33
2
2016
1682060034497_942
16-179
http://www.al-idah.pk/index.php/al-idah/article/download/98/91
http://al-idah.szic.pk/index.php/al-idah/article/view/98
Asbab-e-worood-e-Hadith Asbab-e-Nozool-e-Quran Sabab-e-worood qasasia Sabab-e-worood sawalia
رسول اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ مبارکہ(قولی، فعلی، تقریری یاوصفی) کو بطریق احسن سمجھنا اس بات پر موقوف ہے کہ مجموعی طور پرمن جملہ تمام بنیادی چیزوں کا علم حاصل کیا جائے کہ جن سے قاری حدیث کسی بھی طور پر غافل و بے نیاز نہیں ہو سکتا۔ اگر وہ اس میں غفلت برتے تو حدیث پڑھنے ، سیکھنے، سمجھنے اور سمجھانے میں بہت سے ابہام پیدا ہو سکتے ہیں۔
لہٰذاحدیث کی مبادیات وبنیادی چیزوں (حدیث، علوم الحدیث، اسباب حدیث وغیرہ) میں سے کسی بھی بنیادی چیز کو ترک کرنے سے حدیث کے مفہوم میں اضطراب پیدا ہو سکتا ہے اورنصوص یعنی آیات و احادیث کے مابین یا صرف احادیث کے مابین اختلاف پیدا ہو سکتا ہے۔ جبکہ حقیقت میں ان کا آپس میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں۔ مگر یہ اختلاف حدیث کے ان بنیادی علوم و مبادیات کے نہ جاننے کی وجہ سے ہوتاہے۔ جب حدیث کا ماخذو مصدر ایک ہی ہو تو نصوص میں اختلاف و تضاد کی توقع نہیں کی جاسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا‘‘1 ”اوراگر وہ غیر خدا کے پاس سے ہوتا توضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔“
درج بالا آیت میں نصوص ِ قرآنی کے عدم اختلاف کو واضح کیا گیا ہے۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
"مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى. وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى"2 ”اوروہ کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں کرتے وہ تو نہیں مگر جو بات ان کو وحی کی جاتی ہے ۔‘‘
اس لیے ان نصوص کے مابین اختلاف محال ہے۔ اس لیے نصوص وحی میں فی نفسہٖ کوئی اختلاف نہیں۔ لہٰذا اختلاف ورد کی اصل وجہ عام لوگوں کی حدیثِ رسول صلى الله عليه وسلم سے عدم واقفیت ،ناشناسائی اور کم علمی ہے لہذا ناکافی بصیرت کی بنیاد پر اختلاف کی صورت پیش آتی ہے ۔ اگر علم وتحقیق قوی ہو تو ایسے اختلاف کا ازالہ کیا جا سکتا ہے۔
اورنصِ قرآنی کے اجمال کو تفصیل، اشتراک کو تاویل اور عموم کو تخصیص، احادیث نبویہ صلى الله عليه وسلم سے ملتی ہے، جیسا کہ ارشادِ ربانی ہے: " وَأَنزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ "3 ”اور ہم نے آپ (صلى الله عليه وسلم ) کی طرف اپناذکر (قرآن) نازل کیا تا کہ آپ(صلى الله عليه وسلم ) لوگوں کو کھول کر بیان کر دیں جو ان کی طرف اُتارا گیا۔“
قرآن مجید کی یہ آیت اسی بات پر شاہد ہے کہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی الله عليه وسلم کو سکھایا وہ تعلیم اُمت کے لیے ہے تو قرآن مجید کی وضاحت احادیث نبویہ صلى الله عليه وسلم میں ہے۔ اورپھر نصوصِ قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ کے سُپرد ہے تو ان نصوص کی معنوی حفاظت دراصل حدیثِ رسول صلى الله عليه وسلم ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:" وَعَلَّمَكَ مَا لَمْ تَكُنْ تَعْلَمُ "4 "اورآپ(صلى الله عليه وسلم ) کو سکھا دیا جو کچھ آپ(صلى الله عليه وسلم )نہ جانتے تھے"
لہٰذا اختلاف مابین النصوص کی اصل وجہ علومِ حدیث کے بار ے میں عدم واقفیت ہے۔ ان اختلافات کو ختم کرنے میں علماءسلف نے بہت تحقیقی اور معیاری کام کیا ہے یہاں تک کہ اُنہوں نے روایت حدیث کے ہر پہلو پر توجہ کی یعنی سند ومتنِ حدیث کے تمام پہلوﺅں کو ملحوظِ خاطر رکھا۔
علماءحدیثِ رسولصلى الله عليه وسلم نے روایت واحادیث کی چھان بین پر جو علمی اورتحقیقی کام کیا اس سے احادیث کے مابین ہلکا اورخفیف ترین فرق بھی زائل ہوگیا۔ اوراس کام میں انہوں نے نہایت احتیاط برتی کیونکہ احادیثِ نبویہصلى الله عليه وسلم ہی دین اسلام کی بنیاد ہیں۔
اسی احتیاط کی بناءپر بلند پایہ تصنیفات صرف رواة حدیث کے اسماءکنیت صفات، اختلاف و کردار، کی مکمل چھان بین پر مبنی ہیں۔ جن میں رواة حدیث کی زندگی کے ہر پہلو کو سامنے رکھا گیا عمر کے ہر حصہ میں خصائل، خیالات، افکار، حفظ، صحت وعدم صحت ، بچپن، جوانی، کہولت، بُڑھاپا، غرضیکہ ہر پہلو کو سامنے رکھا گیا۔ اس طرح علم جرح وتعدیل کی تدوین عمل میں آئی۔
اسی طرح حدیث کے ردوقبول اور اس کے متعلقات پر تصانیف موجود ہیں۔ بعض اوقات حدیث خود ایک طریق سے ضعیف ہوتی ہے مگر دوسرے طریق وسند سے قوت پاجاتی ہے جو سند صحیح ہو یا حسن اوروہ ضعیف حدیث کی سند کے موافق آجائے اوراس کی مؤید بن جائے تو ضعیف حدیث قوی ہو جاتی ہے۔
مصطلحات وعلوم الحدیث میں اسباب ورود حدیث بھی ایک اہم ترین موضوع ہے۔ اسباب ورودِ حدیث کا موضوع متن حدیث سے متعلق علوم وفنون کے باب میں بنیادی موضوعات میں شمار ہوتاہے۔ محدثین اورفقہائے کرام نے اس علم و فن کو علوم الحدیث کی انواع واقسام میں شمار کیا ہے۔اس لیے وہ اس کو یاد کرنے، پڑھنے، پڑھانے، لکھنے اورعوام کے سامنے لانے میں حریص تھے۔ کیونکہ نص کو سمجھنے اوراس سے حدیث کے مسائل مستنبط و مستخرج کرنے میں اس کا بہت بڑا اثر ہے اور لامتناہی فائدہ ہے۔ معرفت اسباب ورود حدیث اہم ترین امر ہے یہی وجہ ہے کہ اس فن میں بیش بہا علمی اثاثہ منصہ شہود پر آیا ۔
تعریف اسباب ورودِ حدیث
"هو ما ذكر الحديث بشانه وقت وقوعه"
حدیثِ مبارکہ کو وقت ورود یعنی حسبِ موقع، مناسبت کے لحاظ سے وجہ سبب کے تمام لوازمات و متعلقات کے ساتھ بیان کرنا سبب ورودِ حدیث کہلاتا ہے۔ کبھی حدیث کا سبب ورود یا شان ورود کسی اہم واقعہ کے ساتھ متعلق ہوتا ہے یا کسی سوال کا جواب ہوتا ہے۔
تعریف میں اختلاف اورمحققین کی رائے
بعض محدثین کے مطابق لفظ سبب سے وقت وقوع کی قید سے وہ احادیث و اخبار خارج ہو جاتی ہیں جو زمانہ ماضی سے تعلق رکھے جیسے کہ قصصِ انبیاءوغیرہ لیکن یہ بات اپنی اصل میں دو جہتیں رکھتی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ اگر قصص انبیاءمیں سے قصص ابتدائیہ طور پر ہی بیان کئے جائیں تو اس صورت میں تو وقت وقوع کی قید سے وہ احادیث خارج ہو جاتی ہیں۔ لیکن اگر قصص کو باقاعدہ کسی موضوع میں مثالاً بیان کیا جائے تو اُس موضوع کے اعتبار سے اُن قصص کی اہمیت سبب کے لحاظ سے اپنی جگہ قائم رہتی ہے۔ اس کی مثال میں ذیل میں ایک حدیثِ مبارکہ بیان کی جاتی ہے۔
امام مسلمؒ نے کتاب الفضائل میں سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے فضائل کے ذکر میں حدیثِ مبارکہ بیان کی۔ اس حدیث میں ملک الموت کی حضرت موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو ہوئی اُس کا ذکر ہے۔ جب ملک الموت نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پوچھنے پر کہا کہ اُس مہلت کے بعد بھی موت آئے گی تو حضور سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا:
"رب امتنى من الأرض المقدسة رمية بحجر"5
”اے میرے رب! ارضِ مقدس سے ایک پتھر پھینکے جانے کے فاصلے پر میری روح قبض کرنا۔“
اس حدیث مبارکہ کے سبب ورود میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی یہ دُعا ءمذکور ہے اس سے فقہاءنے فضیلت والے مقامات پر دفن کااستحباب بیان کیاہے۔ علامہ نوویؒ لکھتے ہیں کہ :
اس حدیث میں فضیلت والے اورمتبرک مقامات پر دفن ہونے اورصالحین کے قرب میں دفن کرنے کے استحباب کا بیان ہے۔
سبب کا لغوی معنی
لغوی اعتبار سے سبب کامطلب ہے کہ :"وهو كل شيء يتوصل به إلى غيره"۶ ہر وہ چیز جس کے ذریعے کسی دوسری چیز تک پہنچا جائے‘‘۔
اہل عرف نے سبب کے تعریف یوں کی ہے کہ :"كل شيء يتقول به إلى مطلوب"۷ "ہر وہ چیز جس کی وساطت سے مطلوب تک رسائی حاصل ہو اُسے سبب کہا جاتا ہے۔"
"طريق موصل إلى الحكم"۸ "وہ طریقہ جس کے ذریعے حکم (شرعی) تک پہنچا جائے"
ورود اورموارد کا لغوی معنی
لغوی اعتبار سے ورود یاموارد مناہل کے معنی میں ہے یعنی وہ پانی جو واردہو۔ "بمعنى المناهل أو الماء الذي يورد"۹
سبب ورود کی اصطلاحی تعریف
امام سیوطیؒ سبب ورود حدیث کی تعریف میں لکھتے ہیں کہ :
"هو علم يبحث فيه عن الأسباب الداعية إلى ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم وهذا السبب قد يكون سوالا وقد تكون حادثه وقد تكون قصه. يقول النبى صلى الله عليه وسلم الحديث بسببه أو بسببها"10
”سبب ورودِ حدیث وہ علم ہے جس میں اُن اسباب کے بارے میں بحث کی جاتی ہے کہ جو رسول اللہ علیہ وسلم کے ذکر کی طرف پہنچاتے ہیں (جن میں آپ صلی الله عليه وسلم کے اقوال، افعال، عادات، فضائل وصفات کا ذکر ہو) اور یہ سبب کبھی سوال ہوتاہے کبھی حادثہ ہوتا ہے کبھی واقعہ ہوتا اور کبھی کسی قصے کا جواب بنتا ہے جیسے رسول اللہ علیہ وسلم کی حدیث ذکر کرنے کے بعد یہ کہنا کہ اس کی وجہ اور سبب یہ ہے۔‘‘
اسی طرح حدیث کے معنی و مراد کی تحدید کے طریقہ کو بھی سبب ورودِ حدیث کہتے ہیں امام ابن حمزہ دمشقی کے مطابق:
"هو ما يكون طريق لتحديد المراد الحديث من عموم أو خصوص أو اطلاق أو تقييد أو نسخ أو غير ذلك"۱۱
”سبب ورودِ حدیث اُس طریقہ کار کو کہتے ہیں کہ جس سے کسی حدیث کے معنی میں عموم و خصوص اطلاق وتقیید، یا نسخ کی تعیین کی جاتی ہے۔‘‘
اس علم پر اہم تصانیف
اسباب ورودِ حدیث کے اعتبار سے محدثین نے مختلف تصانیف لکھی ہیں جن میں سے چند اہم تصانیف درج ذیل ہیں:
(i)محاسن الاصطلاح وتضمین کلام ابن الاصلاح
مصنفہ: الحافظ شیخ الاسلام سراج الدین عمر البلقینیؒ
(ii)النخبه وشرحها
مصنفہ: احمد بن علی بن حجر العسقلانیؒ(م 852 ہجری)
(iii)اللمع فی اسباب ورود الحدیث الشریف
مصنفہ:امام جلال الدین عبدالرحمن سیوطیؒ (م911 ہجری)
(iv)البیان والتعریف فی اسباب ورود الحدیث الشریف
مصنفہ:ابراہیم بن محمد کمال الدین ابن حمزہ الدمشقی الحیسنی الحنفیؒ(م1022ہجری)
لیکن صحابہ کرام ؓ کے زمانے سے اب تک آثارو کتب پر غور وفکر کرنے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ علم بہت قدیم ہے اوریہ علم اصل میں علم اسباب نزول القرآن الکریم کے مشابہ ہے۔
جیسا کہ امام سیوطی ؒ لکھتے ہیں: "ان من أنواع علوم الحديث: كمعرفة أسباب نزول القرآن"12 ”یہ علوم حدیث کی انواع میں سے ہے کہ اسباب کو جانا جائے جیسا کہ اسباب نزول قرآن کا جانناہے۔“
اسی طرح ابن حمزہؒ دمشقی لکھتے ہیں کہ:
"اعلم ان أسباب ورود الحديث كأسباب نزول القرآن"13”جان کہ اسباب ورودِ حدیث ، اسباب نزول قرآن کی طرح ہے‘‘۔
درحقیقت سبب ورود حدیث اصل میں سبب نزول قرآن کی مثل ہے۔ جس طرح قرآنِ مجید کی آیات کے معانی و مطالب کی وضاحت کے لیے شانِ نزول کی طرف جانا ضروری ہے بالکل اسی طرح حدیثِ مبارکہ کی مکمل وضاحت اوراحکام کے استنباط کے لیے سبب ورود کا جاننا بھی ضروری ہے۔ ذیل میں شانِ نزولِ قرآن کی اہمیت پر ایک حدیث بیان کی جاتی ہے:
"عن ابراهيم التيمى قال: أرسل عمر بن خطاب إلى ابن عباس فقال: كيف تختلف هذه الأمة وكتابهاواحد ونبيها واحد وقبلتها واحدة؟ فقال ابن عباس: يا أمير المؤمنين أنزل علينا القرآن فقرانا، وعلمنا، فيمانزل وانه سنكون بعدنا أقوام يقرؤن القرآن ولا يعرفون فيما نزل فيكون لقوم فيه رأي كان لكل قوم فيه رأي اختلفوا،فإذ اختلفوا قتلوا"14
’’ابراہیم تیمیؒ سے روایت ہے کہ عمر بن خطابؓ نے ابن عباسؓ کی طرف خط بھیجا اورکہا یہ امت کیسے اختلاف میں پڑ سکتی ہے کہ اس امت کی کتاب ایک نبی صلى الله عليه وسلم ایک اورقبلہ بھی ایک؟ ابن عباسؓ نے فرمایا اے امیر المومنین بے شک قرآن ہم پر نازل ہوا پس ہم نے اسے پڑھا اورہم نے جانا کہ قرآن کب اورکہاں نازل ہوا۔ عنقریب ایک قوم ایسی آنیوالی ہے جو قرآن تو پڑھیں مگر انہیں قراان کے نزول کا علم نہیں ہوگا۔ اسے ہر قوم کی قرآن کے بارے میں اپنی رائے ہو گی۔ اسی وجہ پر اختلاف ہوگا تو آپ میں اختلاف کریں گے اور ایک دوسرے کو قتل کریں گے۔‘‘
سبب نزول قرآن اورسبب ورودِ حدیث میں گہراربط اورتعلق پایا جاتاہے۔ بعض اوقات ایک حدیث کا سبب، نزول قرآن کے سبب کو واضح کرتاہے۔ جس سے قرآن کے احکامات کو سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے۔ اس مقام پر اسباب ورودِ حدیث اور سبب نزول قرآن کے موضوع کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جاتا ہے جبکہ اپنی اصل میں یہ ایک مکمل موضو ع ہے۔
ذیل میں سبب نزولِ قرآن اورسبب ورودِ حدیث میں ربط کو واضح کرنے کے لیے چند احادیث بیان کی جاتی ہیں:
"۱۔عن زيد بن أرقم قال:کنت فی غزاة فسمعت عبد الله ابن أبی یقول: لا تنفقوا علی من عندرسول الله حتی ينفضوا من حوله، ولئن رجعنا من عندہ ليخرجن الأعز منها الأذل فذکرت ذالک لعمی او لعمر فذکرہ للنبی صلى الله عليه وسلم فدعانی فأرسل رسول الله صلى الله عليه وسلم أبی عبد الله بن أبی وأصحابه فحلفوا ما قالوا، فکذبَنی رسول الله صلى الله عليه وسلم وصدقه، فأصابنى هم لم يصبنی مثله قط، فجلست فی البيت فقال لی عمی: ماردت الی ان (کذبك) رسول الله صلى الله عليه وسلم ومقتک فأنزل الله تعالیٰ :اذا جائک المنفقون۔ فبعث الی النبی صلى الله عليه وسلم فقرأ فقال: ان الله قد صدقك يا زيد۔“15
’’حضرت زید ؓ بن ارقم روایت کرتی ہیں انہوں نے کہا کہ میں ایک جنگ میں تھا تو میں نے عبداللہ بن ابی کو کہتے ہوئے سنا کہ ان لوگوں پر خرچ نہ کرو جو رسول اللہ علیہ وسلم کے قریب ہیں یہاں تک کہ وہ منتشر ہو جائیں جو ان کے گرد ہیں اورہم یہاں سے لوٹ کر جائیں گے تو عزت والا ذلیل کو ان سے باہر نکال دے گا میں نے یہ اپنے چچا یا حضرت عمر ؓ سے ذکر کیا اورانہوں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم سے ذکر کیا تو آپ صلی الله عليه وسلم نے مجھ کو بلا بھیجا میں نے آپ صلی الله عليه وسلم سے بیان کیاتو رسول اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی اوراُس کے ساتھیوں کو بُلایا توان لوگوں نے قسم کھائی کہ ہم نے ایسا نہیں کہا تو رسول اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو جھوٹا سمجھا اوراس کو سچا بس مجھے اس بات کا اتنا صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے اتنا صدمہ نہیں ہواتھا۔ میں اپنے گھر میں بیٹھ رہا تو مجھ سے میرے چچا نے کہا کہ کیا بات ہے؟ رسول اللہ علیہ وسلم نے تجھ کو جھوٹاکہا اور تجھ پر ناراض ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:”اِذَا جَآئَكَ المُنٰفِقُونَ“نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کو بلا بھیجا اوریہ آیت پڑھی پھر فرمایااے زید! اللہ تعالیٰ نے تیری تصدیق کردی ہے‘‘.
اس حدیثِ مبارکہ کے سبب سے قرآن مجید کی سورة المنافقون کی آیات کاسبب نزول واضح ہوتاہے۔ اوریوں سبب ورودِ حدیث اورسبب نزولِ قرآن کے مابین ربط بھی واضح ہوتاہے۔
سبب ورود سوالیہ
"عن ام سلمة قالت یا رسول الله صلى الله عليه وسلم لا أسمع الله ذکر النساء فی الهجرة فأنزل الله تعالیٰ: انی لا اُضیع عمل عامل منکم من ذکر ااو أنثی بعضکم من بعض"16
’’حضرت ام سلمہؓ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ علیہ وسلم! میں نے نہیں سُنا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی ہجرت کا ذکر کیاہو تو اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ میں تم میں سے کسی عمل کرنے والے کا عمل ضائع نہیں کرتاخواہ وہ مرد یا عورت، تم میں سے بعض بعض سے ہیں۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں بھی ام سلمہ ؓ نے حضور صلى الله عليه وسلم سے عورتوںکی ہجرت کے بارے میں سوالاً عرض کیا۔ سبب ورودِ حدیث کے اعتبار سے یہ حدیث سوالیہ ہوگی۔ اوراس کا ربط قرآنِ مجید کی مذکورہ آیت سے واضح ہے۔
سبب ورود قصصیہ
"عن سماك بن حرب قال سمعت مصعب بن سعد یحدیث عن أبيه سعد أنزلت فی أربع آیات فذکر قصه و قالت أم سعد الیس قد أمر الله باالبر والله لا أطعم طعام ولا أشرب شرابا حتی أموت أو تکفر قال فکانوا اذا أرادوا أن یطعموها شجروافاها فنزلت هذه وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا وَإِن جَاهَدَاكَ لِتُشْرِكَ بِي"17
’’سماک بن حرب، مصعب بن سعد سے اوروہ اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ سعد بن ابی وقاصؓ فرماتے ہیں کہ میرے متعلق چار آیات نازل ہوئیں۔ پھر قصہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے نیکی کا حکم نہیں کیا؟ اللہ کی قسم میں اس وقت کچھ نہ کھاﺅں گی نہ پیوں گی جب تک مر نہ جاﺅں۔ یا پھر تم دوبارہ کفر نہ کرو۔ راوی کہتے ہیں کہ جب اُنہیں کچھ کھلانا ہوتا تو منہ کھول کر کھلایا کرتے تھے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ سے اچھا سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر وہ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرے ساتھ اُسے شریک کرے کہ جسے تو نہیں جانتا تواُن کا کہنا نہ مان!‘‘
اس حدیثِ مبارکہ میں بھی والدین کی فرمانبرداری کی حد متعین ہوتی ہے۔ حضرت سعدؓ چونکہ اس حدیث میں قصہ بیان کرتے ہیں تو اس اعتبار سے سبب ورود کے اعتبار سے یہ حدیث قصصیہ ہے۔ اوریہ حدیث والدین کے حقوق میں اجمال کو زائل کرتی ہے۔
"عن جابر بن عبد الله قال أقبلت غير يوم الجمعة ونحن مع النبی صلى الله عليه وسلم فثار الناس الا اثنی عشر رجلاً فأنزل الله تعالیٰ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا"18
’’جابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ایک قافلہ جمعہ کے دن آیا اوراس وقت ہم لوگ نبی صلى الله عليه وسلم کے ساتھ تھے تو بارہ آدمیوں کے سوا تمام لوگ رو پڑے اُس وقت آیت نازل ہوئی کہ جب وہ لوگ مالِ تجارت یا کھیل کی چیز کی طرف دیکھتے ہیں تو اس کی طرف دوڑ پڑتے ہیں۔‘‘
اس حدیثِ مبارکہ کے سبب ورود کو دیکھا جائے تو سبب کے اعتبار سے یہ حدیث واقعیہ یا قصصیہ ہے۔ اور پھر اس قصہ میں لوگوں کے لوگوں کے جس عمل کو بیان کیا جارہا ہے ، اس کا ربط آیت قرآنی کے نزول کے ساتھ ہے۔
علم اسباب ورود حدیث فقہ وحدیث دونوں میں معرفت رکھنے والے مجتہدین کو بہت فائدہ دیتا ہے اس نوع کی چند مثالیں ذیل میں بیان کی جاتی ہیں:
- ادراک حکم الشريعة ومعرفة مقاصد الشريعة:
یعنی شریعت کا حکم جاننا اورمقاصدِ شریعہ جاننا، سبب ورودِ حدیث کو ایک لحاظ سے ذکر حدیث کے لیے بھی اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے اس لیے جو ا س کے ساتھ ملتی جلتی احادیث ہیں ان میں فرق کا بھی فائدہ دیتا ہے۔
اس طرح سبب ورود حدیث اجتہادی مسائل میں بہت زیادہ فائدہ مند ہے اوراس سے قرآنی آیات کے واقعات اورنازل ہونے کی جگہ کا بھی پتہ چلتاہے۔
- فهم الحديث علی الوجه الصحيح وسلامة الاستنباط منه:
سبب ورودِ حدیث کا دوسرااہم فائدہ وجہ صحیح سے حدیث کو جاننا اوراس سے درست نتائج اخذ کرنا ہے۔
واحدی نے اسباب ورود کے بارے میں لکھا ہے کہ:
"اذ هي أوفی ما يجب الوقوف عليها وأولی ماصرف العنايه اليها لامتناع معرفة تفسير الآ ية وقصد سبيلها دون الوقوف إلی قصتها وبيان نزولها"
"(اسبابِ نزول) جاننے کا علم، آیت کے نازل ہونے ، اس کا معنی سمجھنے پر مکمل رہنمائی دیتا ہے اس لیے اس پر کام کرنا زیادہ بہتر ہے تاکہ کسی آیت کی تفسیر کی معرفت صحیحہ معلوم ہو سکے کیونکہ اس علم کے ذریعے قصے پر واقفیت مراد نہیں بلکہ آیات کے نزول کامقصد جاننا مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کیا حکم دیا ہے".
ابن دقیق العید نے کہا: ”بيان سبب النزول طريق قوی فی فهم معانی القرآن.“19 ”سبب نزول کا بیان قرآن کے معانی سمجھنے میں ایک طاقتور طریقہ ہے۔
درج بالا قول امام جلال الدین سیوطیؒ نے الاتقان میں نقل کیاہے۔
اس سے پہلے ہم دیکھ چکے ہیں کہ جس طرح نزول آیت قرآنی کا اصل فہم سبب کو سمجھے بغیر ناممکن ہے بالکل اسی طرح حدیث کے مکمل فہم کے لیے بھی سبب کا ادراک ضروری ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ فقیہ ہو یا مجتہد دونوں کو سبب ورود حدیث کے بیان اوراس سے مسائل کے استنباط میں حددرجہ احتیاط کرنی ہو گی یہاں تک کہ وہ اصل فہم اوراس کے سوا کے مابین فرق کو واضح کرنے میں خطا سے بچے۔
حکم شرع کو سمجھنے کے لیے سبب ورود حدیث کی ضرورت و اہمیت پر ذیل میں ایک حدیث بیان کی جاتی ہے مسلم کی روایت ہے کہ
"عن جابر بن عبدالله قال کان رسول الله صلى الله عليه وسلم فی سفر فرأی رجلا قد اجتماع الناس عليه وقد ظلل عليه فقال ماليه قالوا رجل صائم فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليس البر أن تصوموا فی السفر." 21
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ علیہ وسلم ایک بار سفر کررہے تھے کہ ایک شخص کے گرد لوگ جمع تھے اوراس پر سایہ کا گیا تھا آپ صلى الله عليه وسلم نے پوچھا اس کو کیاہوا؟ لوگوں نے کہا یہ شخص روزہ دار ہے اس پر رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں۔‘‘
پس سبب ورود حدیث سے یہ بات واضح ہوگئی کہ جب مرد کو جدوجہد ومشقت کا سامنا ہو تو سفر میں روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں۔
۳۔تخصیص العام:
اسی طرح عموم کی تخصیص کے لیے بھی سببِ ورودِ حدیث کی اہمیت اپنی جگہ ہے جس طرح کے درجہ بالا حدیث میں سببِ ورود حدیث سے تخصیص ہو جاتی ہے کہ اس شخص کی طرح اگر کسی شخص کو جدوجہد یا مشقت کا سامنا ہو تو سفر میں روزہ رکھنانیکی نہیں ہے۔
اسی بناءاکثر فقہاءجن میں امام ابو حنیفہؒ اورامام شافعی ؒاورامام مالکؒ کے نزدیک سفر میں طاقت ہو تو روزہ رکھنے میں ممانعت نہیں۔ لیکن اگر مشقت کا سامنا ہو تو روزہ رکھنا کوئی نیکی نہیں ہے سفر کی حالت میں۔ کیونکہ ایک اورحدیث مبارکہ کے سبب ورود سے مشقت اورجدوجہد کی حالت کی تخصیص ہو جاتی ہے کہ
"عن أبی سعيد الخدری وجابر بن عبدالله قال سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم فيصوم الصائم ويفطر المفطر فلايعيب بعض علی بعض“22
’’ابو سعیدؓ خدری اوربابر بن عبداللہؓ سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ہم میں روزہ دار روزہ رکھتاتھا اورروزہ چھوڑنے والا روزہ چھوڑدیتا تھا اورکوئی کسی کو بُرا نہیں کہتاتھا‘‘۔
اب اس حدیث مبارکہ سے لیس البر والی حدیث مبارکہ کے سبب ورود میں جدوجہد ومشقت کی تخصیص ہو جاتی ہے کہ اگر کوئی شخص سفر کی حالت میں جدوجہد کا سامنا کرتا ہے تو اس کی نیکی نہیں اس میں کہ وہ روزہ رکھے۔ لیکن ابو سعید خدریؒ والی حدیث سے یہ بھی تخصیص ملتی ہے کہ اگر مشقت کا اندیشہ نہ ہو تو رکھ لینے میں بھی حرج نہیں۔
4.تعيين المبهم:
مبہم کو متعین کرنے میں بھی سبب ورودِ حدیث کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ اس کی وضاحت درج ذیل حدیث پاک سے ہوتی ہے :
"عن أنس بن مالک قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من عباد الله من لو اقسم علی الله لأبره" 23
’’حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم اُٹھاتے ہیں تواللہ ان کو پورا کردیتا ہے۔‘‘
اس حدیث مبارکہ میں بظاہر جو ابہام ہے وہ سبب ورود کو سامنے رکھنے سے واضح ہو جاتاہے۔ اس حدیث مبارکہ کے سبب ورود میں یہ ہے کہ ربیع کی بہن ام حارثہ نے کسی انسان کو زخمی کر دیا انہوں نے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں یہ مقدمہ پیش کیا تو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا بدلہ لیا جائے گا، جبکہ ربیع کی ماں نے کہا کہ بخدا اس سے بدلہ نہیں لیا جائے گا وہ یہ مسلسل کہتی رہیں حتی کہ وہ لوگ دیت پر راضی ہوگئے تب رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :
"اللہ کے بندوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ اگر وہ اللہ کی قسم اُٹھاتے ہیں تو اللہ ان کو پورا کر دیتاہے"۔
اس میں ایک اور بات وضاحت طلب ہے کہ ربیع کی ماں نے جو بار بار قسم اُٹھا کر بدلہ نہ لینے کی بات کی ہے تو یہ حضورصلى الله عليه وسلم کے حکم سے انکار یا ضد کی نیت سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل کے حصول کی نیت سے ہے۔ لہذا حدیث کے سبب ورود سے ابہام کا تعین ہوگیا۔
5۔إزالة الإشکال عن الرواية:
سبب ورود حدیث کی معرفت کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ روایت سے اشکا ل کا ازالہ کیا جا سکتا ہے انسان عقلِ سلیم رکھتاہے اور قرآن کا مزاج عموم پر مبنی ہے کیونکہ قرآن عام اورہمیشہ رہنے والا ہے یہ صرف جزئیات ، تفصیلات اورکچھ لمحے کے لیے نہیں بلکہ تاقیامت انسان کی رہنمائی کے لیے ہے۔ لہٰذا ایک مفسر کے لیے جہاں قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے اسباب نزول قرآن کا جاننا ضروری ہے وہاں اسباب ورود حدیث کا جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے کیونکہ بعض اوقات اگر قرآن کے عموم میں کوئی اشکال پیدا ہو تو سبب ورود حدیث سے اس کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
ذیل میں اس سے متعلق ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
"لاَ تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَواْ وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُواْ بِمَا لَمْ يَفْعَلُواْ فَلاَ تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ"24
’’ان کے متعلق ہر گز یہ نہ سمجھنا جو اپنے کاموں پر خوش ہوتے ہیں اورجو یہ پسند کرتے ہیں کہ ان کاموں پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کیے ان لوگوں کے متعلق ہر گز یہ گمان نہ کرنا کہ وہ عذاب سے نجات پا جائیں گے اوران کے لیے درد ناک عذاب ہے‘‘
اس آیت مبارکہ کا سبب نزول یہ ہے کہ ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم کسی غزوہ میں تشریف لے گئے تو بعض منافقین پیچھے رہ جاتے اور آپ صلی الله عليه وسلم کے ساتھ نہ جاتے اوراپنے اس فعل پر خوش ہوتے کہ وہ رسول اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں جاتے اورجب رسول اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لاتے تو وہ لوگ مختلف حیلے بہانے کرتے اورقسمیں کھاتے اوراس پر قسمیں کھاتے جو انہوں نے کیا ہے اور چاہتے کہ ان کی تعریف کی جائے تب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی۔25
"عن علقمه بن وقاص: ان مروان قال لبوابه: اذهب يا رافع إلی ابن عباس (رض) فقل : لئن کان کل أمری فرح بما أتی، وأحب أن يحمد بما لم يفعل معذباً لنعذبن أجمعون! فقال ابن عباس (رض) ومالکم ولهذا انما دعا النبی صلى الله عليه وسلم يهود فسألهم عن شئی فکتموه اياه وخبر بغيرہٖ فاروہ ان قد استحمد وا اليه بما أخبرو ا عنه فيما سألهم وفرحوا بما أوتوا من کتمانهم ثم قرأ ابن عباس واذ أخذ الله ميثاق الذين أوتوا لکتب لتبيننه للناس ولا تکتمونه فنبذوہ وراء ظهورهم.“"27
"علقمہ بن وقاص بیان کرتے ہیں کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے رافع، ابن عباسؓ کے پاس جاﺅ اورکہو کہ ہر شخص اپنے فعل پر خوش ہوتاہے اورچاہتا ہے کہ جو کام اس نے کیا ہے اس پر اس کی تعریف کی جائے تو اگر عذاب دیا جائے گا تو ہم سب کو دیا جائے گا حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا تمہارا اس آیت سے کیا تعلق؟ نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے یہود کو بلایا ان سے کسی چیز کے متعلق سوال کیا انہوں نے آپ صلی الله عليه وسلم کے سوال کے جواب میں جو اصل چیز نہیں بتائی تھی اس پر ان کی تعریف کی جائے پھر ابن عباسؓ نے دو آیات تلاوت کیں (اوریاد کی جائے جب اللہ نے اہل کتاب سے یہ عہد لیا کہ تم اس کو ضرورلوگوں سے بیان کرنا اور اس کو نہ چھپانا تو انہوں نے اس عہد کو پورا نہ کیا انہیں پس پشت پھینک دیا".
لہٰذا ہر چند کہ قرآن مجید کی آیات میں عموم الفاظ کا اعتبار ہوتا ہے اور خصوصیت مورد کا اعتبار نہیں لیکن احادیث کے سبب ورود سے معلوم ہو جاتا ہے کہ بعض آیات میں خصوصیت مورد کا یہی اعتبار ہوتا ہے۔
اسی طرح صحیح مسلم میں حضرت انسؓ بن مالک سے روایت میں اشکال پیدا کیا جاتا ہے جبکہ اس کے سبب ورود پر اگر غور کیا جائے تو یہ اشکال زائل ہو جاتا ہے وہ روایت اشکال اور اس کا ازالہ، ذیل میں بیان کیا جاتاہے۔
"عن أنس بن مالک ان النبی صلى الله عليه وسلم مر بقوم يلقحون فقال لو لم تفعلوا الصلح قال فخرج شيصا فمر بهم فقال ما لنخلکم قالوا قلت کذا وکذا قال أنتم أعلم بأمر دنيا کم "28
’’انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم کا کچھ لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جو کھجوروں میں پیوند لگا رہے تھے آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اگر تم یہ نہ کرو تو اچھا ہوگا اس کے بعد ردی کھجوریں پیدا ہوئیں پھر کچھ دنوں کے بعد آپ صلی الله عليه وسلم کا ان کے پاس سے گزر ہوا آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اب تمہاری کجھوروں کی کیا کیفیت ہے؟ انہوں نے کہا :آپ صلی الله عليه وسلم اس طرح سے اس طرح فرمایا تھا آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم اپنی دنیا کے معاملات کو زیادہ جانتے ہو۔‘‘
اشکال:
اس حدیث مبارکہ سے بعض لوگ یہ اشکال پیدا کرتے ہیں کہ اس حدیث کو دنیا اوردین کے درمیان فرق اور فاصلہ تصور کیا جائے۔
ازالہ:
اگر اس حدیث کے سبب ورود پر غور کیا جائے تو یہ اشکال از خود زائل ہوجاتا ہے کیونکہ یہاں حضورصلى الله عليه وسلم صرف ان پیوند لگانے والوں سے ہی مخاطب نہیں بلکہ سبب ورود کا اطلاق اپنے عموم کے ساتھ تمام مسلمان پر ہے یعنی مختلف امور میں مسلمانوں کو خطاب ہے کہ مسلمانوں کی یہ شان ہے کہ وہ اپنی معلومات اورتجربات سے جو نتائج اخذ کرتے ہیں ان سے معاملات اورمعلومات میں رُشد وہدایت ملتی ہے۔ کیونکہ یہاں حضور اکرم صلى الله عليه وسلم کا پیوند لگانے کا حکم بہ حیثیت تشیرع نہیں بلکہ بہ طور مشروہ تھا۔ تو اس طرح اس حدیث کا صحیح مفہوم اس کے سبب ورود سے واضح ہو جاتا ہے۔
اسی طرح ابو داﺅد ؒ کی ایک حدیث مبارکہ میں آپ صلی الله عليه وسلم نے فرمایا: ”انا بری من کل مسلم“ تو اس حدیث مبارکہ میں یہ اشکال پیدا ہوتاہے کہ بعض لوگوں نے بالعموم مشرکین کے ممالک میں رہنے کو حرام قرار دیا ہے جبکہ حدیث کے سبب ورود کو دیکھا جائے تو یہ اشکال زائل ہو جاتاہے۔
"عن جرير بن عبد الله أن النبی صلى الله عليه وسلم بعث سرية الی خثعم فاعتصم ناس بالسجود فأسرع فيهم القتل فبلغ ذالک النبي صلى الله عليه وسلم فأمر لهم بنصف العقل و قال أنا بری من کل مسلم يقيم بين المشرکين قالوا يارسول الله صلى الله عليه وسلم ولما قال لاترايا نارهما"29
’’حضرت جریر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ حضورصلى الله عليه وسلم نے بنوخثعم کی طرف سیریہ روانہ کیا وہاں چند لوگوں نے سجدوں کے ذریعے پناہ ڈھونڈی لیکن مسلمانوں نے ان کو قتل کر دیا جب یہ خبر نبی کریمصلى الله عليه وسلم تک پہنچی تو آپ صلی الله عليه وسلم نے انہیں نصف دیت دینے کا حکم فرمایا اور فرمایا میں ایسے ہر مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہے عرض کیا گیا یا رسول اللہ علیہ وسلم آپ صلی الله عليه وسلم کیوں بیزار ہیں؟ فرمایا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ مشرک سے اتنی دور رہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی آگ دکھائی نہ دے ۔‘‘
اب اشکال پیدا ہوتا ہے کہ آج کے دور میں تعلیم وتربیت علاج معالجہ، ملازمت، کاروبار اور سفر وغیرہ کے لیے اشد ضرورت ہو جاتی ہے غیر مسلم ممالک میں جایا جائے تو درج بالا حدیث مبارکہ کے سبب ورود سے تخصیص سامنے آتی ہے کہ مشرکین المحاربین اللہ و رسولہ کے ساتھ رہنے والے مسلمانوں کے لیے فرمایا گیا۔ لہذا حدیث کے سبب ورود پر غور کیا جائے تو یہ اشکال زائل ہو جاتا ہے۔
خلاصۂبحث
الغرض علم اسبابِ ورود الحدیث کو ام العلوم کا درجہ حاصل ہے کسی بھی حدیث کے معانی و مفاہیم کو کماحقہ سمجھنے کے لیے اس علم کا جاننا ضروری ہے اس مضمون میں اسبابِ ورودِ حدیث کی اہمیت کو واضح کیا گیا ہے جبکہ اس علم پر اُردو میں کام کرنے کی اشد ضرورت ہے مسائل کا استنباط و استخراج اس علم کے بغیر ناممکن ہے۔ حضورصلى الله عليه وسلم کی احادیث مبارکہ کی کو بھی سبب ورود کی بنا پر منقسم کیا گیا ہے حدیث کی اس تقسیم پر بھی تحقیق کی ضرورت ہے۔
حوالہ جات
۱۔القرآن سورة النساءآیت نمبر 82
۲۔القرآن سورة النجم آیت نمبر ۴۔۳
۳۔القرآن سورة النحل آیت نمبر ۴۴
۴۔القرآن سورة النساءآیت نمبر 113
۵۔القشیری مسلم بن حجاج، الصحیح للمسلم، کتاب الفضائل، حدیث نمبر 6028،دار احیاءالتراث العربی بیروت
۶۔ابن منظور محمد بن مکرم ، اللسان العرب، جلد نمبر ۶،صفحہ 236دار صادربیروت، 1414ھ
۷۔ابن منظور محمد بن مکرم ، اللسان العرب ، جلد نمبر ۶، صفحہ 236دار صادر بیروت،1414ھ
۸۔السیوطی امام جلال الدین عبدالرحمن، اللمع فی اسباب ورود الحدیث، صفحہ نمبر 21، مکتب البحوث دار الفکر
1996ء
۹۔السیوطی امام جلال الدین عبدالرحمن، اللمع فی اسباب ورود الحدیث، صفحہ نمبر 28، مکتب البحوث دارالفکر 1996ء
10۔السیوطی امام جلال الدین عبدالرحمن، اللمع فی اسباب ورود الحدیث ،صفحہ نمبر ۵، مکتب البحوث دار الفکر
1996ء
۱۱۔الدمشقی ابراہیم بن محمد، البیان والتعریف صفحہ نمبر ۳ دار المعرفة بیروت 2003ء
12۔السیوطی امام جلال الدین عبدالرحمن، اللمع فی اسباب ورود الحدیث، صفحہ نمبر 107، مکتب البحوث دار الفکر 1996ء
13۔ابن حمزہ الدمشقی ابراہیم بن محمد، البیان والتعریف ، صفحہ نمبر32، دار المعرفة بیروت 2003ء
14۔البخاری محمد بن اسمٰعیل ، الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، حدیث نمبر 4891، دار طوق اللمع السعودیہ
15۔البخاری محمد بن اسمٰعیل الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن حدیث نمبر 4891، دار طوق اللمع السعودیہ
16۔الترمذی محمد بن عیسیٰ، السنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن ،حدیث نمبر3023،شرکة المکتبہ و مطبعہ مصر 1975ء
17۔الترمذی محمد بن عیسیٰ، السنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن، حدیث نمبر3023،شرکة المکتبہ و مطبعہ مصر 1975ء
18۔الترمذی محمد بن عیسیٰ، السنن الترمذی، کتاب تفسیر القرآن، حدیث نمبر3311،شرکة المکتبہ و مطبعہ مصر،1975ء
19۔السیوطی امام جلال الدین عبدالرحمن، الاتقان فی علوم القرآن، صفحہ نمبر 84، الہیئہ المصریہ 1974ء
20۔ابن تیمیہ الشیخ الاسلام، مجموع الفتاوٰی، جلد نمبر 13، صفحہ نمبر 339 دار الہدایٰ للنثر والتوریع ریاض 1988ء
21۔القشیری مسلم بن حجاج ، الصحیح للمسلم، کتاب الصیام، حدیث نمبر2807دار احیاءالتراث العربی بیروت
22۔القشیری مسلم بن حجاج ، الصحیح للمسلم، کتاب الصیام، حدیث نمبر2515دار احیاءالتراث العربی بیروت
23۔القشیری مسلم بن حجاج ، الصحیح للمسلم، کتاب الایمان، حدیث نمبر1903دار احیاءالتراث العربی بیروت
24۔القرآن سورة اٰ ل عمران آیت نمبر 188
25۔سعیدی غلام رسول، التبیان القرآن، جلد نمبر ۲ صفحہ نمبر 95
26۔البخاری محمد بن اسمٰعیل، الجامع الصحیح، کتاب تفسیر القرآن، حدیث نمبر 4567، دار طوق اللمع السعودیہ
27۔القشیری مسلم بن حجاج ، الصحیح للمسلم، کتاب المناقب، حدیث نمبر2007دار احیاءالتراث العربی بیروت
28۔ابو داﺅد سلیمان بن اشعث، سنن ابی داﺅد، کتاب الجہاد حدیث نمبر1655
29۔البخاری محمد بن اسمٰعیل، الجامع الصحیح، کتاب توحید، حدیث نمبر 7563، دار طوق اللمع السعودیہ
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Volume 33 Issue 2 | 2016 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |