32
1
2016
1682060034497_937
1-21
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/135/127
پاکستان میں اس وقت مختلف مکاتب فکر کے ساتھ منسلک تقریباً پچاس ہزار سے زائد باضابطہ دینی مدارس قائم ہیں۔ ان جامعات دینیہ سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلبہ اور طالبات فراغت حاصل کرتے ہیں جو معاشرے کی مذہبی ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور دینی معاملات میں لوگوں کو رہنمائی فراہم کرتے ہیں(1) ۔ اس وقت پاکستان میں کوئی ایسا شہر، گاؤں یا محلّے کا باسی اس بات کی شکایت نہیں کرسکتا کہ ان کے لئے یا ان کے بچوں کی دینی تعلیم اور امامت اور خطابت کے لئے کوئی حافظ/قاری/معلّم/امام یا خطیب دستیاب نہیں بلکہ ان کی خدمات سے مغربی اور افریقی ممالک کے مسلمان بالخصوص ایشیائی پس منظر سے تعلق رکھنے والے بھی مستفید ہورہے ہیں(2) ۔
دینی مدارس کے موجودہ نظام اور بالخصوص نصاب کے بارے میں تاہم، ایک عرصے سے علمی جائزے سامنے آرہے ہیں۔ اس سلسلے میں اولین تنقیدی مطالعہ شاید مولانا ابوالکلام آزاد کا ہے، جنہوں نے 22 فروری 1947 ءکو لکھنو میں عربی نصاب کمیٹی کے اجلاس میں خطاب کے دوران دینی مدارس کے نظام اور نصاب کے بارے میں متعدد عمیق نکات پیش کئے(3) ۔
حقیقت یہ ہے کہ اس موضوع پر اب تک جتنا بھی سوچا گیا ہے اور جتنی بھی تحقیق سامنے آئی ہے، وہ بڑی سطحی ہے اور مسئلے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش تاحال کامیاب نہیں ہوئی۔ دینی مدارس کا قضیہ اب تک ایک ’’مشکل معمّہ‘‘ ہے، جس پر مسلسل مکالمہ علمی حلقوں کے اوپر پاکستانی عوام کا قرض ہے۔ 7 ستمبر 2015کو دینی مدارس کے پانچ وفاقوں کے سربراہان، وزیراعظم جناب نواز شریف صاحب اور وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کے درمیان وزیراعظم سیکرٹریٹ میں مشترکہ اجلاس پاکستان کی تاریخ کا اس حوالے سے اہم ترین اجلاس قرار دیا جاسکتا ہے، کہ دینی مدارس کے موضوع پر پہلی مرتبہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان صاحب بھی مدعو تھے۔ ڈی جی، آئی ایس آئی کی موجودگی سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ کچھ اہم ’’اسرار‘‘ بھی ضرور زیر بحث آگئے ہوں گے، جن کو ’’برسرعام‘‘ بحث کا موضوع بنانے سے اب تک احتراز کیا جاتا رہا ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ مدارس کی رجسٹریشن کو آسان بنایا جائے گا۔ دینی مدارس کی آمدن اور اخراجات کی تفصیلات کو دستاویزی بنانے کے لئے بنکوں میں ان کے اکاؤنٹس کھولنے کے لئے مراحل آسان بنائے جائیں گے اور مدارس کے حسابات کا آڈٹ کیا جائے گا۔ عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب کی تشکیل کے لئے کمیٹی قائم کی جائے گی۔ ظاہر ہے، اس قسم کے فیصلے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن عملی نتیجہ اب تک سامنے نہیں آیا۔ تاہم اس اجلاس کی ’’خصوصی نوعیت‘‘ کی وجہ سے یہ امکان ہے کہ عملی پیش رفت کی طرف اقدامات شروع ہوجائیں گے۔ اگرچہ مختصر مدت میں اس مقصد کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔ ایک سال میں طریقہٴ کار (roadmap) بھی طے ہوجائے تو یہ بڑی بات ہوگی۔ اس اجلاس کے انعقاد کے آٹھ مہینے گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی عملی اقدام سامنے نہیں آیا۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ رجسٹریشن کے ذریعے یا ریاضی، کمپیوٹر سائنس اور جنرل سائنس کے مضامین متعارف کراکر دینی مدارس کو عصری سرکاری اداروں کی طرح بنا دیا جائے گا۔ ایسا سوچنا خام خیالی ہے۔ کیا وہ ادارے جو باقاعدہ رجسٹرڈ ہیں، ان سے مختلف ہیں جو رجسٹرڈ نہیں ہیں؟ علاوہ ازیں اب تو دینی مدارس کے طلبہ/طالبات کی بہت بڑی تعداد عصری سرکاری اداروں میں میٹرک، ایف. اے یا بی. اے کی سند/ڈگری کے حامل ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر کے استعمال میں دینی مدارس کے طلبہ/طالبات کا ایک بڑا حلقہ عصری کالجوں اور جامعات کے طلباء سے زیادہ ماہر ہے۔ مدارس کے بہت سے فارغ التحصیل طلبہ/طالبات کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طالب علموں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں اردو اور انگریزی سمجھتے اور بولتے ہیں۔
جامعات دینیہ کا اصل مسئلہ دراصل مذہبی موضوعات اور عالمی حالات کے بارے میں وہ بیانیہ ہے جو ان کے اندر ’’تقدس‘‘ کا درجہ حاصل کرچکا ہے۔اس عمومی بیانیے کے مشتے نمونہٴ از خروارے،لیکن نمایاں خدوخال مندرجہ ذیل ہیں:
۱۔مسلمانوں ہی کو دنیا میں غلبہ کا حق حاصل ہے۔ غلبہ سے ان کی مراد سیاسی اور فوجی غلبہ ہے۔ مسلمانوں کی سیاسی اور فوجی بالادستی کو وہ غلبہٴ دین (اسلام) قرار دیتے ہیں۔
۲۔بیرونی قوتوں (خصوصاً امریکہ اور یہود کی سازشوں کی وجہ سے) مسلمان اپنے (غلبہ/بالادستی) سے محروم ہیں۔ نظریہٴ سازش (conspricay theory) دینی مدارس کے ماحول کا ’’جزو لاینفک‘‘ ہے۔ ان کے نزدیک یہ سازشیں 1400 سال سے جاری ہیں اور جاری رہیں گی۔ یہود اور مسیحی مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں بن سکتے۔ ان کے ساتھ زندگی کے مختلف میدانوں میں تعامل بہت محدود ہونا چاہئے۔ ان پر کبھی اعتماد نہیں کیاجانا چاہئے۔ افغانوں اور روس کے درمیان جنگ میں پوری دُنیا کے مسلم مزاحمتی احزاب اور امریکی سی.آئی.اے کے درمیان بہترین تعلقات اور امریکی حکومت اور عوام کی فراخدلانہ مالی اور سیاسی تعاون کی فراہمی جیسی حقیقتیں اس تناظر میں ذھن کو ماؤف کرنے والے سوالات جنم لیتے ہیں۔ لیکن دینی مدارس میں دقت نظر سے ایسے سوالات کو نہیں دیکھا جاتا۔
۳۔دینی مدارس میں مسلمانوں اور مسیحیوں کے درمیان دور وسطیٰ کی صلیبی جنگوں (الحروب الصلیبية) کا سرسری ذکر عام ہے۔ لیکن ان جنگوں کے اسباب اور تفصیلات سے پوری طرح آگاہی مفقود ہے۔ عام طورپر خیال کیا جاتا ہے کہ مسیحی دنیا اب بھی مسلمانوں پر یلغار میں مصروف ہے۔ عالمگیریت اور بعد از عالمگیریت کی نئی صف بندیوں اور مغرب میں غیر مذہبی اساس پر حکومت اور معاشرے کے قیام کی تاریخ اور اطلاقات کے مشکل موضوعات کے تناظر میں عالمی صورت حال کے جائزے کا ادراک موجود نہیں۔ لندن میں حال ہی مىں ایک میئر کے عہدے کے انتخابى مقابلے مىں مسلمان صادق خان نے ارب پتی یہودی زنک گولڈ سمتھ کو شکست دی۔ اس قسم کے واقعات کے حقائق اور اطلاقات اور ان سے نتائج اخذ کرنے کیلئے ان کے ہاں کوئی روایت موجود نہیں۔
۴۔یہ سوچ عام ہے کہ مسیحی مغرب کو خوف ہے کہ اسلام بڑی تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اور اس کو محدود رکھنے اور بدنام کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے نزدیک رسول اﷲ ﷺ کے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اسی ذہنیت کی غمّاز ہے۔
۵۔مسلمانوں کی تاریخ کے بارے میں بھی مدارس کا بیانیہ بڑا جذباتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں نے ماضی میں اندلس، سسلی اور ہندوستان کو فتح کیا۔ مغرب اور ہنود اس کا بدلہ لینے کے لئے مستعد ہیں۔
جن بادشاہوں نے ان ممالک کو فتح کیا، ان کو دینی مدارس میں انتہائی عقیدت کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے۔ حتی کہ ہندوستان کے مغلیہ خاندان کے اُن بادشاہوں کو بھی اسلام کے نمائندہ حکمران سمجھا جاتا ہے، جن کے طرز حکومت کی اساس بالکل غیر مذہبی (سیکولر) رہی، مثلاً ظہیرالدین بابر۔ مغلیہ حکمران اورنگ زیب عالمگیر کا احترام تو اتنا زیادہ ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بعد انہیں خلیفہ راشد ششم کے برابر درجہ دیا جاتا ہے۔
۶۔دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے خیال میں کوئی مسلمان 9/11 کے واقعے کا ذمّہ دار نہیں۔ یہ یہودیوں کا کیا دھرا ہے تاکہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے لئے مضبوط بہانہ تلاش کیا جاسکے۔
۷۔دینی مدارس میں ملالہ یوسف زئی اور عافیہ صدیقی کا تقابل کیا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مغرب کے رویّے کو سخت ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔
دونوں خواتین کے ساتھ مغرب کے رویّے کے پس منظر کا تحقیقی مطالعہ نہیں کیا جاتا۔ دینی مدارس میں ان کے تقابل کو قیاس مع الفارق (inconsistent anology) نہیں سمجھا جاتا، نہ ہی ان دونوں کی صورت حال کے پس منظر کے درمیان فرق کا تحلیلی تجزیہ کیا جاتاہے۔
۸۔دینی مدارس میں یہ خیال عام ہے کہ ان کا موجودہ نظام اور نصاب دشمنان اسلام کی آنکھوں میں بری طرح کٹھک رہا ہے اور ہر اس کو ناکام بنانے کے لئے قسم قسم کے منصوبے تشکیل و ترتیب دے رہے ہیں۔
ان کے خیال میں دینی تعلیم کا مقصد مالی منفعت یا اجرت نہیں، بلکہ اجر کا حصول ہے۔ موجودہ نصاب تعلیم ان کے ہاں رسوخ فی العلم کے لئے اعلیٰ ترین کاوش ہے۔ اس کو تقدّس کا درجہ دیا جاتا ہے۔
۹۔مدارس کے ماحول میں حدیث شریفالجهاد ماض إلى يوم القيامة (جہاد قیامت تک جاری رہے گا) زبان زدخاص و عام ہے۔
اس حدیث کے مالہ و ماعلیہ کے بارے میں عام طورپر جزوی تفصیلات زیربحث نہیں آتیں۔ امام محمد الشیبانی کی کتاب السیر چونکہ نصاب کا حصّہ نہیں، اس لئے اصول، و آداب الحرب (قوانین جنگ) کے مطالعے کا فقدان ہے۔ اس وجہ سے مدارس میں جہاد کے لئے ضروری ماحول، شرائط اور تقاضوں کے بارے میں شدید ابہامات موجود ہیں اور خلط مبحث عام ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں مسلّح جدوجہد کے بارے میں کھل کر عدم اتفاق کی روایت عام نہیں (اگرچہ گزشتہ سالوں میں متعدّد بار دیوبندی علماء کے بین الاقوامی اجتماعات میں مسلح جدوجہد کے بجائے پرامن اور آئینی جدوجہد کو ہی اسلام کے تقاضوں سے ہم آہنگ قرار دیا گیا)۔
10۔دینی مدارس میں مسلمان ممالک کے غیرمسلم شہریوں کو ’’ذمیّ‘‘ قرار دیا جاتاہے۔ گزشتہ صدی کے دوران تشکیل شدہ قومی ریاستوں اور شہریت کے جدید تصّورات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر نئی جغرافیائی حقیقتوں نے جو منظرنامہ ترتیب دیا ہے، اس کو اسلامی اصولوں کے تناظر میں مطالعہ کی کوئی علمی سعی دکھائی نہیں دے رہی۔ ظاہر ہے کہ قومی ریاستوں کی تشکیل کے بعد دارالاسلام، دار الحرب، دار الامن اور دار العہد کی اصطلاحات کے ازسرنو فقہی انطباق کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے قیام کے بعد تمام ممالک کسی نہ کسی طرح معاہدات کے بندھنوں میں بندھ گئے ہیں اور دنیا کے بیشتر ممالک کسی نہ کسی طرح دار العہد کی حیثیت اختیار کرگئے ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان شملہ سمجھوتہ، اعلان لاہور اور اوفا مفاہمت موجود ہیں۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان بھی متعدّد معاہدات پر دستخط ہوچکے ہیں۔ ان جیسے معاہدات کی موجودگی میں اقلیّتوں اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات کیسے ہوں؟ یہ سوالات دینی مدارس میں شاذو نادر ہی زیربحث لائے جاتے ہیں۔
11۔کسی ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے فوری مظاہر کے حوالے سے جامعات دینیہ میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ حدود کا فوری نفاذ اور مرد و زن کے درمیان اختلاط کے مواقع پر پابندی ہی اولین ترجیحات ہونی چاہئیں۔ قومی دولت کو شہری سہولیات کے یقینی بنانے، اچھی حکومت (good governance) دینے اور فلاحی اقدامات کے تصّورات ان کے ہاں بعد کی ترجیحات ہیں۔ بہتر نظام حکومت کے قیام کی جڑیں اسلامی روایات میں جس طرح پیوست ہیں، وہ مثالیں عام طورپر زیر بحث نہیں آتیں۔ حضرت عمر فاروقؓ کے قائم کردہ فلاحی اور اچھی حکومت کے اصول اور ماضی قریب میں شاہ ولی اﷲ ؒ اور مولانا عبیداﷲ سندھیؒ نے اس حوالے سے جتنا علمی سرمایہ فراہم کیا ہے، اس کے مطالعے کا رحجان کم دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی مدارس میں افغانستان میں طالبان کا عہد حکومت اور تصّور اسلام مثالی سمجھا جاتا ہے جب کہ ترکی میں طیب اردعان کی جدوجہد اور ایک سخت غیر مذہبی (سیکولر) ماحول میں اسلامی اقدامات کے لئے مواقع (space) پیدا کرنے میں ان کی کامیابیوں کا ادراک مفقود ہے۔
۱۲۔دینی مدارس میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کے قصّے احساس تفاخر کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں۔ لیکن عصر حاضر سے مسلمانوں کی ہر لحاظ سے پس ماندگی کی وجوہات اور اسباب تلاش کرنے کے لئے ’’خود احتسابی‘‘ ان کے بیانیے کا پسندیدہ موضوع نہیں۔ وہ زیادہ سے زیادہ مبہم انداز میں یہ کہنے پر اکتفا کرلیتے ہیں کہ دین سے دوری ہی ان سب مسائل کا سبب ہے(4) ۔
دینی جامعات میں (اور جامعات سے باہر بھی) مقبول عام اس بیانیے کے فکری و نظریاتی اثرات سے قومی، علاقائی اور عالمی حالات کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان مدارس کے معلمین اور متعلمین کے ساتھ جدید معاشرتی علوم، جدید سیاسیات، عالمی تاریخ، بین الاقوامی تعلقات کی نئی جہتوں اور عصرحاضر کے علمیّاتی موضوعات پر علمی تعامل کی راہیں تلاش کی جائیں تاکہ عالمی معاملات اور حقائق کے بارے میں ان کے نقطہٴنظر (world view) کے علاوہ متبادل بیانیہ بھی ان کے سامنے پیش کیا جاسکے۔
اس مجموعی بیانیے میں اس وقت ظہور مہدی علیہ السلام اور دجال کی آمد کے حوالے سے روایات کا مطالعہ بھی مقبول ہوتا جارہا ہے اور وقوع پذیر واقعات کا انہی روایات کے تناظر میں تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے ضرورت ہے کہ دینی طبقات میں حالات حاضرہ کے ناقدانہ جائزہ کی حوصلہ افزائی کی شروعات کی جائیں اور متعدد دیگر موضوعات کے علاوہ مندرجہ ذیل سوالات بھی ان کے سامنے غور وخوض کے لئے پیش کئے جائیں اور ان پر ان کی علمی رہنمائی حاصل کی جائے۔ یہ سوالات ماہنامہ الشریعہ، گوجرانوالہ کے ایڈیٹر مولانا محمدعمارخان ناصر نے انتہائی محنت سے ترتیب دئیے ہیں۔ ذیل میں ان سوالات کو من و عن درج کیا جاتا ہے:
(i)دنیا میں تہذیبی و سیاسی غلبے سے متعلق سنت الہٰی کیا ہے؟کیا یہ معاملہ سر تا سرانسانی تدبیر سے متعلق ہے یا اس میں تکوینی فیصلے کار فرما ہوتے ہیں؟ اس ضمن میں تکوینی مشیت الہٰی اور انسانی تدبیر میں سے اصل اور اساس کی حیثیت کس کو حاصل ہے؟
(ii)سنت الہٰی کی رو سے کسی قوم کو دنیا میں غلبہ و اقتدار حق و باطل کے ساتھ وابستگی کی بنیاد پر دیا جاتا ہے یا اس کی بنیاد کسی دوسرے اصول پر ہے؟ پوری انسانی تاریخ میں جن جن قوموں اور تہذیبوں کو دنىا میں عالمی اقتدار حاصل رہا ہے، کیا وہ سب کی سب حق کی پیروکار تھیں؟ نیز ان قوموں کو یہ سیادت و اقتدار کسی تکوینی سنت الہٰی کے تحت ملا تھا یا وہ مشیت الہٰی کے علی الرغم اس پر قابض ہوگئی تھیں؟
(iii)کسی قوم کو سنت الہٰی کے تحت غلبہ و اقتدار دیا جائے اور پھر وہ روبہ زوال ہوجائے توقانون الہٰی کے تحت اس کی بنیادی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ اس کے اسباب اصلاً داخلی ہوتے ہیں یا خارجی؟ کیا کوئی مخالف گروہ محض اپنی سازشوں کے ذریعے سے کسی سربلند قوم کو زوال سے ہمکنار کرسکتا ہے؟ (اس ضمن میں ذَلِكَ بِأَنَّ اللّهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنفُسِهِمْ کے اصول پر خاص توجہ کی ضرورت ہے)۔
(iv)اگر کسی قوم کی منصب سیادت سے معزولی کا فیصلہ اخلاقی اصولوں کے تحت تکوینی سطح پر ہوتا ہے تو کیا اس کو محض انسانی تدبیر سے بدلا جاسکتا ہے؟
(v)اگر کوئی قوم صدیوں کے عمل کے نتیجے میں زوال کا شکار ہوئی ہے تو کیا اس صورت حال کو سالوں کی جدوجہد سے بدلا جاسکتا ہے؟ دوسرے لفظوں میں انسانی تاریخ کی سطح پر رونما ہونے والے کسی ہمہ گیر اور جوہری تغیر کو (short term strategy) کے ذریعے سے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟
(vi)اگر حق کی حامل کوئی قوم سنت الہٰی کے مطابق غلبہ و سیادت کے لئے مطلوبہ اوصاف سے محرومی کے بعد زوال سے ہمکنار کردی جائے تو کیا محض، جہاد شروع کردینے سے اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہوجائے گا؟ دوسرے لفظوں میں، جہاد، غلبہ و سیادت کی ایک مکمل اسکیم کا جزو اور حصہ ہے یا محض یہ ایک نکاتی ایجنڈا ہی مطلوبہ نتیجے تک پہنچا دینے کا ضامن ہے؟
(vii)کیا کسی قوم کو اس کے تہذیبی و سیاسی غلبے کے دور عروج میں طاقت کے زورپر شکست دی جاسکتی ہے؟ اس ضمن میں انسانی تاریخ کے مسلسل واقعات ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں؟
(viii)مسلح تصادم کو بطور حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے نفع و نقصان کے تناسب اور طاقت کے توازن کے سوال کی اہمیت کتنی ہے؟ اس حوالے سے قرآن و سنت اور فقہ اسلامی ہماری کیا راہنمائی کرتے ہیں؟
(ix)روحانی سطح پر امت میں ایمان، یقین، اعلیٰ کردار اور بلند اخلاق کے اوصاف اجتماعی سطح پر پیدا کیے بغیر کیا محض عسکری جدوجہد سے مغرب کے غلبہ کو امت مسلمہ کے غلبے سے تبدیل کردینا ممکن ہے؟
(x)امت مسلمہ میں داخلی سطح پر مذہبی، سیاسی اور نسلی تفریقات کی موجودگی میں اور ٹھوس سیاسی و عمرانی بنیادوں پر ان کا کوئی حل نکالے بغیر کیا بطور امت، مسلمانوں میں وہ وحدت پیدا ہوسکتی ہے جو بطور ایک تہذیب کے، مغرب کی سیادت کو چیلنج کرنے کے لئے درکار ہے؟
(xi)کیا دنیا پر مغرب کا استیلاء محض عسکری اور سیاسی و اقتصادی ہے یا اس کے پیچھے فکر و فلسفہ کی قوت بھی کار فرما ہے؟
حیات و کائنات اور انسانی معاشرت سے متعلق مغرب نے مذہب کی نفی پر مبنی جو افکار و نظریات پیش کیے اور متنوع انسانی علوم و فنون کی مدد سے انہیں ایک طاقتور متبادل فلسفہٴ حیات کے طورپر منوالیا ہے، ان کا سحر توڑے بغیر کیا محض عسکری میدان میں نبرد آزمائی سے مغرب کے استیلاء کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے؟
(xii)انسانی تاریخ کی روشنی میں، کیا حق کے، باطل پر غالب آنے کی یہی ایک صورت ممکن ہے کہ حق کاحامل گروہ جو مغلوب ہوگیا ہو، اسے دوبارہ غلبہ حاصل ہوجائے یا اس سے مختلف صورتیں بھی ممکن ہیں؟ مثلاً یہ کہ باطل سے وابستہ کوئی غالب گروہ طاقت کے میدان میں اہل حق سے مغلوب ہوئے بغیر دعوتِ حق سے مغلوب ہوکر اس کی پیروی اختیار کرلے؟ (جیسے مسیحیت کی تاریخ میں رومۃ الکبریٰ کے مسیحی مذہب کو اختیار کرلینے سے اور اسلامی تاریخ میں تاتاریوں کے حلقہ بگوش اسلام ہوجانے کی صورت میں ہوا)۔
(xiii)دنیا میں اسلام کو دوبارہ غلبہ حاصل ہونے کے ضمن میں ظہور مہدی اور نزول مسیح علیہ السلام سے متعلق جن پیشین گوئیوں کی بنیاد پر ایک تصورِ مستقبل قائم کیا جاتا ہے، کیا وہ علمی و شرعی طورپر کسی حکمت عملی کا ماخذ بن سکتی ہیں؟ یعنی کیا اس چیز کو حکمت عملی کی بنیاد بنایا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ایسے حالات پیدا کرنے کی سعی کی جائے جس میں مذکورہ شخصیات کا ظہور ہونا ہے؟ ان شخصیات کے ساتھ بلکہ ان سے پہلے دجال کے ظہور کی بات بھی روایات میں بیان ہوئی ہے جس سے تمام انبیاء پناہ مانگتے آئے ہیں۔ ایسی صورت میں ظہور دجال کے لئے حالات کو ہموار کرنے کی شعوری کوششوں کی دین و شریعت کے نقطہٴ نظر سے کیا حیثیت ہوگی؟
(xiv)مذکورہ واقعات سے متعلق روایات کیا اتنی واضح، مربوط اور مفصل و منضبط ہیں کہ ان سے کسی مخصوص تاریخی دور کے ظہور اور واقعات کی ترتیب کا ایک واضح نقشہ اخذ کیا جاسکے؟ کیا تمام متعلقہ روایات علم حدیث کی روسے اس درجے کی ہیں اور ان میں بیان ہونے والے تمام تر اجزاء اور ان کی زمانی و واقعاتی ترتیب اتنی قطعی اور واضح ہے کہ ان پر باقاعدہ ایک حکمت عملی کی بنیاد رکھی جاسکے؟
(xv)کسی بھی صورت حال میں دینی جدوجہد کی ذمہ داری کی نوعیت اور اہداف طے شدہ ہیں یا اضافی؟ یعنی کیا اہل ایمان ہر طرح کی صورت حال میں پابند ہیں کہ ایک ہی طرح کے اہداف کے حصول کیلئے جدوجہد کو اپنی ذمہ داری تصور کریں یا یہ کہ اس کا تعلق حالات و ظروف سے ہے؟ اس ضمن میں انبیائے سابقین میں سے، مثال کے طورپر حضرت یوسف علیہ السلام اور حضرت مسیح علیہ السلام نے جو طریقہ اختیار فرمایا، وہ اسی طرح کے حالات میں امت محمدیہ کے لئے بھی قابل استفادہ ہے یا نہیں؟ نیز کسی بھی صورت حال میں کسی ہدف کے حصول کے لئے جدوجہد کے لئے حکمت عملی کا مسئلہ منصوص، متعین اور بے لچک ہے یا اجتہادی؟
(xvi)کسی بھی صورت حال میں بحیثیت مجموعی پوری امت کیلئے یا کسی مخصوص خطے میں اس علاقے کے مسلمانوں کے لئے حکمت عملی متعین کرنے کا حق کس کو حاصل ہے؟ کیا یہ اہل ایمان کا اجتماعی حق ہے یا اس میں کسی مخصوص گروہ کو باقی امت کے مقابلے میں زیادہ فضیلت اور اختیار حاصل ہے؟ دوسرے لفظوں میں، کیا کسی گروہ کو یہ حق ہے کہ وہ اپنے تئیں کسی ایسی حکمت عملی کا تعین کرکے اس پر عمل شروع کردے جس کے نتائج عمومی طورپر مسلمانوں کو بھگتنا پڑیں، حالانکہ اقدام کرنے والے گروہ کو عمومی طورپر مسلمانوں کا اعتماد یا ان کی طرف سے امت کے اجتماعی فیصلے کرنے کا اختیار نہ دیا گیا ہو؟‘‘ (5) اگر دینی مدارس میں اس قسم کے سوالات پر علمی مباحثے کی شروعات کی جائیں تو اُمید کی جاسکتی ہے کہ متعدّد ابہامات کی گتھیاں از خود سلجھنا شروع ہوجائیں گی اور ایک زیادہ واضح اور مدلّل مذہبی بیانیے کی تشکیل ممکن ہوجائے گی۔
دینی مدارس میں مروج نصاب (درس نظامی) کے بارے میں مدارس سے منسلک معلّمین اور متعلمین میں خاصی حساسیت پائی جاتی ہے اور وہ اس نصاب کو مقدّس قرار دیتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عصرِحاضر کا تقاضا ہے کہ موجودہ نصاب پر پوری نیک نیتی کے ساتھ ایک کھلے مباحثے کی داغ بیل ڈالی جائے۔ حکومت کو چاہئے کہ کسی متعلّقہ ادارے مثلاً ہائیرایجوکیشن کمیشن (ایچ.ای.سی) کو اس مقصد کے لئے مناسب رقم مہیّا کرے، تاکہ ملک بھر میں علماء کرام کے ساتھ مشاورت ہو اور ایک بھرپور قومی علماء مشاورت کے نتیجے میں جدید نصابی اصولوں کے ساتھ ہم آہنگ دستاویز تیار کی جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ درسِ نظامی کا موجودہ نصاب مختلف مراحل سے گزرا ہے اور علماء و اساتذہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مناسب تبدیلیاں کی ہیں لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ دورِ معاصر کی نصابی اصولوں کے تحت اس قابل قدر علمی ورثے کا بھی ازسرِنو جائزہ لیا جائے اور اس کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔ فقہی نصاب کے حوالے سے خلاصہ کیدانی، منیۃ المصلّی، المختصر القدوری، نور الایضاح، کنزالدقائق، مختصرالحقائق، مستخلص، شرح الیاس، شرح الوقایہ اور کتاب الہدایہ کو خاصی شہرت حاصل رہی ہے۔ اس وقت ان میں سے اول الذکر دو کتابیں اور مستخلص و شرح الیاس کو ہٹا دیا گیا ہے، جب کہ باقی کتب کو التزام کے ساتھ پڑھایا جاتا ہے۔ اِن کتب کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ اس نصاب سے گزر کر مدارس دینیّہ نے مختلف ادوار میں دینی و فقہی مسائل میں مسلمانوں کی رہنمائی کے لئے بڑے بڑے فقہاء پیدا کیے ہیں۔
موجودہ دور میں، تاہم اس بات کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے کہ موجودہ قابل قدر فقہی ذخیرے کی زیادہ بہتر ترتیب کے ساتھ تشکیل جدید کی جائے۔ موجودہ دور علمی حوالے سے بہت سخت مقابلے کا دور ہے اور اب مختلف میادین علم کے پرانے نصابوں میں مناسب تبدیلیاں کی جارہی ہیں۔ کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دیگرذرائع نے معلومات کے حصول کو بہت آسان بنا دیا ہے۔ نئے حالات نے نئے سوالات کو جنم دیا ہے۔ آج کے نئے ذہن کو مربوط اور محکم دلائل کے بغیر آسانی سے قائل نہیں کیا جاسکتا۔ آج کا نوجوان بالخصوص بہت متجسس بن گیا ہے اور اس کے ذہن میں بہت مشکل سوالات ابھر رہے ہیں۔ دینی مدارس کے منتظمین اور علماء کرام کے فہمیدہ اور حساس افراد کو اس حقیقت کا پوری طرح ادراک ہے۔ اس ادراک کو حقیقت کا جامہ پہنانے کے لئے ضروری ہے کہ اس سلسلے میں کچھ ٹھوس اقدامات کئے جائیں۔ درس نظامی کے پورے نصاب پر جیّد علماء کرام کی نگرانی میں ازسرنو غور کیا جائے اور اس کے فقہی نصاب کو بالخصوص نئے تقاضوں کی روشنی میں نئی ترتیب دی جائے۔ ہمارے اسلاف فقہاء کرام کی دینی خدمات کی ایک دنیا معترف ہے۔ انہوں نے اپنے اپنے دور میں وقت کے تقاضوں کے مطابق مسلمانوں کی بہترین رہنمائی کی کوشش کی ہے۔ اُن کے ہاں توسُّع اور حالات و زمانہ کی حکمت کے فہم کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ اس تسلسل کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ موجودہ فقہی نصاب میں بہت زیادہ تکرار ہے۔ ان میں کچھ کتب کا انداز بیان اور ان کی زبان خاصی مغلق ہے۔ موجودہ دور میں نصاب میں ربط و ترتیب کے مسلّمہ اصولوں کی رعایت ضروری ہے۔ مرّوجہ نصاب اپنے وقت کے تو مطابق تھا، لیکن اب اس کو تشکیل جدید کے ذریعے اور زیادہ مفید بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں ذیل کی کچھ تجاویز پیش خدمت ہیں:
۱۔اس نصاب کو ایک باقاعدہ ترتیب کے ساتھ وضع کیا جائے۔ سب سے پہلے بنیادی فقہی اصطلاحات مثلاً فرض، واجب، سنت، مستحب، حرام، مکروہ اور مباح وغیرہ کی تعریف سمجھا دی جائے۔ اس کے بعد طہارت، عبادات اور معاملات کے احکام کو ایک مربوط طریقے سے ترتیب دیا جائے۔ ابتدائی مرحلے میں اِن امور کے بارے میں سادہ طریقے سے مختلف صورتیں اور اُن کے بارے میں فقہی حکم بیان کیا جائے۔ اس کے بعد دوسرے مرحلے میں مختلف مسائل میں اختلاف ائمہ اور ان کے دلائل کو تفصیل کے ساتھ درج کیا جائے۔ اس سے طلبہ کو معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے ائمہ اور اسلاف کے درمیان علمی اختلاف کا طریقہٴ کار کیا تھا۔ تعبیری تنوع ہماری علمی بنیادوں کے استحکام کی علامت ہے۔ امام ابوحنیفہؒ کے ساتھ اپنے شاگردوں امام محمدؒ ، امام ابویوسفؒ اور امام زفر ؒ نے اختلاف کیا ہے اور بعض مسائل میں امام صاحب نے اپنے شاگردوں کی رائے کی طرف رجوع فرمائی ہے۔ اختلاف رائے کے احترام کی یہ بہت بڑی مثال ہے۔
۲۔غلامی سے متعلق ابواب و مباحث (کتاب العتاق) میں بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ مناسب ہوگا کہ غلامی کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات دی جائیں۔ ابتدائی دور کے احکام اور مسائل اور اصطلاحات کی ایک تعارفی تلخیص تیار کی جائے۔ رسول اﷲ ﷺنے غلامی کی بیخ کنی کے لئے جو مساعی فرمائیں، ان کا ذکر مفید ہوگا۔ صلوۃ الخوف کے باب کے بارے میں ازسرنو ترتیب کی ضرورت ہے، کیونکہ اب جنگوں میں صف بندی کا پرانا طریقہ برقرار نہیں رہا۔
۳۔جنابت اور غسل کے حوالے سے بعض باریک اور جزوی مباحث کے لئے طالب علم کی عمر کا لحاظ رکھنا چاہئے۔ کم عمری میں بعض غیرمناسب تفصیلات اور غیرضروری مباحث میں ان کو اُلجھانا نہیں چاہئے۔
۴۔مناسب مرحلے پر طلبہ کو جیّد فقہاء کرام کی حیات و سوانح اور ان کی فقہی خدمات سے روشناس کراناضروری ہے۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ دینی مدارس میں طلبہ کو اس طرف متوجہ نہیں کیا جاتا۔ اکثر طلبہ کو تو نصابی کتب کے مصنفین/ مؤلفین کے نام تک معلوم نہیں ہوتے۔ یہ معلومات ان کے فقہی فہم اور استعداد بڑھانے کے لئے بہت مفید ہوسکتی ہیں۔
۵۔بڑے درجے کے طلبہ کو فقہ حنفی کے علاوہ دیگر فقہی مسالک کے مہم مراجع سے واقف کرانا بہت مفیدرہے گا۔ ان کے جستہ جستہ مقامات انہیں پڑھائے جاسکتے ہیں یا کم از کم انہیں ترغیب دی جاسکتی ہے کہ وہ اُن کا ازخود مطالعہ کرنے کی کوشش کریں۔ دینی مدارس کے کتب خانوں کے لئے ان مراجع کا حصول یقینی بنایا جائے۔
۶۔فقہ میں تخصّص کے درجے کے طلبہ کے لئے کچھ کتابوں کا گہرا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ تخصص کے طلبہ کے لئے کمپیوٹر سے علمی استفادہ کرنے کے طریقوں کا سیکھنا ضروری ہے۔ اکثر دینی طلبہ زیادہ آسانی کے ساتھ کمپیوٹر سیکھنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ اس وقت مدارس میں تخصص کے لئے جن موضوعات پر کام کرایا جاتا ہے، ان میں بہت زیادہ تکرار ہے۔ کوئی ندرت نہیں، نہ ہی عصر حاضر سے متعلّقہ موضوعات پر کوئی اہم کام سامنے آرہا ہے(6) ۔
۷۔اس وقت جن جدید مسائل نے جنم لیا ہے، ان کے بارے میں یا تو الگ جامع کتب ترتیب دے کر نصاب میں شامل کیا جائے یا ان کو موزوں متعلقہ ابواب کے ساتھ لاحق کردیا جائے، مثلاً کلوننگ کے مسائل کو جنین کی بحث کے ساتھ لاحق کیا جاسکتا ہے۔
۸۔علماء کرام/ماہرین فقہ کی ایک مجلس (بورڈ) ان تجاویز کا جائزہ لے سکتی ہے۔ فقہ کی کچھ قدیم کتابوں کو برقرار رکھا جاسکتا ہے لیکن فقہی نصاب کی ترتیب نو کی ضرورت محسوس کی جانی چاہئے۔
۹۔فقہ کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ کے نصاب کی بھی ترتیب نو کی ضرورت ہے۔ اساسی ماخذ فقہ سے استخراج اور استنباط کے طرق کو زیادہ پختہ طریقے سے سمجھانا وقت کی شدید ضرورت ہے۔ صبحی مخمصانی کی کتاب فلسفۃ التشریع الاسلامی کو ابتدائی مرحلے پر شامل نصاب کرنا مفید رہے گا۔ جدید دور کے مسائل میں اجتماعی اجتہاد کے تصور کی زیادہ بہتر انداز میں تفہیم ضروری ہے۔ مثلاً طبی میدان میں پیش آمدہ مسائل کے بارے میں ماہرین طب اور ماہرین فقہ اسلامی کی مشترکہ مجلس کے بغیر صحیح نتیجے/حکم تک پہنچنا ممکن نہیں۔ جدید بینکاری نظام سے متعلق مسائل میں ماہرین جدید اقتصادیات کی رائے لینا ضروری بن گیا ہے۔ استحسان اور مصالح مرسلہ کی مباحث ہمارے لئے ماہرین اصول فقہ کا ایک عظیم اور قابلِ فخر علمی ورثہ ہے۔ عصرجدید کے بیشتر مسائل کو ان کے حدود میں حل کیا جاسکتا ہے۔ اگر ان مباحث کو زیادہ مدلّل اور تفصیل کے ساتھ ترتیب دیا جائے تو شاید بہت سارے امور کو بدعت حسنہ قرار دینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
۱۰۔فقہ اور اصولِ فقہ کے نصاب کی تشکیل جدید کی افادیت، تاہم اس وقت تک محدود رہے گی جب تک دیگر علوم و فنون اسلامیہ کے نصابات میں مناسب تبدیلیاں نہ کی جائیں۔ مثلاً عربی زبان ہمارے دینی علمی ذخیرے کی فہم کے لئے بنیادی اساس ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ زبان فہمی اور زبان شناسی کے قواعد و ضوابط کو دینی مدارس میں متعارف کرایا جائے۔ اجنبی زبانوں کی تدریس کے لئے آج کل بہت مفید کتابیں سامنے آئی ہیں۔ ان کو شامل نصاب کیا جائے۔ مولانا عبدالرزاق سکندر کی کتاب، کیف تعلم اللغة العربيه لغیر الناطقین بها اس سلسلے میں بہت اچھی کاوش ہے، جس کو ابتدائی کتاب کے طورپر پڑھایا جاسکتا ہے۔ عرب ممالک میں صرف و نحو کے قواعد کو بھی بہت آسانی اور مربوط طریقے سے ترتیب دیکر جمع کیا گیا ہے۔ یہ نئی کتابیں طلبہ کو غیرضروری مباحث میں اُلجھانے سے بچاکر مثالوں کے ذریعے پیچیدہ اور مغلق صرفی اور نحوی عقدوں کو حل کرنے کے طریقے سکھاتی ہیں(7) ۔
علم منطق کی اہمیت عصرحاضر میں بہت بڑھ گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس حقیقت کا ادراک کیا جائے اور قدیم قواعد منطق کے ساتھ ساتھ جدید اصول منطق کی طرف بھی توجہ دی جائے۔
۱۱۔مغربی تہذیب کے زیر اثر ہمارے ہاں کا عائلی اور معاشرتی نظام بری طرح شکست دریخت کا شکارہے۔ عائلی اور معاشرتی نظام میں عورت کا کردار اساسی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ طالبات/خواتین کے لئے ایک مربوط اور آسانی کے ساتھ قابل فہم نصاب ترتیب دیا جائے۔ اگر اسلامی اصولوں کے مطابق تربیت یافتہ خواتین گھروں کا نظام سنبھالیں تو ہمارا عائلی اور معاشرتی نظام بچ سکتا ہے۔
مندرجہ بالا بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی نصاب کے موجودہ ذخیرے میں تخفیف (کچھ مضامین، موضوعات اور کتب کو نکالنا)، ترمیم (کچھ پرانی کتابوں کی جگہ نئی کتابیں شامل نصاب کرنا) اور تزیید (نئے مسائل، ضروریات اور عصر حاضر کے تقاضوں کو ملحوظ نظر رکھ کر کچھ نئی کتابیں اور موضوعات شامل نصاب کرنا) ضروری ہوگیا ہے۔
تخفیف اور ترمیم کے حوالے سے کچھ تجاویز اوپر آگئی ہیں۔ تزیید کے حوالے سے کچھ مزید تجاویز ذیل میں پیش کی جاتی ہے:
۱۔سائنس، ٹیکنالوجی اور طب کے حوالے سے سامنے آنے والے نئے مسائل کی تفہیم کا انتظام ہو۔
۲۔مغرب کی مادی اور صنعتی ترقی کے اسباب اور مغربی افکار کا ناقدانہ جائزہ شامل نصاب ہو یعنی مطالعہٴ غرب (Occidentalism)۔ ظاہر ہے تفہیم مغرب کے بغیر ناقدانہ جائزہ کیسے ممکن ہے؟ مغربی جامعات میں مشرق کے مطالعے کے لئے بڑے بڑے ادارے قائم ہیں۔ اس علمی میدان کو استشراق (Orientalism)کہا جاتا تھا۔ اس کا نیا نام علاقائی مطالعات (Area Studies) ہے۔ استغراب کی روایت مسلمانوں میں بہت قدیم ہے۔ (یونانی علوم کا مطالعہ اور ان کے تراجم۔ عباسی دور میں بیت الحکمۃ استغراب کا مرکز تھا)۔
۳۔عصرحاضر کے عالمی اداروں کی تاریخ اور طریقہ کار کے بارے میں مدارس دینیّہ کے علماء اور طلباء کو آگاہ کرناچاہئے۔
۴۔20 ویں صدی میں سامراجیت اور اشتراکیت کی جنگیں، نیوکلیئر، کیمیائی، ایٹمی اور حیاتیاتی ہتھیاروں، خلائی مہمات، حیاتیاتی انجینئرنگ اور توانائی کے ذرائع کے حوالے سے انہیں معلومات فراہم کی جانی چاہئیں۔
۵۔اسلامی اور مسلمانوں کی تاریخ کا ایک عمومی لیکن غیر جذباتی جائزہ ان کے سامنے رکھا جانا چاہئے۔
۶۔پرانے فرقے اور افکار میں سے بعض اب معدوم ہیں اور ان کی جگہ نئے فرقے اور افکار نے جنم لیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عقائد اور کلام کی کتب میں اضافہ کیا جائے اور نئے فرقوں اور افکار کے بارے میں بھی طلباء کو معلومات فراہم کی جائیں۔
۷۔آج کی دُنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے۔ دُنیا کے لوگوں کے مذاہب سے آگاہی اب پہلے کی نسبت بہت ضروری ہوگئی ہے۔ مذاہب عالم کا مطالعہ اور تفہیم مدارس دینیّہ کے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے۔ اس میدان علم میں دور وسطیٰ کے مسلمان علماء کو ارہاص کا درجہ حاصل ہے مثلاً علامہ ابن حزم(8) ۔
۸۔معلمین اور منتظمین مدارس کی تربیت کے لئے تدریب المعلمین والمنتظمین کا ادارہ قائم کیاجانا بہت ضروری ہے۔ مدارس کے وفاقوں نے اس کی ضرورت کا ادراک کرلیا ہے جوکہ بہت مستحسن بات ہے۔
۹۔سائیکالوجی (نفسیّات) کے کچھ بنیادی اور اہم مباحث کو نصاب میں شامل کیا جانا بھی وقت کی ضرورت ہے۔
تزیید کے حوالے سے یہ دیکھنا چاہئے کہ ان کتب اور موضوعات کو اس طریقے سے شامل نصاب کیا جائے کہ یہ متعلمین پر اضافی بوجھ نہ ہو اور نہ ان کی توجہ اصل علوم دینیّہ سے ہٹ جائے بلکہ ریفریشر کورسسز یا سیمیناروں کے ذریعے ان کو ان کے بارے میں معلومات فراہم کی جائیں۔
نئے تشکیل شدہ نصاب کی تکمیل کے مراحل سے گزرکر فارغ التحصیل علماء کے بارے میں اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں قوم کی رہنمائی کرسکیں گے۔ وہ نوجوان طبقے کو مسجد کی طرف راغب کرنے میں بہتر صلاحیّت اور استعداد کا مظاہرہ کرنے کے قابل ہوں گے۔ ان کے انداز میں غیرضروری معذرت خواہانہ پہلو ختم ہوگا اور ان کے اندر اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ اسلاف کی سنت کے مطابق ان کے اندر تعبیری تنوع اور نقطہٴ نظر کے اختلاف میں وسعت نظری کی روایت مستحکم ہوگی، جو علمی ترقی کا باعث بنے گی۔
دینی مدارس کے منتظمین اور علماء کی نصاب میں تبدیلی کے بارے میں حساسیت کے باوجود اب ان کے اندر سے کچھ آوازیں بھی اٹھنا شروع ہوگئی ہیں۔ یہ قابل تحسین بات ہے۔ اس سلسلے میں ماھنامہ ’’العصر‘‘ پشاور کے دو اداریوں کے اقتباسات پیش کرنا مفید رہے گا تاکہ معلوم ہو کہ وہاں بھی اس ضرورت کا احساس ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کو یقین ہو کہ یہ تجاویز بدنیتی پر مبنی نہیں ماھنامہ ’’العصر‘‘ جامعہ عثمانیہ کا ترجمان جریدہ ہے۔ اس ادارے کے سربراہ مفتی غلام الرحمن صاحب ہیں، جن کو تمام مکاتب فکر کے علماء میں حد درجہ احترام حاصل ہے۔ ان کے ادارے کا نظم مثالی ہے اور ان کے ہاں انگریزی پڑھانے اور جدید علوم سے آگاہی کے خصوصی انتظامات ہیں۔
ماھنامہ العصر میں دو سال قبل کے ایک اداریے کا ذیل میں من و عن نقل کرنا مفید رہے گا:
’’بدقسمتی سے ہمارے ہاں عموماً نئی گروہ یا نئی آواز بلند کرنے والوں پر سب و شتم تو پہلے کیا جاتا ہے اور ان کے منظور نظر عقائد و افکار کا مطالعہ بعد میں کیا جاتا ہے جوکہ یقیناًہماری غیر ذمہ دارانہ رویہ کی عکاسی ہے۔
فقہ اور اصول فقہ کی تدریس کے دوران قدیم طرز تعبیر کے ساتھ آج دونوں میں جدید اسالیب سامنے آچکی ہیں۔ طلبہ کو اگر قدیم ذخیرہ پڑھاتے ہوئے اس معاصرانہ تطبیق سے روشناس کرایا جائے تو عین ممکن ہے کہ وہ تعلیمی سلسلے کے دوران معاشرے کے اُتار چڑھاؤ اور باہر دنیا کے حالات کو درست زاویہ پر پرکھنے اور اس کے لئے مناسب زادراہ تیار کریں۔ کوئی شک نہیں کہ ان دونوں علوم میں وسعت اور اضافے کا بنیادی محرک معاشرے کے رواں سفر میں نت نئے حالات و واقعات کا بھی گہرا اثر ہے۔ آج تمام بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹیوں میں قرآن و حدیث، فقہ اور اصول فقہ اور دیگر علوم کی تدریس کے حوالے سے تدوین نو مختلف زاویوں پر عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ہم اپنے دینی مدارس کے ظروف اور اندرونی ماحول کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتے ہیں‘‘۔
’’یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کا بیشتر حصہ شریعت اور مذہب سے آگاہی کے خواہاں ہے مگر جب ان کو ہمارے عمومی اجتماعات اور خاص کر جمعہ کی نشست میں کوئی واضح اور ٹھوس پیغام نہیں مل رہا ہوتا تو یہ بے چارے جمعۃ المبارک کے اہم موقع پر بھی صرف وقتی فریضہ کی ادائیگی کو اپنے لیے غنیمت سمجھتے ہیں۔ آج کے دور میں معاشرے کے پاس مسجد کے امام و خطیب سے ہٹ کر بھی علم و تحقیق کے دیگر ذرائع موجود ہیں جو غلط ہوں یا صحیح مگر طبعی طور سے ان کے گہرے اثرات نمایاں ہیں ہمیں ان چیزوں سے آگاہی حاصل کرکے معاشرے کو درست تطبیق کی نشان دہی کرکے بہتر راہ پر گامزن کرنا ہے‘‘۔
’’اس کے علاوہ عمومی فضا میں مروّجہ نصاب کے ساتھ ساتھ درج ذیل عنوانات پر عمومی ورکشاپ اور مختصر دورانیہ پر حامل کورسسز کے ذریعے ہم اپنے طلبہ کو قومی، ملکی اور بین الاقوامی حالات و واقعات اور اس کے اثرات سے بخوبی آگاہ رکھنے کا احساس دلا سکتے ہیں:
- قرآن و حدیث کے تخاطب کے عمومی انداز کا تعارف، حکمتیں اور تطبیق کی ممکنہ صورتیں
- سیرت النبی ﷺ کے حوالے سے مناہج سیرت اور مطالعہ سیرت کی ضرورت و اہمیت
- تاریخ فقہ اور اصول فقہ کے حوالے سے روزمرہ واقعات اور نت نئے مسائل کا عمومی تجزیہ
- تاریخ کے مضامین پر خصوصی توجہ کے ساتھ ساتھ فلسفہ تاریخ اور معاشرے پر اس کے اثرات
- جدید علوم کا اجمالی خاکہ اور خاص کر فتویٰ سے وابستہ موجودہ دور کے طبی، معاشی اور سیاسی مسائل کے ساتھ قانون کی موشگافیوں سے مانوس رہنا
- علم الکلام کے قدیم مباحث کے ساتھ ساتھ جدید علم الکلام اور معاصر افکار کے تعارف کے ساتھ ساتھ ان پر گرفت حاصل کرنے کا سنجیدہ طریقہ کار
- طرقِ تدریس کے جدید اسالیب کا بطور فن تعارف
- دعوۃ و الارشاد کے طریقہ کار، ذمہ داریاں اور جدید اسالیب کی درجہ بندی
- عصر حاضر کی رائج زبانوں پر تحریر و تقریر کے ذریعے گرفت بالخصوص عربی، اردو، انگریزی
- ذرائع ابلاغ کا تعارف اور اس کے ذریعے اپنے پیغام کو مؤثر انداز میں پہنچانے کی حکمت عملی‘‘(9)
تقریباً ایک سال پہلے کے اداریے میں آپ یوں رقم طراز ہیں:
’’معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی جانب سے نبی قوم کی رہبری اور رہنمائی کے لئے ان کے اسلوب کو سامنے رکھ کر بھیجا جاتا ہے، تو پھر آج کیوں اس بات میں دقت محسوس کی جارہی ہے، جب انہی انبیاء کرام کے وارثین سے مطالبہ کیا جارہا ہے کہ وہ معاشرے کا رواں اسلوب پہچان کر ان کو دین اسلام کی تعلیمات واضح طورپر پہنچائیں۔ ہمارے متقدمین علماء نے اس ضرورت کا احساس کرکے قرآن و حدیث کے مسلمہ حقائق سمجھانے کے لئے معاشرتی اسلوب کا نہ صرف احساس کیا بلکہ جس وقت معاشرے پر عقل پرستی کا غلبہ رہا اس وقت ان عقلی علوم میں انہوں نے مستقل کتابیں تصنیف کرکے مدمقابل کا خوب مقابلہ کیا اور آج دور قدیم سے وہی ہمارے نصاب کا مستقل حصہ ہے۔ دوسری جانب یہ بھی ایک کھلی حقیقت ہے کہ معاشرے کا اسلوب افراد اور قوموں کی طرز زندگی، بودوباش اور زمانے کے حوادثات سے تغیر کا شکار ہوتا ہے اس لئے ایک زمانے کا انداز فکر یا سوچ و نظر کے زاویوں کا مدتوں یکساں ہونا بھی ایک مشکل امر ہے۔ اس لئے جب اُس زمانے میں ایسے نئے اقدامات کو ہم نے بلاچوں و چرا قبول کیا، تو پھر آج اگر زمانے کی نفسیات، مدمقابل کا انداز تخاطب اور سائنس و ٹیکنالوجی کے نتیجہ میں فاصلے سمٹنے کے حوالے سے خبر رسانی کے جدید ذرائع دریافت ہوئے ہیں، تو ایسے حالات میں ہمارا پرانے رویے پر اصرار شاید ہمیں بہت پیچھے کی طرف دھکیل دے اور لوگ ہمیں بجا طورپر دقیانوسیت کا علم بردار سمجھیں‘‘۔
’’نظام تعلیم کا آغاز مدرسہ کی چار دیواری سے ہوتا ہے، آپ مدرسہ کی تعمیر کا آغاز ہی ایسے انداز میں کریں جہاں طلبہ داخل ہونے کے ساتھ ایک علمی درس گاہ کا تصور کرلیں۔ اس میں علم و دانش سے وابستہ ایسی دلچسپی کا مواد ضرور ہو کہ جن سے ان کے علم کے ارادے کو مزید تقویت ملے۔ درس گاہ میں اٹھنے بیٹھنے، رہائش، کھانے پینے اور ضروریات زندگی کے حوالے سے ایک ایسا نظم ان کو فراہم ہو کہ جس سے خود ان کو بہتر تہذیب کی شناسائی کے مواقع میسر ہوں۔ بدقسمتی سے ہم نے دینی مدارس کے عمومی ماحول کو دنیا و مافیھا سے ایسا الگ رکھا ہے کہ جہاں صرف تعلیم ہو باقی کچھ نہ ہو۔ طلبہ سبق پڑھنے کے لئے استاذ کے سامنے آئیں اور استاذ ان کو پڑھا کر چلا جائے اور بس۔ اس سے آگے نہ تو معلم کی کچھ ذمہ داری ہے اور نہ ہی متعلم کا کچھ مزید احتیاج ہے، گویا ہم نے تعلیم و تعلم کے بنیادی مقاصد کو بے معنی چھوڑ دیا ہے۔ بطور مثال ہمارے نصاب تعلیم میں فقہ کی کتابیں کا آغاز کتاب الطھارۃ سے ہوتا ہے۔
طہارت کی حقیقت اور اس کی لغوی و صرفی تحقیق پر تو ہم گھنٹوں بحث کرتے ہیں مگر کیا ہم نے اپنے ارد گرد کے ماحول میں طلبہ کو اس کا پابند بھی بنایا ہے یا نہیں۔ آخر یہ کون سا دین ہے جو ہمیں اس قسم کے ستھرا ماحول اپنانے سے منع کرتا ہے اور یہ کون سی زاہدانہ زندگی ہے کہ جس پر ہم فخر کرکے بیٹھے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق مدارس کے خلاف موجودہ پروپیگنڈے میں اگرچہ سو فیصد حقیقت نہیں لیکن صفائی و ستھرائی اور عمومی نظم و ضبط کے حوالے سے یہ حقیقت بہرحال موجود ہے کہ بیشتر اہل مدارس مسجد و مدرسے کے اس مقدس ماحول کو صاف ستھرا رکھنے کے لئے ناکام نظر آتے ہیں۔ تب ہی تو پھر خبر رساں اداروں کو یہ کہنے کی جرات ملتی ہے کہ یہ دقیانوسیت اور دنیا سے بے خبر لوگ ہیں، ہم مدارس والوں کو اس پہلو پر شدت کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہے اور یہ یقین رکھنا چاہیے کہ یہی نظم و ضبط تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہی نظم اسباق کی درجہ بندیوں کے ساتھ امتحانات، نتائج، چھٹی اور تفریح کے اوقات کے لئے بھی قائم ہونا چاہئے۔ اگر ہم اپنے ان طلبہ کو دوران طالب علمی زندگی کے جملہ معمولات میں نظم و ضبط کا عادی بنائیں تو کل کو یہ معاشرے کا متقدیٰ اور پیشوا بن کر وہی مزاج اپنائے گا جو ان کو مدارس کے ماحول اور چاردیواری میں ملا ہو۔ کیا ہمارا دین اور ہماری شریعت ایک نظم اور ڈسپلن کی حامی نہیں؟‘‘(10) ۔
یہ اداریے اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ جامعات دینیّہ میں بھی اس وقت بڑی شدّت کے ساتھ یہ خواہش موجود ہے کہ ان کا نظام اور نصاب عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔
کچھ اضافی نکات اور تجاویز :
۱۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ مدارس دینیّہ کا ادارتی حوالے سے دھشت گردی یا مسلح مزاحمت سے کوئی تعلق نہیں، لیکن اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ ان میں بعض مدارس کے اندر اس ذھن کے لوگ ضرور موجود ہیں۔ لیکن ایسے لوگ توسرکاری اور نجی کالجوں اور یونیورسٹیوں میں بھی موجود ہیں اور ان میں بعض تو کئی سانحوں میں عملاً ملّوث پائے گئے۔
۲۔اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مدارس میں مسلکی شدّت اور فکری ضیق کی روایت نسل در نسل منتقل ہوتی رہی ہے۔ مدارس کے وفاق بھی مسلکی نسبت کی اساس پر بنے ہیں، لیکن اس کا سبب نصاب نہیں بلکہ مدارس کا عمومی ماحول ہے۔
۳۔ہمارے ہاں عام طورپر مدارس کے نصاب کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے، جو صبح سویرے سے لے کر نماز ظہر تک کی علمی سرگرمی ہے۔ نماز ظہر کے بعد مدارس سے منسلک معلمین اور متعلّمین کی ہم نصابی مصروفیات کا عمیق مطالعہ اب تک اہل علم کی توجہ کا طلب گار ہے۔ یہی وہ دورانیہ ہے، جس میں ان کے ہاں مروج بیانیہ کا بیشتر حصہ تشکیل پاتا ہے۔ معلّمین اور متعلّمین کے درمیان مختلف موضوعات پر تبادلہٴ خیال ہوتا ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ (سوشل میڈیا) کے استعمال سے دینی مدارس میں مسلکی حوالے سے مناظروں کی تربیّت بھی حاصل کی جاتی ہے۔ مناظرانہ تقریروں کے کیسٹ سنے جاتے ہیں یا موبائیل پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر آڈیو اور ویڈیو پیغامات اور تقریروں سے استفادہ کیا جاتا ہے (یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ہمارے سرکاری تعلیمی اداروں کا بیانیہ بھی دینی مدارس کے ہاں مقبول بیانیے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں۔ لیکن وہاں کا بیانیہ زیادہ تر نصاب سے بنتا ہے، جب کہ دینی مدارس میں ہم نصابی دورانیے کے درمیان)۔
تجویز یہ ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کو فوری طورپر فعّال کیا جائے۔ اس کی صوبائی شاخیں قائم کی جائیں اور اسی کو یہ کام سونپ دیا جائے، جس کے اعلانات کئے گئے ہیں۔ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کا قیام 1969 ہی سے ہر مکتب فکر کے علماء کا مطالبہ رہا ہے۔ بدقسمتی سے سابق صدر جنرل پرویز مشرف کی حکمت عملی اور 9/11 کے واقعات کی وجہ سے سرکاری اقدامات میں ’’بدنیتی‘‘ کا عنصر زیادہ نمایاں ہونے لگا اور خارجی دباؤ کا تأثر اُبھرا، جس کی وجہ سے دینی مدارس مدرسہ ایجوکیشن بورڈ سے بدکنے لگے۔ نئی صورت میں کافی اعتماد سازی ہوگئی ہے اور اب یہ امکان پہلے سے زیادہ ہے کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے اہتمام کے تحت ’’پہلا قدم‘‘ اور اس کے بعد ’’ہزار میل کا سفر‘‘ طے ہونے کا عمل شروع ہوجائے گا (مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے درمیان یادداشت مفاہمت ہوجائے، تو بجٹ اور دفاتر کے حوالے سے بڑی آسانیاں پیدا ہوجائیں گی)(11) ۔ یہ تجویز آسانی سے قابل عمل ہے کیونکہ دینی مدارس میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو اعلیٰ تعلیم کے بندوبست کا بہترین ادارہ سمجھا جاتا ہے اور اس کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن دینی مدارس کے مسلمہ پانچ وفاقوں کی اعلیٰ ترین سند شہادۃ العالمیہ کو ایم۔ اے اسلامیات اور عربی کے مساوی قرار دے چکا ہے۔ کمیشن کے اس فیصلے کی وجہ سے مدارس کے فضلاء کو تعلیمی اداروں میں تدریس اور تحقیق کے مواقع مل رہے ہیں۔ اس خوش گوار تعلق کو دونوں اداروں کے درمیان وسیع تر تعامل کے فروغ کے لئے برائے کار لایا جانا چاہئے.
حواشی وحوالہ جات:
۱۔اس کے لئے دیکھیں:
پیس ایجوکیشن اینڈ ڈویلیمنٹ فاؤنڈیشن کی رپورٹ، 2016، وفاق المدارس العربیہ کے نصاب کا تنقیدی جائزہ، صفحہ 10، ویب سائٹ http//:www.peed.org.pk۔ علاوہ ازیں Christine Fair کی کتاب The Madrassah Challenge مطبوعہVanguard Lahore, 2009 کے صفحات 15تا 101۔
۲۔اس پہلو کی تفصیل کے لئے مولانا زاہدالراشدی کے مختلف مقالات اور خطبات کا مطالعہ مفید رہے گا، دینی مدارس کا نصاب و نظام، الشریعۃ اکیڈیمی، گوجرانوالہ، 2007۔
۳۔دیکھیں: خطبات آزاد، مرتبہ: مالک رام، مقبول اکیڈیمی، لاہور، 1974، صفحات 301 تا 332۔
مولانا ابوالکلام آزاد کو دینی حلقوں خصوصاً دیوبندی فکر کے متعلقین میں ان کی فرنگی اقتدار کے خلاف جدوجہد کی وجہ سے انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ دینی مدارس کے نظام اور نصاب کی بہتر تفہیم کے لئے مزید دیکھیں: حافظ حقانی میاں قادری، دینی مدارس: نصاب و نظام تعلیم اور عصری تقاضے، فضلی سنز، کراچی، 2002؛ خالد رحمان و اے۔ ڈی۔ میکن (مدیران)، پاکستان میں دینی تعلیم: منظر، پس منظر و پیش منظر، انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی سٹڈیز، اسلام آباد، 2009؛ ممتاز احمد (مدوّن)، دینی مدارس: روایت اور تجدید علماء کی نظر میں، ایمل مطبوعات، اسلام آباد، 2012؛ ماھنامہ تعمیر افکار، کراچی کا اشاعت خاص بعنوان دینی مدارس: روایت، ضرورت، امتیاز، 2014؛ سہ ماہی تجزیات، اسلام آباد کا خصوصی شمارہ دینی مدارس نمبر، شمارہ 77، جون 2016۔
۴۔اس کے لئے دیکھیں راقم کا مقالہ، نیشنل ایکشن پلان اور دینی مدارس کا قضیّہ، سہ ماہی تجزیات، اسلام آباد شمارہ 75 ، اکتوبر ۔ دسمبر 2015، صفحات 120 تا 123۔ دینی مدارس کے اندر مقبول عام یہ بیانیہ راقم اور مدارس کے معلمین اور متعلمین کے درمیان 2002 سے لے کر2015 تک کے مسلسل تعامل کے نتیجے میں مرتب کیا گیا ہے۔ یہ تعامل نیشنل ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن، پشاور، پیس ایجوکیشن فاؤنڈیشن (اسلام آباد)، پیس ایجوکیشن اور ڈویلیمنٹ فاؤنڈیشن (اسلام آباد) اور پاک انسٹی ٹیوٹ آف پیس سٹڈیز (اسلام آباد) کے زیراہتمام جاری رہا۔ مذہبی طبقے کے اس بیانیے کے بعض پہلوؤں کے لئے مبارک حیدر کی کتاب، تہذیبی نرگسیت، سانجھ، 2011 کے صفحات 11 تا 111 میں کافی تنقیدی لیکن متنازعہ مواد موجود ہے۔
۵۔دیکھیں: راقم کا مقالہ، نیشنل ایکشن پلان اور دینی مدارس کا قضیّہ، سہ ماہی تجزیات، شمارہ 75، اکتوبر۔دسمبر2015، صفحات 120 تا 123۔
۶۔ان نکات کو سامنے رکھتے ہوئے عرب دنیا کی متعّدد کتب خاصی مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔ مثلاً شیخ جاسم بن محمد بن مھلھل الیاسین کی مرتب کردہ کتاب الجامعۃ فی العلوم النافعہ، امام ابو یوسف کی کتاب الخراج، امام شافعی کی کتاب الام، ابو اسحاق الشیرازی کی المہذب، امام مالک کی المدونۃ الکبریٰ، ابن رشدکی بدایۃ المجتہد، ابن قدامہ کی المغنی، ابن حزم کی المحلی، الکلینی کی الکافی، امام زید کی مجموع الفقہ اور محمد اطفیش کی شرح النیل و شفاء العلیل، وھبہ الزھیلی کی الفقہ الاسلامی و ادلتہ، کویت کی وزارت اوقاف کا مرتب کردہ الموسوعۃ الفقہیۃ۔
۷۔اس سلسلے میں انطوان الدحداح کی کتاب معجم قواعد اللغۃ العربیہ فی جد اول و لوحات، شیخ احمد الحملادی کی کتاب شد العرف فی فن الصرف اور عبدالرحمن رافت الباشا کی کتاب کتاب النحو مفید مواد فراہم کرسکتی ہیں۔ عربی قواعد اور زبان میں مہارت کے لئے دیکھیں محمد بشیر سیالکوٹی کی کتاب، درس نظامی کی اصلاح و ترقی، دارالعلوم، اسلام آباد ، 2013۔
۸۔نصابی بہتری کے لئے کچھ تجاویز کے لئے دیکھیں: محمد عمار خان ناصر، دینی مدارس کا مروجہ نصاب، ایک مختصر جائزہ، سہ ماہی تجزیات، اسلام آباد، شمارہ 77 ، جون 2016، صفحات 39 تا 46 اور Robert M. Hathaway کی مرتب کردہ کتاب Education Reforms in Pakistan میں Christopher Cantland کا مضمونPakistan's Recent Experience in Reforming Islamic Education، صفحات 151 تا 164 ۔ یہ کتاب Woodrow Wilson International Center for Scholars, Washington نے شائع کی ہے۔
علاوہ ازیں ڈاکٹر محمود احمد غازی کے خطاب بعنوان مغرب کا فکری و تہذیبی چیلنج اور علماء کی ذمہ داریاں مطبوعہ پیغام آشنا، شمارہ 30، جولائی تا ستمبر 2007 میں اس حوالے سے مفید مواد موجود ہے۔
۹۔احسان الرحمن عثمانی (مدیر)، العصر، جنوری 2014/ ربیع الاول 1435 ۔
۱۰۔احسان الرحمن عثمانی (مدیر)، العصر ، اگست 2015/ شوال 1436۔
۱۱۔مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کی تاریخ اور اس کے اہداف کے لئے دیکھیں: ڈاکٹر دوست محمد و ڈاکٹر نیاز محمد، پاکستان مدرسہ ایجوکیشن بورڈ اور علماء کے تحفظات: واقعاتی پس منظر، الایضاح، شیخ زاید اسلامک سنٹر، پشاور یونیورسٹی، شمارہ 26، جون 2013، صفحات 1 تا 18۔
Id | Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Id | Article Title | Authors | Vol Info | Year |