2
2
2018
1682060040263_1161
34-62
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/96/76
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/96
لفظِ معاشرہ افراد کے مجموعے پر دلالت کرتا ہے ۔ علمائے معاشرت نے انسان کو معاشرتی اور اصحابِ معیشت نے اس کو معاشی حیوان قراردیا ہے ۔ افراد معاشرہ میں لونی، نسلی، وطنی وقومی اور طبائع کا تنوع ہونا ایک امر بدیہی ہے ۔ لیکن یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ انہی کی بنیاد پر انسان نے معاشرے کو انتشار و فساد کی آماجگاہ بنادیا ہے اور یہ تنوع جو تعارف کا ذریعہ تھا وہ تعارض و ارھاب کا باعث بن گیا۔ آج جب اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک چھوٹے سےمحلے کی سطح سے لے کر عالمی سطح تک یہی عصبیتیں نظر آتی ہیں جن کو بنیاد بنا کر متحد بھی ہوا جاتا ہے اور دوسروں پرظلم بھی روا رکھا جا تاہے ۔ زمین میں انتشار وفساد بھی پھیلایا جاتا ہے ۔ اور خونریزی بھی کی جاتی ہے ، حتی کہ اسکی بنیادپر ایک دوسرے کا خون بہانے کو اپنے لئے جائز سمجھ لیا جاتا ہے ۔
پتہ چلتا ہے کہ فساد وانتشار ، جنگ وجدال کا بازار گرم تھا۔ لیکن آپ ﷺ نے تئیس سال کے قلیل عرصہ میں ایک ایسا پر امن معاشرہ قائم کیا کہ جس کے ثمرات سے چاردانگ عالم فیض یاب ہوا۔ اس جہان میں ہر طرح کی عصبیت کا خاتمہ ہوا، برتری کے سابقہ معیارات بدل گئے، تزکیہ نفس وتطہیر باطنی کے ذریعے لوگوں کو اصلاح اخلاق کی تعلیم دی۔ ایذاء رسانیوں اورپرتشدد کاروائیوں کے جواب میں پر امن طریقہ اختیار کیا، جہاں خون ریزی کا بدلہ لیا بھی جاسکتا تھا وہاں بھی عفو عام کیا، تدریج اور موعظہ حسنہ اور جدال احسن کامثبت انداز اختیار کیا۔ غرضیکہ یہ آپ ﷺ کی حکمت بالغہ ہی تھی کہ جس کے نتیجے میں سرزمینِ عرب کہ جہاں حرمت والے مہینوں کے علاوہ اکثر کشت وخون کا بازار گرم رہتا تھا اسے بلد امین بنا دیا۔ جس میں ہر طرح کی نسل و قوم کے لوگ آباد تھے انہیں ا یسے رشتہ اخوت میں منسلک کردیا کہ خونی رشتے داری بھی کہیں پیچھے رہ گئی،آج پوری دنیا کو بالعموم اور امت مسلمہ کو بالخصوص یہ چیلنج درپیش ہے کہ ہم بہت سی لسانی، قومی، وطنی، جغرافیائی عصبیتوں کا شکار ہوچکے ہیں ۔ جبکہ یہود ونصاریٰ اور ہنود کی تثلیث اہل اسلام کے خلاف اپنے مکمل اتحاد اور منظم منصوبہ بندی کے ساتھ اہداف ومقاصد حاصل کرتی جارہی ہے۔ ایسے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ فساد وانتشار کے خاتمے کے لئے نبی کریم ﷺمنہج کو اپنائیں اس اسوہ حسنہ سے بڑھ کر ہمارے لئے کو ئی راہ نجات ہو نہیں سکتی اور امت مسلمہ کی زخم خوردہ حالت کا تریاق اسی کیمیا میں ہے ۔ اس مقالہ میں ایسے معاملاتِ زندگی کا احاطہ کیاگیا ہے جن میں کمی بیشی معاشرتی انتشار اور تذبذب کا باعث بنتی ہے اور ان اسباب کے تدارک کے لئے نبوی طرزِ معاش کا جائزہ لیا گیا ہے جس کی اتباع معاشرہ کو نہ صرف امن وآتشی کا مظہر بنا دے گی بلکہ معاشرتی استحکام اور ترقی کا ذریعہ بھی بن جائے گا۔
یہ موضوع معاشرتی فسادوانتشار کے تدارک سے متعلق ہے اس لئے سب سے پہلےمعاشرہ،فساد اور انتشار کے الفاظ کا فہم ضروری ہے جو کہ درج ذیل ہے۔
معاشرہ کا مفہوم:
معاشرہ معشر سے ماخوذ ہے جس کا لغوی معنی جماعت،قوم یا گروہ ہے[1]۔ جب اصطلاحی اعتبار دیکھا جائے تو معاشرے کا معنی یوں سامنے آتا ہے:
"المعاشرجماعات الناس والمعشر الجن والانس وفی التنزیل: یا معشر الجن والانس"
"معاشرے کا معنی لوگوں کی جماعت ہے اور یہ جن وانس دونوں کو شامل ہےقرآن پاک میں اس حوالے سے ہے :اے گروہِ جن وانس"
انگریزی میں اس کے لئے Societyکا لفظ استعمال ہوتا جس کا معنی یوں بیان کیا گیاہے:
“A large group of people who live together in an organized way, making decisions about how to do things and sharing that needs to be done all people in a country or in a several countries can be refereed to as society.[2]
"ایسے لوگوں کا ایک بڑا گروہ جو منظم طریقے سے اکٹھے رہتے ہیں ،یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ چیزوں کو کس طرح کیا جائے اور اس بارے آپس میں مشاورت کرتے ہیں کہ ان کو کس طرح ہونا چاہئے۔ اس طرح کے تمام لوگ جو کسی ایک ملک میں ہوں یاکئی ممالک میں ہوں سب کو معاشرہ کہا جائے گا"
ان تعریفات سے واضح ہوا کہ معاشرہ افراد کا ایسا مجموعہ ہے جو مشترکہ مفادات کے لئے ایک دوسرے سے تعاون کی خاطر اکٹھا ہوتا ہے اور ان کے معاملات آپس کے باہمی فیصلہ سے ایک ہی طرز پر طے پاتے ہیں۔اس اعتبار سے ان کے افکار،عادات اور اقدار میں اشتراک پایا جاتا ہے۔
فسادکامفہوم :۔فساد کا مادہ ف۔س۔د ہے اور لغوی اعتبار سے فَسَدَ،یفسِدکضرب،یضرِب و فسد ،یفسد کنصر،ینصر فسد وفساد ا وفسودا فھو فاسد ضد صلح و تفاسد القوم ای تدابروا وقطعوا الارحام ووالاستفساد خلاف الاستصلاح[3]
فسد،یفسِد باب ضرب،یضرب اورفسد،یفسد باب نصر ینصر سے ہےجو اصلاح کی ضد ہے اور قوم نے فساد کیا یعنی جھگڑا کیا اوررشتہ داروں سے قطع تعلقی کی اور استفسدا استصلاح کی ضد ہے
یعنی لغوی اعتبار سے فساد کا مطلب ایک تو مصالحت کا خاتمہ اور امن وسلامتی والے امور کو ختم کرکے معاشرے میں قطع تعلقی اور لڑائی جھگڑے کو فروغ دینا ہے۔
جبکہ اصطلاحی اعتبار سے کسی چیز کے حد اعتدال سے گزر جانے کو فساد کہتے ہیں یہ صلاح کی ضد ہے اور نفس بدن اور ہر اس چیز میں استعمال ہوتا ہے جو اصلاح یعنی حالت استقامت سے نکل چکی ہو[4] جیسے قرآن میں ارشاد ہے :
وَاللَّهُ يَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ لْمُصْلِحِ[5]
اور اللہ اصلاح کرنے والے اور فساد کرنے والے کو جانتا ہے
اسی طرح فرمانِ باری تعالیٰ ہے:
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ[6]
’'جب ان سے کہا جائے زمین میں فساد نہ کرو وہ کہتے ہیں بیشک ہم اتو اصلاح کرنے والے ہیں"
الغرض معاشرتی حالت کو بگاڑنے،بربادی کو فروغ دینے اور قطع تعلقی والے امور کی اشاعت اور ان کے اثرات کے پھیلاؤ کی کوشش فساد کہلائے گی۔
انتشارکامفہوم:لفظ فساد کی وضاحت کرتے ہوئے نبیﷺ نے فرمایا: عن ابی دارداء قال قال رسول اللہ ﷺ الا اخبرکم بافضل من درجۃ الصیام والصلاۃ والصدقۃ،اصلاح ذات البین ،فان فساد البین ھی الحالقۃ[7]
ابو درداء سے روایت ہے نبی ﷺ نے فرمایاکیا میں تمہیں روزہ ،نماز ،زکوۃ سے درجہ میں افضل چیز نہ بتاؤں؟وہ صلح کروانا ہے دو کے درمیان،بیشک فساد مونڈھ دینے والاہے
اسی طرح کی ایک اور روایت ہے: عن عبد اللہ بن عمر یقول کنا قعود ا عند رسول اللہ ﷺ فذکر الفتن ،فاکثر فی ذکرھا حتی ذکر منہ فتنۃ الاحلاس،فقال قائل یا رسولاللہ ﷺ ما فتنۃ الاحلا س قالﷺھی حرب و حرب[8]
عبد اللہ بن عمر فرماتے ہیں ہم نبیﷺ کے اردگرد بیٹھے ہوئے تھے پس آپﷺ نے فتنوںکا بہت زیادہ ذکر کیا،یہاں تک کہ فتنہ احلاس کا ذکر کیا تو پوچھنے والے نے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ یہ فتنہ احلاس کیا ہے ارشاد فرمایاوہ افراتفری،فساد انگیزی، اور قتل وغارت ہے"
ان روایات کے مطابق فتنہ انگیزی،افراتفری کا پھیلاؤاور قتل وغارت گری کا نام فساد ہے اور آیات و احادیث کی روشنی میں فساد فی الارض کی مندرجہ ذیل صورتیں سامنے آتی ہیں ۔
1۔داخلی فساد /انتشار
2۔خارجی فساد/انتشار
داخلی فساد/انتشار:۔ لفظ داخلی دا خل سے مشتق ہے لغت میں جس سے مراد اندر جانے والا،گھسنے والا،شامل ملحق اور اصطلاح میں اس سے مراد وہ فساد و انتشار ہے جو کسی ملک کے اندر موجود عناصر واسباب کیوجہ سے پیدا ہو۔[9]
داخلی فساد /انتشار کی صورتیں:
اسکی درج ذیل اہم صورتیں ہیں۔
1۔فرقہ واریت اور عصبیت کا فساد/انتشار
2۔حدود اللہ سے انحراف کا فساد/انتشار
3۔عائلی فساد/انتشار
4۔خارجی نظریات کا فساد/انتشار
4۔اسلامی حکومت کیخلاف بغاوت کا فساد /انتشار
ذیل میں ان اہم صورتوں پر غور کیا جاتا ہے۔
1۔فرقہ واریت و عصبیت کا فساد/انتشار:۔ فرق فرقہ کی جدید اصطلاح ہے عبد القاہر بغدادی نے اس کا استعمال اسطرح کیا ہے:الفِرَق الاھواء الضالۃ[10] فرق سے مراد گمراہ فرقے ہیں
جبکہ عصبیت سے مراد رشتہ داری ،طرفداری،قوت،تعصب ہے[11]
قرآن مجید میں ارشاد ہے:
وَلاَ تَكُونُواْ كَالَّذِینَ تَفَرَّقُواْ وَاخْتَلَفُواْ مِن بَعْدِ مَا جَاءهُمُ الْبَیِّنَاتُ وَأُوْلَـئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیمٌ[12]
"اور تم ان لوگو ںکی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے روشن نشانیاں آ جانے کے بعد تفرقہ اور اختلاف کیا اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے"
نبی ﷺ کارشاد ہے :ستفترق امتی علی سبع و ثلاثون فرقۃ کلھم فی النار الا واحدہ قالوا من ھو یا رسول اللہ ﷺ قال ما انا علی واصحابی(دارمی،ابو محمد عبد اللہ بن عبد الرحمن بن فضل،السنن،باب فی افتراق فی ھذہ الامۃ [13]عنقریب میری امت میں تہتر فرقے ہو نگے وہ سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے پوچھا گیا یارسول اللہ ﷺ وہ ایک کون سا ہے ؟ فرمایا جس پر میں اور میرے اصحاب ہیں
اسی طرح حضرت واثلہ بن اسقع کی روایت ہے: قلت یا رسول اللہ ﷺ ما العصبیۃ ؟قالﷺ ان تعین قومک علی الظلم[14] میں نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ عصبیت کیا ہے فرمایا تو اپنی قوم کی ظلم پر مدد کرے
اسلام مظلوم کی مدد کا قائل ہے تاکہ اس پر ہونے والے ظلم کا ازالہ کیا جاسکے جبکہ ظالم کی مدد اس کو ظلم سے باز رکھنے کے لئے ہے اور اگر قوم یا برادری کی بناء پر ظالم کی اس کے ظلم میں معاونت کی جائے گی تو عصبیت کہلائے گا جو کہ اسلام میں ناجائز اور امرِ قبیح ہے۔
فرقہ واریت و عصبیت کے فسادو انتشار کی وجوہات:
اسکی اہم وجوہا ت درج ذیل ہیں :
مذہبی ،لونی،نسلی،وطنی،قومی تعصب:۔ رنگ و نسل ،ذات وقبیلہ کیوجہ سے تفا خر قبل از اسلام بھی پایا جاتا تھا اور بعد از اسلام میں بھی اکثر اس کی چیدہ چیدہ مثالیں نظر آتی ہیں جیسے عرب ممالک میں فتنہ عربی غیر عربی نے امت مسلمہ کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا ،پاکستان میں سندھ کی بد امنی کی ایک وجہ قومیت،لسانیت عصبیت ہے ،بلوچستان کی ترقی کی راہ میں قبائلی تعصب حائل ہے جبکہ نبی ﷺ کافرمان ہے۔
یا ایھا الناس الا ان ربکم واحد و ان اباکم واحد الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لاحمر علی الاسود ولا لا سود علی الاحمر الا با لتقوی الاکلکم من ادم و ادم من ترب[15]
اے لوگوں سنو تم سب کا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہی ہے سن لو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر ،کسی گورے کو کالے پرکوئی فضیلت نہیں سوائے تقوی کے سن لو تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے تھے
اس روایت میں ہر طرح کے تعصب اور اس کی بنیادوں کے خاتمہ کا اعلان کیا گیا ہے جو کہ معاشرتی فساد کا سبب بنتا ہے۔
سیاسی مفاد :۔ سیاسی مفاد کے لیے بھی عصبیت کو ہوا دی جاتی ہے جیسے اموی سلطنت کے خاتمے کے لیے ابومسلم خراسانی نے عربی غیر عربی،ہاشمی غیر ہاشمی عصبیت کو ہوا دیتے ہوئے اموی سلطنت کے لیے مشکلات پیدا کیں۔
فرقہ واریت وعصبیت کے تدارک کا نبوی منہج:۔ذیل میں سیرت طیبہ کی روشنی میں فرقہ واریت اور عصبیت کے تدارک سے متعلق اہم نکات بیان کیے جا رہے ہیں
تمسک بالقرآن والسنۃ:۔
عن زید بن ارقم قال قال رسول اللہ ؤ انی لکم فرط وانکم واردون علی الحوض ،فانظر وا کیف تخلفونی فی الثقلین ،قیل وما الثقلان یا رسول اللہ ﷺ؟قال الاکبر کتاب اللہ عزوجل سبب طرفہ بید اللہ و طرفہ بایدکم فتمسکوا بہ لن تزالوا و لن تضلوا والاصغر عترتی وانھما لن یتفرقا حتی یردا علی الحوض ،وسالت لھما ذلک ربی فلا تقدموھما لتھلکما ،ولا تعلموھا فانھا اعلم منکم[16]
زید بن ارقم فرماتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا بیشک تم حوض پر ملنے والے ہو پس دیکھو تم کس طرح میری نیابت کرتے ہو دو وزنی چیزوں میں ،پوچھا گیا یا رسول اللہ ﷺ یہ وزنی چیزیں کیا ہیں؟ فرمایا اکبر قرآن پاک ہے جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا سرا تمہارے ہاتھ میں ہے پس تم اسے مضبوطی سے تھامے رکھو ہر گز گمراہ نہ ہو گے اور اصغر میری عترت(سنت) ہے۔وہ دونوں ہر گز جدا نہ ہو نگے یہاں تک کہ لوٹائے جائیں حوض پر ،میں نے اپنے رب سے ان دونوں کے بارے میں سوال کیا ہے ،پس نہ تم ان سے آگے بڑھنا کہ انہیں ہلاک کردو اور نہ ان کو جاننے کی کوشش کرو بیشک وہ زیادہ جانتا ہے تم سے
قرآن میں ارشاد ہے :
وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا[17]
اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھا م لو اور باہم تفرقہ نہ کرو"
امام سیوطی فرماتے ہیں ۔کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض[18] اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین کی طرف لٹکائی گئی ہے
اس اعتبار سے کتاب وسنت کی تعلیمات سے تمسک ہی دراصل معاشرتی فساد کے خاتمہ کا ذریعہ بنے گا ورنہ جاہلیت کا تعصب اس امت کی بربادی کا ہی ذریعہ بنیں گے۔
اتحاد:۔ عن ابن عمران قال قال رسول اللہ ﷺ من خرج بجماعۃ قید شبر فقد خلع ربغۃ الاسلام عن عنقہ حتی یراجعہ و من مات ولیس علیہ اما م الجماعۃ فان موتتہ میتۃ الجاہلیۃ[19]ابن عمرا روایت کرتے ہیں نبیﷺ نے فرمایا جو کوئی جماعت سے ایک بالشت بھی نکل گیا تحقیق اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے اتار دی اور جو کوئی ایسے مرا کہ جماعت کیساتھ نہ ہو پس بیشک اس کی موت جاہلیت والی ہے
حدود اللہ سے انحراف کا فسادوانتشار:۔
اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اسکے متعارف کروائے گئے حدود قیود کے نفا ذ میں ہی انسانیت کا تحفظ ہے لیکن موجودہ دور ماڈرن ازم اور یہود و نصاری کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے بیشتر مسلم ممالک میں اس کا نفاذ ایسے انداز میں نہیں کیا جاتا جس کا اللہ تبارک و تعالی نے حکم دیا ہے جس سے انحراف کے نتائج فتنہ و فساد،مذہبی بے راہ روی،جرائم کی کثرت،غیر منصفانہ معاشرے کے وجود کی صورت میں رونما ہوچکے ہیں ۔ذیل میں حدود اللہ سے پیدا ہونے والے فسادو انتشار کاحل سیرت طیبہ کی روشنی میں بیان کیا جارہا ہے۔
حدود حد کی جمع اور الحد مصدر ہے جس سے مراددو چیزوں کے درمیان روک،چیز کی انتہاء،تلوار کی حد ہے۔ اس حوالے سے امام راغب اصفہانی حد کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:الحد حاجز بین الشیئین الذی یمنع اختلط احد ھما مع الاخر[20] حد وہ رکاوٹ ہے جو دو چیزوں کو باہم ملنے سے روکتی ہے اور اصطلاح میں الحدود زواجر وضعھااللہ تعالی الردع عن ارتکاب ما خطر و ترک ما امر[21] حدود وہ ڈانٹ ہے جسے اللہ تعالی نےخطرات اور جس سے اللہ تعالی نے روکا ہے رکنے کا حکم دیا ہو وضع کیا ہے اور فقہاء کے نزدیک عقوبۃمقدرۃتجب حقا للہ تعالی [22]وہ سزا جو اللہ تعالی کے حق کی حیثیت سے واجب ہو
جبکہ قرآن میں ارشاد ہے ۔وَمَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ وَیَتَعَدَّ حُدُوْدَہٗ، یُدْخِلْہُ نَارًا، خَالِدًا فِیْھَا، وَلَہٗ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ[23]
اور جس نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کی اور اسکی حدود سے تجاوز کیا وہ آگ میں داخل ہو گا جسمیں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت والا عذاب ہے
اما م ابو حنیفہ نے قابل حد جرائم سرقہ،حرابہ،قذف،خمر، زنا بیان کیے ہیں جبکہ اما م شافعی اس میں ارتداد اور بغاوت کا اضافہ کرتے ہیں[24]
ان حقائق کو سامنے رکھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ حدود ،شریعت کی پاسداری بقائے امن کی ضمانت اور ان سے بے اعتنائی معاشرتی فسادوزوال کا ذریعہ ہے۔ اس لئے نفاذِ حدود ہی معاشرتی امن کی ضمانت ہے۔ ذیل میں حدود کے ذریعے معاشرتی فساد کے ازالہ کے نبوی منہج کو دیکھا جاتا ہے۔
تدارک کا نبوی منہج:۔ سیرت طیبہ کی روشنی میں حدود اللہ کے نفاذ میں پنہاں حکمت و مقاصد درج ذیل ہیں۔
نفاذ حدود میں غیر جانبداری:۔ نفاذ حدود میں مکمل طور پر غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا جائے گا جیسے فاطمہ مخزومیہ کے لیے حضرت اسامہ نے سفارش کی تو آپ نے غضبناک ہو کر فرمایا:
اس میں رشتے ناطے اور تعق داری کوئی حیثیت نہیں رکھتے بلکہ اصل لحاظ قانونِ شریعت کا ہونا چاہئے جیسے عملی طور پر آپ ﷺ نے کرکے دکھایا۔
نفاذ حدود میں رحم نہ کرنا:۔ امن عامہ کے لیے ضروری ہے کہ مجرم کو اس کے جرم کے بقدر سزا دی جائے اور یہ انفرادیت اسلامی نظام حدود کو ہی حا صل ہے کہ حد کے نفاذ میں کسی طرح بھی نرمی کی اجازت نہیں دیتا تاکہ مجرم کی دیکھا دیکھی کچھ اور لوگ بھی اس کا ارتکاب نہ کرنے لگ جائیں۔
نفاذ حد حاکم وقت کی ذمہ داری:۔ جب حاکم وقت کے پاس جرم سے متعلق خبر دی جائے تو اس پر واجب ہے کہ وہ حد نافذ کروائے جیسے صحیح بخاری میں ہےصفوان بن امیہ سوئے ہوئے تھے چور آیا اور انکی چادر لیکر بھا گا انہوں نے لپک کر چور کو پکڑا اور دربار رسالت میں پیش کر دیا نبیﷺ نے قطع ید کا حکم دے دیا تو صفوان نے جلدی سے کہا کیا میری چادر کی وجہ سے اس کا ہاتھ کا ٹ دیا جائے گا نبی ﷺ نے فرما یا جی ہا ں صفوان نے کہا میں نے اسے اللہ کی رضا کے لیے ہبہ کیا نبیﷺ نے فرمایا:
الا کان ذلک قبل ان تنتہی بہ الی[26]"سنو یہ کام تمہیں اسے میرے پاس لانے سے پہلے کرنا تھا
نفاذ حد مجمع عام میں کرنا:۔ نفاذ حدود کے لیے لازم ہے کہ لو گوں کے ایک بڑے مجمع کے سامنے کی جائے تا کہ لو گ عبرت حاصل کر سکیں اور اس کا یقینی طور پر اثر بھی ہوتا ہے کہ لوگ اس انجام کو دیکھ کر ارتکابِ جرم سے اپنے آپ کو بچاتے ہیں جس سے معاشرہ پرامن رہتا ہے۔
اسلام کا مشفقانہ نظام سزا:۔یہ اسلامی نظام سزا ہی کی امتیازی خوبی ہے جو سزا وار اور گناہگار صرف مجرم کو ہی قرار دیتی ہے اس گناہ کے سبب پیدا ہونے والے نو مولود کو نہیں جیسے صحیح بخاری میں ہے کہ قبیلہ جہینہ کی ایک عورت نے آ کر عرض کی یارسول اللہ میں نے زنا کیا ہے مجھے پاک کریں جیسے ماعز اسلمی کو کیا گیا ۔آپﷺ نے پو چھا کیا تو حاملہ ہے اس نے عرض کی جی تو آپ ﷺفرمایا:ارجعی حتی تلدی فلما ولدت جاءت بالصبی تحملہ فی خرقۃ فقالت یا نبی اللہ ھذا قد ولدت فقا ل اذھبی فارضعیہ ثم افطمیہ فلما فطمتہ جاء تہ با لصبی فدفع الی رجل من المسلمین وامر بھا[27]
تو لوٹ جا اور اس کو جنم دے پھر جب اس نے جنم دے لیا تو بچہ لے کر آئی اپنے چوغے میں اٹھا کر عرض کی یا نبی اللہ تحقیق میں نے جن لیا ہے آپﷺ نے فرمایا تو جا اور اسے دودھ پلا پھر مدت رضعت کے بعد وہ بچہ لیکر آئی پس نبیﷺ نے بچہ کسی مسلمان کی کفالت میں دے دیا اور اس کے لیے (رجم کا )حکم دیا
اس سے واضح ہوتا ہے کہ جہاں اسلامی حدود میں معاشرے کے لئے عبرت ہے وہیں مجرم کے لئے شفقت کا پہلو بھی ہے کہ اس میں اس کو ہر طرح سہولت مہیا کی جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کو آخرت کے دائمی عذاب سے بچا لیا جائے۔
عائلی فساد وانتشار:۔ اللہ تعالی نے تخلیق آدم کیساتھ ہی حضرت حواؑ کی تخلیق سے خاندانی نظام کا قیامت تک جاری رہنے والا سلسلہ شروع کیا اور زوجین کو خاندانی نظام کی بنیادی اکائی قرار دیا کیونکہ خاندان وہ گہوارہ ہے جو مستقبل کے معماروں کی پرورش کرتا ہے لیکن دور جدید میں لبرل ازم اور سیکولرزم کی تحریکیں اس بنیادی اکائی کے لیے ناسور ثابت ہو رہی ہیں ،صبر ، برداشت، صلہ رحمی،عفو و درگزر جیسی نایاب اسلامی اقدار دن بدن ختم ہوتی جا رہی ہیں ،اولاد کی نا فرمانی کو بولڈنیس اور عورت کی سرکشی کو آزادی نسواں کے نعرے سے تقویت دی گئی ،مہمان نوازی،صلہ رحمی سے مہنگائی کے سبب چشم پوشی کا عذر تراشہ گیا جس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ اسلامی خاندانی نظام نہ صرف توڑ پھوڑ کا شکار ہوا بلکہ اس نظام کی انفرادیت و کشش بھی چندھیا نے لگی لہذا 2017 کے اعداد شمار کے مطابق صرف پاکستان میں ہی شرح طلاق میں ٪30 اضافہ،خاندانی قتل تنازعات میں ٪10 اضافہ،اور اولا د کے قتل و تجارت کے بھی ان گنت واقعات دیکھنے کو ملے [28]جس کی بنیادی و جہ دین سے دوری اور سیرت طیبہ ﷺ سے عدم آگا ہی ہے ذیل میں سیرت طیبہ کی روشنی میں خاندانی نظام کی فساد و انتشار کے تدارک کے لیے اہم نکات پیش کیے جا رہے ہیں۔
مضبوط خاندانی نظام:۔ خاندانی نظام جہاں عورت کے صبروتعاون سے قائم ہوتا ہے وہیں مرد کا حسن سلوک ،برداشت اسکی بقاء کے لیے ناگزیر ہے لہذا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ایک روایت ہے جس میں مرد و زن دونوں کو فرمایا گیا:
خیر کم خیرکم لاھلہ وانا خیر لاھلی[29]
" تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ بہتر ہے اور میں اپنے اہل کیساتھ سب سے بہترین ہوں
شوہر کی اطاعت بیوی کے لیے لازم قرا دی گئی ارشاد ہوا: فاین انت منہ فانما ھو جنتک ا و نارک[30]
پس تم اس کیساتھ (شوہر کیساتھ) کیسی ہو بیشک وہ تیری جنت ہے یا دوزخ
اسی طرح حضرت ابو ہریرہ سے مروی ایک روایت میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اذ ا صلت المرأۃ خمسھا،و صامت شھرھا،و حصنت فرجھا،و اطاعت بعلھا ،دخلت من ای ابواب الجنۃشاءت[31]
"جو کوئی عورت پانچوں نمازیں پڑھے ،رمضان کے روزے رکھے،اپنی شرمگاہ کو پاک رکھے،اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے وہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے
ان تمام حقائق سے واضح ہوا کہ ایسا مضبوط خاندانی نظام جس میں ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی اور عزت واحترام کا خیال رکھا جائے ایسے نظام والا معاشرہ امن کا گہوارہ ہوگا۔
والدین کا احترام : خا ندانی نظام میں والدین کے مقام و مرتبہ بھی مسلم حیثیت رکھتا ہے لہذا اسلام میں والدین کے ادب و احترام پر زور دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا[32]
پس تم ان سے اف بھی نہ کہو اور ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ان اللہ حرم علیکم عقوق الامھات[33] بیشک اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی کو حرام قرار دیا ہے
شریعتِ اسلامیہ کے ان احکام کے ذریعے والدین کے احترام پر زور دیا گیا ہے ۔ اسی طرح اسلام میں اولڈ ہاؤس کی اہمیت کی بجائے والدین کی خدمت کو حصول جنت کا ذریعہ قرا دیتے ہوئے خاندانی نظام کو خوبصورت بنایا گیا ۔
اولاد کے حقوق:۔ عائلی زند گی کے فساد و انتشار ،قتل و غارت کی ایک وجہ اولاد کی پرورش ،حق میراث میں حق تلفی بڑی وجہ ثا بت ہو تی ہے لہذا اتقوا اللہ و اعدلوا بین اولادکم[34] اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد میں انصاف کرو اسی طرح قرآن پاک میں فرمایا گیا:وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُم[35] اولاد کو بھوک کیوجہ سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی"
ان احکام کے ذریعے شارع نے معاشرہ کی اصلاح فرمائی کہ والدین اگر اولاد کے اور اولاد والدین کے حقوق ادا کرتے رہیں گے تو کسی کی حق تلفی نہیں ہو گی اور معاشرہ امن کا گہوارہ بن جائے گا۔
قتل غیرت کی مذمت :غیرت کو بنیاد بنا کر بہن /بیٹی/بیوی کو قتل کر نا فعل جاہلیت ہے جو پاکستان میں دن بدن عائلی زندگی کے تحفظ کے لیے ناسور بنتا جا رہا ہے قندیل بلوچ،زینت (لاہور)اسماء(گوجرانوالہ)کا قتل غیرت کے نام پر ہو اجبکہ حدیث نبویﷺ ہے:ان الغیرۃ ما یحبھا اللہ ومنھا ما یبغضھا فالتی یبغضھا الغیرۃ من ریبۃ[36]
"بیشک کچھ غیرت سے اللہ راضی ہوتا ہے اور کچھ غیرت سے ناراض ہوتا ہے وہ غیرت جس سے اللہ ناراض ہوتا ہے وہ شک کی وجہ سے غیرت ہے
اسلام نے جرائم کی سزائیں متعین کی ہیں ان کا نفاذ معاشرے کو پرامن بناتا ہے اور ان کی بجائے اگر قانون کو ہاتھ میں لے کر ذرا سی بات پر غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ شروع کردیا جائے تو اس سے امن نہیں بلکہ انتشار ہی یقینی ہوگا لہذا اسلام کے دامن میں آکر جذبات پر قابو رکھ کے اسی کے احکام کی اتباع میں امن یقینی بنے گا۔
قوامیت کا تصور:۔ عائلی فسادات کی ایک وجہ عورت کا آزادی نسواں کا مطالبہ جبکہ مرد کا لفظ قوام کی آڑ میں عورت پر جبر و تشدد عورت کومقہور و مجبور کرنا ہے جبکہ قوام سے مراد نہ تو دوسرے کو غلام بنا نا ہے اور نہ ہی بے جا پابندی ہے بلکہ اس سے مراد حفاظت کرنا نگہبانی کرنا ،سہولیات پہنچانا ہے امام رازی اس کی وضا حت اس طرح فرماتے ہیں :الرِّجَالُ قَوَّامُونَ عَلَى النِّسَاء[37] مرد عورتوں پر قوام ہیںسے مراد منتظم و نگران ہےاور نبیﷺ نے بھی وصال کے وقت فرمایا،اتقوا اللہ فی النساء[38] عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور قرآن میں بھی ہے: وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ ، فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْءًا وَّ یَجْعَلَ اللّٰہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا[39] اور ان سے اچھے طریقے سےزندگی گذارو اور اگر تم ان کو ناپسند کرتے ہو تو ممکن ہے تم کسی چیز کو نا پسند کرو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت زیادہ بھلائی رکھ دے
اس طرح کے احکام کے کے ذریعے شریعتِ اسلامیہ نے عائلی زندگی کو پر امن اور خوشگوار بنانے کا معاملہ یقینی بنایا۔
قصاص کا تصور:۔ عائلی زندگی کے فساد کے تدارک کے لیے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـةٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ[40]
"اے ایمان والو ! تم پر مقتولین کے خون (ناحق) کا بدلہ لینا فرض کیا گیا ہے ‘ آزاد کے بدلہ آزاد ،غلام کے بدلہ غلام اور عورت کے بدلہ میں عورت ،سو جس (قاتل) کے لیے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ معاف کردیا گیا تو (اس کا) دستور کے مطابق مطالبہ کیا جائے اور نیکی کے ساتھ اس کی ادائیگی کی جائے یہ (حکم) تمہارے رب کی طرف سے تخفیف اور رحمت ہے ،پھر اس کے بعد جو حد سے تجاوز کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے "
اب اگر اسلام کے اس نظامِ قصاص پر عمل شروع کردیا جائے تو لوگ ایسے جرم کے انجام کو سامنے رکھتے ہوئے کسی پر اس طرح کا ظلم نہیں کریں گے کیونکہ ان کو پتہ ہوگا کہ بدلہ میں ہمیں بھی اس سزا کا سامنا کرنا ہوگا اور وہ اس جرم کے ارتکاب سے رک جائیں گے جس سے معاشرہ خوشحالی کا مظہر ہوگا۔
خارجی نظریات کا فساد/انتشار:۔ فتنہ خارجیت تاریخ اسلام کا خطرناک اور بدترین فتنہ جو اسلام کے لبادے میں اسلام اور مسلمانوں دونوں کا ہمیشہ بد ترین دشمن رہا اور ایک ناسور کی طرح مسلمانوں کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا ہے جسکی ابتداء ذو الحویصرہ تمیمی شخص سے غزوہ حنین کے بعد ہوئی صحیح بخاری حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے : بینا رسول اللہ ﷺ یقسم ذات یوم قسما اذ قا ل ذوالحویصرہ تمیمی یا رسول اللہ ﷺ اعدل فقال رسول اللہ ﷺ ویحک فمن یعدل اذ لم اعدل[41]
"ایک دن نبیﷺ ہم میں (مال غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے کہ ذوا لحویصرہ تمیمی نے کہا یارسول اللہ ﷺ انصاف فرمائیں تونبیﷺ نے فرمایا تیرے لئے بربادی ہو اگر میں انصاف نہیں کرتا تو پھر کون انصاف کرے گا
خارجیت خوارج سے ہے اور خوارج سے متعلق ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: امالخوارج فھم جمع خارجۃ ای طائفۃ وھم قوم مبتدعون سموا بذلک لخروجھم عن الدین وخروجھم عن خیار المسلمین وکان یقال لھم القراءۃ لشدۃ اجتھادھم فی التلاوۃ والعبادۃ الا انھم کانوا یتاولون القرآن علی غیر المراد منہ ویستبدون برائھم [42]
خوارج خارجہ کی جمع ہیں یعنی گروہ اور وہ بدعتی لوگ ہیں دین سے اور خیار مسلمین سے نکلنے کی وجہ سے انہیں یہ نا م دیا گیا ہے۔اور انہیں یہ لقب دیا جاتا ہے انکے تلاوت و عبادت میں شدت عمل کی وجہ سےخبردار وہ قرآن کو غیر مرادی معنی پر تاویل کرتے ہیں اور اس سے اپنی رائے کی تائید کرتے ہیں"
آج امت مسلمہ جن گھمبیر فتنو ں سے دو چار ہے ان میں سے ایک فتنہ دہشت گردی بھی ہے جو دراصل فتنہ خارجیت ہی کی ایک شکل ہے ۔تمام امت مسلمہ اور بالخصوص پاکستا ن اس کا شکار ہے ۔حضرت عبداللہ ابن عباس کی ایک روایت میں اسی فتنے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے :سیجیء فی اخر الزمان اقوام ،یکون وجوھھم وجوہ الادمیین وقلوبھم قلوب الشیاطین ،امثال الزئاب الصنواری،لیس فی قلوبھم شیء من الرحمۃ ،سفاکون الدماء ،وان تواریت عنھم اغتابوک، وان حدثوک کذبوک ،وان ائتمنھم خانوک،المومن فیھم متضعف،والفاسق فیھم مشرف ،السنۃ بدعۃ والبدعۃ فیھم سنۃ[43]
عنقریب آخری زمانے میں کچھ لو گ ہونگے جن کے چہرے تو آدمیوں جیسے ہونگے اور انکے دل شیاطین جیسے ہونگے انکی مثال صنواری بھیڑیے جیسی ہے انکے دل میں کوئی رحم نہ ہو گا وہ سفاکی سے خون بہانے والے ہونگے اور اگر تو ان سے کچھ چھپائے تو وہ تیری غیبت کریں گے اور اگر بات کرے تو جھوٹ بولیں گے اور اگر انکے پاس امانت رکھوائے تو خیانت کریں ،مومن ان میں کمزور ہو گا اور فاسق ان میں عزت دار ہو گا ،سنت بدعت شمار کریں گے اور بدعت سنت شمار کریں گے
یہی وہ فتنہ ہے جس کی وجہ سے اسلام ہر جگہ بدنام ہوتا ہے یہ اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں مگر اسلام سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور وہ اسلام دشمنی میں اپنی ہر حد کو پھلانگ جاتے ہیں۔
خارجی نظریات کے فساد و انتشار کے تدارک کا نبوی منہج
:۔ خارجیت کے فساد و انتشار کی روک تھام کے لیے سیرت طیبہ کی روشنی میں درج ذیل نکات اہم ہیں۔
خارجیوں سے قتال:اس فتنہ سے بچاؤ کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ ان سے قتال کرکے ان کا خاتمہ کیا جائےچنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے آپ فرماتے ہیں:قال رسول اللہ ﷺ یخرج فی امتی اخر الزمان قوم احداث الاسنا ن سفھاء الاحلام یقولون من خیر قول الناس یمرقون من الاسلام کما یمرق السھم من الرمیۃ فمن لقیھم فلیقتلھم فان قتلھم اجر عند اللہ عز و جل[44]
عبد اللہ بن مسعود سے روایت ہے نبیﷺ نے فرمایا آخری زمانے میں میری امت میں ایک قوم نکلے گی زیا دہ باتیں کرنے والے ،غلط تاویلیں کرنے والے ،لوگوں میں بہترین بات والے ،وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے پس جو کوئی ان سے ملے تو ان کو قتل کرےپھر جس نے ان کو قتل کیا اسکا اجر اللہ پر ہے
خارجیوں کی نشاندہی:۔ نبی ﷺ نے تمام منافقین کےرازدار رسول ﷺ حضرت حذیفہ کو وفات سے وصال سے قبل نشاندہی فرما دی تھی لہذا اس سے یہ بات اخذ ہوتی ہے کہ اسلامی حکمران کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ خارجیوں کی سرگرمیوں سے آگاہ رہنے کی کوشش کرے تا کہ ان کے خلاف بروقت کاروائی کی جا سکے۔
مسلم افرادی قوت کو صحتمند سر گرمیوں میں مشغول رکھنا :۔نبی ﷺ نے مسلم افرادی قوت کو فارغ اوقات کو صحت مند سر گرمیوں میں گزارنے کی تلقین کی آپﷺنے فرمایا المرء علی دین خلیلہ فلینظر احد کم من یخالل[45] آدمی اپنے دوست کے مذہب پر ہوتا ہے پس چاہیے تم میں سے ہر کوئی دیکھے کہ وہ کسے دوست بنا رہا ہےلہذا سیرت طیبہ کی روشنی میں نو جوانان اسلام کے لیے ایسے صحت مند پروگرام ترتیب دیے جائیں تا کہ وہ اسلام دشمن عناصر کا شکار نہ ہوں ۔
اسلامی حکومت کیخلاف بغاوت کا فساد /انتشار:اسلام کو کمزور کرنے کے لئے شرانگیزوں کی طرف سے ایک حربہ یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کردی جائے جس کے نتیجے میں اسلامی ریاست عدمِ استحکام کا شکار ہوجاتی ہے۔ذیل میں اس کی چند صورتوں کا تذکرہ کر کے ان سے بچاؤ کی تدابیر کا جائزہ لیا جاتا ہے۔
خارجی فساد و انتشار:۔ لفظ خارجی خارج سے ہے جس سے مراد بیرونی،باہر سے متعلق ،کسی مسلم ریاست کو جو بیرونی فساد کا اندیشہ اور مسائل لا حق ہوتے ہیں اسے خارجی فساد یا فساد الغز والفکر کہتے ہیں[46]۔
فساد الغز والفکر:۔ ابو اسماعیل ریحان نے اس کی تعریف اس طرح کی ہے
ھو الغز بالوسائل العسکریۃ[47]"اس سے مرادفوجی وسائل کیساتھ فساد کرنا ہے
آگے چل کر اس کی مزید وضاحت اس انداز سے کی ہے:
ھو اسلوب جدید للغز والفکر وضد المسلمین بعد ھزائم متکررۃ[48]
مسلسل شکستوں کے بعد مسلمانوں کی مخالفت میں مسلح اور فکری مخافت کرنے کا اسلوب (فسادالغزو والفکر کہلاتا ہے)"
فساد الغز والفکرکی صورتیں:۔ اس کی اہم صورتیں درج ذیل ہیں۔
1۔استعمار/سامراجیت کا فساد و انتشار
2۔عالمگیریت کا فساد و انتشار
3۔ مستشرقین کا فساد و انتشار
ذیل میں ان پر تفصیلی غور کیا جاتا ہے
1۔ سامراجیت کا فساد و انتشار:۔سامراجیت سے مراد شہنشاہیت،نو آبادیات،ماتحت سلطنتیں رکھنے کی پالیسی یاکسی دوسرے ملک کے معاملات کو کنٹرول کرنا ہے۔[49] اس اعتبار سے اگر دیکھا جائے
عالم اسلام کیخلاف سامراجیت کے اہداف:۔ درج ذیل ہیں۔
1۔خلافت اسلامیہ کا خاتمہ 2۔مقامات مقدسہ پر قبضہ 3۔عالم اسلام پر قبضہ 4۔ عالم اسلام کو فنا کرنا
سامراجی فساد فی الارض:۔ فرعون نے بنی اسرئیل پر سامراجیت مسلط کی قرآن اسے یوں بیان کیا ہے۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ ۚ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ[50]
بیشک فرعون نے زمین میں سر کشی کی اور اس کے ایک گروہ کو کمزور کردیا ان کے بیٹوں کو ذبح کرتا اور عورتوں کو زندہ چھوڑدیتا بیشک وہ فساد کرنے والوں میں سے تھا
اور یہی سامراجی انداز حق کے پسِ پردہ جانے کا اہم سبب ہے۔ اب سامراجیت کے اسباب کیا ہیں ذیل میں ان کاجائزہ لیا جاتا ہے۔
سامراجیت کے اسباب
:۔ سامراجیت کے اہم اسباب درج ذیل ہیں ۔
فحاشی و عریانی :۔ کتاب مقدس زبور میں سامراجی نظام کی وجہ فحاشی اس انداز سے بیان کی گئی ہے:
چونکہ صیہون کی بیٹیاں متکبر ،گردن کشی اور شوخ چشمی کے سبب خراماں ہوتی ہیں،اپنے پاؤں سے نا ز رفتاری کرتی ہیں، گھنگڑوں بجاتی ہیں اسلئے خداوند صیہون ان بیٹیوں کے سر گنجے اور انکے بدن بے پردہ کردے گا ،تیرے بہادر تہہ تیغ ہونگے، تیرے پہلوان جنگ میں قتل ہونگے ،اس کے پھاٹک ماتم کریں گے ،نوحہ کریں گےاور وہ اجاڑ ہو کر خاک پر بیٹھیں گے"[51]
اس قطعہ میں بیان کردہ تمام صورتیں فحاشی اور عریانی کی صورتیں ہیں جن سے بچاؤ اسلامی ریاست میں امن کا ضامن ہوگا۔
احکام اللہ سے اعراض:۔ بنی اسرئیل نے جب احکام اللہ سے اعراض کیا تو ان پر سامراجیت مسلط کر دی گئی ۔زبور میں ہے
انہوں نے ان قوموں کو ہلاک نہ کیا جن کا خداوند نے انکو حکم دیا تھا بلکہ ان قوموں کیساتھ مل گئے،ان سے کام سیکھ گئے ،انکے بتوں کی پرستش کرنے لگے جو ان کے لیے پھندا بن گئے اسلئے خداوند کا اپنے لوگوں پر قہر برسا ،اسے اپنی میراث سے نفرت ہو گئی ،خداوند نے انکو ان قوموں کے قبضہ میں کردیا ان سے عداوت رکھنے والے ان پر حکمران بن گئے[52]
قرآن میں ارشاد ہے : فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُوا قَوْلًا غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنْزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا رِجْزًا مِنَ السَّمَاءِ بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ[53]
پھر بدل دیا ظالموں نے اس بات کوجس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اس سے ہٹ کر بدل دیا تو ہم نے آسمان سے ان کی نافرمانیوں کے سبب عذاب نازل کیا"
جب احکام شریعت سے اعراض کرکے کسی اور طرزِ زندگی کو اپنایا جائے تو اللہ تعالیٰ کا عذاب تو نازل ہوگا ہی اور یقینی طور پر یہ اعراض فساد فی الارض کا ایک اہم ذریعہ ہوگا جس سے نسلیں برباد ہوں گی۔
جہاد سے روگردانی:۔جہاد سے روگردانی بھی سامراجیت کا سبب بنتی ہے ۔قرآن میں ارشاد ہے:قَالُوا يَا مُوسَىٰ إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَن نَّدْخُلَهَا حَتَّىٰ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِن يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ[54]
بولے اے موسی بیشک اس میں سرکش لوگ ہیں اور ہم اس میں ہر گز داخل نہیں ہونگے جب تک کہ وہ وہاں ہیں تو اور تیرا رب جائے پھر جہاد کرے ان سے ہم تو یہیں بیٹھے رہیں گے
اگر موجودہ دور میں امت مسلمہ (کشمیر،شام ،فلسطین،برما ،افغانستان،پاکستا ں میں دہشت گردی کا عذاب )کے زوال،قتل عام ،محکومی و غلامی،افراتفری ،سیاسی ومعاشی بد حالی کے اسباب پر غور کیا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ان کے اصل محرکات میں فحاشی و عریانی ،بے راہ روی،احکام اللہ سے اعراض،جہاد سے روگردانی ہی قابل ذکر ہیں۔
تدارک کا نبوی منہج
: ۔ سیرت طیبہ کی روشنی میں سامراجیت کا تدارک کرنے کے سلسلے میں درج ذیل نکات اہم ہیں۔
وہن سے اجتناب:۔ حب دنیا و مال اور موت سے نفرت بھی حرص طمع اور بزدلی کا سبب بنتی ہے جس سے دشمن عنا صر فائدہ اٹھاتے ہوئے امت مسلمہ کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں لہذا اس سے اجتناب ضروری ہے۔نبیﷺ نے فرمایا:
یوشک الامم ان تداعی علیکم کما تداعی الاکلۃ الی قصعتھا فقال قائل او من قلہ نحن یو مئذ ؟قال ﷺ انتم یومئذ کثیر ولکنکم غثاء کغثاء السیل ولینزعن اللہ من صدور اعدائکم المھابۃ منکم ،والیقذفن فی قلوبکم الوھن فقال قائل یا رسول اللہ ﷺ ماالوھن؟ قالﷺ حب الدنیاو کراھیۃ المؤمن[55]
قریب ہے کہ امتیں تم پر ٹوٹ پڑیں گی جیسے دستر خوان پر کھانے کے لیے دعوت دی جاتی ہے پس کہنے والے نے کہا کیا اس دن ہم تعداد میں کم ہو ں گے ؟ فرمایا نہیں بلکہ تمہاری کثرت ہو گی لیکن اللہ تمہارے دشمنوں کے دل سے تمہارا رعب کھینچ لے گا اور تمہارے دل میں وھن ڈال دے گا پس پوچھا گیا وھن کیا ہے ؟فرمایا ﷺ نے دنیا کی محبت اور موت سے نفرت
آج یہ چیز پوری امت میں واضح دیکھی جا سکتی ہے اور زوالِ امت کا بڑا سبب بھی یہی نظر آتا ہے۔اس سے بچاؤ ہی کامیابی کی ضمانت ہوگی۔
تمسک بالکتاب والقرآن :۔ تما م مسائل اور سامراجیت سے نجات کا ایک ہی نسخہ ہے کہ قرآن و سنت کو عملی زندگی میں مکمل طور پر اپنایا جائے اس والے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے:
قال ﷺ ترکت فیکم امرین لن تضلو ا ما تمسکتم بھما :کتاب اللہ وسنۃ نبیہ[56]
ابو ھریرہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں تم ہر گز گمراہ نہ ہو گے جب تک انہیں تھامے رکھو گئے وہ کتاب اللہ اور اس کے نبی ﷺکی سنت ہے
فساد کی ان تمام صورتوں سے بچاؤ قرآن وسنت سے عملی تمسک میں ہی ہے امت نے جب سے ان سےاپنا ناطہ توڑا ہے تب سے بربادی اور ذلت ان کا مقدر بنی ہےلہذا ان دونوں سے اتباع کا تعلق پھر سے قائم کرنا وقت کی ضرورت بھی ہے اور شریعت کا تقاضا بھی۔
فحاشی و عریا نی سے اجتناب :فحاشی وعریانی قوموں سے غیرت کو ختم کرتی ہیں اور جس قوم میں غیرت نہ رہے بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔اس حوالے سے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الحیاء من الایمان،والایمان فی الجنۃ ،والبذاء من الجفاء والجفاء فی النار[57]
"حیاءایمان کا حصہ ہے اور ایمان کا انجام جنت ہے اورفحش گوئی نافرمانی ہے اور نافرمانی کا انجام دوزخ ہے"
اس روایت سے واضح ہوا کہ بے حیائی اور فحاشی اسلام معاشرہ میں ایک ایسا فساد ہےجو کہ معاشرے کی جڑوں کو اس انداز سے کھوکھلا کرتا ہے کہ افرادِ معاشرہ کے دلوں سے نیکی اور بدی کی تمیز ختم ہوجاتی ہے اور جس بھی قوم کی یہ حالت ہوجاتی ہے اس کا انجام بالآخر تباہی وبربادی ہی ہوتا ہے لہذا اس ناسور کا خاتمہ از بس ضروری ہے۔
جہاد فی سبیل اللہ :لفظ جہاد وسیع مفہوم کا حا مل ہے جو جنگ اور تلوار سے متعلق نہیں بلکہ لفظ جہاد سے مراد کوشش یعنی تمام شعبہ ہائے زندگی میں اصلاح کی کوشش کرنا اسی طرح جہاد با لسیف بھی ایک قطعی حکم ہے جو عام حالات میں تو فرض کفایہ ہے لیکن مخصوص حالات میں یہ فرض عین ہو جا تا ہے۔ لیکن جہاد سے مراد پر تشدد کا ر وائیاں نہیں بلکہ اسلام کا جہاد بالسیف مکمل پر امن پالیسی پر مبنی ہے [58]قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ٰ ہے: وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا لَـنَهْدِيَنَّهُمْ سُـبُلَنَا[59]جو لوگ ہماری راہوں میں کوشش کرتے ہیں ہم انہیں اپنے راستوں کیطرف راہنمائی کریں گے
اب ملتِ اسلامیہ کو اپنی بقاء اور معاشرے کو فتنہ وفساد سے بچانے کے لئے فسادی قوتوں کے خلاف نبرد آزما ہوکر اپنا دفاع کرنا ہوگا تبھی امن وامان کا قیام ممکن ہوسکتا ہے ورنہ ذلت ورسوائی کے علاوہ کچھ بھی ہاتھ نہیں لگے گا۔
عالمگیریت کا فسا د و انتشار:دنیانے جب سے سکڑ کر گلوبل ولیج کی شکل اختیار کی ہے تب سے عالمی استحصالی قوتیں پوری دنیا پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش میں ہیں اور عالمگیریت کے اس فتنہ کی وضاحت ابوریحان نے اس انداز سے کی ہے:
"عالمگیریت لفظ عالم گیر سے ہے جس سے مراد جہاں کو زیر کرنے والا،دنیا میں پھیلاہوا،عالم پر چھایا،تمام دنیا کا بادشاہ۔ یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کا مقصد اقتصادی،ثقافتی،معاشرتی ،معاشی ،قومی ،وطنی امتیازات کو ختم کرکے تمام دنیا کو یہودی اہداف اور امریکی کے مطابق جدید سرمایہ دارانہ نظام کے ماتحت کرنا"[60]
دنیا پر تسلط ہر عالمی قوت کا خواب ہی نہیں بلکہ اس پرعملی کوششیں جاری ہیں جو کہ دنیا میں ظلم کے راج اور انسانی حقوق کے استحصال کا اہم ذریعہ بھی بن چکا ہے۔
عالمگیریت کا سیاسی فساد و انتشار :اس کی حقیقت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ "تمام دنیا کے معاملات کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے امریکہ کی ملی بھگت سے یہود نے لیگ آف نیشنز بنائی اور سیاسی عالمگیریت کے مرکز اقوام متحدہ کی 24 اکتوبر 1945 کو بنیاد رکھی"[61] اور عملی طور دنیا کو کس طرح تاراج کیا جارہا ہے روز مرہ کے عالمی معاملات اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
عالمگیریت کا اقتصادی فساد و انتشار: سونے ،چاندی کے ذخائر پر قبضہ کے لیے یہود نے کاغذ کا نوٹ متعارف کروایا اور آئی ۔ایم۔ایف ،ورلڈ بینک ،سوئس بینک جیسے اداروں کے قیام سے تما م دنیا کا سرمایہ سمٹ کر امریکہ،یہودی لابی کے قبضہ میں چلا گیا پا نامہ لیکس،ڈان لیکس اسی کی ایک مثال ہیں[62] اور اس کے ذریعے عالمی اقتصادی معاملات کو کنٹرول کیا جارہا ہے۔
عالمگیریت کا معاشرتی فساد و انتشار:۔ معاشرتی سطح پر امت مسلمہ کو تنزلی کا شکار کرنے کے لیے یہودی لابی جن اہداف پر کام کر رہی ہےان میں خاندانی نظام کا خاتمہ ،آزادی نسواں کے نام پر این جی اوز کو فروغ دینا ،جنسی بے راہ روی کی ترغیب معاشرتی فساد و انتشار برپا کرنے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں جیسےاقوام متحدہ کی چوتھی کانفرنس میں اتفاق ہوا اور آئے دن عجیب وغریب آوازیں ابھرنے لگیں جو کہ عقد نکاح کے بغیر ہی جنسی عمل ہونا چاہیے خاندان دو افراد سے مل کر بنتا ہے چاہے وہ دو مرد ہو ں یا دو عورتیں"[63] کی صورت میں ایک تحریک کی شکل اختیار کرکے معاشرے کو اخلاقی انحطاط کا شکار کرکے فساد پھیلانے لگیں۔
تدارک کا نبوی منہج: سیرت طیبہ کی روشنی میں عالمگیریت کے سبب پیدا ہونے والے فساد و انتشار کے خاتمے کے لیے راہنمائی میں درج ذیل نکات اہم ہیں۔
عالمگیر امن پالیسی:۔ ہجرت مدینہ کیساتھ ہی دنیا کا پہلا دستوری منشور میثاق مدینہ کے ذریعے مدینہ اور گرد ونواح کے تمام عرب قبائل کے لیے امن پالیسی متعارف کروائی گئی [64]لہذا سیرت طیبہ کی روشنی میں امت مسلمہ کے امن کے لیے اقوام متحدہ جیسے ادارے قائم کیے جائیں جس میں ووٹ کا حق مسلم اکثریت کے پاس ہو اگرچہ اسلامی سربراہی کانفرنس اس سلسلے میں اول قدم ہے لیکن ابھی اس سلسلے میں بہت کچھ کرنے کو باقی ہے۔
بین الاقوامی اقتصادی پالیسی :۔ شام اور یمن کیطرف جانے والے تجارتی راستوں پر پہرہ لگا دیا گیا تا کہ معاشی ذرائع کو کنٹرول میں رکھنے کیساتھ ساتھ دشمن عناصر کی سر گرمیوں پر نظر رکھی جا سکے[65] مسلم ممالک جن کے پا س معاشی وسائل بھی بکثرت ہیں اور قدرتی طور پر وہ خطے میں ایسی جگہ آباد ہیں جو معاشی ،دفاعی،تجارتی لحاظ سے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے پا کستا ن جو بر اعظم ایشیاء کے دہانے پر واقع ہے،مشرق وسطی کی عرب ریاستیں اور عرب ممالک معدنی تیل اور معدنیات کی دولت سے مالا مال ہیں اگر وہ سیرت طیبہ کہ اس پہلو پر ہی عمل کر لیں تو امت مسلمہ کے عالمی ،بد امنی کے مسائل حل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
بین الاقوامی تجارتی پالیسی:۔مدینہ سے چمڑا اون،پنیر ، کھجور زرعی اجناس شام کی طرف برآمد کیے جاتے اور یمن سے چادریں ، دستکاری کی اشیاء درآمد کروائے جاتے جس سے عالمی منڈی سے آگاہی کیساتھ ساتھ معاشی خود استحکام حاصل ہوتا [66]۔لہذا بین الاقوامی تجارتی منڈیوں تک رسائی کی جائے تا کہ معاشی آزادی ،خود انحصاری حاصل ہو۔
بین الاقوامی خبر رساں پالیسی:۔ سیرت طیبہ سے یہ راہنمائی بھی ملتی ہے کہ نبی ﷺ مدینہ آنے والے تاجروں سے انکے ملک کے حالات سے متعلق استفسار کرتے لہذا غزوہ تبوک میں قیصر سے مقابلہ کے لیے تبوک کی طرف پیش قدمی شامی تاجر وں کی مخبری پر ہی کی گئی ،اسی طرح غزوہ احد اور غزوہ خندق کی مخبری آپ ﷺکے چچا حضرت عباس نے کی ،غزوہ خندق میں قریش اور یہود میں تفریق نعیم بن مسعود کی جاسوسی چال کے ذریعے ہی ممکن ہوا[67]ان سب نکات سے یہ بات مستنبط ہوتی کہ اسلامی ممالک کو اس بات کیطرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ملکی اور عالمی سطح پر بہترین سراغ رساں ادارے،تحقیقاتی کمیشن،خبر رساں ادارے قائم کئے جائیں۔
بین الاقوامی تبلیغی وفود:۔اسلام کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کے لیے تبلیغی وفود جیسے عبد اللہ بن واہب ایران کیطرف، دحیہ کلبی شاہ روم ہرقل کی طرف اور شاہ مصر کیطرف عمر بن عاص کو بھیجا [68]موجودہ حالات میں اسلام کو دہشت گرد مذہب کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے لہذا مسلم حکمرانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تبلیغی وفود بھیجے جائیں تا کہ اسلام کی اصل شکل عالمی اقوام کے سامنے وا ضح ہو سکے۔
بین الاقوامی تعلقات پالیسی:۔ نبی ﷺ نے تبلیغی وفود،تجارتی پالیسی ،جہاد پالیسی کے ذریعے عالمی سطح پر تعلقات قائم کیے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت طیبہ کی روشنی میں بین الاقوامی سطح پر پر وقار اور بارعب تعلقات قائم کیے جائیں۔
دشمن کی عہد شکنی کی صورت میں دو ٹوک انداز اختیار کرنا:۔ نبیﷺ نبی رحمت اور سراپا شفقت تھے لیکن غزوہ خندق میں جب یہود نے میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی تو اس صورت میں انکی کتاب تورات ہی کی روشنی میں تمام جنگی مرد قتل کروا دیے انکی عورتیں لونڈیاں بنا لی گئیں ،زمینیں غصب کر لی گئیں[69] لہذا سیرت طیبہ کی روشنی میں اسلام دشمن ممالک کیساتھ مناسب رویہ رکھا جائے اور ان کیساتھ اس حد تک نرمی نہ رکھی جائے کہ وہ بزدلی کہلائے۔
جہاد پالیسی:۔اسلامی ریا ست صرف مدینہ تک ہی محدود تھی لیکن تبلیغ اور جہاد پالیسی کے ذریعے ہی دس سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف سارا عرب بلکہ اردگرد کے کئی علاقے اسلامی ریاست میں شامل ہو چکے تھے۔
مستشرقین کا فساد و انتشار:۔علمائے عرب مستشرق کی تعریف یوں بیا ن کرتے ہیں:
دراسۃ الغربیین للشرق الاسلامی حضا رتہ وادیانہ و ادیانہ و لغاتہ و تاریخہ و ثقافتہ و عاداتہ۔[70]
مغربی دانشوروں کا مشرقی اسلامی علوم ،ادیان،زبان،تاریخ،ثقافت،عادت کا مطالعہ کرنا
اس سے ان کا مقصدمصادر ِاسلام میں آمیزش کر کے اصل شکل کو بگاڑ نا یا داغدار کر نا ہے۔انکے اہم موضوعات میں ذات باری تعالی،رسالت و حیات محمدیﷺ،لغت،تاریخ ،فقہ اسلامی،اسلامی ممالک،اسلامی فرقہ واریت،اسلامی تحریکیں قابل ذکر ہیں
تدارک کا نبوی منہج:۔سیرت طیبہ کی روشنی میںمستشرقین کے اسلام تعصب پالیسی کی وجہ سے پیدا ہونے والے فساد و انتشار کے خاتمے کے لیے درج ذیل نکات اہم ہیں۔
تقابل ادیان کا مطالعہ:۔ تقابل ادیان کے مطالعہ سے ہی ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ کس مذہب کی تعلیمات میں اسلام کے لیے نرمی پائی جاتی ہے اور کس میں اسلام کے لیے تعصب پایا جا تا ہےتا کہ برادرانہ تعلقات اور دفاعی پالیسی میں مناسب حکمت عملی اختیا ر کی جائے ۔خود نبیﷺ نے عبد اللہ بن سلام سے پو چھا کہ کیا تورات میں زنا کی سزا سنگسار کرنا نہیں؟صحیح بخاری میں ہے۔
لہذا اس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ غیر مسلم پر سزا کا نفاذ اسی وقت اس کے مذہب کے مطابق ممکن ہے جب اس کا فہم ہو لہذا تقابل ادیان کو نصاب میں لازمی مضمون کی حیثیت سے شامل کیا جائے تاکہ مستشرقین کے فتنوں سے نپٹنا نوجوان نسل کے لیے ممکن ہو۔
بین الاقوامی علوم کی تحصیل:۔زید بن ثابت کو حکم دیا کہ مجھے یہود پر کتابت کے لیے یقین نہیں لہذا تم سریانی زبان سیکھ لو ،پھر فرمایا عبرانی زبان بھی سیکھ لو[71]
لہذا اس سے یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ بین الاقوامی علوم کی تحصیل دفاعی پالیسی کے مفاد میں نہایت اہم ہے۔
اسلامی تحقیقاتی ادارو ں کا قیام :۔
مسجد نبوی اور مسجد نبوی کیساتھ ملحق دار صفہ میں تعلیم و تعلم ،کتابت حدیث ،فقہ اسلامی کی ترویج کا اہتمام کیا جاتا نبیﷺ کا ارشادواستعن بیمینک[72] اپنے دائیں ہاتھ سے مدد لواورخذوا عنی مناسککم[73]"مجھ سے مناسک حج سیکھ لو
آج کےاس دورمیں انحطاط اور فساد سے نکلنے کا یہ واضح حل ہے اسلامی تحقیقاتی ادرے قائم کر کے فساد کے بچاؤ اور فلاحِ امت کے لئے عملی اقدامات کئے جائیں۔
بین الاقوامی سفیروں کا تقرر:۔ نبیﷺ نےمعاذ بن جبل کو اہل یمن کی تعلیم کے لیے بھیجا ،شاہ حبشہ اصحمہ نجاشی کے دربار میں جعفر طیار بن طالب کو بھیجا تا کہ عالمی سطح پر تعلقات استوار کیے جائیں [74]لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیرت طیبہ کی روشنی میں عالمی سطح پر پر وقار تعلقات قائم کیے جائیں جس کے ذریعے دیگر ممالک سے روابط اور خاص طور پر امتِ مسلمہ کے اتحاد اور یگانگت کا ذریعہ بنے گا اور کوئی ان کو نیچا دکھانے کے لئے عملی اقدام سے پہلے سوبار سوچنے پر مجبور ہوگا۔
مستشرقین کے اعتراضات کا جواب:احسان بن ثابت نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں نازک مزاج ہوں خونریزی نہیں کرسکتا آپ ﷺ نے فرمایا تو اپنی زبان سےہجو کے ذریعے مدد کر[75]اس سے بھی یہ بات مستنبط ہوتی ہے کہ مستشرقین کے اسلام پر اعترا ضات کاجواب دیا جائےتاکہ دنیا میں ان کی طرف اسلاام پر کئے جانے علمی حملوں کو علمی انداز میں جواب دیا جاسکے اور دوسری طرف مسلمانوں کی بھی فککری تربیت ہو سکے۔
توہین رسالت ،تمسخر اسلام پر دو ٹوک کاروائی کرنا:۔ کعب بن زہیر نے جب نبیﷺ کی ہجو کی تو آپ ﷺ نے اس کے قتل کے احکامات جاری کردیے اسی طرح غزوہ خیبر میں دشمن کے مردوں کے جب احکامات قتل جاری کیے گئے تو زینب نامی یہودی عورت کو بھی قتل کیا گیا کیونکہ اس نے نبی ﷺ کو زہر دینے کی کوشش کی تھی[76]اسلیے توہین رسالت اور تمسخر کرنے والوں کیخلاف فورا کاروائی کی جائے چاہے وہ کچھ افراد ہوں یا ممالک تا کہ اسلام کا رعب و جلال قائم رہے۔
الغرض مندرجہ بالا بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہےکہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں پیدا ہونےوالے فساد و انتشار کے تدراک کے لیے قرآن وسیرت طیبہ ﷺہی سے کامل راہنمائی و راہبری حاصل ہوتی ہے ۔فسادو انتشار کے خاتمے اور انسانیت کی فلاح کے لیے ترتیب یا تجویز کیا جانے والاہر ایسا منشور،ضابطہ ،دستور جسے قرآن و سنت کی روح سے نہ سینچا گیا ہو وہ تیری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خود کشی کرنے کے مترادف ہوگیاسلیے نام نہاد ترقی کے اس جدید دور میں تما م دنیا اور خصوصا دنیائے اسلام کے تمام مسائل کا واحد اور ناگزیر حل کامل اتباع ِ قرآن و سیرت طیبہﷺ میں پنہاں ہے اللہ تعالی ہم سب کو عمل و دعوت کی توفیق عطا فرمائے۔
نتائجِ بحث
* فساد دوطرح کا ہے ایک داخلی اور دوسرا خارجی۔
- داخلی فساد میں فرقہ واریت اور عصبیت ،حدود اللہ سے انحراف،عائلی فساد،خارجی نظریات کا فسادوانتشاراور اسلامی حکومت کیخلاف بغاوت کا فساد وانتشار ہے۔
- فرقہ واریت کے فساد کے اسباب مذہبی ،لونی،نسلی،وطنی،قومی تعصب کی نوعیت کے ہیں جبکہ ان کا علاج قرآن وسنت کے تمسک اوراتحادِ امت ہیں۔
- حدود اللہ سے انحراف کے فسادوانتشار کا تدارک نفاذ حدود میں غیر جانبداری اختیار کرنے،نفاذ حدود میں رحم نہ کرنے،نفاذ حدحاکم وقت کی ذمہ داری ہونا،نفاذ حد مجمع عام میں کرنےاوراسلام کے مشفقانہ نظام سزا۔
- عائلی فساد وانتشارکےحل کے لئےمضبوط خاندانی نظام،والدین کے احترام، اولاد کے حقوق کی ادائیگی،قتل غیرت کےخاتمہ،قوامیت کےغلط تصورکےخاتمہ اوراسلامی نظامِ قصاص کےنفاذ میں ہے۔
- خارجی نظریات کے فساد و انتشار کا تدارک خارجیوں کی نشاندہی،ان سے قتال،مسلم افرادی قوت کو صحتمند سر گرمیوں میں مشغول رکھنےمیں ہے۔
- اسلامی حکومت کے خلاف فسادوانتشار کاتدارک کتاب وسنت سے تمسک ،وہن سے اجتناب، فحاشی و عریا نی سے اجتناب، جہاد فی سبیل اللہ میں ہے۔
- عالمگیریت کا فسا د و انتشارکاتدارک عالمگیر امن پالیسی، بین الاقوامی اقتصادی پالیسی، بین الاقوامی تجارتی پالیسی،بین الاقوامی خبر رساں پالیسی،بین الاقوامی تبلیغی وفود،بین الاقوامی تعلقات پالیسی،دشمن کی عہد شکنی کی صورت میں دو ٹوک انداز اختیار کرنا۔
- مستشرقین کےپھیلائے فساد و انتشارکاتدارک تقابل ادیان کےمطالعہ،بین الاقوامی علوم کی تحصیل،اسلامی تحقیقاتی ادارو ں کے قیام،بین الاقوامی سفیروں کے تقرر،مستشرقین کے اعتراضات کے مدلل جواب دینے،توہین رسالت اورتمسخر اسلام پر دو ٹوک کاروائی کرنے میں ہے۔
تجاویز وسفارشات:
* عصرِ حاضر میں جدت پسندی جہاں اپنی انتہاء کو پہنچ گئی ہے اورانسانیت فسادوانتشار کی جس دہلیز پر کھڑی ہے اس سے چھٹکارہ صرف اور صرف اسلامی تعلیمات اورقوانین کے عملی نفاذ سے ہی ممکن ہے۔
- امتِ مسلمہ کا کھویا وقار بحال کرنے کے لئے حکومتی سطح پر ایسے تربیتی ادارے قائم کئے جائیں جہاں دینی ودنیوی تعلیمات کی تدریس کے ساتھ ساتھ اجتماعی وانفرادی تربیت کا انتظام بھی کیا جائے تاکہ کتاب وسنت پر عمل ممکن ہو جس سے فتنہ وفساد کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔
- اسلامی سزاؤں کا نظام اس انداز سے قائم کیا جائے کہ اس میں مشفقانہ پہلو اجاگر ہو جس سےافرادِ معاشرہ ارتکابِ جرم کی صورت میں اس تصور کے تحت اپنے آپ کو سزا کےلئے پیش کردیں کہ وہ آخرت کے دائمی عذاب سے اپنے آپ کو بچا لیں۔
- نبوی نظامِ عدالت کو سامنے رکھتے ہوئے اسلامی ممالک میں قضاء کا ایسا نظام قائم کیا جائے جو کہ ہر فردِ معاشرہ کی دادرسی کرے اورفتنہ وفساد کے تدارک کا یہی ایک بڑا ذریعہ ہے۔
- تعلیمی ترقی اور عصری تقاضوں سے آگاہی اوران کے اسلامی تعلیمات سے ہم آہنگ کرکے افرادِ معاشرہ کو عملی دھارے میں لانا معاشرتی فسادوانتشار کے تدارک کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اس کے لئے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اجتماعی ذہن سازی کی جائے۔
حوالہ جات
- ↑
۔ ابن منظور افریقی،ابوالفضل محمد بن مکرم،لسان العرب،مطبعۃ دار صادر،بیروت،4:574
- ↑
۔ Cambridge International Dictionary of English, 1996,P:137
- ↑
۔فیروز آبادی، محمد بن یعقوب،باب الدال،فصل الفاء1:625
- ↑
-اسلامی انسائیکلو پیڈیا،1/1262
- ↑
-البقرۃ:،2: 220
- ↑
-البقرۃ،2: 11
- ↑
-ابوداؤد،السنن،باب فی اصلاح ذات البین،4/289؛احمد بن حنبل ،المسند،رقم الحدیث(5480
- ↑
-ابوداؤد،السنن،کتاب الفتنودلائلھا،باب ذکر الفتن،رقم الحدیث(4242)،4/94
- ↑
-فیروز الدین،فیروز اللغات،ص:606
- ↑
-اسلا می انسائیکلوپیڈیا،2/ 1256
- ↑
-ابو حبیب سعدی،القاموس الفقہی،باب حرف العین،1/252،مکتبہ دار الفکر،دمشق،1993ء
- ↑
-آل عمران،3: 105
- ↑
-بخاری ،الجامع الصحیح3/1636،مکتبہ دار المغنی للنشر والتوزیع السعودیۃ العربیہ
- ↑
-بغوی،شر ح السنۃ،باب الافتخار با النسب،13/123،الطبعۃ دار احیاء الترث العربیہ،بیروت
- ↑
-بیہقی،الشعب الایمان،رقم الحدیث(5137)، دار لکتب العربیہ،بیروت ،احمد بن حنبل ،المسند،5/11
- ↑
- احمد بن حنبل،المسند،باب مسند ابی سعید خدری ،17/171
- ↑
-آل عمران،3: 4 10
- ↑
-سیوطی، جلال الدین ،الدر المنثور،2/283،مکتبہ دار الکتب العلمیہ،لبنان،2000
- ↑
-احمد بن حنبل،المسند،باب حدیث الحارث الاشعری،28/406
- ↑
-راغب اصفہانی، المفردات فی غریب القرآن،1/387،ادارہ اسلامیات،لاہور، 2000
- ↑
-مرغینائی،العنایہ شرح الہدایہ،کتاب الحدود،7/137،مطبوعہ دار احیاء التر ث العربیہ،بیروت۔
- ↑
۔ ماوردی،محمد بن حبیب،الاحکام السلطانیہ،ص:197،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ،بیروت،کاسانی،بدائع الصنائع7/101،پبلشر ادارہ اسلامیات،لاہور
- ↑
-النساء،4: 14
- ↑
-کاسانی،بدائع الصنائع،7/ 109
- ↑
-بخاری،الجامع الصحیح،المسند المختصر من امور رسول اللہ ﷺ و سننہ و ایامہ،رقم الحدیث،(3475)
- ↑
۔ ا بن عبد البر، ابو عمریوسف بن عبد اللہ بن محمد ،المتھید لما فی الموطا من المعانی والاسانید،(1579)11/216،دار الفکر ،بیروت
- ↑
-ا حمد بن حنبل،المسند،(22999)،5/348
- ↑
-ویکی پیڈیا ڈ اٹ کام،وقت4:15 صبح،تاریخ: 2018۔2۔19
- ↑
-ترمذی،ابو عیسی محمد بن عیسی،السنن،رقم(3495)مکتبہ دار الفکر ،بیروت
- ↑
-احمد بن حنبل،المسند:رقم الحدیث(19025)
- ↑
-ابن حبان،الصحیح،کتاب النکاح،رقم(4163)، المطبوعۃ دار الکتب العلمیہ ،بیروت
- ↑
- الاسراء،17: 23
- ↑
-محمد بن حسن شیبانی ،الجامع الصغیر،(1849)
- ↑
-بخاری،الجامع الصحیح،رقم(2587)،مسلم،الجامع الصحیح،رقم(1623)
- ↑
-الانعام، ۶: ۱۵۱
- ↑
-ابو داؤد،السنن،باب فی الخیلاء فی الرحب،الرقم(9562)
- ↑
-النساء،4: 34
- ↑
-ابن جریر ،جامع البیان،الرقم(392)،3/2،تاج کمپنی،لاہور)
- ↑
-النساء،4: 19
- ↑
-البقرۃ،2: 178
- ↑
-بخاری،ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل،الجامع الصحیح،المسند المختصر من امور رسول اللہ ﷺ و سننہ وایامہ،باب اعلام النبوۃ فی الاسلام،4/200
- ↑
-،ابن حجر، عسقلانی ،محمد بن علی ،فتح الباری،12/283،مکتبہ دار احیاء الترث العربیہ،بیروت
- ↑
-طبرانی ،المعجم الکبیر، ، مکتبہ دار احیاء الترث العربیہ،بیروت، رقم الحدیث(1169)،11/99
- ↑
-بخاری،الجامع الصحیح،باب ذکرالخوارج وصفاتھم،رقم الحدیث:1063، 2/740
- ↑
-احمدبن حنبل،المسند،3/2
- ↑
-مقری،احمد بن محمد،المصباح المنیر فی غریب الشرح الکبیر،باباالخاء،(1/166،المکتبۃالعلمیۃ،بیروت
- ↑
-ابو اسماعیل ریحان ،اصول الغز والفکر،ص:5،مکتبہ قدوسیہ ،لاہور،2000ء
- ↑
-ابو اسماعیل ریحان ،اصول الغز والفکر،ص:5،مکتبہ قدوسیہ ،لاہور،2000ء
- ↑
-فیروز الدین، فیروز اللغات،ص: 767
- ↑
-القصص، 28 :3
- ↑
-زبور،باب،106
- ↑
-زبور،باب،106
- ↑
-البقرۃ،2: 59
- ↑
-المائدۃ،5: 22
- ↑
-ابو داؤد ،السنن،کتاب الملاجم،3/221،احمد بن حنبل،مسند،5/178
- ↑
-ابن دقیق،التمھید الرقم(1661)ص:331
- ↑
-احمد بن حنبل ،المسند ،2/501
- ↑
-انظر ابو الاعلی مودودی،تفہیم القرآن ،3/ 221
- ↑
-العنکبوت،29: 69
- ↑
-ابو ریحان اسماعیل،اصول الغز والفکر،ص:35
- ↑
-مطالعہ پاکستان ،پنجاب ٹیکسٹ بورڈ،ص: 45،لاہور،2000
- ↑
-جیو نیوز،خانزادہ شاہ زیب،وقت:10:00 رات ،2017۔7۔10
- ↑
-جیو نیوز،خانزادہ شاہ زیب،وقت:10:00 رات ،2017۔7۔10
- ↑
-ابن سعد،الطبقات ، 2/254،دار الفکر ، بیروت
- ↑
-ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ،3/332،تاج کمپنی ،کراچی
- ↑
-ابن سعد،الطبقات،2/254،دار الفکر ،بیروت
- ↑
-ابو بکرجصاص،الاحکام القرآن،4/144،ادارہ اسلامیات ،لاہور،2000
- ↑
-ابن اثیر ،الکامل فی التاریخ،3/332،تاج کمپنی ،کراچی
- ↑
-ابو بکرجصاص،احکام القرآن،4/144،ادارہ اسلامیات ،لاہور،2000
- ↑
-ابو ریحان اسماعیل،اصول الغز والفکر،ص:50
- ↑
-قرطبی،الجامع لاحکام القرآن،4/343،دار الفکر،بیروت
- ↑
-بخاری،الجامع الصحیح، رقم الحدیث(99)
- ↑
-نسائي،الجامع (4016)، والبيهقي: السنن الكبرى، (9307)
- ↑
-ابن کثیر ،البدایہ والنہایہ،3/120۔۔111
- ↑
-ابن کثیر ،البدایہ والنہایہ،3/120۔۔111
- ↑
-ڈاکٹر حمید اللہ ،غزوات نبی ﷺ،ادارہ اسلامیات ،لاہور،ص:90
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Volume 2 Issue 2 | 2018 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |