Search from the Journals, Articles, and Headings
Advanced Search (Beta)
Home > Al-Idah > Volume 34 Issue 2 of Al-Idah

صحیح البخاری کی کتب اور ابواب میں نظم و مناسبت تحقیقی جائزہ |
Al-Idah
Al-Idah

Article Info
Authors

Volume

34

Issue

2

Year

2017

ARI Id

1682060034497_897

Pages

20-43

PDF URL

http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/63/58

Chapter URL

http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/63

Subjects

Sahih Bukhari Kitab Inception Completion Sahih Bukhari Kitab Inception Completion

Asian Research Index Whatsapp Chanel
Asian Research Index Whatsapp Chanel

Join our Whatsapp Channel to get regular updates.

 

امام بخاریؒ نے کئی ایک کتابیں تصنیف کی ہیں جن کی تعداد ۲۰ سے زائد ہے۔ ان تمام کتابوں میں صحیح بخاری ایک امتیازی حیثیت کی حامل کتاب ہے۔ عوام و خواص میں یہ بات مشہور ہے۔ إن اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح البخاری عظیم المرتبت، آئینہ انوارِ رسالت اور صحت و وثوق میں فائق تر کتاب صحیح بخاری کا پورا نام الجامع الصحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ ہے۔ صحیح بخاری کی کتاب بدء الوحی، کتاب الایمان، کتاب العلم اسی طرح آخری کتاب کتاب التوحید تک۹۷ کتب اور ۴۰۰۰ ابواب اور ہر باب کا عنوان اس کے مؤلف کی مجتہدانہ و فقیہانہ بصیرت کی دلیل ہے۔ اور ہر کتاب کے اندر ابواب اور پھر ان سے مسائل کا استنباط فقاہت کی عظیم مثال ہے۔ زیر بحث مقالہ میں صحیح بخاری کی کتب اور ابواب میں نظم و مناسبت پر تحقیقی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ 

اصطلاح دلالۃ المنظوم

علامہ آمدی نے ’’الاحکام فی اصول الاحکام‘‘ میں دلالات المنظوم اور دلالات غیر المنظوم کی اصطلاح استعمال کی ہے۔علامہ آمدیؒ نے دلالت المنظوم کے تحت الامر، النہی، العام، الخاص، المطلق، المقید، المجمل، البیان، المبین اور الظاہر و تویلہ ذکر کی ہیں، جبکہ دلالۃ غیر المنظوم کے ضمن میں دلالۃ الاقتضاء، دلالۃ التنبیہ والایماء، دلالۃ الاشارۃ اورالمفہوم لائے ہیں۔ گویا ان کے ہاں دلالۃ المنظوم کلام کے ظاہری پہلوؤں اور دلالۃ غیر المنظوم کلام کے مخفی پہلوؤں کی وضاحت ہے۔ ۱

دلالۃ المنظوم سے مراد :

عموماً دلالۃ المنظوم سے مراد منطوق اللفظ اور دلالت صریحہ مراد لیا جاتا) ہے۔۲

دلالۃ غیر المنظوم سے مراد:

اور دلالۃ غیر المنظوم سے لفظ کی غیر صریح دلالت مراد لی جاتی ہے۔۳

نظم کی تعریف

بحث ہذا میں نظم سے مراد کتب و ابواب کی وہ باہمی مناسبت ہے جس کے معلوم ہونے پر پوری کتاب ایک وحدت میں ڈھل جائے کہتے ہیں کسی بھی چیز کا حسن اس کے نظم میں مضمر ہوتا ہے۔۴؂

نظم اورمنظوم کی اصطلاح کا ربط:

لیکن نظم اورمنظوم کی جدید اصطلاح مربوط اورمرتب کلام کے لیے بولی جاتی ہے۔ کلام کے ایک حصے کی دوسرے سے حکیمانہ مناسبت اور ترتیب نظم کہلاتی ہے اور اس نظم میں بسا اوقات بہت سے نکاتِ علمی اور بہت سی حکمتیں پوشیدہ ہوتی ہیں، جن کی مصنف و متکلم نے رعایت رکھی ہوتی ہے۔ اس کی پہچان سے بہت حد تک متکلم کی مراد واضح ہوجاتی ہے۔ ۵

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں بھی ایک خاص ترتیب اور ربط ملحوظ رکھا ہے۔ اگرچہ انھوں نے اس ترتیب یا ربط پر کوئی بات نہیں کی، لیکن علامہ البلقینیؒ نے امام صاحب کی ترتیب پر ایک نظم لکھی ہے جو ۶۳ اشعار پر مشتمل ہے جسے قسطلانیؒ کی ارشاد الساری میں دیکھا جا سکتاہے۔۶

اسے ابن حجرؒ نے اپنے الفاظ میں ھدی الساری، مقدمہ فتح الباری ص۴۷۰۔۴۷۳ پر نقل کیا ہے۔ ان دونوں سے استفادہ کرتے ہوئے صحیح بخاریؒ کی کتب کا باہمی ربط ذیل میں بیان کیا جاتا ہے جس سے صحیح بخاری میں امام بخاریؒ کی دقت فہم اور بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے جس کو انھوں نے صحیح بخاری کی تالیف کے وقت پیش نظر رکھا ہے۔

الجامع الصحیح میں کتب کا نظم

امام بخاریؒ نے الجامع الصحیح کی ابتداء ’’کتاب بدء الوحی‘‘ سے کی ہے۔ اس کو اس لیے مقدم کیا گیا ہے کہ وحی منبع و سرچشمۂ ہدایت ہے، تمام تر خدائی رہنمائی کا واحد ذریعہ ہے۔ تمام رُسل، انبیاء اور ان کی شرائع اسی کی مرہونِ منت ہیں۔ وحی نہ ہوتی تو انسان اس دنیا میں سرگرداں گھومتا پھرتا رہتا۔ اس کا کچھ مقصود نہ ہوتا۔ انسان تمام تر صلاحیتوں کے باوجود عالم دیوانگی میں جنوں کی کیفیات کا شکار رہتا۔ وحی کی مثال پاور سپلائی کی سی ہے، بلب میں جتنی بھی پوٹینشل ہو، پاور سپلائی سے بجلی نہ آئے تو روشن نہیں ہوتا۔ بعینہ وحی کے ذریعے ہدایتِ خداوندی نہ آئے تو انسان اپنی تمام قوتوں کے باوجود مقصدِ تخلیق پر پورا نہیں اتر سکتا۔ وحی کی اسی اہمیت کے پیش نظر امام بخاریؒ نے سب سے پہلے وحی کا ذکر کیا ہے اور وحی کی ابتداء چونکہ (اقراء باسم ربک الذی خلق۔۔۔)سے ہوئی تھی جس میں باری تعالیٰ کی ربوبیت کا ذکر ہے اور چونکہ آغاز وحی ہی میں اللہ کی ربوبیت کی پہچان اور اس بارے علم کا تذکرہ اور علم کی فضیلت بیان ہوئی ہے۔ اس لیے امام بخاریؒ نے ’’کتاب بدء الوحی‘‘ کے بعد کتاب الایمان کا ذکر کیا ہے کیونکہ اللہ کے رب ہونے پر ایمان لانا سب سے افضل اور سب سے زیادہ ضروری ہے مزید یہ کہ تمام علوم میں سے اشرف ترین علم ہے۔

اشرف العلم ’’الایمان‘‘ اور اس کی تفصیلات کے بعد علم، اس کی فضیلت، اس کا حصول، اس کے آداب، صاحب علم اور اس کے مقام و مرتبہ پر مبنی کتاب العلم لائے اور چونکہ حقیقی علم وہی ہے جو عمل میں تاثیر پیدا کر دے اس لیے امام صاحب ؒ نے علم کے بعد اعمال کا تذکرہ کیا ہے اور چونکہ انسانی عمل یا تو انسانوں کے لیے ہوتا ہے یا پھر خالق کے لیے اس لیے بنیادی طور پر عمل کی دو قسمیں ہوئیں۔

۱۔ معاملۃ العبد مع الخالق۲۔ معاملۃ العبد مع الخلق۳۔ معاملۃ العبد مع الخلق والخالق

اورمعاملۃ العبد مع الخالق یا تو بدنی ہوتے ہیں یا مالی یا پھر بدنی اورمالی دونوں طرح کے یا پھر نفسی۔

بدنی اعمال میں سب سے افضل نماز ہے اورنماز طہارت کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔اس لیے کتاب العلم کے بعد کتاب الطہارۃ کا تذکرہ کیا جس میں طہارت کی اقسام، اجناس، طریقہ کار، مرد و عورت دونوں یا صرف عورتوں سے متعلقہ امور اور تمام ظاہری پالیدگیوں اور ان سے نجات کے طریقہ کار کا احاطہ کیا گیا ہے اس کے بعد کتاب الصلوۃ اور اس کے متعلقات کا تذکرہ کیا۔ یہ ترتیب ((بنی الإسلام علی خمس۔۔۔))والی حدیث کے مطابق رکھی ہے جس میں سب سے پہلے نماز پھر زکوٰہ پھر صیام اورحج۔ مختلف روایات میں صیام اورحج کی ترتیب مختلف ہونے کی وجہ سے صحیح بخاری کے مختلف نسخوں میں صیام و حج کی تقدیم و تاخیر بھی مختلف ہے۔

اس کے بعد اعمالِ مالیہ کا ذکر کیا جس میں زکوٰۃ اور اس کی تفصیلات لائے۔اس کے بعد اعمال بدنیہ مالیہ یعنی جو جسم و مال میں مشترک ہیں، میں سے حج کا ذکر کیا، جس میں مکہ و مدینہ، حرم اورزیارات وغیرہ بھی لائے۔ اس کے بعد عمل نفس روزے کو ذکر کیا۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسی فرضی عبادات کے بعد نفلی عبادات میں سے صلاۃ التراویح اور الاعتکاف لائے ہیں۔

یہاں سے معاملۃ العبد مع الخالق کا تذکرہ مکمل کرنے کے بعد معاملۃ العبد مع الخلق کا آغاز کیا جس میں کتاب البیوع سے آغاز کیا۔ پہلے بیوع الاعیان کا تذکرہ کیا پھر بیوع الدین لائے اور اس میں السلم کا تذکرہ کیا۔ اس کے بعد جبری بیع یعنی الشفعہ کا ذکر کیا۔ پھر معاملات بیوع میں دوسرے پر انحصار کرنے والے امورمیں الاجارۃ، الحوالات، الوکالۃ، المزارعۃ، المساقاۃ اور استقراض کا ذکر کیا۔ الاجارۃ میں طے شدہ شرح منافع یا نقصان پر کوئی چیز کیسے دی جاتی ہے۔ اور الحوالہ میں قرض کسی ایک کے ذمے سے نکال کر کسی دوسرے کے ذمے میں دے دیا جاتا ہے اور الوکالۃ میں کسی شخص کو مطلقاً یا مقیداً امور سپرد کر دیے جاتے ہیں الوکالۃ میں کسی شخص پر توکل ہوتا ہے۔ کسی شخص پر توکل کے ابواب کے بعد بیوع میں ان ابواب کا ذکر کیا جن میں توکل خالصۃً اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے۔ ان میں المزارعت، المساقاۃ اور استقراض اور ان کے متعلقات ذکر کیے۔۷

یہ تو ایسی بیوع تھیں جن میں صاحب المال آگے کسی سے مقررہ نفع کے معاہدے یا اجرت پر کام کرواتا ہے۔ اس کے بعد ایسی بیع کا تذکرہ کیا جس میں بعض لوگ برابر یا مختلف حصوں پر شراکت کرتے ہیں۔ چنانچہ کتاب الشرکہ ذکر کی۔ اس میں شریک پر اعتماد کی بناء پر بیع ہوتی ہے،لیکن کسی کو کچھ دیتے وقت اعتماد کی کیفیت نہ پیدا ہو تو کوئی چیز رکھوا کر مال لیا جاتا ہے تو اس وقت اعتماد گروی رکھی شے پر ہوتا ہے اس لیے اس کے بعد کتاب الرہن کو ذکر کیا۔ یہ تمام بیوع اشیاء سے متعلق تھیں، اس کے بعد انسانوں کی خریدوفروخت اورملکیت کا معاملہ ذکر کرتے ہوئے کتاب العتق لائے۔ یہ تمام معاملات معاوضے کے ساتھ تھے۔ اس کے بعد وہ ذکر کیا جو بلا معاوضہ اور بغیر بدل کے کسی کو ملکیت کے سونپنے کے حوالے سے ہے اور وہ ’’بہ‘‘ ہے اس لیے کتاب الھبہ ذکر کی۔ یہاں بیوع کا ذکر ختم کر دیا، لیکن بیوع کرنے کے درمیان چونکہ جھگڑے وغیرہ ہو جایا کرتے ہیں اس لیے بیوع کے ذکر کے درمیان کتاب الخصومات بھی ذکر کر دی اور اس میں کوئی کسی پر ظلم کرے یا ناجائز مال لے لے تو اس کے عواقب وغیرہ کا ذکر کرتے ہوئے کتاب المظالم والغصب ذکر کی۔ ان معاملات کو سدھانے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ کسی عادل شخص سے فیصلہ کروایا جائے اورعادل شخص معاملے کو جاننے کے لیے اورحل کرنے کے لیے گواہیاں طلب کرتا ہے اس لیے ان معاملات کے حل کرنے کے لیے بیوع کے آخر میں کتاب الشہادت ذکر کی۔ اورجب فیصلہ ہو جائے یا ہونے میں مشکلات ہوں تو اس میں رہنے کا انداز باہمی صلح اوراتفاق کا ہے اس لیے اس کے فوراً بعد کتاب الصلح ذکر کی۔ تمام بیوع، خریدوفروخت، لین دین اور اس دوران ہونے والے ظلم و زیادتی، جھگڑوں، ان کے حل کے بعد بیوع کے ایک جزوی مسئلے کا ذکر کیا یعنی دورانِ بیع ایک فریق دوسرے پر معاہدہ کرتے ہوئے شرائط عائد کرے تو ان کی حقیقت کیا ہے۔ ان کا جواز کس حد تک ہے، جو جائز ہیں ان کی صورت کیا ہے اورکسی سے صلح ہو تو اس کی شرائط اورصورتیں کیا ہیں۔ اس لیے کتاب الشروط لائے۔ یہ تمام امور انسان کی زندگی میں اس کے مال سے متعلق تھے، اس کے بعد اس معاملے کا ذکر کیا جو زندگی کے بعد قابل نفاذ ہوتا ہے۔ اس لیے کتاب الوصایا لائے۔ اس کے اختتام سے ان تمام معاملات کا باب بند کر دیا جو خالق اورخلق سے متعلق تھے۔ اس کے بعد ان معاملات میں سے جو بیک وقت خالق اور خلق سے متعلق ہیں، میں سے جہاد کا ذکر کرتے ہوئے کتاب الجہاد ذکر کی۔ یہ خالق سے اس طرح متعلق ہیں کہ جہاد اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے اور مخلوق سے اس انداز میں کہ یہ مخلوق خدا پر جبر اورظلم و زیادتی کرنے والوں اور ان کی آزادی سلب کرنے والوں کو مغلوب کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اسے جہاد کی فضیلت و اہمیت سے شروع کیا۔ پھر مجاہد کی تیاری، اس کی اہمیت، جہاد سے رُکے رہنا، رکنے کا شرعی عذر، جہاد پر لوگوں کو آمادہ کرنا اورجہاد سے پہلے کے بعض امور ذکر کرنے کے بعد جہاد کی تیاری میں خندقیں کھودنا اور شہادت کی غرض سے مجاہد کا خوشبو لگانا وغیرہ کے ابواب ذکر کیے۔ اس کے بعد آلاتِ حرب، قتال سے پہلے دعا، بچوں اور عورتوں کی شرکت۔ دشمن کی جاسوسی، جہاد میں استعمال ہونے والی سواری، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی اور دیگر جانوروں کا ذکر کیا۔ پھر جہاد میں پہرہ، زخمیوں کی مرہم پٹی، عورتوں کا مدد کو پہنچنا اورپانی کی مشکیں بھرنا، مورچہ بند ہونا، تیر، تلوار، نیزہ، ڈھال، کا استعمال اور ان کی کیفیات، تلواروں پر سونے چاندی کا استعمال، امیر کی اطاعت، امیر کا الوداع کرنا، امیر کا سختی نہ کرنا، اور لوگوں کو حسب طاقت کام دینا وغیرہ کا ذکر کیا۔ پھر جُعل اورمبادرات وغیرہ کے ابواب کے بعد غزوے میں سامان یعنی زادِ راہ سے متعلق ابواب قائم کیے۔پھر سفر کے آداب کا ذکر کیا۔ پھر جہاد سے حاصل ہونے والی غنیمت اور خمس وغیرہ کے ابواب قائم کیے اور کبھی جہاد میں لڑائی کیے بغیر مصالحت اور اس کے ساتھ جزیہ اور احوال ذمہ ذکر کیے، اس کے بعد موادعت، عہد اور عذر سے متعلق ابواب قائم کیے۔

معاملات کی تینوں اقسام یعنی معاملۃ العبد مع الخالق، معاملۃ العبد مع الخلق اورمعاملۃ العبد مع الخلق والخالق میں انسان باری تعالیٰ کی راہ نمائی کا محتاج ہے۔ اس لیے تینوں کو بدء الوحی کے تحت ذکر کیا اور بدء الوحی کے بعد بدء الخلق لائے جس سے یہ اشارہ دینا مقصود ہے کہ مخلوقات کی تخلیق سے پہلے ہی خالق کی راہ نمائی موجود ہے۔

بدء الخلق کا ذکر بدء الوحی کے تحت تینوں معاملات میں سے جہاد کے بعد اس لیے کیا کہ جہاد میں عموماً جانیں قربان ہوتی ہیں اور انسان کو فنا کا درس ملتا ہے۔ اس کے بعد کتاب بدء الخلق کا ذکر کیا جو مخلوقات کی پیدائش کے بارے ہے اور پیدائش سے پہلے فنا کا تذکرہ فنا کی حقیقت اجاگر کرنے کے پیش نظر کیا گیا ہے۔

کتاب بدء الخلق کے بعد کتاب احادیث الانبیاء لا کر یہ بتلایا کہ مخلوقات میں سے سب سے افضل اور اعلیٰ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی۔ ان کے تذکرے میں امام صاحب نے تخلیق آدم سے لے کر ما بعد کے بہت سے انبیاء ان کے احوال اور اہم واقعات ذکر کیے ہیں۔ 

اس کے بعد ان انبیاء میں سب سے افضل جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال ور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق وہ لوگ جن کا انبیاء کے بعد سب سے بلند درجہ ہے، کا ذکر کیا۔ ان میں خلفاء راشدین، عشرہ مبشرہ، اہل بیت اوربعض دیگر جلیل القدر صحابہ کے مناقب بیان کیے۔ یہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق شہر یعنی مکہ، مدینہ، آپؐ کی انگوٹھی، آپؐ کے معجزات، آپؐ کے نام، آپؐ کی سیرت کے اہم واقعات ،ہجرت وغیرہ کا ذکر کیا۔ چونکہ آپ کی زندگی ایک بڑا حصہ دشمنانِ دین سے برسرِپیکار ہونے کی حالت میں گزرا کہ کبھی جنگوں کی تیاری کر رہے ہیں، کبھی خود لڑ رہے ہیں، کبھی سریے بھیج رہے ہیں، کبھی جنگوں سے لوٹنے کا سماں ہے، اس لیے اس کے فوراً بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات پر مشتمل کتاب ’’کتاب المغازی‘‘ ذکر کی۔ یہاں چونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے متعلقات کا بیان جاری ہے اس لیے یہیں آپؐ کے سب سے بڑے معجزے یعنی قرآنِ مجید کا ذکر مناسب معلوم ہوتا تھا۔ اس لیے محض اس کے ذکر کے بجائے کتاب تفسیر القرآن لاتے ہوئے قرآن کی تفسیر کا ذکر کیا، تاکہ اس بات کی دلیل قائم کی جائے کہ قرآنِ مجید نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ ہے اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس کے اولین مفسر ہیں، قرآنِ مجید کے بیان کے بعد فضائل قرآنِ مجید کا ذکر کیا۔

مخلوقات کی ابتداء اور ان میں سے افضل ترین مخلوق، انسان ان میں سے اشرف ترین انبیاء، ان میں سب پر فائق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے متعلقات کا ذکر کرنے کے بعد مخلوقات کی افزائش اور ان میں سب پر فائز حضرت انسان کی افزاء نسل کا تذکرہ ضروری تھا۔ اس لیے امام صاحب بدء الخلق اور اس کے متعلقات کے ذکر کے بعد کتاب النکاح لائے۔ کتاب النکاح میں اس کے ذیلی مباحث ذکر کرتے ہوئے امام صاحب نے نکاح کی شرائط، لوازمات، محارم نکاح، مصاہرت، نکاح حرام اورمکروہ، عورتوں سے مباشرت اور عدم مفاہمت کی شکل میں طلاق، کفار کے نکاح، ایلاء، ظہار،لعان،متعہ اورنکاح کے دیگر متعلقات کا ذکر کرنے کے بعد عورتوں کے حقوق اور ان میں خاص کرتے ہوئے نفقات کا ذکر کیا اور نفقہ عموماً کھانے پلانے پر مشتمل ہوتا ہے اس لیے نفقات کے فوراً بعد کتاب الاطعمۃ کا ذکر کیا اوریہ چونکہ کتاب النکاح کے ما بعد اور اس کے تحت ذکر کیا ہے اس لیے نکاح کے نتیجے میں ہونے والی اولاد، بہتر تربیت اور اس کے عقیقے کا ذکر کیا۔ مزید برآں کتاب الاطعمہ کے بعد اس لیے لائے کہ عقیقہ بھی کھانے سے متعلق ہوتا ہے اور عقیقہ میں چونکہ جانور قربان کرنا ہوتا ہے اس لیے ان کے بعد جانوروں کو ذبح کرنے اور ان کو شکار کرنے کے احکام کے لیے کتاب الذبائح والصید لائے اور ساتھ ہی کتاب الاضاحی کا تذکرہ کر دیا۔

کتاب النکاح کے تذکرے میں کتاب النفقات اور اس کے تحت کتاب الأطعمہ و متعلقاتہ کے بعد کتاب الاشربہ کا ذکر کیا۔ کتاب الاطعمہ اور کتاب الاشربہ میں کھانے پینے کا ذکر کیا جو انسانی جسم کو تندرست و توانا اور زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔ اس سے جہاں انسانی جسم میں خوشگوار تبدیلیاں آتی ہیں وہاں انھی کی وجہ سے انسان بعض اوقات بیمار بھی پڑ جاتا ہے اس لیے اس کے بعد کتاب المرض لائے اور ساتھ ہی کتاب الطب ذکر کر دی۔

نفقات میں کھانے، پینے اور ان کے متعلقات کے بعد لباس کا تذکرہ کیا گیا ہے یہ تمام کتب چونکہ معاشرے اور آدابِ نفس سے متعلق تھیں۔ اس لیے اس کے بعد اس سے متعلق ایک اور باب کا تذکرہ کرتے ہوئے کتاب الادب ذکر کیا۔ جس میں صلہ رحمی، خیر خواہی اور دیگر آداب کے بیان کے بعد کتاب الاستئذان لائے۔ الاستئذان کا مطلب ہے کسی جگہ داخلے کی اجازت طلب کرنا۔

حافظ ابن حجرؒ لکھتے ہیں:

’’الاستئذان طلب الاذن فی الدخول لمحل لا يملكه المستاذن‘‘۸

استئذان کسی شخص کا ایسی جگہ داخلے کی اجازت مانگنا ہے جس کا وہ مالک نہیں۔

یہاں تو کسی شخص سے مانگنے کا ذکر ہے، امام صاحب نے اس کے فوراً بعد کتاب الدعوات کا ذکر کیا ہے اوریہ اشارہ دیا ہے کہ حقیقی ملکیت اللہ ہی کی ہے اور حقیقی مانگنا بھی اسی سے مانگنا ہے۔ دوسرا یہ کہ استئذان کے آداب میں سب سے پہلے سلام کہنا ہے اور سلام مخاطب کو سلامتی کی دعا ہے، اس کے فوراً بعد الدعوات کا تذکرہ کر کے دیگر دعائیں بیان کر دیں اور دعا بندے کا اظہار عجز ہے ، جو انسان کو تکبر اور بڑائی سے روکتی ہے اور یہ انسانی دل کی نرمی کا باعث ہے اسی مناسبت سے امام بخاریؒ اس کے بعد کتاب الرقاق لائے ہیں۔ امام صاحب نے کتاب الرقاق میں دنیا کی حقیقت، اس کے فتنے، قیامت کے احوال، حشر، صور کا پھونکا جانا، پل صراط، جنت میں حساب اور بغیر حساب کے داخلے کا ذکر کیا ہے۔ اس کے فوراً بعد کتاب القدر لائے اوریہ اشارہ دیا کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے مقدر کر رکھا ہے اوریہ تمام امور اللہ کے علم میں ہیں۔ اس کے بعد کتاب الایمان والنذور لا کر یہ بیان فرمایا کہ انسان بعض اوقات کسی معاملے کی نذر مانتا ہے اور گمان کرتا ہے کہ یہ نذر اس کی تقدیر میں لکھے گئے کسی معاملے میں موثر ہو گی یا پھر کسی معاملے کی قسم اٹھاتا ہے، لیکن ہوتا وہی ہے جو تقدیر میں لکھا ہوتا ہے اوریہ نذر یا قسمیں کبھی تو انسان پوری کر لیتا ہے، کبھی توڑ ڈالتا ہے اس لیے اس کے بعد کتاب کفارات الایمان لا کر نذر یا قسم توڑنے کے کفاروں کو ذکر کیا۔ اس کے بعد کتاب الفرائض لائے اوریہ اشارہ دیا کہ تقدیر میں اللہ کے نزدیک جہاں موت کا وقت مقرر ہے وہاں مرنے والے کے مال میں ورثاء کے حصے بھی مقرر ہیں۔ یہاں مال میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے شدہ امور کا ذکر کیا گیا ہے اس کے بعد کتاب الحدود لا کر اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ ان امور کو بیان کیا جو کسی پر ظلم وزیادتی کی وجہ سے عائد کیے جاتے ہیں۔ میراث میں جہاں حصوں کی کمی بیشی ناجائز ہے وہاں حدود میں باری تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ سزاؤں میں بھی کمی زیادتی خلافِ شرع ہے۔ حدود میں یا تو قصاص ہوتا ہے کہ قتل کے بدلے قتل یا قطع عضو کے بدلے عضو کو کاٹنا یا پھر مخالف شخص کی رضا مندی سے دیت ادا کی جاتی ہے۔ اس لیے کتاب الحدود کے بعد کتاب الدیات ذکر کی ہے۔ ا سکے ساتھ ہی اس سے متعلق کافروں اورمرتدوں کی سزا سے متعلق کتاب کتاب استتابۃ المرتدین والمعاندین وقتالھم ذکر کی اور چونکہ نو مسلم کو اس کے ہم مذہب جبراً، کرھا، ہر طریقے سے واپس اپنے مذہب میں لانے کی کوشش کرتے ہیں اس لیے ارتداد کا باعث کبھی جبر یا اکراہ بھی بنتا ہے اس لیے اس کے بعد کتاب الاکراہ ذکر کی۔ کتاب الاکراہ میں مکرہ یعنی مجبور شخص کا تذکرہ کیا اورمجبور شخص بسا اوقات جبر سے نجات کے لیے حیلے استعمال کرتا ہے جو بظاہر خلافِ حقیقت دکھائی نہیں دیتے۔ اس کے جواز و عدم جواز اور دائرہ کار کی تعیین پر مشتمل کتاب الحیل ذکر کی اور معلوم ہے کہ حیلوں میں بات کا مخفی پہلو ملحوظ رکھا جاتا ہے اس کے بعد کتاب التعبیر لائے کیونکہ حیلے میں ظاہر سے خفا کی طرف جایا جاتا ہے اور خواب کی تعبیر میں خفا سے ظاہر کی طرف آنے کی کوشش کی جاتی ہے اور خواب بسا اوقات آزمائش یا فتنہ ثابت ہوتے ہیں یا تو صاحب خواب کے لیے یا دوسروں کے لیے جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کرنے سے متعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب اوریہ آیت کہ(وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤيَا الَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ)۹

اس لیے کتاب التعبیر کے بعد آزمائشوں اور فتنوں پر مشتمل کتاب، کتاب الفتن لائے اور غالب طور پر فتنوں کا باعث حکام بنتے ہیں اور فتنوں کی سرکوبی بھی صحیح طور پرحکام ہی کر سکتے ہیں اس لیے امام بخاریؒ کتاب الفتن کے بعد کتاب الاحکام لائے۔ وہ لوگ جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہوتی ہے وہ لوگوں کی بہت سی خواہشات اور آرزوؤں کا مرکز و محور ہوتے ہیں کہ وہ ان کے احوال کو بدلیں اورملک وملت کو ترقی کی راہوں پر گامزن کریں، اس لیے کتاب الاحکام کے بعد کتاب التمنی کا ذکر کیا۔ حکام کے احکامات عموماً مختلف واسطوں سے عوام تک پہنچتے ہیں اور عوام ان واسطوں پر اعتماد کرتے اور پہنچائے گئے حکم پر عمل کرتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ وہ حکم کسی ایک شخص نے آگے پہنچایا ہو یا زیادہ نے۔ امام بخاریؒ نے یہاں احکم الحاکمین اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام پر عمل کرنے میں بعض لوگوں کے تذبذب کے جواب میں کتاب الاحکام کے بعد کتاب اخبار الآحاد ذکر کی ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کی بنیاد کتاب و سنت ہی ہیں۔ ان کے علاوہ کسی اورجگہ سے حکم باری تعالیٰ نہیں مل سکتا۔ بالواسطہ یا بلاواسطہ تمام امور کے ماخذ قرآن اور سنت ہی ہیں اور وحی انھی دو کا مجموعہ ہے۔ کتاب بدء الوحی سے کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ تک زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق امور ذکر کر کے اوریہ بتایاکہ یہ تمام امور وحی الٰہی پر مشتمل ہیں اور وحی الٰہی صرف کتاب و سنت ہی ہے اور اول و آخر اسی پر قائم رہنا حق پرستی ہے۔ یہ سارے امور یعنی وحی، ابتدائے خلق و افزائش خلق اور اعجاز قرآن و سنت، باری تعالیٰ کی وحدانیت کی بین دلیل ہیں اور توحید ہی بنیاد ہے اول و آخر کی اور انسان کی نجات اسی میں ہے کہ اس کا اختتام توحید پر ہو اس بات کے پیش نظر آخر میں کتاب التوحید ذکر کی۔

==الجامع الصحیح کی ابتداء اور اس کی پہلی حدیث کا ترجمۃ الباب سے ربط و مناسبت :

امیر المؤمنین فی الحدیث، محمد بن اسماعیل بن ابراہیم الجعفی البخاری نے اپنی کتاب ’’الجامع الصحیح‘‘ کی ابتداء اس طرح فرمائی :

بسم اللہ الرحمن الرحیم

کیف کان بدء الوحی إلی رسول الله صلی الله عليه وسلم وقول الله جل ذکرہ (إنا أوحينا إلیک کما أوحينا إلی نوح والنبيين من بعده)۱۰

۱۔ حدثنا الحمیدی: عبداللہ بن الزبیر قال: حدثنا سفیان، عن یحییٰ بن سعید الأنصاری قال: أخبرنی محمد بن ابراہیم التیمی انہ سمع علقمۃ بن وقاص اللیثی یقول: سمعت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ علی المنبر قال: سمعت رسول اللہ یقول: ’’إنما الأعمال بالنيات، وإنما لکل إمری ما نوی، فمن کانت هجرته إلی دنيا يصيبها او إلی إمراۃ ينکحها، فهجرته الی ما هاجر إليه۔‘‘۱۱

بسم اللہ الرحمن الرحیم، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف وحی کی ابتداء کیسے ہوئی؟

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ ’’یقیناًہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی جس طرح نوح علیہ السلام اور ان کے بعد آنے والے نبیوں کی طرف وحی بھیجی۔‘‘

۱. ہم سے بیان کیا عبداللہ بن زبیر حمیدیؒ نے، کہا ہم سے بیان کیا سفیان نے، وہ یحییٰ بن سعید انصاری سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے خبر دی محمد بن ابراہیم تیمی نے، بے شک انھوں نے سنا علقمہ بن وقاص لیثی سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر فرماتے ہوئے سنا، انھوں نے فرمایا، سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ نے فرمایا:’’بے شک ہر ایک عمل کا دار و مدار نیت پر ہے۔ ہر شخص کو وہی ملے گا جو اس کی نیت ہے۔ پس جس نے دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے نکاح کرنے کی غرض سے ہجرت کی تو اس کی ہجرت اسی کام کے لیے ہو گی۔‘‘

مجدد عصرِ فقیہ امت امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب کی ابتداء صرف بسملہ سے کی ہے بسملہ کے بعد حمدو صلاۃ ذکر کرنے کے بجائے ترجمۃ الباب ’’کیف کان بدء الوحی‘‘ لکھا ہے اور ترجمہ کے استفہام کے جواب میں قرآنِ مجید کی یہ آیت (إنا أوحینا إلیک)الآیۃ کا ذکر فرماتے ہوئے حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘کو جگہ دی ہے۔ یہ ہے اس کتاب کی متفق علیہ ترتیب۔ اب اس ترتیب کی وجہ کیا ہے اس میں کیا کیا خوبیاں ہیں اس کی تلاش کرنے کے لیے کتب شروحات کی طرف رجوع فرماتے ہیں۔

شارحین صحیح بخاری نے بہت طویل بحثیں کی ہیں کہ امام بخاریؒ نے بسملہ کے بعد حمد و صلاۃ کیوں نہیں لکھی؟ اکثر نے قیاس آرائی اور ظن و تخمین کا سہارا لینے کی کوشش فرمائی ہے۔ (وإن الظن لا یغنی من الحق شیئا)۱۲؂ بعضوں نے تو امام بخاریؒ کے دفاع میں یہاں تک لکھ دیا کہ امام بخاریؒ نے تو حمد و صلاۃ کے کلمات ضرور لکھے تھے لیکن اس کے راویوں سے ذہول ہوا اور رہ گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ امام بخاریؒ سے جب اتنے بڑے جم غفیر یعنی نوے ہزار آدمیوں نے ان کی اس کتاب کو روایت کیا ہے ان سب سے کیسے ذہول ہوا اور کس طرح چھوٹ گیا؟ پھر تواتر کی شرط تو باطل ہوئی۔ اس وقت ہمارے یہاں فربری کی روایت متداول ہے جنھوں نے امام بخاریؒ سے دو مرتبہ اس الجامع الصحیح کو سنا ہے پھر ان سے ایک جم غفیر نے روایت کیا ہے تو کیا ہر ایک نے تساہل سے کام لیا ہے؟دراصل کتاب و سنت کا پیر و ظن و تخمین سے کام نہیں لیتا اور شک و شبہ میں مبتلا نہیں ہوتا، جو بات کرتا ہے یقین سے کرتا ہے۔ صحیح اوریقینی بات یہی ہے کہ امام بخاریؒ نے حمد و صلاۃ لکھی ہی نہیں، ہم اتنی بڑی تعداد کو جنھوں نے اس کی روایت فرمائی ہے، موردِ الزام نہیں ٹھہرا سکتے، بلکہ ان سارے رواۃ کو ثقہ و امانت دار سمجھتے ہیں۔ 

اگلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ نے حمد و صلاۃ کیوں نہیں لکھی ،سنت کی مخالفت کیوں کی؟ جب کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ’’کل امر ذی بال لا يبدا فيه بحمد الله فهو أقطع‘‘۱۳

اور ایک روایت یوں آتی ہے:

’’کل خطبة ليس فيها شهادة فهى کاليد الجذماء‘‘۱۴

یعنی ہر وہ کام یا خطبہ جو اللہ کی حمد اور شہادت کے بغیر شروع کیا جائے مقطوع الید کی طرح ہے۔

امام بخاریؒ نے یہاں بھی ایک غلط اصول کو رد کرنے کا ارادہ فرمایا اور صحیح اصول کی رہنمائی کی۔ وہ غلط اصول یہ ہے کہ قول و فعل میں بظاہر تضاد ہو تو قول کو لیا جائے اور فعل کو چھوڑ دیا جائے۔ امام بخاریؒ نے عوام و خواص کے اس رجحان کو غلط قرار دیتے ہوئے صحیح اصول یہ بتایا کہ اگر وہ فعل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ احکام سے متعلق ہے تو ان دونوں میں توفیق دینا ضروری ہے اور یہاں توفیق کی صورت موجو دہے۔ ہمارے سامنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ رسائل و خطوط موجود ہیں جنھیں آپؐ نے املا کروایا۔ اسی طرح خلفائے راشدین اورصحابہ کرامؓ اس کے بعد تابعین اور اتباع تابعین کے مکتوبات بھی موجود ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اکابر محدثین کی تصنیفات بھی۔ تتبع اور استقراء کے بعد ان مکتوبات اور تصنیفات میں سے اکثر کو تو ہم حمد و صلاۃ کے ذکر سے خالی پاتے ہیں۔ البتہ بعض مکتوبات اور قلیل تصنیفات کو ہم حمد و صلاۃ کے ساتھ پاتے ہیں۔

اب تطبیق کی صحیح صورت یہ ہوئی کہ دونوں طریقے صرف بسملہ سے شروع کیا جائے۔ یا بسملہ کے بعد حمد و صلاۃ بھی لکھی جائے۔ البتہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خلفائے راشدین اورصحابہ کرامؓ، تابعین عظام اور محدثین کرامؒ نے تحریر و کتابت کے وقت اکثر و بیشتر بسملہ ہی لکھا اور لکھوایا ہے۔ لہٰذا اکثر سنت یہی ہے اور تتبع و استقراء کے بعد یہ معلوم ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور جمیع صحابہ و تابعین و اتباع تابعین کا دائمی عمل خطبہ و تقریر کے وقت یہ رہا ہے کہ حمد و شہادہ سے شروع کیا ہے گویا ان دونوں روایتوں یعنی ’’کل امر ذی بال ‘‘اور ’’کل خطبۃ لیس فیھا شہادۃ‘‘کو بشرطِ صحت خطبہ و تقریر سے مختص سمجھا جائے۔

امام مالکؒ کی کتاب مؤطا اور عبدالرزاق کی مصنف اور ابن ابی شیبہؒ کی کتاب المصنف و نیز احمد بن حنبل کی کتاب المسند کو دیکھیں تو یہی اُسلوب نظر آتا ہے ان سب نے صرف بسملہ ہی سے ابتدا کی ہے۔ اب تو ظن و تخمین اور قیاس آرائی کی ضرورت باقی نہیں۔ یقین کے ساتھ معلوم ہو گیا کہ امام بخاریؒ نے صرف بسملہ سے اپنی کتاب کی ابتدا فرمائی ہے۔

اب دوسری بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ امام بخاریؒ نے حدیث ’’إنما الأعمال بالنیات‘‘کو زیر عنوان ’’کیف کان بدء الوحی‘‘کیوں ذکر فرمایا، ترجمۃ الباب سے اس کا کیا تعلق ہے؟ جب ہم شارحین بخاری کو دیکھتے ہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ وہ اس نکتہ کو سمجھ نہ سکے اور امام بخاریؒ کی غلط ترجمانی کرنا شروع کر دی، کسی نے اعتراض کر دیا تو کسی نے دفاع کی صورت اختیار کی اور ان طویل بحثوں کے بعد بھی اصل بات یعنی اس کا تعلق ترجمۃ الباب سے ثابت نہ کر سکے، کیونکہ اکثر و بیشتر نے ظن و تخمین کا سہارا لیتے ہوئے قیاس آرائی سے کام لیا۔(وإن الظن لا یغنی من الحق شیئا) کا فیصلہ سامنے آیا۔ان شراح کرام میں بعض ایسے بھی گزرے ہیں جنھوں نے بطورِ دفاع یہ لکھ دیا کہ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو ترجمۃ الباب سے قبل تیمنا یا بطور خطبہ لکھا ہے۔

یہ بات بھی انکار تواتر پر مبنی ہے متواتر روایتوں سے یہ ثابت ہے کہ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو ترجمۃ الباب کے تحت داخل کیا ہے۔ لہٰذا اس کی صحیح وجہ اور تعلق کا پتا چلانا ضروری ہے۔

اب ذرا ترجمۃ الباب کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ نے عنوان یا ترجمہ اس طرح لکھا ہے’’کیف کان بدء الوحی إلی رسول اللہ‘‘ یعنی عنوان استفہامی ہے۔ لہٰذا اس استفہام کا جواب ضروری ہوا، امام بخاریؒ نے اس استفہام کے جواب کی طرف آپ کی رہنمائی کر دی۔ وقول اللہ جل ذکر’’إنا أوحینا إلیک کما أوحینا إلی نوح والنبیین من بعدہ‘‘۱۵

ترجمۃ الباب میں لفظ ’’بدء‘‘ استعمال کیا ہے۔’’کیف کان نزول‘‘ نہیں ہے۔ ’’کیف کان اوحی إلی‘‘نہیں کہا ’’کیف کان نزل الوحی‘‘نہیں کہا، پھر لفظ ’’وحی‘‘ استعمال کیا، قرآن، یا کتاب، یا ذکر وغیرہ کے الفاظ استعمال نہیں کیے جو کتاب اللہ کے مختص ہیں۔ گویا ’’وحی‘‘ کا لفظ اس لیے استعمال کیا کہ وہ اپنے مدلول میں ساری اقسام وحی کو شامل کر لے اور وحی کی تمام اقسام کو دو موٹی قسموں سے جانتے ہیں، وحی متلو قرآنِ کریم اور وحی غیر متلو حدیث شریف، وحی متلو قرآنِ کریم کے احترام کو ملحوظ رکھتے ہوئے زیر ترجمہ اس کی ایک آیت ذکر کر دی اور وحی غیر متلو حدیث کو اس کے بعد بالاسناد ذکر فرماتے ہوئے قرآنِ کریم کی اس صریح آیت ’’وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى‘‘۱۶کى تفسىر واضح کر دی۔ یعنی حدیث بھی وحی ہے۔

اب بدء الوحی کے بعد آنے والی تیسری حدیث دیکھتے ہیں حضرت عائشہ فرماتی کہ ’’اول ما بدئ بہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من الوحی الرؤیا الصالحۃ فی النوم‘‘۱۷؂ اس سے بھی ثابت ہوا کہ حدیث وحی کی ایک قسم ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری میں ایک مرسل روایت ابو نعیم کی کتاب دلائل النبوۃ سے ذکر فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’أول ما يؤتی به الأنبياء فی المنام حتی تهدأ قلوبهم ثم ينزل الوحی بعد فی اليقضة‘‘۱۸

ان تمام دلائل و براہین سے واضح ہو گیا کہ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم وحی کی ایک قسم ہے۔ اس اہم نکتہ کو سمجھانے کے لیے امام بخاریؒ نے ترجمہ میں سب سے اول حدیث کو ذکر فرمایا ہے۔ گویا حدیث کا تعلق ترجمہ سے مربوط ہے۔

یہاں ایک سوال اورپید اہوتا ہے کہ مانا کہ حدیث وحی کی ایک قسم ہے لیکن وحی متلو قرآنِ کریم پر اس کو مقدم کیوں کیا؟

اس کا جواب یہ ہے کہ امام بخاری علیہ الرحمہ کے پیش نظر سنت نبوی ہے وہ سنت کی ترویج کرنا چاہتے ہیں اس کا انھوں نے بیڑا اٹھایاہے۔ لہٰذا خود ان کا اپنا عمل سنت کے مطابق ضروری ہے۔ امام بخاریؒ نے سنت نبویہ کا حتی الامکان احاطہ کر لیا تھا کیونکہ آپ مجدد عصر ہیں۔ آپ نے ذخیرہ سنت سے اس کا پتا چلا کہ آپ نے جب بوقبیس پر چڑھ کر ساری قوم کو جمع کیا اور ان سے پوچھا کہ تم مجھ کو سچا سمجھتے ہو یا جھوٹا؟ جب قوم نے آپ کی سچائی کا اعتراف کیا تو پھر آپ نے وحی متلو قرآن کریم کو ان کے سامنے رکھا۔ اس سے ثابت ہوا کہ حدیث رسول یعنی وحی غیر متلو کو پہلے پیش کرنا، اور قوم سے اس کو منوانا اقرار کرانا پھر وحی قرآن کو قوم کے سامنے پیش کرنا سنت نبویہؐ ہے۔ لہٰذا امام بخاریؒ نے حدیث رسول کو مقدم فرمایا۔ نیز اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ حدیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم چاہے قبل نزول قرآن ہو یا بعد، ساری کی ساری وحی کی دوسری قسم میں شامل ہے۔ 

ایک سوال اورپیدا ہوتا ہے کہ امام صاحبؒ اس حدیث کو اپنی اس عظیم کتاب کے اندر مختلف سات شیوخ سے لائے ہیں جبکہ دوسری جگہ کی روایتیں طویل ہیں اوریہ روایت مختصر ہے پھر اس مختصر روایت ہی کو مقدم کیوں فرمایا؟

اس کی کئی وجوہ ہیں:

۱۔ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو اپنے شیخ حمیدیؒ سے اسی طرح مختصر ہی سنا ہے گویا اس مختصر روایت کو لا کر واضح کر دیا کہ وحی ایک امانت ہے اور اس کو قوم کے سامنے پیش کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ اسے جس طرح سنا جائے اسی طرح پیش کر دیا جائے۔اپنی عقل کو اس میں داخل نہ کیا جائے۔

۲۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ امام بخاریؒ نے اس حدیث کو جن سات شیوخ سے سنا ہے ان میں صرف حمیدی ہی وہ شخص ہیں جن کا تعلق مکہ مکرمہ سے ہے اور وحی کی دونوں قسموں کا ابتدائی تعلق مکہ مکرمہ سے ہے۔لہٰذا حمیدی کی روایت کو مقدم فرمایا۔

۳۔ تیسری وجہ یہ کہ حمیدی قریشی ہیں ان کا سلسلۂ نسب قصی پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مل جاتا ہے۔ یعنی صاحب وحی قریشی اور راوی وحی قریشی۔ لہٰذا اس روایت کو مقدم کر کے واضح کر دیا کہ میری اس کتاب کے اندر درج شدہ ساری روایتیں متصل ہیں۔

۴۔ اس لیے بھی مقدم فرمایا کہ آپ کا فرمان ہے ’’قدموا قریشا‘‘اور معلوم ہو چکا ہے کہ راوی حدیث حمیدی قرشی ہیں۔

۵۔ حمیدی کی اس روایت کو اس لیے بھی مقدم کیا کہ اس کی اسناد میں مکی اورمدنی دو قسم کے رواۃ شامل ہیں۔لہٰذا واضح ہو جائے کہ وحی کی دونوں قسمیں یعنی مکی اور مدنی میری اس کتاب میں موجود ہیں۔

۶۔ حمیدیؒ کی اس مختصر روایت کو اس لیے بھی مقدم فرمایا کہ آپ نے اپنی اس کتاب کا نام ’’الجامع الصحیح المسند المختصر فی أمور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وأیامہ‘‘رکھا ہے۔ لہٰذا اس طرح بھی اشرہ ہو جائے کہ جس طرح یہ مختصر روایت باعتبار یعنی کامل و طویل راوی کی ترجمانی کرنے کے لیے کافی ہے اسی طرح میری یہ کتاب باوجودمختصر ہونے کے سنتِ نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جمیع اقسام پر دلالت و ترجمانی کرے گی۔

حمیدی کی روایت کو مقدم کرنے کی وجہ

ایک سوال اورپیدا ہوتا ہے کہ امام بخاریؒ نے حمیدیؒ کی اس حدیث کو مقدم کیوں کیا ان کی کسی اور حدیث کو تلاش کرتے اور اسے ہی یہاں بیان کرتے؟

۱۔ اس کا جواب یہ ہے کہ حمیدی کی یہ روایت خبر احاد سے ہے۔ اس کو سرفہرست داخل کر کے عوام و خواص پر واضح کر دیا کہ احکام اسلامی کو نافذ کرنے جب جاؤ گے تو تمھیں اکثر و بیشتر خبر احاد سے سابقہ پڑے گا۔ گویا اکثر و بیشتر احکام خبر احاد پر مشتمل ملیں گے لہٰذا خبر متواتر کی تلاش میں نہ پڑنا اگر تم ایسا کرو گے تو عبادات تعزیرات وغیرہ سارے احکام معطل ہو جائیں گے، نہ تو تم عبادات نماز، روزہ،حج و زکوٰۃ کو صحیح طریقہ سے ادا کر سکو گے اورنہ تعزیرات کو نافذ کر سکو گے جیساکہ چور کا ہاتھ کاٹنا،زانی کو سنگسار کرنا، قاتل کو قصاص میں قتل کرنا وغیرہ۔ وحی جلی کا قرآنِ کریم بھی اللہ کے پاس سے لانے والا فرشتہ جبریل اکیلا ہے، جن پر وحی کا نزول ہوا وہ بھی اکیلا، معلوم یہ ہوا کہ حامل وحی یعنی اس وحی کے راویوں کی تعداد کے بجائے امانت دار ہونا ضروری ہے۔ لہٰذا جب کسی روایت کی سند ثابت ہو جائے وہ روایت قابل قبول اور لائق عمل ہے۔

۲۔ اس لیے بھی اس حدیث کو مقدم فرمایا کہ اس کتاب کو پڑھنے والے اچھی طرح سے جان لیں کہ اس کتاب کو عمل کی نیت سے پڑھنا ضروری ہے محض اپنے آبائی و قومی طریقہ جس پر وہ ہیں اس کی دلیل تلاش کرنے کے لیے نہ پڑھیں بلکہ وحی کی دونوں قسموں کو ماننے اور اس پر عمل کرنے کے لیے پڑھیں۔

۳۔ اس لیے بھی اسے مقدم فرمایا کہ اس حدیث میں ہجرت کا لفظ وارد ہے اورہجرت کے بارے میں فرمان رسالت ہے ’’المہاجر من ھجر ما نھی اللہ و رسولہ‘‘لہٰذا اس کا پڑھنے والا یہ نیت کر لے کہ جس امر کی ممانعت اللہ اور اس کے رسول سے ثابت ہو جائے اس سے رک جاؤں گا تب ہی وہ کامیابی و فلاح کو پا سکتا ہے۔ کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت سے قبل جب اپنی قوم سے عارضی ہجرت فرمائی اورغار حرا میں جا کر اللہ کی خالص عبادت کی تو اس کا نتیجہ نبوت کی شکل میں برآمد ہوا نبوت کا سلسلہ تو ختم ہو چکا لیکن سنت نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم باقی ہے اس کی پابندی نصیب ہو گی۔

۴۔ اس لیے بھی اسے مقدم فرمایا کہ مختصر طور پر یہ جان لو کہ وحی الٰہی قرآنِ کریم کا سمجھنا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلمپر موقوف ہے۔ قرآنِ کریم میں نماز و زکوٰۃ، چورکے ہاتھ کاٹنے، زانی کے سنگسار کرنے وغیرہ کا جو حکم وارد ہے ان کا صحیح طریقہ حدیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلمہی کے ذریعہ معلوم ہو گا۔

الجامع الصحیح کی آخری حدیث

ترجمۃ الباب سے ربط و مناسبت

قال الإمام البخاری رحمہ اللہ الباری: 

باب قول الله تعالیٰ (ونضع الموازين القسط ليوم القيمة)۱۹ أعمال بنی آدم وقولهم يوزن وقال مجاهد: القسطاس: العدل بالرومية، يقال: القسط مصدر المقسط وهو العادل۔ وأما القاسط فهو الجائر۔ حدثنا أحمد بن اشکاب حدثنا محمد بن فضيل عن عمارۃ بن القعقاع عن أبی زرعة عن أبي هريرۃ قال: قال النبی صلی الله عليه وسلم ’’کلمتان حبيبتانِ إلی الرحمن خفيفتانِ علی اللسان ثقيلتان فی الميزان، سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظيم۔۲۰

’’اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:’’قیامت کے دن ہم ٹھیک ترازو رکھیں گے جس میں اعمال تولے جائیں گے‘‘ مجاہدؒ نے فرمایا قسطاس رومی لفظ ہے اس کا معنی ڈنڈی ہے۔ قسط یقسط کا مصدر ہے اورمقسط کے معنی عادل اورمنصف کے ہیں اور قاسط کے معنی ظالم کے ہیں۔

احمد بن اشکاب نے بیان کیا کہ وہ محمد بن فضیل سے وہ عمارہ بن قعقاع سے وہ ابو زرعہ سے اور وہ ابوہریرہؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’دو کلمے ایسے ہیں جو رحمان کو بہت پیارے اور زبان پر بہت سہل ہیں اور میزان میں بہت ہی وزنی ہیں۔وہ دونوں ’’سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم‘‘ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ الجامع الصحیح ایک عجیب و غریب کتاب ہے جس کی مثال کسی انسانی تصنیف میں ممکن نہیں۔اس کتاب کی خوبیوں پر جتنا کچھ لکھا جا چکا ہے اس سے کہیں زیادہ لکھنے کی ضرورت باقی ہے۔ خود امام علیہ الرحمہ کے شاگردوں نے اس کتاب کی خوبیوں کو اپنی اپنی تصانیف میں اُجاگر کرنے کی کوشش کی جیسے امام ترمذی، ابن خزیمہ وغیرہ نے اور بعض نے خود امام ہمام رحمہ اللہ سے علمی روشنی حاصل کر کے مزید خوبیوں سے اپنی کتابوں کو آراستہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ مثلاً امام بخاریؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاریؒ کی کتب کو کسی ایسی حدیث یا عنوان یا باب پر ختم کیا ہے جس سے اختتام کتاب کا پتا چلتا ہے تو امام ترمذی علیہ الرحمہ نے اختتام کتاب کا ایسی حدیث یا عنوان پر کیا جس سے آنے والی کتاب کا پتا چلتا ہے۔ مثلاً امام بخاریؒ نے بدء الوحی کا اختتام اس حدیث پر کیا جس کا یہ آخری جملہ ’’فکان آخر شان ھرقل‘‘ہے اوریہ بدء الوحی کی آخری حدیث ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری کے آخر میں تقریباً اس کا استقصاء کر دیا ہے طلبہ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ امام ترمذیؒ نے ’’کتاب الطہارۃ‘‘ اس حدیث پر ختم کیا ہے جس کا ابتدائی جملہ ’’دخل اعرابی المسجد والنبی صلی اللہ علیہ وسلم جالس فصلی‘‘ہے گویا یہ اشارہ ہے کہ اس کے بعد کتاب الصلوٰۃ ہے۔ امام ترمذیؒ کی اس خوبی کو غالباً کسی نے یکجا جمع نہیں کیا۔

امام بخاری علیہ الرحمہ نے اپنی صحیح بخاری کو اس غرض سے مرتب فرمایا کہ اس کتاب کو پڑھنے والے جملہ علوم ضروریہ کے مبادیات سے واقف ہو جائیں۔ مثلاً علم الٰہیات جیسے ایمان و توحید، زہد و تقویٰ، عبادات، نماز، روزے، سفر و سیاحت مثلاً حج و طلب علم، معاشیات و معاملات مثلاً زکوٰۃ و زراعت، بیع و شرائع، علم تاریخ وسیر، جرح و تعدیل وغیرہ۔ علم طب و امراض، اصولِ حکمرانی و قضا، ملکی و بین الاقوامی معاملات وغیرہ اور پھر ان سب کے ثمرات و نتائج، جنت و جہنم، حساب و کتاب اور اس نتیجے کا فیصلہ، میزان کے بعد ہونا چاہیے لہٰذا امام بخاریؒ نے اپنی اس کتاب کو اس غرض سے مرتب فرمایا کہ اس کا قاری علی وجہ البصیرۃ ان تمام علوم ضروریہ کے لیے میزان بنا لے جس کا وہ طالب ہو۔ مثلاً بدء الوحی سے لے کر کتاب التوحید تک کے جو عناوین ذیلیہ ہیں۔ ان سے متعلق اگر کوئی حدیث یا اثر سامنے آئے تو اس کو اس الجامع الصحیح کے معیار پر تول لیا جائے اگر وہ اس معیار پر اترے تو قابلِ قبول و عمل ورنہ نہیں۔ نیز ان ذیلی عناوین کے علاوہ بھی جو ضروری باتیں ہوں جن کی ضرورت اس فانی دنیا میں ہو یا اس کا تعلق آخرت سے ہو تو اس باب میں بھی معیار وہی ہو گا جو اس الجامع الصحیح کا معیار ہے۔ کیونکہ عمل کے لیے صحت کا التزام ضروری ہے۔ 

گویا ان جمیع علومِ دینیہ و اسلامیہ کے لیے ان کی یہ کتاب میزان ہے۔ تاریخ و سیر کے باب ہوں یا عبادات و معاملات و معاشیات ان سب سے متعلق معیار و میزان کی ضرورت ہے اور اس کے لیے میزان و معیار یہ کتاب الجامع الصحیح ہے۔ اگر طلبہ و علماء اس نکتہ سے واقف ہو جائیں فقہاء و ائمہ سے روشنی حاصل کرنا چاہیں۔ مختلف فیہ مسائل میں اعتدال کی راہ اختیار کرنا چاہیں۔ اختلاف باہمی کا فیصلہ چاہیں۔ امت کی شیرازہ بندی کی خواہش و طلب ہو تو اس معیار و میزان کو اپنا لیں۔ کیونکہ یہ کتاب و سنت کا صحیح معیار و میزان ہے۔ امتِ اسلامیہ کے فلاح و بہبود کا یہ میزان و معیار ہے۔

بنی آدم اس معیار و میزان کو اپنا لے اور فلاح و بہبود کو پا لے اورکامیابی سے ہم کنار ہو جائے۔ اب ذرا حدیث کے جملے پر غورکیجیے۔ ’’کلمتان حبیبتان إلی الرحمن‘‘دو ہی کلمے رحمان کو محبوب ہیں۔’’خفیفتان علی اللسان‘‘اور یہ دونوں کلمے زبان پر ہلکے ہیں۔ ’’ثقیلتان فی المیزان‘‘اور یہ دونوں کلمے میزان میں بھاری ہیں یعنی وزن کرتے وقت ان ہی کا وزن بھاری ہو گا۔ ’’سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم‘‘یہی دونوں کلمے ہیں۔ یہ حدیث کے ظاہر اور واضح معانی ہیں لیکن اشارۃ یہ بتایا جا رہا ہے کہ دراصل دو ہی کلمے یعنی کتاب و سنت رحمان کے نزدیک محبوب ہیں ان دونوں کے علاوہ کسی کا بھی کلام ہو وہ رب کو محبوب ہو یا نہ ہو اس سے کوئی تعرض نہیں کیا گیا پھر کتاب و سنت کا حاصل کرنا اور اس پر عمل پیرا ہونا بہت ہی آسان ہے اور ان یہ کے مطابق جو عمل ہو گا اس کا وزن کیا جائے گا اور میزان اُخروی میں وہی وزن دار ہو گا۔ بندوں کے اعمال بہر حال ناقص ہوں گے کیونکہ نقص سے تو اللہ کی ذات ہی پاک ہے۔ باوجود اس ناقص عمل کے اللہ کی ذات والا صفات اپنے بندوں کے اخلاص و نیت اورمعیار کو مد نظر رکھتے ہوئے بڑی ہی قدر دان ہے کہ وزن اعمال کے وقت اس کا وزن بڑھا چڑھا کر عطا کرنے والی ہے۔ لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ ان دونوں کلموں یعنی ’’سبحان اللہ وبحمدہ ،سبحان اللہ العظیم‘‘کا ورد اخلاصِ نیت کے ساتھ کرتے رہیں اور اس کی ذات والا صفات سے امید قوی رکھیں جبکہ ان کا عمل اس معیار و میزان کے مطابق ہو۔

حکیمانہ نکات و لطائف:

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں زندگی کے تمام شعبوں کے بارے میں احادیث بیان کرتے ہوئے بنیادی عنوانات ’’کتاب‘‘ اور ذیلی عنوانات ’’باب‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیے ہیں۔

آخری بنیادی جامع عنوان کتاب التوحید ہے۔ اس عنوان اور اس آخری حدیث کو صحیح بخاری کے اختتام پر درج کرنے سے ایک لطیف اشارہ اس حدیث نبویؐ کی طرف ہو جاتا ہے جس میں ارشاد ہے ((من کان آخر کلامہ لا الہ الا اللہ دخل الجنۃ))یعنی جس کا خاتمہ لا الہ الا اللہ (توحید) پر ہو گا وہ جنت کا مستحق بن جائے گا۔۲۱

اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آخری وقت میں ’’لا الہ الا اللہ‘‘ کے الفاظ ہی زبان سے ادا ہوں بلکہ اصل منشاء یہ ہے،ایسے کلمات زبان پر جاری ہوں جو خالص توحید سے بھر پور ہوں۔

اس توضیح کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام اللھم الرفیق الاعلیٰ۲۲تھا۔ یہ الفاظ معنوی طور پر خالص توحید پر مشتمل ہیں یہی مفہوم صحیح بخاری کی اس آخری حدیث کا بھی ہے۔ اس حدیث سبحان اللہ وبحمدہ کا مضمون حسب ذیل آیت سے ملتا جلتا ہے۔ گویا یہ حدیث لا کر امام بخاری رحمہ اللہ نے نہایت لطیف پیرائے میں حسب ذیل آیت کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔

دعواهم فيها سبحانك اللهم وتحيتهم فيها سلام وآخر دعواهم أن الحمد لله رب العٰلمين۲۳

یونانی فلسفہ اور وزنِ اعمال

یونانی فلسفہ سے متأثر ہو کر معتزلہ نے وزنِ اعمال سے انکار کر دیا تھا، ان کے انکار کی بنیاد یہ فلسفیانہ استدلال تھا کہ اعمال اغراض ہیں یعنی جسمیت سے خالی ہیں اور وزن انھی اشیاء کا کیا جا سکتا ہے جو جسم رکھتی ہیں۔

امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب اور عنوان قائم کر کے معتزلہ کے اسی خیال کا رد کیا ہے۔ اس سلسلے میں حسب عادت پہلے قرآنِ مجید سے استدلال کیا ہے اورپھر حدیث لائے ہیں جس میں یہ الفاظ موجود ہیں ثقیلتان فی المیزان حافظ ابن حزم اندلسی نے معتزلہ کے اس استدلال کا جواب ان الفاظ میں دیا ہے:

’’ولا تدری کيف تلک الموازين الا أننا ندری أنها بخلاف موازين الدنيا، وأن ميزان من تصدق بدينار أثقل ممن تصدق بفلس، وإثم القاتل أعظم من إثم الأطم وأن ميزان مصلی الفريضة أعظم من ميزان التطوع، بل بعض الفرائض أعظم من بعض کما فی الحديث من صلی الصبح فی جماعة کمن قام ليلة ومن صلی العتمة فی جماعة فکأنما قام نصف ليلة وهکذا جميع الأعمال فإنما يؤذن عمل العبد خيرہ مع شره‘‘۲۴

یعنی ہم نہیں واقف کہ ان موازین(ترازو) کی اصل نوعیت و کیفیت کیا ہے ۔ ہاں اتنا ضرورجانتے ہیں کہ دنیا کی ترازو سے ان کی حیثیت بالکل مختلف ہے۔ ظاہر ہے کہ جس نے ایک دینار صدقہ میں (دیا اس کا عمل زیادہ ہے اس سے جس نے ایک پیسہ صدقہ میں دیا۔ اسی طرح قاتل کا گناہ طمانچہ مارنے والے سے زیادہ بڑا ہے۔ اسی طرح فرض ادا کرنے والے کے عمل سے زیادہ وزنی ہے بلکہ بعض فرائض آپس میں ایک دوسرے پر فوقیت رکھتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ اد اکی وہ اس شخص کی طرح ہے جس نے رات بھر قیام کیا۔ اورجس نے عشاء کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے نصف شب قیام کیا۔ اسی طرح تمام اعمال کا حال ہے (اللہ تعالیٰ کے ہاں) بندے کے اچھے اور بُرے سب اعمال وزن کیے جائیں گے۔۲۵

مذکورہ بالا وضاحت کے ساتھ یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے۔ اب نہ پرانا فلسفہ اپنی بنیادیں قائم رکھ سکا ہے اورنہ آج کی علم وتجربہ کی دنیا میں اس قسم کے افکار و نظریات قابلِ توجہ ہو سکتے ہیں۔ آج تھرمامیٹر کے ذریعہ انسانی حرارت کا وزن اور اندازہ کر لیا جاتا ہے حالانکہ حرارت اعراض میں سے ہے اورجسمیت سے امام بخاری رحمہ اللہ آغازِ کتاب میں حدیث انما الأعمال بالنیات لائے ہیں، جس سے اخلاص اور حسنِ نیت کی اہمیت و عظمت واضح ہوتی ہے اور آخر میں وزن اعمال کا عنوان قائم کیا ہے وجہ ظاہر ہے کہ اعمال کے وزنی یا بے وزن (ثقیل و خفیف) ہونے کا دار و مدار نیت کے حسب و قبح پر ہے۔اس اندازِ ترتیب سے یہ اشارہ بھی نکلتا ہے کہ اخلاص نیت صرف آغازِ کار ہی میں کافی نہیں ہے بلکہ اسے ابتداء اور انتہاء دونوں پر حاوی ہونا چاہیے۔

نتائجِ بحث

یہاں ایک پر لطف حقیقت یہ بھی سامنے آتی ہے کہ انسانی اعمال کی ابتداء نیت سے ہوتی ہے اور اس کا خاتمہ وزن پر ہوتا ہے۔ اخلاص نیت کے ساتھ ایک دوسری شئے جو ثقلِ اعمال کا سبب بن سکتی ہے۔ وہ اتباعِ سنت اورپیروئ شریعت ہے۔ کسی عمل کے مقبول ہونے کے لیے اخلاصِ نیت اور اتباعِ سنت دونوں کی ضرورت ہے۔ اخلاص بغیر اتباع سنت اور اتباعِ سنت بغیر اخلاص نیت نجات کے لیے ناکافی ہیں۔

امام بخاریؒ نے آغازِ کتاب اور اختتامِ کتاب پر ان دونوں بنیادوں کی طرف اشارہ کر دیا ہے۔۲۶

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب میں خاص ربط اور نظم کو ملحوظ رکھا ہے اور اس کی نظم و ترتیب میں بہت سے علمی، فقہی، اصولی اور لغوی حقائق و دقائق کو سمو دیا ہے۔ امام بخاریؒ نے تراجم ابواب کے ذریعے جو فقہ مرتب کی ہے وہ اجتہادی نوعیت کی ہے۔اس لیے علماء میں یہ مشہور ہے:فقہ البخاری فی تراجمہ

بخاری کی فقہ اس کے تراجم میں ہے تاریخ الحدیث میں کسی مجموعہ احادیث کی ترتیب میں وہ التزام و اہتمام دکھائی نہیں دیتا جو الجامع الصحیح البخاری کی ترتیب کے لیے اختیار کیا گیا۔ امام صاحب سفر وحضر میں ہر جگہ اس تالیف کی ترتیب و تسوید میں مشغول رہے تراجم ابواب کی نظم ومناسبت کے لیے اصولِ دین و شریعت کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

خلاصۂ بحث

امام بخاریؒ نے اپنی کتاب کو وحی کے ابواب سے شروع فرمایا ہے کیونکہ وحی کی بنیاد اللہ کا کلام ہے اورکتاب کے آخر میں امام بخاری نے کلام کا ہی مسئلہ ذکر کیا ہے۔

باب قول الله تعالی ونضع الموازين القسط ليوم القيٰمة.

یہ بھی کلام کے تحت ہی آیا ہے۔ سابقہ ابواب کو دیکھیں تو وہ بھی کلام کے متعلق ہی مذکور ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلام اور انسان کے کلام میں فرق ہے۔ امام بخاریؒ نے اس فرق کو واضح کیا ہے۔ پہلے تو کتاب کے اختتام کا کتاب کے آغاز کے ساتھ گہرا تعلق ہے کہ کلام اور وحی سے امام بخاریؒ نے اپنی کتاب الصحیح کو شروع کیا اورکلام کے باب پر ہی ختم کیا۔ اسی طرح آخری باب اس کا تعلق ایک تو اس کتاب، کتاب التوحید کے ساتھ ہے اور دوسرا پوری کتاب کے ساتھ ہے۔ امام بخاریؒ نے کتاب التوحید کے اندر ان لوگوں کا رد کیا ہے جو صحیح معنوں میں اللہ کی توحید کے قائل نہیں ہیں۔جہمیہ فرقہ کا بھی رد کیا ہے۔ معتزلہ اور قدریہ کا رد بھی کیا ہے۔ وزنِ اعمال کے متعلق معتزلہ کے نظریہ کا رد کیا ہے۔

یعنی اس کی ابتدا انما الاعمال سے ہوتی ہے اور وزن اعمال سے ہو گا ۔ امام بخاریؒ الجامع الصحیح البخاری کی ہر کتاب کو نقل کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ رکھتے ہیں کہ اس کی اپنی ماقبل کتاب سے کوئی نہ کوئی مناسبت ضرور ہے اسی طرح ہر باب قائم کرتے ہوئے بھی اس بات کا لحاظ رکھتے ہیں کہ اس کی اپنے ماقبل باب سے کوئی نہ کوئی مناسبت ضرور ہو۔

مصادر و مراجع

۱۔ آمدی، سیف الدین علی بن ابی علی بن محمد ۶۳۱ھ، الاحکام فی اصول الاحکام، ۱؍۸۲، دار الکتب العلمیۃ، بیروت لبنان، ۱۴۰۰ھ

۲۔ الغزالی، ابو حامد محمد بن محمد ،۵۰۵ھ، المستصفیٰ فی علم الاصول، دار الکتب العلمیہ، بیروت، ۲۰۰۳ء، ص۶۳

۳۔ القحطانی، متعب بن احمد، دلالۃ غیر المنظوم عند الأحناف والمتکلمین عند الاصولیین، ص۸۹، دار العلم، بیروت.

۴۔ امل بنت عبداللہ، الفروق فی دلالۃ المنظوم عند الأصولیین، دار العلم، القاہر، طبع ۱۹۸۶ء ،ص۴۸

۵۔ القسطلانی، ابو العباس، شہاب الدین احمد بن محمد،ارشاد الساری، المطبعۃ الأمیریۃ، قاہرہ، ۱۳۰۴ھ،۱؍۳۶

۶۔ ابن حجر، مقدمہ فتح الباری، ھدی الساری، دار المعرفہ لطباعہ والنشربیروت لبنان، س ن، ص۴۷۰

۷۔ البخاری، ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل، الجامع الصحیح ،کتاب البیوع،ناشر دار السلام والنشر والتوزیع ریاض، السعودیہ، طبع الثالثہ، ۲۰۰۰ء

۸۔ فتح الباری، کتاب الاستئذان، ۳؍۸۸

۹۔ الاسراء ۱۷:۶۰

۱۰۔ النساء ۴:۱۶۳

۱۱۔ الجامع الصحیح للبخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،ص۶

۱۲۔ یونس ۱۰:۳۶

۱۳۔ الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الآداب، باب الطعام، ۲؍۱۳۲

۱۴۔ ایضاً

۱۵۔ النساء ۴:۱۶۳

۱۶۔ النجم ۵۳:۳،۴

۱۷۔ الجامع الصحیح للبخاری، باب کیف کان بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم

۱۸۔ البیہقی، محمد بن احمد ،دلائل النبوۃ، دار النشر،دار الکتب العلمیۃ، بیروت ، لبنان، بدون ، الطبعۃ، ۱؍۴۱۸

۱۹۔ الانبیاء ،۲۱:۴۷

۲۰۔الجامع الصحیح للبخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالیٰ ،نضع الموازین القسط لیوم القیٰمۃ،ص۲۱۴

۲۱۔ الجامع الصحیح للبخاری، کتاب التوحید، ۲؍۲۸۹

۲۲۔ الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الوضوء،۲؍۱۵

۲۳۔ یونس ۱۰:۳۶

۲۴۔ابن حزم، ابومحمد،علی بن احمد بن سعید (م۴۵۶ھ) ، الفصل بین الملل والنحل ، القاہرہ ، مطبعہ العاصمۃ ۴؍۶۵

۲۵۔ ایضاً۔

۲۶۔الدمشقی، ناصر الدین محمد بن احمد، التنقیح فی حدیث التسبیح ،شرح حدیث کلمتان حبیبتان، المکتبۃ الاسلامیہ، مدینہ منورہ، طبع ۲۰۰۰ء ۱؍

Loading...
Issue Details
Showing 1 to 20 of 24 entries
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Volume 34 Issue 2
2017
Article TitleAuthorsVol InfoYear
Showing 1 to 20 of 24 entries
Similar Articles
Loading...
Similar Article Headings
Loading...
Similar Books
Loading...
Similar Chapters
Loading...
Similar Thesis
Loading...

Similar News

Loading...
About Us

Asian Research Index (ARI) is an online indexing service for providing free access, peer reviewed, high quality literature.

Whatsapp group

asianindexing@gmail.com

Follow us

Copyright @2023 | Asian Research Index