1
2
2017
1682060040263_1063
83-105
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/1/1
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/1
قرآن پاک میں متعدد احکام نازل ہوئے ہیں جن میں کچھ احکام ایجابی(اوامر) ہیں اور کچھ سلبی (نواہی)، ایجابی احکام یا اوامر سے مراد وہ احکام ہیں جن میں کسی کام کے کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے اور سلبی سے مراد وہ احکام ہیں جن میں کسی کام کے ترک کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے ۔ قرآن کے سلبی احکام یعنی قرآن کا صیغہ نہی انسانی زندگی کی تمام جہات جیسے اعتقادی ،تعبدی ، معاشرتی ،معاشی ،سیاسی ،عدالتی وغیرہ کا احاطہ کرتے ہوئےانسانی زندگی کے لیے حدود و قیود متعین کرتا ہے تاکہ متمدن و مہذب معاشرہ کی ترویج کے ساتھ ساتھ دنیوی و اخروی فلاح کا حصول ممکن ہو سکے۔موضوع زیر بحث قرآن کا صیغہ نہی اور عائلی منکرات سے متعلق ہے ۔ قرآن کا صیغہ نہی اورعائلی منکرات کے ذریعے اللہ رب العزت بنی نوع انسان کو جہالت ، ضلالت ، نجاست سے پاک کرکے ، مقدس رشتوں میں پروکر ادب و احترام کے ذریعے مہذب بنانا چاہتاہے۔ عائلی منکرات دولفظوں کا مرکب ہے 1۔عائلی 2۔منکراتٍ
عائلی :۔لفظ عائلی العائلۃ سے مشتق ہے ۔باب فاعلۃ بمعنی مفعولۃ یعنی عائلۃ بمعنی معولہ ہے جس سے مراد گھرانہ کنبہ ، خاندان ، جیسے ماں باپ ، بہن ، بھائی ، بیوی ، شوہر اولاد اور انکے قریبی رشتہ دار وغیرہ انگریزی میں اسکے لیے استعمال ہوتا ہے[1]
منکرات :۔منکر معروف کی ضدہے اور اٍصطلاح میں ہر وہ چیز جس کی شریعت نےحرمت، قباحت ، کراہت بیان کی وہ منکر ہے[2]۔
الغرض عائلی زندگی سے مراد خاندانی زندگی سے متعلق شارع کے وہ احکامات جو قباحت ، حرمت ، کراہت پر مشتمل ہیں۔قرآن کے صیغہ نہی کی روشنی میں عائلی منکرات کی مختصراً وضا حت ذیل میں بیان کی جا رہی ہے ۔
1۔ نو مسلم مہاجرۃ عورت کفار کیطرف لوٹا نے کی ممانعت :
اسلام کفر و شرک کو سخت نا پسند کرتا ہے۔لہذا دولت اسلام سے فیض یاب ہونے کے بعد کفر سے کنارہ کشی کا حکم دیتا ہے۔
حتی کہ اگر کوئی کافرۃ عورت مسلمان ہو کر دارالسلام میں آئے گی تواسلامی ریاست کو حکم ہے کہ اسکی کفالت کی جائے اور اسکا نکاح شرک بھی باطل قرار دیا جائے۔ ذیل میں قرآنی صیغہ نہی کی روشنی میں نو مسلم مہاجرۃ عورت سے متعلق شارع کے احکامات بیان کیے جا رہے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
۱۔فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِ[3] پس نہ تم واپس لوٹاو انکو کفار کی طرف
۲۔ولَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ [4]اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو واپس دیدو
ثبوت احکام :۔ ان آیات کریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
مہاجرۃ عورت کا امتحان لینا :۔ ابن عباسؓ ’ فرماتے ہیں[5]۔ *
"جب کوئی مشرکہ عورت مسلمان ہو کر ہجرت کر کے آتی پھر وہ نبی ﷺ کے سامنے حلف اٹھاتی کہ وہ اپنے زوج کے بغض کیوجہ سے نہیں نکلی اور نہ ہی ایک زمین سے دوسری زمین میں منتقل ہونے کی رغبت یا طلب دنیا تھی بلکہ اس نے ہجرت اللہ اور اسکے رسول ﷺکے لیے ہے
*قبول اسلام سے نکاح شرک کا باطل ہو جانا:۔
مشرکہ عورت جب مسلمان ہوگی تو اس کا نکاح شرک باطل ہو جائے گا۔قرآن میں ارشاد ہے ۔ ۭ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّوْنَ لَهُنَّ[6]نہ وہ (عورتیں) ان (مردوں) کیلیے حلال ہیں اور نہ وہ (مرد) ان (عورتوں ) کیلیے حلال ہیں
امام مالک ؒکے نزدیک جس دن وہ مسلمان ہوگی اسی دن سے اسکے اور مشرک خاوند کے مابین جدائی واقع ہو جائے گی اورامام شافعی فر ماتے ہیں "اگر کوئی مرتد ہو جائے تو حرمت عدت سے قبل نہیں[7]
*مسلم خاوند مشرک خاوند کو نو مسلم عورت کا حق مہر دے :۔
زمخشریؒ فرماتے ہیں[8]۔
جب مشرکہ عورت مسلمان ہو جائے پھر مسلم مرد اس سے نکاح کر نا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ مشرک خاوند کو اس عورت کا حق مہر واپس لوٹائے
2۔معتدہ کو گھر سے نکالنے کی ممانعت
لَا تُخْرِجُوْهُنَّ مِنْۢ بُيُوْتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ [9]
انکو انکے گھروں سےنہ نکالواور نہ وہ نکلیں مگر یہ کہ کریں وہ کھلی بے حیائی
ثبوت احکام:۔ اس آیۃکریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
*معتدہ کے گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت :۔
ڈاکٹر وہبہ الزحیلی لکھتے ہیں[10]۔
ہر معتدہ چاہے وہ بائنہ ہو یا رجعیہ بلا ضرورت گھر سے نکلنے کی دائمی حرمت بیان ہوئی ہے جبکہ ضرورت کے تحت جائز ہے وہ مندرجہ ذیل دلائل پیش کرتے ہیں
۱۔مالکی وجنبلی مذہب:۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کے نزدیک معتدہ ضرورت کے تحت گھر سے صرف دن کے وقت نکل سکتی ہے اور رات کے وقت اسے اپنے عدت والے مسکن میں واپس لوٹنا لازم ہوگاانکی دلیل[11] درج ذیل حدیث ہے۔
جابر بن عبداللہؓ کہتے ہیں کہ انکی خالہ کو طلاق ہوگئی اور وہ گھر سے دوران عدت کھجور کی فصل کی دیکھ بھال کے لیے نکلیں لہٰذا انہیں ایک آدمی نے ڈانٹا،لہذا وہ (مسئلہ لے کر )نبی ﷺکے پاس آئی نبیﷺنے فرمایا بلی فجدی نخلک عسی ان تصدقی اوتفعلی معروفا [12] کیوں نہیں پس تو محنت کر اپنی کھجور پر شاید کہ تو صدقہ کرے یا تو معروف طریقے سے خرچ کرے
حنفی شافعی مذہب:۔ مطلقہ بائنہ ، مبتوتہ کے لیے جائز نہیں کہ وہ دن یا رات کے وقت ضرورت کے لیے یا بغیر ضرورت گھر سے نکلے جبکہ امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک بیوہ دوران عدت حاجت کے لیے دن کے وقت نکل سکتی ہے [13]وہ درج ذیل آیت سے استدلال فرماتے ہیں ۔ لا تخرجوھن من بیوتھن[14] نہ وہ نکلیں اپنے گھروں سے
معتدہ کے گھر سے نکلنے کی صورتیں :۔ دوران عدت عورت درج ذیل صورتوں میں گھر سے نکل سکتی ہے [15]*
بلا ضرورت قبل انقضائے عدت نکلے گی تو یہ کھلی بے حیائی شمار ہوگی ۔ *
*معتدہ زانیہ ہو لہٰذا اقامت حد کے لیے نکلے
*حدود میں سے کسی حد کے نفاذ کے لیے ۔
ڈاکٹر وہبہ الزجیلی فرماتے ہیں اس سے یہ ثبو ت ملتاہے کہ معتدہ کا خرچ اور رہائش اسکے خاوند کے ذمہ ہوگا [16]
3۔دوران عدت پیغام نکاح کی ممانعت:
۲ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا [18] نہ تم وعدہ کرو ان سے پوشیدہ طور پر مگر یہ کہ کہو بات معروف
ثبوت احکام :۔ ان آیات کریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
*طلاق بائن کے دوران پیغام نکاح بھیجنے کی ممانعت :۔
صراحت کے بغیر کسی اچھے الفاظ میں طلاق بائن کے دوران پیغام نکاح دینے میں کوئی حرج نہیں ۔مثلا یوں کہنا کہ میں نکاح کرنا چاہتا ہوں یا میں چاہتا ہوں میرا جوڑا بھی اللہ ملا دے وغیرہ جیسے حضرت فاطمہ بنت قیس ؓجبکہ اسکے خاوند ابو عمر و بن حفصؓ نے انہیں آخر ی تیسری طلاق دے دی اور دوران عدت ہی معاویہ بن سفیان ؓ ، ابوجہنم اور اسامہ بن زید ؓ نے پیام نکاح دیا اور پھر جب انہوں نے اسکا تذکرہ نبی ﷺسے کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا تم عدت کا وقت ابن مکتوم ؓ کے ہاں گزارو اور عدت مکمل ہونے پر مجھے خبر دینا ۔عدت مکمل ہونے کے بعد فاطمہ بنت قیس ؓنے نبیﷺکو خبر دی تو آپ ﷺ نے ان کا نکاح اسامہ بن زیدؓ جنہوں نے پیام دیا تھا کیساتھ نکاح کروا دیا
*دوران عدت نکاح کی ممانعت:۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ دوران عدت نکاح صحیح نہیں اگر کسی نے کر لیا اور دخول بھی ہوگیا تو جدائی کروا دی جائے گی[19]۔ ابو بکر کاسانیؒ فرماتے ہیں[20]
لایجوز للا جنبی نکاح المعتدۃ حتی ینقضی ماکتب اللہ علیھا من العقدہ سواء کانت مطلقۃ او متوفی عنھا زوجھا
نہیں ہے جائز کسی اجنبی کے لیے دوران عدت والی عورت ،یہاں تک کہ پوری ہوجائے جو اللہ نے لکھی ہے اس پر عدت سے برابر ہے کہ وہ عورت مطلقہ ہو یا اسکا خاوند فوت ہوگیا ہو
اختلافی امر:۔ کیا یہ عورت اس پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو جائے گی یا پھر عدت گزر جانے کے بعد وہی شخص اس سے نکاح کر سکتا ہے یا نہیں اختلافی امر ہے
جمہور کا مذہب:۔جمہور ؒکے نزدیک وہی شخص جس نے دوران عدت عورتوں سے نکاح کر لیا ہو اس عورت سے عدت پوری ہو جانے کے بعد نکاح کر سکتا ہے [21]
امام مالکؒ فرماتے ہیں[22]یہ عورت اس شخص پر ہمیشہ کے لیے حر ام ہو جا ئے گی وہ حضرت عمر کے اس قول سے استدلال کرتے ہیں ؛ اگر ایک عورت کا نکاح دوران عدت کسی شخص سے ہو جائے پھر ملاپ سے پہلے دونوں میں جدائی کروادی جائے تو عدت گزارنے پر یہ شخص دیگر لوگوں کیطرح پیغام نکاح دے سکتا ہے اور اگردونوں میں ملاپ بھی ہوگیا ہے تو جدائی کروا دی جائے گی اور پہلے خاوند کی عدت گزار کہ پھر اس خاوند کی عدت گزار ے گی اور پھر یہ شخص اس عورت سے ہرگز نکاح نہیں کرسکتا
فیصلہ کا ماخذیہ معلوم ہوتا ہے کہ جب اس شخص نے جلدی کر کے اللہ تعالیٰ کے مقرر کروہ وقت کا لحاظ نہ کیا تو پھر اسکے خلاف اسکی یہ سزا ہوگی کہ وہ عورت ہمیشہ کے لیے اس پر حرام ہوگی ۔جیسے کہ قاتل اپنے مقتول کے ورثہ سے محروم کر دیا جاتا ہے ۔
لیکن امام بیہقی ؒفرماتے ہیں کہ امام مالکؒ کا پہلا قول یہی تھا لیکن پھر آپ کاؒ جدید قول یہ ہے کہ یہ شخص بھی اسی عورت سے نکاح کر سکتا ہے اور یہ حلال ہے اسکے لیے کیونکہ حضرت علیٰ ؓ کا یہی فتوی ہے
حضرت مسروق ؒ فرماتے ہیں [23]کہ حضرت عمرؓ نے اپنے اس قول سے رجوع کرلیا تھا اور فرمایا کہ مہراداء کر دے اور عدت کے بعد یہ دونوں آپس میں اگر چاہیں تو نکاح کر سکتے ہیں ۔
نوٹ :۔ حضرت عمرؓ والا یہ اثر سندمنقطع ہے
*طلاق رجعی کے دوران پیام نکاح دینے کی ممانعت:۔ طلاق رجعی کے دوران پیام نکاح دینا بحزا سکے اپنے خاوند کے کسی کو بھی یہ حق نہیں کہ اشارۃ یا کنایہ پیام نکاح دے واللہ اعلم کیونکہ طلاق رجعی کی صورت میں مطلقہ اپنے زوجہ کے حکم میں ہے ۔ ابو بکر کاسانی ؒفرماتے ہیں[24]
اما المطلقۃ طلاق ر جعیا فلا نھا زوجۃ المطلق لقیام ملک النکاح من کل وجہ فلا یجوز خطبتھا کمالا یجوز قبل الطلاق
طلا ق رجعی والی مطلقہ ملک نکاح میں قیام کیوجہ سے مطلقا زوجہ ہے ۔(اپنے اسی شوہر کی ) ہرلحاظ سے پس نہیں ہے جائز اسکو پیام نکاح بھیجنا جیسا کہ نہیں جائز تھا طلا ق سے پہلے
4۔ بچہ کی کفالت کے لیے والد یا والدہ کو ضرر پہنچانے کی ممانعت :
۔یہ شارع کی مہربانی ہے کہ معاملات زندگی کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتے ہوئے بچہ کی کفالت ،تعلیم وتربیت وغیرہ سے متعلق تفصیلی احکامات نازل فرمائے ۔ذیل میں قرآن کے صیغہ نہی کی روشنی میں بچہ کی کفالت سے متعلق احکامات و مسائل بیان کیے جا رہے ہیں۔
ثبوت احکام :۔اس آیۃ کریمہ میں مندرجہ ذیل نکات اہم ہیں :۔
* حق رضاعت :۔ اگر ماں اپنے بچے کو دودھ پلانا چاہے تو شوہر اسے منع نہیں کرے گا اور نہ ہی اسے اس حق سے محروم کر یگا۔
جمہور مفسرین کا مذہب :۔ ای لا تمتنع لا م من ارضاعہ اضرار ا بالا ب[26]
یہ کہ نہ منع کیا جائے ماں کو اسکے بچے کو دودھ پلانے سے باپ کو تکلیف دینے کےلیے
*طلاق کی صورت میں بچہ کی رضاعت :۔ اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور ساتھ اسکے بچہ بھی ہے تو اگر عورت اپنی مرضی سے اسکے بچے کو اپنا دودھ پلانا چاہے تو بچے کا باپ انکار نہیں کرے گااور اگر وہ عورت انکار کر دے تو (شوہر) وہ اسکو مجبور نہیں کرسکتا ،ساتھ ہی ماں کو بھی حکم دیا کہ باپ کیوجہ سے اپنے بچے کو دودھ پلانے سے انکار نہ کرے ۔
حافظ ابن حجرؒ ابن شھاب الزھریؒ سے نقل کرتے ہیں[27]
اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے کہ والدہ کو اسکے بچے کیوجہ سے تنگ کیا جائے ۔کیونکہ وہ اسکے لیے غذا کا ذریعہ ، سب سے زیادہ شفیق اور مہربان ہے ۔پس یہ اسکی شان نہیں کہ وہ اس فریضہ سے انکار کرے جو اللہ نے اسکے ذمہ لگایا اور نہ ہی بچے کے باپ کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنے بچے کو نقصان پہنچائے اسکی والدہ کو منع کر کے کہ وہ اپنے بچے کو دودھ پلائے ۔پس ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں اگر وہ دونوں اپنے بچے کو دلی رضا مندی سے دودھ پلانا چاہیں
نان نفقہ کی ذمہ داری :۔ ۭ وَعَلَي الْمَوْلُوْدِ لَهٗ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ۭ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَا تُضَاۗرَّ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ۤ وَعَلَي الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِكَ ۚ [28]*
" اور جن کے بچے ہیں ان کے ذمہ ان کا روٹی کپڑا ہے جو مطابق دستور کے ہو ہر شخص اتنی ہی تکلیف دیا جاتا ہے جتنی اس کی طاقت ہو ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے یا باپ کو اس کی اولاد کی وجہ سے کوئی ضرر نہ پہنچایا جائے وارث پر بھی اسی جیسی ذمہ داری ہے ،۔"
نان و نفقہ کا مطالبہ دستور کے مطابق ہوگا وَاْتَمِرُوْا بَيْنَكُمْ بِمَعْرُوْفٍ [30]اور معاملہ کرو آپس میں دستور کے مطابق
علامہ ماوردی ؒفرماتے ہیں [31]۔ بچے کے والد اور والدہ کے درمیان جو بات بھی طے ہو جائے پھر والدہ جب حق رضاعت اداء کردے تو والد دستور اور طے شدہ معاہدے کے مطابق والدہ کو رضاعت کا معاوضہ ادا کرے ۔
[32]وان تعاسرتم فسترضع لہ اخری
اگر تم نے (اجرت طے کرنے میں ) ایک دوسرے کو تنگ کیا تو بچے کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی
امام احمد بن حنبل ؒفرماتے ہیں[33]۔
خص الا م بالمعاتبۃ لان المبذول من جھتھا ھو لبنھا لولدھا وھو غیر متمول وال مفنون بہ فی الصرف و خصوصافی الام علی الولدولا کذلک المبذول من جھۃ الا ب ، فانہ المال المفنون بہ عادۃ فالا م اذا جدی باللوم واحق بالعتب واللہ ا علم
ماں معاتبہ کیلیے خاص ہے اس لیے کہ اس جہت سے توجہ اسطرف مبذول ہوتی ہے کہ اس کا دودھ بچے کے لیے ہے اورو لی (شوہر)غیر مالدار بے حیثیت ہے خرچ کے معاملے میں اور خاص طور پر ماں کے بارے میں باپ پرہے اورنہ ہی اسطرح باپ کیطرف توجہ مبذول ہوتی ہے بیشک باپ کا مال فطرت کے مطابق اس کے ساتھ ہی ہے لہذا اگر ماں ملامت پائے تو وہ عتاب کی زیادہ حقدار ہے
5۔ایام حیض میں جماع کی ممانعت :
شارع نے مخصوص ایام سے متعلق قرآن کے صیغہ نہی کی روشنی میں احکام ومسائل بیان کرتے ہوئے یہود اور دیگر مذاہب کے ایسے طرز عمل جن کے مطابق عورت ان ایام میں چھوت اور غلیظ ہے لہذا وہ علیحدگی میں یہ دن گزارے اور نہ ہی امور خانہ داری کے لیے پاک ہے کی مطلقا نفی ونہی فرمادی۔ارشاد باری تعالی ہے۔
ثبوت احکام:۔ اس آیۃکریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
*ایام حیض میں یہود یوں کے طرز عمل کی ممانعت:۔ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں [35]کہ یہودی لوگ حائضہ عورتوں کو نہ اپنے ساتھ کھلاتے تھے نہ اپنے ساتھ رکھتے تھے صحابہ ؓ نے جب اس بارے میں نبی ﷺ سے سوال کیا تو یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو حضور ﷺ نے فرمایا ’’ سوائے جماع کے اور سب حلال ہے ‘‘ یہودی یہ سن کر کہنے لگے کہ انہیں تو ہماری مخالفت سے ہی غرض ہے حضرت اسید بن حضیر اور عباد بن بشیر نے یہودیوں کا یہ کلام نقل کر کے کہا کہ یارسول اللہ ﷺ ہمیں پھر جماع کی بھی اجازت دیجیئے۔ یہ سن کر آپﷺ کا چہرہ انور متغیر ہوگیا یہاں تک کہ صحابہ ؓنے خیال کیا کہ آپ ﷺ ان پر ناراض ہو گئے ہیں ۔جب یہ بزرگ جانے لگے تو نبی ﷺ کے پاس کوئی بزرگ دودھ تحفتاً لے کر حاضر ہوا ۔آپ نے ان دونوں کو پیچھے سے آواز دی اور انہیں وہ دودھ پلایا جس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کاغصہ جاتا رہا
*حائضہ عورت سے مباشرت کی اجازت:۔ حضرت عائشہ ؓ سے منقول ہے [36]کہ میں نبی ﷺ کا سر دھویا کرتی تھی آپ ﷺ میری گود میں ٹیک لگا کر لیٹ کر قرآن شریف کی تلاوت فرماتے حالانکہ میں حیض سے ہوتی تھی ۔میں ہڈی چوستی تھی اور آپ ﷺ بھی اسی ہڈی کو وہیں سے منہ لگا کر چوستے میں پانی پیتی تھی پھر پیالہ آپ ﷺ کو دیتی آپ ﷺ بھی وہیں منہ لگا کر اس پیالہ سے ویسے منہ لگا کر پانی پیتے اور میں اس وقت حائضہ ہوتی
حضرت عائشہ کا ہی فرمان ہے[37] کہ میرے حیض کے شروع کے دنوں میں آنحضرت ﷺ میرے ساتھ ایک ہی لحاف میں سوتے تھے ۔اگر کہیں آپ ﷺ کا کپڑا خراب ہوتا تو آپ ﷺ اس جگہ کو دھولیتے اگر جسم مبارک پر کچھ لگ جاتا تو اسے بھی دھو ڈالتے اور پھر ان ہی کپڑوں سے نماز پڑھتے
*تہہ بند یا کسی کپڑے کے ذریعے فائدہ اٹھانا :۔ حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں[38] کہ ایک شخص نے نبی ﷺ سے آکر پوچھا میری بیوی سے مجھے اسکے حالت حیض میں کیا کچھ حلال ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا تہہ بند کے اوپر کاکل
*جماع کے لیے حائضہ عورت کا غسل شرط؟ تمام علمائے امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ حائضہ عورت جب تک حیض کا خون آنے کے بعد پاکیزگی یعنی غسل کے ذریعے طہارت حاصل نہ کر لے اس سے جماع کرنا حلال نہیں ہے ۔ہاں اگر وہ معذور ہے یا کوئی عارضہ لا حق ہے تو پھر وہ تیمم حاصل کر لے ۔اسکے بعد اسکا خاوند ا سکے پاس آسکتا ہے کیونکہ حتی یطھرن میں بھی اسی طرف اشارہ ہے کہ خون کے بند ہونے کے بعد غسل کر لے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے یا خون دس دن گزر جانے پر بند ہو جائے تو پھر مقاربت کی اجازت ہے ۔یہ قیدا س لیے بڑھائی گئی تا کہ خون کے بند ہونے کا یقین ہوجائے [39]۔
*حائضہ عورت سے جماع کی ممانعت :۔ عن ابی ھریرۃ ﷺ قال النبیﷺ من اتی حائضا او امرٗۃ فی دبرھا او کاھنا متصدقہ بما یقول فقد کفر بما نزل علی محمدﷺ[40] نبی ﷺ نے فرمایا ۔ جو شخص حائضہ عورت سے جماع کرے یا غیر جگہ (دبر) کرے ، یا کاہن کے پاس جائے اور اسے سچا سمجھے ا اس چیز کے ساتھ کفر کیا جو محمد ﷺ پر اتری
کیا کفارہ واجب ہوگا؟کیا حائضہ عورت سے جماع کرنے والے کے ذمہ کوئی کفارہ لازم آئے گا یا پھر صرف استغفار ہی کافی ہوگا؟ اس بارے میں علماء کے دو اقوال ہیں۔
کفارہ کے قائل :۔حضرت ابن عباس سے روایت ہے[41] کہ جو شخص اپنی حائضہ بیوی سے جماع کرے ایک دینا ر یا آدھا دینار صدقہ کرے اگر خون پیچھے سے ہٹ گیا ہو اور ابھی اس عورت نے غسل نہ کیا ہو تو پھر اس حالت میں اسکا خاوند اس سے ملے تو آدھا دینار ورنہ پورا دینار خون اگر سرخ ہوتو ایک دینا ر اور اگر زرد ہو تو آدھا دینار
جمہور کا مذہب :۔ جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ کفارہ کچھ بھی نہیں صرف توبہ استغفار کرے[42]
حائضہ عورت سے جماع کے طبی نقصانات :۔ ڈاکٹر محیی الدین العلابی نے حائضہ یانفاس والی عورت سے جماع کے مندرجہ ذیل میڈیکل (طبی ) نقصانات بیان کیے ہیں[43] ۔ شوہر اور بیوی کو ایڈز،دیگر جنسی بیماریاں،نومولود میں جسمانی اور ذہنی معذوری کے امکانات بڑھ جا تے ہیں
6۔باپ کی منکوحہ سے نکاح کی ممانعت: یہ اسلام کی عنایت ہے کہ اس نے عورت کو مقدس رشتوں میں متعارف کرواکر نہ صرف عزت و تکریم بخشی بلکہ اس کے ہر رشتے کے لیے کچھ احکام و ضوابط متعین فرمائے تاکہ ماں ،بیٹی ،بیوی،بہن غرض ہر رشتے کے لیے ایک الگ مقام،منصب ہونے کیساتھ کچھ حد بندیاں مقرر فرمائیں ذیل میں قرآن کے صیغہ نہی کی روشنی میں باپ کی منکوحہ سے نکاح کی حرمت بیان کی جارہی ہے۔
ثبوت احکام۔ اس آیۃکریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
*جاہلیت کی رسم بد کا خاتمہ :۔ سید طنطاوی ؒفرماتے ہیں[45]۔ اس آیت میں باپ کی منکوحہ سے نکاح پر منع کیا گیاہے کیونکہ یہ رسم بد ہے لیکن جو کچھ ہو چکا اس حکم کے نزول سے پہلے اس پر کوئی مواخذہ نہیں پھر جو کوئی نکاح کرے گاایسی عورت سے جو منکوحہ رہ چکی اسکے باپ کی نسبت کیطرف سے یا رضاعت کیوجہ سے پس وہ اس پر کلی طور پر حرام ہو جائے گی پھر اگر کوئی ایسا نکاح منعقد ہو جائے تو حرمت ثابت ہونے پر مفارقت کروانا واجب ہوگا
*باپ کی منکوحہ سے نکاح کی ممانعت پر علماء کا اجماع :۔ علماء کا اس بات پر اجماع ہوچکاہے کہ جس عورت سے باپ نے مباشرت کرلی خواہ نکاح کر کے خواہ ملکیت میں لا کے خواہ شبہ سے وہ وعورت بیٹے پر حرام ہے ۔نبی ؐﷺنے فرمایا۔من نظر الی فرج امراۃ حرمت علیہ امھا وبنتھا [46]جس نے کسی عورت کی شرمگاہ کی طرف دیکھا وہ عورت اور اسکی بیٹی اس پر حرام ہوگئ
*زمانہ جاہلیت میں منعقدہ ممنوع نکاح کا حکم:۔ ابوبکر جصاص ؒفرماتے ہیں[47]۔ زمانہ جاہلیت میں جو نکاح منعقد ہوچکا اسے برقرار رکھا جائے کیونکہ پہلا نقطہ یہ ہے کہ اگر ایسی کوئی بات ہوتی تو آثار صحابہ میں ملتی لیکن ایسی کوئی روایت منقول نہیں
*محرم رشتوں سے نکاح پر حد کا نفاذ:۔ تمام ائمہ کے نزدیک محرم رشتوں سے نکاح ہر صورت باطل ہوگا پھر اگر قصدا کسی نے نکاح کر لیا اور وطی بھی لر لی تو حدزنا کا نفاذ ہوگا ۔سفیان ثوری ؒکا مذہب یہ ہے کہ اگر شبہ میں نکاح کیا پھر حد زنا کا نفاذ کیا جائے گا جبکہ امام ابو حنیفہ ؒکے نزدیک جو شبہ کے تحت محرم رشتوں سے نکاح کرے پھر وہ وطئی کر لے تو حد کا نفاذ نہیں کیا جائے گا[48]۔
عورت کے تحفظ کے لیے شریعت نے بلا ضرورت دور جاہلیت کی عورت کیطرح گھر سے نکلنے کی ممانعت قرآن کے صیغہ نہی کی روشنی میں بیان فرمائی ارشاد باری تعالی ہے۔
و قر ن فی بیو تکن ولا تبر جن تبرج الجا ھلیۃ الاولی[49]
اور تم ٹھہری رہو گھروں میں اور نہ دکھلاتی پھرو جیسا کہ دکھلانا دستور تھا پہلے جہالت کے وقت
تبرج سے مراد :۔ لفظ تبرج کے اصلی معنی ظہور کے ہیں او ریہاں زینت کے اظہار کے لیے استعمال ہواہے ۔جیسے دوسرے جگہ ارشاد ہے غیر متبر جت بزینۃ [50]نہ ظاہر کریں اپنی زینتیں
امام راغب اصفہانی ؒ مفردات القرآن میں لکھتے ہیں[51]۔
تبرج برج جمع بروج ہے جسکے معنی قصر کے ہیں اس لیے ستاروں کی مخصوص منازل کے لیے بروج کا لفظ آیا ہے قرآن میں ارشاد ہے وَالسَّمَاۗءِ ذَاتِ الْبُرُوْجِ [52]قسم ہے آسمان بر جوں والے کی
پھر اس میں معنی حسن کا اعتبار کر کے تبرجت المرأۃ کا محاورہ استعمال ہواجسکے دو معنی ہیں ۔
1۔عورت نے مزین کپڑے کی طرح آرائش کا اظہار کیا 2۔عورت اپنے قصر سے ظاہر ہوئی
تبرج الجاھلیۃ سے مراد :۔مجاہد ؒ فرماتے ہیں[53] ۔تبرج الجاھلیۃ سے مراد ہے کان النساء یتمشین بین الرجال
عورتیں مردوں کے درمیان چلتی تھیں کانت المراۃ ترید الرجل علی نفسھا
عورت مرد کے اختیار میں اپنا نفس دینا چاہتی
بلا ضرورت گھر سے نکلنے کی ممانعت:۔مفتی محمد شفیع ؒ فرماتے ہیں[54]۔ *
یہ آیت پردہ سے متعلق ہے اور عورت کے لیے مطلقا اپنے گھر میں ٹھہرنے کا حکم ہے اور بلا ضرورت گھر سے نکلنا حرام اور ممنوع ہے ۔حدیث میں آتا ہے ۔ان المراۃ عورۃ فاذاخرجت استشر فھا الشیطان[55]
نبی ﷺنے فرمایا ’’عورت پردہ میں ہوتی ہے جب عورت گھر سے نکلتی ہے شیطان اسکی تشہیر کر دیتا ہے "
ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی اجازت :۔ امام قرطبیؒ فرماتے ہیں[56]۔ *
ولا تبرجن کا حکم اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی اجازت ہے ۔
خود نبیﷺؐ نے مختلف مواقع پر مواضع ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ازدواج مطہراتؓ کو ارشاد فرمایا
قد اذن لکن ان تخرجن لحاجتکن
تحقیق اجازت دی گئی تمہیں کہ تم نکلو اپنی حاجت کے لیے
گھر سے نکلتے وقت پردہ کا اہتمام کرنے کا حکم :۔ قرآن وحدیث سے جہاں عورتوں کے لیے ضرورت کے تحت گھر سے نکلنے کی اجازت دی گئی وہیں باہر نکلتے وقت زینت کے اظہار کو ممنوع اور با پردہ لباس میں گھر سے ضرورت کے تحت نکلنے کی اجازت دی گئی ۔قرآن میں ایک دوسری جگہ ارشاد ہے يُدْنِيْنَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ۭ [57]نیچے لٹکا لیں اپنے اوپر تھوڑی سی چادریں
8۔باہم فضیلت پر تمنا کی ممانعت
موجودہ دور میں آزادی نسواں کے نام پر مردوزن کے دائرہ کار کی اس فطری تقسیم پر اعتراضات اور مساوات کے نا م پر جو پروپگینڈہ چل رہا ہے وہ سراسر فطری نظام ربی کیخلاف اعلان جنگ ہے۔ قرآنی صیغہ نہی کی روشنی میں اس درجہ فضیلت کی وجوہ اور اسکی نوعیت بیان کی جارہی ہے۔
لفظ قوام اور درجہ برتری :۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بعض کو بعض پر فضلیت بیان کی اور اس سے اگلی آیت میں وجہ فضلیت بھی خود ہی بیان کر دی اور وہ درج ذیل ہے اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَي النِّسَاۗءِ [59] مردعورتوں پر قوام ہیں
امام رازیؒ فرماتے ہیں [60] قوام سے مراد منتظم و نگران ہے
ثبوتِ احکام :۔
بعض کو بعض پر فضلیت کی وجوہات :۔*
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں[61]۔ مردوں کی عورتوں پر فضلیت کی دو وجوہات ہیں جو درج ذیل ہیں ۔
وہبی فضیلت 2۔کسبی فضیلت . 1
وہبی فضیلت۔ وہبی فضیلت سے مراد وہ فضیلت ہے جو انسان خود حاصل نہیں کرسکتا بلکہ اللہ کیطرف سے انہیں عطا کی جاتی ہے ۔
کسبی فضیلت۔کسبی فضیلت وہ فضیلت ہے جو انسان اپنی محنت اور ارا دہ سے حاصل کرتا ہے اور یہاں پر مردوں کو عورتوں پر یہ کسبی فضیلت حاصل ہونے کی وجہ قرآن میں درج ذیل ہے وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِهِمْ [62]‘‘اور اس وجہ سے کہ وہ اپنا مال خرچ کرتے ہیں
دیگر نظام ہائے زندگی میں صلاحیت کی بنا پر فضلیت :۔ ابو حیان ’’الجرالمحیط میں فرماتے ہیں [63]۔ *
اس آیت سے ثابت شدہ ہ مردوں کی کسبی فضلیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ولایت و حکومت کا اختیار برتری محض زور ،تغلب کی بنا پر نہ ہوگی بلکہ افراد کی صلاحیتوں اور قابلیت کی بنا پر انتخاب کیاجائے گا
بعض کی بعض پر فضلیت سے فرد کی عمومی حیثیت متاثر نہیں ہوتی :۔ اس آیت سے یہ نکتہ بھی ملتا ہے کہ وہبی فضلیت سے یہ ہر گز مراد نہیں کہ ماتحت کی اہمیت میں کمی ہوگی اس نکتے کے بارے میں مفتی محمد شفیع لکھتے ہیں[64]
یہ فضلیت جو مردوں کو عورتوں پر حاصل ہے یہ جنس اور مجموعہ کے اعتبار سے ہے جہاں تک افراد کا تعلق ہے تو بہت ممکن ہے کہ کوئی عورت کمالات علمی و عملی میں کسی مرد سے بڑھ جائے اسی طرح صفتِ حاکمیت میں بھی مرد سے فائق ہو جائے
الغرض ان تمام نکات سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ مرد کی حاکمیت سے نہ تو عورت کی اہمیت کم ہوتی ہے اور نہ ہی عورت کی آزادی متاثر ہوتی ہے ۔
9۔ عورتوں کے زبردستی وارث بننے کی ممانعت
اسلام کمزور اور نادار پر خصوصی شفقت فرماتا ہے۔لہذا شریعت اسلامیہ نے ہر ایسے پہلو کی ممانعت فرما دی ہے جو معاشرے کے کمزور طبقہ کی حق تلفی یا جبر پر مبنی ہو۔ لہذا عورت سے زبردستی نکاح کرنا ،یا اس کو زبر دستی نکاح پر مجبور کرنا یا اس کو خلع پر مجبور کرنا شارع نے حرام فرمادیا ہے۔ارشاد ربانی ہے۔
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا يَحِلُّ لَكُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَاۗءَ كَرْهًا ۭوَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْهَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَيْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ يَّاْتِيْنَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ ۚ ۔[65]
" ایمان والو! تمہیں حلال نہیں کہ زبردستی عورتوں کو ورثے میں لے بیٹھو انہیں اس لئے روک نہ رکھو کہ جو تم نے انہیں دے رکھا ہے ، اس میں سے کچھ لے لو ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کوئی کُھلی بُرائی اور بے حیائی کریں۔"
ثبوتِ احکام:۔ ان آیات کریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
زمانہ جاہلیت کی رسم بد کا خاتمہ:۔ ابن کثیرؒ نے ابن عباس کا قول نقل کیا ہے[66] *
جب کوئی شخص مر جاتا ہے تو اسکے وارث اسکی عورت کے پورے حقدار سمجھے جاتے تھے اگر ان میں سے کوئی چاہتا تو اپنے نکاح میں لے لیتا اور اگر وہ چاہتے تو کسی دوسرے کے نکاح میں دے دیتے اگر چاہتے تو اس عورت کو نکاح ہی نہ کرنے دیتے عورت والوں سے زیادہ حقدار اس عورت کے یہی گنے جاتے تھے ۔جاہلیت کی اس رسم بد کا خاتمہ کیا گیا ‘‘
اور نہ تم تنگ کرو انکو جب وہ پوری کرلیں اپنی عدت کہ وہ نکاح کریں اپنے شوہروں سے جب وہ آپس میں راضی ہو جائیں
علامہ قرطبیؒ ابن عباسؓ سے نقل کرتے ہیں[68]۔ یہ آیت مندرجہ ذیل معنی پر دلالت کرتی ہے.
۱۔بیوی کو خلع لینے پر مجبور کرنے کی ممانعت :۔
عورت نا پسند ہے دل نہیں ملا چھوڑنا چاہتا ہے لیکن اس صورت میں مہرو غیر ہ تمام حقوق دینے پڑجائیں گے اس سے بچنے کے لیے اسے ستا نا طرح طرح سے تنگ کرتا ہے تاکہ وہ خود اپنے حقوق چھوڑکر چلی جائے اس صورت سے مسلمانوں کو روک دیا گیا
۲۔عورت کو عقد ثانی سے روکنے کی ممانعت:۔ قریش مکہ میں یہ بات جاری تھی کہ کسی شخص نے کسی شریف عورت سے نکاح کیا پھر موافقت نہ ہوئی تو یہ اسے طلاق دے دیتا تھا لیکن یہ شرط کر لیتا کہ بغیر اسکی اجازت کے وہ کسی اور سے نکاح نہیں کر سکتی اس کام کے لیے باقاعدہ شاہدمقرر ہو جاتے اور اقرار نامہ لکھ لیا جاتا ۔اب اگر کہیں سے عورت کو پیغام نکاح آتا عورت راضی ہوتی تو یہ شخص کہتا مجھے اتنی رقم دو تو اجازت دوں گا ورنہ نہیں اس کو روکے رکھتا اور دوسرا نکاح نہ کرنے دیتا
بیوی سے ہدایہ، حق مہر واپس لینے کی ممانعت :۔ ابو بکر جصاصؒ ابن عباس ؓ سے نقل کرتے ہیں[69]*
اس آیت میں اس بات کی ممانعت ہے کہ شوہر عورت کو اس لیے تنگ کرے کہ وہ مہر سے دستبرداری کر کے خلع لے لے ۔ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ جب شوہر کو اپنی بیوی سے رغبت نہ رہے تو پھر صرف مہر کی ادائیگی کے خوف سے اسے نہ روکے بلکہ اسے آزاد کر دے اور مہر ادا کر دے
بیوی کی بدچلنی کی صورت میں بیوی کو خلع پر مجبور کرنا:۔ ابن عباسؓ، قتادہؒ، ضحاکؒ کا مذہب اس بارے میں یہ ہے کہ جب بیوی کی بدچلنی شوہر پر واضح ہو جائے پھر اسکے لیے جائز ہے کہ فدیہ یعنی خلع کے لیے اسے مجبور کر دے[70]
۱۰۔ دوران اعتکاف جماع کی ممانعت :۔ .
وَلَا تُـبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ ۙ فِي الْمَسٰجِدِ [71]
" اور نہ تم مباشرت کر و ان سے اور تم حالت اعتکاف میں ہو مسجد میں ۔"
ثبوت احکام :۔امام ماوردی ؒفرماتے ہیں[72] اس آیت کی دو تاویلیں ہیں۔
- ۔ 1۔نھی من المباشرۃ الجماع اور یہ اکثر مفسرین کا قول ہے ۔2۔ابن زید مالک کا قول :۔ مادون الجماع من اللمس والقبلۃ
اس میں یہ احتمال ہے کہ مباشرت کے حقیقی معنی مراد ہوں نیز یہ بھی احتمال ہے کہ لفظ المس کی طرح یہ جماع کے لفظ کے لیے لفظ کنایہ ہو ۔اس بات پر سب فقہا کا اجماع ہے کہ یہاں مباشرت سے مراد جماع ہے لہٰذا اس آیت نے معتکف کے لیے جماع کی ممانعت کر دی ہے ۔
امام شافعیؒ کے دوسرے قول کے مطابق ایسی ہمبستری سے اعتکاف فاسد ہوگا جس سے حدود واجب ہوتی ہیں یعنی اپنی بیوی یا لونڈی سے ہمبستری کیصورت میں اعتکاف فاسد نہیں ہوگا[73]۔۔
محرم معتکف کے لیے حکم میں فرق :۔ابن عا بدینؒ فرماتے ہیں[74] *
محرم اور معتکف کے لیے شرعی احکامات کی نوعیت مختلف ہوگی ۔جیسے
*محرم اثر مباشرت کر ے یعنی بوس کنار کرے تو اس پر دم یعنی قربانی واجب ہو جائے گی ۔خواہ اسے انزال نہ بھی ہو لیکن معتکف پر ایسا کوئی کفارہ نہیں آیا ۔
*محرم کا احرام مباشرت سے خواہ انزال ہو جائے فاسد نہیں ہوگا سوائے اسکے کہ عورت کے اندام نہانی میں جنسی عمل کیا جائے لیکن معتکف کا اعتکاف مباشرت کے نتیجہ میں ہونے والے انزال سے فاسد ہو جائے گا۔
*محرم کے لیے جماع اور اسکے دو اعی مثلا خوشبو ، سلے ہوئے کپڑے ، سر ڈھانپنا ، کرنا سب ممنوع ہے لیکن معتکف کے لیے سوائے جماع کے باقی چیزیں ممنوع نہیں ہیں ۔یعنی خوشبو ، کنگھی ، لباس وغیرہ معتکف کے لیے حاجت انسانی کے سوا مسجد سے باہر نکلنا ممنوع ہے ۔
قرآن و حدیث میں یتیم لڑکیوں سے نکاح کے لیے احتیاط اور انصاف کی طرف ترغیب دلائی گئی ہے ۔فرمان باری تعالی ہے۔
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ [75]
جی کو اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو یتیموں کے بارے میں پھر نکاح کرو جو پسند آئیں عورتوں میں سے تمہار ے ابن ابی حاتم ؒحضرت عائشہ سے روایت کرتے ہیں حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا[76]
اگر کوئی شخص یتیم لڑکی کا کفیل بنایا جائے پھر وہ اسکے مال میں شراکت کر ے اور اسے اسکا مال پسند آئے اسی طرح اسکا حسن بھی پھر وہ چاہے کہ وہ اس یتیم لڑکی سے شادی کرے منصفانہ طریقے سے اسکا حق مہر ادا نہ کرے لہٰذا اسے اس (کفیل ) کو اس بات سے منع کیا گیا کہ ان کا مال اور حق مہر دبا کر ان سے نکاح کیا جائے
12 ۔متعددبیویوں کے درمیان نا انصافی کرنے کی ممانعت: ۔.
اللہ تبارک تعالی نے معاشرتی زندگی کے حسن و تمدن کو قائم رکھنے کیلیے معاملات عائلی زندگی کے ہر پہلو سے متعلق راہنمائی فرما دی ہے ۔ایک سے زیادہ بیویاں یعنی چار یا اس سے کم اور پھر ان میں پیار و محبت میں یکساں ہونا امر محال ہے۔لہذا شارع نے اس سے متعلق احکام و مسائل بیان کر دیے ہیں ۔چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ۔
فَلَا تَمِيْلُوْا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوْھَا كَالْمُعَلَّقَةِ ۭ [77]
پھر نہ جھک جاو تم ایکطرف کو پھر چھوڑ دو اسے (پہلی بیوی کو)لٹکی ہوئی لکڑ ی کیطرح
مفتی محمد شفیع ؒفرماتے ہیں[78] اس سے مراد یہ ہے کہ
" تم پیارو محبت میں تو یکساں نہیں ہو سکتے لیکن دیگر معاملات جیسے تقسیم میراث ، تقسیم اوقات نان ونفقہ،سکونت اور دیگر ازدواجی
تعلقات میں عدل کرو ۔نیز اگر کوئی بیوی عمر رسیدہ یا بیمار ہو جائے تو اسے بے وقعت چیز سمجھ کر فراموش نہ کر دوبلکہ اسکی ضروریات صحت اور دلجوئی کا بھی خیال رکھو
13۔ مطلقہ کو اذیت دینے کی ممانعت:۔ اسلام دین رحمت اور معاشرے کے مظلوم ،کمزور افراد کی داد رسی کرتا ۔دور جاہلیت میں لوگ عورت کو طلاق دیتے اور پھر رجوع کر لیتے ان کا مقصد صرف عورت کو اذیت دینا ہوتا لہذا قرآن کے صیغہ نہی کے ذریعے اسکی ہمیشہ کے لیے ممانعت فرما دی گئی۔ارشاد باری تعالی ہے۔
وَلَا تُمْسِكُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا ۚ [79]اور نہ تم روکو انکو تنگ کرنے کیلیے تاکہ تم سرکشی کر سکو
ثبوت احکام۔ اس آیۃ کریمہ سے مندرجہ ذ یل احکامات مستنبط ہوتے ہیں۔
جاہلیت کی رسم بد کا خاتمہ۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں[80]*
ان الرجل کان یطلق امراء تہ ثم یقو ل واللہ لا اورثک ولا ادعک، فقالت و کیف ذلک ؟قال اذا کدت تقضین عدتک رجعتک فنزلت ھذہ الایۃ
بیشک آدمی طلاق دیتا جاہلیت میں اپنی عورت کو طلاق دیتا پھر وہ کہتا میں نہ تیرا وارث بنوں گا اور نہ ہی تمہیں طلاق دوں گا،وہ کہتی تو ایسا کیسے کرے گا؟وہ جواب دیتا کہ جب تیری عدت پوری ہونے کہ قریب ہوگی میں رجوع کر لوں گاپھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی
14۔ آیات اللہ کو مذاق بنانے کی ممانعت ۔ اس آیت سے یہ حکم بھی مستنبط ہوتا ہے کہ اللہ کے احکامات کو مذاق نہ بناو جیسے ارشاد باری تعالی ہے وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰيٰتِ اللّٰهِ ھُزُوًا [81]اور تم اللہ کی آیات کو مذاق نہ بنا
15 ۔ والدین کی دل آزاری کی ممانعت:۔.
فَلَا تَـقُلْ لَّهُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْهَرْهُمَا [82]
پس تم ان دونوں کے سامنے اف تک بھی نہ کہو اور نہ ہی انکو ڈانٹو
کلمہ ’’اف‘‘ کی وضاحت کرتے ہوئے اما م بغوی ؒفرماتے ہیں [83]۔
اسم صوت ینبیء الضجراسم صوت ہے ڈانٹ سے آگاہ کرنے کے لیے
فلا تقل لھما اف حین تمیط عنھما الخلاء والبول کما کان یمطانہ عنک صغیر
"پس تو ان دونوں کو اف بھی نہ کہہ اگر ان سے پاخانہ یا پیشاب خارج ہو جائے جیسا کہ تیرے سے بچپن میں خارج ہو جاتا تھا
سید طنطاوی ’’الوسیط ‘‘ میں تنھرھماکی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں[84]۔
ای لا تزجرھما بالکلمۃ العالیۃ نہ ان دونوں کو تو بلند آواز سے ڈانٹ
الغرض یہ قرآن کے صیغہ نہی کااعجاز ہے جس کے ذریعے شارع نے عائلی نظام زندگی کو وہ دائمی تطہیر و تقدیس سے نوازا کہ اجڈ، وحشی باپ کی بیویوں سے نکاح کرنے والے ،عورت کو ایک جاگیر اور معاشرے کا ایک حقیر فرد سمجھنے والے انسان کو اسقدر مہذب،مطہراور متمدن کر دیا کہ منصب خلیفۃ اللہ و مسجود ملائکہ کا حق اداء کر دیا ۔رسوم جاہلیت اور ظلم و زیادتی کے تدارک کے لیے نکاح و طلاق کے معاملات میں اولاد اوراولیاء کے حقوق وفرائض متعین کیے۔اگرچہ عورت ہر دور میں مظلوم رہی ہے لیکن یہ قرآن کا صیغہ نہی ہی ہے جس نے عورت کو نہ صرف دور جاہلیت کی بندشوں سے آزاد کروایا بلکہ زندگی کے تمام پہلوؤں میں عورت کو تحفظ دیا اور اسکے لیے حقوق وفرائض متعین کیے ۔
حوالہ جات
- ↑
1۔قاسمی،کیرانوی،وحید الزماں،القاموس الوحید،مکتبہ قدوسیہ ،لاہور،۱/ ۲۷۶
- ↑
الجزری ،ابو السعادات المبارک بن محمد،النھایۃ فی غریب الا ثر ، باب النون مع الکاف ، مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۳/ ۲۴۰
- ↑
10 (60) الممتخنۃ
- ↑
الممتخنۃ(60)10
- ↑
دار الکتب العربیہ،بیروت،1198.1 سید طنطاوی ، الوسیط 4173/
- ↑
۔ الممتخنۃ( 60)10
- ↑
۔ قرطبی ،اندلسی،محمد بن احمد (م671ھ)،الجامع لا حکام القرآن 1066/18، دار الشعب القاہرۃ،مصر، ابو حفص مرین علی الخیلی ، اللباب فی علوم الکتاب ،283/12، ابن جزی(693ھ-741ھ) ، محمد بن احمد،التسھیل لعلوم التنزیل ، مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۳/ ۱۶۶
- ↑
زمحشتری،محمود بن عمر (1075ھ-1143ھ)، الکشاف عن حقائق التنزیل و عیون الاقاویل فی وجوہ التاویل،،دار الکتب العربیہ،بیروت،2000، ۴/ ۵۱۶
- ↑
الطلاق (65)1
- ↑
۔۔ الزحیلی ،،وہبہ بن مصطفی، التفسیر المنیر فی العقیدۃ والشریعۃ والمنھج،275/28،دار الفکر المعاصر،دمشق،الطبعۃ الثانیۃ،1418ھ، قرطبی ،الجامع لا حکام القرآن ، 154/18، النسفی ، تفسر التسفی ،۴/ ۲۵۴
- ↑
۔ ابن علیش ، فتاوی ابن علیش ، باب ،مسائل العدۃ ، والا ستبراء ، مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۲/ ۱۳
- ↑
۔ ابن ماجہ،ابو عبد اللہ محمد بن یزید قزوینی (824ء -887ء)، السنن ، باب ھل تخرج المراۃ فی عدلتھا ، مطبعۃ عبداللہ ہاشم یمانی،مدینہ منورہ، ۱/ ۶۵۶مسلم بن حجاج (206ھ-261ھ)،الجامع الصیحیح ، باب جواز خروج المعتدۃ البائن،دار الکتب العربیہ،بیروت،۲/ ۱۱۲
- ↑
۔ شیبانی،محمد بن حسن(م189ھ) ، الجامع ،الصغیر ، باب فی الرجعۃ 228/1،مطبعۃ عبداللہ ہاشم یمانی،مدینہ منورۃ ، مرغینائی ،برہان الدین ،علی بن ابی بکر(م593ھ)،لعنایۃ شرح الھدایۃ ، باب الفاظ الرجعۃ، 421/5 )،مکتبہ رحمانیہ ،لاہور۔
- ↑
۔ الطلاق (65)1
- ↑
عبدالرحمن بن القماس ، الحادی فی تصنیف القرآن ،16/770، المکتب الاسلامی ،بیروت ،1980ء،سرخسی ،ابو بکر محمد بن احمدبن ابی سہل،(م490ھ)، المبسوط ، باب النفقۃ فی الطلاق ، ۴/ ۹۷, مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت۔
- ↑
الز حیلی ، وہبہ ، التسفیر المنیر ، ۲۸/ ۲۷۶، قرطبی،الجامع الا حکام القرآن ، ۱۸/ ۱۵۵
- ↑
۔ البقرہ (2)235
- ↑
۔ البقرہ (2)235
- ↑
(ابن کثیر ، ابو الفداء،عماد الدین،محمد بن اسماعیل(1301ھ-1373ھ)،تفسیر القرآن العظیم 348/ 1
- ↑
۔ عسقلانی ، بن حجر ،احمد بن علی،(773ھ-852ءھ)فتح الباری شرح بخاری، 180/9، ادارہ اسلامیات ،کراچی ، کا سانی ،علاو الدین ابو بکر بن مسعود(م587ھ)، بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع، باب ،ایچ ایم سعید کمپنی،کراچی،الطبعۃ الاولی،1910ء، ۳/ ۲۰۴
- ↑
۔ ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم ، ۱/ ۳۴۸
- ↑
مالک بن انس ، المدونۃ ، با ب الطلاق ، ابوعلی عمر بن قداح الھواری ، المسائل الفقیہۃ باب سائل النکاح ،ادارہ اسلامیات،لاہور، ۱/ ۲۴
- ↑
۔ ابن کثیر،تفسیر القران العظیم،۱/ ۳۴۸
- ↑
۔ ابوبکر کاسانی ، البدائع الصنائع، کتا ب الطلاق، ۳/ ۲۰۴، ۲۲۰
- ↑
۔البقرہ (۲، ۲۳۳
- ↑
۔ ماوردی،ابو الحسن ،علی بن محمد بن حبیب (364ھ-450ھ)النکت والعیون، 250/1 ، وزارۃ الاوقاف شوون لاسلامیہ،قرطبی ،الجامع الاحکام القرآن 320/1، سیوطی، جلال الدین ،ابو الفضل،عبد الرحمن بن ابی بکر(م911ھ)الدرالمشور مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت،۱/۳۰۱
- ↑
۔ ابن حجر ، فتح الباری۹/ ۵۰۵
- ↑
۔ البقرہ (2)23 2
- ↑
۔ الطلاق (65)۶
- ↑
۔ الطلاق (65)۶
- ↑
۔ ماوردی ، النکت والعبون ،۱/ ۲۵۲، کاسانی ، بدائع الصنائع ، باب الرضاعۃ ۳/ ۴۰۳، مالک المدونہ ، باب الرضاعۃ ۶/ ۳۵
- ↑
ماوردی ، النکت والعبون ۱/ ۲۵۲
- ↑
۔ زمخشری، الکشاف ۴/ ۵۵۹
- ↑
۔ البقرہ (2)222
- ↑
ماوردی ،النکت والعیون،۱؍۲۳۵،ابن حجر،فتح الباری،۱؍۳۹۹
- ↑
۔ بخاری،ابو عبداللہ محمد بن اسماعیل(194ھ-256ھ)،الجامع الصیحیح المسند المختصر من امور رسول اللہ ﷺ و سننہ ایامہ ، باب قراء ۃ الرجل فی حجرا مرات، کارخانہ تجارت کتب،دہلی،۱۹۳۱، ۱/ ۶۷
- ↑
۔ ابن ماجہ ، باب ماجاء فی دم الحیض ،206/1، ابی دائو د ، سنن ، باب المراۃ تفسل بھا ۱/ ۴۹
- ↑
۔ قرطبی،الجامع لاحکام القرآن،۱/ ۲۵۰
- ↑
۔ ابن کثیر،تفسیرالقرآن العظیم، ۱/ ۱۲۱، پیر کرم شاہ ، ضیاء القرآن ، ۱/ ۱۵۳
- ↑
۔ احمد بن حنبل(164ھ-241ھ)،مسند احمد،باب مسند ابی ھریرۃؓ،،بیروت، ۱۶/ ۱۴۲
- ↑
۔ قرطبی،الجامع الاحکام القرآن ، ۳/ ۳۶۲
- ↑
۔ ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم، ۱/ ۳۲۳
- ↑ (https:llislamqa.info/en/43028" Time: 10:00Am Dated 21-10-2016)
- ↑
۔ النساء (4)22
- ↑
۔ سید طنطاوی ، الوسیط، ۲/ ۹۰۲
- ↑
۔ جصاص،ابو بکر،احمد بن علی الرازی،(305ھ-370ھ)،الاحکام القرآن،،دار احیاء التر ث العربی،بیروت ،1972ء ۳/ ۳۰۵، ۳۰۷۔کاسانی،بدائع الصنائع،فصل لا یقع نکاح المرء اۃالتی یتزوجھا،۲؍۲۶۲،مالک بن انس، المدونۃ،کتاب النکاح الثالث ، مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۶/ ۲۶
- ↑
جصاص،الاحکام القرآن،۳؍۳۰۵۔۳۰۷،
- ↑
۔ ابن قدامہ ،عبداللہ(م620ھ)، ا لمغنی،المکتب الاسلامی،الطبعۃ الخامسۃ،بیروت،لبنان،1998ء۱۰/ ۱۴۸
- ↑
۔ الاحزاب:۳۳:۳۳
- ↑
۔ محمد شفیع بن یسین(م1971ء)، معارف القرآن ،،تاج کمپنی،کراچی،۲۰۰۷ء، ۳۳
- ↑
۔ اصفہانی ،ابو القاسم ،حسین بن مفضل ،راغب(م502ھ)مفردات القرآن فی غریب القرآن ،,موسسہ تحقیقات و نشر معارف اھل البیت، ۱/ ۸۱، ۸۲
- ↑
۔،البروج (85)1
- ↑
۔ سیوطی الدرا لمنثور ۶/ ۶۰۱، ۶۰۲، قرطبی ،ا الجامع لاحکام القرآن ،۷/ ۱۹۷، ۱۹۰، زمخشری ، الکشاف ، ۳/ ۵۳۴
- ↑
۔ محمدشفیع،معارف القرآن، 122:6
- ↑
۔ ترمذی ،ابو عیسی ،محمد بن عیسی(م179ھ)،الجامع،ایم ایم سعید کمپنی اینڈ سنز،کراچی، ۷/ ۴۶۷
- ↑
۔ قرطبی الجامع لا حکام القرآن 9/334
- ↑
۔ االا حزاب (33)59
- ↑
۔النساء(4)32
- ↑
۔ النساء (4)۳۴
- ↑
۔ رازی،ابو عبد اللہ،محمد بن عمر(544ھ-606ھ)،مفاتیح الغیب ، 122/ 2،آداب منزل،کراچی،1980ء۔
- ↑
۔ قرطبی،الجامع لا حکام القرآن ۴/ ۱۲۲، محمد شفیع ، معارف القرآن ، ۲/ ۳۹۶
- ↑
۔النساء (4)۳۴
- ↑
۔ ابو حیان ، الجرالمحیط ، مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۲/ ۲۳۱
- ↑
۔ محمد شفیع ، معارف القرآن ۲/ ۳۹۷
- ↑
۔،النساء (19:4
- ↑
۔ ابن کثیر ؒ،تفسیر القرآن العظیم، ۱؍۵۷۱
- ↑
۔ البقرۃ:۲۳۲:2
- ↑
۔ قرطبی ،الجامع لاحکا م القرآن، ۱۳/ ۹۵، ۹۶
- ↑
۔ ابو بکر جصاصؒ،الاحکام القرآن، ۳/ ۲۷۵، ۲۷۶
- ↑
۔ ابو بکر جصاصؒ،الاحکام القرآن، ۳/ ۲۷۷
- ↑
۔،البقرۃ(2)187
- ↑
ماوردی ، النکت والعبون ،۱/ ۲۵۲
- ↑
۔ ابو بکر جصاص،الاحکام القرآن،۱/ ۵۷۲
- ↑
۔ ابن عابدین شامی،محمد امین بن عمر(م1252ء)،ر دالمختار،المکتبۃ الماجدیۃ،کوئٹہ،طبعۃ،1399ھ، ۱/ ۵۸۸
- ↑
۔ النساء (4)3
- ↑
۔ ابن ابی حاتم،تفسیر ابن ابی حاتم،الرقم الحدیث47450))، مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۳/ ۵۸۷
- ↑
۔ النسا (4)129
- ↑
۔ محمد شفیع،معارف القرآن۲۱/ ۳۳۵
- ↑
۔ البقرۃ (2)۲۳۱
- ↑
۔ قرطبی،الجامع الاحکام القرآن، ۱/ ۱۵۷
- ↑
۔ البقرۃ(2)۲۳۱
- ↑
الاسراء (17)23.
- ↑
ادارہ تالیفات اشرفیہ،ملتان،1938ء، ۵/ ۸۶. بغوی،ابو محمد حسین بن مسعود(م516ھ)،معالم التنزیل،
- ↑
مکتبہ علوم الدینیہ،بیروت، ۳/ ۲۶. طنطاوی،الوسیط،
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Volume 1 Issue 2 | 2017 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |