29
2
2014
1682060034497_929
195-211
واضح رہے کہ اسلامی شریعت نے ایسی کوئی بات نہیں بتا ئی جس کو عقلیں محال جانیں اور وہ اس کے محال ہونے پرقطعی حکم دے سکیں بلکہ شریعت کی خبر دینا دو قسم کی ہو تی ہے۔ایک تو وہ جس پرعقل اور فطرت گوا ہی دے ۔دوسرے وہ جن کو محض عقلیں دریافت نہ کرسکیں مثلاً غیب کی وہ با تیں جو محمدﷺ نے عالم برزخ،قیا مت اور عذاب کے متعلق مفصل بیا ن فرما ئی ہیں جو عقلاً تو محا ل نہیں مگر وہاں تک عقل کی خود رسائی نہیں وہ وحی کی محتاج ہے۔
زیر نظر آرٹیکل میں ایسے نصوص کو یکجا کر نے کی کوشش کی گئی ہے جس سے موضو ع زیر نظرکی حقیقت کھل کر سامنے آئےگی۔
علامہ ابن تیمیہ۱نے فرمایا ہے کہ آخرت پر ایمان کے لوازمات میں سے یہ بھی ہے کہ مسلمان ان تمام باتوں پر ایمان لے آئے جن کی خبر سیدنا محمد ﷺ نے دی ہے، جن میں سے موت کے بعد کے احوال بھی ہیں ،یعنی قبر میں سوال وجواب، عذابِ قبر اور اس کی نعمتوں پر ایمان لے آئے۔۲
علامہ ابن قیم ۳نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کے لیے تین ادوار بنائے : دارِ دنیا، دارِ برزخ اور دارِ آخرت۔ہر ایک دور کے لیے اللہ تعالیٰ نے خاص احکام مقرر کیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسم اور روح سے مرکب کرکے بنایا ہے تو دنیا کے احکام کا مکلَّف بدن ہے اور روح اس کی تابع ہے،برزخ کے احکام روح کے لیے ہوتے ہیں بدن اس کی تابع ہوتی ہےاور حشر کے دن لوگ جب اپنی قبروں سے اٹھ کھڑے ہوں گے تو نعمتیں یا عذاب روح اور بدن دونوں کے لیے ہوگا۔۴
لفظ برزخ کی لغوی تعریف:
برزخ ایک مشہور عالم ہے جو خالص عالمِ معانی اور اجسامِ مادیہ کے درمیان ہےجہاں پرانسان جب پہنچتا ہے تو عبادات اپنی مناسبت سےاجسام بن جاتی ہیں۔برزخ خیالِ منفصل اور دو چیزوں کے درمیان حائل کو کہا جاتا ہے،اسے عالَمِ مثال سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ عالمِ اجسامِ کثیف اور عالمِ ارواحِ مجردہ یعنی دنیا اور آخرت کے درمیان حائل ہے۔۵
برزخ لغت میں دو چیزوں کے درمیان حائل اور حدکو کہا جاتا ہے اور اصطلاح میں یہ وہ عالَم ہے جو آدمی اور قیامت میں بلند مراتب تک پہنچنے کے درمیان حائل ہے۔اہلِ حقیقت کی عرف میں یہ مشہور عالَم ہے جو خالص عالمِ معانی اور اجسامِ مادیہ کے درمیان ہے۔ دمرداش نے کہا ہے کہ برزخ عالمِ خیال، عالَم مثال اور عالمِ سمسمہ ہے۔۶
برزخ دو چیزوں کے درمیان چیز کو کہا جاتا ہے ۔ صحاح میں ہے کہ دو چیزوں کے درمیان حائل کو برزخ کہا جاتا ہے۔ دنیا اور آخرت کے درمیان اور حشر سے پہلے موت کے وقت سے لے کرحشر تک کے وقت کو برزخ کہا جاتا ہے۔جو انسان مر گیا تو وہ برزخ میں داخل ہو گیا۔۷
قبر کی تعریف:
قبر مردہ کی جائے قرار کو کہا جاتا ہے۔یہ اصل میں مصدر ہے ،جب آپ کسی کو دفن کریں تو کہیں گے:قبرته۔یہاں قبر بمعنی مقبور فیہ ہے۔۸
قرآن کریم کی چھتیس آیات مبارکہ سے عالم برزخ کا ثبوت:
اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔
1۔﴿كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴾۹
’’کس طرح کافر ہوتے ہو خدا تعالیٰ سے حالانکہ تم بے جان تھےپھر زندہ کردىا تم کوپھر مار لے گا تم کو پھر زندہ کىا جائے گا تم کو۔ پھر اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے۔ ‘‘
سیدنا عبداللہ بن مسعود اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں تم آباء کی پشتوں میں نطفہ کی شکل میں غیر معروف اور غیر مذکورپڑے تھے۔اللہ تعالیٰ نے تمہیں کامل انسان کی صورت میں زندہ کیا،پھر تمہاری ارواح کو قبض کرکے برزخ میں حشر تک غیر معروف اور غیر مذکور بوسیدہ بنادے گا،پھر حشر اور قیامت کے لیے تمہارے اندر روح پھونک کر زندہ فرمائے گاپھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کو حشر سے پہلےقبروں میں زندہ فرمادے گا پھر حساب کے لیے ان کا حشر فرمادے گا ۔۱۰
۲۔﴿وَلا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْواتٌ بَلْ أَحْياءٌ وَلكِنْ لا تَشْعُرُونَ﴾۱۱
اور نہ کہو ان کو جو مارے گئے خدا کی راہ میں کہ مُردے ہیں بلکہ وہ زندے ہیں لیکن تم کو خبر نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کے راستے میں قتل کیے جانے والوں کو مُردے نہ کہو اس لیے کہ میری مخلوق میں مُردہ وہی ہوتا ہے جس کی زندگی میں سلب کردوں اور اس کے حواس معدوم کردوں ، وہ نہ کسی چیز سے لذت لے سکتا ہے اور نہ نعمت کا ادراک کر سکتا ہے۔اور میرے بندوں میں سےجو کوئی میرے راستے میں قتل کیا جائے گا تو وہ میرے نزدیک زندہ ہیں۔وہ زندگی کی نعمتوں ،خوشگوار عیش اور پُر لطف کھانوں میں مصروف ہیں۔میں اپنی فضل سے ان کو جو کچھ دیتا ہوں اس سے وہ خوش ہوتے ہیں۔مجاہد سے روایت ہے کہ وہ جنت کے میوؤں میں سے کھاتے ہیں اور جنت کی خوشبو سونگھتے ہیں حالانکہ وہ جنت کے اندر گئے نہیں ہیں۔۱۲
اللہ تعالیٰ جب ان کو موت کے بعد زندہ فرمائے گا تو ان کو رزق بھی دے گا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے،تو یہ بھی جائز ہے کہ کافروں کو زندہ کرے تا کہ ان کو عذاب دے ۔ اس آیت میں عذابِ قبر کی دلیل ہےاور شہداء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ آیت کا یہ معنی نہیں کہ عنقریب ان کو زندہ فرمائے گا،اگر ایسا ہوتا تو شہداء اور دوسرے مُردوں کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا اس لیے عنقریب ان کو بھی زندہ کردیا جائے گا ،اس پر اللہ تعالیٰ کا فرمان:﴿ وَلكِنْ لا تَشْعُرُونَ﴾ دلالت کرتی ہےاس لیے کہ مومن تو جانتے ہیں کہ ان کو عنقریب زندہ کیا جائے گا۔۱۳
۳۔ ﴿أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيهِ فَيَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُبْرِىءُ الأكْمَهَ والأَبْرَصَ وَأُحْيِي الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ﴾۱۴
’’میں بنا دیتا ہوں تم کو گارے سے پرندے کی شکل پھر اُس میں پھونک مارتا ہوں تو ہو جاتا ہے اُڑتا پرندہ اللہ کے حکم سے اور اچھا کرتا ہوں کوڑھ کے مرىض کو اور زندہ کرتا ہوں مُردے اللہ کے حکم سے ‘‘
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے ایک معجزہ یہ بھی عطا فرمایا تھا کہ آپ مردوں کو زندہ کر دیتے تھے۔ آپ علیہ السلام نے تین مُردوں کو اللہ تعالیٰ سے دعا کرکے زندہ کیا تو لوگوں نے عرض کیا کہ آپ تو ان مُردوں کو زندہ دیتے ہیں جو ابھی ابھی مر چکے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ وہ مرے نہ ہوں بلکہ ان کو سکتہ کی بیماری لاحق ہو چکی ہولہٰذا ہمارے لیے سام بن نوح علیہ السلام کو زندہ کیجئے۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ مجھے ان کی قبر بتائیےتو قوم آپ علیہ السلام کے ساتھ نکلی اور ان کی قبر تک پہنچے۔آپ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے دعا کیا تو سام بن نو ح علیہ السلام اس حالت میں قبر سے نکلےکہ سر کے بال سفید ہو چکے تھے تو سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے پوچھا کہ تمہارے سر کے بال سفید کیوں ہیں حالانکہ آپ کے زمانے میں بڑھاپا نہیں تھا؟ انہوں نے کہا کہ اے روح اللہ ! آپ نے مجھے بلایا تو میں نے ایسی آواز سنی کہ روح اللہ کا بلاوا پورا کرلے ،تو میں نے خیال کیا کہ قیامت قائم ہو گئی تو اس ہولناکی کی وجہ سے میرے با ل سفید ہو گئے۔ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے ان سے نزع کے متعلق دریافت کیا تو فرمایا کہ اے روح اللہ!نزع کی کڑواہٹ ابھی تک بھی میرے حلق سے گئی نہیں۔اس وقت ان کی موت پر چار ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزرا تھا۔انہوں نے لوگوں سے فرمایا کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی تصدیق کریں کہ آپ نبی ہیں۔تو بعض آپ پر ایمان لے آئے اور بعض نے یہ کہہ کر جھٹلایا کہ یہ جادوہے۔۱۵
۴۔﴿وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ﴾۱۶
’’اور تو نہ سمجھ ان لوگوں کو جو مارے گئے اللہ کی راہ میں مُردے بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس کھاتے پیتے‘‘
یعنی شہداء اس وقت زندہ ہیں ۔ گویا کہ ان کو ثواب پہنچانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو زندہ کیا ہے ۔یہ قول اکثر مفسرین کا ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان برداروں کو قبروں میں ثواب پہنچتاہے۔﴿بَلْ أَحْيَاءٌ﴾میں ان کے زندہ ہونے اور ان کو رزق دئیے جانے کی دلیل ہےاور رزق تو صرف زندہ ہی کھاتا ہے۔۱۷
ایک اشکال اور اس کا جواب :
اگر سوال اٹھایا جائے کہ ہم تو مشاہدہ کرتے ہیں کہ قبروں میں رکھی ہوی لاشیں جوں کہ توں مردہ ہوتی ہیں ، تو تمہارا کہنا کس طرح صحیح ہو سکتا ہے؟
جواب:زندگی کے لیےنہ تو شواہد کا ہونا شرط ہے اور نہ یہ ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ جسم کے ذرات اور اجزاء کو سمیٹے اور اکٹھے کیے بغیر اس میں زندگی پیدا فرما دے۔اور یہ احتمال بھی ہے کہ ان کو اس حالت میں زندہ کرتے رہے جب کوئی دیکھنے والا نہ ہو۔۱۸
۵۔ ﴿فَرِحِينَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ﴾۱۹
’’خوشی کرتے ہیں اس پر جو دیا اللہ نے ان کو اپنے فضل سے اور خوش وقت ہوتے ہیں ان کی طرف سے جو ابھی تک نہیں پہنچے ان کے پاسان کے پیچھے سے اس واسطے کہ نہ ڈر ہے ان پر اور نہ ان کو غم۔‘‘
شہداء کی ارواح قبروں میں ان کو واپس کر دی جاتی ہے اور وہ نعمتوں سے لطف اندوز ہو تے ہیں جس طرح کہ کافروں کو ان کی قبروں میں زندہ کیا جاتا ہے اور ان کو عذاب دی جاتی ہے۔مجاہد نے کہا ہے کہ ان کو جنت کے میوے دئیے جاتے ہیں یعنی وہ جنت کی لذت لیتے ہیں حالانکہ وہ اس میں ہوتے نہیں۔۲۰
اس میں شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت، فضل اور احسان عذاب اور سزا کے مقابلے میں زیادہ ہے ۔پھر اللہ تعالیٰ نے اہلِ عذاب کو عذاب دینے کے لیے قیامت سے پہلے زندہ کرکے فرمایا ہے:﴿مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾۲۱ اس میں‘‘ف’’ تعقیب کے لیے ہے،اور عذاب زندگی سے مشروط ہے۔اور یہ بھی فرمایا ہے :﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا ﴾۲۲ جب اہلِ عذاب کو عذاب دینے کے واسطے قیامت سے پہلے زندہ کیا تو ثواب اور نعمتوں کے واسطے اہلِ ثواب کو زندہ کرنا زیادہ قرینِ قیاس ہے۔۲۳
﴿وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِنْ خَلْفِهِمْ﴾وہ لوگ جو ان سے ابھی ملے نہیں تو لا محالہ وہ دنیا میں ہوں گے،تو دنیا میں ہونے والوں کی طرف سے بشارت لازمی طور پر قیامت سے پہلے ہوگی، اور استبشار کے لیے زندگی کا ہونا لازم ہے ،تو یہ دلالت کرتی ہے کہ وہ روزِ قیامت سے پہلے زندہ ہوں گے۔۲۴
۶۔ ﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ طِينٍ ثُمَّ قَضى أَجَلاً وَأَجَلٌ مُسَمًّى عِنْدَهُ ثُمَّ أَنْتُمْ تَمْتَرُونَ﴾۲۵
’’وہی ہے جس نے پیدا کیا تم کو مٹی سے پھر مقرر کردیا ایک وقت اور ایک مدت مقرر ہے اللہ کے نزدیک پھر بھی تم شک کرتے ہو۔‘‘
پہلی اجل پیدائش سے موت تک ہے اور دوسری اجل موت اور حشر کے درمیان کی مدت ہے جو کہ برز خ ہے۔۲۶ ﴿أَجَلٌ مُسَمًّى﴾سے مراد موت کے وقت سے لے کر اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑے ہونے تک ہے جو کہ برزخ ہے۔یہ مدت صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے۔بندہ جب اپنے رب سے ڈرے اور صلہ رحمی کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی پہلی عمر میں جتنی چاہےبرزخ کی بنسبت زیادتی فرماتا ہے اور اگر بندہ نافرمانی کرتا ہے اور صلہ رحمی توڑ دیتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی پہلی یعنی دنیا کی عمر میں جتنی چاہے کمی کرکے برزخ کی عمر بڑھا دیتا ہے۔۲۷ حسن، قتادہ اور ضحاک نے کہا ہے کہ پہلی اجل ولادت سے موت تک ہے اور دوسری اجل موت سے حشر تک ہے جو کہ برزخ ہی ہے۔۲۸
۷۔﴿وَلَوْ تَرَى إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنْفُسَكُمُ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَاكُنْتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنْتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ﴾۲۹
’’اور اگر تو دیکھے جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختیوں میں اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں کہ نکالو اپنی جانیں آج تم کو بدلے میں ملے گا ذلت کا عذاب اس سبب سے کہ تم کہتے تھے اللہ پر جھوٹی باتیں اور اس کی آیتوں سے تکبر کرتے تھے۔‘‘
ان لوگوں سے یہ خطاب موت کے وقت کا ہے ۔فرشتوں نے ان کو خبردی اور وہ سچ بولنے والے ہوتے ہیں ،کہ اس وقت ان کو ذلت والا عذاب دیا جائے گا۔اگر ان سے یہ عذاب دنیا کے اختتام تک مؤخر کر دیا جائے تو یہ کہنا صحیح نہ ہوگا کہ اس وقت ان کو ذلت والا عذاب دیا جائے گا۔۳۰
۸۔﴿وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ﴾۳۱
’’اور وہی ہے جس نے تم سب کو پیدا کیا ایک شخص سے پھر ایک تو تمہارا ٹھکانہ ہے اور ایک امانت رکھے جانے کی جگہ البتہ ہم نے کھول کر سنا دئیے پتے اس قوم کو جو سوچتے ہیں‘‘
حسن فرماتے تھے کہ مستقر سے مراد قبر ہے اور مستودع سے مراد دنیا ہے۔۳۲
۹۔ ﴿وَمِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَى عَذَابٍ عَظِيمٍ﴾۳۳
’’اور بعض تمہارے گرد کے گنوار منافق ہیں اور بعض لوگ مدینہ والے اڑ رہے ہیں نفاق پر تو ان کو نہیں جانتا ہم کو وہ معلوم ہیں ان کو ہم عذاب دیں گے دو بار پھر وہ لوٹائے جائیں گے بڑے عذاب کی طرف‘‘
دو مرتبہ عذاب دینے سے مراد یہ ہے کہ ایک مرتبہ موت کے وقت اور ایک مرتبہ قبر میں۔۳۴ یعنی ایک عذاب بھوک ہے اور دوسرا عذاب قبر میں ۔ ۳۵یعنی عنقریب ہم ان منافقوں کو دو دفعہ عذاب دیں گے ، ایک دفعہ دنیا میں اور دوسری دفعہ قبر میں۔۳۶
۱۰۔ ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ شَقُوا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيهَا زَفِيرٌ وَشَهِيقٌ خَالِدِينَ فِيهَا مَا دَامَتِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ إِلَّا مَا شَاءَ رَبُّكَ إِنَّ رَبَّكَ فَعَّالٌ لِمَا يُرِيدُ﴾۳۷
’’سو جو لوگ بدبخت ہیں وہ تو آگ میں ہیں ان کو وہاں چیخنا ہے اور دہاڑنا ہمیشہ رہیں اس میں جب تک رہےآسمان اور زمین مگر جو چاہے تیرا رب بے شک تیرا رب کر ڈالتا ہے جو چاہے۔
اس آیت میں استثناء سے دونوں فریقوں یعنی اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ کی دنیا کی عمریں اور جنت یا دوزخ میں جانے سے پہلے موت اورحشر کے درمیان برزخ مرادہے۔ یعنی ان مدتوں کے علاوہ ہمیشہ یا آگ میں ہوں گے اور یا جنت میں۔۳۸ وہ زمانہ مستثنیٰ ہے جو انہوں نے میدانِ حشر میں حساب کے لیےگزارا ہے اس لیے کہ اس آیت کی ظاہر کا مقتضیٰ یہ ہے کہ اس دن یا دنیا میں قیام کے دوران اور برزخ میں بھی آگ میں ہوں گے۔ ۳۹
۱۱۔﴿يُثَبِّتُ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا , وَفِي الْآخِرَةِ﴾۴۰
’’مضبوط کرتا ہے اللہ ایمان والوں کو مضبوط بات سے دنیا کی زندگی میں اور آخرت میں۔‘‘
آخرت سے مراد قبر ہے۔۴۱ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مومن جب مر جائے تو اسے قبر میں بٹھا دیا جاتا ہے اور اس سے پوچھا جاتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا دین کون سا ہے؟ اور تیرا نبی کون ہے؟ تو اللہ تعالیٰ اسے ثابت قدم کرے گا اوروہ جواب دے گا کہ میرا رب اللہ ہے، میرا دین اسلام ہے اور میرا نبی سیدنا محمد ﷺ ہے۔اورسیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ آیت تلاوت کی ۔۴۲
۱۲۔﴿وَمَا نَتَنَزَّلُ إِلَّا بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيْدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَيْنَ ذَلِكَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا﴾۴۳
’’اور ہم نہیں اترتے مگر حکم سے تیرے رب کےاسی کا ہے جو ہمارے آگے ہے اور ہمارے پیچھے اور جو اس کے بیچ میں ہے اور تیرا رب نہیں ہے بھولنے والا‘‘
یہ قول سیدنا جبرئیل علیہ السلام کا ہے جس وقت بعض وحی میں تاخیر سے نازل کی گئی تو نبی کریمﷺ نے ان سے فرمایا کہ دیر ہونے کی وجہ سے میں آپ کا مشتاق تھا تو سیدنا جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا کہ ہم تو صرف آپ کے رب کے حکم سے اترتے ہیں ۔ ﴿له ما بين أيدينا﴾اسی کے لیے وہی کچھ ہے جو ہمارے سامنے ہیں یعنی آخرت کے امور،﴿وما خلفنا﴾جو ہمارے پیچھے ہیں یعنی جب ہم آخرت میں ہوں گے تودنیا کے امور ،اور کلبی نے کہا ہے کہ ﴿وما بين ذلك﴾یعنی برزخ۔۴۴ قتادہ،اور مقاتل نے بھی کہا ہے کہ اس سے مراد صور کے دو پھونکوں کے درمیان کا وقت ہے جن کے درمیان ۴۰ سال کی مدت ہے۔۴۵
۱۳ ۔﴿وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي ، فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا﴾۴۶
’’اور جس نے منہ پھیرا میری یاد سے تو اس کو ملنی ہے گذران تنگی کی‘‘
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قبر اس پر تنگ ہو جائے گا یہاں تک کہ اس کی پھسلیاں ایک دوسرے میں گُھس جائیں گی۔ ۴۷
۱۴۔﴿وَمِنْ وَرَائِهِمْ بَرْزَخٌ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ﴾۴۸
’’ اور ان کے پیچھے پردہ ہے اس دن تک کہ اٹھائے جائیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ مشرکوں کی طرف سے واپسی کا التجا ء ذکر کرکے فرماتے ہیں کہ ان کے اور دنیا کو واپسی کے درمیان میں ایک مانع اور رکاوٹ موجود ہےجو قیامت کے دن کے قائم رہے گا۔ ۴۹
امام قرطبی ۵۰فرماتے ہیں کہ ﴿وَمِنْ وَرائِهِمْ بَرْزَخٌ ﴾کا مطلب یہ ہے کہ ان کے آگے کی طرف، سامنے اور پیچھے حائل موجود ہے یعنی موت اور حشر کے درمیان برزخ موجود ہے۔۵۱
۱۵۔﴿وَقَالَ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ وَالْإِيمَانَ لَقَدْ لَبِثْتُمْ فِي كِتَابِ اللَّهِ إِلَى يَوْمِ الْبَعْثِ فَهَذَا يَوْمُ الْبَعْثِ وَلَكِنَّكُمْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ﴾۵۲
’’اور کہیں گے جن کو ملی ہے سمجھ اور یقین تمہارا ٹھہرنا تھا اللہ کی کتاب میں جی اٹھنے کے دن تک سو یہ ہے جی اٹھنے کا دن پر تم نہیں جانتے تھے۔’’
سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے کہ یہ لوگ قیامت کے دن تک برزخ میں رہیں گے۔۵۳
۱۶۔ ﴿وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذَابِ الأدْنَى دُونَ الْعَذَابِ الأكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ﴾۵۴
’’اور البتہ چکھائیں گے ہم ان کو تھوڑا عذاب ورے اس بڑے عذاب سے تاکہ وہ پھر آئیں۔’’
اس سے مراد قبر کا عذاب اور دنیا کی عذاب ہے ۔۵۵ اس آیت سے ایک جماعت جن میں سے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بھی ہے،نے عذاب ِ قبر پر استدلال کیا ہے۔
ایک علمی نکتہ:
واضح رہے کہ دنیا میں یہ عذاب ان کی کفر سے رجوع کے لیے ہےتو قبر میں عذاب دینے میں یہ مصلحت نہیں ہے۔
تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے ترجمان القرآن اور حبرالامۃ سے یہ نکتہ مخفی نہیں تھا لیکن جس نے قرآن کریم اور اس کی باریکیوں میں تفقہ حاصل کیا تو انہوں نے اس سے عذابِ قبر مراد لیا ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے دو عذاب رکھے ہیں ایک ادنیٰ اور ایک بڑا ، تو اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ ان کو بعض عذابِ ادنیٰ دے گاتاکہ یہ لوگ کفر سے باز آجائیں ۔یہ دلالت کرتی ہے کہ ان کا بعض عذابِ ادنیٰ ابھی باقی ہےجو دنیا کے بعد دیا جائے گااس لیے ‘‘من العذاب الأدنى’’فرمایا اور ‘‘ولنذيقنهم العذاب الأدنى’’نہیں فرمایا۔
اس کی نظیر رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان ہے کہ کافر کے لیے جہنم سے کھڑکی کھول دی جائے گی جس سے بعض گرمی اور بدبو آئے گی ۔ تو فرمایا:‘‘من حرها وسمومها’’اور ‘‘حرها وسمومها’’نہیں فرمایا اس لیے کہ قبر میں اسے جو عذاب دیا گیا وہ بعض حصہ ہے اور جو باقی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔۵۶
۱۷۔ ﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُمْ مِنَ الْأَجْدَاثِ إِلَى رَبِّهِمْ يَنْسِلُونَ﴾۵۷
’’اور پھونکی جائے صور پھر تبھی وہ قبروں سےاپنے رب کی طرف پھیل پڑیں گے۔،،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ اور قتادہ فرماتے ہیں کہ ‘‘الْأَجْدَاثِ’’سے مراد قبریں ہیں۔۵۸
۱۸۔﴿قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا﴾۵۹
’’ہیں گے اے خرابی ہماری کس نے اٹھا دیا ہم کو ہماری نیند کی جگہ سے۔،،
مرقد سے ان کا مطلب ان کی وہی قبریں ہیں جو دنیا میں یہ لوگ اعتقاد رکھتے تھے کہ ان سے حشر کے لیے نہیں اٹھائے جائیں گے۔۶۰
۱۹۔﴿وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ﴾۶۱
’’اور پھونکا جائے صور میں پھر بے ہوش ہو جائے جو کوئی ہو آسمانوں میں اور زمین میں مگر جس کو اللہ چاہے پھر پھونکی جائے دوسری بارتو فوراً وہ کھڑے ہو جائیں ہر طرف دیکھتے۔،،
حسن فرماتے ہیں کہ ان دونوں نفخات کے درمیان چالیس سال کا عرصہ ہوگا۔۶۲
اشکا ل دوم :
اگر سوال اٹھایا جائے کہ اس وقت قبریں کہاں ہوں گی نفخہ صور نے تو پہاڑ سے بھی روئی بنایا ہوگا؟
جواب: اللہ تعالیٰ تمام اجزاء کو اس جگہ جمع فرمائے گا جس جگہ یہ دفن کیا جا چکا تھا اور اس جگہ سے یہ بندہ اٹھ جائے گا۔۶۳
۲۰۔﴿قَالُوا رَبَّنَا أَمَتَّنَا اثْنَتَيْنِ وَأَحْيَيْتَنَا اثْنَتَيْنِ فَاعْتَرَفْنَا بِذُنُوبِنَا فَهَلْ إِلَى خُرُوجٍ مِنْ سَبِيلٍ﴾۶۴
’’لوگ کہیں گے اے ہمارے رب تو موت دے چکا ہم کو دو بار اور زندگی دے چکا دوبار ، اب ہم قائل ہوئے اپنے گناہوں کے ،پھر اب بھی ہو نکلنے کو کوئی راہ۔،،
پہلی موت تو یہ ہے کہ آدمی کا نطفہ اس کی جسم سے جدا ہو کر عورت کی رحم میں چلی جائے، جسم سے جدا ہوجانے کے وقت سے روح پھونکے جانے کے وقت تک بے جان ہوتی ہے۔پھر اللہ تعالیٰ اس میں روح پھونک کر زندہ کردیتے ہیں ۔پھر زندگی بسر کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ دوبارہ اس کی روح قبض کردیتا ہے ۔یہ دوسری موت ہے اور یہ مردہ صور پھونکے جانے کے وقت تک بزرخ میں ہوتا ہے۔پھر جسم میں روح کو دوبارہ ڈالے جانے سے حشر کے لیے زندہ کیا جائے گا۔یہ دو موت اور دو زندگیاں ہو گئیں۔۶۵
۲۱۔ ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوًّا وَعَشِيًّا وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾۶۶
’’وہ آگ ہے کہ دکھلا دیتے ہیں ان کو صبح وشام اور جس دن قائم ہوگی قیامت حکم ہوگا داخل کرو فرعون والوں کو سخت سے سخت عذاب میں۔،،
جمہور اس بات پر متفق ہیں کہ یہ عرض برزخ میں ہوگی ۔بعض اہلِ علم نے ﴿النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوّاً وَعَشِيّاً﴾سے دنیا کی قیام تک عذابِ قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔اسی طرح مجاہد،عکرمہ،مقاتل اور محمد بن کعب نے اس آیت سے دنیا کی قیام تک عذابِ قبر کے اثبات پر استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ آخرت کے عذاب کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ﴾۶۷
۲۲۔﴿وَإِنَّ لِلَّذِينَ ظَلَمُوا عَذَابًا دُونَ ذَلِكَ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ﴾۶۸
’’اور ان گناہگاروں کے لیے عذاب ہے اس سے ورے لیکن ان میں سے اکثر جانتے نہیں۔،،
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ عذابِ قبر قرآنِ کریم میں مذکور ہے اور یہ آیت تلاوت فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ جن لوگوں نے کفر کی سبب اپنے آپ پر ظلم کیا ہے تو ان کے لئے قیامت کے ہولناک دن کی عذاب کے علاوہ قبر یعنی عالم ِ برزخ کا عذاب بھی ہے۔۶۹ اس میں یہ احتمال بھی ہے کہ اس عذاب سے دنیا میں قتل وغیرہ مراد لیا جائے اور یہ احتمال بھی ہے کہ اس سے برزخ مراد لیا جائے ۔ اور برزخ کا عذاب مراد لینا زیادہ بہتر ہے اس لیے کہ ان میں سے بہت سے لوگ مر چکے تھے اور ان کو دنیا میں کوئی عذاب نہیں دیا گیا تھا۔ اس کا زیادہ مناسب مطلب یہ ہے کہ ان میں سے جو لوگ دنیاوی عذاب کے بغیر مر چکے ہیں تو ان کو برزخ میں عذاب دیا جائے گا اور جو لوگ اس وقت زندہ ہیں تو ان کو دنیا میں قتل وغیرہ کا عذاب دیا جائے گا۔یہ آیت دنیا اور آخرت میں ان کی عذاب پر وعید ہے۔۷۰
۲۳۔ ﴿مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَارًا﴾۷۱
’’کچھ وہ اپنے گناہوں سے دبائے گئےپھر ڈالے گئے آگ میں۔،،
اس میں‘‘ف’’ تعقیب کے لیے ہے۔یعنی غرق کیے جانے کے بعد آگ میں داخل ہو گئے۔یہ آیت عذابِ قبر پر دلالت کرتی ہے۔۷۲
جب عذابِ قبر ثابت ہو گیا تو ثواب ِ قبر ماننا بھی لازم ہے اس لیے کہ عذاب تو بندے پر اللہ تعالیٰ کاحق ہے اور ثواب اللہ تعالیٰ پر بندے کا حق ہے ۔ثواب کے مقابلے میں عذاب کا اسقاط بہتر ہے تو قبر میں جب عذاب کو لازم قرار پایا تو ثواب کا لازم کرنا زیادہ مناسب ہے۔۷۳
۲۴۔ ﴿وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ۔ يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ ۔ وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ ﴾۷۴
’’اور بے شک گنہگار دوزخ میں ہیں۔ ڈالے جائیں گے اس میں انصاف کے دن اور نہ ہوں گے اس سے جدا ہونے والے۔،،
اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ پہلے بھی اس آگ سے بالکل محفوظ نہ تھے بلکہ قبروں میں اس کی تپش پا لیتے تھے۔۷۵
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ بنی آدم کے لیے تین حالات ہوتے ہیں:
حالت زندگی :
جس میں اس کا عمل محفوظ کیا جاتا ہے،آخرت کی حالت جس میں اسے بدلہ دیا جاتا ہے اور برزخ کی حالت جو اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:﴿وما هم عنها بغائبين﴾۷۶
۲۵۔﴿يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي﴾۷۷
’’اے وہ جی جس نے چین پکڑ لیا ،پھر چل اپنے رب کی طرف تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی،پھر شامل ہو میرے بندوں میں اور داخل ہو میری بہشت میں۔،،
بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین نے ان آیات سے استدلال کیا ہے کہ دنیا سے رخصت ہونے کے وقت بندہ سے یہ کہا جائے گا۔اور جو لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اسے یہ کہا جائے گا تو یہ اس کی منافی نہیں ہے اس لیےموت کے وقت بھی اسے یہ کہا جائے گا اور حشر کے وقت بھی کہا جائے گا ۔ یہ انہی بشارتوں میں سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ﴾۷۸
تو یہ نازل ہونا موت کے وقت بھی ہوگا ، قبر میں بھی ہوگا اور حشر کے وقت بھی ، اور آخرت کی پہلی بشارت موت کے وقت ہوتی ہے۔۷۹
۲۶۔﴿أَلْهَاكُمُ التَّكَاثُرُ حَتَّى زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ﴾۸۰
’’غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے یہاں تک کہ جا دیکھیں قبریں،،
یعنی تم مقبرہ کو پہنچ گئے اور اس میں دفن کیے گئے۔اس آیت میں عذابِ قبر کی صحت کی دلیل ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے خبردار کیا ہے کہ جس قوم کو مال کی کثرت نے دھوکے اور غفلت میں رکھا ہے تو قبروں میں جو کچھ ہے وہ جا کر عنقریب جان لیں گے ۔ یہ ان کے لیے وعید اور ڈانٹ ہے۔ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہم عذابِ قبر میں شک کرتے تھےیہاں تک کہ عذابِ قبر کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی۔۸۱
نتیجہ بحث:
نصوص با لا کی مجموعی مفہوم کو مد نظر رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مشرکین کی ارواح صبح وشام جہنم کے سا منے پیش کی جاتی ہىں۔باقی رہی یہ بات کہ یہ عذاب ہر وقت جاری اور باقی رہتا ہے یا نہیں؟یا یہ عذاب صرف روح کو ہوتا ہے یا جسم کو بھی؟اس کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺکو مدینے شریف میں کرایا گیا ہے اور آپ ﷺ نے اسے بیان فرمادیا۔پس حدیث و قرآن کو ملا کر حاصل یہ ہوا کہ عذاب وثواب قبر روح اور جسم دونوں کو ہو تا ہے۔
حواشی وحوالہ جات :
۱۔ابن تیمیہ، عبدالحلیم بن عبدالسلام ،محدث، امام ، مفسر ، فقیہ، حافظ، مجتہد،حنبلی ،صاحب التصانیف۱۰ ربیع الاول ۶۶۱ھ کو حران (دمشقمیں پیدا ہوئے۔والد نے ان کو دمشق منتقل کیا۔ علم و تقویٰ میں شہرت حاصل کرنے کی وجہ سےبعض معاصرین ان سے بغض رکھتے تھے۔ ایک مدت تک مشق کے فلعہ میں جیل کاٹنا پڑا۔دمشق کے قلعہ میں۲۲ ذی القعدہ ۷۲۸ ھ کو وفات پا گئے۔ان کی نمازِ جنازہ میں تقریباً پچاس ہزار آدمی شریک ہوئے۔ [الاعلام ۱: ۱۴۴،زرکلی ،خیر الدین بن محمود بن محمد،دارالعلم للملایین ،۲۰۰۲ء،ثلاث تراجم نفیسۃ للائمۃ الاعلام۱: ۲۱۔۲۷، امام ذہبی،محمد بن احمد بن عثمان،دارابن الاثیر،کویت،۱۴۱۵ھ]
۲۔مجموع الفتاوی۳: ۱۴۵،امام ابن تیمیہ،احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ،دارالوفاء،۱۴۲۶ھ
۳ا۔بن قیم، محمد بن ابی بکر بن ایوب زرعی، دمشقی، فقیہ،اصولی، مفسر،کثیر التصانیف ،نحوی۶۹۱ھ میں پیدا ہوئے۔قاضی تقی الدین سلیمان ،فاطمہ بنت جوہر،عیسیٰ مطعم ، ابن تیمیہ اور ابو بکر بن عبدالدائم سمیت ایک کثیر جماعت سے علم حاصل کیا۔ابن تیمیہ کی مصاحبت کو لازم رکھا ۔ان کے ساتھ جیل کی صعوبتیں برداشت کی۔جمعرات کی شب ۱۳ رجب ۷۵۱ھ کو وفات پا گئے۔ [الاعلام ۶: ۵۶’ المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد۲: ۳۸۴،امام برہان الدین، ابراہیم بن محمد،مکتبۃ الرشد، ریاض،۱۴۱۰ھ]
۴ا۔لروح۱: ۶۳،ابن قیم، محمد بن ابی بکر، دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۱۳۹۵ھ
۵ا۔لتعریفات۱: ۶۳،تعریف: ۲۷۹،علی بن محمد بن علی جرجانی،دارالکتاب العربی، بیروت،۱۴۰۵ھ
۶۔التوقیف علی مہمات التعاریف۱: ۱۲۴،محمد عبدالرؤف مناوی، دارالفکر المعاصر، بیروت،۱۴۱۰ھ
۷۔لسان العرب۳: ۸، ابن منظور، محمد بن مکرم بن منظور،دارصادر،بیروت
۸۔لتوقیف علی مہمات التعاریف۱: ۵۷۱
9۔سورۃ البقرۃ ۲ : ۲۸
۱۰۔جامع البیان۱: ۴۵۰،ابن جریر،محمد بن جریر بن یزید،مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۰ھ==
۱۱۔سورۃ البقرۃ ۲: 154
۱۲۔جامع البیان ۳: ۲۱۴،نص:۲۳۱۷
۱۳۔تفسیر قرطبی ۲:۱۷۳، امام قرطبی،محمد بن احمد بن ابی بکر،دارالکتب المصریہ، قاہرہ، ۱۳۸۴ھ
۱۴۔سورۃ اٰل عمران ۳: ۴۹
۱۵۔تفسیر قرطبی ۴: ۹۵
۱۶۔سورۃ ال عمران ۳: ۱۶۹
۱۷۔تفسیر قرطبی۴: ۲۶۹
۱۸۔تفسیر مفاتیح الغیب ۴: ۱۲۵،امام فخرالدین رازی،محمد بن عمر ،داراحیاء التراث العربی، بیروت
۱۹۔سورۃ اٰل عمران۳: ۱۷۰
۲۰۔تفسیر قرطبی۴: ۲۶۹
۲۱۔سورۃ نوح ۷۱: ۲۵
۲۲۔سورۃ غافر۴۰: ۴۶
۲۳۔مفاتیح الغیب ۹: ۴۲۶]
۲۴۔مفاتیح الغیب ۹: ۴۲۶
۲۵۔سورۃ الانعام۶: ۲
۲۶۔تفسیر مفاتیح الغیب12: 481
۲۷۔تفسیر قرطبی۹: ۳۳۱
۲۸۔تفسیر بغوی ۳: ۱۲۷، امام بغوی،حسین بن مسعود،دارطیبۃ للنشر والتوزیع،۱۴۱۷ھ
۲۹۔سورۃ الانعام ۶: ۹۳
۳۰ ۔الروح ۱: ۸۴
۳۱۔سورۃ الانعام ۶: ۹۸
۳۲۔جامع البیان ۱۱: ۵۷۱، نص:۱۳۶۵۹،از حسن
۳۳۔سورۃ التوبۃ ۹: ۱۰۱
۳۴۔تفسیر مقاتل بن سلیمان۳: ۵۱۴،ابو حسین،مقاتل بن سلیمان بن بشیر،دارالکتب العلمیہ، بیروت،۱۴۲۴ھ
۳۵۔تفسیر ابن ابی حاتم ۶: ۱۸۷۱، از ابی مالک ، ابن ابی حاتم، مکتبۃ ،صیدا
۳۶۔جامع البیان ۱۴: ۴۴۱
۳۷۔سورۃ ہود۱۱: ۱۰۶، ۱۰۷
۳۸۔تفسیر بغوی ۴: ۲۰۱
۳۹۔تفسیر بیضاوی۳: ۲۶۳، امام بیضاوی،عمر بن محمد، دارالفکر، بیروت
۴۰۔سورۃ ابراہیم ۱۴: ۲۷
۴۱۔تفسیر عبدالرزاق ۲: ۲۴۵، نص: ۱۴۰۹، از قتادہ، عبدالرزاق بن ہمام، دارالکتب العلمیہ، بیروت
۴۲۔جامع البیان۱۶: ۵۹۸،نص: ۲۰۷۷۱، از سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
۴۳۔سورۃ مریم ۱۹: ۶۴
۴۴۔تفسیر ابن ابی زمنین۱: ۴۰۶،ابو عبداللہ ، محمد بن عبداللہ بن ابی زمنین، الفاروق الحدیثۃ للطباعۃ والنشر،۱۴۲۳ھ
۴۵۔معانی القرآن للنحاس۴: ۳۴۴،ابوجعفر،احمد بن محمد بن اسماعیل،جامعۃ ام القریٰ،۱۴۰۹ھ ،تفسیر قرطبی ۱۱: ۱۲۹
۴۶۔سورۃ طٰہٰ ۲۰: ۱۲۴
۴۷۔جامع البیان ۱۸: ۳۹۳
۴۸۔سورۃ المؤمنون۲۳: ۱۰۰
۴۹۔جامع البیان ۱۹: ۷۰، ابن جریر،ابوجعفر، محمد بن جریربن یزید،مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۰ھ
۵۰۔ابو عبداللہ ، محمد بن احمد بن ابی بکربن فرح اہلِ قرطبہ کے کبار مفسرین میں سے ہیں ۔انتہائی عبادت گزار تھے۔ مشرق میں مصرکو ہجرت کرکے منیہ ابن خصیب نامی علاقہ میں رہائش اختیار کی ۔حد درجہ سادگی اختیار کرتے تھے۔۶۷۱ھ میں وفات پا گئے۔ [الاعلام ۵: ۳۲۲]
۵۱۔تفسیر قرطبی ۱۲: ۱۵۰، از ضحاک، مجاہد وابن زید،امام قرطبی، ابو عبداللہ ، محمد بن احمد بن ابی بکر،دارالکتب المصریہ، قاہرہ،۱۳۸۴ھ
۵۲۔سورۃ الروم ۳۰: ۵۶
۵۳۔درمنثور۱۱: ۶۱۲،سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، دارہجر، مصر،۱۴۲۴ھ
۵۴۔سورۃ السجدۃ ۳۲: ۲۱
۵۵۔جامع البیان ۱۸: ۶۳۱،نص:۲۸۵۱۸،از مجاہد
۵۶۔الروح ۱: ۸۴
۵۷۔سورۃ یس ۳۶: ۵۱
۵۸۔جامع البیان ۲۰: ۵۳۱، تفسیر قرطبی ۱۵: ۴۰
۵۹۔سورۃ یس ۳۶: ۵2
۶۰۔تفسیر ابن کثیر ۶: ۵۸۱،ابن کثیر،اسماعیل بن عمر بن کثیر،دارطیبۃ للنشر والتوزیع، ۱۴۲۰ھ
۶۱۔سورۃ الزمر ۳۹: ۶۸
۶۲۔تفسیر قرطبی ۱۵: ۴۰
۶۳۔مفاتیح الغیب ۲۶: ۲۹۱
۶۴۔سورۃ غافر۴۰: ۱۱
۶۵۔جامع البیان ۱: ۴۲۳
۶۶۔سورۃ غافر۴۰: ۴۶
۶۷۔تفسیر قرطبی ۱۵: ۳۱۹
۶۸۔سورۃ الطور ۵۲: ۴۷
۶۹۔جامع البیان ۲۲: ۴۸۷، ۴۸۸
۷۰۔الروح ۱: ۸۴
۷۱۔سورۃ نوح ۷۱: ۲۵
۷۲۔تفسیر قرطبی ۱۸: ۳۱۱، از قشیری’تفسیر مفاتیح الغیب ۴: ۱۲6
۷۳۔تفسیر مفاتیح الغیب ۴: ۱۲6
۷۴۔سورۃ الانفطار ۸۲: ۱۴، ۱۵، ۱۶
۷۵ ۔تفسیر بیضاوی۵: ۴۶۱’ تفسیر کشاف ۴: ۷۱۷،زمخشری ،جاراللہ، محمود بن عمر،دارالکتاب العربی، بیروت،۱۴۰۷ھ
۷۶۔تفسیر کشاف ۴: ۷۱۷
۷۷۔سورۃ الفجر ۸۹: ۲۷، ۲۸ ،۲۹،۳۰
۷۸۔سورۃ فصلت ۴۱: ۳۰
۷۹۔الروح ۱: ۹۳
۸۰۔سورۃ التکاثر۱۰۲: ۲
۸۱۔جامع البیان۲۴: ۵۸۰
فہرس مصادر ومراجع [List of Bibliography]
۱۔قرآن کریم
۲۔الاعلام ،زرکلی ،خیر الدین،بن محمود بن محمد،دارالعلم للملایین ،۲۰۰۲ء
۳۔تفسیر ابن ابی حاتم ، ابن ابی حاتم، مکتبۃ ،صیدا
۴۔تفسیر ابن ابی زمنین۱: ۴۰۶،ابو عبداللہ ، محمد بن عبداللہ بن ابی زمنین، الفاروق الحدیثۃ للطباعۃ والنشر،۱۴۲۳ھ
۵۔تفسیر ابن کثیر،ابن کثیر،اسماعیل بن عمر بن کثیر،دارطیبۃ للنشر والتوزیع، ۱۴۲۰ھ
۶۔تفسیر بغوی ،امام بغوی،حسین بن مسعود،دارطیبۃ للنشر والتوزیع،۱۴۱۷ھ
۷۔تفسیر بیضاوی، امام بیضاوی،عمر بن محمد، دارالفکر، بیروت
۸۔تفسیر جامع البیان،ابن جریر،محمد بن جریر بن یزید،مؤسسۃ الرسالۃ،۱۴۲۰ھ
۹۔تفسیر درمنثور،سیوطی، عبدالرحمن بن ابی بکر، دارہجر، مصر،۱۴۲۴ھ
۱۰ ۔تفسیر عبدالرزاق، عبدالرزاق بن ہمام، دارالکتب العلمیہ، بیروت
۱۱۔تفسیر قرطبی ،امام قرطبی، ابو عبداللہ ، محمد بن احمد بن ابی بکر،دارالکتب المصریہ، قاہرہ،۱۳۸۴ھ
۱۲۔تفسیر کشاف،زمخشری ،جاراللہ، محمود بن عمر،دارالکتاب العربی، بیروت،۱۴۰۷ھ
۱۳ ۔تفسیر معانی القرآن للنحاس،ابوجعفرنحاس،احمد بن محمد بن اسماعیل،جامعۃ ام القریٰ،۱۴۰۹ھ
۱۴۔تفسیر مفاتیح الغیب ،امام فخرالدین رازی،محمد بن عمر ،داراحیاء التراث العربی، بیروت
۱۵۔تفسیر مقاتل بن سلیمان،ابو حسین،مقاتل بن سلیمان بن بشیر،دارالکتب العلمیہ، بیروت،۱۴۲۴ھ
۱۶۔التعریفات،علی بن محمد بن علی جرجانی،دارالکتاب العربی، بیروت،۱۴۰۵ھ
۱۷۔التوقیف علی مہمات التعاریف۱: ۱۲۴،محمد عبدالرؤف مناوی، دارالفکر المعاصر، بیروت،۱۴۱۰ھ
۱۸۔ثلاث تراجم نفیسۃ للائمۃ الاعلام، امام ذہبی،محمد بن احمد بن عثمان،دارابن الاثیر،کویت،
۱۹۔الروح،ابن قیم، محمد بن ابی بکر، دارالکتب العلمیہ ،بیروت،۱۳۹۵ھ
۲۰۔لسان العرب، ابن منظور، محمد بن مکرم بن منظور،دارصادر،بیروت
۲۱۔مجموع الفتاوی،امام ابن تیمیہ،احمد بن عبدالحلیم بن تیمیہ،دارالوفاء،۱۴۲۶
۲۲۔المقصد الارشد فی ذکر اصحاب الامام احمد،امام برہان الدین، ابراہیم بن محمد،مکتبۃ الرشد، ریاض،۱۴۱۰ھ
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |