31
2
2015
1682060034497_786
77-92
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/165/157
دنیا کی اقوام اس بات سے آگاہ ہیں کہ قو مو ں اور ملکو ں کی تعمیر و تر قی خو شحالی اور استحکام علم کی مر ہنو ن منت ہے۔ جس قوم نے علم کے حصول میں خلو ص اور محنت سے کام کیا ہے اسے دوام حا صل ہو ا ہے اور جس نے علم کو ثا نو ی حیثیت دی تو وہ دو سر وں کی دست نگر بن کر رہ گئی۔ معا شی تر قی ہو یا سما جی انقلاب اخلا قی بلندی ہو یا سیا سی پختگی علم ہی کی وجہ سے ہے۔ علم ہی سے تر قی کے بند کھلتے ہیں۔ علم ہی سے دنیا وی آسو دگی اور اخر وی نجا ت حا صل کی جا سکتی ہے۔علم روشنی کا مینا ر ہے اور کامیا بی کی علا مت اور فضلیت کا معیا ر ہے۔ علم کی اہمیت کا اندازہ اس با ت سے لگا یا جا سکتا ہے کہ رب کا ئنا ت نے جو پہلی وحی نازل فر ما ئی ہے وہ اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ [1]شر وع فرما کر علم کی اہمیت کو روز روشن کی طر ح عیا ں کر دیاہے اور محسن کا ئنا ت ﷺنے فر ما یا : إنما بعثت معلما[2] اور آپ ﷺ کی پو ری زندگی تعلیم و تعلم میں گذری ہے حصول علم پر جتنا زور آپ ﷺ نے دیا ہے تا ریخ اسکی مثال پیش کر نے سے قا صر ہے اور پھر اسی علم ہی سے وہ جو گمر اہ تھے ھا دی عالم بن گئے جو گنوا ر تھے وہ تمدن اور تہذیب کی علا مت بن گئے۔جو برائیوں کے رسیا تھے وہ نیکیو ں کے علمبر دار بن گئے عرض علم کی بد ولت وہ آسمان دنیا پر ستا روں کی طر ح جگمگا نے لگے۔
غرض وہی تر قی کی پہچان اور عزت کا معیا ر بن گئے وہ عظمت کی بلندی پر فا ئز ہو گئے۔ بہا ریں ان کا مقدر بن گئیں اور کا میا بیا ں ان کی قسمت بن گئیں۔ اور جب تک مسلما نو ں نے علم کو اپنا ئے رکھا تو وہ کا ئنا ت کے رہبر و را ہنما رھے ۔ دنیا پر حکمرا نی کر تے رہے ۔ لیکن مسلما نو ں نے علم کو چھو ڑا تو وہ ذلیل و خوا ر ہو گئے دو سروں کے دست نگر بن گئے۔ آج ہما ری حالت یہ ہے کہ تنز لی کی طر ف لڑ کھڑ ا نے کا عمل کہیں رک ہی نہیں رہا ہے۔وہ کو نسی ناکامی ہے جو ہما را مقد ر نہیں ہے۔وہ کو نسی ذلت ہے جو ہما رے دامن پر نہیں ہے وہ کو نسا دکھ ہے جس سے ہم دو چار نہیں ہیں۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہو سکتا ہے کہ دنیا کی دوسر ی بڑی قوم قحط الر جا ل کا شکا ر ہے۔ بہتر ین خطہ سر زمین کی مالک امت مسلمہ محر و میو ں کا شکا ر ہے۔ معد نی ذخا ئر سے مالا مال زمین کے مالک مسلما ن غر بت کے چیتھڑوں میں ملبو س ہیں۔شا ندار ما ضی کے حامل آج مستقبل سے ما یو س ہیں۔ غر یب،جہالت، بدا منی، تعصب، فر قہ واریت، پسما ند گی، اخلا قی بے راہ روی ہما ری پہچان بن چکے ہیں۔ شفقت، اپنوں سے پیارو محبت اور دشمن سے دشمنی و عداوت، خدا کیلئے جینا اور رب کیلئے مرنا،یہی وجہ ہے کہ رنگ و نسل قوم و قبیلے کے اختلافات کے باوجود پر امن ماحول ہے. یہاں ہڑتال نہیں مظاہرے نہیں ہیں یہاں استاد کی پٹائی کا تصور محال ہے سب کے سب دو زانوں پلکیں بچھائے آنکھیں جھکائے باوضو با ادب اللہ اور اس کے رسولﷺ کے فرامین دلی تڑپ ذہنی لگن فکری لگاؤ کے ساتھ سیکھ رہے ہیں.یہاں کوئی ا نجینئر بننے نہیں آیا، کوئی ڈاکٹر بننے نہیں آیا. کوئی گاڑی کا میکینک بننے نہیں آیا،بلکہ سب کے سب یکسوئی کے ساتھ، دین کی اعلیٰ تعلیم’’قرآن و سنت‘‘ پڑھنے اور سیکھنے آئے ہیں۔کچھ نامعلوم لوگ بار بار کیوں رٹ لگارہے ہیں کہ یہاں سے ڈاکٹر اور انجئنئر نہیں نکل رہے،جس نے گندم بوئی ہے وہاں سے چنا کیسے برداشت ہو گا بھلا میڈیکل سٹور سے کبھی آٹا اور گھی ملتاہے۔ کپڑے کی دکان سے سر درد کی گولیاں ملتی ہیں؟ جدید دور ہے شاید آج یہ ممکن ہو گیاہو. مغربی ممالک میں کوئی ایسی دکان بنی ہو. لیکن ابھی تک ہمیں کوئی اطلاع نہیں ملی ہے۔ جب یہ حقیقت ہے تو پھر مدارس والوں کو یہ کیوں کہا جاتاہے کہ ڈاکٹر اور انجینئر پیدا نہیں ہو رہے ہیں۔ تنظیم نو کی جائے ۔ پور ا کالج اور یونیورسٹی اٹھا کر مدارس کے اندر رکھ دیا جائے۔ ایک عالم دین سارے علوم اکٹھے حاصل کرے اگر زیادہ ہی ہمدردی ہے تو مدارس کا نصاب اٹھا کر کالج اور یونیورسٹی میں لازمی کر دیا جائے۔ وہاں درسگاہیں بھی ہیں اور ہاسٹل بھی ۔ تنخواہیں بھی ہیں وظائف بھی ،عملہ بھی اساتذہ بھی ، حکومت کیلئے آسانی بھی ہے اور عوام کیلئے قابل قبول بھی۔بات دور نکلتی جا رہی ہے. ہم اپنی بات کو فی الحال سمیٹتے ہیں. اس کی دین سے مراد دین اسلام ہے۔ اور مدارس مدرسہ کی جمع ہے جس کا معنی ہے وہ جگہ جہاں پر دین اسلام کی تعلیم دی جا تی ہے۔ جب انگریز نے بر صغیر پر اپنا تسلط قا ئم کیا تو اس حکو مت کی سر پر ستی میں چلنے والے اداروں سے اسلامی تعلیم کو خا رج کر دیا اور اگر کہیں اسلامی مضمو ں پڑھایا بھی جا تا تھا تو صر ف نام کی حد تک ایسی حالت میں بر صغیر کے علما ء نے اپنی مدد آپ کے تحت دینی مدارس کی بنیاد ڈالی جہاں پر صر ف خالصتاً دینی تعلیم دی جا تی تھی۔اگر چہ اس وقت ان مدارس میں کچھ ایسے فنو ن بھی سکھا ئے جا تے تھے جن سے روز گار وابستہ تھا مثلاً سلا ئی ،فن خطا طی اور فن طب وغیر ہ ۔لیکن مر ور زما نہ کے ساتھ یہ فنو ن ختم کر دیے گئے۔چونکہ بات صرف پاکستان کے دینی مدارس کی ہو رہی ہے اس لیئے گفتگو کا دائرہ کار بھی انہیں تک محدودہوگا۔پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں بڑی بڑی جامعات اور مدارس ہیں، مثلاََکراچی میں دارلعلوم کراچی، جامعۃ الاسلامیہ بنوری ٹاؤن،جامعہ بنوریہ سائٹ کراچی، جامعہ فاروقیہ شاہ فیصل کالونی، احسن العلوم جامعہ گلشن اقبال کراچی،جامعۃ الرشیدکراچی،جامعہ اشرفیہ، جامعہ نعیمیہ ، جامعہ مدنیہ(لاہور)، جامعہ خیر المدارس، جامعہ قاسم العلوم (ملتان)، جامعہ فریدیہ (اسلام آباد) غرض ان جیسے بیسیوں مدارس جہاں ہزاروں کی تعداد میں طلباء رہائش پذیر اور دینی علوم حاصل کر رہے ہیں. یہاں افتاء کے شعبے قائم ہیں جہاں سے عوام شرعی مسائل پوچھتے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر کے تقریباََ ہر محلے میں چھوٹے چھوٹے مدارس قائم ہیں۔مساجد میں دین کا کام ہو رہا ہے. اس طرح کے تمام مدارس اپنے متعلقہ بورڈز (وفاق المدارس، تنظیم المدارس، رابطۃ المدارس، وفاق علماء شیعہ، وفاق علماء سلفیہ) سے مربوط ہیں.۔
پھر ان تمام بورڈز کا ایک متحدہ پلیٹ فارم "اتحاد تنظیمات مدارس" کے نام سے قائم ہے اپنے تمام معاملات اس کے ذریعے حل کرتے ہیں.داخلے کا باقاعدہ مربوط نظام ہے. ایک ہی تاریخ کو پورے ملک میں امتحانات ہوتے ہیں. یونیورسٹی آف گرانٹ کمیشن نے ان کی "شہادت العالمیہ"کی سند کو ایم اے کے برابر تسلیم کیا ہے۔ اس سندکے ذریعے اسکولزمیں عربی ٹیچر اور پاکستان آرمی، نیوی، ائر فورس، میں خطیب بھرتی ہو کر دین کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔
دینی مدارس کے نظام زندگی کا تعارف:
دینی مدارس کے نظام زندگی کے متعلق ذیل میں شبلی کالج لاہور کے پرنسپل اور مسلم اکیڈمی کے سیکرٹری جناب نذر احمد صاحب کی تحریر کا ایک اقتباس نقل کیا جاتاہے انہوں نے پاکستان کے دینی مدارس کا ایک جائزہ اور سروے رپورٹ آٹھ سو صفحات میں شائع کی ہے جس میں انہوں نے بڑی حقیقت و صداقت کا حامل ایک منصفانہ تجزیہ پیش کیاہے.[3] خامیوں کی طرف بھی توجہ دلائی ہے اور خوبیوں کو بھی واضح کیا ہے۔ دشمن کی آنکھ سے نہیں، ایک منصف اور حقیقت پسند تجزیہ نگار کی آنکھ سے انہوں نے دینی مدارس کے نصاب و نظام کا مشاہدہ کیا، ہم یہاں انکی کتاب سے ایک طویل اقتباس نقل کرتے ہیں کہ عصری درسگاہ سے وابستہ ہونے کی وجہ سے ان پر جانب داری کا الزام بھی نہیں لگایا جا سکتا اور اس میں دینی مدارس کے نظام زندگی کا صحیح تعارف بھی آ گیا ہے ، وہ لکھتے ہیں۔
مدارس عربیہ کے اساتذہ اور تلامذہ کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ علوم اسلامیہ کی تعلیم حق تعالیٰ کی عبادت اور وراثت انبیاء علیہم السلام ہے، یہ تعلیم ان کے دین و ایمان کی امانت اور دنیا و آخرت میں فلاح وکامرانی کا ذریعہ ہے. ان تصورات کا نتیجہ یہ ہے کہ ان مدارس میں تعلیم کے جتنے عنوان ہیں ان میں عبدیت، سنجیدگی کے آثار نمایا ں ہیں، استاد کی سوء ادبی یا درسگاہ کی بدنظمی، احتجاج اور ہڑتال کی ناخوشگوار صورتیں وہ کبھی پید انہیں کرتے، بعض مدارس میں مختلف مکاتب فکر کے یکجا تعلیم حاصل کر رہے ہیں یہی نہیں بلکہ اکثر اپنے سے مختلف مکتبہٗ فکر کے اساتذہ کے آگے زانوئے تلمند تہہ کئے ہیں. لیکن کیا مجال کہ مسلک کا اختلاف کسی نزاع کی صورت اختیار کرے. ہر سبق کی ابتداء بسم اللہ سے ہوتی ہے جب کوئی نئی کتاب شروع ہوتی ہے تو اساتذہ اور طلبہ کی زبان پر یہ دعائیہ جملے ہوتے ہیں . بسم اللہ الرحمن الرحیم، رب یسر ولا تعسر و تمم بالخیر. ترجمہ. اللہ کے نا م سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والاہے. اے پروردگار یہ میرے لئے آسان فرمادے، مشکل نہ فرما اور خیریت سے ختم کر ادے۔ اس وقت استاد اور شاگرد دونوں کی کیفیت اور گداز قابل دید ہوتا ہے. رب شرح لی صدری و یسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی کی دعا عموما سبق کی ابتداء میں وردزبان ہوتی ہے. مدارس عربیہ کا لیکچر سسٹم اسکولوں ، کالجوں کے انداز سے مختلف ہوتاہے. یہاں متعلقہ مضمون کی تقریر کے علاوہ متعلقہ کتب کے مشکل اور مغلق مقامات کا حل بھی ضروری ہوتاہے. وہ مقامات نحوی بھی ہوتے ہیں اور صرفی بھی، اصولی بھی ہوتے ہیں اور فلسفیانہ بھی، ادبی اور لغوی بھی مدارس عربیہ میں کتابوں کی کلید اور خلاصہ کے مطالبہ کا رواج قطعاََ نہیں ، کیونکہ خلاصے صرف رٹنے کیلئے ہوتے ہیں، انشراح صدر کیلئے نہیں، ان درسگاہوں میں اصل کتابوں کی تدریس ہوتی ہے. مزید تو ضیح اور افہام و تفہم کے لئے کتابوں کی شروح، ان کے حاشیئے، تعلیقات ذیل اور بین السطور تدریس کے لازمی حصے ہوتے ہیں. جماعت میں طلبہ کو اساتذہ پر سوال کرنے کی کامل آزادی ہوتی ہے. اور یہ امر ادب کے منافی نہیں سمجھاجاتاہے.بلکہ اس کو طلبہ کی اہمیت اور لیاقت کا ثمر سمجھاجاتاہے. آزادانہ سوال و جواب میں بھی احترام ضرور ملحوظ رکھا جاتاہے.رات کو مطالعہ کا انداز عام طور پر یہ ہوتاہے کہ تمام طلبہ ایک جگہ جمع ہوتے ہیں اورہم سبق ایک دوسرے کو اپنا آموختہ سنتے سناتے ہیں. اساتذہ عموماََ نگرانی کیلئے ہوتے ہیں. اشکالات رفع کرتے ہیں، قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں ، دور دور تک سنائی دیتی ہیں. مدارس عربیہ کی اقتصاد ی حالت عموماََ غیر تسلی بخش ہوتی ہے. بالعموم وہ نان شبینہ پر گزارہ کرتے ہیں. دینی مدارس میں ایسے اساتذہ کی تعداد کم نہیں جو گھر سے کھاکر اللہ کی رضا کیلئے درس دے رہے ہیں. اساتذہ میں متعدد ایسے بھی ہیں جو طلبہ کی ضروریات کے خود کفیل ، سادہ زندگی ان کا طرہٗ امتیاز ہوتی ہے. وہ موٹا جھوٹا پہنتے ہیں. سادہ خوراک کھاتے ہیں ، غریبانہ انداز سے رہتے ہیں. نہ انہیں پہننے کو شاندار لباس درکار ہے، نہ رہنے کو کوٹھی بنگلے ، ان کارہن سہن اور رکھ رکھاؤ بھی حد درجہ سادہ ہوتاہے. اساتذہ میں باہم حد درجہ اخوت و عزت و احترام کے جذبات موجود ہیں، رقابت کے تصورات عموماََ نہیں پائے جاتے. وہ ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے پیش آتے ہیں. ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں، ہر چھوٹا اپنے بڑے کا احترام کرتا ہے۔ لیکن بزرگ ادنیٰ و اعلی ٰکی تمیز نمایاں نہیں ہو نے دیتے. ملازمت میں سینئر اور جونیئر کے جھگڑے نہیں ہوتے . اگر ان کے درمیان کوئی وجہ تفوق ہے تو صرف علم اور تقویٰ ہے مدارس کے ارباب حل و عقد اور اراکین منتظمہ بھی انہیں. "حضرت""مولانا""قبلہ اور اس قسم کے دوسرے معزز القاب سے پکارتے ہیں ان کے درمیان آجرواجیریاخادم ومخدوم شان ہر گز نہیں ہوتی اکثر مدارس میں اساتذہ کا احترام اسقدر ملحوظ کاطر ہوتاہے کہ احتراماََ ان کی تنخواہ لفافہ میں بند کر کے دی جاتی ہے۔مدارس عربیہ کے طلباء کے دلوں کے اندر اپنے اساتذہ کے بارے میں جو احساسات ہوتے ہیں وہ دوسری درسگاہوں کے طلباء میں با لکل مفقود ہیں، دینی درسگاہوں کے طلباء اپنے اساتذہ کے سامنے موٗدب رہتے ہیں. ان کی خدمت کرتے ہیں اور اسے اپنے لئے وجہ ٗ سعادت اور علمی فضیلت کے حصول کا ذریعہ تصور کرتے ہیں. ان کے نزدیک حضور اکرم ﷺ کے ارشاد گرامی کے مطابق استاد کا مقام باپ کے درجہ سے بھی بلند ہے. اساتذہ کے برابر ان کی نشست گاہ پر بیٹھنا ان کے لئے ممکنات میں سے نہیں اوریہ سب کچھ قواعد و ضوابط کی رو سے نہیں بلکہ از خود احترام اور بزرگی کے تصور سے ملحوظِ خاطر ہوتاہے. اساتذہ کے جوتے اٹھاکر لانا جب وہ جانے لگیں تو اساتذہ کے جوتے سیدھے رکھنا اور اساتذہ کو خود وضو کرانا طلباء کیلئے حد درجہ روحانی مسرت کا باعث ہوتاہے۔ طلباء کے احساسات کا منظر اس وقت خاص طور پر قابل دید ہوتاہے. جب وہ اساتذہ سے جدا ہو کر اپنے گھروں کو روانہ ہوتے ہیں ، روتے ہیں، دعائیں کراتے ہیں، وظائف دریافت کرتے ہیں۔وصیت اور نصیحتوں کے لئے درخواستیں کرتے ہیں۔
اساتذہ کے پس پشت جب بھی طلباء ان کا ذکر کرتے ہیں۔ فخر سے کرتے ہیں. ان کی توصیف اور تعریف سے ان کی زبانیں تر رہتی ہیں. جو دوسری سرکاری درسگاہوں کے طلباء سے انہیں ممتاز کرتی ہیں، ان کے تعلیم کا محرّک علوم اسلامیہ کے حصول کا جذبہ، دین کی فہم اور خدا شناسی کا شوق ہوتاہے. وہ جو کچھ پڑھتے ہیں اسی دینی جذبے سے پڑھتے ہیں، ذہنی اعتبار سے عام طور پر یہ طلباء دوسری درسگاہوں کے طلباء سے کسی طرح پست نہیں ہوتے، ہمارے اس دعویٰ کی صداقت پر اگرچہ بعض حضرات کو شک ہوگا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اپنے دائرہ علمی میں ان کی ذہانت تیز اور نگاہ دوررس ہوتی ہے۔
دینی اور اخلاقی لحاظ سے ان طلباء کا مقام انتہائی بلند ہوتا ہے. بزرگوں کی قدیم طرز زندگی ان کا نمایاں شعار ہے یہ اور بات ہے کہ اہل دنیا اس طرز زندگی کی افادیت کو ہی تسلیم نہ کریں۔دینی مدارس کے ماحول میں احکام دین کی پابندی اور نشست و برخاست کے اندر بھی احتیاط ایک قدرتی امر ہے اپنے اساتذہ اور بڑوں کی تکریم گویا ان کی گھٹی میں داخل کی ہے۔جفاکشی اور سخت گوشی ان کا شعار ہوتی ہے ، معاشی پستی ان میں فقروغناء کے وہ جذبات پیدا کردیتی ہے۔جس کے نتیجہ میں صبروقناعت اور توکل کی صفات پرورش موجود ہیں۔ روکھی سوکھی روٹی کھا کر ان کے منہ سے الحمداللہ ہی نکلتاہے۔ مبارک ہیں وہ غریب جن کی غربت نے انہیں دین سے دور کرنے کے بجائے قریب تر کیا ہے اور اس طرح انہوں نے اشتراکی دعویٰ کی تردید کا عملی ثبوت بہم پہنچایاہے.
دینی مدارس اور انسانی حقوق:
ان مدارس پرانسانی حقوق کی خلاف ورزی کے حوالے سے لگائے جانے والے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کیلئے حقوقِ انسانی کی حفاظت کے حق میں آواز اٹھانے کیلئے وسیع خطے موجود ہیں وادیِ کشمیر مسلمانوں کے خون سے لہولہان ہیں اسرائیل کی درندگی نے فلسطینیوں کی زندگی اجیرن کردی ہے الجزائر کے اسلام پسند عناصر حوالہ زندان ہیں، بوسنیاکے مسلمان ایک عرصہ سے سفاکی کا شکار ہیں، ستم رسیدہ ان دکھے انسانوں کے حق میں موثر آواز بلند کرنا ، انسانیت کی خدمت اور حقوق انسانی کے تحفظ کا اصل میدان ہے. دینی مدارس زمین پر اللہ کی رحمت کا سایہ ہیں ورنہ ہماری صورتِ حال بھی ویسے ہی ہوتی جیسے ۱۹۹۲ ء میں روس سے آزاد ہونے والی چھ مسلم ریاستیں ستر سال تک روس کے پنجہ استبداد میں رہیں. ایک طویل عرصہ تک انہیں نماز تو کجا کلمہ پڑھنے تک کی اجازت نہ تھی . مساجدو مدارس کھنڈرات میں تبدیل کر دیئے گئے، مسلمانوں کی ایک نسل فناء دوسری بوڑھی اور تیسری جوان ہوئی لیکن ستر سال بعد جب استبداد کا ڈھکن اٹھایا گیا تو مسلمان کی جوان نسل میں قرآن کے حافظ اور دین کے عالم موجود تھے اور اسلامی تعلیمات سے شناسائی کو گھن نہیں لگا تھا. پوچھنے والے نے حیرت سے پوچھا اس طویل عرصہ میں قرآن و دینی علوم کی تعلیم کیسی جاری رکھی گئی؟ تہہ خانوں میں قائم دینی مدارس کا یہ کرشمہ ہے جہاں رات کو قرآن اور دینی علوم کی تعلیم دی جاتی تھی۔ [4]
دینی مدارس کے بارے میں مفکرین کے افکار
اقبال کی نظر قدر شناس:
ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہیں مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو کیا ہوگا؟ جو کچھ ہو گا میں انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں. اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہو گئے تو بالکل اسی طرح ہو گا جس طرح اندلس میں مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اور قرطبہ کے کھنڈرات اور الحمراء کے نشانات کے سوا اسلام کے پیر وؤں اور اسلامی تہذیب کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا، ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دلی کے لال قلعے کے سوا مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت اور ان کی تہذیب کا کوئی نشان نہیں ملے گا۔ [5]
مدرسہ مسلمانوں کی بہترتعلیم گاہ:
میر ی تحقیقات کے نتائج یہ ہیں کہ یہاں (دار العلوم دیو بند) کے لوگ تعلیم یا فتہ نیک چلن اور نہایت سلیم الطبع ہیں اور کوئی ضروری فن ایسا نہیں جو یہاں پڑھایا نہ جاتاہو. جو کام بڑے بڑے کالجوں میں ہزاروں صرف کر کے ہوتاہے. وہ یہاں ایک مولوی چالیس روپے میں کر رہاہے. مسلمانوں کیلئے اس سے بہتر کوئی تعلیم گاہ نہیں ہو سکتی اور میں تو یہاں تک کہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی غیر مسلمان بھی یہاں تعلیم پائے تو نفع سے خالی نہیں. انگلستان میں اندھوں کا سکول سنا تھا، مگر یہاں آنکھوں سے دیکھا دو اندھے تحریر اقلیدس کی شکلیں کفِ دست پر اس طرح ثابت کرتے ہیں کہ باید و شاید مجھے افسوس ہے کہ آج سر ولیم مور موجود نہیں ہیں. ورنہ بکمالِ ذوق و شوق اس مدرسے کو دیکھتے تو طلبہ کو انعام دیتے۔ [6]
قدرت اللہ شھاب کے جذبات:
لو سے جھلسی ہوئی گرم دو پہروں میں پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟ کڑکڑاتے ہوئے جاڑوں میں نرم و گرم لحافوں میں لپٹے ہوئے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتاہے ؟ دن ہو یا رات ، آندھی ہو یا طوفان، امن ہو یا فساد، دور ہو یا نزدیک، ہر زمانے میں شہر شہر، گلی گلی، قریہ قریہ، چھوٹی بڑی، کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد تھیں، جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑھا تھا، ایک در بدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کی بیٹھ رہاتھا. اس کی پشت پر نہ کوئی تنظیم تھی نہ کوئی فنڈ تھا، نہ کوئی تحریک تھی، اپنوں کی بے اعتنائی، بے گانوں کی مخاصمت ، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع و قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا، اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی شمع، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی، یہ ملا ہی کا فیض تھا کہ کہیں کام کے مسلمان کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہے، برصغیر کے مسلمان ملا کے اس احسان عظیم سے کس طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح ان کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا۔ [7]
صحافی محمد طاہر کی منصفانہ رائے:
دینی مدارس نے ہنگاموں ، بحرانوں اور روشنی سے محروم دنوں میں بھی اپنے وجود کے ذریعے اس امت کی نمود کا فریضہ انجام دیا ہے۔ ان دینی مدارس کے معیار اور کارکردگی کا موازنہ اگر سرکاری سر پرستی میں چلنے والی پاکستانی جامعات کی شعبہ عربی، و شعبہٗ اسلامیات سے کیا جائے تو حقیقت حال خود روشن ہو جاتی ہے، گزشتہ پچاس سالوں میں پاکستان کی جامعات سے وابستہ عربی و اسلامیات کے پروفیسر صاحبان کی کل تصانف کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے. ان میں ستر فی صد سے زیادہ تصانیف اردو میں ہیں اور علمی طور پر ان کی وقعت نہیں ہے. اس کے برعکس دینی مدارس جو بغیر کسی سرکاری سر پرستی و امداد کے چل رہے ہیں ان سے وابستہ بوریا نشین علماء نے پچاس سال کے عرصے میں پچاس ہزار سے زیادہ کتابیں ، عربی، فارسی ، انگریزی اور اردو میں تحریر کی ہیں یہ علماء جو نہایت سادہ زندگی بسر کرتے رہے اور جن کی ضروریات زندگی بھی بمشکل پوری ہوتی تھیں ان کا علمی کام سرکاری جامعات میں دنیا کی تمام سہولتیں سمیٹ لینے والے اساتذہ سے ہزاروں گنا بہت رہا .[8]
جناب نذر احمد کے خیالات:
دینی اور اخلاقی لحاظ سے ان طلباء کا مقام انتہائی بلند ہوتاہے، بزرگوں کی قدیم طرز زندگی ان کا نمایاں شعار ہے، یہ اور بات ہے کہ اہل دنیا اس طرز زندگی کی افادیت کو ہی تسلیم نہ کریں۔ دینی مدارس کے ماحول میں احکام دین کی پابندی اور نشست و برخاست کے اندر بھی احتیاط ایک قدرتی امر ہے، اپنے اساتذہ اور بڑوں کی تکریم گویا ان کی گھٹی میں داخل ہوتی ہے، جفاکشی اور سخت گوشی ان کا شعار ہوتی ہے، معاشی پستی ان میں فقر و غناء کے وہ جذبات پیدا کر دیتی ہے جس کے نتیجہ میں صبر و قناعت اور توکل کی صفات پرورش پاتی ہیں ، روکھی سوکھی کھا کر بھی ان کے منہ سے الحمداللہ ہی نکلتاہے، مبارک ہیں وہ غریب جن کی غربت نے انہیں دین سے دور کرنے کی بجائے قریب تر کیا ہے اور اس طرح انہوں نے اشتراکی دعویٰ کی تردید کا عملی ثبوت بہم پہنچایا ہے۔[9]
مولانا ابن الحسن عباسی کی نگاہ میں
۱۸۲۲ ء میں ضلع سہارنپور کے ایک چھوٹے سے قصبہ میں قائم ہونے والا ’’دارالعلوم ‘‘ ا س سلسلے کا درخشاں مطلع ہے جس نے مسلمانوں میں احیائے دین کا ایک تازہ جذبہ پیدا کیا، اتباع سنت، اسلاف کے ساتھ محبت اور ان پر اعتماد کا بیج سینوں میں بویا اور اسلام کے تہذیبی ورثے کی حفاظت کا شعور زندہ کیا. دارلعلوم دیوبند اور اس کے نہج پر قائم ہونے والے تعلیمی ادارے صرف علم ہی نہیں عمل کی بھی درسگاہیں تھیں یہاں سے نکلنے والے کے ایک ہاتھ میں شمع علم اور دوسرے ہاتھ میں عمل کا پروانہ ہوتا، اس طرح ان مدارس نے مسلم معاشے میں نہ صرف لارڈ میکالے کے نظام تعلیم کے سموئے ہوئے زہر کا تریاق کیا بلکہ دلوں کو اسلام کا ایک ولولہ تازہ دیا، ہندسے تاخاک بخار ا و سمر قند ، ان ہی مدارس سے دین کے زمرے بلند ہوئے ، نور کے جلوے اٹھے ، اسلامی تعلیمات کے چشمے ہر سو پھوٹے اور بر صغیر ہی کی نہیں، عالم اسلام کی بعض عہد ساز شخصیات یہاں پیدا ہوئیں اور اقبال کا یہ شعر پوری طرح ان اداروں پر صاد ق آیا۔ اس دریا سے اٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا [10]
ڈاکٹر جمیل واسطی کی نگاہ میں:
موجودہ زمانے میں مولویوں کے مقدس طبقہ کے متعلق بہت بے قابو ہذیان سرائی کی گئی ہے. داڑھا ، تنبا، ملنٹا، جمعراتیہ، حلوہ مانڈہ خور، گنبد نما پگڑ پوش کے الفاظ استعمال کیے بغیر ان کا تذکرہ مشکل ہو گیا. مولوی قوم کو گمراہ کرتے ہیں. ترقی کے دشمن ہیں، قومی تنزل کا باعث ہیں وغیرہ..... ہمیں احسان مندی سے یاد رکھنا چاہئے کہ جب ہم نے غلط تشریح کے تحت یورپ سے عناصر قوت کی بجائے عناصر تہذیب و تمدن کو اختیار کرنا شروع کیا تو مولویوں نے صدائے احتجاج بلند کی اور ہم نے ان کے اسی جرم کی وجہ سے اپنی غلطی کو نہ پہچانتے ہوئے مولویوں کو ترقی کا دشمن گردانا، جب کبھی غلط تشریح کے تحت اسلامی روایات میں رخنہ اندازی ہوئی، ان مولویوں نے صدائے احتجاج بلند کی. یہ صرف ان مولویوں کے احتجاج کی بدولت ہے کہ مغربی تعلیم جو شروع میں مغربی مذہب کی تبلیغ سے متعلق بھی آج ہمارے لئے نا صرف قوت کے حصول کا ذریعہ ہے. مقابلہ کیلئے یہ امر نظر انداز نہ کر دینا چاہئے کہ ہندوستان میں ہندو قوم نے بہت سے فائدوں کو مدنظر رکھتے ہوئے شروع میں مغربی تعلیم کو بلا احتجاج قبول کیا. مگر اس عمل میں ہندو قوم نے آخری تین چوتھائی صدی میں تقریباََ ایک کروڑ ہندو نذر کر دئے. جو آج ہندوستانی عیسائی ہیں اور جاہل مولوی نے قوم کو اس سانحے سے بچا لیا۔ صرف مولویوں کے تقدس کی روایات نے قوم کو انتشار سے بچائے رکھا. کروڑوں گنوار مسلمان صرف بچے کی پیدائش کے وقت مسجد میں جاتے تھے اور مسجد کے ملا سے بچے کا نام تجویز کر ا لیتے تھے اور غالباََ اس اسلامی نام کے سوا ان کے پاس اسلام کا اور کوئی نشان نہ ہوتاتھا. آج ہم ان ناموں کی بدولت اس قوم کو مسلمان کہتے ہیں. اور خدا کی مہربانی سے اس قوم کو مسلمان رکھنے والے مولوی کو حقیر سمجھتے ہیں. یہ سلوک ہے جو قوم ان لاکھوں مولویوں سے کرتی رہی. جنہوں نے غربت اور کسمپرسی کی حالت کے باوجود ہماری نسلوں کو مسلمان رکھا اور جن کے بغیر علاقوں کے علاقے دائرہ اسلام سے خارج ہو چکے ہوتے.[11]
پاکستان کی مسلمان حکومت مغرب کی عالمی خواہشات کے سامنے سپر انداز ہو جانے کے بعد ان مدرسوں کو ان کے اصل مزاج، مقصد اور روح سے خالی کرنے پر تل گئی ہے. اس مقصد کیلئے وہ ان مدرسوں کے نصاب کی تبدیلی کے نام پر ان کے حقیقی تعلیمی مقاصد کو ختم کرنا چاہتی ہے. کیونکہ یہ تعلیمی نصاب و نظام دہشت گرد پیدا کرتاہے. حالانکہ کوئی قسم کھا سکتاہے کہ ان مدرسوں میں اسلحہ تو دور کی بات ہے شاید کوئی عام سا غیر آتشیں آلہ بھی موجود ہو. بر صغیر پاک و ہند میں جب مسلمانوں کی حکومت ختم ہوئی اور ایک کا فر قوم کی حکومت قائم ہوئی تو مسلمانوں کے دین کو بچانے کیلئے "مولوی" نے جہا د بھی کیا اور مدرسوں پر بھی توجہ دی، یہی وہ مولوی اور ان کے دینی مدرسے تھے جس کی وجہ سے آج ہم مسلمان کہلاتے ہیں اور اسلام کو ایک دین اور زندگی کا نظام سمجھتے ہیں. اگر یہ مدرسے نہ ہوتے اگر مولوی نہ ہوتے تو ہم اور تو کچھ ہوتے یا نہ ہوتے ، مسلمان نہ ہوتے اور ایک طرف ہندو دوسری طرف انگریز ہمیں ختم کر چکے ہوتے اور ہم نہ جانے کیا ہوتے، ہمارا کوئی الگ تشخص نہ ہوتا. یہ مدرسے ایک خاص علم کی تعلیم کیلئے ہیں جیسے کوئی میڈیکل کالج ہوتاہے. یا انجیئنرنگ کالج . ان میں قرآنی علوم کی تعلیم دی جاتی ہے. اور اس سے ہر گز منع نہیں کیا جاتا کہ کوئی طالب علم کچھ اور نہ پڑھے . لا تعداد بڑے مدرسوں میں آپ کمپیوٹر دیکھتے ہیں لیکن ان کا اصل موضوع قرآن و سنت کے علوم ہیں . کیا آپ کسی فنی تعلیم کے کالج اور یونیورسٹی میں قرآنی علوم کی تعلیم رائج کرتے ہیں ؟ تو پھر ان مدرسوں کے مزاج کو بدلنے کی کیا مجبوری ہے-
اس خطے کا بچہ بچہ جانتاہے کہ .... جیلوں میں سڑنے والے، زندانوں کو آباد کرنے والے، جیل سے جنازہ اٹھوانے والے ، جنرل ڈائر کی گولیاں کھانے والے اور گرم استری پھروانے والے یہی "ملا" تھے اور فرنگی کے چرنوں میں بیٹھنے والے، انگریزی دستر خوان کی ہڈیاں بھنبھوڑنے والے، انگریز کے جوتوں کو سر کا تاج سمجھنے والے، انگریزوں کے کتے نہلانے والے اور انگریز سے پیمان وفا باندھنے والے جاگیردار تھے جو آج ملک کے وارث ملکی خزانے پر قابض اور "ملاؤں" کو بے نقط سنانے والے بنے ہوئے ہیں. بلاشبہ آپ ملا کو "بھیک منگا" کہہ سکتے ہیں، تاہم اس نے خدا اور رسولﷺ کے نام پر بھیک مانگی ہے انگریز کے دربار عالی میں جھولی نہیں پھیلائی، بے دریغ آپ ملا کو غریب اور نادار کہیں مگر اس نے غربت میں غیرت نیلام نہیں کی اور ناداری میں اپنی وفاداری نہیں بدلی، بے شک آپ ملا کو مفلسی کا طعنہ دیں مگر اس نے وائسرائے کے دربار میں کرسی حاصل کرنے کی کبھی درخواست نہیں کی، بیچارے ملا فضل حق خیر آبادی ؒ تو کالے پانی کی سزا کاٹتے کاٹتے دنیا سے چل بسے ، ملا احمد شاہ مدراسیؒ کو تو سور کی کھال میں سی کر آگ لگا دی گئی، ملا کفایت اللہ ؒ کا بدن لوہے کی گرم استری سے کباب بن گیا، ملا شیخ الہند محمود الحسن ؒ تو مالٹا میں سڑتے رہے، ملا عبید اللہ سندھی ؒ تو ایک تاریک سرنگ میں دو سال تک قید رہے اور کمر سیدھی نہ کر سکے، ملا محمد علی جوہر ؒ تو ہندوستان کی آزادی یا پھر مدفن مانگتے رہے، اورمولانا حسرت موہانی ؒ تو چکی پیس پیس کر زندگی کا دورانیہ پورا کرتے رہے-
یہ مدارس مثالی نظامِ امتحانات رکھتے ہیں جس سے مرکزی سطح پر کنٹرول کیا جاتاہے. اور جس میں بوٹی مافیا کا نام و نشان تک نہیں، عسری ضرورتوں اور تقاضوں کے مطابق اپنے نصاب میں تبدیلیاں لانا معمول کی ایک مشق ہے، ستر فیصد کے لگ بھگ دینی مدارس مروجہ علوم بھی پڑھا رہے ہیں. اور اکثر میں تو کمپیوٹر کی تعلیم کا انتظام بھی ہے. یہ ادارے لاکھوں نادار بچوں کے کفیل ہیں اور ناخواندگی کے سیلاب کو روکنے کا ذریعہ بھی...... میں ان مدارس کے منفی اور مثبت پہلو کی تفصیل میں جائے بغیر اتنا جانتا ہوں کہ وطن عزیز کے لاکھوں مساجد ان کے دم سے آباد ہیں ، معاشرے میں دینی اقدار کی کار فرمائی ان کی مساعی سے ہے، پانچوں وقت ملک کی فضاؤں میں بکھرنے والی اذانوں کی مشکبو گونج انہی مدارس کی عطا ہے. اور دلوں کو دائمی راحتیں بخشنے والے کلام الہیٰ کی پر سوز قرآت ان ہی مدارس کا فیضان ہے. کچھ گھروندوں میں فروکش ان بوریانشینوں کو نہ چھیڑیئے جو آپ کچھ نہیں مانگتے، صرف دین حق کی اشاعت کا حق چاہتے ہیں، برقی قمقموں کی چکا چوند سے متاثر ہو کر مٹی کے ان دیوں کو نہ بجھائیے، جن کی ٹمٹماتی لو میں ہماری صدیوں کی روایات دمک رہی ہیں-
عصر حاضر کی ضرورت کے پیش نظر دینی مدارس کے علماء کی ایک نئی قابل قدر کاوش:
اس باب میں ہم آ پ کو بتائیں گے کہ زمانے اور ماحول میں جدت آنے کے بعد علماء بھی لوگوں کی ضروریات اور ان کی نفسیات کے مطابق دین کی ترویج اور تعلیم و تعلم میں اپنے نظام کی تنظیم نو خود ہی کرتے آ رہے ہیں۔
اقراء نظام تعلیم:
آج سے تقریباََ 30 سال قبل یہ محسوس کیا گیا کہ معاشرے کے مقتدر اور کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ اپنے بچوں کو دینی تعلیم (خصوصاََ حفظ قرآن) پڑھانا چاہتے ہیں لیکن دینی مدارس کی چٹائیوں پر غریب طلباء کے ساتھ اپنے بچوں کو بٹھانے پر راضی نہیں ہیں بلکہ وہ نفسیاتی طور پر الگ ماحول چاہتے ہیں. دوسری طرف انگلش میڈیم کے نام سے (پرائیویٹ) اسکولز کھلنے لگے لوگوں کا رجحان ان اسکولز کیطرف کچھ زیادہ ہی بڑھنے لگا. اس ساری صورت حال کے پیش نظر کراچی میں رہائش پذیر عالم اسلام کی عظیم مذہبی و علمی شخصیت مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مفتی جمیل خان ؒ اور دیگر ان کے رفقاء علماء نے دینی مدارس کی نئی صورت (اقراء ایجوکیشن) کے نام سے متعارف کرائی ہے.
اقراءر وضۃ اطفال:
مولانا محمد یوسف لدھیانوی، مفتی جمیل خان ؒ اور دیگر ان کے رفقاء و علماء کرام نے دن رات بیٹھ کر ایک نصاب مرتب کیا اور اس نصاب کو ایک الگ سکول سسٹم میں ڈھالا جہاں امراء اپنے بچوں کو بھیجنے پر بھی راضی ہوں تاکہ ان کے بچے بھی قرآن کی تعلیم حاصل کرسکیں اس سکول سسٹم کا ’’ اقراء وضۃ الاطفال‘‘ کے نام سے کراچی میں اس نظام تعلیم کا آغاز کیاہے.
اقراء کا نظم و نسق اور نظام تعلیم:
’’ اقراء وضۃ الاطفال‘‘ کے بچوں کیلئے بادامی کلر کے شلوار قمیض سفید جالی کی ٹوپی ، بلیک شوز، سفید جراب، جبکہ بچیوں کیلئے بادامی کلر کی شلوار قمیض اور سکارف بلیک شوز اور سفید جراب مقرر فرمائیں. ایڈمیشن فیس مبلغ دو ہزار روپے جبکہ ماہانہ فیس چار سو روپے متعین کی گئی تاکہ اس دور کے ہر فرد کی راسائی اس سکول تک ہو اور وہ اپنے بچوں کو یہاں آسانی سے بھیج سکے ۔ اس کے علاوہ امتحانات کا الگ شعبہ قائم کیا ۔
نصاب:نصاب میٹرک معہ حفظ القرآن مقرر کیا اور میٹرک کا نصاب بھی انگلش میڈیم اسکولز کی طرزکا مقرر کیا. یہ ایک نیا تجربہ تھا جو چند دن کے اندر کامیابی کی چوٹیوں کو چھونے لگا دیکھتے ہی دیکھتے اقراء وضۃ اطفال کی کئی نئی برانچز کھل گئیں. پھر یہ نظام اتنا مقبول ہوا کہ نام کی تھوڑی سی تبدیلی کے ساتھ باقی علماء بھی شریک سفر ہوتے گئے.
اقراء ریاض الاطفال:
اسی نظام تعلیم کو بعض علماء نے اقرار ریاض الاطفال کے نام سے آگے بڑھایا ۔ [12]
اقراء آفتاب القرآن للاطفال:
کراچی کے علامہ شفقت الرحمن نے اقراء آفتاب القرآن کے نام سے اس نظام کو چار چاند لگا دئے ہیں. غرض اقراء قمرللاطفال ، اقراء جنۃالاطفال، اقراء حدیقۃُ الاطفال کے نام سے یہ نظام دن دگنی رات چگنی ترقی کرتے کرتے تقریباََ پورے ملک میں مقبول ہو گیا، کراچی کے بعد لاہور ، فیصل آباد، کوئٹہ، سیالکوٹ، حیدر آباد، ملتان، بہاولپور میں اس کی بڑی بڑی شاخیں کام کر رہی ہیں . یقیناًیہ دینی مدارس کی تنظیم نو تھی اور وقت کی ضرورت تھی الحمداللہ علماء ہماری سوچ سے کہیں آگے جا رہے ہیں عصر حاضر کے چیلنجوں کا مقابلہ بڑی پامردی اور جراٗت کے ساتھ کر رہے ہیں۔
اقراء صفۃ الاطفال:
اقراء نظام تعلیم مزید ترقی کی راہ پر ایک قدم اور آگے بڑھا ہے، صفہ سوئیر سکول کراچی SSS) اور اقراء صفۃ الاطفال ملتان نے حفظ القرآن کے ساتھ آکسفورڈ یونیورسٹی کا پرنٹ شدہ اور مقرر کردہ نصاب میٹرک پڑھا رہے ہیں۔مکمل کار پیڈ کلاس رومز ، مکمل ACکلاسز اعلیٰ معیار تعلیم ، مثالی تربیت ، ایڈمیشن فیس چار ہزار روپے اور ماہانہ فیس ایک ہزار روپے ہے. ان کا معیار لاثانی پبلک،ور سٹی سکول اور نشاط پبلک سے کم نہیں ہے۔ [13]
۲۰۰۳ ء میں ملتان آرٹس کونسل میں ملتان ڈویژن کے تمام سکولز کے ما بین منعقدہ تقریری مقابلے میں اقرار صفۃ الاطفال کے ارسلان انصاری نے بچوں میں پہلی پوزیشن جبکہ اقراء صفۃ الاطفال کی فارحہ خالد نے بچیوں میں فرسٹ پوزیشن حاصل کر کے پورے ملتان کو ورطہٗ حیرت میں ڈال دیا ہے. یہ وہ حقائق ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا. یہ دینی مدارس کی تنظیم نو نہیں تو اور کیا ہے۔ اقراء نظام تعلیم کا تعارف پھر اس کی ملک بھر میں مقبولیت علماء کے اخلاص اور دور اندیشی کابے مثال ثمرہ اور نتیجہ ہے.
پاکستان اور دینی مدارس موجودہ دور کے تناظر میں:
پاکستان بننے کے بعد دینی مدارس تقر یباً اسی نہج پر کا م کر تے رہے جس پر قبل از تقسیم کر رہے تھے۔ اگر چہ تقسیم کے وقت یہ مدارس قلیل تعداد میں تھے تا ہم وقت کے سا تھ ساتھ اور دین کی طر ف لو گو ں کی رغبت کو وجہ سے یہ مدارس بڑ ھتے گئے۔
تنقید ی جا ئزہ:
دینی مدارس ایک بہت بڑی NGOہے۔ جہا ں پر لا کھو ں طلبا ء دینی تعلیم سے آر استہ ہو کر ملک کی تعمیر و تر قی میں اہم کر دار ادا کر تے ہیں جہا ں طلبا ء کو نہ صر ف مفت تعلیم دی جا تی ہے۔ بلکہ ان کے قیام و طعام کا بندو بست بھی کیا جا تا ہے۔ دین اسلام کی تر ویج میں ان مدا رس کا اہم کردار ہے۔[14]۱۔ یہ مدارس اپنی مدد آپ کے تحت کا م کر تے ہیں بعض مخیر حضر ات ان کی مالی مدد کر تے ہیں جن سے طلبا ء کی ضرو ریات کو پو را کیا جا تا ہے۔
۲۔ ان مدارس میں تعلیم و تر بیت کا بہتر ین انتظام مو جو د ہے۔ اسلام کی روح خدمت اور عمل پر زور جا تا ہے جن سے عمو ماً طلبا ء متصف ہو تے ہیں۔
۳۔ ان مدارس کے فا رغ التحصیل سیا سی خد مات سر انجام دیتے ہیں۔ اب بھی دینی جما عتیں مصر وف عمل ہیں جبکہ قرار داد پاکستان سے لیکر تقسیم اور قا نون سازی میں علماء کا کردار اظہرمن الشمس ہے۔۴۔ یہ مدارس نہ تو حکو مت سے فنڈ کا مطا لبہ کر تے ہیں اور نہ ہی ایسے کامو ں کی حو صلہ افزا ئی کر تے ہیں جن سے ملک وقوم کو نقصا ن کا اندیشہ ہو۔
۵۔ ملک کے کچھ حصوں میں قا ضیوں کو مقر ر کیا جا تا ہے جیسا کہ بلو چستان میں۔ ان قا ضیوں کی فر اہمی ان مدارس کی مرہو ن منت ہے۔ شر یعت کورٹ میں بھی علما ء ہی نے خدمات انجام دی ہیں۔
۶۔ اسلامی نظر یا تی کو نسل جو کہ حکو مت وقت کی صحیح قو انین کے لیے را ہنما ئی کر تی رہتی ہے اس میں بھی انھی مدا رس کے فضلا ء نے اہم کر دار ادا کیا ہے اور حکو مت کو وقتاً فو قتاً مفیدمشو روں سے نوازا ہے۔تاہم جس طر ح ہم من حیث الا مت زوال پزیر ہیں۔ جب قو میں تنزل کا شکا ر ہو تی ہیں تو ان کے تمام شعبے زوال کا شکا ر ہو جا تے ہیں۔ یا یہ کہ جن شعبوں سے جو امیدیں وابستہ ہو تی ہیں وہ ان امیدوں پر پو را نہیں اتر تے ہیں۔اسی طر ح دینی مدارس بھی کمال نہیں دکھا سکے ہیں۔ جن کی اس دور میں ان سے امیدیں وابستہ تھیں۔ کئی چیزیں وقت کے ساتھ ساتھ اپنی افادیت کھو دیتی ہیں اس لیے ان کی تجد ید کی جا تی ہے۔ دینی مدارس میں امدادی علو م اور جدید پیما نے پر اسا تذ ہ اور طلبا ء کی تر بیت نہیں کی جا تی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جد ید طر یقہ تعلیم اور نئے آمدہ مسا ئل کے حل کے لیے تحقیقی مجالس اور مدارس کا فقدان ہے۔ جبکہ فلسفہ اور منطق کے علوم ایک زما نہ میں مفید اور ضر وری تھے جبکہ اب ان علو م کی جگہ جد ید سا ئنسی علوم نے لے لی ہے۔ اگر ان کی جگہ ان سے استفا دہ کیا جا ئے تو بہتر نتا ئج نکل سکتے ہیں۔[15]
خلاصہ:
ہماری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ دینی مدارس میں حالات کے پیشِ نظر اپنے نظامِ زندگی میں اپنی تنظیمِ نو خود کی ہے۔ آج ان کی تعداد میں اضافہ ، عالیشان عمارات، طلبہ کیلئے زندگی کی تمام سہولیات باہم پہچانا ان کے مقبول عام ہونے کی دلیل ہے۔ ستر لاکھ طلبہ کی تعلیم اور زندگی کی دوسری ضروریات کی بغیر فیس کے کفالت ا ن کا شاندار کارنامہ ہے جس کی مثال وہ خود آپ ہیں۔ ان کا کوئی ثانی نہیں جس طرح آئی سپیشلسٹ صرف آنکھوں کا علاج کرتا ہے اور ناک کی بیماری کا علاج نہیں کرتا کوئی بھی ذی عقل اسے ان پڑھ یا جاہل نہیں کہتا بالکل اسی طرح دینی مدارس سکول کی بنیادی تعلیم کے ساتھ دین کی اعلیٰ تعلیم دیتے ہیں ۔ان کے پاس طلبہ کو ڈاکٹر یا انجینئربنانے کے وسائل نہیں ہیں ،تو انہیں رجعت پسند کیوں کہا جاتا ہے، اور ان کی تنظیمِ نو کے بارے میں کیوں پریشانی لاحق ہوگئی ہے ۔
References
- ↑ العلق , آية 1. .
- ↑ . الأحياء 143/ 1
- ↑ . پروفیسر حافظ نذر احمد، پاکستان میں دینی مدارس کے نصاب کا جائزہ- لاہور، ص 98
- ↑ ابن الحسن عباسی،دینی مدارس - ماضی ، حال ، مستقبل ،کراچی، ص 101
- ↑ . مقالات اقبال ص ١٨٠
- ↑ . علماء دیوبند کا مسلک ،ص ٥٥
- ↑ . شہاب نامہ ، از قدرت اللہ شہاب
- ↑ . مولانا زاہد الر اشدی، دینی مدارس کے لئے چند ناگزیر تقاضے ، گوجرانوالہ، ص ،25
- ↑ . پروفیسر حافظ نذر احمد، پاکستان میں دینی مدارس کے نصاب کا جائزہ- لاہور، ص 65
- ↑ . ابن الحسن عباسی،دینی مدارس - ماضی ، حال ، مستقبل ،کراچی، ص 34
- ↑ . ڈاکٹر جمیل واسطی ، اسلامی روایات کا تحفط، قرتاس پبلشر ، ص 121
- ↑ . علامہ ریاص حسین شاہ، اقرا ریاص الاطفال پبلشر، لاھور، 2013
- ↑ . 0.ڈاکٹر میاں حقانی ، ، دینی مدارس نصاب و نظام تعلیم و عصری تقاضے ،فضل سنز پرائیویٹ لمیٹڈ کراچی
- ↑ . سید سلیمان حسین ندوی، ہمارا نصاب تعلیم کیساہ، مجلس نشریات اسلام ناظم آباد کراچی،۲۰۰۴
- ↑ .مسلم سجاد سلیم منصور خالد، دینی مدارس کا نظام تعلیم ، اسلام آباد انسٹیٹیوٹ آف پاک سٹیڈیز نمبر ۱۹ مرکز ایف ، ۷۔ اسلام آباد
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Volume 31 Issue 2 | 2015 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |