب سے اوپر بڑا ہے"۔
مذکورہ بالا آیتِ کریمہ نہ صرف مرد کے گھریلو کردار کی نشاندہی کرتی ہے بلکہ عورت کے حق میں نفقہ کے وجوب پر بھی دلالت کرتی ہے، (چاہے عورت کا کوئی اور ذریعہ معاش ہو یا نہ ہو)۔ آج کل عورت کا اپنا ذریعہ معاش ہونے کی صورت میں بعض لوگ ان کے نفقہ کو ضروری خیال نہیں کرتے، حالانکہ عورت کا نفقہ ہر حال میں شوہر پر واجب ہوتا ہے۔ عورت کے ضروریات زندگی اور نان نفقے سے مرد کی لاپرواہی کا انجام بسا اوقات کئی تلخ حقائق کی صورت میں سامنے آتا ہے ۔
عورت کے نان نفقہ کے بارے میں قرآن پاک میں ایک اور مقام پر ارشادہے :
لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِهٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهٗ فَلْيُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰىهُ اللّٰهُ لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰىهَا سَيَجْعَلُ اللّٰهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا[23]۔
"گنجائش والے کو چاہیے کہ وہ خرچ کرے اپنی گنجائش کے مطابق اور جس پر اس کی روزی تنگ کر دی گئی ہو تو اس کو چاہیے کہ وہ (اپنی حیثیت کے مطابق) اسی میں سے خرچ کرے جو کہ اللہ نے اسے دے رکھا ہے اللہ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اتنا ہی جتنا کہ اس نے اسے دے رکھا ہوتا ہے بعید نہیں کہ اللہ پیدا فرما دے (اپنی عنایت سے) تنگی کے بعد آسانی"۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں بھی نفقہ کے حوالے سے شوہروں کو مخاطب کیاگیا ہے ۔ چنانچہ امام قرطبی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
" أي: لينفق الزوج على زوجته، وعلى ولده الصغير على قدر وسعه، حتى يوسع عليهما إذا كان موسّعاً عليه. ومن كان فقيراً فعلى قدر ذلك[24] "
ترجمہ : آیت کریمہ کامطلب یہ ہے کہ شوہر اپنی بیوی اور چھوٹے بچے پر اپنی بساط کے مطابق خرچ کرے اور اگر شوہر کو مالی فراخی حاصل ہو تو فراخی کے ساتھ ان پر خرچ کرے اور اگر تنگ دست ہو تو مالی وسعت کے مطابقت خرچ کرے ۔
آج کل ہمارے معاشرے میں بعض حضرات والدین اور دوسرے رشتہ داروں پر تو مال خرچ کرنے کو بڑا فخر سمجھتے ہیں لیکن بیوی کے نفقہ اور جیب خرچ کے بارے میں عموما ًغافل رہتے ہیں حالانکہ بیوی کا نفقہ ان آیاتِ کریمہ کی روشنی میں واجب ہے جب کہ والدین اور دوسرے رشتہ داروں پر مال خرچ کرنا واجب نہیں بلکہ مستحب ہے۔ لہذا اگر کوئی شخص مفلس اور غریب ہے تو انہیں والدین پر خرچ کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ تاہم بیوی کے نفقہ کے معاملہ میں اگر وہ مفلس بھی ہوجائے پھر بھی قرضہ وغیرہ لےکر اس کا انتظام بہرحال کرنا ہی پڑے گا۔ ورنہ وہ عورت اس کے بارے میں قانونی چارہ جوئی کا اختیار رکھتی ہے ۔
وراثت میں حصہ نہ دینا
قرآنِ مجید میں اللہ تعالی نے وراثت کے تمام اصول کو واضح طور پر بیان کرکے مؤمنوں کو حکم دیا ہے کہ وہ میت کے ترکے سے( کم ہو یا زیادہ ) ہر وارث کو حق دے۔ قرآن پاک نے عورتوں میں تقسیمِ میراث کے احکام متعین اور دو اور دو چار کی طرح بالکل مقرر کردیے ہیں ، اس میں کوئی الجھاؤ اور شبہ تک نہیں چھوڑا۔ اس کے باوجود ہمارے معاشروں میں عورت کو عموماً میراث سے محروم کردیا جاتا ہے۔
اسلام نے نہ صرف یہ کہ عورت کو مرد کی طرح میراث کا حق عطا کیا بلکہ کئی مواقع میں عورت کو مرد سے بھی زیادہ حصہ سے نوازا، مثال کے طور پر اگر کسی شخص کے ورثاء میں بیوی ، بیٹی ، ماں اورایک سگا بھائی شامل ہو تو کل ترکہ کو چوبیس (24) حصوں میں تقسیم کیا جائے گا جن میں سےتین حصےبیوی کو ، چار حصے ماں کو ، پانچ حصے سگے بھائی کو اور بیٹی کوبارہ حصےملیں گے۔یہاں پرعورت (یعنی بیٹی ) کو مرد ( یعنی سگےبھائی ) سےزیادہ حصہ ملتاہے، اسی طرح اگر کسی عورت کے ورثاء میں شوہر،بیٹی،سگی بہن شامل ہوں تو اس کے ترکہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ، جن میں سے شوہر کو ایک حصہ ، بیٹی کو دو حصے اور سگھی بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ معلوم ہوا کہ یہاں بھی عورت (یعنی بیٹی ) کومرد ( یعنی شوہر ) سےزيادہ حصہ ملتا ہے۔[25]
بیوی کی انفرادی ملکیت کا انکار کرنا
ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر عورت کی ملکیت کا انکار کیا جاتا ہے، حالانکہ اسلام نے عورت کو ہر طرح کی حقِ ملکیت سے نوازا ہے، قرآن کریم میں غور و فکر کرنے والے شخص کو بے شمار آیات ملیں گی جس میں عورت کے حق ملکیت کا ثبوت موجود ہے ، ذیل میں صرف تین آیات پیش کی جاتی ہیں ۔
وَاَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَاٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ وَاَطِعْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ [26]
"اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو"۔
مذکورہ آیت کو دیکھنے سے ہی معلوم ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو زکوٰۃ کی ادائیگی کا حکم دیا ہے جو اس بات کی قطعی دلیل ہے کہ عورت کے پاس مال اس کی ملکیت ہوگا اور جب وہ نصاب زکوٰۃ کو پہنچے گا تو دیگر شرائط کے پائے جانے کے بعد عورت کو اس میں سے زکوٰۃ نکالنا واجب ہوگا ۔
اسی طرح دوسری مشہور آیت اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَالْمُسْلِمٰتِ وَالْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِيْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِيْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِيْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِيْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِيْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ[27] میں المتصدقات (صدقہ دینے والیاں ) لفظ ہے جو کہ عورتوں کی محمود صفات میں سے ایک صفت ہے ، صدقہ کے بارے میں علامہ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ " صدقہ ان کمزور اور محتاج انسانوں کے ساتھ بھلائی کرنے کا نام ہے جن کا ذریعہ معاش ہو نہ کوئی کما کر دینے والا ، لوگ اپنے فاضل اموال سے اللہ کی اطاعت اور اس کی مخلوق کی طرف احسان کرنے کے لیے دیتے ہیں ۔ اگر عورت کے پاس کمائی یا مال نہ ہو اورصدقہ دینے اور اللہ کے " صدقہ دینے " کے حکم کو پورا کرنے پر قادر ہی نہ ہو پھر اللہ تعالیٰ "" کی صفت سے عورت کو کیوں موصوف فرماتے ؟[28]
اسی طرح عورت کے حق ملکیت پر ثبوت یہ آیتِ قرآنی ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّآ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ[29]
"اے ایمان والو اپنی پاکیزہ کمائی میں سے اور زمین میں سے تمہارے لئے ہماری نکالی ہوئی چیزوں میں سے خرچ کرو"۔
اس آیت پر غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت تمام مؤمنوں کو شامل ہے مرد یا عورت کی خصوصیت نہیں ، اللہ تعالیٰ نے ان سب کو مال خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے جو ان کے اپنے ہاتھوں سے کمائے گئے ہیں ۔اس آیت میں جب اللہ تعالیٰ حلال مال سے خرچ کرنے کا حکم دے رہا ہے جو سونے چاندی ، زرعی پیداوار اور پھلوں میں سے ہو تو اسلام نے عورت کے لئے ملکیت کا حق تسلیم کیا ہے (تب ہی یہ حکم دیا گیا ہے ) ۔
اسی طرح حدیث میں آتا ہے :
أن النبي صلى الله عليه وسلم دخل على أم مبشر الأنصارية في نخل لها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: من غرس هذا النخل، أمسلم أم كافر؟ فقالت: بل مسلم، فقال: لا يغرس مسلم غرسا ولا يزرع زرعا فيأكل منه إنسان ولا دابة ولا شيئ إلا كانت له صدقة[30].
"نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ حضرت ام مبشر انصاریہ کے زیرِ ملکیت کھجور کے ایک باغ میں تشریف لے گئے اور فرمانے لگے کہ یہ کھجور کے درخت کسی مسلمان نے لگائے ہیں یا کافر نے؟آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا کہ مسلمان نے لگائے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مسلمان جو بھی کوئی کھیتی یا باغ لگائے اور اس میں سے کوئی انسان، جانور یا کوئی اور مخلوق کچھ کھائے تو وہ ان کے لیے صدقہ ہوتا ہے"۔
اس حدیث میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ کا ام مبشر انصاریہ کے باغ میں تشریف لے جانا اور پھر شجرکاری کی فضیلت لوگوں کو بتانا اس پر دلالت کرتا ہے کہ اسلام میں عورت کو ہر طرح کے مال کا حقِ ملکیت حاصل ہے، چاہے وہ اموال منقولہ میں سے ہو یا باغات واراضی کی صورت میں اموال غیر منقولہ میں سے ہو۔ اگر عورت کو حقِ ملکیت حاصل نہ ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام مبشر کے باغ لگانے کے اس عمل پر نکیر فرماتے۔
امام نووی لکھتے ہیں کہ عورت کی حقِ ملکیت پر تمام امت کے علماء کا اجماع ہے[31]۔
ضرورت کے لیے بھی گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دینا:
گھر سے باہر عورت کے میدانِ کار کے بارے میں قرآن کا مطالعہ کیا جائے تو اس کی طرف رہنمائی حضرت موسیٰ علیہ الصلوٰۃ و السلام کے تفصیلی قصے سے بھی ملتی ہے ۔ اس قصہ کا ایک جزء یہ ہے کہ انہیں بعض اسباب سے ملک مصر چھوڑنا پڑا ۔ وہ یہاں سے مدین کی طرف روانہ ہوئے ۔ راستہ میں ایک مقام پر واقعہ گزرا ۔ کہ ایک بزرگ کی دو لڑکیاں ایک مقام پر آپ کو ملیں اس سلسلہ میں قرآن کا بیان یہ ہے :
وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ اُمَّةً مِّنَ النَّاسِ يَسْقُوْنَ ۋ وَوَجَدَ مِنْ دُوْنِهِمُ امْرَاَتَيْنِ تَذُوْدٰنِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لَا نَسْقِيْ حَتّٰى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَاَبُوْنَا شَيْخٌ كَبِيْرٌ [32]
"جب مدین کے پانی (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ لوگ جمع ہو رہے (اور اپنے چوپایوں کو) پانی پلا رہے ہیں اور دیکھا کہ ان کے ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے کھڑی ہیں موسیٰ نے (ان سے کہا) تمہارا کام کیا ہے؟ وہ بولیں کہ جب تک چرواہے (اپنے چارپایوں کو) نہ لے جائیں ہم پانی نہیں پلا سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں"۔
مذکورہ بیان کردہ واقعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے دین میں عورتوں کو گھر سے باہر کام کرنے کی اجازت ہے ۔ اس معاملہ میں ان پر کوئی روک نہیں ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ یہ خواتین اللہ کے دین کی بتائی ہوئی حدود کی پابند ہوں وہ بے قید ہوکر یہ کام نہ کریں بلکہ ضروری حدود و قیود کا لحاظ کرتے ہوئے اپنا کام انجام دیں [33]۔
تاریخ اسلام کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمان خواتین اجتماعی شرعی ضرورتوں کےلیے بھی گھر سے باہر نکلتی تھیں اور ان پر اس حوالے سے کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی اور اسلام نےعورت کو بوقتِ ضرورت شرائط کے ساتھ گھر سے باہر نکلنے اور کام کاج وغیرہ کرنےکی اجازت دی ہے۔ جس طرح مرد گھر سے باہر کام کاج کرسکتا ہے ،اسی طرح عورت کے لیے بھی بوقت ضرورت اس کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ ارشاد باری تعالی ہے:
لِلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبُوْا وَلِلنِّسَاۗءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا اكْتَـسَبْنَ [34]
"مردوں کو حصہ ہے اپنی کمائی سے اور عورتوں کو حصہ ہے اپنی کمائی سے "۔
شریعت اسلامیہ میں غور و فکر کرنے والے کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو احکامات عبادات اور معاملات سے متعلق ہیں وہ تمام مکلفین ىعنى مرد وعورت کے لئے برابر ہىں۔ جب تک کوئی خصوصیت دونوں میں سے کسی ایک کے لئے کسی حکم کو خاص نہ کردے ۔ عورت کو تمام احکامات شرعیہ کا مکلف ہونے کی اہلیت حاصل ہے تو جب مرد اس بات پر قادر ہے کہ وہ اقتصادی قوتوں کا مالک اور تصرف پر قادر ہو تو عورت بھی اس حق میں مرد کی طرح ہے ۔
اگر چہ عورت کی بنیادی ذمہ داری امورِ خانہ داری کی انجام دہی اورایک اچھے مسلم معاشرے کے قیام کو یقینی بنانے کے لیے اولاد وغیرہ کی ہمہ وقت توجہ کے ساتھ درست پرورش ہے تاہم اسلامی تاریخ کےمختلف ادوار میں عورت نے مرد کے شانہ بشانہ ایام ِ امن اور حتیٰ کے جنگوں میں خدمات انجام دی ہیں۔ اس لیے بوقتِ ضرورت عورت کو معاشی ، معاشرتی اور سیاسی نوعیت کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہ دینا اسلامی تاریخ و ثقافت سے ناواقفیت اور سراسر بے خبری پر مبنی رسم ہے۔
بلاوجہ مارنا پیٹنا
خاندانی نظام میں میاں بیوی دو بنیادی ستون ہیں۔ ان کے ازدواجی تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ارشادِ باری تعالی ہے :
وَمِنْ اٰيٰتِهٖٓ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْٓا اِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّرَحْمَةً[35].
" اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو اور اس نے تمہارے (میاں بیوی) کے درمیان محبت اور ہمدردی پیدا کی"۔
مذکورہ آیتِ کریمہ میں اس مقدس رشتے کی چار بنیادی خصوصیتیں بیان کی گئی ہیں:
- برابری (عورت کی تخلیق بھی اسی مادے سے ہوئی ہےجس سے مرد کو پیدا کیا گیا)۔
- سکون واطمینان (دنیاکی ہر جائز خواہش اور سرگرمی کا مدعا سکون پانا ہی ہوتا ہے)۔
- محبت (پیار اورخوشی)
- رحمت (عفو و کرم ، رواداری، ہم آہنگی اور مصالحت)
مذکورہ تصورات کی موجودگی کا ثمر مکمل سکون اور اطمینان کی صورت میں حاصل کیا جاتا ہے اور ان تصورات کے ہمہ وقت مدنظر رہنے سے ہی گھریلو زندگی پرسکون ہوگی تاہم آج کل ہمارے معاشرے میں بعض لوگ عورتوں پر بے جا سختی اور مار پیٹ کو جہالت کی وجہ سے اپنی مردانگی اور اپنا ددینی و شرعی حق سمجھتے ہیں ، اسلام نے اگرچہ غیر معمولی حالات میں شوہر کی نافرمانی کرنے پر بقصدِ تربیت تادیب کی اجازت دی ہے، لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس میں افراط سے کام لیا جائے،ارشاد ِ باری ہے:
وَالّٰتِيْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاهْجُرُوْھُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَكُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَيْهِنَّ سَبِيْلًا اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِيًّا كَبِيْرًا[36]۔
"اور جن عورتوں کی نافرمانی اور بد دماغی کا تمہیں خوف ہو انہیں نصیحت کرو اور انہیں الگ بستروں پر چھوڑ دو اور انہیں مار کی سزا دو پھر اگر وہ تابعداری کریں تو ان پر راستہ تلاش نہ کرو ،بےشک اللہ تعالیٰ بڑی بلندی اور بڑائی والا ہے"۔
میاں بیوی کے مابین معمولی قسم کے جھگڑے انسانی فطرت کا حصہ ہیں ، اس آیت ِ کریمہ میں نافرمانی کی صورت میں بیوی کو بقصدِ تادیب مارنے کی جو اجازت دی گئی ہےوہ بھی نشوز کے وقت ہے ، اس کے علاوہ شریعت نے مارپیٹ کو آخری حربہ کے طور پر استعمال کرنے کی اجازت دی ہے، اگر بیوی سرکشی پہ اتر آئے تو خاندانی نظام کو بچانے کی غرض سے مرد کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ بیوی کو سمجھا بجھادے، اگر اس سے کام نہیں چلا تو اس سے بستر الگ کرے اور اگر یہ بھی کارگر ثابت نہ ہوا، تو معمولی سرزنش کرے، اس کی وضاحت درج ذیل حدیث سے ہوتی ہے۔
عن جابر بن عبد الله عن النبي أنه خطب بعرفات في بطن الوادي ، فقال (... فاتقوا الله في النساء فإنكم أخذتموهن بأمان الله واستحللتم فروجهن بكلمة الله ولكم عليهن أن لا يوطئن فرشكم أحدا تكرهونه ، فإن فعلن فاضربوهن ضرباً غير مبرح ولهن عليكم رزقهن وكسوتهن بالمعروف[37].
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے مقام بطن وادی میں ایک خطبہ دیا اور فرمایا: عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی امان پر حاصل کیا ہے اور اللہ کے نام پران کو اپنےلیے حلال کیا ہے اور تمہارے واسطے ان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کسی اور ناپسندیدہ شخص سے تعلقات نہ جوڑیں، اگر انہوں نے ایسا کیا تو ان کو ایسی مار مارو جو زخمی کرنے والی نہ ہو اور ان کا نان ونفقہ تمہارے ذمہ ہے۔
اس حدیث میں بھی اگرچہ مارنےکی اجازت دی گئی ہے، لیکن اسے ایک غیرمعمولی حالت کے ساتھ مقید کردیا گیا ہے،جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے ظاہر ہے۔
ان نصوص کی روشنی میں اگرچہ علماء نےمرد کو عورت کی معمولی سرزنش کی اجازت دی ہے تاہم بعض دوسری روایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے بچنے کو اولیٰ قرار دیا ہے۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سےروایت ہے:
ما ضرب رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئاقط بيده ولا امرأة ولا خادماً إلا أن يجاهد في سبيل الله ، وما نيل منه شئ قط فينتقم من صاحبه إلا أن ينتهك شئ من محارم الله فينتقم لله عز وجل [38].
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ کسی عورت اور نوکر پرہاتھ اٹھایا الا یہ کہ اللہ کی راہ میں جہاد کے وقت ( یعنی میدان جہاد میں )، اورنہ کبھی اپنی ذات کےلیے کسی سے بدلہ لیا ، تاہم جہاں کہیں اللہ کا حکم پامال ہوجاتا تو اللہ کےلیے بدلہ لیتے۔
اس حدیث کے عموم سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ٓپ صلی اللہ علیہ وسلم نےکبھی اپنی کسی زوجہ مطہر ہ پر ہاتھ نہیں اٹھایا ، اسی طرح آپ نےاپنی ذاتی انا کی خاطر کبھی کسی کو نہیں مارا۔ اس حدیث کی روشنی میں مار پیٹ سے بچنے کی تاکید سامنے آتی ہے ۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں ارشاد ہے :
لا يجلد أحدكم امرأته جلد العبد ثم يجامعها في آخر اليوم[39]
ترجمہ: تم میں سے کوئی ایسا نہ کرے کہ غلام کو مارنے کی طرح بیوی کی مارپیٹ کرے اور پھر دن گزرنے کے بعد اس سے مباشرت کرے۔
اس حدیث میں بھی بیوی کی مار پیٹ کو ناپسندیدہ اور غیر دانشمندانہ عمل قرار دیا گیا ہے کیونکہ ایک سمجھ دار اور سنجیدہ شخص سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ دن کی روشنی میں تو اپنی بیوی پر تشدد کرے اور پھر رات کا اندھیرا چھا جانے پر اس سے اظہارِ محبت کرتے ہوئے اس سے تسکین حاصل کرے ۔
سیاسی امور میں شرکت:
اسلام میں عورتوں کے سیاسی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے ، چنانچہ قرآنِ پاک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر عورتوں کی بیعت کا ذکر موجود ہے ،اللہ تعالیٰ ارشادِ ہے :
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا جَاۗءَكَ الْمُؤْمِنٰتُ يُبَايِعْنَكَ عَلٰٓي اَنْ لَّا يُشْرِكْنَ بِاللّٰهِ شَـيْـــــًٔــا وَّلَا يَسْرِقْنَ وَلَا يَزْنِيْنَ وَلَا يَقْتُلْنَ اَوْلَادَهُنَّ وَلَا يَاْتِيْنَ بِبُهْتَانٍ يَّفْتَرِيْنَهٗ بَيْنَ اَيْدِيْهِنَّ وَاَرْجُلِهِنَّ وَلَا يَعْصِيْنَكَ فِيْ مَعْرُوْفٍ فَبَايِعْهُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَهُنَّ اللّٰهَ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ [40].
" اے نبی! جب مومن عورتیں آپ کے پاس ان باتوں پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ نہ تو وہ اللہ کے ساتھ کسی بھی چیز کو شریک ٹھہرائیں گی، نہ چوری کریں گی ، نہ زنا کریں گی، نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی اور نہ ہی وہ کوئی ایسا بہتان لائیں گی جس کو وہ گھڑیں اپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان اور نہ ہی وہ آپ کی نافرمانی (اور حکم عدولی) کریں گی نیکی کے کسی بھی کام میں تو آپ ان کی بیعت کو قبول کرلیا کریں اور ان کے لئے اللہ سے بخشش کی دعاء کیا کریں بلاشبہ اللہ بڑا ہی درگزر کرنے والا انتہائی مہربان ہے"۔
بیعت ایک سیاسی عمل ہے جس میں مسلمان مرد وعورت اولی الامر کی ہر حال میں جائز امور میں اطاعت اور امتِ مسلمہ کی فلاح وبہبود اور معاشرے میں ایک مستحکم نظام حکومت کی غرض سے اٹھائے جانے والے تمام اقدامات کی حمایت کا عہد کرتےہیں.
ان نصوص کی روشنی میں دورِ حاضر میں علمائے کرام نے عورت کے لیے انتخاب میں حقِ رائے دہی کو تسلیم کیا ہےکیونکہ انتخاب میں ووٹر بحیثیت مؤکل ہوتا ہے جو کسی ایسے شخص کو اپنا وکیل بناتا ہے جو پارلیمنٹ میں جاکر مختلف امور میں اس کی وکالت کرسکے۔ توکیل کے سلسلے میں جس طرح ایک مرد مؤکل بن سکتا ہے، اسی طرح عورت بھی مؤکلہ بن سکتی ہے[41]۔
جہاں تک عورت کےلیے انتخابات میں بطور امیدوار حصہ لینے کا سوال ہےتو عورت رکن ِ پارلیمنٹ اور رکن سینٹ دونوں بن سکتی ہے۔ کیونکہ جہاں تک رکنِ پارلیمنٹ بننے کا سوال ہے، تو ممبر پارلیمنٹ کے لیے اسلامی نقطہ نظر سے یہ بات ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا جاننے والا ہو، اسلام میں طلبِ علم میں مردوعورت میں کوئی تمیز نہیں، بلکہ دونوں علم حاصل کرسکتےہیں، جب دونوں کو علم کے حصول کا حق برابر برابر حاصل ہے تو دونوں کو ممبر بننے کا حق بھی حاصل رہے گا۔ جہاں تک ایگزیکٹیو باڈی کے رکن بننےکا سوال ہے تو عورت اسلامی نقطہ نظر سے اس کی بھی اہل ہے، کیونکہ امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا حکم جس طرح مرد کو دیا گیا ہے، اسی طرح عورت کو بھی دیا گیا ہے، ارشاد باری ہے:
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَاۗءُ بَعْضٍ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ[42]
"اور ایمان والے مرد اور ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کی مددگار ہیں، سکھلاتے ہیں نیک بات اور منع کرتے ہیں بری بات سے"۔
البتہ ان امور میں حصہ لینے سے بسا اوقات عورت گھر کے ماحول سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور بچوں کا کما حقہ خیال نہیں رکھ پاتی،ا س وجہ سے اس کے لیے مناسب تو یہ قرار دیا جاسکتا ہے کہ خانگی ذمہ داریوں کو اولین ترجیح دے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لینےکی اہل نہیں ہے۔[43]
خلفائے راشدین کے دور میں بھی ہمیں بعض ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے اس بات کی تائید ہوتی ہے کہ دورِ خلافت راشدہ میں عورتوں نے معاشرتی امور میں بلکہ قانون سازی میں بھی مؤثر انداز سے حصہ لیا ، چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے زمانہ خلافت میں جب عورتوں کے مہر کی تعیین کرنے لگے تو اس پر ایک خاتون اعتراض کرتے ہوئے کہنے لگی: أيعطينا الله و يمنعنا عمر؟یعنی ایسا ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ہمیں ایک چیز عطا کی اور عمر اس کوروکے ؟ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے أخطأ عمر و أصابت امرأة.(عمر نے غلطی کی اور ایک عورت نے درست کہا( فرما کر اپنے فیصلے سے رجوع کرلیا[44]۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام نے شرعی احکام و آداب کی رعایت رکھتے ہوئے عورت کو ہر طرح کی معاشرتی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی بھر پور اجازت دی ہے ۔ اگر ہمارا کوئی رسم و رواج اسلامی احکام کے مخالف ہو تو بحیثیت مسلمان ہمیں اپنے رسم و رواج کی اصلاح کرنی چاہیے ، نہ یہ کہ رسم و رواج کی قربان گاہ پر دینی احکامات کی قربانی دی جائے۔
References
- ↑ .سورةالنساء:1
- ↑ .سورۃ الروم: 21
- ↑ . ابوداود، السنن، باب في الرجل يجد البلة فى منامه، ج1، ص: 68
- ↑ مولانا و حید الزمان ، عورت معمار انسانیت ،ص: 54، گڈورڈ بکس، نظام الدین ویسٹ مارکیٹ، نیو دہلی انڈیا
- ↑ . ابن ماجه، السنن، ج، 4، ص: 96
- ↑ . البخاري، باب ذهاب النساء والصبيان إلى العرس، ج3، ص: 125
- ↑ . أبو داؤد، سليمان بن اشعث، السنن، جز2، ص: 346
- ↑ . البخاري، باب إذا لم يكن لها جلبات يوم العيد، ج1، ص: 333
- ↑ . البخاري، ج2، ص: 305
- ↑ َ . البخاري، باب هجرة النبي صلى الله عليه وسلم، ج3، ص: 1417
- ↑ . صور من حياة الرسول ـص: 465
- ↑ .عورت معمار انسانیت ، ص:168-169
- ↑ .عيون الاخبار لابن قتيبه ، جزء 1، ص: 27
- ↑ .عورت معمارِ انسانیت ، ص: 69-70
- ↑ .سورۃ البقرة: 228
- ↑ .سورۃ آل عمران:195
- ↑ . الطبراني، المعجم الأوسط، ج4، ص: 356
- ↑ . صحيح البخاري، باب لا ينكح الأب وغيره البكر والثيب، ج5، ص: 1974
- ↑ . ابن حنبل، احمد، مسند، ج11، ص: 160
- ↑ . سنن أبوداو، باب فى المملوكة تعتق، ج1، ص: 378
- ↑ .سورۃ النساء: 6
- ↑ . سورۃالنساء: 34
- ↑ َ. سورۃالطلاق: 7
- ↑ . القرطبي، احكام القرآن، ج4، ص: 469
- ↑ َ. السباعي، مصطفى، المرأة بين الفقه والقانون،ص: 29 مكتبة الوراق للنشر والتوزيع، السعودية، 1999 م
- ↑ .سورۃالاحزاب: 33
- ↑ . سورۃالاحزاب: 35
- ↑ . تفسیر ابن کثیر ، ذیل سورہ احزاب ، آیت 35
- ↑ سورۃالبقرۃ : 267
- ↑ . صحيح مسلم ، كتاب المساقات، باب فضل الغرس والزرع ـ ج3، حديث:ص: 1188
- ↑ . النوري، المنهاج فى شرح مسلم بن الحجاج، ج10، ص: 213
- ↑ .سورۃالقصص:23
- ↑ . عورت معمار انسانیت ، ص: 41
- ↑ . سورۃ النساء :32
- ↑ . سورۃالروم:21
- ↑ َ سورۃالنساء:34
- ↑ . صحيح مسلم، ج،4، ص: 41
- ↑ . الترمذي، كتاب الشمائل، ج1، ص: 390
- ↑ . البخاري، باب ما يكره من ضرب النساء، ج5، ص: 1997
- ↑ َ. سورۃالممتحنة: 12
- ↑ . المرأة بين الفقه والقانون.ص: 124
- ↑ . سورۃالتوبہ :71
- ↑ َ. المرأة بين الفقه والقانون، 125
- ↑ . الصنعانی، عبد الرزاق، المصنف، ج6، ص: 180، المكتب الاسلامي، بيروت، 1403 ھ
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |