30
1
2015
1682060034497_940
210-223
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/206/196
اسلام میں علاج معالجہ کا حکم:
علاج معالجہ کا عمل طبابت کہلاتا ہے۔اسی سے طب ہے جس سے مراد روحانی کے ساتھ ساتھ جسمانی علاج بھی ہے ۔
متعدد احادیث میں رسول اللہ ﷺ نے بصیغہ امر بھی علاج کا حکم دیا ہے۔فرمایا:
۱۔ ان الله لم ينزل داء الا أنزل الله له شفاء، فتداووا [1]
۲۔ تداووا يا عباد الله! فان الله لم يضع داء الا وضع له شفاء الا داء واحدا۔۔۔الهرم [2]
۳۔ اسی طرح جب مرض الموت میں آپﷺ کو دواء پلائی گئی تو آپﷺ مرض الموت کے الہام کی بناء پر اسے نا پسند فرمایا اور حکم دیا کہ سب کو یہ دواء پلائی جائے جنہوں نے دواء پلانے میں حصہ لیا تھا۔آپ ﷺ کے الفاظ کو ابن عباس رضی اللہ عنہ اس طرح روایت کرتے ہیں۔ لدوھم [3]
- ترغیب کے لیے دوسرے اسالیب بھی اختیار فرمائے۔
۱۔ علیکم بھذہٖ الحبۃ السوداء فان فیھا شفاء من کل داء الا السام [4]صحیح بخاری میں کلونجی کو بصیغہ امر استعمال کرنے کی تر غیب دلائی۔
۲۔ علیکم بھذہ الحبیبۃ السودآء، فخذو منھا خمسا أو سبعا، فاسحقوھا [5]
۳۔ علیکم بھذہ العود الھندی،۔۔۔ [6]
ایک شخص بیمار پڑ گیا تو آپﷺ نے اس کے لیے شہد تجویز کرتے ہوئے فرمایا :۴۔ اسقہ عسلاً [7]
۵۔ بخار کے علاج کے لیے پانی تجویز کیا ،اور فرمایا: الحمی من فیح جھنم فا بردوھا بالماء [8] * بعض ادویہ کو بھی اختیار کرنے کی آپﷺ نے تر غیب دلائی ۔اس سلسلہ میں کتب حدیث میں کتاب الطب میں بہت سی روایات صحیحہ موجود ہیں۔
۱۔ ان کان فی شئی من أدويتکم خير ففی شربة عسل أو شرطة محجم ،أو لذعة من نار، وما أحب أ ن اکتوی [9]
۲۔ الکمأة من المن، وماء ها شفاء للعين [10]
۳۔ ان الله لم ينزل داء الا أنزل له شفاء علمه من علمه وجهله من جهله [11]
- رسول اللہ ﷺْ نے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا علاج خود کروایا۔
۱۔ حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو داغ لگوایا۔ [12]
۲۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس علاج کے لیے طبیب بھیجا۔ [13]
۳۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ کو پیٹ کی بیماری میں شہد پلانے کا تین بار حکم دیا۔ [14]
۴۔ تمام غزویات کے زخمیوں کا علاج آپﷺ کے حکم سے کیا جاتا رہا۔اس کے لیے آپ ﷺ نے مسجد میں خیمہ Clinic بھی لگوایا.[15]
۵۔ ان زخمیوں کے علاج معالجہ کے لیے بہت سی صحابیات رضی اللہ عنہن خدمات سرانجام دیا کرتی تھیں۔[16]
۶۔ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہانے غزوہ احد میں یہ خدمت سر انجام دی ۔ [17]
۷۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی غزوہ احد میں یہ خدمت سر انجام دی ۔ [18]
۸۔ حضرت ام سلیط رضی اللہ عنہا نے بھی غزوہ احد میں یہ خدمت سر انجام دی ۔ [19]
۹۔ اسی طرح حضرت رفیدہ رضی اللہ عنہانے اس مقصد کے لیے مسجد میں باقاعدہ اپنا خیمہ Clinic لگوا لیا تھا۔ [20]
رسول اللہ ﷺ نے خود بھی اپنا علاج کروایا۔ [21]
۱۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: احتجم ،وأعطی الحجام أجرہ،واستعط[22]
۲۔ آپﷺ اپنی صحت کی بہتری کے لیے تلبینہ کھاتے تھے۔[23]
تلبینہ دودھ،کھجوراور شہد کے مرقع کا نام ہے جو ہمارے پنجاب میں حلوہ یا پنجیری کی طرح کی کوئی چیز ہے،آپﷺ نے اس کا فائدہ بھی بتایا۔
۳۔ ان التلبينة تجم فؤاد المريض وتذهب ببعض الحزن [24]بلکہ آپﷺ تلبینہ کو ’’البغیض النافع‘‘کہتے تھے،[25]کیونکہ مریض اسے ناپسند کرتے ہیں لیکن اس کے لیے نفع بخش ہے۔
۴۔ جب آپ ﷺ کے سامنے کے دانت شہید ہوئے اور چہرہ مبارک پرزخم آئے تو زخموں سے خون بند کرنے کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے چٹائی جلا کر اس کی راکھ زخم پر رکھی۔[26]البتہ بعض روایات سے علاج نہ کروانے کا حکم بھی ملتا ہے یعنی بیماری کو صبر سے برداشت کرنا اور اللہ پر توکل کرنا ،کی فضیلت بتائی گئی ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک سیاہ رنگ والی عورت کومرگی کے دورے پڑتے تھے ۔اس نےّ آپﷺ سے شفاء کے لیے دعا کی درخواست کی تو آپ ﷺ نے فرمایا : چاہو تو میں دعا کردیتا ہوں تاکہ شفا مل جائے ورنہ صبر کرو اللہ جنت دے گا [27]
آپﷺ نے اپنی امت میں ستر ہزار ۷۰۰۰۰ افرادکے بلا حساب جنت میں جانے کی خوشخبری سنائی اور اس کا سبب ان کا علاج و دم وغیرہ نہ کرنا بتایا۔[28]
علاج کروانے اور نہ کروانے کی روایات میں بظاہر تعارض نظر آرہا ہے لیکن ان دونوں کے تعارض کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ مذکورہ بالا روایات جن میں علاج نہ کروانے کی فضیلت ہے میں علاج نہ کروانے کا حکم فضیلت پر مبنی ہے۔سیاہ عورت کو شفا حاصل کرنے پر ممانعت نہیں فرمائی بلکہ اسے عملِ کی طرف راغب کیا ہے ۔اسی طرح ستر ہزار بغیر حساب کے جنت جانے والوں کی فضیلت کا اظہار ہے۔دراصل توکل علی اللہ انتہائی مشکل ہے جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہے۔
رسول اللہ ﷺ اگرچہ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والے تھے لیکن: الف آپ ﷺ چونکہ تمام امت کے نمونہ عمل ہیں لہٰذا بہت سے کام آپ ﷺ نے پسند ہونے کے باوجود چھوڑ دیے۔مثلاً:نماز تراویح باجماعت[29] اور نماز اشراق وغیرہ۔[30]
اسی منصب کی وجہ سے بہت سے کام ناپسند ہونے کے باوجود آپﷺ نے نہ چھوڑے۔ آپﷺ دو کاموں میں سے آسان تر اختیار فرماتے اگر وہ جائز ہوتا۔
عن عائشة رضی الله عنها أنها قالت:ما خير رسول الله صلى الله عليه وسلم بين أمرين الا أخذ أيسرهما مالم يکن اثما، فان کان اثما کان أبعد الناس منه[31]
ان دونوں توجیہات سے آپﷺ کا علاج کروانا،علاج کروانے کو پسند کرنا۔اور علاج کا حکم دیناقطعاً اس بات سے معارض نہیں کہ آپ ﷺ نے جس کام کو فضیلت والا جانا وہ خود نہ کیوں نہ کیا؟پھر یہ بھی اہم ہے کہ آپ ﷺ امت کے لیے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گئے۔[32] اور آپﷺ کی شریعت کی بے شمار حکمتوں میں سے دفئ حرج اور قلت تکلیف بھی ہے ،[33] جبکہ علاج نہ کروا کر مریض اپنے آپ کو تکلیف میں مبتلا کرتا ہے جو کہ حکم شرع کے خلاف ہے لہٰذا آپﷺ نے عامۃ الناس کو کسی تکلیف سے بچانے اور کسی کراہت کے بغیر علاج کروانے میں سہولت پیدا کرنے کے لیے خود علاج کروایا ،اسے پسند فرمایا اور علاج کروانے کا حکم بھی دیا حضرت ام قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث میں گلے کی بیماری میں تالو کو انگلی سے اٹھانے سے منع کرنے کا سبب ایک تکلیف دہ عمل بتایا گیا ہے۔داغ لگوانے کو آپﷺ نے ناپسند فرمایا اور اس میں بھی قلت تکلیف ہی کا مقصدمد نظر تھا ۔
علاج کروانا واجب ہے یا مستحب؟:
اس میں فقہی اختلاف پایا جاتا ہے ۔حنابلہ کے ہاں علاج کروانا واجب ہے بعض شوافع بھی علاج کے وجوب کے قائل ہیں،[34]کیونکہ ‘‘تداووا’’بصیغہ امر ہے جو وجوب کے لیے ہوتا ہے۔ مالکیہ اور حنفیہ کے نزدیک علاج کروانا مستحب ہے۔[35]اور یہی جمہور کا مؤقف ہے۔[36]
اسباب کے اقسام:
علاج دراصل اسبابِ فوائد ظاہر یہ میں سے ہے اور فائدہ ظاہر ہونے کے اعتبار سے اسباب کے تین درجے ہیں :
- سببِ یقینی* سببِ ظنی* سببِ وہمی
1۔ سببِ یقینی :
- سببِ یقینی ،یہ کہ لازمی طور پر فائدہ ہی ہو گاجیسے پیاس کا علاج پانی ہے اور پانی لازمی فائدہ دیتا ہے کہ پیاس بجھ جاتی ہے یا جیسے کھانا بھوک کو ختم کرتا اور جسم کو قوت مہیا کرتا ہے۔*
2۔ سببِ ظنی:
سسب ظنی ، کہ جن غالب گمان تو فائدہ ہی کا ہوتا ہے بلکہ پہلے سبب کی طرح یہ سبب اختیار بھی فائدہ ہی کے لیے کیا جاتا ہے لیکن کبھی کبھار اس سے فائدہ نہیں بھی ہوتا،جیسے بیماری میں دوا کا استعمال ،لیکن چونکہ شفا ء خالصۃاللہ کے ہاتھ میں ہے ،لہٰذا اگر اللہ چاہے تو دوا کا اثر نہ ہو یا رد عمل پیدا ہو جائے اور ایسا کبھی کبھار ہو جاتا ہے کہ بعض ادویہ بعض طبائع کے موافق نہیں ہوتیں تو ان سے بعض اوقات نقصان بھی ہو جاتا ہے۔
3۔ سبب وہمی:
سببِ وہمی، یعنی سبب کے اختیار کرنے پر کسی علم، تجربے یا مشاہدے کے بغیرمحض وہم کا دخل ہو مثلاً:کسی شخص کا یہ خیال کہ اگر اُون کھا لوں تو کینسر ختم ہو جائے گا،محض اس کا وہم ہو گا ،کبھی اس کا فائدہ بھی ہو سکتا ہے ورنہ عام طور پر نہیں۔
سببِ یقینی اختیار کرنا واجب ہے۔کیونکہ اگر کوئی شخص عمداً بھوکا رہ سکتا ہے اورکھانا میسر ہونے کے باوجود نہ کھانے کی بناء پرہلاک ہو جاتا ہے تووہ گناہ گار ہو گا۔سبب ظنی اختیار کرنا پسندیدہ اور مستحب ہے کیونکہ اگر کوئی دوائی نہیں کھاتا تو وہ گناہ گار نہ ہو گا۔[37]
اور سبب وہمی کبھی تو مباح ہو گا اور کبھی مکروہ یعنی ایسے اسباب جن کی واضح طور پر مذمت ہے وہ اختیار کرنا مکروہ اور مباح اشیاء کو بطورِ سبب اختیار کرنا مباح ہو گا۔
بیماریوں کے اقسام:
پھر بیماریاں بھی مختلف قسم کی ہوتی ہیں:
1۔ خطرناک بیماریاں:
۱۔ وہ بیماریاں جو خطرناک ہوتی ہیں اور علاج نہ کروانے سے وہ انسانی جسم پر خطرناک اثرات مرتب کرتی ہیں جیسے بہرہ پن،فالج اور لقوہ وغیرہ۔
2۔ معمولی بیماریاں:
۲۔ وہ بیماریاں جو معمولی ہوتی ہیں اور ان کے اثرات جسم پر مرتب نہیں ہوتے جیسے:عام سر درد،نزلہ اور زکام وغیرہ۔
3۔ تکلیف دہ غیر خطرناک بیماریاں:
۳۔ وہ بیماریاں جو تکلیف دہ ہوتی ہیں اگرچہ ان کے اثرات جسم پر نہیں پڑتے لیکن وہ انسانی کا رکردگی میں رکاوٹ بنتے ہیں مثلاً :دردِ شقیقہ،جوڑوں کا درد اور اعصابی کمزوری وغیرہ۔تقریباً ہر بیماری جب شدت اختیار کر لے تو وقتی یا کل وقتی طور پر کارکردگی پر اثر انداز ہوتی ہے۔اس اعتبار سے ان کا حکم ہو گا۔قسم او ل کی بیماریوں میں علاج کروانا وجوب کے درجہ میں داخل ہو گا کیونکہ ہلاکت سے بچنے کا اہتمام لازم ہے ۔
قسم دوم کی بیماریاں لا علاج بھی چھوڑ دی جائیں تو کوئی حرج نہیں اور اسی میں توکل کا عمل زیادہ پسندیدہ ہو گا۔
قسم سوم کی بیماریوں کا علاج کروانا مستحب ہو گا کیونکہ اسلام کسی شخص کو فراغت میں دیکھنا پسند نہیں کرتا بلکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ تو فارغ اور غیر مصروف نوجوانوں کو مارا کرتے تھے۔[38]علاج کے کچھ طریقے مستحب ہیں ،کچھ مباح ا، کچھ مکروہ اور کچھ حرام ہیں ۔
مستحب یعنی مسنون علاج تین قسموں پر مشتمل ہے: ۱۔ ادویہ کے ذریعے،۲۔ آیات وغیرہ کے دم کے ذریعے ۔ ۳۔ دونوں کے مرکب کے ذریعے۔ [39]
کیونکہ رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد اول تو روحانی امراض سے پاک کرنا تھا،دوسرے انسان سے تکلیف کم کرنا تھا اور اس تکلیف کو کم کرنے میں جسمانی امراض بھی شامل ہیں جیسا کہ آپﷺنے بوقت ضرورت اس کی طرف بھی توجہ فرمائی، اگرچہ بعض علماء کرام نے جسمانی امراض میں آپ ﷺ کے ارشادات کو تکلیفی شریعت میں شامل نہیں فرمایا ۔ [40]
دراصل صحتِ جسمانی کا مدار تین چیزوں پر ہے: ۱۔ حفظان صحت کے اصولوں پر عمل۔ ۲۔ مضر اشیاء و اسباب سے پرہیز ۔۳۔ فاسد مادوں کا اخراج اور مفید مادوں نمکیات،روغنیات،لحمیات وغیرہ کا ادخال۔
ان تینوں کا اشارہ قرآن مجید میں موجود ہے:
۱۔ سورۃ البقرہ میں دوران سفر روزہ ترک کرنے اجازت دی گئی ہے اور روزہ مفسد صحت نہیں ہے۔یہاں صرف حفظانِ صحت کے لیے روزہ ترک کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔[41]
۲۔ سورۃ النساء کی آیت ولا تقتلوا أنفسکم [42]سے یہ مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ اگر ٹھنڈے پانی سے وضوء یا مطلق پانی سے وضوء کرنے میں ہلاکت جان کا خدشہ ہو تو ایسی صورت میں تیمم کی اجازت ہے اوریہ مضر اشیاء سے پرہیز کی صورت بنتی ہے۔
آیت أو بہ اذی من رأسہ ففدیۃ [43]میں ارشاد ہے کہ محرم کو اگر جوؤئیں وغیرہ تنگ کرتی ہوں اور تکلیف دیتی ہوں تو وہ اس اذیت کو دور کر سکتا ہے جو کہ فاسد مادوں کے اخراج کی صورت بنتی ہے۔[44]حافظ ابن حجر نے ان تینوں مدارات میں سے آخری میں صرف فاسد مادوں کا لکھا ہے جبکہ یہ بات مشاہدہ سے سا منے آئی ہے بہت مرتبہ مفید مادوں کاادخال بھی دفع مادوں کے لیے لازم ہوتا ہے جیسے کسی کو اعصابی و جسمانی کمزوری ہو تو ڈاکٹر حضرات اسے کھانے کے لیے فولاد یا وٹامن وغیرہ کی گولیاں دیتے ہیں جو محض ادخال ہے نہ کہ اخراج ،اس لیے تیسرے مدار میں مفید مادوں کا ادخال بھی شامل کیا گیا۔اور یہ بھی آپﷺ کی سنت سے ثابت ہے۔دراصل ہمارے اطباء کو صرف اخراج کا وہم اس لیے ہوا کہ انہوں نے شہد، کہ جس کو شفاء قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے[45]اور حدیث میں بھی اس کے شفا ہونے کی تاکید موجود ہے۔،کو مسہل مانا ہے اورمسہل دواء اخراج کا باعث بنتی ہے نہ کہ ادخال کااور انہی دو اسالیب علاج سے انہیں صرف اخراج کا وہم ہوا۔ورنہ’’الحبۃ السودآء‘‘کے نام سے کلونجی ،عودھندی،کھمبی،تیل زیتون اوردیگر اشیاء کا بھی بطور دواتذکرہ موجود ہے بلکہ کلونجی جوکہ کھانے یا اس کا تیل بطورکرودیا بطور سعوط استعما ل کرنا خالص ادخال ہے،نہ کہ ا خراج لہٰذا مفید مادوں کا ادخال بھی تیسرے طریقے میں شامل ہے ۔اب یہ ادخال مُنہہ کے ذریعے بھی ہو سکتا ہے،ناک کے ذریعے بھی اور انجکشن کے ذریعے بھی صحتِ جسمانی کا تیسرا طریقہ فاسد مادوں کا اخراج یا مفید مادوں کا ادخال خالصۃً ادویہ کے استعمال کا طبی طریقہ کار ہے جس میں بسا اوقات ادویہ کی بجائے محض طبی آلات کا استعمال ہی کافی ہوتا ہے،جیسے احتجام کے عمل میں محض سینگی لگوانا ۔رگ کاٹ کر خون لگانا یادیگر قسم کی سرجریSurgery وغیرہ۔ اس کے علاوہ علاج کا ایک طریقہ خارجی بھی ہے، جس میں نہ ادخال ہوتا ہے نہ اخراج۔۔۔ اور وہ ہے، فزیو تھراپ Physiotherapy ۔
رسول اللہ ﷺ کے دور میں مختلف بیماریوں میں فزیو تھراپی اور سرجری کی جو اقسام مروج تھیں۔، وہ یہ ہیں:
۱۔ حلق کی بیماری میں گلے میں انگلی سے تالو کا اٹھانا ۔[46]
۲۔ احتجام،امراضِ جنون اور سردرد وغیرہ ہیں۔[47]
۳۔ اکتویٰ یا کَی داغ لگوانا یعنی آگ پر لوہے کو گرم کر کے جسم کے تکلیف دہ حصہ پر سوزش پہنچانا۔[48]
ان طریقوں میں سے جو تکلیف دہی میں شدید تھے انہیں آپﷺ نے نا پسند فرمایا اور ان سے احتراز کا حکم دیااور جو آسان تر تھے انہیں پسند فرمایا۔ان تینون طریقوں میں سے صرف احتجام کو پسند فرمایا۔ [49]انگلی سے حلق کے علاج کو بچوں کے لیے تکلیف دہ کہ کر اس کا متبادل بتایا[50]ور اکتویٰ یا کَی سے شدید نا پسندیدگی کا اظہار فرمایا، [51]لیکن یہ شدید ناپسندیدگی بھی بسا اوقات علاج میں کراہت کے ساتھ آپﷺ نے صحابہ کرام کے لیے اختیار فرمائی۔حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ نے آخر کار اس علاج کی اجازت دے دی۔[52] حضرت انس رضی اللہ عنہ نے آپ ﷺ کے سامنے داغ لگوایا اور آپ ﷺ نے منع نہیں فرمایا۔[53]
علماء نے آپﷺسے وارد، نہیٰ عن الکی کو تین صورتوں پر محمول کیا ہے:
- جاہل اور ناتجربہ کار شخص سے داغ لگوانے کا علاج ممنوع ہے۔
- خطرہ اور ترددمیں اگر داغ لگوانے سے صریح فائدہ نظر نہ آئے اور معاملہ مشکوک ہو تو بھی یہ ممنوع ہے۔
- طبیبِ حاذق کے مشورے پر ہو اور اگر اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہ ہو تو اس کا جواز بالکراہت موجود ہے۔[54]
جدید طریقہ ہائے علاج میں بجلی کے جھٹکے یا شعائیں اورSun Raysکا طریقہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے اس میں بجلی کے ساتھ آلات کے ذریعے جسم میں حرارت کا خدوخال کیا جاتا ہے لیکن اس میں خاص تکلیف نہیں ہے اگر ’’نہی عن المنکر‘‘کا سبب محض مریض کو انتہائی تکلیف سے بچانا ہو تو اس طریقہ علاج مین کوئی حرج نہیں ،لیکن کرنٹ لگا کر علاج کرنا تقریباً داغ لگانے کے مشابہ ہی ہے کیونکہ اس میں جھٹکا لگتا ہیں اور مریض کو تکلیف ہوتی ہے۔اسی طرح مختلف قسم کے امراض جن میں آپریشن Operation تجویزکیے جاتے ہیں ،جو ان میں نہائت احتیا ط کی ضرورت ہے،لہٰذا حتی المقدور آپریشن سے بچنا چاہیے لیکن جب اس کی حقیقی ضرورت ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
علاج کے روحانی طریقے جو عوام میں ہر دور میں مقبول رہے ہیں ۔ اور رسول اکرم ﷺ کے دور میں بھی عروج پر تھے تین ہیں؛
اول: الرقية دم [55]
دوم: تعویز[56]
سوم: سحر جادو [57]
ان طریقوں میں سے جادو تو مطلقاً حرام ہے۔ اور تمام امت کا اس پر اتفاق ہے۔[58]تعویز کے بارے میں علمائے امت اس بات پر اتفاق ہے کہ شرکیہ کلمات غیر سے استعداد اور تعویذات پر غیرمعمولی یقین کی بنیاد پر تعویز کرنا یا پہننا یا لٹکانا جائز نہیں۔
لیکن بعض علماء قرآنی آیات پر مشتمل تعویذات کے مباح ہونے کے قائل ہیں لیکن اس کے استحباب کے قائل نہیں۔
دم کے بارے میں بھی بعض افراد توحید پرستی کے نام پر تشدد آمیز موقف رکھتے ہیں اور دم کے استجاب کے قائل نہیں۔ لیکن امام بخاری ؒ نے کتاب الطب میں رقیۃ دم کو بیان کرکے اور اس پر احادیث لاکر یہ ثابت کیا ہے کہ دم بھی علاج کے طریقوں میں سے ایک ہے ۔ صحیح بخاری میں کتاب الطب کے ۵۸ ابواب میں سے ۱۱ ابواب رقیۃ دم پر ہیں اور سب میں ’’رقیۃ‘ کی رخصت بیان ہوئی ہے سوائے شرکیہ کلمات والے دم کے اور صرف ایک باب ’من لم یرق‘ ۴۲ میں توکل علی اللہ کی بناء پر دواء نہ لینے اور دم نہ کروانے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ۔ لیکن اس طریقہ علاج کو اختصار کرنے کا ستحباب باقی رہے گا۔ [59]رسول اللہ ﷺ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو کتاب سکھانے کیلئے حضرت شفا بنت عبداللہ کو مقرر فرمایا اور انہیں یہ بھی نصیحت فرمائی کہ وہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو دم سکھائیں۔ [60]حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک بچی تھی جس کے چہرے پر داغ دھبے پڑ چکے تھے، آپ علیہ السلام نے دیکھا تو نظر بد کا دم کروانے کا حکم دیا [61]اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مختلف کلمات الہیہ کو مختلف بیماریوں کے لئے معنوی تاثیرات کی بنیاد پر مختص کرنا بھی جائز ہے ۔ کیونکہ آپ علیہ السلام نے زہریلے جانور مثلاً سانپ وغیرہ کے کاٹے کا دم ، نظر بد کا دم اور بچھو کے کاٹے کا دام وغیرہ مروی ہیں۔ نظر بد کے سلسلہ تو مروی ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ علیہ السلام کو ان الفاظ کے ساتھ دم کیا۔ بسم الله أرقيک من کل شی يؤذيک من شر کل نفس أو عين حاسد الله يستفيک [62]
رسول اللہﷺ تکلیف کے وقت یہ دعا پڑھ کر دم فرماتے تھے۔
اللهم رب الناس اذهب البأس اشفه وأنت الشافی لاشفاء الا شفاءُ ک شفاءً لا يغادر سقما[63]
دم کا جواز تین باتوں سے مشروط ہے ۔
۱۔ دعائیہ کلمات پر مشتمل ہو خواہ وہ کلمات قرآن وسنہ سے ماخوذ نہ ہوں۔
اس میں ہماری دلیل یہ ہے کہ آپ علیہ السلام نے حضرت شفا رضی اللہ عنہا کو جو دم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کو سکھانے کی ہدایت کی تھی وہ قبل اسلام سے وہ کر رہی تھیں۔ ورنہ قرآن کی آیات کی عالمہ تو حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا ، حضرت شفاء سے بڑھ کر تھیں۔ اور رسول اللہ ﷺ کے الفاظ اگر سکھانے مقصود ہوتے تو وہ آپ ﷺ خود سکھاتے کیونکہ آپ ﷺ اپنے اہل و ازواج کو تعلیم دیا کرتے تھے اور دم بھی سکھاتے تھے۔[64]ایک روایت میں معوذات کی تخصیص کے ساتھ دم کے حکم کا تذکرہ ہے۔ [65]عوف بن مالک کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے انھیں زمانہ جاہلیت کے دم والے کلمات کے ساتھ ہی دم کی اجازت دی ۔[66]حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی ایک روایت مذکور ہے کہ آپ ﷺ نے دم سے منع فرما دیا ، لیکن آل عمرو بن حزم نے آپ ﷺ کو اپنے دم کے کلمات سنائے تو آپ ﷺ نے فرمایا ۔
ما أری با ساً فمن استطاع منکم ان ينفع أخاہ فليفعل [67]لہذا جاہلیت کا یا غیر مسلموں سے سیکھا وہ دم جس کے معنی معلوم نہ ہوں وہ بھی جائز نہیں ۔.ii آیت قرآنیہ پر مشتمل ہو اگرچہ وہ دعائیہ کلمات نہ بھی ہوں ۔
اس میں ہماری دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے سورۃ البقرۃ کی فضیلتوں میں ایک یہ بھی بتائی کہ جہاں وہ پڑھی جائے شیطان بھاگ جاتا ہے۔ [68]سورۃ بقرہ بھی بعض بیماریوں میں مجرب ہے اور پڑھی جاتی ہے ۔ جب کہ سورۃ کی تمام آیات دعائیہ نہیں ہیں۔ اس طرح بعض دیگر آیات بھی جن کا مفہوم ہمارے علاج سے ملتا جلتا ہو اس باب میں مجر ب ہیں ۔دراصل قرآن مجید کے معنوی اور عملی اثرات کے ساتھ ساتھ صوتی اثرات بھی ثابت شدہ ہیں۔ ایک جاپانی محقق ڈاکٹر نے اس سلسلہ میں اپنی تحقیقات پیش کی ہیں جس میں اس کا کہنا ہے کہ انھوں نے پانی کا ایک نمونہ Sample تجزیاتی مراحل سے گزرااور اس کے خواص معلوم کئے پھر اسی پانی کا ایک اور نمونہ لیا اور اس کے پاس ’’بسم اللہ الرحمٰن الرحیم‘‘ بلند آواز سے پڑھوائی ۔ اور اسے تجزیاتی مراحل سے گزارا تو اس پانی میں ایک چمکدار بلور بن چکا تھا ۔ پھر ایک اور نمونہ لیا اور اس کے پاس قرآن کی آیات پڑھوائیں گئیں اور اس پانی کا تجزیہ لیبارٹری میں کیا تو وہ بھی ایسے خواص اپنے اندر پیدا کر چکا تھا کہ جو انسانی صحت کے لئے بہت ضروری ہوتے ہیں۔
.iii اللہ کے ناموں کے ذریعے بھی دم کرنا جائز ہے اگرچہ وہ سنت سے ثابت نہ بھی ہوں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے
قل ادعوالله اوادعوا الرحمٰن أيما تدعوا فله الأسماء الحسنیٰ [69]لہٰذا اللہ کے کسی وصف کے ساتھ بھی اللہ کو پکار نا جائز ہے ۔
وہ دم جو غیر اللہ کے ناموں کے ساتھ کیا جائے ان میں عرش ، فرشتے ، صالحین وغیرہ شامل ہیں لیکن یہ دم نہ واجب ہے ، نہ مستحب ہے بلکہ مشروع ہی نہیں لیکن امام نوویؒ نے اس کی اباحت کا تذکرہ کیا ہے[70].
حوالہ جات
- ↑ ابن ماجہقزوینی:ابو عبد اللہ محمد بن یزید :الامام ، السنن ،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۴ء]، کتاب الطب، باب ما انزل اللہ، ح: ۳۴۳۸،ص: ۴۹۶
- ↑ ابو داؤدالسجستانی:سلیمان بن اشعث:الامام ، السنن ،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۴ء] ، کتاب الطب، باب الرجل یتداوی،ح:۳۸۵۵، ص:۵۴۹ ؛ ترمذی:ابوعیسیٰ محمد بن عیسیٰ:الامام ، السنن ،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۴ء] ابواب الطب، باب الدواء و الحث علیہ، ح:۲۰۳۸، ص:۴۶۹ ؛ ابن ماجہ ، کتاب الطب، باب ماالنزل اللہ، ح:۳۴۳۶، ص:۴۹۵
- ↑ ترمذی، کتاب الطب، باب ما جاء فی السعوط، ح:۲۰۴۷، ص۱۸۵۶
- ↑ ابن ماجہ ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل:الامام ، الجامع الصحیح،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء] ، کتاب الطب، باب الحبۃ السوداء، ح:۳۴۴۷، ص۴۹۷
- ↑ بخاری ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل:الامام ، الجامع الصحیح،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء] ، کتاب الطب، باب الحبۃ السوداء،(۷) ح:۵۶۸۷، ص:۴۸۷
- ↑ ایضاً، باب السعوط من قسط الھندی والبحری(۱۰)، ح:۵۶۹۲، ص۴۸۷
- ↑ ایضاً، باب دواء المبطون (۲۴)، ح:۵۷۱۶، ص:۴۸۹
- ↑ ایضاً، باب الحمی من ضیح جہنم(۲۸)ح: ۵۷۲۵، ص:۴۸۹
- ↑ بخاری،باب الجحم من الشقیقہ والسودآء (۱۵)،ح:۵۷۰۲، ص:۴۸۸،
- ↑ ایضاً، باب لمن شفاء العین،ح:۵۷۰۸، ص:۱۰۰۹
- ↑ حاکم :ابو عبداللہ ،محمد بن عبداللہ ،الامام ،الحافظ، المستدرک علی الصحیحین،[بیروت ،دار المعرفۃ[،ج:۴
- ↑ ۱بن ماجہ، کتاب الطب باب من اکتوٰی،ح:۳۴۹۴، ص:۵۰۴
- ↑ مسلم الحجاج القشیری:الامام ، الصحیح،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء] ، کتاب السلام، باب لکل داء دواء......،ح:۵۷۴۵، ص:۹۷۸
- ↑ صحیح بخاری ، کتاب الطب، باب دواء المبطون، ح:۵۷۱۶, ص ۴۸۹
- ↑ ایضا، کتاب الصلوٰۃ، باب الخیمۃ فی المسجد، (۷۷)ح:۴۶۳, ص ۸۰
- ↑ ایضا، کتاب الجہاد، باب مداوۃ النساء...... (۶۷)ح:۲۸۸۲, ص ۲۳۲
- ↑ ایضاً
- ↑ ایضاً، باب غزو النساء...... (۶۵)ح:۲۸۸۰, ص ۲۳۱
- ↑ ایضاً، باب حمل النسا ء القرب الی الناس. (۶۶)ح:۲۸۸۱, ص ۲۳۱
- ↑ ابن حجر عسقلانی : احمد بن علی،تہذیب التہذیب،[لاہور:دارنشر الکتب الاسلامیہ، طبع ثالث۱۴۰۶ھ، ۱۹۸۵]، ج:۶، ص:۵۴۱
- ↑ صحیح بخاری ، کتاب الطب، باب الحجم فی السفر والاحرام،ح:۵۶۹۵, ۱۰۰۸
- ↑ ایضا ،کتاب الطب، باب السعوط، (۹)ح:۵۶۹۱, ص ۴۸۷
- ↑ ایضاً ،باب التلبینہ للمریض، (۸)ح:۵۶۸۹, ص ۱۰۰۷
- ↑ ایضا ،کتاب الطب ،باب التلبینہ للمریض، (۸)ح:۵۶۸۹, ص ۱۰۰۷
- ↑ ایضا، ح:۵۶۹۰
- ↑ ایضاً ،باب حرف الحصیر، (۲۷)ح:۵۷۲۲, ص ۴۸۹ ؛ ترمذی، کتاب الطب، باب التداوی بالرماد، ح:۲۰۸۵، ص۴۷۹
- ↑ ایضا، کتاب المرضیٰ، بابا فضل من یصرع من الریح، ح:۲۶۵۲، ص:۱۰۰۰
- ↑ ایضاً ، باب من اکتوی او کوٰی...... (۱۷)، ح:۵۷۰۴، ص۴۸۸،
- ↑ ایضاً ، کتاب صلاۃ التراویح، باب فضل من نام۔۔۔(۱)، ح:۲۱۰۲، ص۳۲۲
- ↑ ایضاً ، کتاب التھجد(ابواب التطوع)، باب صلوٰۃ الضحیٰ فی السفر(۳۱) ح:۱۱۷۶، ص۱۸۸
- ↑ نسائی ابو عبد الرحمٰن احمد بن شعیب:الامام ، السنن،[ریاض: دارالسلام ، الطبعۃالاولیٰ ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء] ، کتاب الصیام، باب الرخصۃ فی الافکار......ح:۲۳۱۶، ص۳۲۰
- ↑ القرآن الانبیاء، (۲۱):۱۰۷
- ↑ القرآن الاعراف، (۷):۱۵۷
- ↑ ابن حجر عسقلانی : احمد بن علی، فتح الباری،[ریاض: دارالسلام، طبع اول، ۱۹۹۷، ۱۴۱۸ھ]، ج: ۱۰، ص : ۱۶۷
- ↑ عینی :بدرالدین حمود بن احمد: ملا علی القاری،عمدۃ القاری،[بیروت: دار احیا التراث العربی، طبع اول، ۱۴۲۴ھ، ۲۰۰۳] ج:۲۱، ص: ۲۳۰
- ↑ فتح الباری، ج: ۱۰، ص : ۱۶۷؛ القسطلانی: شہاب الدین احمد بن محمد المصری، ارشاد الساری ،[بیروت: دارلفکر،۱۹۹۰]، ج : ۱۲، ص: ۴۱۰؛ عمدہ القاری، ج:۲۱، ص: ۲۳۰
- ↑ صحیح بخاری ، باب من اکتوی او کوٰی........(۱۷)، ح:۲۷۰۴، ص:۴۸۸،
- ↑ رواس قلعہ جی، فقہ عمر رضی اللہ عنہ، [ادارہ معارف اسلامی ، لاہور]ص:
- ↑ ابن القیم الجوزیہ، زادالمعاد،] الطبعۃ المصریۃ، طبع اول، ۱۹۸۰]، ح:۴، ص:۲۴
- ↑ شاہ ولی اللہ، حجۃاللہ البالغۃ،[ لاہور: مکتبۃ السلفیۃ، س ن]، ج:۱، ص:۱۲۸
- ↑ القرآن ، البقرۃ، (۲):۱۸۴
- ↑ القرآن ، النساء، (۴):۲۹
- ↑ القرآن ، البقرۃ، (۲):۱۸۴
- ↑ دیکھئے، فتح الباری، ج:۱۰، ص:۱۶۵
- ↑ القرآن ، النحل، (۱۶):۶۹
- ↑ صحیح بخاری ،کتاب الطب، باب اللدود، ، ح:۵۷۱۳،، ص:۴۸۸،
- ↑ ایضا،کتاب الطب ،باب الحجم....، ح:۵۷۰۰،، ص:۴۸۸،
- ↑ ایضاً ، ح:۵۷۰۲،
- ↑ ایضاً
- ↑ ایضاً ، باب اللدود، ح:۵۷۱۳، ص:۴۸۸،
- ↑ ایضاً ، باب شفاء فی ثلاث، (۳)، ح:۵۶۸۱-۵۶۸۰، ص:۴۸۵،
- ↑ ابن ماجہ ، کتاب الطب، باب من اکتوی، ح:۳۴۹۴، ص:۵۰۴
- ↑ صحیح بخاری ، کتاب الطب، باب ذات الجنب(۲۶)، ح:۵۷۲۱-۵۷۱۹، ص:۹۸۴،
- ↑ فتح الباری، ج:۱۰، ص:۱۷۳؛عمدۃ القاری، ج:۲۱، ص۲۳۳؛ارشاد الباری شرح صحیح بخاری ، ج:۱۲، ص:۴۱۲
- ↑ صحیح بخاری ، کتاب الطب، باب النفث فی الرقی(۳۹)، ح:۵۷۴۹، ص:۴۹۱
- ↑ ترمذی ، کتاب الطب، باب ما جاء فی کراھےۃ التعلیق، ح:۲۷۰۲، ص۴۷۶،
- ↑ صحیح بخاری ، کتاب الطب، باب السحر(۴۷)، ح:۵۷۶۳، ص۴۹۲
- ↑ صحیح بخاری،کتاب الطب، باب الشرک و السحر من المولقات(۴۸)، ح:۵۷۵۴، ص۴۹۲
- ↑ تفصیل کے لئے دیکھئیے، صحیح بخاری ، کتاب الطب، باب الرقی بالقرآن، (۳۲) سے باب من لم یرق(۴۲)، ص:۴۹۱۔۴۹۰
- ↑ ابو داؤد،کتاب الطب، باب فی الرقی، ح:۳۸۸۷، ص:۵۵۲
- ↑ صحیح بخاری، کتاب الطب، باب رقیۃ العین۳۵، ح:۵۷۳۹، ص۴۹۰
- ↑ ابن ماجہ، کتاب الطب: باب ماعوذ بہ النبی و ماعوذ بہ، ح: ۳۵۲۳،ص: ۵۰۷
- ↑ مسلم، کتاب السلام، باب الطب والمرضیٰ ح:۵۷۰۰، ص۱۰۶۶
- ↑ صحیح بخاری، کتاب الطب، باب رقیۃ النبیﷺ،(۳۸)،ح:۵۷۴۲، ص۹۰
- ↑ ایضاً، باب رقیۃ العین،(۳۵)،ح:۵۷۳۸، ص۴۹۰
- ↑ مسلم، کتاب السلام، باب رقیۃ المریض بالمعوذات والتفث،ح:۵۷۱۵-۵۷۱۴، ص۹۷۳
- ↑ ایضا، کتاب السلام، باب لاباس بالرقی.....ح:۵۷۳۲،ص:۱۰۶۸
- ↑ ایضاً، باب استجاب الرقیۃ من العین والنملۃ.....ح:۵۷۲۷،ص:۹۷۵
- ↑ ترمذی، ابواب فضائل القرآن،باب ما جاء فی سورۃ البقرہ،ح:۲۸۷۷،ص:۶۴۷
- ↑ القرآن، الاسراء(۱۷):۱۱۰؛ فتح الباری، ج:۱۱، ص:۳۵۳
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Volume 30 Issue 1 | 2015 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |