28
1
2014
1682060034497_780
142-156
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/308/246
پس منظر:
مسلمان جو کہ ایک ہزار سال تک علمی تحریک کے قائد و علمبردار رہے اور انسانی علوم و فنون کی ہر شاخ میں انہوں نے اپنی عبقریت و ذہانت کے نئے نئے غنچہ و گل کھلائے۔ انہوں نے یونان و ایشیاءکے ثقافتی سرمائے کو عربی اور اسلامی زبان میں منتقل کیا اور اس پر مفیدو گرانقدر اضافوں کے بعد اسے عرب ، افریقہ، اور اسپین کی جامعات کے ذریعے یورپ تک پہنچایا۔ یورپی نشاۃ ثانیہ کی اہم شخصیت راجربیکن جس نے سائنس کو تجریبی طریقہ دیا وہ جامعہ قرطبہ کا طالب علم تھا ۔ مگرسیاسی قیادت چھن جانے کے بعدعلمی و ثقافتی امامت و سیادت بھی مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل گئی ۔یورپ نے مسلمانوںسے حاصل کیے ہوئے علوم کو غیرانسانی و غیراخلاقی رنگ دے دیا بلکہ مسلمانوں سے حاصل کئے ہوئے علوم و فنون کو خود ان کے خلاف استعمال کرناشروع کر دیا۔
صلیبی جنگوں، ترکوں کی فتوحات، قومی و مذہبی اختلافات اور اپنے توسیع پسندانہ رجحانات کے سبب مغربی طاقتوں نے مسلمانوں کو سسلی اور اسپین سے بے دخل کرنے کے بعد تقریباً سارے عالم اسلام کو اپنے ہمہ گیر استحصال کانشانہ بنانا شروع کیا جس کی بدترین مثال 1857ء میں ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف ان کا جوش انتقام تھا۔ اس وجہ سے ہندوستانی مسلمان ایک طویل عرصے تک اپنا سیاسی و ثقافتی وجود کھو بیٹھے۔ ان کا دینی و ملی مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔ ان پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔ اس بربریت کی غم انگیز داستان غالب کے خطوط اور ہندوستان کی تاریخوں میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اس المیے کا سب سے دردناک پہلو یہ تھا کہ فاتح برطانوی حکومت کے جذبہ انتقام کا رخ زیادہ تر مسلمانوں کی طرف تھا اور وہ انہیں مذہب و ثقافت سے الگ کر کے اپنے رنگ میں جذب کر لینا چاہتی تھی۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک طرف سینکڑوں مدارس بند کئے گئے تو دوسری طرف ان کی جگہ مشنری اسکول کھولے گئے اور ہندوستان بھر میں سرکاری سرپرستی میں جارحانہ طورپر عیسائیت کی تبلیغ ہونے لگی۔
اس شکست خوردگی کے ماحول میں جب کہ اسلام اور مسلمان اپنے انحطاط کے آخری نقطے پر پہنچ گئے اور دور دور تک ان کا مستقبل تاریک نظر آ رہا تھا تو تعلیمی احیاءکے لئے جو تحریکیں اٹھیں انہوں نے معاشرے پر کافی اثرات مرتب کئے۔ ان میں سے ایک تحریک دیوبندہے۔
تعارف:
بانی دارالعلوم کا یہ خواب کہ: میں خانہ کعبہ کی چھت پر کھڑا ہوں اورمیرے ہاتھوں اور پیروں کی تمام انگلیوں سے نہریں جاری ہیں اوراطراف عالم میں پھیل رہی ہیں پوراہوا(1)۔مشرق ومغرب میں علوم نبوت کے چشمے جاری ہونے کی راہ ہموار ہوگئی۔دارالعلوم کے مہتمم ثانی شاہ رفیع الدین کایہ خواب کہ علوم دینیہ کی چابیاں میرے ہاتھ میں دے دی گئی ہیں صرف خواب ہی نہ رہا بلکہ حقیقت بن گیا ۔ اس مدرسہ کے ذریعے ان چابیوں نے اُن قلوب کے تالے کھول دیئےجو علم کا ظرف بننے والے تھے۔جن سے علم کے سوتے ہرطرف پھوٹنے لگے اورچند نفوسِ قدسیہ کا علم آن کی آن میں ہزار ہا علماءکاعلم ہوگیا۔دارالعلوم جس کا سنگ بنیاد سادہ اورمعمولی طریقے سے رکھا گیا تھا چندہی سال میں ایشیاء میں علوم اسلامیہ کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔برصغیر سے گزر کر افغانستان ،ایران ،سمرقندوبخارا ، برما، انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی اوربراعظم افریقہ کے دوردراز خطوں سے کتاب وسنت اورشریعت وطریقت کے طلاب یہاں جوق در جوق آنا شروع ہوگئے۔(2)
جنگ آزادی کے بعد جب کہ مسلمانوں کی شوکت ہندوستان میں پامال ہوچکی تھی اورحالات میں یکسر انقلاب آچکا تھا ، دارالعلوم نے ان بدلے ہوئے حالات میں سب سے بڑاکام یہ کیا کہ مسلمانوں کے دین اور ان کی معاشرت تبدیل نہ ہونے دی ۔ مبادا وہ حالات کی رو میں بہہ جائیں۔پختگی اورعزیمت کے ساتھ انہیں اسلامی سادگی اوردینی ثقافت کے زاہد انہ ومتوکلانہ اخلاق پر قائم رکھا مگر اس حکمت کے ساتھ کہ عوام کی حد تک حدود میں رہتے ہوئے جائز توقعات سے گریز نہیں کیاجو بدلتے ہوئے تمدن ومعاشرت میں طبعی طور پر ناگزیر تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ خوا ص کی حدتک دائرہ وسیع نہیں ہونے دیا جس کی وجہ سے عام مسلمانوں میں اسلامی مدنیت کا سادہ نقشہ قائم رہااورجدید تمدن ومعاشرت میں اغیار کی نقالی کا غلبہ نہیں ہوسکا۔ یوںاسلامی غیرت وحمیت باقی رہ گئی ۔ جدید دور کی برتری اوراحساس کمتری قلوب میں جمنے نہ پائی۔ضمیر کی آزادی کا پورا پورا تحفظ کیا،اتباع اغیار کے بجائے سنت نبوی کو معیارزندگی بنانے کے جذبات قلوب میں ابھارے جس سے عام تمدن ومعاشرت میں تقویٰ وطہارت کی خواہشات اجاگر رہیں۔(3)
یہ ایک بڑا ہی انقلابی اقدام تھا جس کے درج ذیل پہلو قابل غور ہیں ۔
علوم دینیہ میں گراں قدراضافے کا موجب تحریک دیوبند نے علوم دینیہ کی وہ عظیم الشان اورگراں مایہ خدمات انجام دی ہیں جو تاریخ کے صفحات میں زریں حروف میں لکھے جانے کے لائق ہیں ۔اس نے علم دین کی راہیں ہموار کیں۔تالیفات وتصنیفات کے ذریعےعلوم دینیہ میں گراں قدر اضافے کئے۔دہلی کے سقوط کے بعد یہی ایک درس گاہ تھی جو مسلمانوں کی توجہ کا مرکز بنی ۔طالبان علم وعرفان اسی عظیم درس گاہ میں جمع ہوئے اور علم کے پیاسوں نے اسی چشمۂ شیریں سے اپنی پیاس بجھائی۔(4)
دافع خوف وہراس دارالعلوم علوم دیوبند ایک قدیم طرز کی درس گاہ ہی نہیں بلکہ احیائے اسلام وقیام ملت کی ایک عظیم الشان تحریک کا نام ہے ۔اس نے اسلام کے جان نثاروں اورملت کے غمگُساروں کی ایک ایسی جماعت تیار کردی جو ملت کے غم میں خود بھی روئے اور دوسروں کو بھی رُلایا ، جواسلام کی سربلندی اورمسلمانوں کے وقار کی بحالی کیلئے خود بھی تڑپے اوردوسروں کو بھی تڑپایا۔انہوں نے آبرومندانہ زندگی کے حصول کیلئے خود بھی اپنی جانیں قربان کیں اوردوسروں کو بھی ایثار پیشگی کا درس دیا۔انہوں نے مسلمانوں کا ذہنی جمود توڑا ، برطانوی استعمار کا سحر توڑا، وقت کی جابر قوتوں سے پنجہ آزمائی کی اورافراد کے ذہنوں سے خوف وہراس دور کیا۔(5)
تاریخ ہند کا روشن باب:
اس کا بیج اچھا تھا اوراچھے ہاتھوں سے بویا گیا تھاجو اس کی ترقی کی وجہ بنا۔دیو بند کا مدرسہ حقیقتاً شاہ عبدالعزیزاورشاہ ولی اللہ کے درس کی نمایاں خصوصیات کا حامل تھا۔اس میں فرنگی محل مدرسے کی طرح منطق، صرف ونحواورفقہ ہی پر سارا وقت صرف نہیں ہوتا تھابلکہ حدیث کا بھی خاص خیال رکھا جاتا تھا جو شاہ ولی اللہ اوران کے جانشینوں کا امتیاز تھا(6)۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ 1857ء کے انقلاب کے بعد دارالعلوم نے جو تعلیمی ،علمی ،دینی ،اصلاحی ، تبلیغی اورسیاسی خدمات انجام دیں وہ ہندوستان کی تاریخ کے سب سے زیادہ روشن باب ہیں۔دارالعلوم دیوبندمسلمانوں کا نہ صرف دھڑکتا ہوا دل رہا بلکہ ذہنی نشوونما اوراخلاقی اقدار کا محافظ، ملی جرات وہمت اورتہذیب و تمدن کا مرکز ومحور ،کتاب وسنت کا گہوارہ اورمسلمانوں کی علمی وعملی زندگی نیز عقائد کا مضبو ط ترین قلعہ بھی رہا۔(7)
خصوصیت آزادی:
دیوبند کی ایک نہایت اہم خصوصیت اس کی آزادی تھی۔مولانا قاسم نانوتوی نے اپنے ان اصولوں میں جو انہوں نے دیو بند کےلئے مرتب کئے تھے،دینی پہلو کے بعد سب سے زیادہ اہمیت ضمیرکی آزادی اورحکومت وامراء کی گرفت سے اس اسلامی تعلیمی ادارے کو آزاد رکھنے پر دی ۔آپ نے کہا تھا : سرکار اورامراء کی شرکت بھی زیادہ مضر معلوم ہوتی ہے۔ تامقدور ایسے لوگوں کا چندہ زیادہ موجب برکت معلوم ہوتا ہے جن کو اپنے چندہ سے امید ناموری نہ ہو۔الجملہ حسن نیت اہل چندہ زیادہ پائیداری کا موجب نظر آتا ہے (8) ۔حکومت کے بارے میں یہ فیصلہ مسلمان اہل علم کے ذہن کا عکاس ہے۔انہوں نے انگریزی حکومت اوراس کی تعلیم کے مقاصد اچھی طرح بھانپ لئے ۔وہ یہ چاہتے تھے کہ ادارے پر بالواسطہ طور پر بھی حکومت کا سایہ نہ پڑے۔ یہ حکومت سے عدم مصالحت کے روّیے کا ایک اہم مظہر تھا(9)۔ایک حیثیت سے یہ خود مسلمانوں کے نظام تعلیم کی روایت سے بھی انحراف تھا۔اس لیے کہ اس میں حکومت اورامرا ء کی امداد کا ہمیشہ بڑا حصّہ رہا ہے۔لیکن اب مسلمان جن سیاسی وتمدنی حالات سے دوچار تھے،ان میں غیر معمولی احتیاط کا تقاضا یہی تھا کہ حکومت اوردوسرے اہل مفاد کے اثر سے خود کو محفوظ رکھا جائے ، اس لئے کہ حکومت اپنی نہ تھی بلکہ دشمن کی تھی۔
نظام ما لیات:
تحریک کے مالی نظام کو اہل اخلاص کی چھوٹی رقوم تک محدود رکھاگیا۔جس کی وجہ سے مدرسہ صرف غیرصحت مند اثرات سے ہی محفوظ نہ رہا بلکہ بہت جلد ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوگیا۔اس کی وجہ سے ہزاروں مسلمان مدرسہ سے وابستہ ہوگئے اوراپنے دین وثقافت کی حفاظت کیلئے انہیں ایک راستہ نظرآیا۔اس سے بانیان مدرسہ کا ذاتی تقویٰ، توکل علی اللہ اوربے غرضی ظاہر ہوتی ہے۔انہوں نے بے سروسامانی سے کام کرنا پسند کیا۔لیکن غلط ہاتھوں سے بڑی رقوم لینا پسند نہ کیا۔اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ دیوبند کا مزاج سیدھا سادہ رہا۔رہن سہن کا معیار معمولی اورعوام کے معیار زندگی کے زیادہ قریب رہا۔دوسرے مدرسوں میں غیر ضروری کاموں پر بڑی رقوم خرچ ہوجاتی تھیں جب کہ یہ مدرسہ دولت کےاس ضیاع سے بچا رہا اور زیادہ سے زیادہ وسائل فروغ تعلیم ہی پر خرچ ہوئے۔(10)
نظام مشاورت:
اس ادارے کی ایک اوراہم خصوصیت اس کا نظام مشا و رت تھا۔ماضی میں ہندوستان میں جودینی مدارس تھے ان میں بالعموم سارا انتظام ایک فردیا ایک خاندان کا ہوتا تھا۔لیکن دیو بند اس صحت مند روایت کا بانی ہے کہ سارے انتظامی امور ایک مجلس شوریٰ کے سپرد کر دیئے گئے اور انتظامی امور کی انجام دہی کیلئے ایک مہتمم مقرر کیا گیا جس کیلئے ضروری تھا کہ سارے امور شوریٰ کے فیصلے سے طے کرے اورآخری فیصلہ شوریٰ کا ہو۔اس طرح اسلام کی جمہوری وشورائی روح کو یہاں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی گئی ۔(11)
ذریعہ تلافی جنگ آزادی:
تحریک دیوبند1857ء کی ناکامی کی تلافی کے لیے ایک پُرخلوص اورپُردرد کوشش تھی ۔دیوبند کا یہ کردار بعد کی تاریخ میں بہت نمایاں ہوا ۔ مولانا محمود الحسن ،مولانا حسین احمد مدنی اور مولانا شبیر احمدعثمانی کی تدریسی اورسیاسی سرگرمیوں کے ذریعے دیو بند خصوصیت کے ساتھ انگریزوں کے خلاف سرگرمیوں کا ایک بڑا مرکز بن گیا (12) ۔بلاشبہ آزادی کی تحریک میں قابل ذکر سرفروشانہ جدوجہد کا سہرا اس کے اساتذہ اورطلبہ کے سر ہے۔ (13)
تعلیمی نظریہ......عوامی تعلیم:
دارالعلوم کا تعلیمی نظریہ عوامی تعلیم تھا۔اس نے غریب طبقے کےلئے تعلیم کا انتظام کیا اورجس معیار کی بھی تعلیم دی وہ عوامی زندگی سے مربوط رہی ۔تحریک دیوبند نے بنیادی دینی تعلیم کو زندہ رکھا۔اس کی وجہ سے مسجدیں اورمکتب آباد رہے۔بے شک یہ ایک حقیقت کیوں نہ ہو کہ یہ تعلیم نئے دورکے تقاضے پورے نہ کررہی تھی لیکن اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کہ جو خدمت اس نے انجام دی اسے حقیر جاننا کوتاہ نظری کے سوا کچھ نہیں۔اگر خدانخواستہ یہ انتظام نہ ہوتا تو آج افغانستان ،پاکستان ، بھارت،بنگلہ دیش ، برمااورسری لنکا کے مسلم معاشرے کی کیا حالت ہوتی؟اس کے تصّور ہی سے روح کانپ اُٹھتی ہے۔
یک رنگی تعلیم:
تحریک دیوبند کےمقاصد تعلیم ،طریق تعلیم،نصاب تعلیم اورتنظیم مدرسہ کے بارے میں ایک ہی اصول سب جگہ کارفرما نظر آتا ہے۔جدید تعلیم کی طرح اس میں تضاد نظر نہیں آتا ۔ جدید تعلیم طالب علم کو بیک وقت مختلف سمتوں میں لے جاتی ہے جس کے نتیجے میں طالب علم کی شخصیت انتشار کا شکار ہوجاتی ہے لیکن اس میں یک رنگی پائی جاتی تھی۔ جو طالب علم کو اپنے مخصوص رنگ میں رنگ دیتی تھی۔(14)
محافظ دین و مسلم ثقافت:
دین اسلام اورمسلم ثقافت کا تحفظ مقاصد تعلیم کا حصّہ تھا۔اسی لئے دیوبند اصلاحی تحریک کا مرکز بھی رہا(15)۔ دارالعلوم دیوبند کی ابتدائی اصلاحی تحریکات یہ تھیں:عقد بیوگان ،لڑکیوں کو ترکہ دینا، تقریبات اورتہواروں میں اسلامی تعلیمات کے خلاف رسوم کا انسداد،دین میں داخل خارجی باتوں کی روک تھام،مراسم پرستی کے خلاف جنگ چونکہ ان کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر تھامثلاً بیاہ ، ختنہ ، کن چھیدن ،منگنی کی تقریبات ، مختلف بہانوں سے طرح طرح کی غیر ضروری تقریبات جو مہینوں جاری رہتیں۔ یوں دولت مندی کی شان دکھانے کیلئے روپیہ پانی کی طر ح بہایا جاتا تھا۔(16)
کفروا ستعمارکے خلاف عظیم قلعہ:
کفرو استعمار کے خلاف دیوبند ایک عظیم قلعہ ثابت ہوا۔اس کے اساتذہ نے عیسائی مشنریوں اورہندو آریہ سماجیوں کے فتنہ انگیز لٹریچر کا نہ صرف جواب دیا بلکہ اس سلسلے میں بہت وقیع لٹریچر بھی تیار کیا گیا جس کا اسلوب بیان خواہ کمزور تھا لیکن لوازمے کی تلاش اورفراہمی میں پوری دیدہ ریزی سے کام لیا گیا۔قرآن پاک کا پیغام عام کرنے کے لئے مولانامحمود الحسن نے قرآن کا اردو ترجمہ کیا،مولانا عبدالحق نے تفسیر حقانی لکھی ،مولانا اشرف علی تھانوی اورمولانا شبیر احمد عثمانی نے بھی بلند پایہ دینی و علمی خدمات سرانجام دیں(17)۔عدم اتباع سلف اورمغربیت کا فتنہ دین میں داخل ہونے لگاتواس تحریک نے دلائل سے اس کی کامیاب مدافعت کی۔بلکہ ایک ایسی مستقل حکمت عملی تیار کی جس کے سامنے کوئی فلسفہ کسی بھی روپ میں آیا تو اس نے فلسفہ کا انداز پہچان کر اسے اپنے راستے پر روک لیا(18)۔ یوں دارالعلوم دیوبند جو میراث نبوت کا امین وداعی تھاوہ نہ صرف برصغیر پاک وہندبلکہ پورے عالم اسلام میں ہمہ جہتی ، دعوت وارشاد ، جہدوجہاد،حفاظت علوم رسالت ، کتاب وسنت،تدریس واشاعتِ فقہ اورتزکیہءقلوب کا علمبردار رہا۔ گویا دارالعلوم دیوبند ایک جامعہ درسگاہ اورمرکزتعلیم وتربیتی نہیں بلکہ ایک مستقل تحریک و دعوت اور مدرسہ فکر تھابلکہ ہے۔ (19)
خدمت گار اردو زبان:
دارالعلوم دیوبند کی ایک قومی خدمت یہ ہے کہ اس نے اردو زبان کو ذریعہ تعلیم بناکر اُردو زبان کی بھی خدمت کی ۔ اُردو نہ صرف دارالعلوم میں تعلیم وتدریس اور فہم و تفہیم کی زبان بن کر مختلف صوبوں سے تعلق رکھنے والے طالب علموں میں فکری وحدت مضبوط کرتی رہی بلکہ دارالعلوم کے توسل سے افغانستان اور وسط ایشیاء میں بھی پہنچ گئی(20) ۔زبان کی تاریخ نے اُردو کیلئے دارالعلوم دیوبند کی خدمات کا اعتراف کیا ہے یانہیں ؟یہ ایک الگ بحث ہے مگر واقعہ یہ ہے کہ ارباب دیوبند نے تعلیم وتدریس کے علاوہ اپنے روحانی حلقوں میں بھی تربیت وتزکیہ کیلئے اردو زبان ہی کو ذریعہ ابلاغ بنایا جس سے نہ صرف اردو کا حلقہ وسیع ہوتا گیا بلکہ اردو زبان کے سرمایہ فکر میں بھی اضافہ ہوا۔سلوک وتصوف کے لطائف ومعارف اردو زبان میں ڈھلنے لگے جس سے اُردو کے علمی سرمایہ کو بالیدگی ملی ۔(21)
ذریعہؑ اصلاح باطن
دیوبندکے نظام تعلیم میں اصولی طور پر صرف تعلیم ہی نہیں بلکہ تربیت اوراصلاح باطن کا انتظام پیش نظر تھا۔یہاں کا نظام علم اورتقویٰ کے امتزاج کی اس روایت کو زندہ رکھنا چاہتا تھاجو مسلمانوں نے اپنی 14 سو سالہ تاریخ میں قائم کی ۔ استاد اور شاگرد کا گہرا ذاتی ربط بھی اس کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک رہا(22)۔ دیوبند کے نظام تعلیم میں طلبہ کے تقریری اورتحریری مقابلے ،امتیازی کارناموں پر انعامات اورطلبہ کی علیحدہ تنظیم کا قیام بھی شامل تھے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طلبہ کی تربیت اوراجتماعی زندگی پیش نظر تھی۔
آزادی وطن کی خواہاں تحریک:
جہاں تک دیو بند کی سیاسی فکر کا تعلق ہے وہ بالکل واضح ہے۔یہ تحریک آزادی وطن کی خواہاں تھی۔حتیٰ کہ 1947ء تک اس جماعت کے افراد نے اپنے طورپر بڑی سے بڑی قربانیاں پیش کیں جو تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں ۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ تیرھویں صدی ہجری کے نصف آخر میں مغلیہ حکومت کے زوال کی ساعتوں میں مولانا حاجی امداد اللہ کی سرپرستی میں مولانا محمد قاسم اورمولانا رشید احمد کی مساعی انقلاب ،جہادی اقدامات اورحریت واستقلال ملّی کی فداکارانہ جدوجہد اورگرفتاریوں کے وارنٹ پر ان کی قیدوبند وہ تاریخی حقائق ہیں جو جھٹلائے اور بھلائےنہیں جاسکتے۔ان میں چیدہ چیدہ حضرات کے اسمائے گرامی یہ ہیں۔ مولانا محمد قاسم نانوتوی ،مولانا رشید احمد،مولانا محمود الحسن ،مولانا شبیر احمد عثمانی ، مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا حسین احمد مدنی ،مفتی کفایت اللہ دہلوی اورمولانا حفظ الرحمن سیوہاروی۔(23)
منبع فضلاء:
دارالعلوم دیوبند نے بحیثیت تعلیم گاہ ایسے فضلاء پیدا کئے جنہوں نے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کام کیا۔
فضلاء صنعت وحرفت جنہوں نے تجارت کے ساتھ دینی خدمات بھی انجام دیں (24)
غرض کہ دارالعلوم دیوبند نے اپنے فضلاءکا ایک ایسا گلدستہ تیارکیا۔جس میں رنگ برنگ کے پھول اپنی عطربیزی سے آج بھی فرحت کا سامان بہم پہنچارہے ہیں ۔اس جائزے سے درس وتدریس ،تصنیف وتالیف،صحافت وطباعت وغیرہ کے میدانوں میں فرزندان دیوبند کی خدمات کا اعتراف کیا جاسکتا ہے۔(۲۵)درس وتدریس کے میدان میں دیوبند کی عظیم الشان خدمات کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سوسال کی مدت میں ابنائے دیوبند نے 8936مدارس ومکاتب قائم کئے۔ (26)
نابغہ روزگار علماء کی پروردہ تحریک:
دارالعلوم نے ایک سوتیرہ برس میں ایسے ایسے نابغہ روزگار علماء پیدا کئے کہ ان میں سے ایک ایک کو کھڑا کرکے دنیا کو چیلنج کیا جاسکتا ہے کہ تم اس کی مثال لاؤ۔بانی دارالعلوم مولانا محمد قاسم نانوتوی ،سرپرست اوّل مولانا رشید احمد گنگوہی،مولانا یعقوب نانوتوی ،شیخ الہند محمود الحسن ،مفتی کفایت اللہ ،مولانا سیّد حسین احمد مدنی ،علامہ انور شاہ کشمیری ،مولانا مناظر احسن گیلانی ،مولانا محمد منظورنعمانی ،مولانا مفتی محمد شفیع،مولانا محمد یوسف بنوری ،مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی،سیّد مرتضےٰ حسن چاندپوری ،مولانا اشرف علی تھانوی ،مولانا سیّد بدرعالم میرٹھی،مولانا حبیب الرحمن عثمانی ،مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی ،مولانا عبیداللہ سندھی،مولانا محمد میاں ،مولانا شبیراحمد عثمانی ،مولانا محمد ادریس کاندھلوی ،مولانا ثناء اللہ امرتسری ، مولانا قاری محمد طیب ، مولانا محمد اعزاز علی ،مولانا سعید احمد ،اکبر آبادی ،مولانا سیّد محمد میاں دیوبندی ،مولانا شمس الحق افغانی اور مولانا عبدالحق اکوڑہ خٹک تو ایسی نامور شخصیات ہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر جتنا بھی فخر ہوسکے کم ہے۔اگر یہ کہہ دیا جائے کہ دارالعلوم اپنے گذشتہ دور میں ایسی دو تین شخصیات ہی پیدا کردیتا تو یہ اس کیلئے مباہات کی پونجی تھی چہ جائیکہ یہاں تو سینکڑوں علماء ،فضلاء قطار اندر قطار کھڑے نظر آتے ہیں کہ جو اپنی مثال آپ ہیں ۔(27)
انجمن خدام الدین لاہور کے ایک جلسہ میں سرشفیع(شفیع لیگ والے)کی صدارت میں علامہ شبیراحمد عثمانی نے تقریر فرمائی تو سر شفیع انگشت بدنداں ان کی طرف دیکھتے رہے ۔اختتام تقریر کے بعد مائیک پر آئے اورآنکھوں میں آنسو بھر کرکہا کہ : کاش میری ماں بھی مجھے وہاں تعلیم کیلئے بھیجتی جہاں شبیر احمد کی ماں نے شبیر احمد کو تعلیم دلوائی۔علامہ اقبال نےعلامہ انورشاہ کشمیری کی وفات پر لاہور میں ایک تعزیتی جلسہ سے فرمایا:پانچ سو سال ادھر کی تاریخ انورشاہ پیش کرنے سے قاصر ہے ۔اوران ہی انور شاہ کے متعلق میاں شیر محمد صاحب شرقپوری نے فرمایا تھا۔دیو بند میں چار نوری وجود ہیں ان میں سے ایک مولانا انورشاہ صاحب ہیں (28) ۔دارالعلوم نے لاکھوں جیّد علماءپیدا کئے جنہوں نے دنیاکے مختلف خطوں میں دولاکھ کے قریب دینی مدارس قائم کئے۔ ان علماء نے شریعت،طریقت،تفسیر،حدیث ،درس وتدریس، خدمت خلق،تصنیف وتالیف ، تحریک آزادی ، اتحادامت اورتحریک پاکستان کےمیدانوں میں وہ شہرہؑ آفاق تعمیری کردار ادا کیا جس نے جنوبی ایشیاء کی تاریخ کا رُخ موڑ دیا۔(29)
مشرکانہ ماحول میں توحید کی علمبردار:
انگریزی حکومت کے ایماء پر برصغیر پاک وہند میں بہت سی گمراہ کن سیاسی اورمذہبی تحریکیں اُٹھیں جن کے ذریعے یہاں کے باشندوں اورخصوصیت سے مسلمانوں کو راہ راست سے ہٹانے کی کوششیں کی گئیں مگر دارالعلوم دیوبند اوراس کے فضلاء نے پامردی سے ان کا مقابلہ کیا۔ ان کوششوں کی بدولت مسلمان انگریزی حکومت کی سیاہ کاریوں سے بہت حد تک محفوظ رہے۔ جب انکا رحدیث کا فتنہ ابھرا تو ان ہی فضلاۓ دیوبند(مولانا حبیب الرحمن اعظمی ‘مولانا مناظر احسن گیلانی) نے کتابیں تالیف کرکے اس کا سدِّباب کیا(30)۔اس طرح قاد یا نیت اوردوسرے طریقوں سےمسلمانوں کو مرتد بنانے کی اسکیم تیار ہوئی تو دارالعلوم دیو بند نے 50سے زائد فضلاءاس کے مقابلہ کیلئے میدان میں اتارکر ان مکروہ سازشوں کا قلع قمع کیا(31) ۔ فقہیات اسلامی میں مداخلت کا فتنہ اُٹھا تو دارالعلوم ہی نے قضاء شرعی قائم کرنے کی تحریک چلائی اور مولانا حافظ محمد احمد نے پانچ سو علماء کے دستخطوں سے برطانوی حکومت کے سامنے محکمہ قضاء شرعی کا مطالبہ پیش کردیاجس سے یہ فتنہ باطل ہو گیا۔گویا یوں برصغیر کے مشرکانہ ماحول میں دارالعلوم دیوبند نے دین و توحید کو اس کی اصلی صورت میں قائم رکھا۔(32)
خوگر حمد سے تھوڑا سا گلہ بھی سن لے:
علماء دیوبند کے سیاسی رجحانات کی عملی تفسیر ’’جمعیتہ علمائے ہند‘‘ تھی جو عملی سیاست میں کانگریس کی ممدومعاون تھی۔ اگرچہ تمام علماء دیوبند انفرادی طور پر اس کی فکر سے متفق نہ تھے مگر اس کی کانگریس سے وابستگی نے مسلمانوں کو بہت سیاسی نقصان پہنچایا۔ سوائے مولانا شبیرا حمد عثمانی اوران کے چند رفقاء کے ان میں سے کسی قابل قدر ہستی نے تحریک پاکستان کا ساتھ نہ دیا۔ شبیر احمد عثمانی نے تو اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا : افسوس ! وہ دار العلوم جس کی بنیاد اولیاء واکابرین نے اسلامی تعلیم اور اس کی روایات کے بقاء و تحفظ کے لئے رکھی تھی آج کانگریسیوں کا ایک مستحکم قلعہ بنا ہوا ہے جس میں ایک ریزرو فوج کافی تعداد میں ہر وقت جمع رہتی ہے ۔ دار العلوم کے فرزندوں کو کانگریسی حکومت کے شوق نے ملکی آزادی کا پروانہ دے دیا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے دین سے آزادی حاصل کرنی بھی شروع کر دی ہے(33)۔ شروع میں یہ حضرات فرقہ پرستی سے بالا اورکٹروہا بیوں اورانتہا پسند بریلویوں کے درمیان راہ اعتدال پرگامزن رہے۔ مگر بعد میں انہوں نے اپنی مصالحت پسندانہ روش ترک کردی اورخودایک فرقہ بن کر دوسرے فرقوں کے مقابل آگئے۔نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے اپنے بزرگوں کی وسعت نظری بھی ترک کردی اورروح اسلام نظر انداز کرکے چھوٹی چھوٹی باتوں پر زور دینے اورلڑنے جھگڑنے لگے۔خاص طور پران کی افکارِ مغرب سے بیزاری نے انہیں بہت نقصان پہنچایا۔اپنے ذہنوں کو مسدود کرلینے کے باعث ان کی فکر کے سوتے خشک ہوگئے۔(34)
حملہ آور کا مقابلہ دو طرح سے ہوسکتا ہے۔آگے بڑھ کر یا اپنے آپ کو قلعہ میں محصور کرکے۔تحریک علی گڑھ نے آگے بڑھ کر مغربی افکار کا مقابلہ کیا۔جبکہ تحریک دیو بند نے قلعہ بند ہوکر۔موخرا لذکر کا طرز عمل یہ تھا کہ ہر مغربی چیز بری ہے۔نہ مغربی معیشت اپنالو نہ انگریزی پڑھو۔مگر اس طرز عمل نے اپنی انتہائی صورت میں یورپی علمی دور کی دو بنیادی خصوصیتوں یعنی حواس ظاہری سے حاصل شدہ تجرباتی علم اوراستدلالی طرز فکر سے دوری اختیار کرلی۔ اس روش نے انہیں حقیقت پسند ی اورمبنی بر معقولیت سوچ سے محروم کردیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے شرعی اور سیاسی دونوں میدانوں میں ٹھوکریں کھائیں اورباوجود ان کے خلوص نیت کے برصغیر کے مسلمانوں کو فائدہ کم اورنقصان زیادہ پہنچا(35) ۔نیز تعلیم بھی دو حصّوں میں بٹ گئی اوربرطانوی ہند میں پہلی باردینی اوردنیاوی یا قدیم وجدید تعلیم کی اصطلاح بولی جانے لگی۔اگر دارالعلوم دیوبند اپنا نصاب تعلیم وقت کی علمی ترقیوں سے ہم آہنگ کرلیتااورعربی زبان ،عربی ادب،علم کلام ،فلسفہ وغیرہ سے متعلق قرون وسطیٰ کے تعلیمی نصاب کو تجربہ ،مشاہدہ ،کلاسیکی ادب اورعلمی ارتقاء کی روشنی میں از سر نو مرتب کرتا تو ہماری تعلیم قدیم وجدید کی تقسیم سے بچ جاتی اورہماری تعلیمی روایت کا تسلسل برقرار رہتا۔(36)
مثلکلمہ طیبہ کشجرہ طیبہ
دارالعلوم دیوبند کے نصاب ،تعلیمی مقاصد ،فقہی مزاج اورارباب دیوبند کی مذہبی واخلاقی سیرتوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود دیوبند کی تعلیمی تحریک نے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی ضرورت پوری کی ، اسلامی علوم وروایات کے چراغوں کو طوفانوں کے تھپیڑوں میں روشن رکھا اوردیوبند نے ایسے سپوت پیدا کئے جنہوں نے نہ صرف برصغیر بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے عظیم الشان خدمات سرانجام دیں ۔ آزادی وطن کی اکثروبیشتر تحریکات کا مرکز دیو بند رہا،ریشمی رومال کی عالمگیر تحریک ابنائے دیوبند کے ہاتھوں پروان چڑھی۔ دیوبند کا نظام تعلیم درس نظامی پر مشتمل 9سال پر محیط تھا۔مگر اس کے ساتھ ساتھ علم طب ،جلد سازی،پارچہ بافی کا بھی انتظام تھا،اس کےفارغ التحصیل دنیائے اسلام کے مرکز مکہ اورمدینہ میں مدرسۃ الشرعیہ وغیرہ جیسی اسلامی علوم کی درس گاہیں قائم کرکے اسلامی تعلیمات کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں ۔ان میں صاحب درس وافتاء ، مصنف و مبلغ ،امراض روحانی کے معالج ، امراض جسمانی کے طبیب ،واعظ ، ادیب، لیڈر اوراخبار نویس ،قاضی ، مجالسِ مقنّنہ کے رکن ، مفکر ، فلسفی شامل ہیں ۔ غرض کہ مسلمانوں کی علمی ،اخلاقی ،تہذیبی اورسیاسی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جس میں دارالعلوم کے فیض یافتہ موجود نہ ہوں۔
حرف آخر:
اگراصطلاحی الفاظ میں دارالعلوم دیوبند کو ڈھالا جائے تو اسکا خلاصہ یہ بنے گا کہ دارالعلوم دیوبنددینا مسلم ، فرقتہً اہل سنت والجماعت ،مذہباً حنفی،مشرباً صوفی،کلاماً اشعری اور فکراً ولی اللّٰہی تھا۔مولانا ظفر علی خاں نے ٹھیک فرمایاتھا:
شاد باش وشادذی اے سرزمین دیوبند
ہند میں تونے کیا اسلام کا جھنڈا بلند
حوالہ جات:
۱۔وجاہت انجم 1980ء‘ص 81
2۔مجاہد الحسینی 2002ء،ص5
3۔محمد طیب، قاری1991ء‘ص178
۴۔محبوب رضوی ‘سیّد1972ء،ص 328-
5۔محمد نسیم عثمانی1973ء‘ص71
6۔محمداکرام‘شیخ 1982ء‘ص208
7۔دفتر اجلاس صدسالہ دارالعلوم دیوبند 1981ء‘ص 1538۔محبوب رضوی ، سیّد 1976ء ‘ص 188
9۔محمد اقبال، قریشی 1976ء‘ص164
10۔روزنامہ ’’الجمعیۃ‘‘، 8 دسمبر 1951ء
11۔ دفتر اجلاس صد سالہ دار العلوم دیوبند 1980ء‘ص 60
12۔مناظر احسن ، گیلانی سید(س ن) الف، ص226
13۔منظور احمد جاوید 1979ء‘ص15
14۔مناظر احسن ، گیلانی سیّد (س،ن)ج،ص 303-304
15۔محمد یوسف، بنوری 1976ء‘ص 149
16۔ محمد میاں ، سیّد 1961ء‘ص67
17۔ محمد یوسف ،بنوری 1976ء‘ص153
18۔احمد حسن ، پیر زادہ 1976ء‘ص347
19۔محمد مالککاندھلوی(س ن)،ص9-10
20۔رشید احمد‘ جالندھری1989ء‘ص197
21۔محبوب ، رضوی سیّد 1976ء‘ص192-191
22۔ندیم الواجدی 1976ء‘ص361
23۔ایچ۔بی‘خان 1985ء‘ص 34
24۔محمد رضوان ،قاسمی 1981ء‘ص5
25۔حبیب الرحمن مارچ 1981ء‘ص 11
26۔محمد نسیم عثمانی1973ء‘ص74
27۔ محمد اکبر ، شاہ بخاری 2001ء‘ص87
28۔عبدالرشید ارشد 1980ء‘ص12
29۔ارشاد الحق تھانوی2002ء‘ص6
30۔ غلام مصطفی ،مولانا 1976ء‘ص7
31۔ویب سائٹ، سٹوری آف پاکستان 2002ء‘ص025
۳۲۔جانباز مرزا 1980ء‘ص 4032
33۔مختار جاوید 1996ء ‘ ص34
34۔عبدالرشید ، میاں 1982ء‘ص114
35۔عبدالرشید ‘ میاں 1989ء‘ ص111
36۔رشید احمد ، جالندھری 1989ء‘ص210-200
کتابیات:
متفرق کتب
1۔ایچ۔بی۔خان۔(1985ء)۔ برصغیر پاک و ہند کی سیاست میں علماء کا کردار۔ اسلام آباد:قومی ادارہ برائے تحقیق و تاریخ وثقافت۔
2۔دفتر اجلاس صدسالہ دارالعلوم دیوبند۔(1981ء)۔ دارالعلوم دیوبند کے117 سال۔لاہور:ادارہ اسلامیات۔
3۔رشید احمد، جالندھری ڈاکٹر۔(1989ء)۔برطانوی ہند میں مسلمانوں کا نظام تعلیم، ایک ناقدانہ جائزہ، دارا لعلوم دیوبند،جلد اول ۔ اسلام آباد:نیشنل بک فاؤنڈیشن۔
4۔عبدالرشید،میاں-(1982ء)۔ پاکستان کاپس منظر اور پیش منظر۔لاہور:ادارہ تحقیقات پاکستان،دانشگاہ پنجاب۔
5۔عبدالرشید، میاں۔(1989ء)۔ پاکستان کاپس منظر اور پیش منظر۔لاہور: ادارہ تحقیقات پاکستان،دانشگاہ پنجاب۔
6۔ محبوب، رضوی سید ۔(1972ء)۔ تاریخ دیوبند۔ دیوبند، یوپی:علمی مرکز۔
7۔محمد اکبر، شاہ بخاری۔(2001ء)۔حجۃ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم ناناتویؒ، چالیس بڑے مسلمان۔کراچی:ادارۃ القرآن۔
8۔محمد اکرام،شیخ۔(1982ء)۔آب کوثر۔ لاہور:ادارہ ثقافت اسلامیہ پاکستان۔
9۔محمد مالک، کاندھلوی مولانا۔(س ن)۔ تفریظ۔۔ اکابرعلماء دیوبند(مؤلفہحافظ محمداکبرشاہ)۔ لاہور:ادارہ اسلامیات۔
10۔محمد میاں، سیّد۔(1961ء)۔علمائے ہند کا شاندار ماضی جلد چہارم۔ دہلی ۔
11۔مختار جاوید۔(1996ء)۔ دارالعلوم دیوبند کے سوسال۔ لاہور:عظیم پبلی کیشنز۔
12۔مناظر احسن، گیلانی ۔(س ن)۔الف۔ سوانح قاسمی جلد اول۔ لاہور:مکتبہ رحمانیہ،اردو بازار۔
13۔مناظر احسن،گیلانی۔(س ن)ج۔ مسلمانوں کا نظام تعلیم و تربیت۔ دہلی:ندوۃ المصنفین۔رسائل
14۔احمد حسن پیرزادہ جامی۔(1976ء)۔دارالعلوم دیوبند پر علمی و تحقیقی مقالہ، ماہنامہ الرشید (4)2-3۔ل اہور۔
15۔حبیب الرحمن، مولانا۔(1981ء)-چودھویں صدی ہجری کی ایک دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند،ماہنامہالرشید(9)3۔ ساہیوال۔
16۔عبدالرشید ارشد۔(1980ء)- شادباش و شاد زی اے سرزمین دیوبند، ماہنامہ ا لرشید، تاریخ دارالعلوم دیوبند نمبر(8)4-5۔ ساہیوال ۔
17۔غلام مصطفےٰ، مولانا۔(1976ء)۔جامعیت دارالعلوم دیوبند، ماہنامہا لرشید(4)2۔ 3۔لاہور۔
18۔محبوب، رضوی سیّد۔ ۔(1976ء)۔دارالعلوم دیوبند کی تعلیمی خصوصیات، ماہنامہ ا لرشید (4) 2۔3۔ لاہور۔
19۔محمد اقبال، قریشی۔(1976ء)۔حضرات علماء دیوبند کا مسلک اعتدال، ماہنامہ ا لرشید(4)2۔3۔ لاہور۔
20۔محمد رضوان قاسمی۔(1981ء)۔دارالعلوم دیوبند کی صدسالہ تاریخ۔ اعدادوشمار کے آئینے میں، ماہنامہ الرشید(9) 1۔2۔ساہیوال۔
21۔محمد یوسف، بنوری۔ (1976ء)۔دارالعلوم دیوبند ایک جائزہ، ماہنامہ ا لرشید(4)2۔3۔ لاہور۔
22۔منظور احمد جاوید۔(1979ء)۔ تقدمہ، ماہنامہ عزم نو، اسلامی نظام تعلیم نمبر۔ لاہور:جمعیت طلباء اسلام، شاہ عالممارکیٹ،جنوری تا جون1979ء۔
23۔ندیم الواجدی۔(1976ء)۔ دارالعلوم دیوبند ماضی اور حال، ماہنامہ ا لرشید(4)2۔3۔ لاہورمجلے
24۔محمد طیب، قاری۔(1991ء)۔ دارالعلوم دیوبند، مجلّہ(2)1۔4۔ کراچی۔
25۔محمد نسیم عثمانی۔(1973ء)۔ دارالعلوم دیوبند، مجلہ علم و آگہی، خصوصی شمارہ۔ کراچی:گورنمنٹ نیشنل کالج۔
بابت1973۔74ء۔
26۔منظور احمد جاوید۔(1978ء)۔ تقدمہ، عزم نو، اسلامی نظام تعلیم نمبر۔ لاہور:جمعیت طلباء اسلام، شاہ عالم مارکیٹ،اخبارات و جرائد، رودادیں،ویب سائٹ۔
27۔اداریہ۔ روزنامہ الجمعیۃ۔ 8دسمبر 1951ء۔ دہلی۔
28۔ارشادالحق تھانوی، مولانا۔(2002ء)۔ دارالعلوم دیوبند۔۔۔ ایک ادارہ، ایک تحریک، روزنامہ جنگلاہور۔31مئی 2002ء۔
29۔مجاہدالحسینی، مولانا۔(2002ء)۔ دارالعلوم دیوبند کی علمی و دینی خدمات۔۔۔ ایک جائزہ، روزنامہ جنگ۔ 3 1مئی 2002ء۔لاہور۔
30۔وجاہت انجم۔(1980ء)۔دارالعلوم دیوبند کھلی اور چھپی کہانی۔۔۔ ایک صدی کی زبانی، ہفت روزہ بادیان(2)47۔ لاہور۔
31۔جانباز مرزا۔(1980ء)۔ میں بھی وہاں حاضر تھا،روئیدادجشن دیوبند21-23 مارچ1980ء۔ لاہور: مکتبہ تبصرہ، شادباغ۔
۳۲۔www.storyofpakistan.com. (2002) Deoband Movement (1886-1947)۔
حوالہ جات
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |