فلسطین۔ ایک تعارف:
نام اور وجہ تسمیہ:
اس کا پورا نام دولۃ فلسطین یا فلسطینی ریاست ہے۔(1)یہ ابن سام بن ارم بن سام بن نوحؑ کے نام پر فلسطین کہا گیا ہے۔(2)
محلِ وقوع:
موجودہ فلسطین کے نقشہ کو دیکھیں تو یہ ان علاقوں پر مشتمل ہے جہاں اسرائیلی ریاست قائم ہے اور فلسطینی اتھارٹی کی عمل داری ہے۔ اس کے شمال مشرق میں شام، اردن اور سعودی عرب ہیں۔ مغرب میں مصر اور انتہائی جنوب میں خلیج عقبہ ہے جہاں اسرائیل کی بندرگاہ ایلات ہے۔(3)
رقبہ :
اس کا رقبہ 10،000مربع میل ہے۔(26،000مربع کلو میٹر)ہے۔(4)
آبادی:
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے29نومبر1947ءکوتقسیم فلسطین کی قرارداد پاس کرتے ہوئےاس کو دو ریاستوں میں تقسیم کردیا تھا۔ان علاقوں میں سے دریائے اردن کا مغربی کنارہ اورغزہ کی پٹی فلسطین اتھارٹی کے پاس ہے اور باقی علاقہ اسرائیل کے قبضے میں ہے۔اس تقسیم کے مطابق اسرائیل کی آبادی جو1950ءمیں 14لاکھ کے قریب تھی2000ءمیں بڑھ کر60لاکھ ہوگئی کیونکہ یہودی دنیا کے کونے کونے سےمنتقل ہوکر اسرائیل میں آباد ہوگئے ہیں۔اور یہ آبادی روز بروز بڑھ رہی ہے۔جب کہ فلسطینیوں کی آبادی2000ءکے اعدادوشمار کے مطابق39لاکھ تھی۔ان میں تقریباً24لاکھ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں آباد تھےاور 15لاکھ غزہ کی پٹی میں۔(5)
دارالحکومت اور بڑے شہر:
یاقوت حموی کے بقول مصر کی طرف شام کی سب سے آخری ولایت فلسطین ہے۔اس کا دارالحکومت یروشلم ہے۔ عسقلان ، رملہ ، غزہ ، ارسوف،قیسریہ،عمان،یافہ اور بیت جبرین اس کے بڑے شہر ہیں۔(6)
فلسطین کی اہمیت:
فلسطین دنیا کے تینوں بڑے مذاہب یہودیت،عیسائیت اور اسلام کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔یہود کے لیے یہ خطہ بہت مقدس اور اہم ہے ۔اگرچہ عیسیٰؑ کے دور میں یہودی چونکہ رومیوں کے غلام تھے اور ہمیشہ رومیوں کے خلاف سازشوں میں لگے رہتے۔ رومی جرنیل گاہے بگاہے شدت سے ان کی سرکوبی کرتے رہتے جسکی وجہ سے یہ ہجرت کرتے رہے۔ یہاں سے ایک تعداد بھاگ کر یورپ ایشیاء اور افریقہ چلی گئی لیکن ان کے سر میں ہمیشہ یہ سودا ،سمایا رہا کہ وہ یروشلم واپس جا کر اپنی حکومت قائم کریں گےکیونکہ یہ اس پر اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں۔ عیسائیوں کے لیے بھی فلسطین بہت مقدس ہے اس لیے کہ اس خطے میں " بیت اللحم " ہے جہاں عیسیٰؑ پیداہوئے اوراسلام اور مسلمانوں کے لیے بھی یہ دلوں جان سے عزیز ہےکیونکہ بیت المقدس ہی سے حضورؐ معراج پر تشریف لے گئےاوراسے دیگر انبیاء کا مسکن رہنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ (7)علاوہ ازیں اسلام میں صرف تین مقامات کے لیے سفر کرنا باعثِ اجر و ثواب ہے حرمین الشریفین اور حرمِ ثالث یعنی بیت المقدس۔
فلسطین میں مسلمانوں کی آمداور فلسطینی مسلمانوں کے استضعاف کا مختصر تاریخی پسِ منظر:
حضرت عمر کے زمانے میں مسلمانوں نے بیت المقدس کو گھیرے میں لے لیا لیکن عیسائیوں نے اس شرط پر کہ خلیفہ خود آ کر ہم سے معاہدہ کرے تو ہم شہر مسلمانوں کے حوالے کر دیں گے۔ حضرت عمر نے 635 ء میں اپنے صرف ایک غلام اور ایک اونٹ کے ساتھ بیت المقدس تشریف لے گئے آپ کی موجودگی میں معائدہ طے پایا۔ آپ نے پورے مجمع کے سامنے فرما یا" اے شہرِ مقدس کے باشندو جو حقوق و مراعات ہمارے لیے ہیں وہی تمہارے لیے بھی ہیں اور جو فرائض اور ذمہ داریاں ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں وہی تمہارے اوپر بھی لازم ہیں"۔(8)
خلفائے راشدین کے بعد سر زمینِ فلسطین بن اْمیہ کے کنٹرول میں رہی۔اموی خلیفہ عبد الملک بن مروان نے اس چٹان پر جہاں سے نبی کریمؐ نے معراج کا سفر شروع کیا وہاں ایک خوبصورت مسجد بنوائی جسے "قبۃ الصخر" (Dom of the Rock) کہتے ہیں۔ عباسی خلفاء نے بھی اپنے زمانے میں بیت المقدس کی تعمیر و ترقی اور خوبصورتی میں بھر پور حصہ لیا۔ 969 ء میں یہ علاقہ مصر کے فاطمی خلفاء کے زیرِ تسلط آگیا لیکن 1095 ء میں خلیفہ مستنصر باللہ کے دور میں عیسائیوں کے ساتھ کئی سال کی مذہبی لڑائیوں کے بعد عیسائیوں نے سارے یورپ کی مدد سے یروشلم پر پھر قبضہ کیااور مسلمانوں کا اتنا خون بہایا کہ عیسائیوں کے گھوڑے ٹخنوں تک مسلمانوں کے خون میں چل کر بیت المقدس گئے لیکن طویل برسوں کی کئی صلیبی جنگوں کے بعد آخر 1192 ء میں صلاح الدین ایوبی والئ مصر نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لےلیا۔
1270 ء سے 1516 ء تک مملوک فلسطین کے حکمران رہے 1517 ء میں ترکوں نے یہ علاقہ فتح کر لیا اور 1917 ء تک ان کے زیرِ نگیں رہا۔ ترک خلیفہ سلطان عبد الحمید کو یہودیوں اور بالخصوص یہودی رئیس ڈاکٹر ہر تزل نے ہر طرح کا لالچ دیا بڑی بڑی رقموں ، انعامات اور بعض قرضے اتارنے کی پیش کش کی۔ امریکہ نے بھی پوری کوشش کی کی یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دی جائے لیکن سلطان عبدالحمید نے د و ٹوک الفاظ میں جواب دیا کہ " جب تک سلطنت ِ عثمانیہ قائم ہے یہودیوں کو سلطنتِ فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت ہر گز نہیں دے سکتا" بلکہ اس نے اور سختی شروع کر دی اور یہودیوں کو پابند کر دیا کہ وہ تین ماہ سے زیادہ فلسطین میں نہیں رہ سکتے اور اس مقصد کے لیے اس نے صرف یہودیوں کے لیے سرخ رنگ کا پاسپورٹ بالخصوص جاری کیا۔ تاکہ تین ماہ کی مدت بعد انہیں وہاں سے نکالنے میں آسانی ہو۔ اور اگلے سال انہوں نے ایک نیا حکم جاری کیا جس کے تحت یہودی فلسطین میں ایک انچ زمین بھی خریدنے کے مجاز نہیں تھے اسکے نتیجے میں یہودیوں امریکہ اور مغربی سامراج نے سلطان کی حکومت اور سلطان کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ سلطان کی گاڑی کو بارود بھری گاڑی سے تباہ کرنے کی کوشش کی لیکن اللہ کریم نے سلطان کو بچا لیا۔ لیکن اغیار کی سازش اور اپنوں کی نا لا ئقی اور بے وفائی کی وجہ سے یہودی ، سلطان کو روشن خیال ترکوں کے ہاتھوں 1909 ء میں تخت سے اتارنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ فرانسیسی اور پھر انگریز فلسطین پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئےچونکہ جنگِ عظیم اول میں یہودیوں نے دامِ، درہمِ، سخنِ، ہر لحاظ سے انگریزوں کی مدد کی تھی اور انھوں نے بھی سر زمینِ فلسطین انکے حوالے کرنے کا وعدہ کیا تھا لہذٰا 1917 ء میں اعلانِ بالفور کے ذریعےفلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔(9)
انگریز ہائی کمشنرصموئیل نے یہودیوں کو فلسطین کی زمین خریدنے، یہاں ہجرت کرنے اور فلسطین کے ذخائر اور معدنیا ت پر قبضہ کرنے کی کھلی چھٹی دے دی۔ چرچل نے جب مارچ 1931 ء میں فلسطین کا دورہ کیا تو فلسطینیوں نے اپنے مطالبات پیش کیے۔1یہودی ریاست کا منصوبہ ترک کیا جائے۔2فلسطین میں یہودیوں کی ہجرت کو روکا جا ئے3۔ فلسطین میں زمینوں کی خریدو فروخت پر پابندی عائد کی جائے4۔ فلسطین کو اسکے اصل ممالک سے الگ نہ کیا جائے لیکن چرچل نے ہر حال میں "اعلان بالفور کو ماننے کو کہا۔(10)
1919 ء کے بعد نہ صرف بڑی تیزی سے یہودیوں نے فلسطین کی طرف ہجرت شروع کر دی بلکہ زر خیز زمینیں بھی دھڑا دھڑ خریدی گئیں اور سرعت سے یہودی بستیاں بھی آباد کی گئیں۔ حکومتِ برطانیہ نے فلسطینیوں کے لیے ظالمانہ ٹیکسوں اور ایسی معاشی پالیسیاں اختیار کیں کہ وہ مجبور ہو کر اپنی زمینیں بیچنے پر آمادہ ہو جا ئیں۔
1945 ء کے آخر میں امریکہ بھی اس گیم میں آ گیا بلکہ برطانیہ سے بھی سبقت لے گیا۔ کیونکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اب امریکہ بھی پورے یورپ کا سربراہ تھا اور امریکہ پوری طرح یہودیوں کے زیرِ اثر تھا۔ یہودی پوری قوت سے امریکہ اور برطانیہ سے اپنے مطالبات منوا رہے تھے۔(11)
فلسطین کی تقسیم
اور یوں انہی مما لک کے زیرِ اثر آخر 1948 ء میں فلسطین کو تقسیم کر دیا گیا۔احمد طٰہٰ اپنی کتاب " دی ٹریجڈی آف یروشلم "میں لکھتے ہیں:
On November 29, 1947, the United Nations adopted the resolution which recommended the partition of Palestine into a Jewish State, an Arab State, and an International Zone of Jerusalem under United Nations’ Control, each one with fixed boundaries by 15th of May 1948. (12)
اوریوں اپنے طے شدہ پروگرام کے مطابق آخر 15 مئی 1948 ء کو برطانوی حکومت نے فلسطین سے دست بردار ہونے کا اعلان کر دیا اور اپنی فوجوں کو واپس بلانے کا اعلان کر دیا۔ اسکے فوری بعد یہودیوں نے اسرائیلی مملکت کے قیام کا اعلان کر دیا۔ پہلے امریکہ اور پھر روس نے اسرائیل کو تسلیم کر لیا اسکے یکے بعد دیگرے دوسرے یورپی ممالک نے بھی اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا۔ ویسے بھی اب انگریز کے یہاں رہنے کا جواز با قی نہ تھا کیونکہ اس نے وہ مشن مکمل طور پر پورا کر دیا۔ اب یہاں کا اقتدار اور اکثر فیکٹریز، کاروبار، بینکس، دوکانیں اور اقتصادیات پر یہودیوں کا قبضہ تھا اور یہی انگریز چاہتا تھا۔(13)
"اسرائیل کو تحفظ فراہم کر انے کے پیشِ نظر 65 مئی 1950 ء میں دنیا کے تین بڑے مغربی ممالک امریکہ، انگلینڈاور فرانس نے ایک مشترکہ بیان جاری کیا جس میں اسرائیل کی حمایت کرتے ہوئے ہر قیمت پر ان کے حقوق کے حفاظت کی ضمانت دی گئی تھی اور اس بیان میں کہا گیا تھا کہ اسر ائیل مشرقِ وسطیٰ میں امن و امان قائم کرنے میں مغربی ممالک کی مدد کرے گا۔ ان ممالک نے اعلان کیا کہ اگر اس علاقے میں کسی حکومت نے اسرائیل کے خلاف قوت کا استعمال کرنے یا اسے دھمکی دینے کی کوشش کی تو اس کے خلاف کاروائی کی جائے گی اور کسی بھی ملک کو رودس امن معاہدے کی خلاف ورزی کرنے یا اس میں کوئی تبدیلی لانے کی اجازت نہیں دی جائے گی ، اس بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ عرب ممالک اور اسرائیل کو اسلحے کے میدان میں مسابقت کرنے کا اختیار نہیں ہو گا، صرف دفاعی مقاصد کے پیشِ نظر ہی ان ممالک میں اسلحے جانے کی اجازت دی جائے گی"۔ اس طرح دنیا کی تین بڑی حکومتوں نے اسرائیل کے وجود کو اپنی ضمانت و حفاظت میں لے لیا اور دوسروں کی زمین پر غاصبانہ قبضے کا قانونی طور پر اعتراف کر لیا۔(14)
محمدطٰہٰ کے بقول:یہ تاریخ کی ایک اور بدقسمتی ہے کہ سامراجی طاقتوں نے نہ صرف یروشلم کے مسلمانوں کے لیے لامحدود مشکلات اور مصائب پیدا کردیے بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے نقشے سے فلسطین کا نام ہی مٹادیا۔(15)
فلسطینیوں پر ظلم و بر بریت کی داستان:
ویسے تو فلسطینیوں کی پوری داستان ظلم و بر بریت ، تشددو اذیت اور زندان کی تاریکیوں سے برتر ہے ۔ 1971 ء کے بعد سے ہی فلسطینی مسلسل ظلم کی چکی میں پستے رہے ہیں ان پر صبر و تشدد کے اقعات سے ایک پوری صدی کی تاریخ نوحہ کناں ہے ۔ یہاں صرف اس داستانِ ظلم و ستم کے مختصراََ چیدہ چیدہ معروف و اقعات بیان کیے جائیں گے جسکا آغاز" انقلابی براق" سے کیا جاتا ہے۔
براق انقلاب:
جون 1929 ء میں ادارہ اوقاف اسلامیہ نے براق دیوار میں چند اصلاحات شروع کیے۔ یہودیوں نے ان اصلاحات کو اپنے لیے خطرناک تصور کیا، ان کے اخبارات نے پوری دنیا کے یہودیوں کو اس دیوار گریہ کی نجات کے لیے انقلاب برپا کرنے کا مطالبہ کیا۔
ہیکل سلیمانی کی بربادی کی یاد میں 14 اگست 1929 ء میں یہودیوں نے تلابیب میں ایک بہت بڑا مظا ہرہ کیا، اس کے بعد دوسرے دن شہر قدس میں یہودیوں نے ایک دوسرا بڑا مظاہرہ کیا۔ اور انہیں مظاہروں نے " براق انقلاب" کی آگ کو بھڑکایااس کے دوسرے دن فلسطینی مسلمان بڑی تعداد میں مسجدِ اقصیٰ کے احاطے میں جمع ہوئے ( اتفاق سے یہ جمعہ کا دن اور میلا د النبی ؐ کا دن تھا اور پھر یہ عظیم الشان مجمع ایک جلوس کی شکل میں مسجدِ اقصیٰ سے روانہ ہوا اور براق دیوار کے ارد گرد یہودیوں نے جو کچھ تعمیر کیاتھا اسے ڈھا دیا۔
چھوٹی موٹی جھڑپیں برابر ہوتی رہیں یہاں تک کہ دوسرے جمعہ یعنی 23 اگست 1929 ء کو ایک بڑا دھماکہ ہوا جسے " براق انقلاب" کے دھماکے سے جانا جاتا ہے۔ عربوں نے ایک بڑی تعداد میں یہودیوں پر حملہ بول دیا جس کے نتیجے میں برطانوی فوج مختلف قسم کے اسلحہ جات اور جنگی طیاروں کے ساتھ عربوں پر حملہ آور ہو گئی، فسادات اور جھڑپوں کا یہ سلسلہ شہر قدس سے نکل کر دوسرے شہروں اور دیہاتوں تک پہنچ گیا، فلسطین نے پہلی مرتبہ عربوں کے درمیان ایسا خوں آشام ہفتہ دیکھا۔(16)
حیفا سے نکلنے والے اخبار الزہور نے اس دن کا ذکر کرتے ہوئے لکھاہےکہ:
* " فلسطین نے اپنے سابقہ ادوار میں 17 جون سے زیادہ منحوس اور ہولناک دن نہیں دیکھا مساجد سے مؤذنوں کی اذانیں بلند ہوئیں تا کہ اللہ کریم اپنے بندوں پر رحم فرمائے، گرجا گھروں میں، ماتمی گھنٹیاں بجنے لگیں، عورتوں میں چیخ پکار مچ گئی، مسجدوں اور دیگر عبادت گاہوں میں جمع افراد کی آنکھوں سے زارو قطار آنسو جاری ہو گئے۔ موت کی خوفناکی نے ڈیرا ڈال لیا، حالات سنگین ہو گئے، فوجوں کی چلت پھرت تیز ہو گئی، تو پیں تیار ہو گئیں، تلواریں بے نیام ہو گئیں، حالات پر کنٹرول کرنے کے لیے فضا میں جہازوں کی پرواز تیز ہو گئی۔(17)
- 1948 ء میں اسرائیلی ریاست کے قیام کے بعد سے ہی اسرائیل نے بطورِ مہم ہمیشہ سے فلسطینیوں کی نسل کْشی کا مشن جاری رکھا اور مختلف حیلوں بہانوں سے انکو قتل کیا۔1950 ء کا عشرہ فلسطینیوں کے خون سے رنگیں ہے جبکہ اس پورے عشرے میں سامراج ہمیشہ اسرائیل کو امن کا داعی گردانتا رہا۔ اب دیکھیے امن و امان کے داعی نے کس طرح امن و امان قائم کیا۔
- 6 جنوری 1952 ء کو بیت جالا میں یہودیوں نے قتلِ عام کیا۔
- دسمبر 1952 ء میں یہودیوں نے لبنانی سرحد کے قریب آباد ایک عرب بستی "اقرت " کو بم سے اڑا دیا اور یہاں کے وطن پرست باشندون کو قریب کے گاؤں میں پناہ لینے کی اجازت نہیں دی اور مجبوراََ ان کو لبنان کی طرف ہجرت کرنا پڑا۔
- ستمبر 1953 ء میں یہودیوں نے ریحانیہ بستی کو تہس نہس کر دیا اور یہاں کے باشندوں کو شام کی سرحد پر ڈال دیا۔
- 14 اکتوبر 1953 ء کو قبیہ" کے قتلِ عام کا سانحہ پیش آیا جہاں یہودیوں نے ان کے گھروں کو آگ لگا دی اور باشندوں کو قتل کر دیا۔
- مارچ 1954 ء میں نحالین کے قتلِ عام کا حادثہ پیش آیا۔
- فروری 1955 ء کو یہودی فوجی غزہ کے علاقے میں واقع ایک پناہ گزینوں کے کیمپ میں رات کی تاریکی میں گھس گئے، اس خیمے میں اطمینان سے سو رہے بے خبر عربوں کو اپنی گولیوں سے بھون دیا۔
- 5 اپریل 1956 ء کو یہودیوں نے بھاری توپوں کا رْخ غزہ کی طرف پھیر دیا اور اسے تباہ و برباد کر دیا۔
- 25 ستمبر 1956 ء کو اردن کی سرحد میں واقع ایک بستی " حوسان" پر حملہ کر دیا اور یہاں کے باشندوں کو نہایت بے دردی سے قتل کر دیا۔
قلقیلیہ کا قتلِ عام
کفر قاسم کا قتلِ عام یہ ہے امریکہ، یورپ اور اسرائیل کا امن و امان۔ اس دوران اسرائیل نے امن کا یہ انداز اپنایا کہ احتجاجی مظاہروں کا جواب ہمیشہ گولی سے دیااور ایک کے بدلے دس کے ذریعے جواب دینے کی پالیسی ا ختیار کی۔ جب کبھی کوئی فلسطینی سرحد پار کر کے اپنے خاندان والوں سے ملاقات یا اپنے گھر سے کوئی سامان لینے کی غرض سے یہاں آجاتا، یا اپنے اس دشمن پر جس نے اس کے ملک کو غصب کر لیا تھا، کوئی پتھر یا کوئی بم پھینک دیتا تو اسرائیلی حکومت پوری تیاری کے ساتھ پورے گاؤں کو مسمار کر دیا کرتی تھی، پچاس کی دہائی کے ابتدائی چند سالوں میں اسرئیلی فوجوں نے فلسطین کے 187 کوگاؤں کو مکمل طور پر تباہ و بربا د کر دیا، ان کے گھروں کو ڈھا دیا اور جہاں تک ممکن ہوا وہاں کے باشندوں کا قتلِ عام کر دیا۔(18)
صابرا اور شتیلا کے کیمپوں کا ہولناک منظر:
15 ستمبر 1982 ء کو اسرائیلی ٹینکوں نے لبنان میں صابرا و شتیلا دونوں بڑے فلسطینی کیمپوں کو چاروں طرف سے گھیر لیا اور پھر ان کیمپوں میں قتل و غارت گری اور موت کا ایسا بھیانک کھیل کھیلا گیا کہ انسانیت کانپ اْٹھی اس ہولناک منظر کو دیکھنے کے لیے ایک یورپی صحافی کابلیوک کا آنکھوں دیکھاحال اور اسکا بیان ہی کافی ہے وہ کہتا ہے : " ابتداء ہی سے قتل ِعام کا یہ کھیل نہایت بھیانک تھا ، 16 ستمبر 1982 ء کے ابتدائی چند گھنٹوں کے دوران ہی کتائب کی فوجوں نے سینکڑوں فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا، انہوں نے ہر حرکت کرنے والی چیز کو اپنی گولیوں کا نشانہ بنالیا، پورے پورے خاندان کو قتل کر دیا، بچے، بوڑٖھے، مرد، عورت ان کے یہاں کوئی تفریق نہیں تھی، ان لوگوں نے قتل پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اکثر حالات میں انہوں نے قتل کرنے سے پہلے ان کے اعضاء کو الگ کر دیا، ان فو جیوں نے بچوں اور لڑکوں کے سروں کو دیواروں پر دے مارا ان فوجیوں نے عورتوں اور بیٹیوں کے ساتھ زنا کیا اور پھر ان کو کلہاڑیوں سے ذبح کر دیا۔ جہاں تک اسرائیلی فوجوں کا تعلق ہے تو انہوں نے خیمے کے تمام راستوں کی ناکہ بندی کر دی تا کہ کوئی بھاگنے نہ پائے۔
" اعدادو شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس سانحے میں تین ہزار سے زائد افراد جاں بحق ہوئے جبکہ فلسطینی اندازوں کے مطابق یہ تعداد تیس ہزار ہے۔ اس بھیانک قتل ِ عام نے پوری انسانیت اور بالخصوص فلسطینیوں کے ضمیر کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ اور اس سانحے کے بعد اب اس معاملے میں کسی تاویل و توجیہ کی گنجا ئش باقی نہیں رہ گئی کی امریکہ سمیت دیگر یورپی ممالک نے اب تک جو ضمانتیں دیں یا جو امن معاہدے کیے وہ سب کے سب مظلوم فلسطینی عوام کو اس صفحہء ہستی سے ختم کرنے کی سازش کا حصہ تھے۔ اس سانحے نے اس حقیقت کو بھی ثابت کر دیا کہ کتائب اور یہودیوں کے وحشی فوجیوں کو مسلمانوں کے خون کے علاوہ کسی اور چیز سے تشفی نہیں مل سکتی ہے۔فیض احمد فیض اتفاق سے اس وقت بیروت میں مو جو د تھے انہوں نے اس موقع پر دو انتہائی درد ناک دل دہلا دینے والی نظمیں " فلسطینی بچے کی لیے لوری" اور " فلسطینی شہداء جو پردیس میں کام آئے " لکھیں۔
اس خون آشام کھیل پر نام نہاد عالمی ردِ عمل پر اسرائیلی حکومت نے ایک کمشن تحقیق کے لیے قائم کیا کمیشن نے تحقیق کے بعد شیرون کو صرف وزیرِ دفاع کے عہدے سے ہٹانے کی سفارش کی۔(19)
فلسطینی مستضعفین کی عصری صورتحال:ایک جائزہ
فلسطین میں آج بھی ظلم وبربریت کا یہ کھیل جاری ہے۔فلسطینی مسلمان آئے دن یہودی لابی کے ہاتھوں قتل ہورہے ہیں یا مسلسل ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔اخبارات اور سوشل ویب سائٹس پر آئے دن فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی خبریں آتی رہتی ہیں یہاں ان کی جھلکیاں پیش کی جا رہی ہیں۔
معذور فلسطینی رہنما احمد یٰسین کا بہیمانہ قتل: اسرائیل احمد یٰسین پر ایک سے زیادہ مرتبہ حملے کر چکا تھا اور انہیں مسلسل دھمکیاں دے رہا تھا کہ وہ ہماری ھٹ لسٹ پر ہے ۔ لیکن اپنے معذوری کے باوجود وہ اپنے مشن سے کبھی پیچھے نہ ہٹے اور نہ کبھی ڈر خوف ان کے قریب آیا۔ وہ روزانہ ویل چیئر پر قریبی مسجد میں بلا خوف خطر نماز پڑھنے جاتے تھے۔ 14 جنوری 2004 ء کو ایک مجاہدہ " ریم ریشی" نے خود کش دھماکہ کیا جس سے چار اسرائیلی مارے گئے۔ اسرائیل نے اس واقعہ کا ذمہ داراحمد یٰسین کو ٹھہرایا۔ احمد یٰسین نے انکار کیا لیکن اس کے باوجود اسرائیلی نائب وزیر ِ دفاع نے اعلان کیا کہ احمد یٰسین ان کی ہٹ لسٹ پر ہیں۔ وہ الزام لگاتے تھے کہ اسرائیلیوں پر جتنے خود کش حملے ہوتے ہیں ان سب کے پیچھے یٰسین کا ہاتھ ہوتا ہے اور اکثر ان میں اسرائیلی سویلین مارے جاتے ہیں۔احمد یٰسین کا جواب تھا کہ کیا اسرائیلی فلسطینی سویلین کو نہیں مارتے ۔ یہ تو ادلے کا بدلہ ہے۔
22 مارچ 2004 ء کو وہ صبح کی نماز پڑھ کر ویل چیئر پر مسجد سے نکلے ہی تھے کہ ان پر اسرائیلی ہیلی کاپٹر نے میزائیل داغے ۔وہ موقع پر شہید ہوگئے ۔ ان کے ساتھ ان کے دو باڈی گارڈذ اور 9 دیگر نمازی بھی شہید ہوئے جو مسجد سے نماز ادا کر کے نکل رہے تھے ۔ مزید 12 آدمی زخمی ہوئے جن میں دو یٰسین کے بیٹے بھی تھے۔(20)
غزہ پر اسرائیل کی واحشیانہ بمباری اور ناکہ بندی:
غزہ پر اسرائیل آئے روز اپنی ظالمانہ بمباری کا ارتکاب کرتا ہے ۔ غزہ میں 2014 کے رمضان المبارک میں اسرائیلی جنگی طیاروں نے بہیما نہ بمباری کی۔ لوگ ممکنہ فضائی حملوں سے بچنے کے لیے زمین پر لیٹ گئے ۔ کچھ عمارتوں کی آڑ میں پناہ لینے کے لیے دوڑ رہے تھے ۔ زبردست دھماکوں کا شور بلند ہوا۔ زمین لرز کر رہ گئی اور فضا کانپ گئی ۔ پھر دور دور سے دیکھے جانے والے دھول اور آگ کے بگولے آسمان پر نمودار ہوئے اور ہر طرف چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
بے شمار لوگ خون میں لت پت اپنی منزل پا کر جنت الفردوس کو سدھار گئے۔ شہید ہونے والوں میں عورتیں، مرد اور بچے بھی شامل تھے۔ اس خطے میں یہ مناظر آسمان کے لیے نئے نہ تھے۔ نہتے شہریوں کے قتلِ عام کے لیے ان جنگی طیاروں ، توپوں، ٹینکوں اور بکتر بند گاڑیوں کا استعمال روزانہ کا معمول بن چکا ہے۔
بعد ازاں تل ابیب کے پاگل حکمران بنیامین نیتن یا ہونے امریکہ کے فراہم کردہ جنگی طیاروں، گائیڈڈ میزائیلوں، کلسٹر بموں اور دیگر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس زمینی فوج کی مدد سےغزہ کے مختلف علاقوں میں سفاکانہ اور وحشیانہ انداز میں بغیر کسی رکاوٹ کے مسلمانوں کا قتلِ عام جاری رکھا۔ روزانہ کثیر تعداد میں جنازے اْٹھتے اور ماؤں ، بہنوں اور بیویوں کی دلدوز چیخوں اور آہ و بکاہ سے غزہ کی بستی گونج اٹھتی تھی۔ایک طرف جدید اسلحے سے لیس بے رحم ظالم حکمران تھے اور دوسری جانب تہی دست مسلمان۔ وہ بھلا جنونی قاتلوں کا کس طرح مقابلہ کر سکتے تھے ۔ جنگی جنون میں مبتلا اسرائیلی حکمرانوں نے ان حملوں میں ڈھائی ہزار سے زیادہ مسلمانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا ۔ ان میں بڑی تعداد (800 /700) بچوں کی ہے۔ زخمیوں کی تعداد بلا مبالغہ 15/14 ہزار تھی۔ اسرائیلی حکومت نے کنڈر گارٹن سکولوں، ہسپتالوں، یتیم خانوں مساجد اور پناہ گزین مہاجرین کے کیمپوں کو جان بوجھ کر اپنے مظالم کا نشانہ بنایا۔
انھوں نے پانی کی سپلائی لائنوں، بجلی گھر اور بنیادی ضرورتوں کو فراہم کرنے والے اداروں پر حملے کر کے ساری بستی کو اندھیروں میں ڈبو دیا۔ اسرائیلی جنگی طیاروں نے اس دوران گیس بم بھی استعمال کیے اور شہری زندگیوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔ ان کی ان سفاکانہ کاروائیوں کی وجہ سے خوراک ، پانی اور ادویات کی کمی ہوگئی۔ غزہ کے محاصرے کے سبب ان مظلوم اور بے گناہ لوگوںکو کہیں سے کسی بھی قسم کی امداد نہیں مل سکتی تھی۔
جنونی اسرائیلی وزیر ِ اعظم نیتن یاہو نے مظلوم فلسطینی مسلمانوں کے قتل ِ عام اور نسل کشی کے لیے بہانہ بنایا کہ گم شدہ تین نوجوانوں کی لاشیں مل چکی ہیں، اور ان یہودی نوجوانوں کو حماس نے قتل کیا ہے۔ اس کے بعد بعض شدت پسند یہودیوں نے ایک فلسطینی نوجوان کو بدترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا۔ اگرچہ حماس نے اس الزام کی تردید کر دی تھی کہ انہوں نے یہودی نوجوانوں کو قتل کیا ہے لیکن پھر بھی ان نوجوانوں کے قتل کا بہا نہ بنا کر اسرائیل نے غزہ میں بے دریغ ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا بلکہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ غزہ پر حملے بند نہیں کرے گا۔(21)
رانڈ (Rand) ڈیلی میل ( جو ہانسبرگ سے شائع ہونے والا روز نامہ جس نے جنوبی افریقہ کی جابرانہ حکومت کے خلاف جہاد کیا) کے سابق چیف ایڈیٹر Raymond Lauw کہتے ہیں کہ اسرائیلی مقبوضہ علاقوں میں صورت حال جنوبی افریقہ کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تشویش ناک ہے اس لیے کہ جنوبی افریقہ میں مقامی کالے باشندوں کو کم از کم رہنے کا حق تو حاصل ہے جبکہ اسرائیلی حکومت کے پیشِ نظر فلسطینیوں کو ان کے علاقوں سے نکال باہر کرناہے۔(22)
جولائی 2014 ء کے آغاز میں اسرائیل کی طرف سے فلسطین پہ کی جانے والی جارحیت سے کون نا آشنا ہے؟ تقریباََ 50 دن جاری رہنے والی اس جنگ میں فلسطینیوں کو گھر بار ، اولاد، جان اور مال سے ہاتھ دھونے پڑے ۔اقوامِ متحدہ کے ادارے ( United Nations Relief and Works Agency) کے مطابق اسرائیل کے اس ظالمانہ اقدام سے تقریباََ 1500 سےزیادہ عمارات تباہ ہوئیں، جن کی دبارہ تعمیر شروع کی گئی تھی لیکن چند دن قبل اقوامِ متحدہ نے بھی فلسطینیوں کو چھت فراہم کر نے کے عمل کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ تعمیر و مرمت کے لیے فنڈز ناکافی ہیں۔ابھی تک کافی لوگ بغیر آشیانے کے زندگی بسر کر رہے ہیں کتنے بچے سردی سے ٹھٹھر کر موت کے منہ میں چلے گئے ہیں۔ دنیا کے سو سے زیادہ ممالک میں فضائی اڈے بنانے والے اور UNICEF چلانے والوں کو فلسطین کے بچے کیوں نہیں دکھا ئی دیتے؟
اسرائیل کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ کے مطابق 2014 ء کی اسرائیلی جارحیت میں شہید ہونے والوں میں 70 فیصد سے زیادہ بچے، عورتیں اور بزرگ شامل تھے۔اس طرح سو یٹزر لینڈ میں قائم ہونے وا لے بچوں کے عالمی دفاع کی تنظیم کے مطابق 2014 ء کا سال فلسطینی بچوں کے لیے سب سے مشکل سال رہا ۔اسی تنظیم کے مطابق89000 سے زائد گھروں کو تباہ کیا گیا، جن میں 15000 مرمت کی حالت میں بھی نہیں۔
اسرائیل نے جہاں خود ساختہ جنگی حالات میں بچوں، عورتوں اور بزرگوں کا نشانہ بنایا وہیں یہ عام حالات میں بھی بچوں کو ٹارگٹ بناتا رہا ہے جس کی تازہ ترین مثال 14 سالہ بچی ملاک الخطیب کی 2 ماہ کی گرفتاری ہے جسے اسرائیلی فوج پہ پتھر پھینکنے کے "جرم " میں گرفتار کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج نے 22 فلسطینیوں کو حراست میں لے لیا۔ 27 جنوری کی شب مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر بلاتا اور آسکر میں اسرائیلی فوج اچانک گھس آئی اور مسلمانوں کی جائیداد کو تہس نہس کرتے ہوئے 22 فلسطینیوں کو بغیر کسی جرم کے حراست میں لے لیا۔
اگست 2014 ء میں 650 فلسطینی شہید اور 4 ہزار سے زائد زخمی ہو گئے ، جب کہ سینکڑوں گھر، سکول،رہائشی عمارتیں اور مساجد ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیے گئے۔ اسرائیلی وزیرِدفاع گابی اشکئا زی نے اعلان کیا کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا کر دم لیں گے۔ 2008 ء اور 2012 ء کے حملے کے برعکس اس دفعہ میں زمینی حملہ بھی کیا گیا۔اسرائیلی افواج نے ٹینکوں اور بھاری اسلحے سمیت غزہ پر مختلف اطراف سے چڑھائی کی۔(23)
بعض تجزیہ نگاروں نے لکھا ہے کہ چند سال قبل غزہ کی پٹی میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں ۔ اسرائیل انہیں اپنی تحویل میں لینا چاہتا ہے اس لیے وہ ہر قیمت پر غزہ کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتاہے۔
برطانوی اخبار دی گارڈین نے 9 جولائی 2014 ء کی اشاعت میں معروف دفاعی تجزیہ نگار ڈاکٹر نصیر احمد کے حوالے سے لکھا ہے کہ 2020 ء تک اسرائیل کا توانائی بحران شدت اختیار کر سکتا ہےجس کے پیشِ نظر اسرائیل فلسطینی ذخائر پر قبضہ ضروری سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس کے خاتمے کے لیے اس نے غزہ پر جنگ مسلط کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ غزہ اسرائیل کی نظروں میں پہلے دن سے ہی خاردار کانٹے کی طرح کھٹک رہا ہے اور وہ اسے باقی مقبوضہ فلسطین میں شامل کرنا چاہتا ہے تا کہ جب چاہے فلسطینیوں کو وہاں سے نکال باہر کرےاور وہاں یہودی آبادیاں قائم کرتا پھرے۔(24)
خواتین اور بچوں کے لیے اسرائیلی جیل خانوں کا خوفناک منظر
1948 ءسے لے کر اب تک لاکھوں فلسطینیوں کو وقفے وقفے سے زندان کی سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا جن میں ہزاروں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں، جنہیں ہر طرح کی ظلم و بربریت اور اذیت و تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
اسرائیلی جیلوں میں مقید فلسطینی خواتین کے ساتھ جنسی تشدد، عریاں تفتیش ، لالچ اور دھونس کے ذریعے بلیک میلنگ اور تحقیقات کے دوران وحشیانہ تشدد جیسے حربے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اسرائیلی جیلوں میں مسلمان خواتین کے لیے تشدد سے بڑا مسئلہ صنفی امتیاز کا نہ ہونا بتایا جا رہا ہے ، ان با پردہ مسلم خواتین کو مرد قیدیوں کے ساتھ ایک ہی بیرک میں رکھا جاتا ہے، اس تکلیف کو نہ برداشت کرتے ہوئے کئی خواتین قیدیوں نے خود کشی کی بھی کوشش کی، مگر صہیونی درندوں پر اس کا ذرہ بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ خواتین کو مردوں کی طرح سخت تشدد کا بھی نشانہ بنایا جاتا ہے جس سے بہت سی خواتین شہید بھی ہوئی ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ اسرائیلی انتظامیہ ان شہید خواتین کی لاشیں بھی ورثاء کے حوالے نہیں کرتی۔ اسرائیلی جیلوں میں قید ہزاروں افراد میں جہاں بڑی عمر کے افراد شامل ہیں وہیں 18 سال سے کم عمر کے بچوں کو بھی غیر قانونی طور پر پابندِ سلاسل کیا گیا ہے۔ اس وقت اسرائیلی عقوبت خانوں میں سینکڑوں فلسطینی بچے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیں۔ صہیونی پولیس سالانہ سات سو سے زائد فلسطینی بچے بھی گرفتار کرتی ہے، اسرائیلی جیلوں میں قید متعدد بچوں کی کہیں مثال نہیں ملتی۔(25)
فلسطینی مقبوضہ مغربی کنارے اور بیت المقدس میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں خواتین کی گرفتاریوں کے واقعات میں اضافہ ہو گیا ہے مرکز برائے اسیران سٹڈی سینٹر کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق صہیونی فو جیوں نے رواں سال 2016 ء میں مجموعی طور پر 23 خواتین کو حراست میں لیا ان میں کم عمر بچیاں بھی شامل ہیں۔
عالمی حقوقِ نسواں کی شائع کر دہ رپورٹ کے مطابق اس وقت اسرائیلی عقوبت خانوں میں 15 ہزار فلسطینی خواتین یہودی فوجیوں کی درندگی و بربریت کا نشانہ بنی ہوئی ہیں۔(26)
اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین خطرناک امراض میں مبتلا
فلسطین میں خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم " مکب"برائے اسیران نے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینی خواتین پر ڈھائے جانے والے صہیونی مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ بدنام زمانہ " ھشاروں" جیل میں قید خواتین کئی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہیں جبکہ صہیونی انتظامیہ ان کی بیماریوں کو تشدد کے حربے کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔(27)
فلسطینی مہاجرین وپناہ گزینوں کی حالتِ زار اور مسائل :ایک جائزہ
کیو نکہ 1948ءکی عرب اسرائیل جنگ میں غزہ سے کئی شہر مکمل طور پر خالی کرا لیے گئے تو فلسطینی مختلف علاقوں کی طرف ہجرت کرگئےمگر بدقسمتی سے پناہ گزین کیمپوں میں بھی انہیں آرام سے نہیں رہنے دیا گیا۔آج بھی لاکھوں کی تعداد میں فلسطینی مختلف ممالک کے پناہ گزین کیمپوں میں پڑے ہیں اور وہاں انہیں بدترین صورتحال کا سامنا ہے۔٭شام میں سنہ2011ء کے بعد سے جاری خانہ جنگی کے دروان مقامی آبادی کے ساتھ ساتھ شام میں پناہ گزین کے طورپراقوام متحدہ کے قائم کردہ کیمپوں میں رہنے والے فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد بھی جنگ کا ایندھن بن چکی ہے۔فلسطین۔ شام ایکشن گروپ کی جانب سے تازہ اعداد و شمار جاری کیے گئے ہیں جن میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران شام میں مقیم 3275فلسطینی پناہ گزین جام شہادت نوش کر گئے ہیں۔لندن میں قائم شام اور فلسطین ایکشن گروپ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں شہید ہونے والے فلسطینیوں پر ہرطرح سے حملے کیے گئے۔ انہیں بمباری میں نشانہ بنایا گیا۔ جیلوں میں انسانیت سوز تشدد کر کے انہیں قتل کیا گیا۔ براہ راست گولیاں ماری گئیں اور متحارب فریقین کے درمیان لڑائی کے دوران بھی سیکڑوں فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے ہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کی شہادتوں کا ایک بڑا سبب شامی شہروں کا سرکاری فوج کی جانب سے محاصرہ بھی ہے۔ بڑی تعداد میں فلسطینی بچے اورمریض شہری خوراک اور ادویہ نہ ملنے کے باعث جام شہادت نوش کر گئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شامی فوج نے سینکڑوں فلسطینی پناہ گزینوں کو جیلوں میں تشدد کر کے شہید کیا۔ اس وقت بھی75فلسطینی خواتین سمیت1088فلسطینی شہری شام کی سرکاری جیلوں میں قید ہیں اور ان کے انجام کے بارے میں کوئی پتا نہیں کہ آیا وہ زندہ بھی ہیں یا نہیں۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شام میں جاری خانہ جنگی کے دوران ڈیڑھ لاکھ فلسطینیوں کو کیمپ خالی کرنا پڑے ہیں اور وہ شام کے اندر اور بیرون ملک در بہ در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔ نقل مکانی کرنے والے فلسطینی مہاجرین کی بڑی تعداد لبنان، ترکی، اردن، مصر،لیبیا اور یورپی ملکوں کو جانے پر مجبور ہوئی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق80لاکھ فلسطینی پناہ گزین شام چھوڑ گئے ہیں۔(28)
٭اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق تقریباً5ملین فلسطینی مہاجرین کا 2 ملین ایک لاکھ حصہ اردن میں،ایک ملین 3لاکھ غزہ میں،9لاکھ 14ہزار دریائے اردن کے مغربی کنارے میں،5لاکھ شام میں اور 4لاکھ47ہزارلبنان میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔(29)
٭جنگ زدہ شام میں امن کے دنوں میں پناہ لینے والے فلسطینی مہاجرین جو اب وہاں سے دیگر ممالک کا رُخ کرنے کی کوشش کررہے ہیں اُن میں سے سینکڑوں افراد یونان میں پھنسے ہوئے ہیں کیوں کہ ہمسایہ ممالک کو جانے والے تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔
٭شام میں موجود فلسطینیوں کے ایکشن گروپ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی جارحانہ پالیسیوں کے سبب یونان کی سرحد پر پھنسے ہوئے فلسطینی مہاجرین کا معاملہ مزید خراب ہوگیا ہے۔گروپ نے فلسطینی مہاجرین کی شام میں صورت حال خصوصاً دمشق کے مضافات میں واقع خان الشیخ مہاجر کیمپ کے حالات پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ۔
٭شامی فوج نے مہاجر کیمپ کو 1116دن سے محاصرے میں لیا ہوا ہےاور اس کیمپ میں 1177دن سے بجلی اور666دنوں سے پانی کی فراہمی معطل ہے۔(30)
٭یرموک پناہ گزین کیمپ نیوز نے اپنے فیس بک صفحے پر پوسٹ ایک بیان میں بتایا ہے کہ روسی فوج کے جنگی طیاروں نے سوموار کی شام خان الشیخ کیمپ پر بمباری کی جس کے نتیجے میں محمود حسن الخالد نامی پناہ گزین شہید اور10شہری زخمی ہوگئے۔(31)
٭اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے فلسطینی مہاجرین (یواین آرڈبلیواے)کےکمشنرجنرل فلپ گراندی نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ اس وقت شام کے سرحدی علاقے میں چار لاکھ سے سواپانچ لاکھ فلسطینی مہاجرین شدید مشکلات کا شکار ہیں۔جنہیں نقد رقم،خوراک،ادویات اور دیگر ضروریات زندگی کی اشد ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ شام میں محصور فلسطینی مہاجرین کے لیے اب تک 91ملین ڈالر کی عالمی امداد موصول ہوئی ہے جو کہ ناکافی ہے۔ایسے حالات میں فلسطینی مہاجرین کی زندگی اجیرن بن چکی ہے چنانچہ اردن کو چاہئےکہ وہ ان فلسطینیوں کے لیے اپنی سرحدیں کھول دے۔(32)
٭فلسطینیوں کے لیے قائم ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی "اونرا" کی اطلاع کے مطابق دمشق میں واقع محاصر زدہ یرموک کیمپ میں ٹائیفائیڈ بخار وبائی شکل اختیار کرتا جارہا ہے اور گذشتہ عرصے میں وہاں چھے کیسوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ایجنسی کا کہنا ہے کہ اس کو یرموک ،یلدہ اور دو نواحی علاقوں بابلہ اور بیت سحم میں بھی ٹائیفائیڈ کے پھیلنے کی قابل اعتابر رپورٹس ملی ہیں ۔جب کہ امریکا کے مرکز برائے کنٹرول اور انسداد امراض کے مطابق ٹائیفائیڈ سے انسانی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔(33)
٭فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے جنوبی شہر الخلیل کے جنوب میں واقع "الفوار"پناہ گزین کیمپ میں نام نہاد تلاشی کی کاروائی کی آڑ میں شروع کی گئی وحشیانہ کاروائی میں اسرائیلی فوج نے ایک شہری کو شہید اور کم سے کم 60 کوزخمی کردیا ہے۔زخمیوں کی حالت تشویش ناک بتائی جاتی ہے۔
٭ایک عینی شاہد نے مرکز اطلاعات فلسطین کو بتایا کہ مسلح اسرائیلی فوجی الفوار کیمپ میں فلسطینیوں کے گھروں پر چڑھ گئے ہیں۔اس کے علاوہ کیمپ کے تمام داخلی وخارجی راستے بند کردیے گئے ہیں۔اس دوران فلسطینی شہریوں کے گھروں کی جامہ تلاشی کی مہم بھی جاری ہے۔تلاشی کی کاروائی میں متعدد فلسطینیوں کو حراست میں لیا گیا ہے جب کہ خواتین اور بچوں کو زدوکوب کیا جارہا ہے۔(34)
٭جب کہ دوسری طرف اسلامی تحریک مزاحمت "حماس" نے مصدقہ ذرائع سے خبر دی ہے کہ اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزینوں کی بحالی کے لیے قائم ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی"اونرا"نے لبنان میں بیروت کے قریب فلسطینیوں کے مہاجر کیمپ "نہرالبارد"میں فلسطینی پناہ گزینوں کی امداد روک دی ہے۔حماس نے شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ نے امداد روک کر مفلوک الحال مہاجرین کو صحت،خوراک،رہائش اور تعلیم جیسے بنیادی حقوق سے محروم کرنے کی کوشش کی ہے جو اونرا کے مشن کی خلاف ورزی بھی ہے کیونکہ اس ادارے کا قیام ہی فلسطینی مہاجرین کی بہبود کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔(35)
سال2017ء میں فلسطینیوں کی حالتِ زار:
22مئی2017ءکی رپورٹ کے مطابق اسرائیل میں یہودی آباد کاروں کے ایک گروپ نے دریائے اردن کے شہر نبلوس کے بورین دیہات پرحملہ کیا جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی زخمی ہوگیا اور گاڑی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔یہودی آبادکاروں اور بورین کے رہائشیوں کے درمیان وقتاُ فوقتاُ جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔اس سے قبل بھی یہودی آبادکاروں نے فلسطینیوں کے دیہات پر حملہ کرتے ہوئے متعدد گاڑیوں کو نذرآتش کردیا تھا اور جمعرات کے روز فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ہونے والے جلسے پر فائرنگ کرتے ہوئے ایک فلسطینی کو ہلاک کردیا تھا۔(36)
جبکہ فلسطین ہلال احمر کے مطابق26جولائی 2017ء کی رات مسجداقصیٰ کے دروازے پر نمازِعشاء ادا کرنے والے نمازیوں پر اسرائیلی فوجیوں کے حملے میں 13 فلسطینی افراد شہیداور 13 زخمی ہوگئے ہیں۔
اطلاع کے مطابق بابِ اسباط پر نمازِعشاء کی ادائیگی کے بعد اسرائیلی پولیس متحرک ہوگئی اور سٹن گرینیڈ،ربڑ کی گولیوں اور آنسوگیس کے استعمال سے جماعت کومنتشر کیا۔
عینی شاہدوں کے مطابق پولیس نے اخباری نمائندوں کو واقعے کی کوریج سے روک دیا اور ایک فوٹو رپورٹر کو زدوکوب کے بعد حراست میں لے لیا ۔واضح رہے کہ اسرائیلی پولیس نے14 جولائی بروز جمعہ کو بھی مسجد اقصیٰ میں مسلح حملےکے دعوے کے ساتھ 3 فلسطینیوں کو شہید کردیا تھا۔واقعے کے بعد اسرائیلی فورسز نے مسجد کو عبادت کے لیے بند کردیا تھا۔(37)
فلسطین کے حوالے سے حالیہ ظلم وزیادتی کی انتہا یہ ہے کہ7دسمبر2017ء کی بی بی سی رپورٹ کے مطابق امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بدھ کی رات یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کا اعلان کردیا۔اور اس کی وضاحت یہ پیش کی کہ یہ اقدام امریکہ کے بہترین مفاد اور اسرائیل اور فلسطین کے درمیان قیامِ امن کےلیے ضروری تھا۔ان کے بقول یہ فیصلہ بہت پہلے ہوجانا چاہئے تھا۔امریکہ کے اس فیصلے کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ دنیا کے ہر کونے میں ہمارے لوگ یروشلم واپس آنے کے لیے بےتاب ہیں اور آج ٹرمپ کے اعلان نے اسے ہمارے لیے ایک تاریخی دن بنادیا ہے۔یروشلم ہماری امیدوں ،خوابوں اور دعاؤں کامرکز ہے۔
دوسری جانب امریکی صدر کے اس فیصلے پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی جارہی ہے۔فلسطین لبریشن آرگنائزیشن،ترکی،مصر اور فرانس کی جانب سے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے اسے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ورزی کہاجارہا ہے۔(38)
برطانوی خبر رساں ایجنسی روئٹر کے مطابق امریکی اعلان کے خلاف غربِ اردن کے علاقے الخلیل اور البیرہ میں ہزاروں فلسطینیوں نے ہڑتال کی سڑکوں پر احتجاج کیا ۔مظاہرین نے"یروشلم فلسطینی ریاست کا دارالحکومت ہے"کے نعرے لگائے۔جس پر اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے آنسوگیس،ربڑکی گولیوں اور فائرنگ کا استعمال کرکے31فلسطینیوں کوزخمی کردیا۔(39)
12دسمبر2017ءکو صیہونی فوجیوں نے غزہ پٹی کے شہربیت لاہیہ میں ڈرون طیارے سے حملہ کرکے 2فلسطینیوں کو شہید اورمتعددکوزخمی کردیا۔(40)
کہا جاسکتا ہے کہ فلسطینی مسلمان اپنی ابتداء سے لیکر آج تک یہودی لابی کے ہاتھوں مسلسل ظلم وجبر کانشانہ بن رہے ہیں۔فلسطین میں ناجائز اسرائیلی ریاست کے قیام کا مقصد ہی دنیا میں مسلمانوں کو کمزور اور ضعیف بنانا تھا۔ لہذا اس مقصد کے لیے فلسطینیوں کا قتلِ عام آج بھی زوروشورسے جاری ہے۔ان کو بنیادی حقوق سے محروم کرکے ان پر زندگی تنگ کردی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ لاکھوں فلسطینی مسلمان ہجرت کررہے ہیں۔مگر ان مہاجرین اور پناہ گزینوں کا بھی کوئی پُرسانِ حال نہیں۔جبکہ امریکی صدر ٹرمپ کے حالیہ" اعلان یروشلم" نے ملک میں بدامنی کی فضا کو مزید ہوا دے دی ہے۔تاہم اس مسئلے کے حل کےلیے امت مسلمہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔
حواشی و حوالہ جات
1۔عابدہ فیاض،پروفیسر،عکسِ جہاں،خان بک کمپنی،لاہور،س ن،ص:979
2۔جی ۔بی اسٹرینج بلاد فلسطین وشام،مترجم مولوی سید ہاشمی فرید آبادی،دارالطبع جامعہ عثمانیہ،حیدرآباد،1932ء،ص:32
3۔مسعود مفتی،دنیا کے تمام ممالک کا انسائیکلوپیڈیا،علم وعرفان پبلشرز،لاہور،جنوری2004ء،ص:288
4۔ایضاً
5۔محمد یوسف چودھری،عراق وفلسطین پنجہ نصاری ویہود میں،مکتبہ جمال ،لاہور،جون2013ء،ص:75
6۔یاقوت حموی،معجم البلدان،دارالمعرفہ،بیروت،1998ء،3/913
7۔رابرٹ وین ڈی وئیر،یہودیت تاریخ،عقائد،فلسفہ،مترجم ملک اشفاق،بک ہوم ،لاہور،2009ء،ص:1819
8۔مصطفیٰ الطحان،فلسطین سازشوں کے نرغے میں،ھلال پبلی کیشنز،لاہور،1996ء،ص:32
9۔ عراق و فلسطین پنجہ نصاریٰ ویہود میں،ص:78،79
10۔عبد الوہاب الکیالی،تاریخ فلسطین الحدیث،المؤسسۃ العربیہ ،بیروت،1990ء،ص:171
11۔ وکٹر ای مارسڈن،یہودی پروٹوکولز،مترجم محمد یحیٰ خان،نگارشات پبلشرز،لاہور،2012ء،ص:117،118
۔12Ahmed Taha, The tragedy of Jerusalem, auqaf department government of the Punjab,1972,pg:14
13۔ فلسطین سازشوں کے نرغے میں،ص:261
14۔ایضاً،ص:296
۔15The tragedy of Jerusalem,pg:8
16۔ محمد امین الحسینی،حقائق عن قضیہ فلسطین،مکتبۃ الھئیہ العربیہ،قاہرہ،1957ء،ص:45
17۔ فلسطین سازشوں کے نرغے میں،ص:143،145
18۔ایضاً،ص:298
19۔ عراق وفلسطین پنجہ نصاریٰ ویہود میں،ص:171
20۔ایضاً،ص:139
21۔ظہورالدین بٹ،اسرائیلی مظالم اور اس کے قیام کا پس منظر،ماہنامہ چشمِ بیدار،ملک احمد سرور، لاہور، مارچ2015ء، ج:9، ش:3، ص:66،67
22۔ عابد اللہ خان،اسرائیل کا اصلی چہرہ،شعبہ نشرواشاعت تنظیم اسلامی،لاہور،س ن،ص:723۔ سمیع الحق شیر پاؤ،لہولہو غزہ،ماہنامہ عالمی ترجمان القرآن،پروفیسرخورشید احمد،ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، اگست2014ء، ج:4، ش:3،ص87
24۔ایضاً
25۔ محبوب احمد،اسرائیلی عقوبت خانوں میں انسانی حقوق کی پامالی،ہفت روزہ ندائے ملت،29جنوری تا4فروری2015ء، ج:47، ش:6،ص:33
26۔ رابعہ عظمت،اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطیی خواتین کی گرفتاریوں میں اضافہ،ہفت روزہ ندائےملت، 12تا18فروری2015ء، ج:47، ش؛8، ص:36
27۔ایضاً
36۔یہودی آباد کاروں کا فلسطینیوں کے دیہات پر حملہ،ایک فلسطینی زخمی،22مئی2017ء،www.trt..net.tr
37۔مسجد اقصیٰ: نمازیوں پراسرائیلی فوجیوں کے حملے میں13افرادہلاک،26جولائی2017ء، www.trt..net.tr
38۔www.bbc.com
39۔ibid
40۔صیہونی فوج کے فضائی حملے،www.urdu.abbtakk.tv
حوالہ جات