28
1
2014
1682060034497_828
29-49
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/301/240
دوسری صدی ہجری کے اوائل میں فقہاء نے فقہ اسلامی کو کارآمد اور قابلِ اطلاق بنانے کیلئے تمام فقہی موضوعات سے متعلق قواعد و ضوابط مرتب کیں اور انہی کی روشنی میں فقہ سازی کے استخراجی اور استقرائی منہج کی اساس پر فقہ سازی کے عمل کو ممکن بنایا۔زمانۂ مابعد میں امام محمد بن ادریس الشافعیؒ (م۔204ھ) نے کتاب الرسالۃ اور امام تاج الدین السبکیؒ (م۔771ھ)، امام صدر الدین ابن الوکیل (م۔716ھ)، امام سراج الدین المعروف بہ ابن الملقن (م۔804ھ) اور امام جلال الدین السیوطی (م۔911ھ) تینوں ائمہ نے الأشباہ و النظائر کے نام سےفقہی قواعد مرتب کئے۔ تاہم فقہی قواعد اور ان کی اطلاقی اور انطباقی صورتوں کی تبیین و تنقیح کے حوالے سے امام زین الدین ابن نجیم الحنفی (م۔ 970ھ) کی ان تریالیس (43) قواعد و ضوابط کو زیادہ نمایاں مقام حاصل رہا جو انہوں نے الأشباہ و النظائر میں جمع کی ہیں۔
انیسویں صدی عیسوی کے اواخر میں مغربی دنیائے قانون کے معروف ماہرِ اصولِ قانون اور نقاد ہربرٹ بروم (م۔1882ء) نے رومی اور دیگر معاصر قوانین کی اساسی قواعد کو لاطینی زبان میں جمع کرکے ان کے اطلاقی صورتوں و نظائر کو اجاگر کیا۔ اس ضمن میں ان کی کتاب Broom’s Legal Maxims کے نام سے مشہور ہے۔[1]
دس (۱۰) ابواب پر مشتمل فاضل بروم کی مشہور کتاب “Broom’s Legal Maxims” کا پانچواں باب ان بنیادی قانونی قواعد پر محیط ہے جو مغربی قوانین کیلئے بطورِ اساس کام کرتی ہیں۔ واضح رہے کہ فاضل بروم کی مذکورہ کتاب کے متعلقہ پانچویں باب میں ذکر کردہ قواعدِ قانونی امام ابن نجیم (م۔970ھ) کی الأشباہ والنظائر کے پونے چارسو سال بعد مرتب کی گئیں ہیں۔ اس لئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ تقنین و تشریع میں ابن نجیم (م۔970ھ)فاضل بروم (م۔1882ء) اور دیگر مغربی مقنِّین اور قانونِ نقد و جرح کے ماہرین کے پیش رو ہیں۔
قاعدہ ازالۂ ضرر:
فاضل بروم (م۔1882ء) نے متعلقہ باب میں قاعدہ ازالۂ ضرر کو لاطینی زبان میں نقل کرکے کہا ہے:
(Lt) UBI JUS IBI RENDIUM--- (Eng) There is no wrong without a remedy. [2]
یعنی ازالہ اور تلافی کے بغیر ضرر کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔ یا یہ کہ جہاں ضرر ہو وہاں اس کا مداوا بھی ہوگا۔ یا یہ کہ ازالۂ ضرر ناگزیر ہے۔ بروم کے نزدیک شخص کا ضرر میں مبتلا نہ کرنا اور بصورتِ اضرار شخصِ متضرر کا مداوا اس کا بنیادی حق ہے۔
تاہم بروم (م۔1882ء) کے نزدیک ہر ضرر یا ہر اثر قابلِ عوض نہیں ہوتااور نہ ہر ضرر پر UBI JUS IBI RENDIUM (ضرر موجبِ ضمان یا ضرر موجبِ ازالہ ) کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔لہذا ان کے نزدیک اگر نیتِ بد سے کسی جائز حق کا استعمال کیا جائے اور استعمالِ حق کا طریقہ دوسروں کے حقوق کو متاثر کرے یا ان کے لئے نسبتاً زیادہ ضرر کا موجب ہے۔ اور بعد ازاں بذریعہ قضاء اسے رکوایا جائے تو بروم کے نزدیک اس قسم کا امتناع عن استعمال الحق صاحبِ حق کیلئے ضرر کا موجب تو ہوگا اور وہ متضرر گردانا بھی جائے گا تاہم وہ ازالہ یا مداوا کا مستحق نہیں ہوگا۔ بروم کے ہاں اس قسم کا ضرر DAMNUN ABSQUE INJURIA---Wrong with no remedy یا ضرر غیر موجبِ عوض و ضمان کہلاتا ہے۔ یہ قاعدہ اگرچہ شخصِ متضرر مذکور کو نقصان سے دوچار کرتی ہے تاہم بروم کے نزدیک “Hard cases apt to introduce bad laws” یعنی سخت اور نامساعد حالات غیر پسندیدہ قوانین کو جنم دیتی ہیں۔[3]
ابن نجیم (م۔970ھ) کا قاعدہ’’الضرر یزال‘‘[4] یعنی ضرر کا ازالہ ہوگا، بروم کے اس قاعدہ کا پیش رو ہے جس میں وہ ضرر اور تلافی کو باہم جمع کرتے ہیں۔ ابن نجیم (م۔970ھ) کے نزدیک ازالۂ ضرر واجب ہے تاکہ شخصِ متضرر کا مداوا ممکن ہو۔ مثلاً معاملاتِ بیع میں خیارِ عیب (Actio empti) کو مشتری سے ازالۂ ضرر کیلئےمشروع کیا گیا ہے۔ اگر خیار(Option) درمیان میں نہ ہو تو مشتری کے ذمہ عیب دار مبیع کی خریداری لازم آئیگی ۔ لہذا ازالۂ ضرر کی رو سے مشتری کو اگر عیب سے سابقہ پڑے تو خیارِ عیب کی بنیاد پر وہ بیع کو فسخ کر سکے گا اور ضرر سے بچ جائے گا۔
ابن نجیم (م۔970 ھ ) کے نزدیک دفع الضرر بالضرر (Remission of wrong through wrong) یا اختیار یک از ضرراسی قاعدہ کی ضمنی صورت ہے۔ تاہم اس میں اس احتیاط کو ملحوظ رکھا گیا ہے کہ کم ضرر اختیار کرنے کے نتیجہ میں زیادہ ضرر کا خاتمہ ہو۔ وہ کہتے ہیں: الضرر لا یزال بالضرر۔[5] یعنی کسی ضرر کو اس کے ہم مثل ضرر کو اختیار کرکے زائل نہیں کیا جائے گا یا الضرر الأشد یزال بالاخف۔[6] یعنی شدید ترین ضرر کو خفیف ترین ضرر کے ذریعہ زائل کیا جاسکتا ہے۔یا اختیار أهون البلیتین۔[7] یعنی دو بلاؤں میں سے آسان ترین بلا کا اختیار کرنا مناسب ہوگا۔یا یہ کہ اگر کوئی ضرر عام اور متعدی ہو تو اس کو خاص اور لازم ضرر کے برداشت کرنے کی صورت میں زائل کیا جائے گا۔ ابن نجیم (م۔970 ھ ) کہتےہیں کہ یتحمل الضرر الخاص لدفع الضرر العام۔[8] یعنی ضرر عام کے ازالہ کیلئے ضرر خاص کو برداشت کی جائے گا۔ ابن نجیم (م۔970 ھ )نے بھی تلافی بصورتِ ضرر کو علی الاطلاق تسلیم نہیں کیا ہے۔ ان کے نزدیک بھی استعمال حق اگر غیر کے ضرر کا موجب ہو اور مؤخر الذکر عام ہو تو اشد ضرر کا سدّ باب کرنے کیلئے اخف ضرر کو برداشت کرکے استعمالِ حق پر پابندی لگائی جائی گی۔ جیسے پارچہ فروشوں کے بازار میں تنور کھولنے پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ اس قسم کی پابندی نانبائی کے حق میں ضرر تو ہے لیکن موجبِ ازالہ نہیں۔[9] اس ضمن میں فقہ اسلامی کا یہ ضابطہ بھی ملاحظہ ہو کہ الاضطرار لا یبطل حق الغیر۔[10] یعنی اضطراری حالت حقِ غیر کے ابطال کا موجب نہیں بن سکتی۔جیسے کوئی بھوکا خود کو موت سے بچانے کیلئے شخصِ غیر کا مال کھا تو سکتا ہے لیکن اس کے ذمے تلف شدہ مال کا تاوان واجب ہوگا گو کہ وجوبِ تاوان شخص مضطر کے حق میں ضرر کا موجب ہے۔لیکن وہ اس کے ازالہ کا استحقاق نہیں رکھتا[11] یا فقہ اسلامی کا یہ ضابطہ کہ الجواز الشرعی ینافی الضمان۔[12] یعنی کسی ضرر کا ہٹانا اگر شرعاً جائز ہو تو یہ عمل موجبِ ضمان نہیں ہوگا۔یہ بروم کے اس قاعدہ کا پیشرو ہے کہ[13] DAMNUN ABSQUE INJURIA یعنی ہر ضرر موجب تاوان نہیں ہوتا۔
ضابطہ اضافۃ الحادث۔۔۔:
یہ فقہی ضابطہ کہ إضافة الحادث إلی أقرب أوقاته۔[14] یعنی وقوع کو قریبی زمانہ کی طرف منسوب مانا جائے گا قاعدہ ازالہ ضرر کے ضمن میں تشکیل دیا گیا ہے۔ابن نجیم(م۔970 ھ ) کے نزدیک اس ضابطہ کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی وقوعہ کا وقتِ وقوع معلوم نہ ہو تو ازروئے ضابطہ اس کو عہدِ قریب Immediate time کی طرف منسوب مانا جائیگا. ابن نجیم (م۔970 ھ ) کے نزدیک اگر کنویں سے مردہ چوہا نکلا اور وقوع کا وقت معلوم نہ ہو تو وقوع اسی دن کی طرف منسوب ہوگا۔ اور نمازیوں کے ذمہ اسی دن کے نمازوں کا اعادہ واجب ہوگا۔ جیسا کہ صاحبین نے کہا ہے ۔[15] ابن نجیم (م۔970 ھ ) کے نزدیک امرِ حادث کے ضمن میں اصل قاعدہ اس کا عدمِ وجود ہے کہ الأصل العدم۔[16] یعنی نئے پیش آمدہ امر میں اصل بات اس کا غیر موجود ہونا ہے۔لہذا معدوم کے وجود میں آنے کے واقعہ کو حادثہ قریب الزمان متصور کرنا اقرب الی الصواب ہوگا۔[17] اسی بناء پر کہا گیا ہے کہ اگر شوہر نے دعوی کیا کہ اس کی متوفیہ زوجہ نے حالتِ صحت میں اس کا حقِ مہر اس کو ہبہ کیا تھا جب کہ متوفیہ کے ورثاء اس قسم کے ہبہ کو متوفیہ کے مرضِ وفات کی طرف منسوب کر رہے ہوں تو اس صورت میں چونکہ ہبہ امر حادث ہے لہذا یہ اقرب الاوقات الی الموت کی طرف منسوب ہوگا جبکہ زیرِ نظر صورت میں مرضِ موت اقرب الاوقات الی الموت ہے۔[18]
اضافۃ الحادث کا مترادف ضابطہ بروم (م۔ 1882ء) نے لاطینی زبان میں نقل کیا ہے کہ:
(Lt) INJURE NON REMOTA CAUSA SED PROXIMA SPECTATUR ---- (Eng) In law the immediate, not the remote, cause of any event is regarded. [19]
یعنی ازروئے قانون کسی امرِ حادث کے بارے میں علّتِ قدیمہ کے بجائے علّتِ حادثہ کا اعتبار کیا جائے گا۔
بروم (م۔ 1882ء)کے نزدیک قانون کیلئے یہ ایک لامتناہی صورتِ حال میں الجھنا ہوگا اگر وہ امرِ حادث کے علّت العلل اور ان کے ماقبل کے تکوینی امور کی ٹوہ میں لگا رہے۔ اس لئے قانون کو چاہیئے کہ علّتِ حادثہ (Immediate cause)کے ساتھ خود کو محدود کرکے اس کے مطابق حکم دیدے۔
It were infinite for the law to consider the causes, and their impulsion one of another; therefore it contenteth itself with the immediate cause, and judgeth of acts by that, without looking to any further degree. [20]
بروم (م۔1882ء) کے مذکورہ ضابطہ کو سامنے رکھ کر اسلامی فوجداری تشریع کا یہ ضابطہ بھی زیرِ بحث لایا جا سکتا ہے کہ لا رجعیۃ فی التشریع الجنائی۔ یعنی فوجداری تشریع Criminal legislation رجعی تاثیر نہیں رکھتی یا واقعات ماقبل کا احاطہ نہیں کرسکتی۔[21]
اسلامی تشریع کے ضمن میں یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ نصِ حادث (Current Text)امرِ سابق (Remote Event)پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ اس ضمن میں یہ اصول سامنے رہے کہ لا حکم لأفعال العقلاء قبل ورود النص۔[22] یعنی مکلف افراد کے افعال اس وقت تک زیرِ حکم نہیں آسکتے جب تک اس سے متعلق کوئی نص وارد نہ ہو۔ لہذا قبل از ورودِ نص اگر کوئی عاقل اور مسؤل شخص کسی فعل کو سرانجام دے تو وہ فعل قانونی تاثیر نہیں رکھے گا گو کہ شخصِ مسؤل اپنے فعل پر نصِ حادث کو بطورِ دلیل پیش کر رہا ہو۔یہاں یہ واضح رہے کہ ماہرِ تشریعِ اسلامی فاضل عبدالقادر عودہ نے بعض حالات میں اسلامی تشریع کے رجعی تاثیر کے اثبات پر کچھ نظائر پیش کی ہیں کہ حاکم مصلحت کی خاطر نصِ حادث کو امرِ سابق پر منطبق کرسکتا ہے۔ جیسا کہ واقعہ افک میں آیتِ قذف کے نزول سے پہلے الزامِ زنا کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ پھر نبی کریم ﷺ نے سزائے مابعد کو جرمِ ما قبل کے مقدمہ میں نافذ کیا۔[23] اسی طرح، جیسا کہ فاضل عودہ نے کہا ہے، قبیلہ عرینیہ کے اغوا کاروں نے آیتِ محاربت کے نزول سے پہلےمحاربت کا ارتکاب کیا تھا۔لیکن نبی کریم ﷺ نے جرمِ سابق کے مرتکبین پر نصِ حادث کے تحت سزا نافذ کی۔[24]
مذکورہ حوالے سے واقعہ افک اور واقعہ عرینیین کے متعلقہ جرائم اور ان پر دی جانے والی سزا کو اگر استقصائی عمل سے گزارا جائے تو معلوم ہوگا کہ دونوں سزائیں اپنے سببِ نزول کے اعتبار سے متعلقہ دونوں جرائم کے ساتھ وقت وقوعہ سے ہی ملحق تھیں بلکہ دونوں قدیم جرائمِ ہی نصوصِ حادثہ (Current Verses) کے نزول کا سبب بن گئیں۔ گویا زیرِ نظر صورت میں جرمِ قذف اور جرمِ حرابہ علی الترتیب حدّ قذف اور حدّ حرابہ کیلئے سبب بن گئیں جبکہ سبب اور مسبّب کو ایک دوسرے سے الگ نہیں مانا جاسکتا کہ مؤخر الذکر کی تاثیر کو اول الذکر کے ضمن میں رجعی قرار دیا جائے۔ سبب اور مسبب کا انفصال شبہ کو جنم دیتا ہے اور شبہ مسقطِ حد ہوتا ہے۔
بروم (م۔ 1882ء)کے نزدیک مذکورہ ضابطہ، کہ ’’قانون زمانۂ قریب کی طرف منسوب ہوگا‘‘، کا اطلاق عموماً یورپی عدالتوں میں سُفنِ متکافلہ (Insured Marines) پر کیا جاتا ہے۔ اس کے لئے الگ طور پر 1906ء میں قانون بابت تکافلِ سفن (Marine Insurance Act, 1906) نافذ کیا گیا جس کے تحت حادثاتِ متعددہ کی صورت میں تکافل (Insurance) کا اطلاق آخری حادثہ سے ہونے والے نقصان پر کیا جائیگا۔[25]
قاعدۂ مشقت و سہولت:
ابن نجیم (م۔970 ھ ) نے المشقة تجلب التیسیر [26]یعنی مشقت آسانی کی ہم جلب ہوتی ہے، کا قاعدہ نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر قدرتی افعال و عوارض اور اعذارِ معروضہ جیسے مرض، نسیان، بیہوشی، حیض، اضطرار، سکر اور جنون کسی شرعی حکم کو بجا لانے میں رکاوٹ بن جائیں تو ازروئے شرع عدمِ اداء پر شخصِ متاثر ذمہ دار متصور نہیں ہوگا۔[27] فقہاء نے اس قسم کی رکاوٹوں کو عوارضِ سماویہ سے موسوم کیا ہے۔اسلامی تشریع کا ضابطہ عدمِ تکلیف (Non-responsibility) اسی اساس پر قائم ہے اور وہ یہ کہ عدم تکلیف فی ما لا یطاق[28]۔ یعنی جہاں طاقت نہ ہو وہاں ذمہ داری یا مسؤلیت نہیں ہوگی۔یا یہ ضابطہ کہ الأمر إذا ضاق اتسع۔[29] یعنی جہاں امر (کی ادائیگی) میں تنگی ہو وہاں وسعت پیدا کی جائیگی۔
بروم کے نزدیک ضرورت حقِ شخصی کو تحفظ دیتی ہے۔ یعنی جب کوئی شخص بوجۂ ضرورت کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ضرورت کا سامنا کر رہا ہو تو دونوں صورتوں یعنی کرنے یا نہ کرنے میں اس کا شخصی حق محفوظ سمجھا جائے گا۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ضروریات ممنوعات کو مباح کرتی ہیں یا ’’ضرورت ‘‘قانون کی پابند نہیں یا ’’ضرورت‘‘ کیلئے کوئی قانون نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ضرورت مند قانون سے بالا تر ہوتا ہے بلکہ یہ کہ ’’ضرورت‘‘ نے اس کے شخصی حقِ تصرف کو تحفظ دیا ہے۔ اور اس قسم کی ضروریاتی تصرف(Needed appropriation) پر قانون کا اطلاق نہیں ہوگا۔ بروم کہتا ہے:
(Lt) NECESSITAS INDUCT PRIVILEGIUM QUOD JURA PRIVATA--- (Eng) Necessity gives a privilege as to private rights. Or The law chargeth no man with default where the act is compulsory… Such necessity carrieth a privilege in itself.[30]
یعنی ضرورت شخصی حق کی رعایت کرتی ہے یا یہ کہ قانون کسی ایسے کام کے کرنے پر کسی کو موردِ الزام نہیں ٹھراتا جن کا کرنا ناگزیر بن چکا ہو۔ اس قسم کی ضرورت بطورِ خود رعایت کی حامل ہوتی ہے۔
ضرورت اور قانون کو باہم ملا کر دیکھا جائے تو حالتِ ضرورت یا حالتِ اضطرار کثیر یا عام الوقوع نہیں بلکہ شاذ و نادر االوقوع امور میں سے ہے۔ ہر نادر اور شاذ میں اصل قاعدہ ’’عدم‘‘ کا ہے۔ اور ’’عدم‘‘ پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔ اس لئے ماہرینِ قانون نے کہا ہے کہ قانون شاذ کی خاطر نہیں بلکہ عام کیلئے ترتیب دیا جاتا ہے۔بروم کہتا ہے:
(Lt) AD EQ UE FREQUENTIUS ACCIDUNT JURA ADAPTANTUR--- (Eng) The laws are adapted to those cases which are more frequently occur. [31]
یعنی قوانین صرف ان وقائع میں کارگر ہوتی ہیں جو عموماً وقوع پذیر ہوتی رہتی ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قانون کی تکوین ایسی نہیں ہوتی ہے کہ وہ ہر شئے کا احاطہ کرے۔ بروم کہتا ہے:
Laws cannot be so worded as to include every case which may arise. [32]
یعنی قانون کی لفظ بندی اس انداز سے کی جائے کہ وہ ہر امر کا احاطہ کرتا نظر نہ آئے۔
بروم نے قانونی عبارات کے محدود الاطلاق ہونے کو “Casus Omissus” کانام دیا ہے۔جس کے تحت یہ بات معقول ہے کہ اگر کوئی مشقت کبھی کبھی پیدا ہوتی ہو تو قانونی عبارات کو ان کا احاطہ نہیں کرنا چاہیئے۔ تاہم یہ کہنا غیر معقول ہوگا کہ اگر مشقتیں بار بار پیدا ہوتی ہوں تب بھی قانونی عبارات ان کا احاطہ نہ کریں کیونکہ مؤخر الذکر صورت میں مشقت شاذ (Seldom) کے مفہوم کو کھو دیتی ہے۔ بروم کہتا ہے:
When the words of a law extend not to an inconvenience rarely happing, but do to those which often happen, it is good reason not to strain the words further than they reach… but it is no reason… that they should not extend to it as well as if it happened more frequently, because it happens but seldom. [33]
یعنی جب الفاظِ قانون عام امور کا احاطہ تو کرتی ہوں لیکن شاذ الوقوع مشقت کی طرف سرایت نہیں کرتی ہوں تو قانون کے الفاظ کو اپنے حد سے زیادہ وسعت اور تناؤ نہ دینا ہی معقول ہوگا۔ تاہم یہ معقول نہیں ہوگا کہ اگر مشقتِ شاذ کثیر الوقوع بن جائے تب بھی اسے قانونی الفاظ کے احاطہ سے باہر رکھا جائے۔
قانونی امر کو حسبِ ضرورت محدود اور حسبِ ضرورت لامحدود کرنے کا ضابطہ ابن نجیم (م۔970ھ) کے ہاں بھی موجود ہے۔ ابن نجیم کہتے ہیں: الأمر إذا ضاق اتسع و إذا اتسع ضاق۔ [34]یعنی امر میں جب تنگی ہو تو اس کو وسعت دی جائے اور جب اس میں وسعت ہو تو تنگی پیدا کی جائے۔
عموماً اس ضابطہ کا اطلاق اس فقہی پہلو پر کیا جاتا ہے جہاں کسی امر کو بجا لانے میں دشواری ہو تو اس میں وسعت کو فروغ دیا جائے۔ اور جہاں وسعت ماورائے حد بن جاتی ہو تو اس کو کھینچ کر محدود کیا جائے۔
ابن نجیم (م۔970ھ) کے نزدیک بھی اس ضابطہ کا اطلاقی پہلو یہ ہے کہ مشقت میں سہولت دینے، اور ضرورت کے وقت حقِ شخصی کو وسیع کرنے، اور بصورتِ ضرر اس کا ازالہ کرنے کے اصول کے کچھ حدود ہیں جن کے اندر وہ گردش کرتی ہیں۔ لہذا جب ان قواعد کی رو سے دی گئیں استثنائی صورتیں مقررہ حد سے نکلیں تو قانون ان کو مزید پھیلنے سے روک دیتی ہے۔ اس پرابن نجیم کا یہ ضابطہ دلالت کرتا ہے کہ ما ابیح للضرورة يقدر بقدرها۔[35] یعنی جو ضرورت کی خاطر مباح ہو وہ ضرورت کے اندازے کے مطابق ہوگی۔ یامطلب یہ کہ قانون اختتام حدودِضرورت پر دوبارہ قابلِ اطلاق بن جاتا ہے۔ اس لئے ابن نجیم کے نزدیک بھی یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ سہولت بوجہ ضرورت کو اتنا پھیلایا جائے کہ خود مشقت بن جائے۔ یا ضرر کا ازالہ اتنا وسیع کیا جائے کہ ضرر بنے۔ دونوں صورتوں میں مشقت اور ضرر قانونی عبارات کے ماتحت بن جاتی ہیں اور ہر ایک اپنا وجود تحلیل کرتی ہے۔اس حوالے سے تنگی قانون کی زد میں نہیں آتی الاّ یہ کہ وہ حد سے نکل کر وسعت اختیار کرے تو پھر وہ قانون کی زد میں آئے گی۔
فاضل بروم نے بھی خدائی افعال کے آڑے آنے کی صورت میں انسان کو قانونی اثر سے بری الذمہ قرار دیا ہےاور کہا ہے:
(Lt) ACTUS DEI NEMINI FACT INJURIAM--- (Eng) The law holds no man responsible for the act of God[36]
یعنی قانون انسان کو خدائی افعال کا ذمہ دار نہیں گردانتا۔یا خدائی افعال کی مداخلت انسان کو غیر مسؤل بناتی ہے۔
مذکورہ بالا ضابطہ کی تشریح کرتے ہوئے بروم نے کہا ہے کہ خدائی افعال انسانی افعال کا جوابِ دعوی Antithesis ہوتی ہیں جو انسانی دخل اندازی (Intervention) سے ماوراء ہوتی ہیں اور اسی لحاظ سے انسان ان کے قانونی اثر کا ذمہ دار نہیں ہوتا کہ وہ اس کے نتائج کو روکنے یا مقابلہ کرنے یا اس کا رخ تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہوتا ہے۔ بروم کہتا ہے:
The act of God, which is the antithesis of the act of man, generally means an inevitable accident due directly and exclusively to natural causes without human intervention. It also used of such an event as a person’s death or his incapacity to act through illness. [37]
گویا عدمِ مسؤلیت کے حوالے سے ابن نجیم کی ذیلی تعبیرات بروم کے قانونی تعبیرات کی پیش رو ہیں جو اس نے مذکورہ بالا لاطینی ضابطہ کی تشریح کے ضمن میں پروان چڑھائی ہیں۔
ابن نجیم کے نزدیک عدمِ بلوغ، جنون اور بے ہوشی جیسے خدائی عوارض یا خدائی افعال سے متأثرہ اشخاص قانونی مسؤلیت سے مستثنی ہوتے ہیں۔[38]
یہ بات اس نص کی اساس پر قائم ہے کہ لاتکلف نفس إلا وسعہا۔[39] یعنی کسی انسان کو اس کے دائرہ طاقت کے اندر ہی مکلف سمجھا جائیگا۔ اور عدم تکلیف ما لا یطاق [40]کے ضابطہ پر بھی کہ جہاں طاقت نہ ہو وہاں تکلیف (Responsibility) نہیں ہوگی۔
بروم نے عدمِ تکلیف کے مفہوم کو لاطینی قاعدہ میں یوں بیان کیا ہے:
(Lt) LEX NON COGIT AD IMPOSSIBILIA--- (Eng) The law does not compel a man to do that what which he cannot perform. [41]
یعنی قانون کسی شخص کو ایسا کام کرنے پر مجبور نہیں کرتا جو وہ نہیں کرسکتا۔
یا یہ کہ:
IMPOTENTIA EXCUSAT LEGEM--- (Eng) Non-competency is legal excuse. [42]
یعنی عدم صلاحیت قانونی عذر ہوگی۔ بروم کے نزدیک مذکورہ بالا لاطینی ضابطہ رومن لاء (Roman Law) کے اس قانونی قاعدہ کے تناظر میں متعارف کیا گیا ہے کہ:
(Lt) NEMO TENETUR IMPOSSIBILIA--- (Eng) Impossibility will be supreme. [43]
یعنی ناممکنیت (قانون سے) بالا تر ہوگی۔ ان قواعد و ضوابط پر تبصرہ کرتے ہوئے بروم (م۔1882ء)نے کہا ہے کہ جہاں کوئی بوجوہ قانون کا حکم بجا نہیں لا سکتا وہاں وہ معذور متصور ہوگا۔ وہ کہتا ہے:
This maxim--- is connected with that last considered, and must be understood in this qualified sense, that impotentia excuses when there is a necessary or invincible disability to perform the mandatory part of the law, or to forbear the prohibitory. [44]
ضابطہ جہل از قانون:
ضابطہ جہل از قانون قاعدہ مشقت کی پیروی میں وضع کیا گیا ہے۔ بروم (م۔ 1882ء) کے نزدیک قانون سے آگاہی ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اس ضمن میں وہ اس لاطینی قاعدہ کا ذکر کرتے ہیں:
(Lt) IGNORANTIA JURIS NON EXCUSAT--- (Eng) Ignorance of the law does not excuse. [45]
یعنی یہ کہ قانون سے بے خبری عذر متصور نہیں ہوگا۔تاہم بروجہل از حقیقت (Ignorance of fact)اور جہل از قانون (Ignorance of law) میں فرق کو واضح کرنے کے لئے دوسرے لاطینی قاعدے کو ذکر کرتا ہے کہ:
(Lt) IGNORANTIA FACTI EXCUSAT---Ignorance of fact excuses. [46]
یعنی حقیقت سے بے خبری عذر ہوگی۔ لہذا جہاں قانون سے بے خبری عذر گردانا نہیں جائے گا وہاں حقائق سے بے خبری کو بطورِ عذر تسلیم کیا جائے گا۔ بروم کہتا ہے کہ اگر وارث اپنے مورث کے بارے میں نہیں جانتا ہو تو یہ ایک حقیقت سے اس کی بے خبری ہوگی۔(لہذا اس بے خبری کے نتیجے میں وہ پیش آمدہ قانونی اثر سے محفوظ ہوگا۔ جیسے مرورِ میعاد کے باوجود اس کا حق شفعہ ساقط نہیں ہوگا کیونکہ وہ اس حقیقت سے بے خبر تھا کہ وہ متوفیٰ کا وارث ہے ) اور اگر وارث کو کسی شخص کی موت کا علم تھا اور یہ جانتا تھا کہ وہ اس کا وارث ہے اور اس کے باوجود وہ اپنے وراثتی حقوق سے لاعلمی کا دعویٰ کر رہا ہو تو یہ قانون سے بے خبری ہوگی جسے بطورِ عذر قبول نہیں کیا جاسکتا۔[47] (لہذا وہ اس بے خبری کے نتیجہ میں پیش آمدہ قانونی اثر سے محفوظ متصور نہیں ہوگا۔گویا بروم کے نزدیک جہل از قانون عذر نہیں ہے یا یہ کہ جہل قانون پر اثر انداز نہیں ہوسکتا یا یہ کہ جہل از قانون کو استثناء حاصل نہیں ہے۔[48] الاّ یہ کہ جب جہل از حقیقت متحقق ہو تو یہ عذر ہوگا اور قانونی اثر میں رکاوٹ ہوگا۔ جیسے علم بابت مورث حقیقت ہے جبکہ سقوط حق شفعہ بسببِ مرورِ میعاد قانون ہے۔ لہذا اول الذکر سے بے خبری ثانی الذکر پر اثر انداز ہوگی۔
ابن نجیم نے جہل از قانون اور جہل از حقیقت پر سیر حاصل بحث کی ہے اور انھوں نے بھی جہل ازقانون کو عذر تسلیم نہیں کیا ہے الاّ یہ کہ مدعی ٹھوس دلائل کی روشنی میں اپنی بے خبری کو ثابت کررہا ہو، تو اس صورت میں وہ معذور متصور ہوگا۔ابن نجیم نے الاشباہ میں جہل کو المشقة تجلب التيسیر کے ساتھ منسلک کیاہے۔[49] یعنی مشقت بہ سببِ جہل میں آسانی کا خیال رکھا جائے گا۔ ابن نجیم نے جہل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ الجهل هو الشعور بالشئ علی خلاف ما هو به۔[50] یعنی جہل کسی چیز کو اس کی حقیقت کے خلاف سمجھنے کیلئے بولا جاتا ہے۔یا یہ کہ اشیاء، حقائق اور امور واقعہ کو ان کی اصلیت کے خلاف سمجھنا جہل کہلاتا ہے۔ جیسے یرقان کے مریض کو ہر چیز زرد ہی نظر آتی ہے۔
ابن نجیم نے جہل کے کئی اقسام گنے ہیں۔ وہ بھی جہل از حقیقت اور جہل از قانون میں فرق کرتے ہیں۔ اس حوالے سے الأشباہ کے شارح سید احمد بن محمد الحموی فرماتے ہیں کہ جہل کے دعوی میں مدعئ جہل کے حق میں دلیلِ جہل کا خفی ہونا جہل از حقیقت پر دلالت کرے گی اور اسے استثناء حاصل ہوگا۔ جیسے شفیع بالبیع کو اگر بیع کا علم نہیں تھا تو مرورِ میعادِ شفعہ کے باوجود اسے حق شفعہ حاصل ہوگا۔ لأن الدليل خفي فی حقه إذ ربما یقع البیع و لا ىشتهر۔[51] یعنی یہ کہ دلیلِ خفی اس کے حق میں قائم ہے واضح رہے کہ فریقین کے درمیان بلا اشتہارِ بیع بھی بیع کا انعقاد صحیح گردانا جاتا ہے۔ کیونکہ شفعہ بہ سببِ نسب و وراثت یا بہ سببِ شرکت یا عند الاحناف بہ سببِ جوار میں شریکِ شفعہ کو اطلاع دینا دوسرے شریک کی قانونی ذمہ داریوں میں سے نہیں ہے۔ اب جبکہ بائعِ مکان نے اس قانونی رخصت کا فائدہ اٹھا کر بلا اشتہار مکان قابلِ شفعہ کا سودا کیا ہے تو اس کی بیع خفی شریک کے حق میں بوجۂ جہل از حقیقت دلیلِ خفی متصور ہوگی اور مرورِ میعاد کے باوجود اس کا حقِ شفعہ برقرار رہے گا اور اس قسم کا جہل اسے دیوانی اثرات سے تحفظ دے گا۔ اس کے برعکس جیسا کہ حموی نے کہا ہے کہ بعد از اِنکاح بذریعہ ولی منکوحہ بالغہ کا دعوئ جہل از خیارِ بلوغ اس کے حق میں دلیلِ خفی متصور نہیں ہوگا۔ اور یہ جہل از قانون پر دلالت کرے گی۔ لأن الدلیل غیر خفي فی حقها لتمکنها عن التعلم۔[52] کیونکہ اس کا جاننا اس کی قدرت میں تھا اور ہر وہ امر جس کا جاننا عام ہو دلیلِ خفی نہیں بن سکتا۔ دوسرے یہ کہ بیع کے برعکس نکاح کو مشتہر کیا جاتا ہے۔ لہذا ابن نجیم کے ہاں بھی جہل از بیع حقیقت سے لاعلمی اور جہل از خیار قانون سے لاعلمی ہے۔ اس طرح یہ دو الگ چیزیں ہیں جو قانونی تاثیر کے حوالے سے دو الگ نتائج برآمد کرتی ہیں۔
اسی ضابطہ پر فاضل بروم نے دو اور ذیلی ضوابط کو پروان چڑھایا ہے۔ ایک یہ کہ علم کے باوجود رضا بالضرر یا رضا بالجریمۃ (Crimo Con.)موجِبِ تاوان نہیں۔
(Lt) VOLENTI NON FIT INJURIA--- (Eng) Damage suffered by consent is not a cause of action. [53]
یعنی نقصان بعد از رضا موجبِ ازالہ نہیں ہوگا۔یا یہ کہ رضا بالضرر موجِب استحقاق یا موجب تاوان نہیں۔ دوسرا یہ کہ علم کے باوجود غلطی یا غفلت موجِبِ تاوان نہیں۔ بروم (م۔ 1882ء) کہتا ہے:
(Lt) NULLUS COMMODUM CAPERE POTEST DE INJURIA SUA PROPRIA--- (Eng) No man can take advantage of his own wrong. [54]
یعنی کوئی اپنی ہی غلطی کا فائدہ نہیں لے سکتا۔
اور تیسرا ضابطہ یہ کہ تخلیقِ سببِ تاوانِ خود موجِبِ تاوان نہیں ہوگا۔
(Lt) EX TURPI CAUSA ORITUI ACTIO--- (En) Ex created cause does not bear remedy. [55]
یعنی پہلے سے ثابت شدہ ضرر موجبِ ازالہ نہیں۔یا یہ کہ تخلیقِ سبب( ضرر) خلافِ خود موجِبِ مداوا نہیں۔
اس ضابطہ کے تحت بروم نے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو کہ مدعی اپنی بیوی کے ساتھ شخصِ غیر کے زنا کرنے پر راضی تھا یا مدعی خود کو دوسرے شخص کے ذریعے جسمانی ضرر دینے پر آمادہ تھا یا دو مدعیان نے غیر قانونی انعامی مبارزہ (Prize Fight) منعقد کیا تھا اور اس میں کوئی ایک زخمی ہو تو مذکورہ بالا تین صورتوں کے مدعیان ِ تاوان یا مدعیانِ فائدہ پہلے سے رضا بالجرم (Crime.con) اور رضا بالضرر (Injur.con) یا خالقینِ سببِ موجَب (TURPI CAUSA) کے تحت تاوان کے حقدار نہیں ہونگے۔[56] اسی طرح اگر شخص اپنی ملکیت کو باڑھ لگائے بغیر کھلا چھوڑ چکا ہو اور غیر کے مویشی اسے تباہ کر دیں تو وہ شخص راضی بالضرر متصور ہوگا یا قانون سے غافل، لہذا تاوان کا مستحق نہیں ہوگا۔[57] کیونکہ بروم کے نزدیک قانون مستعد افراد کی مدد کرتا ہے، اپنے حقوق سے غافل افراد کی نہیں۔
(Lt) VIGILANTIBUS, NON DORMIENTIBUS, JURA SUBYENUNT--- (Eng) The law assists those who are vigilantes, not those who sleep over their rights. [58]
یعنی قانون بیدار از قانون اور مستعد لوگوں کی مدد کرتا ہے، ان لوگوں کی نہیں جو قانون کے اوپر کروٹ لے کر سوتے ہیں۔ لہذا مذکورہ شخص فصل کے تلف ہونے کا تاوان وصول نہیں کرسکتا کیونکہ وہ اپنے مال کی حفاظت سے غافل پایا گیا ہے۔[59]
ابن نجیم نے بھی رضا بالضرر یا تصورِ خود خطائیت یا غفلت از حق پر بحث کی ہے۔ ان کے نزدیک خود خطائیت (Self wrong) کے نتیجے میں عدمِ وصولیٔ تاوان یا عدمِ استفادہ از حق یا مخطئ کا غیر مستحقِ دعوی ہونے کی اساس یہ فقہی ضابطہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ من استعجل بشئٍ قبل أوانه عُوقِب بحرمانه۔[60] یعنی جس شخص نے کسی شئے کو وصول کرنے کیلئے قبل از وقت جلدی کی وہ سزا کے طور پر اسی چیز سے محروم کیا جائے گا۔ یا یہ ضابطہ کہ من سعی فی نقض ما تم من جهته فسعيه مردود عليه۔[61] یعنی جو اپنی طرف سے مکمل کردہ شئے کی نقض کا مرتکب پایا گیا تو اس کا ارتکاب اس کے خلاف متصور ہوگا۔اس کا مطلب وہی ہے جو بروم نے ذکر کیا ہے کہ کوئی بھی شخص اپنی خطاء کا فائدہ حاصل نہیں کرسکتا۔ ابن نجیم فرماتے ہیں کہ اگر یہ ثابت ہو کہ کسی وارث نے اپنے مورث کو حصولِ اموالِ موروثہ کی خاطر قتل کیا ہے تو اس کی پاداش میں اسے اپنے مورث کی میراث کے فائدہ سے محروم کیا جائے گا۔ ابن نجیم کے نزدیک خلاصی از حقِ غیر بصورتِ نیّتِ بد پر بھی مذکورہ قاعدہ کا اطلاق ہوگا۔ لہذا اگر کوئی مرضِ موت میں عدمِ توارث کی نیّت سے بیوی کو طلاق دیدے تو طلاق بیوی کے وارث ہونے سے گلوخلاصی کا موجِب نہیں بنے گا اور وہ فارّ متصور ہوگا۔[62]
ضابطہ تاثیرِ نیت و فعل:
ضابطہ تاثیرِ نیت و فعل دراصل قاعدہ ازالۂ ضرر اور قاعدہ مشقت بمعہ سہولت کی توضیحی نوٹ کی شکل میں سامنے آتا ہے۔بروم کے نزدیک کوئی فعل صرف اس وقت قانونی تاثیر کا حامل ہوتا ہے جب اس کے پیچھے نیت ِفعل ثابت ہو۔ چنانچہ نیت اور فعل دونوں مل کر قانونی تاثیر کو برآمد کرتے ہیں۔ بروم کہتا ہے:
(Eng) ACTA EXTERIORA INDICANT INTERIORA SECRETA--- (Eng) Acts indicate intention. [63]
یعنی عمل نیت کا مظہر ہے۔ یا یہ کہ عمل سے نیت کا پتہ چلتا ہے۔
بروم نے اس ضمن میں دوسرا ضابطہ بھی ذکر کیا ہے کہ:
(Lt) ACTUS NON FACIT REUM NIST MENS SIT REA--- (Eng) The intent and the act must both concur to constitute the crime. [64]
یعنی یہ کہ ارادہ اور فعل دونوں مل کر جرم کی تشکیل کرتی ہیں۔
بروم کے نزدیک اس ضابطہ کا مطلب یہ ہے کہ قانون فعل کو دیکھ کر فاعل کے قصد کا تعین کرتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی مسافر مسافر خانہ میں کھانا کھانے کیلئے داخل ہو جاتا ہے اور وہاں کسی جرم یا مداخلتِ بیجا (Trespass) کا مرتکب ہو جاتا ہے، تو اس کے مؤخر الذکر فعل کو اس کے قصد کے ساتھ نتھی کیا جائے گا کہ وہ کھانا کھانے کے بجائے ارتکابِ جرم کے قصد سے اندر داخل ہوا تھا۔ اور یوں وہ مرتکبِ جرم (Ab-initio) متصور ہوگا۔[65] کیونکہ، جیسا کہ بروم نے مؤخر الذکر ضابطہ کے تشریحی نوٹ میں کہا ہے، ایک مجرمانہ ذہنیت رکھنے والا لازماً کسی جرم کا ترکیبی عنصر (Ingredient) ہوتا ہے۔ لہذا فوجداری تشریع کی نصوص کی تعبیر اس انداز سے کی جانی چاہیئے کہ قصدِ انسانی (mens rea) جرم کے ترکیبی عنصر کی صورت میں نظر آئے۔[66]
ابن نجیم نیت اور فعل یا قصد اور فعل یا تکوینِ جرم بہ سببِ قصد و فعل کے ضمن یہ فقہی قاعدہ ذکر کرتا ہے کہ الأمور بمقاصدها۔[67] یعنی امر واقع میں قصد کا اعتبار کیا جائے گا۔ ابن نجیم قصد یا نیت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ إنها شرعاً الإرادة المتوجهة نحو الفعل۔[68] یعنی ازروئے شرع نیت سے مراد وہ ارادہ ہے جو فعل کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ ابن نجیم اور دیگر فقہاء نے عمل کے تابعِ قصد ہونے کا استدلال نبی کریمﷺ کی اس حدیث سے کیا ہے کہ إنما الأعمال بالنيات۔[69] یعنی یہ کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
یہ بات کہ قصد اور فعل جرم کی تشکیل کرتی ہیں، ابن نجیم کے ہاں ایک قاعدہ کے طور پر تو پائی نہیں جاتی، تاہم نبی کریم ﷺ کی اس حدیث کی بنیاد پر اس کے مفہوم کو متعین کیا جاسکتا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: إن اللّه تجاوز عن امتي ما حدثت به أنفسها ما لم یتکلم به أو تعمل به۔[70] یعنی میری امت کے دل میں جو بھی بری بات گزرتی ہے اللہ تعالی اس پر ان کی گرفت نہیں کرتے۔ جب تک وہ اسے نہ بولیں یا اس پر عمل نہ کریں۔ لہذا اس حدیث کے تحت زیرِ بحث مسئلہ کی دو صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ قصدِ جرم تو ہو لیکن فعلِ جرم سرزد نہ ہو۔ اور دوسری یہ کہ فعلِ جرم تو سرزد ہو لیکن قصدِ جرم متحقق نہ ہو۔تو ان دونوں صورتوں میں وہ جرم متصور نہیں ہوگا کہ اس پر تعزیری یا اصل سزا دی جاسکے۔ یہ واضح رہے کہ قتلِ خطاء کا تعلق مؤخر الذکر صورت سے ہے اور اسی بناء پر عدمِ قصد کی وجہ سے اس کے فعلِ قتل کو قتلِ عمد موجِبِ قصاص کے بجائے قتلِ خطاء موجِبِ دیت قرار دیا گیا ہے تاکہ شخصِ غیر کا خون رائیگاں نہ ہو۔
ابن نجیم کے نزدیک افعال کے قصد کا متحقق ہونا ممکن نہیں کیونکہ قصد کا تعلق دل سے ہے۔ اس ضمن میں اسلامی تشریع کا اصول یہ ہے کہ جہاں کوئی چیز غیر مدرَک اور غیر مرئی ہو وہاں ایک مدرَک اور مرئی امر کو اس کا قائم مقام بنایا جاتا ہےتا کہ یہ مدرک مرئی غیر مرئی کے وقوع پر دلالت کرے۔ اس ضمن میں فقہ اسلامی کے تشریعی ضابطہ میں کہا گیا ہے کہ: دلیل الشئی فی الامور الباطنة یقوم مقامه یعنی أنه يحكم بالظاهر فيما يتعسر الاطلاع على حقيقته۔[71] یعنی امورِ باطنہ سے متعلق اس کی ظاہری دلیل اس کا قائم مقام متصور ہوگی۔ یعنی یہ کہ جب حقیقت سے آگاہی متحقق نہ ہو تو اس کے ظاہر کو دیکھ کر اس کا حکم دیا جائے گا۔اس ضمن میں ابن نجیم نے قتلِ عمد کی مثال دیتے ہوئے اس قاعدہ کی اطلاقی صورت کو یوں بیان کیا ہے: أما القصاص فتوقف علی قصد القاتل القتل، لکن قالوا لمّا کان القصد امراً باطنیاً أقیمت الاٰلة مقامه، فإن قتل بما یُفرِّق الأجزاء عادةً کان عمداً و وجب القصاص۔[72] یعنی جہاں تک قصاص کا تعلق ہے تو وہ قاتل کے قصد پر موقوف ہوگا۔ تاہم جیسا کہ فقہاء نے کہا ہے کہ قصد چونکہ ایک امرِ باطنی ہے لہذا آلۂ قتل کو قصد کا نائب گردانا گیا ہے۔ لہذا اگر قاتل نے ایسے آلہ سے قتل کیا ہو جو عموماً اجزائے انسانی کو ٹکرے ٹکڑے کرتی ہو تو اس کا یہ فعل قتلِ عمد موجِبِ قصاص متصور ہوگا۔
اس ضمن میں بروم لاطینی زبان میں یہ ضابطہ سامنے لاتا ہے۔
(Lt) RES IPSA LOQUITUR--- (Eng) The things speak of themselves. [73]
یعنی یہ کہ اشیاء خود اپنے بارے میں دلالت کرتی ہیں یا بولتی ہیں۔
بروم کے نزدیک اشیاء کا استعمال نیتِ واقعہ کو ظاہر کرتی ہے۔ اور یہ وقوع بعد از قصد کی واضح دلیلPrima facie evidence ہوگی۔ جیسے مدعی دعوی کرتا ہو کہ جب وہ مدعیٰ علیہ کے دروازے کے قریب گزر رہا تھا تو اس کے سر کے اوپر چینی سے بھری بوری آگری۔ یا مدعا علیہ کے دکان کی کھڑکی کے اوپر سے اس کے اوپر بھرا ہوا ڈرم آگرا، تو متعلقہ اشیاء کا اس طریقے سے استعمال نیت اور قصد پر محمول کیا جائے گا۔[74]
فقہاء نے بھی وارداتِ قتل میں بھاری پتھر، بڑی لکڑی، آہنی آلات، تیز دار تلوار کے استعمال یا اونچی جگہ سے مقتول کو گرانے کے عمل اور اس کے مترادف صورتوں کو قصد و عمد سے تعبیر کیا ہے۔[75]
ضابطہ تعدد و تداخل:
ضابطہ تعدد و تداخل قانونی حوالے سے سابقہ قواعد کے اطلاق و تطبیق کا تتمہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ تعددِ جرائم کی صورت میں ازالۂ ضرر اور مشقت مع سہولت کا اطلاق کیسے ہوگا۔ بروم کے نزدیک فعلِ واحد پر دو بار سزا نہیں دی جاسکتی۔ یا ایک فعل کی پاداش میں دو بار دِق کرنا خلافِ قانون ہوگا۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ اگر ایک شخص ایک جرم میں ایک بار سزا پائے تو اس کے خلاف اس جرم کا مقدمہ دوبارہ نہیں کھولا جائے گا۔ بروم کہتا ہے:
(Lt)NEMO DEBET BIS VEXARI PRO UNA ET EADEM CAUSA--- (Eng) It is a rule of law that man shall not be twice vexed for one and the same cause. [76]
یعنی یہ قانونی ضابطہ ہے کہ ایک شخص کو ایک ہی سبب کی بنیاد پر دو بار دِق نہیں کیا جائے گا۔اس ضابطہ کے تحت اگر ایک شخص دو اشخاص کے خلاف ایک ہی نوع کے اعتداء کا مرتکب ہو تو اس پر ایک بار کی سزا لاگو ہوگی۔ بروم اسے تداخلِ اسباب یا تداخلِ علل (Merger of the causes) کا نام دیتا ہے۔ [77]
ابن نجیم کے ہاں بھی ایک مقصود کے حامل افعال کا تکرار فعلِ واحد (Single cause) متصور ہوگا اور وہ سب موجَبِ واحد کا باعث بنیں گے۔اس ضمن میں ابن نجیم اس ضابطے کا ذکر کرتے ہیں کہ إذا اجتمع أمران من جنس واحدٍ و لم یختلف مقصودهما دخل احدهما فی الآخر۔[78] یعنی جب ایک ہی جنس کے دو امور ایک ہی مقصود کے ساتھ باہم جمع ہوں تو ہر ایک کو دوسرے میں داخل سمجھا جائے گا۔ اسی طرح ایک ہی شخص کے خلاف ایک نوع کے پے درپے متعدد جرائم ایک جرم متصور ہونگے۔[79]
اس ضمن فوجداری ضابطۂ تعدد کو فقہ اسلامی کا یہ ضابطہ مواد فراہم کرتا ہے جس میں کہا گیا ہے: العارض قبل حصول المقصود بالشئ کالمقترن بأصل السبب۔[80]یعنی ہر عارض یا امر حادث (Current event) اصل سبب کے ساتھ اس وقت تک نتھی سمجھا جائے گا جب تک اس کا مقصود متحقق نہ ہو۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ بصورت تکرار ہر فعلِ دوم فعلِ اول کے ساتھ نتھی ہوگا جب تک درمیان میں فعلِ اوّل کا نتیجہ متحقق نہ ہو۔ اس لحاظ سے فعلِ دوم و افعالِ مابعد کو فعلِ واحد گردانا جائے گا۔ ابنِ نجیم کے ہاں ایک اور ضابطہ بھی متداول ہے جس میں کہا گیا ہے: التابع تابع۔[81] یعنی تابع تابع رہے گا۔ یا یہ ضابطہ کہ التابع لا یفرد بالحکم۔[82] یعنی تابع اکیلے حکم کا موجِب نہیں بن سکتا۔ جیسے فقہ اسلامی کی رو سے ذبح اور بیع کے حوالے سے جنین ماں کا تابع ہوتا ہے لہذا جب تک انفصال متحقق نہ ہو تب تک ذبح اور بیع کا اطلاق ماں کے ساتھ جنین پر بھی ہوگا۔[83] اسی حوالے سے تکرار اور تعدّدِ جرائم کے درمیان اگر سزا متحقق نہ ہو تو ہر جرمِ ما بعد کو جرمِ ما قبل کے ساتھ نتھی سمجھا جائے گا اور اس صورت میں صرف ایک سزا کا اطلاق کیا جائے گا۔
پے درپے تکرارِ افعال سے متعلق ابن نجیم کے مذکورہ مفہوم کو بعد میں اسلامی فوجداری تشریع کے ماہرین نے ضابطۂ تعدد، ضابطۂ تکرارِ جرم، ضابطۂ تداخل اور ضابطۂ جبّ کی اصطلاحات میں ڈھال دیا۔ جبکہ بروم نے اسے Merger of cause of action یعنی موجب کے اسبابِ متعددہ کے باہمی انضمام کا نام دیا۔ ابن نجیم اور بروم دونوں کے ہاں ازالۂ ضرر اور مشقت مع سہولت کے قواعد تعدّدِ جرائم کی صورت میں بھی لاگو ہوں گے چنانچہ ابن نجیم کی قانونی تعبیر کی روشنی میں تعدّد جرائم کے باوجود مجرم کو تعدّدِ موجَبات کے بار سے مستثنی قرار دیا جائے گا اور تعدد جرائم کی صورت میں سزائے واحد کو نافذ کرکے مجرم سے ضرر کے ازالہ کو ممکن بنایا جائے گا اور یوں مشقتوں کے بیچوں بیچ اسے سہولت دی جائے گی۔
مذکورہ بالا جائزہ اس بات کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ ہربرٹ بروم نے متعدد قواعد اور ذیلی اصول رومن لاء سے اخذ کی ہیں اور ان کو لاطینی زبان میں ڈھال کر ان کی قانونی تعبیر کی ہے اور حسبِ موقع امثال و نظائر بھی فراہم کی ہیں۔ لیکن، جیسا کہ خود بروم نے کہا ہے، یہ قواعد ایک سادہ مزاج کے رسم و رواج کی اساس پر قائم ہیں جو بعد میں ارتقائی مراحل طے کرکے موجودہ ہیئت میں سامنے آئی ہیں۔[84] تاہم ان قواعد سےمتعلق بروم نے جو قانونی تعبیرات پیش کی ہیں وہ زیادہ تر قانونی تجربات اور شخصی آراء پر مشتمل ہیں۔ بایں ہمہ بروم کا استشہادی طرز عالمانہ ہے اور اس نے قانونی تعبیرات کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا ہے۔ حتمی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ بروم نے لازماً ا بن نجیم یا دیگر ماہرینِ اصولِ فقہ سے استفادہ کیا ہے۔ یا یہ کہ جیسا کہ بعض محققین کا خیال ہے کہ تقنین کے حوالے سے فقہ اسلامی کے قواعد اور ان کا اطلاق رومی اور معاصر قوانین سے استفادہ کا نتیجہ ہے۔ تاہم اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بازنطینی روم اور مشرقی یورپ کے فتوحات اور صلیبی جنگوں کے نتیجے میں دونوں طرف کے ماہرین اصولِ فقہ و قانون نے ایک دوسرے کا مطالعہ کیا ہے۔ تاہم اس مشترکہ مطالعہ کا فائدہ لازماً اس فریق کو ملا ہوگا جو قواعد کی تشکیل و اطلاق میں انسانی فکر ااور عرف کو اساس خیال کرتا تھا اور جن کے منہجِ استنباط پر فاضل بروم کی قانونی تعبیرات دلالت کرتی ہیں۔ اس کے برعکس اسی دور میں مسلمان ائمہ کرام نے نصوص کی اساس پر قواعد و اصول کو پروان چڑھایا تھا۔ ابن نجیم کی قانونی تعبیرات مؤخر الذکر منہج کی نمائندگی کرتی ہیں۔ تاہم خود رومی قانون کے بازنطینی تعبیر کنند گان نے رومی قواعد ِ قانون کی تعبیر اتنی گہرائی سے نہیں کی جتنی گہری تعبیر ان کے مستعیر فاضل برومنے کی ہے۔اس سے اس نتیجہ پر پہنچنا مشکل نہیں رہا کہ تعبیرات اور مفاہیم کے اشتراک کے حوالے سے فاضل بروم نے اسلامی فقہ و قانون کے ماہرین سے ضرور استفادہ کیا ہوگا۔
فہرست حوالہ جات
حوالہ جات
- ↑ ۔Herbert Broom (D. 1882 AD) A Selection of Legal Maxims: Classified &illustrated.10th ed. (Lahore: Pakistan Law House, 2012)
- ↑ ۔Broom, A Selection of Legal Maxims. P. 118
- ↑ ۔Broom, P. 120
- ↑ ۔زین الدین ابن نجیم (م۔ 970ھ) الأشباہ و النظائر (بیروت: دار الکتب العلمیۃ، 1400ھ) ، 85
- ↑ ۔ابن نجیم،87
- ↑ ۔ابن نجیم، 88
- ↑ ۔ابن نجیم،89
- ↑ ۔ابن نجیم،87
- ↑ ۔ابن نجیم، مذکور۔
- ↑ ۔المجلۃ لأحکام العدلیۃ بمعہ شرح از محمد خالد الأتاسی، (کوئٹہ: مکتبہ اسلامیۃ، سطن) ، قاعدہ نمبر 33، 76:1
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔المجلۃ، قاعدہ نمبر 91، 251:1
- ↑ ۔ Broom, P.120
- ↑ ۔ابن نجیم،17
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔ابن نجیم،62
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔المجلۃ، بذیل قاعدہ نمبر 11 ’’اضافۃ الحادث۔۔۔‘‘34:1
- ↑ .Broom, P.138
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔عبد القادر عودہ، التشریع الجنائی الاسلامی مقارناً بالقانون الوضعی۔ (بیروت: دار الکتاب العربی۔ سطن) بذیل ’’ لا رجعیۃ۔۔۔‘‘زیر مادہ 205
- ↑ ۔عودہ، التشریع الجنائی الاسلامی، 115:1 بذیل ’’قواعد اصولیۃ شرعیۃ‘‘زیر عدد 87
- ↑ ۔عودہ، مذکور266:1 بذیل ’’جواز الرجعیۃ‘‘زیرِ عدد 206
- ↑ ۔مذکور
- ↑ .Broom, Broom’s Legal Maxims, P. 139.
- ↑ ۔ابن نجیم، 75
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔ابو بکر محمد بن احمد السرخسی (م۔490ھ) اصول السرخسی۔ (بیروت،: لبنان۔سطن) 340:2
- ↑ ۔ابن نجیم، 84
- ↑ ۔Broom, P. 8
- ↑ .Broom, P.358
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔ابن نجیم، 84
- ↑ ۔ابن نجیم، 86
- ↑ .Broom, P. 151
- ↑ .Broom, P. 152
- ↑ ۔ابن نجیم، 302 و مابعد
- ↑ ۔القران، 2233:
- ↑ ۔اصول السرخسی، 340:2
- ↑ .Broom, P. 162
- ↑ .Broom, P. 163
- ↑ .Broom, P. 162
- ↑ .Broom, P. 162
- ↑ .Broom, P. 169, 172
- ↑ .Broom, P. 9, 169, 173, 208
- ↑ .Broom, P. 169
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔ابن نجیم، 75
- ↑ ۔ابن نجیم، 303
- ↑ ۔احمد بن محمد الحموی (م۔1098) ، غمز عیون البصائر شرح الاشباہ و النظائر، کراچی: ادارۃ القران۔ سطن 138:2
- ↑ ۔مذکور
- ↑ .Broom, P.181
- ↑ .Broom, P.191
- ↑ .Broom, P.182
- ↑ .Broom, P.182
- ↑ .Broom, P.191
- ↑ .Broom, P.590
- ↑ .Broom, P.182
- ↑ ۔ابن نجیم، 159
- ↑ ۔ابن نجیم، 159
- ↑ ۔المجلۃ، بذیل ’’من سعی فی نفس۔۔۔‘‘زیرِ عدد 100
- ↑ .Broom, P. 200
- ↑ .Broom, P. 207
- ↑ .Broom, P. 201
- ↑ .Broom, P. 208
- ↑ ۔ابن نجیم، 27
- ↑ ۔ابن نجیم، 29
- ↑ ۔ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل البخاری (م۔ 256ھ) الجامع الصحیح۔ (دار طوق النجاۃ، 1422ھ) کتاب بدء الوحی، حدیث نمبر1
- ↑ ۔مسلم بن حجاج النیشابوری (م۔261ھ) ، صحیح مسلم۔ (بیروت: دار احیاء التراث العربی، سطن) باب تجاوز اللہ۔۔۔ حدیث نمبر201
- ↑ ۔مجلۃ الاحکام العدلیۃ (کراچی: کارخانہ کتب۔سطن) بذیل ’’دلیل الشئ ۔۔۔‘‘مادہ نمبر 68
- ↑ ۔ابن نجیم، 25
- ↑ .Broom, P.204
- ↑ .Broom, P.205
- ↑ ۔عبد الرحمن الجزیری، کتاب الفقہ علی المذاہب الاربعۃ، (بیروت: دار الفکر، سطن) 275:5
- ↑ .Broom, P.217
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔ابن نجیم،133
- ↑ ۔ مذکور
- ↑ ۔محمد عمیم الاحسان، قواعد الفقہ۔ (کراچی: الصدف پبلشرز،1407ھ) ، 90
- ↑ ۔ابن نجیم، 120
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔مذکور
- ↑ ۔Broom, Preface to first edition, P. v
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |