The History revealed the fact that merchants played a very prominent and vital role in spreading the religion of Islam. Prophet Muhammad (PBUH) remained one of the popular merchants of his time in the Arabian Peninsula. Similarly, the same profession was also adopted by the Prophet’s companions and they propagated the message of Islam almost in every corner of the world being a core mission of their lives. The number of Islamic countries on the world’s map witness their efforts in this regard. There are numerous sayings of the Prophet (PBUH) in which he praised the honest and truthful traders and cautioned with serious wrath for the otherwise. Keeping in view the contemporary scenario of corporate world, one can easily observe the lacking of professional and ethical values among the merchants more specifically concerned with commercialization and marketing. In fact, marketing is one of the sound sources to promote business but some companies try to exploit their consumers via fake commercialization and false advertising. Pakistan, being an Islamic country, has to devise such principles and regulations regarding commercial advertising which are in full conformity with Shariah standards that will definitely, secure the rights of all stakeholders along with fine attraction for foreign investment to put the economy on growing direction. The current paper deals with the morals and values of advertising in the light of Prophetic teaching.
دین اسلام کی نشر واشاعت میں تاجروں کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ رسول اللہ ﷺ عرب کے نامور اور نیک نام تاجر تھے اور آپ کے کبار صحابہ قبل و بعد از اسلام عرب کے نمایاں اور کامیاب تاجروں میں شمار ہوتے تھے۔ جائز اور دیانت دارانہ تجارت کے حق میں احادیث مبارکہ میں بہت سے فضائل بیان ہوئے ہیں عصر حاضر کے تاجروں میں کاروباری اخلاقیات کا فقدان ہے ،جن میں سے ایک اشتہار بازی (Advertisement)بھی ہے۔ تشہیر کرنا تجارتی فروغ کے اچھے ذرائع میں سے ہےجس کے بغیر معاشی اور تجارتی استحکام مشکل ہے لیکن ساتھ ہی تشہیر کے ذریعے صارفین کا استحصال بھی معمول بن چکا ہے اس لئے تاجروں کے لئے ضروری ہے کہ تشہیر کرتے ہوئے شریعت مطہرہ کے اصول وضوابط کو مدنظر رکھیں تاکہ صارفین کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اپنی تجارت کو فروغ دے سکیں اشیاء وخدمات کی تشہیر کرنا بذات خود ممنوع نہیں کیونکہ اس کا مقصد عوام کو باخبر رکھنا اور معلومات پہنچانا ہے۔
ایک اسلامی ملک ہونے کے ناطے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں کاروباری اخلاقیات کے لیے قانون سازی کا ہونا انتہائی ضروری ہے تاکہ صارفین کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے کاروبار کو ترقی دی جا سکے اور ہمارا معاشی نظام تجارتی سرگرمیوں کے لئے سازگار بن جائے اور دنیا کے مختلف ممالک سے سرمایہ کار یہاں آکر سرمایہ کاری کرسکیں کیونکہ یہاں پر تاجر اور صارف دونوں کے حقوق کو یقینی تحفظ حاصل ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی اگر کوئی فرد یا ادارہ ان قوانین کے خلاف ورزی کا مرتکب پایا جائے تو ان کے خلاف فوراً تادیبی کاروائی کی جائے ۔
کاروباری اخلاقیات:
کاروباری اخلاقیات یا Ethics” Business “کا تصور موجودہ معاشی نظام کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔ دنیا میں کاروبار اور انتظامی امور کی تعلیم دینے والے اداروں اور یونیورسٹیوں نے کاروباری اخلاقیات کو باقاعدہ نصاب میں شامل کرکے اس کو کافی وسعت دی ہے۔ نیزمعاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ معاشرتی سرگرمیوں کے بہت سے پہلوؤں کو اس میں داخل کردیا ہے۔ ان تمام تر کوششوں کا مقصد بظاہر ایسا متوازن نظام کو قائم کرنا نظر آتا ہے جو بنی نوع انسان کے لیے زیادہ مفید ہو۔ اسلام ایک ایسا نظام حیات ہے جو جہاں عقائد‘ عبادات اور روحانیات کے بارے میں ہدایات دیتا ہے وہاں سیاسی،سماجی، معاشی اور اخلاقی مسائل کے حل کیلئے بھی انسانیت کی رہبری کرتا ہے۔ زندگی کا کوئی بھی پہلو ایسا نہیں جس کے بارے میں اسلام کی بنیادی اور اصولی ہدایات موجود نہ ہوں ہمارا موضوع تجارتی اخلاق کے بارے میں اسلامی تعلیمات پر بحث کرنا ہے اس لیے ہم سب سے پہلے تجارت کی اہمیت پربحث کریں گے اس کے بعد حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ کی روشنی میں اور کاروباری اخلاقیات پر گفتگو کریں گے۔
تجارت کی اہمیت:
رزق حاصل کرنے کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان میں تجارت سب سے بڑا اوراہم ذریعہ ہے۔ کسی فرد قوم اور ملک کی آزادی، خودمختاری،خوشحالی اور تعمیروترقی میں تجارت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ آپ ﷺ کی پیدائش سے پہلے جزیرہ عرب کے رہنے والوں کا عمومی پیشہ تجارت تھا اور وہ کاروبار کے سلسلے میں مختلف ممالک کے سفر کرتے رہتے تھے ۔ گرمی کے موسم میں ان کے سفر شام کی طرف ہوتے اور سردی کے موسم میں عمان ویمن کی طرف ہوتے تھے عربوں کی آبادی کا بیشتر حصہ اسی تجارت پر گزر بسر کرتا اور اپنا اکثر سرمایہ تجارتی سرگرمیوں میں لگاتا ،یہ کاروباری لوگ دوسرے لوگوں کی بہ نسبت زیادہ خوش حال تھے ، عرب کے ان قبائل میں سے قبیلہ قریش کا تجارتی مقام بہت بلند تھا بلکہ وہ جزیرہ عرب کی تقریباً پوری تجارت پر حاوی تھے جس کو بطور احسان اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام میں یوں ارشاد فرمایا:
لِاِيْلٰفِ قُرَيْشٍ اٖلٰفِهِمْ رِحْلَةَ الشِّتَاۗءِ وَالصَّيْفِ [1]
"چونکہ (اللہ نے) قریش کو مانوس کردیا تھا ، کہ وہ سردیوں اور گرمیوں میں (تجارتی) سفر سے مانوس ہوگئے تھے"
تجارت کی اہمیت کے پیش نظر ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَا تَاْكُلُوْٓا اَمْوَالَكُمْ بَيْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَكُوْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ[2]
"ایک دوسرے کا مال ناجائز ذریعے سے نہ کھاؤ بلکہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو"
مطلب یہ ہے کہ ایک دوسرے کا مال نا جائز کھا لینا مثلاً جھوٹ کہہ کر یا دھوکہ سے یا چوری سے بالکل درست نہیں ہاں اگر تجارت کرو تم باہمی رضامندی سے تو اس میں کچھ حرج نہیں اس مال کو کھالو ۔ تاجروں کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَائِ [3]" سچا اور امانت دار تاجر قیامت کے دن انبیاء، صدیقین اور شہداء کے ساتھ ہوگا۔ "
آپ ﷺ کا خاندانی پیشہ تجارت تھا اور آپ ﷺ بچپن ہی میں اپنے چچا کے ساتھ کئی بار تجارتی سفر فرما چکے تھے ،جس سے آپ ﷺ کو کاروباری لین دین کا کافی تجربہ بھی ہو چکا تھا اس لیے آپ ﷺ نے ذریعہ معاش کے لیے تجارت کا پیشہ اختیار فرمایا اور ایسی راست بازی اور امانت ودیانت کے ساتھ تجارت کی کہ آپ کے شرکاء(Business Partners) اور تمام کاروباری لوگ آپ کو صادق وامین کے لقب سے پکارنے لگے ، ایک کامیاب تاجر کے لیے صدق و امانت، سچائی ،ایفائے عہد اور اچھے اخلاق تجارت کی جان ہیں اور یہ تمام خصوصیات آپ ﷺ میں بدرجہ کمال موجود تھی آپ کی بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے جو حدیث کی کتاب ابو داؤد میں حضرت عبداللہ بن ابی الحمساء رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےنقل کیا ہے:
" کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے آپ کی بعثت سے قبل کوئی چیز خریدی اس کی کچھ قیمت میرے ذمہ واجب الاداء تھی تو میں نے آپ سے وعدہ کرلیا کہ کل آپ کو یہیں اسی جگہ لا کردوں گا پھر میں بھول گیا تین روز کے بعد مجھے یاد آیا تو میں دوڑ کر آیا تو دیکھا کہ آپ اپنی اسی جگہ (موعد) پر موجود ہیں آپ نے فرمایا کہ اے جوان تو نے مجھ پر بڑی مشقت ڈال دی میں یہاں پر تین روز سے تیرے انتظار میں ہوں"[4]
ایفائے عہد کا یہ واقعہ تو آپ کے بعثت سے قبل کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کاروبار میں آپﷺ اپنا معاملہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے۔ بیع کرنے والوں کا سب سے پہلے آپﷺ نے "تاجر" نام رکھا ، پہلے انہیں "سماسرہ" کہا جاتا تھا جس کی اردو معنی "دلال" کے ہے جس کو انگریزی میں Broker کہتے ہیں ، حدیث کی کتابوں میں حضرت قیس بن ابی عزرہ ؓ سے روایت ہیں :
"کہ ہمیں رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں"سماسرہ"یعنی دلال کہا جاتا تھا ایک مرتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارے قریب سے گزرے تو ہمیں ایسے نام سے پکارا جو اس سے بہت بہتر تھا۔ فرمایا اے تاجروں کی جماعت خرید و فروخت میں قسم کھائی جاتی ہے فضول بات زبان سے نکل جاتی ہے اس لئے اس میں صدقہ خیرات ملا دیا کرو۔[5]
آپ ﷺ نے " تاجر" کے لفظ سے خطاب فرما کر تاجروں کی عزت افزائی فرمائی کیونکہ " سماسرہ" کے لفظ میں اتنی عزت نہیں تھی اسی وجہ سے اس نئے نام کو لوگوں نے بہت پسند کیا ۔
اخلاق کا وصف:
رسول اللہ ﷺ نے اپنی تعلیم میں ایمان کے بعد جن چیزوں پر بہت زیادہ زور دیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آدمی اخلاق حسنہ اختیار کرے اور برے اخلاق سے اپنی حفاظت کرے قرآن مجید میں آپ ﷺ کی بعثت کے جن مقاصد کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے ایک یہ بھی بتایا گیا ہے کہ آپ کو انسانوں کا تزکیہ کرنا ہے قرآن مجید کے سورہ آل عمران ارشاد باری تعالیٰ ہیں :
"اللہ نے ایمان والوں پر احسان کیا ہے جو ان میں انہیں میں سے رسول بھیجا ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور دانش سکھاتا ہے اگرچہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے[6]
وَيُزَكِّيْھِمْ :پاک کرنا یعنی تزکیہ کرنا اور اس تزکیہ میں اخلاق کی اصلاح اور درستی کی خاص اہمیت ہے، انسان کی زندگی میں اخلاق کی بڑی اہمیت ہے،اگر انسان کے اخلاق اچھے ہوں گے تو اس کی اپنی زندگی بھی قلبی سکون اور خوشگوار گزرے گی اور دوسروں کے لیے بھی اس کا وجود رحمت اور چین کا سامان ہو گا ۔ ایک حدیث میں بھی یہ مضمون روایت کیا گیا ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إن من خياركم أحسنكم أخلاقا[7] " تم میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جن کے اخلاق اچھے ہیں"
اخلاق ایسے اصولوں کا مجموعہ ہے جن کے ذریعے اچھے اور بُرے،صحیح اور غلط ،حق اور ناحق میں تمیز کی جاتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں جو علم بھلائی اور برائی کی حقیقت کو ظاہر کرے انسانوں کو آپس میں کس طرح معاملہ کرنا چاہیے اس کو بیان کرے،لوگوں کو اپنے اعمال میں کس اعلیٰ مقصد کو پیش نظر رکھنا چاہیے اس کو واضح کرے اور مفید وکارآمد باتوں کی نشاندہی کرے اور یہ بتائے کہ انسان کس طرح عمدہ اخلاق اپنا سکتا ہے اور برے و رذیل عادتوں سے محفوظ رہ سکتا ہے اسے علم الاخلاق کہا جاتا ہے۔ انسانی اخلاقیات دراصل وہ عالم گیر حقیقتیں ہیں جن کو سب انسان جانتے چلے آ رہے ہیں ۔ انسان بعض صفات کو پسند اور بعض کو ناپسند کرتے ہیں یہ انفرادی طور پر انسانوں میں کم یا زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی طور پر انسانوں نے اخلاق کے بعض اوصاف پر صفت کا اور بعض پر قباحت کا ہمیشہ یکساں حکم لگایا ہے۔صدق،عدل وانصاف،وعدے کو پورا کرنا اور امانت داری ہمیشہ سے انسانی اخلاقیات میں تعریف کا مستحق سمجھا گیا اور کبھی کوئی ایسا دور نہیں گذرا جب کذب،ناانصافی، ظلم،بد عہدی اور خیانت کو کسی معاشرے میں پسند کیا گیا ہو۔
کاروباری اخلاق
:
اسلام جس طرح زندگی کے دوسرے معاملات میں اخلاقی قدریں دیتا ہے اسی طرح تجارتی حوالے سے بھی اپنی کچھ اخلاقی قدریں دیتا ہے۔ اسلام نہ تو سرمایادارانہ نظام کی طرح دولت کمانے کا عام لائسنس دیتا ہے اور نہ ہی اشتراکیت کی طرح اشیاء صرف کے علاوہ ذرائع پیداوار کی ملکیت پر پابندی لگاتا ہے بلکہ وہ بنیادی طور پر زمین و آسمان کی ساری چیزوں کو خدا کی ملکیت قرار دیتا ہے اور پھر ان کو حاصل کرنے کیلئے کچھ اخلاقی اصول دیتا ہے جن کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص ان کو حاصل کرسکتا ہے۔کاروباری اخلاق دراصل علم الاخلاق کی ایک شاخ ہے جس میں اخلاقی اصولوں اور ضابطوں کو تجارتی نقطہ نگاہ سے دیکھا اور پرکھا جاتا ہے۔ اس میں تجارتی حوالے سے مختلف مسائل اور تجارتی لوگوں کی ذمہ داریوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ تجارتی اخلاق کے کچھ متعین اصول ہوتے ہیں جن کو سامنے رکھتے ہوئے تجارتی معیار بنائے جاتے ہیں اور پھر لاگو کیے جاتے ہیں اور یہ فیصلہ دیا جاتا ہے کہ کیا صحیح اور کیا غلط اور کیا کیا جائے اور کیا نہیں کیا جائے۔ اسلام نے تاجروں کے لیے تجارتی اخلاقیات کا ایک طریقہ کار پیش کیا ہے، یہ ضابطہ اخلاق کاروبار میں دیانت داری ، فکر آخرت اور خوف خدا کے جذبات کو فروغ دیتا ہے۔ قرآن مجید کی اصولی ہدایت تجارت کے معاملے میں یہ ہے سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: " اے ایمان والو آپس میں ایک دوسرے کا مال ناجائز ذریعے سے نہ کھاؤ بلکہ باہمی رضامندی کے ساتھ تجارت کی راہ سے نفع حاصل کرو۔‘‘ [8]
اس آیت کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ظلم وزیادتی اور دوسروں کا حق مارنے پر مبنی معیشت کے ان تمام ذرائع کو ممنوع قرار دیا ہے جو معاشرے کے طاقت ور طبقات اور سرمایہ داروں نے ہمیشہ معیشت اور تجارت کے راستے سے کمزوروں اور غریبوں پر اپنی مرضی ٹھونسی ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ظلم واستحصال (Exploitation) کے یہ سارے راستے بند کر دیے اور حکم فرمایا کہ معاشی معاملات کی بنیاد باہمی رضامندی اور تجارت کے اصول پر ہونی چاہیے۔ اسلام کے اصول تجارت میں سے بنیادی اصول یہ ہیں کہ تجارت باہمی رضامندی سے ہونی چاہیے۔فریقین کسی جبر یا زبردستی کے بغیر اپنی آزاد مرضی سے آپس کے معاملات طے کریں۔ اس لیے کہ اسلام میں تجارت کی بنیاد باہمی تعاون پر ہے اور تجارت کی وہ تمام شکلیں جن میں کسی دوسرے فریق کی کمزوری ،کم علمی یا بے خبری سے فائدہ اٹھا کر اس کو کسی چیز کے خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ممنوع وناجائز ہیں اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اشیاء کی ایسی تشہیر یا اشتہار بازی (Advertisment) یا نفسیاتی حربوں کا ایسا استعمال جو انسانی عقل وفکر کو دھوکہ دے اور ایک شخص اپنی مرضی کے خلاف محض نفسیاتی شعبدہ بازی کی وجہ سے کسی چیز کی خرید نے پر مجبور ہو جائے ،یہ اسلام کے مطابق نہیں ۔ اسلام کے اصول تجارت میں سے ایک اصول یہ بھی ہیں کہ کاروبار ایمان داری کے ساتھ ہو جس میں کسی قسم کا دھوکہ یا بددیانتی نہ ہو ، تجارتی مال کی اصل کیفیت لوگوں کے سامنے واضح کی جائے اور ان کو غلط فہمی میں رکھ کر مال خریدنے پر مجبور نہ کیا جائے۔اسی طرح اپنا فائدہ حاصل کرنے کے لیے جان بوجھ کر لوگوں کو نقصان پہنچانا ، وعدہ خلافی یا خیانت کرنا ، دھوکہ دینا یہ سب شرعی اعتبار سے صحیح نہیں ہیں۔
اسلام میں اخلاق:
اسلام اپنی تعلیمات میں اخلاقی اصولوں کو بہت بڑی اہمیت دیتا ہے اسلام چاہتا ہے کہ انسانوں کے باہمی تعلقات، چاہے وہ سیاسی ہوں، سماجی ہوں یامعاشی ہوں، بہتر انسانی رویوں پر مبنی ہوں۔ اس حوالے سے قرآن اور سنت میں بہت سی ترغیبیں آئی ہیں۔
ہم اس بارے میں کچھ قرآنی آیات اور احادیث کا ذکر کرتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہے:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ[9] "تم بہترین امت ہوجسے لوگوں کیلئے نکالا گیا ہے۔ تم اچھی باتوں کا کہتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔"
قرآن مجید کے سورۃ الا عراف میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کی یہ صفات بیان کی ہیں:
"وہ ان کو نیکی کا حکم کرتا ہے اور برے کام سے روکتا ہے اور ان کے لیے سب پاک چیزیں حلال کرتا ہے اور ان پر ناپاک چیزیں حرام کرتا ہے اور ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں اتارتا ہے جو ان پر تھیں سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت کی اور اسے مدد دی اور اس کے نور کے تابع ہو ئے جو اس کے ساتھ بھیجا گیا ہے یہی لوگ نجات پانے والے ہیں" [10]
ایک اور آیت میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ [11]" بلاشبہ آپﷺ اخلاق کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں"
بلاشبہ آپ ﷺ اخلاق کے بہت بڑے مرتبے پر ہیں ۔ اتنے بڑے مرتبے پر جس کی نظیر و مثال چشم فلک نے نہ اس سے پہلے کبھی دیکھی اور نہ آئندہ قیامت تک کبھی دیکھ سکے گی۔ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ کوئی شخص بھی رسول اللہ سے بڑھ کر عمدہ اخلاق والا نہ تھا آپ کو آپ کے صحابہ اور اہل بیت میں جب بھی کسی نے پکارا آپ نے لبیک ہی کہا اسی وجہ سے آپ کی شان میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔[12] اخلاق کے حوالے سے آپ ﷺ نے اپنے بارے میں ارشاد فرمایا: إنما بعثت لأتمم صالح الأخلاق[13] "کہ مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کیلئے بھیجا گیا ہے"
اسلام کی تعلیم سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان آپس میں اچھے رویوں کے ساتھ رہیں اور اپنے سارے معاملات بہتر سلوک کے ساتھ حل کریں۔ اسلام چاہتا ہے کہ ایک انسان کا سلوک اپنے رشتے داروں سے ،دوستوں سے،اکٹھے کام کرنے والوں سےاساتذہ سےشاگردوں سےماتحتوں سےافسروں سےگاہکوں سے عوام سےمطلب کہ انسانی سماج کے ہر شخص سے بہتر اور اچھے طریقے سے ہو۔
اسلام کے دین فطرت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ قیامت تک آنے والے دنیا کے تمام انسانوں کے تمام مسائل کا کامیاب حل پیش کرے ۔ گذشتہ چودہ صدیاں اس بات پر شاہد ہیں کہ اسلام نے اس کا ثبوت کس خوبی اور خوبصورتی سے دیا ہے۔ معیشت وتجارت کے بارے میں دین اسلام کے رہنما اصول موجود ہیں ،اسلامی نظام معیشت میں افراط ہے نہ تفریط ۔ جہاں انسانوں کو مال ودولت کمانے کی آزادی دی گئی ہے وہاں کچھ حدود وقیود بھی وضع کیے ہیں۔تجارت میں یہ صرف اسلام کا امتیازہے کہ حلال وحرام کی تفریق قائم کی اور وضاحت کی کہ تجارت کے ذریعہ نفع کمانے کا کونسا طریقہ حلال ہے اور کونساحرام ۔اشتہارات بھی تجارتی معاملات میں سے ہیں اور تجارت اصلاً مباح عمل ہے۔
اسلامی معاشرے میں ایسے طریقے سےاپنی تجارتی اشیاء کی تشہیر کرنا جس سے اللہ تعالیٰ کا حکم ٹوٹے، انسانیت کی تذلیل ہو،عفت وپاکدامنی اور اچھے اخلاق کا شیرازہ بکھرجائے ممنوع ہے۔ ذیل میں ہم تجارتی اشتہارات کا اسلامی تعلیمات کے تناظر میں جائزہ پیش کریں گے۔
تشہیر یا اشتہار کا لغوی مفہوم:
لغت میں تشہیر کسی چیز یا خبر کو مشہور کرنے کو کہتے ہیں خواہ وہ آواز کے ذریعے ہو، کاغذ ، اشکال یا ماڈل کے ذریعےسے ہو۔ عربی لغت میں اس کے لئے اَلْاِعْلاَن[14]،اَلظُہُوْر[15]اوراَلْجَھْر[16]کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ اصطلاحی لحاظ سے فقہاء اشتہار کو اَلْاِعْلاَن کے معنی میں لیتے ہیں اس لیے کہ اعلان کا معنیٰ ظاہر کرنا ہے،اور اس میں ارادۃً تشہیر کی جاتی ہے[17]۔
== تشہیر یا اشتہار کا اصطلاحی مفہوم: ==
تاجروں کے نزدیک اشتہار سے مرادکسی چیز یا خبر کو پرنٹ یا الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے اس طرح نشر کرنا کہ لوگ اس چیزکی طرف متوجہ ہوجائیں اور اس کی طرف رجوع کریں[18]۔ مارکیٹ میں موجود مصنوعات ان کی مختلف انواع و اقسام اور فوائد صارفین تک پہنچانے کا بہترین ذریعہ تشہیر(Advertisement )ہی ہے۔ایسی سرگرمیاں جس کے ذریعے کوئی اپنے پیغام کو مختلف سمعی یا بصری صورتوں میں عوام کے لئے نشر کرے تاکہ انہیں مختلف اشیاءیا خدمات(Services) خریدنے پر آمادہ کیا جاسکے یا انہیں اچھے خیالات،اشخاص یا غیر مشتہر سہولیات قبول کرنے پر تیار کیا جاسکے۔
اشتہارات یا ایڈورٹائزنگ کاروبار کو ترقی دینے اور بڑھانے میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔موجودہ دور میں اس کے لئے پرنٹ والیکٹرانک میڈیا،ہورڈنگز،فلائر،بروشر،ای میل،ویب سائٹ ایڈ،ریڈیو اور موبائل SMS وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کے تناظر میں تجارتی اشتہارات :
تجارتی اشتہارا ت کے لغوی واصطلاحی وضاحت کے بعد مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تعلیمات کے تناظر میں اس بات کا جائزہ پیش کیا جائے کہ اس طرح کے اشتہارات کا کیا حکم ہیں ۔
تجارتی اشتہارات کے جائز ہونے کے دلائل
تجارتی اشتہارات مختلف قسم کے سامان کی فروخت کو عام کرنے کا ایک وسیلہ ہے اس طرح یہ خرید و فروخت کے متقدمات کے زمرے میں آتے ہیں۔ آسان الفاظ میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ مصنوعات کی تشہیر تجارتی معاملات میں سے ہےاور تجارت اصلا ًمباح عمل ہے جب تک اس کے کسی پہلو کے عدم جواز پر کوئی ثبوت نہ ملے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ اللّهِ الَّتِيَ أَخْرَجَ لعبادِهِ وَالْطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّزْقِ[19].
" آپ فرما دیجیے کہ اللہ تعالیٰ کے پیدا کئے ہوئے اسباب زینت کو جن کو اس نے اپنے بندوں کے واسطے بنایا ہے اور کھانے پینے کی حلال چیزوں کو کس شخص نے حرام کیا ہے؟ "
خرید وفروخت کے جواز کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَأَحَلَّ اللّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا [20]" یعنی اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔"
امام قرطبی ؒ فرماتے ہیں:
فَالْعُمُومُ يَدلُّ عَلىٰ إِبَاحَةِ الْبُيُوعِ فِي الْجُمْلَةِ ،وَالتَّفْصَيْلُ مَا لَمْ يَخِص بِدَلِيْلٍ[21]
"یعنی یہ آیت تجارت کے جواز پر دلالت کرتی ہے، اس لئے بیع یا اس کے متعلقات کی کوئی حرمت اگر ہو تودلیل ہی سے ہوسکتی ہے۔"
علامہ ابن حجرعسقلانیؒ اس آیت کی توضیح میں فرماتے ہیں:"اور یہ آیت اصلاً میں بیع کے جائز ہونے پر ہے۔ اس بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں صحیح قول یہ ہے کہ یہ عام مخصوص حالتوں کے ساتھ،کیونکہ لفظ تو عام ہے جو ہر قسم بیع کو شامل ہے اور ہر قسم کے بیع کے مباح ہونے کا تقاضا کرتی ہے لیکن شارع (رسول صلی اللہ علیہ وسلم )نے بعض دوسرے بیع سے منع فرمایا ہے اور اسے حرام قرار دیا ہے تو یہ آیت مخصوص حالتوں کے ساتھ عام ہے جب تک اس کے منع پر کوئی دلیل صادر نہ ہوجائے۔"[22]
ہمیں اشتہارات کے منع اورحرمت پر کوئی خاص یا عام دلیل نہیں ملتی بلکہ اس کے شواہد رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں بھی ملتے ہیں جسے ذیل میں بیان کیا جاتا ہے:
"حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ایک اناج کے ڈھیر سے گزرے ،آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ اس کے اندر ڈالا تو انگلیاں تر ہوئیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اے اناج کے مالک یہ کیا ہے؟ وہ کہنے لگے یا رسول اللہ ﷺ پانی پڑگیا تھا ، آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو نے اس بھیگے ہوئے اناج کو اوپر کیوں نہیں رکھا تاکہ لوگ دیکھ لیتے؟ جو شخص دھوکہ دے وہ مجھ سے نہیں ہے (یعنی میرے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں)۔" [23]
مذکورہ حدیث میں بیچنے والے اشیاءکی نمائش کا ذکر ہےاوروہ اناج کو کھلے عام رکھتا تاکہ گاہک کی دلچسپی بڑھ جائے جو جدید تجارتی مفہوم میں تجارتی اشتہار سے تعبیر کی جاسکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اس شخص کو ایسا کرنے سے منع نہیں کیا لیکن جب اس میں ملاوٹ کا شائبہ پیدا ہوا تو نبی کریم ﷺنے ایسا کرنے سے منع کیا،جو تجارتی سامان کو ملاوٹ اوردھوکہ دہی کے بغیرمشتہر کرانا جائز قرار دیتا ہے۔ دوسری روایت میں ہے:
"دحیہ بن خلیفہ[24] شام سے قحط اور مہنگائی کے وقت اپنے ساتھ گندم اور ستو وغیرہ لائے جس کولوگوں کی شدید ضرورت تھی تو وہ تیل کے پتھر کے پاس اترے اور لوگوں کو اگاہ کرنے کے لئے طبل بجادی،تو لوگ(مسجد نبوی سے)نکلے ماسوائے 12 افراد کے،کلبی ؒ فرماتے ہیں کہ وہ لوگ جمعہ کے خطبہ کے لئے جمع تھے جہاں سے نکل کر ان کے پاس آئے۔اس وقت تک آپ ﷺ نمازجمعہ کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے ۔"[25].
مجاہدؒ اورمقاتل ؒسے یہ واقعہ اس طرح نقل ہے:
"نبی کریم ﷺ خطبہ فرمارہے تھے کہ دحیہ بن خلیفہ الکلبی تجارتی سامان کے ساتھ آئےتو ان کے گھر والوں نے دف( طبل) بجاکر خبر دی تو لوگ نکل آئے۔ "[26]
اور ایک روایت میں یوں بھی نقل ہے:
"ایک شخص(مسجدکے اندر )آیا اوراس نے کہا کہ دحیہ بن خلیفہ الکلبی اپنی تجارت کا سامان لے کر پہنچ گیا ہے اور جب وہ باہر سے تجارت کا سامان لے کر آتے تھے تو ان کے گھر والے دف(طبل)بجا کر استقبال کیا کرتے تھے تو لوگ باہر نکل آتے۔"[27]
مذکورہ روایات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں لوگوں کے درمیان مصنوعات کی تشہیر کے خاص طریقے رائج تھے جس کے ذریعے لوگ تجارت اور خریداری کے لئے جمع ہوتے تھےجیسا کہ طبل بجانا وغیرہ۔کہیں بھی یہ ذکر نہیں ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے ، اس طرح یہ روایت تجارتی تشہیر کے جوازپر دلالت کرتی ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ بھی مدینہ کے بازاروں میں اپنا سامان تجارت پیش کرتے تھے اور خود یا نوکروں کے ذریعے آواز لگاتے تھے جو اس وقت کے مطابق اشتہار کا ایک مناسب طریقہ تھا اور آپ ﷺ سے اس کا منع کرنا ذکر نہیں جو اس کے جواز کو ثابت کرتا ہے
اشتہار چونکہ تاجروں کا شروع ہی سے ایک ضرورت رہی ہے جس کے بہت سے مثبت پہلو موجود ہیں اس لئے اسلام نے اس کی مخالفت نہیں کی ہے کیونکہ اسلام تو آسانی پیدا کرتا ہے مشکلات نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍ[28]"اللہ نے تمہارے لئے دین میں تنگی نہیں فرمائی ہے۔"
اگر اشتہار کو ممنوع قرار دیا جاتا تو تاجروں کو اپنے سامان کے خصوصیات کو لوگوں تک پہنچانے میں کافی مشکلات پیش آتیں جبکہ لوگ کو بھی چیزوں سے بے خبر ہوتے اور یہ حکم معاشی ترقی میں رکاوٹ بن جاتا خصوصا آج کل جب ساری دنیا اشتہارات کے ذریعے اپنی مصنوعات لوگوں تک پہنچاتی ہے اور یہ مختلف اشتہارات ہی ہیں جو معاشی ترقی میں پیش پیش ہیں۔
تجارتی اشتہارات کا حکم
تجارتی اشتہارات شرعاً جائز ہیں اور اشیاء کی حرمت وحلت میں اصلاً میں اباحت ہے لیکن اس کے باوجود دوسرے فقہی مسائل اس سے متاثر ہوسکتےہیں جو درج ذیل ہیں:
ضروری/لازمی اشتہارات : جب اشتہار سے ان اشیا ءکی ترویج ہوتی ہیں جس کا حاصل کرنا مسلمانوں کے لئے لازمی ہوتا ہے جیسا کہ قرآن پاک کی ترویج یا ایسے ذرائع کا اشتہار جن سے مسلم امہ کا استحکام ہوتا ہے جیسا کہ تعلیمی اشتہارات وغیرہ ،وبائی امراض سے بچاؤ کے لیے عوام الناس کو خبردار کرانا یا قدرتی آفات ،سیلاب وغیرہ سے لوگوں کو متنبہ کروانا جن سے عوام الناس کی حفاظت ہوتی ہو۔
مندوب اشتہارات
وہ تشہیر جس میں کسی مندوب (مسنون)چیز یا عمل کا اشتہار کیا جائے مثلا ًمسواک وغیرہ جو نبی کریم ﷺ کی سنت ہے۔ اسی طرح روزمرہ استعمال کی اشیاء کا اشتہار تاکہ عوام الناس ضروریات سے باخبر رہے اور تاجروں کو بھی فائدہ ملے۔
حرام اشتہارات:
یہ ایسی اشتہار ات ہیں جن میں حرام چیزوں کا اشتہار کیاجاتا ہے مثلاً عریاں عورتوں کے تصاویر،منشیات، شراب،مردوں کے لئے ریشم اورسونے یا چاندی کے برتن وغیرہ۔نبی کریم ﷺکى حدیث میں ان اشیا کی حرمت ان الفاظ کے ساتھ ذکر ہے:
لا تلبسوا الْحَرِيرِ، وَلاالدِّيبَاجِ، وَلاتشُّرْبِوا فِي آنِيَةِ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ،ولا تاکلوا فی صحافها فانها لهم فِي الدُّنْيَا وَلنا فِي الْآخِرَةِ[29].
"ریشمی کپڑا نہ پہنو ،اور نہ دیباج پہنو (جو ایک طرح کا ریشمی کپڑا ہوتا ہے)اور سونے چاندی کے برتن میں کوئی چیز نہ پیو اور نہ سونے وچاندی کی رکابیوں اور پیالوں میں کھاؤکیونکہ یہ ساری چیزیں ان کے لئے( کافروں )کے لئے دنیا میں ہیں اور تمہارے لئے آخرت میں ہیں۔"
مکروہ اشتہارات
یہ ایسی اشتہارات ہیں جن میں مکروہات کی ترویج ہوتی ہے مثلا ً کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھاتا یا پیتا ہوا دکھا یاگیا ہو۔حدیث پاک میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے:
لَا يَاکُلَنَّ اَحَدُکَمْ بِشِمَالِهِ وَلاَ يَشْرِبَنَّ بهَا فَاِن الشيْطَانَ يَا كُلْ بِشِمَالِهِ وَيَشْرِبُ بهَا[30]
"تم میں سے کوئی شخص بائیں ہاتھ سے کھانا نہ کھائے اور نہ بائیں ہاتھ سے پیے کیونکہ یہ شیطان کا شیوہ ہے کہ وہ اپنے بائیں ہاتھ سے کھاتا ہے اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔"
مباح اشتہارات
یہ ایسی تجارتی اشتہارات ہیں جو کسی محرمات یا مکروہات سے خالی ہوتے ہیں اور تاجروں کے لئے مفید ہوتے ہیں اور شرعی ضوابط کے عین مطابق ہوتے ہیں نیز جو تخریب کے بجائے تعمیرکا باعث ہوں ، جو برائی پھیلانے کی بجائے بھلائی پھیلائے اور جو لالچ کی بجائے قناعت وصبر کے اوصاف اجاگر کریں۔ایسی تشہیر جو فحاشی،عریانی،بے حیائی اورسفلی جذبات بھڑکانے والی باتوں سے مبرا ہو اورمذکورہ اوصاف کی حامل ہو،اسے مباح اشتہارات کے زمرے میں شامل کیا جائے گا۔
تجارتی اشتہارات کے لئے قواعد و ضوابط
درج بالا دلائل سے اسلامی شریعت میں تجارتی اشتہارات کا جواز ثابت ہوتاہے لیکن یہ جواز چند اصول وضوابط کی بنیاد پرہے جن میں سے اہم ضوابط کو ذیل میں بیان کیا جاتا ہے۔
صدق(سچائی)
اسلامی شریعت مسلمان سے اپنے ہر قول اور عمل میں سچا ہونے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہاں ہم صرف تجارتی معاملات میں راست باز ہونے پر قرآن وسنت سے دلائل پیش کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتے ہیں:
وَأَوْفُوا الْكَيْلَ وَالْمِيزَانَ بِالْقِسْطِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا وَإِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوا[31]
"پیمائش اور وزن کو انصاف کے ساتھ کیا کرو اللہ تعالیٰ کسی بھی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتا اور جب کوئی بات کہو تو انصاف سے کام لو۔"
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
التَّاجِرُ الصَّدُوقُ الْأَمِينُ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاء[32]
"سچائی اور ایمانداری کے ساتھ کاروبار کرنے والا تاجر ، انبیاء،صدیقین اور شہدا ءکے ساتھ ہوگا۔"
یہ ایک بلند مقام ہے جو سچے تاجروں کو ان کی سچائی کی وجہ سے ملتی ہے ، چونکہ تجارت میں بہت سے وسوسوں کا سامنا ہوتا ہے۔ تاجر کے لئے سچا ہونابہت ضروری ہے اور جو کوئی بھی اس صفت سے موصوف ہوتا ہے اسے دنیوی لحاظ سے بھی کامیابی ملتی ہے اور آخرت میں بھی۔اسی طرح ذیل کی احادیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں:
# عَنْ رِفَاعَةَ عَنْ النبی صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ التُّجَّارَ يُبْعَثُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فُجَّارًا إِلَّا مَنْ اتَّقَى اللَّهَ وَبَرَّ وَصَدَقَ[33].
"رفاعۃ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایاقیامت کے دن تاجرلوگوں کا حشر، فاجروں(نافرمان لوگوں)کے ساتھ ہو گا سوائے ان کے جنہوں نے (اپنی تجارت میں) تقوی(یعنی تجارتی معاملات میں خیانت وفریب دہی وغیرہ میں مبتلا نہ ہوئے)، نیکی اور سچائی کا رویہ اختیار کیا ۔"
#
عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ: حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا[34]
"حکیم بن حزام ؓ کہتے ہیں کہ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا:بیچنے والا اور خریدنے والا دونوں کو اختیار حاصل رہتا ہے جب تک دونوں ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں یا فرمایا کہ جب تک ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں اگر انہوں نے سچ بولا اور صاف صاف وضاحت کی تو ان کے بیع میں برکت ہوگی لیکن اگر کچھ چھپائے رکھااورجھوٹ بولا تو ان کے بیع سے برکت اٹھالی جائے گی۔"
صدق وسچائی اور حقیقت بیانی تاجر کی لازمی صفات میں سے ہیں جن کے ذریعے وہ برکت اور رزق کثیر کا مستحق بن جاتا ہے۔ امام غزالیؒ اس کو یوں بیان کرتے ہیں:
إِن مِنْ وَاجِبٍ مَنْ يعْرِضُ سِلْعَة مَّا، أنَ يَظْهَرَ جَمِيْعَ عُيُوْبَ الْمَبِيْعِ خَفِيْهَا وَجَليْهَا، وَلاَ يَكْتُمُ مِنْهَا شَيْئاً، فَإِن أَخْفَاهُ كاَنَ ظَالِماً غَاشاً وَالْغَش حَرَامٌ[35].
"یعنی سامان بیچنے والے شخص پر لازم ہے کہ وہ اپنے سامان سے متعلق ہر قسم کے ظاہر اور پوشیدہ نقائص کو ظاہرکریں اگر اس نے اسے چھپایا تو وہ ظالم اور ملاوٹ کرنے والا بن جاتا ہے اور (حدیث کی روشنی میں )ملاوٹ کرنا حرام ہے ۔
اسی طرح بیچنے والے سے بیع کےنقص کوظاہر کرنے پر زیاد بن علاقہ رضی اللہ عنہ کا قول بھی دلالت کرتا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ میں نےجریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :
بَايَعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى النُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ[36]."یعنی نبی کریم ﷺ ہر مسلمان سے (سامان تجارت میں) نقائص کو ظاہرکرنے کا عہد لیتے تھے۔"اس لئے جب جریر بن عبداللہؓ کوئی چیز فروخت کرتے تھے تو اس کی خامیاں واضح کرتے تھے پھر مشتری(خریدنے والا) کو اختیار دیتے تھے اگر خریدنا چاہتے ہو تو ٹھیک ہے ورنہ واپس کردو۔"
اور صرف اس پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے بلکہ ایسی نقائص کا بھی اظہار کرنا چاہئے جس کا بیع سے کوئی تعلق نہیں مگر مشتری کے لئے خیرخواہی اس میں موجود ہو جیسا کہ اس روایت میں ذکر ہے:
"یزید ابن مالک ،ابوسباع ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے واثلہ بن اسقع سے ایک اونٹنی خریدی۔ جب میں اس کے گھرنکل رہا تھا تو واثلہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی اور وہ اپنے چادر کو گھسیٹے چلے آرہے تھے تو اس نے پوچھا کہ اے عبد اللہ کیا تو نے اسے خریدا ہے ؟ میں نے کہاکہ ہاں،اس نے کہا کہ اس میں جو کچھ (عیب وغیرہ)ہے آپ کو معلوم ہے ؟تو میں نے کہا کہ اس میں کیا ہے! یہ تو ظاہراً اچھی، صحت مند اور خوب فربہ ہے ،تو اس نے کہا کہ آپ اسے سفر کے لئے خریدتے ہیں یا گوشت کے لئے؟ میں نے کہا کہ میں نے اسے حج پر جانے کے لئے خریدا ہے،تو اس نے کہا کہ اس کے تلوے تو گھسے ہوئے ہیں (یعنی رفتار کے لئے مناسب نہیں)،اس نے کہا کہ اونٹنی کے مالک نے کہا کہ اللہ آپ کے لئے اسے صحیح کردے لیکن اس نقص کوچھپانا میرے(بیع)کے لئے مفسد تھا،اور فرمایا کہ میں نے حضور ﷺ کع یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :کہ کسی کے لئے جائز نہیں کہ کسی چیز کو فروخت کردیں مگر اس شرط کے ساتھ کہ اس میں موجود نقص اگر ہو تو واضح کردیں اور نہ کسی ایسے شخص کے لئے جسے وہ معلوم ہو مگر یہ کہ اسے ظاہر کردیں۔"[37]
علماءنے اس سے یہ دلیل اخذ کی ہے کہ جب بیع ہوچکاہو اور مشتری نے مبیع (خریدی ہوئی چیز)کو قبضہ میں لےلیا ہو لیکن اس وقت کوئی نقص معلوم نہ ہوا ہو تو بیع صحیح ہے لیکن مشتری کو اختیار ہے کہ مبیع پر راضی ہوجائے یا اسے واپس کرکے قیمت وصول کرے[38]۔اس بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ایک روایت نقل ہے :
أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ غُلَامًا فَاسْتَغَلَّهُ ثُمَّ وَجَدَ أَوْ رَأَى بِهِ عَيْبًا فَرَدَّهُ بِالْعَيْبِ فَقَالَ الْبَائِعُ: غَلَّةُ عَبْدِيفَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْغَلَّةُ بِالضَّمَانِ[39].
" ایک شخص نے ایک غلام خریدا پھر اس سے نفع حاصل كىا کی پھر اس میں کچھ عیب پایا جس کی وجہ سے اسے واپس کیا (تو فروخت کرنے والے نے اس کی شکایت پیغمبر ﷺسے کی)اور کہا کہ اس نے تو میرے غلام سے منفعت حاصل کی ہے جس پر نبی کریم ﷺنے فرمایا کہ نفع تو ضامن کا حق ہے ۔"
تجارتی اشتہارات ڈیزائن کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ سچ پر مبنی ہو اور کسی ایسی بات پر مشتمل نہ ہو جس سے قرآن یا احادیث کی روشنی میں منع کیا گیا ہو،کئی اشتہارات میں صداقت کم اور مبالغہ آمیزی زیادہ ہوتی ہے جیسا کہ ذیل کے مثالوں سے واضح کیا جاتا ہے۔
# برتن صاف کرنے کے لئے صفائی والے ایک کیمیکل کے اشتہار میں دکھایاجاتا ہے کہ اس کے ایک ہی قطرے سے بہت سارے برتن مکمل طورپر صاف ہوسکتے ہیں جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا۔
- اکثر شیمپو کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ یہ بالوں سے خشکی کا مكمل خاتمہ کرتی ہے جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔
- بچوں کے مخصوص ڈبوں میں پیک دودھ کے بارے میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس سے شیر خوار بچوں کی نشونما بہت اچھی ہوتی جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہیں ۔
اس طرح تاجرایک ممنوع عمل کا مرتکب ہوجاتاہے جس سے شریعت انہیں منع کرتی ہے اوریوں دھوکہ دہی کا ارتکاب کرتا ہے۔
جھوٹی قسموں سے اجتناب:
زیادہ قسمیں کھانا اور جھوٹی قسمیں کھانے سے آپ ﷺ نے سختی سے منع فرمایا ہے، قسم کھانے سے مال تجارت بکتا تو ہے ،مگر برکت چھین لی جاتی ہے، جھوٹی قسمیں کھانے والوں کے بارے میں آپ ﷺنے فرمایا :
ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ القِيَامَةِ، وَلَا يُزَكِّيهِمْ، وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ، قُلْنَا: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَدْ خَابُوا وَخَسِرُوا؟ فَقَالَ: «المَنَّانُ، وَالمُسْبِلُ إِزَارَهُ، وَالمُنَفِّقُ سِلْعَتَهُ بِالحَلِفِ الكَاذِبِ۔ [40]
"تین آدمی ایسے ہیں کہ اللہ قیامت کے دن ان کی طرف نظر رحمت نہیں فرمائے گا اور نہ ہی انہیں پاک کرے گا اور ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ کون لوگ ہیں؟ وہ تو برباد اور خسارے میں رہ گئے فرمایا ایک احسان جتلانے والا دوسرا تکبر کی وجہ سے شلوار تہبند وغیرہ ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا اور تیسرا جھوٹی قسم کے ساتھ مال بیچنے والا۔"
اسی طرح گاہگ کو اچھا نمونہ دکھا کر خراب مال دینا نہایت ذلیل اور نامناسب حرکت ہے، تجارتی مال میں خوبیوں کے ساتھ ساتھ جو خامیاں او ر عیب ہوں ان کا اظہار کر دینا چاہیے،اس کو چھپانا نہیں چاہیے،عیب دار چیز بیچنے کے بارے میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ بَاعَ عَيْبًا لَمْ يُبَيِّنْهُ لَمْ يَزَلْ فِي مَقْتِ اللَّهِ وَلَمْ تَزَلْ الْمَلَائِکَةُ تَلْعَنُهُ[41]
"جس نے عیب دار چیز عیب ظاہر ظاہر کئے بغیر فروخت کی وہ مسلسل اللہ کی ناراضگی میں رہے گا اور فرشتے مسلسل اس پر لعنت کرتے رہیں گے۔"
حرام چیزوں کے اشتہار سے اجتناب
اسلامی شریعت ہر قسم کے خیر ومصلحت کے امور کا حکم دیتا ہے اور ضرر رساں چیزوں کے استعمال سے منع کرتا ہے، اوراس کے اشتہارات سےبھی منع کرتا ہے۔ اس طرح سے تجارت جہاں ایک طرف منفعت متوقع ہوتی ہے تو حرام چیزوں کے اشتہار سے نقصان بھی ہوتا ہے جس کے منع پر اسلامی شریعت تاکید کرتا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ہے:
وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَآئِثَ [42]
’’آپ ان کے لئے پاک چیزوں کے حلال ہونے اور نجس اشیا کے حرام ہونےكو بیان کرتےہىں،،۔
اللہ تعالیٰ نے پاک چیزوں کو ان کے مفید ہونے کی وجہ سے حلال کیا ہے جب کہ نجس کو ان کے مضرہونے کی وجہ سے حرام ٹھہرایا ہے، اللہ تعالیٰ نے اشیا ء کے استعمال میں "حَلاَلاً طِيباً " کا لفظ استعمال کیا ہے جو روح اور جسم کے لئے اہم ہیں۔
اشتہارات کے ذریعے اشیا ء کے استعمال پر چونکہ ترغیب پیدا ہوتی ہے اس لئے حرام چیزوں کا اشتہار گویا ان حرام اشیاء کے استعمال پر ہی ترغیب ہے اور برائی وگناہ میں تعاون ہے۔اس قسم کے اشتہارات کی چند صورتیں یہ ہیں:
* شراب اور دوسرے منشیات یا اس کے باعث بننے والے اشیاءکے اشتہارات
- ایسے اشتہارات جو لوگوں کو سودی معاملات پر ابھارتے ہوں
- موسیقی کے مجالس کے اشتہارات
- غیر شرعی کاروبار کے اشتہار کے خدمات انجام دینا جو کہ برائی میں تعاون ہے
- انٹرنٹ پر فحش ویب سائٹس کا اشتہار وغیرہ
اشتہار فحش اور شہوانی جذبات ابھارنے والے نہ ہوں:
اسلام ہمیں پاک دامن اور بہترین اخلاق سے مزین ہونے کا حکم دیتا ہے اور نبی کریم ﷺکی بلند اخلاق کا اللہ تعالیٰ نے مدح فرمائی ہے:
وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ [43] "اور بے شک آپ اخلاق (حسنہ ) کے اعلیٰ پیمانہ پر ہیں"
اخلاق حمیدہ جس کا شریعت مطالبہ کرتا ہے وہ مخالف جنس کے ساتھ خلوت سے اجتناب، ایسی حرکات سے اجتناب کرنا ہےجس سے مخالف جنس کی خواہشات ابھرتے ہیں کیونکہ یہ سب مفسد اور فحاشی کے پھیلاؤ کے اسباب ہیں۔جس کسی کو اس قسم کے اشتہارات (خواہ صوتی ہوں یا سمعی و بصری ) کے ذریعے ان اختلاط اور فجور کے مناظر دیکھنے کو ملیں تو اس کے ذہن میں ان امور كے گُناہ ہونے كا تصور كمزور ہو جائے گا بلکہ ىہ امور زندگی كے معمول اور اعلیٰ تہذیب کے اخلاق تصور ہوتے جائیں گے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ایسے کاروبار والوں کے بارے میں سخت وعید فرمائی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ[44]
"جو لوگ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلانا چاہتے ہیں ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہوگا اور اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتے ہیں اور آپ نہیں جانتے۔"
آج کل کئی اشتہارات میں عورت کو سامان تجارت کے نمائش کا مرجع بنایا گیا ہے جس سےاس کی وقار اور عزت مجروح ہوتی ہے۔ لباس کے اشتہارات، صابن،تیل،شیمپو،زیورات، موٹر سائیکل ،مکانات وغیرہ کے اشتہارات میں عموماً ہم دیکھتے ہیں کہ مشتہر عورت کے حسن کی تشہیرسے گاہک کو متأثر کرنے کی کوشش كى جاتى ہے ۔ اسی طرح بعض الیکٹرانک میڈیا پر اشتہار کے لئے نرم اور سریلی آواز والی عورتوں کے ذریعے تجارت کو فروغ دینے کی کوشش کی جاتی ہے جس کے بارے میں قرآن کریم میں منع فرمایا ہے کہ ایسی آواز سے اجتناب کیا جائے جو لوگوں کے دلوں میں نفسانی خواہشات کے جذبات ابھارتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
يَا نِسَاء النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاء إِنِ اتَّقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَّعْرُوفاً، وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى [45].
"اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویو! تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو ا،گر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کرو تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے کوئی امید (نہ) پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔ اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جاہلیت جىسا اظہار تجمل اور زینت نہ دکھاؤ۔"
اشتہار میں دوسروں کے پراڈکٹس اور خدمات کو ناقص نہیں دکھانا چاہیے:
اسلامی شریعت اگرچہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کو منع نہیں کرتا لیکن دوسروں کے مال اور خدمات کی تذلیل کرکے انہیں ناقص ثابت کرنے کی کوشش کی بھی اجازت نہیں دیتا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
لاَ ضَرَرَ وَلاَضِرَارَ[46] "یعنی مومن نہ کسی کو ضرر پہنچائے گا اور نہ خود ضرر میں پڑے گا"
غیرشرعی عقائد وافعال کی اشتہار سے اجتناب:
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں میں صحیح عقیدہ راسخ کرنے کے لئے انبیاءکرام علیہ السلام بھیجے اس لئے اس قسم کے عقائد ونظریات کے اشتہارات سے اجتناب کرنا چاہىے جو اسلامی شریعت کے مخالف ہوں، یعنی شرکیہ افعال کے اشتہار یا ایسے مجالس جس میں قرآن وسنت کی توہین کی جا تی ہو یا جىسےنجومیوں،عاملوں جادوگروں اور جعلی پیروں کے اشتہارات وغیرہ۔ اردو اخبارات کے بعض سنڈے میگزین میں اکثر ان کے اشتہارات ہوتے ہیں جو نعوذ باللہ خدائی دعوے کرتے ہیں۔
دوسروں کو تکلیف پہنچانے والے اشتہارات سے اجتناب:
کئی اشتہارات عوام کے لئے ذہنی کوفت کا باعث بنتے ہیں۔ آئس کریم فروخت کرنے والے سائیکل اور موٹر سائیکل پر تیز آواز کی میوزک لگا کر گاہگوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح بڑے بڑے سائن بورڈ جو نہ چاہتے ہوئے بھی پڑھے جاتے ہیں جو آندھی یا طوفان کے وقت کسی حادثے کا سبب بنتے ہیں جو ایک طرف اسراف کے زمرے میں آتے ہیں تو دوسری طرف لوگوں کے ذہنی سکون کو ختم کرتے ہىں اس قسم کے خرچ کا بوجھ بھی گاہک سے سامان کی قیمت میں وصول کی جاتی ہے جو یقیناً ایک ظلم ہے اور اسراف کرنے والے کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّهُ لاَ يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ[47]
" اسراف نہ کرو بیشک اللہ تعالیٰ اسراف کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔"
اور الله تعالى کا یہ قول بھی ہے:
وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِيراً، إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُواْ إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ وَكَانَ الشَّيْطَانُ لِرَبِّهِ كَفُوراً[48]
" اسراف نہ کیا کرو بیشک اسراف کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب کا ناشکرا ہے۔"
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان "لاَضَرَرَ وَلاَضِرَارَ" بھی ایسی اشتہارات کی نفی کرتا ہے۔اس حدیث کی روشنی میں اشتہار پر خرچ کم کرکے اشیاءکی قیمت میں مناسب کمی لائی جاسکتی ہے جو گاہک کی زیادہ دلچسپی کا باعث ہو سکتا ہے۔ اشتہار میں موقع ومحل کا خیال رکھنا چاہیے:
اشتہارات جب موقع محل کے مناسبت سے شائع کئے جاتے ہیں تو وہ اپنے مقصد کے حصول میں بھی بارآور ثابت ہوجاتے ہیں اور عوام تکلیف اٹھانے سے بھی بچ جاتے ہیں مثلاً اشتہارات عام شاہراہوں سے فاصلے پر اور مضبوط ہوں جو نظر پر بوجھ نہ بنیں اور حادثات کا باعث بھی نہ ہوں،اس طرح تعلیمی اشتہارات تعلیمی اداروں کے نزدیک ہونے چاہیے ،صحت سے متعلق اشتہارات ہسپتال کے نزدیک اور دوسرے اشیاءکے اشتہارات بازار میں اپنے مناسب مقامات پر لگانے چاہیے۔
ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات میں بھی وقت کا خیال رکھنا چاہىے اور فیملی پرائم ٹائم پرایسے پروگرام کی شکل میں اشتہار نہیں دینے چاہیے جو بچے اور والدین ایک ساتھ نہیں دیکھ سکتے۔اسی طرح اخبارات میں شائع ہونے والے اشتہارات بھی نامناسب مقام پر دیے گئے ہوتے ہیں جس کے لئے ایک الگ اشتہاری صفحہ شامل کی جائے جو متعلقہ لوگ پڑھیں گے۔اس کے لیے کلاسیفائیڈ اشتہارات کا صفحہ مناسب ہے۔
اشتہار کے الفاظ عام فہم ، واضح اور دھوکہ دہی سے پاک ہونے چاہیے:
ایسے اشتہارات سے گریز کرناچاہیے جس میں اس چیز کا اصل اثر اشتہار میں دئے گئے دعوے سے مختلف ہو، خاص کر صحت سے متعلق اشیاء کی۔اسی طرح اشتہار کے الفاظ عام فہم ہونے چاہیے تاکہ بعدمیں صارف اپنے عمل پر نہ پچھتائے اور نہ کوئی غیر متوقع نقصان اٹھائے۔ ایسے اشتہارات اکثر ٹیلی کام کمپنیوں میں بہت عام ہیں جوصارف کو غیر واضح پیکیج میں پھنسا لیتے ہیں جب کہ صحت سے متعلق خلاف حقیقت اشتہار کی مثال انڈیا کی ایک کمپنی کی تیار کردہ میجی سوپ کے بارے میں اشتہار"Happy Heart, Happy Soup"کا دیا گیا تھا لیکن تجزئیے سے پتہ چلا ہے کہ اس میں نمک کی کافی مقدار شامل ہوتی ہے جو جسم میں سوڈیم خارج کرکے بلند فشار خون(BP) کا سبب بنتا ہے نہ کہ Happy Heart كا باعث بنتا ہے۔حال ہی میں پنجاب فوڈ اتھارٹی نے پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں انرجی وکولا ڈرنکس پر مکمل پابندی عائد کی ہیں جس کی وجہ یہ بیان کی ہیں کہ کاربونیٹڈ کولا اور انرجی ڈرنکس میں موجود فاسفورک ایسڈ اور کیفین بچوں کی نشونما خصوصا ً ہڈیوں کے لیے نقصان دہ ہے۔اسی طرح دودھ کے نام پر تیار وفروخت ہونے والی اکثر پروڈکٹس ٹی وائیٹنر (Tea Whiteners) پر مشتمل ہیں جو نہ تو دودھ ہیں اور نہ ہی دودھ کا متبادل ۔
صارفین میں تعیشات کی زیادہ سے زیادہ طلب پیدا کرنے سے پرہیز کرنا:
بہت سی چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے بغیر بھی انسان کی زندگی بڑے آرام سے گزر جاتی ہے۔ ان تعیشات کا استعمال صرف لطف اٹھانے اور عیش پرستی کے لئے ہوتا ہے۔ علم معاشیات میں ان اشیاء و خدمات کو تعیشات یا (Luxuries) کہا جاتا ہے۔جب ایسی اشیاء کی ایڈورٹائزنگ کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں عوام الناس میں اس کی ڈیمانڈ پیدا ہوتی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام بھی اس ڈیمانڈ کی تکمیل کے لئے مال دولت کو حلال وحرام اور ہر جائز و ناجائز طریقے سے حاصل کرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دنیا پرستی ، دولت کی ہوس اور ایک دوسرے سے معاشی مقابلے کی جو فضا پیدا ہوئی ہے اس میں بلاشبہ ایڈورٹائزنگ کا بڑا ہاتھ ہے۔ اگر کوئی غریب آدمی اپنی اور اپنی اولاد کی خواہشات پوری نہ کرسکے تو وہ مایوسی (Frustration) ، احساس کمتری اور بے چارگی کا شکار ہو جاتا ہے جس کے نتیجے میں بہت سے نفسیاتی،معاشی اور معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں۔لہذا اشتہارات میں ایسی سرگرمیوں کو کم سے کم اہمیت دی جانی چاہىے۔
خلاصہ بحث
اسلام میں اخلاقیات کا بڑا واضح تصور موجود ہے اور اخلاقیات کی بنیاداسلام کے تصور" عدل واحسان "سے مأخوذہے۔ اخلاقیات کا سب سے کم درجہ یہ ہے کہ ہر انسان اپنے اوپرلازم ذمہ داریاں صحیح طرح سرانجام دے اورکسی بھی فرد بشر کو تکلیف نہ دے۔ اس وقت بھی اگر ہم مسلمانوں میں اخلاقی معیار گِرنے کے اسباب کا جائزہ لیں تو اس کا بنیادی سبب اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی اور فکر آخرت کا تصور کمزور پڑنا ہے۔ موجودہ زمانے میں ہر شخص کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے زِیر کفالت لوگوں میں تصور آخرت کو بیدار کرے، تاکہ مسلمانوں کا معیارِ اخلاقیات بلند تر ہو اور اس مقام پر پہنچ سکے جس میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ تجارتی معاملات اور لین دین کرتے وقت دوسرے انسانوں کے حقوق کی ادائیگی کی زیادہ فکر کریں۔ خوف خدا اور فکر آخرت کے تصور کے تحت اسلام معاشرے کے ہر فرد سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ فرائض یعنی ذمہ داریوں کو پہلی ترجیح دے اور حسنِ اخلاق کی بنیاد پر کیے جانے والے دیگر کاموں کو اس کے بعد پورا کریں ، چنانچہ فرائض اور واجبات میں غفلت وکوتاہی کرکے اخلاقیات کو پوارا کرنے والے کا شمار شریعت میں افراط وتفریط کرنے والوںمیں ہوتا ہے۔ یوں وہ لوگ جو بنیادی کام کو پورا نہ کریں اور وہ کام جو ان پر لاز م نہیں، اس کو بہت تن دہی سے انجام دیں۔کاروباری اخالاقیات کا تصور آج کے معاشی نظام کا ایک ناگزیر حصہ بن چکا ہے۔ دنیا بھر جس طرح تعلیم دینے والے اداروں اور یونیورسٹیوں نے اس کو باقاعدہ نصاب میں شامل کیا ہے۔ اسی طرح عام کاروباری طبقہ کے لیے اس سے استفادہ کرنے کی ضرورت ہیں ۔دورحاضر میں مصنوعات کی تشہیر تجارتی فروغ کے اچھے وسائل میں سے ہے جس کے بغیر معاشی اور تجارتی استحکام مشکل ہے لیکن ساتھ ہی اشتہار کے ذریعے صارفین كا استحصال کیاجانا بھی معمول بن چکا ہے اس لئے ضروری ہے کہ اس کے لئے قواعد وضوابط وضع کیے جائیں تاکہ صارفین کے حقوق کو تحفظ دیا جاسکے اور انہیں اپنے حقوق کا ادراک حاصل ہوجائے تاکہ کوئی ان کے ساتھ ظلم نہ کریں اور ساتھ ہی تاجروں کے پیشے کو مناسب ترقی دے کرانہیں دنیا وآخرت میں عزت کا مقام حاصل ہو جائے ۔
اسلامی ملک ہونے کے ناطے اس کے لئے قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں قانون سازی کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ملک کا معاشی نظام تاجروں کے لئے سازگار بن جائے اور دوسرے ممالک سے بھی سرمایہ کار یہاں آکر سرمایہ کاری کریں کیونکہ درست قانون سازی اور اس پر سخت عمل درآمد سے تاجر اور صارف دونوں کے حقوق کا یقینی تحفظ ہوگا۔ لیکن ساتھ ہی اگر کوئی فرد یا کمپنی ان قوانین کے خلاف ورزی کا مرتکب پائے جائیں تو ان کے خلاف فوراً قانونی کاروائی بھی ہونی چاہىے۔
حوالہ جات
- ↑
القریش،۱۰۶: ۱۔۲
- ↑
النساء، ۴: ۲۹
- ↑
ترمذى، ابوعیسی محمد بن عیسی ،السنن، كتاب البيوع،باب ما جاء فى التجار مکتبۃالمعارف للنشر والتوزیع،ریاض، رقم الحدیث(1224)
- ↑
أبو داود ،سليمان بن الأشعث ،السنن ،کتاب الادب، المکتبہ العصریہ ،بیروت،رقم الحدیث 4996
- ↑
ابن ماجہ، أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، السنن ،کتاب التجارات، دار إحياء الكتب العربية، قاہرہ،رقم الحدیث 2145
- ↑
آل عمران، ۳: ۱۶۴
- ↑ بخاری، أبو عبدالله ،محمد بن إسماعيل بخاري،( 1422ھ)، الجامع الصحیح، باب صفۃ النبی ﷺ، دار طوق النجاۃ ،رقم الحدیث 3559
- ↑
النساء،۴: ۲۹
- ↑
آل عمران،۳: 110
- ↑
الاعراف،۷: 157
- ↑
القلم،۶۸: ۴
- ↑
السيوطي،عبد الرحمن بن أبي بكرجلال الدين،الدر المنثورفی التفسیر بالماثور، تفسیر زیر آیت سورۃ القلم 4 ۔
- ↑
احمد بن خنبل،ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني،المسند، مؤسسہ الرسالہ، بیروت،لبنان، ۱۹۹۹ء،، حدیث 8952،
- ↑
العابد احمد عبیده داود,المعجم العربى الأساسى ، بیروت ,لاروس،862
- ↑ إبراہىم مصطفى ـ المعجم الوسيط، بیروت ، دار احیاء التراث العربی،631: 2
- ↑ ایضاً
- ↑
لموسوعۃ الفقہیۃ الكويتىۃ,،وزارة الأوقاف والشئون الإسلامیہ،الكويت، ۱۴۰۴ھ261: 5
- ↑ المعجم العربى الأساسى:862
- ↑
الاعراف،۷: ۳۲
- ↑ البقرہ،۲: ۲۷۵
- ↑
القرطبى،ابوعبداللہ محمد بن احمد,الجامع لأحكام القرآن,القاہره ،دار الحديث، ،2002ء306: 2,
- ↑
ابن حجرعسقلانی،احمد بن علی ابن حجر، فتح الباري شرح صحيح البخاري، دار التقوى للنشر والتوزيع، القاہرة.مصر ،4:357
- ↑ مسلم بن الحجاج , الجامع الصحیح، كتاب الإيمان، باب من غش فليس منا،دار إحياء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث(۱۰۲)
- ↑ آپ دحیہ بن خلیفہ الکلبی بن فروہ بن فضالہ بن زید بن امراء القیس بن خزرج ،صحابی تھے ۔ ۶ھ میں شاہ روم قیصر کے پاس آپ ﷺ کے قاصد کی حیثیت سے گئے تھے ۔ غزوات میں شریک رہے ۔ جبرئیل ؑ امین ان کی صورت میں آپ ﷺ کے پاس وحی لاتے تھے ۔معاویہ ؓ کے دور میں فوت ہوئے۔(ابن الاثیر،اسد الغابہ۱: ۳۵۵، بیروت ،دار احیاء التراث)
- ↑ ابن کثیر، ابو الفداء اسماعیل بن کثیر،مترجم محمد جونا گڑھی،تفسیر سورہ الجمعہ آیت۴ ،۱۱: ۴۶۷، کراچی ،حسن القرآن پبلشر
- ↑ القرطبی،الجامع لأحكام القرآن۹: ۲۵۳۔ ابن عاشور,التحرير والتنوير۱۱: ۲۲۸
- ↑ القرطبی،الجامع لأحكام القرآن۹: ۲۵۳۔
- ↑ الحج،۲۲: ۲۲
- ↑ بخارى، الجامع الصحیح،كتاب الأطعمہ ، باب الأكل في إناء مفضض ،رقم الحدیث 5426
- ↑ مسلم،الجامع الصحیح،كتاب الأشربۃ، باب آداب الطعام والشراب وأحكام،رقم الحدیث5386
- ↑ الأنعام،۶: ۱۵۶
- ↑ ترمذى،السنن،كتاب البيوع،باب ما جاء فى التجار،رقم الحدیث1209 ۔البانی نے اسے ضعیف کہا ہے
- ↑ ترمذى،السنن، كتاب البيوع ، باب ما جاء فى التجار،رقم الحدیث(۱۲۱۰)
- ↑ بخارى، الجامع الصحیح،كتاب البيوع، حدیث 2079؛ مسلم،الجامع الصحیح، كتاب البيوع، باب الصدق في البيع والبيان رقم الحدیث(1532
- ↑ الغزالی،محمد بن محمد ابوحامد، إحياء علوم الدين,الدار البيضاء , ۳: ۶۹
- ↑ مسلم، الجامع الصحیح،كتاب الإيمان، باب بيان أن الدين النصيحہ،رقم الحدیث56
- ↑ امام احمدبن حنبل، ابوعبدالله الشیبانی،المسند،رقم الحدیث(۱۶۰۱۳)
- ↑
مصطفی الخن ،ڈاکٹر, الفقہ المنہجى, دمشق ،دارالقلم للطباعہ والنشر والتوزیع،۱۹۹۲ء4: 22
- ↑ احمد بن حنبل،المسند، حديث السيدة عائشہ رضى الله عنہا حدیث(24514)،ترمذى،السنن، كتاب البيوع ، رقم الحدیث(1285)
- ↑
ترمذی ،السنن، ابواب البیوع، رقم الحدیث 1211
- ↑
ابن ماجہ،السنن، کتاب التجارات،رقم الحدیث 2247
- ↑ ا لأعراف، ۷: ۱۵۷
- ↑ القلم،۶۸: ۴
- ↑ الاسراء،۱۷: ۷۰
- ↑ سورۃالأحزاب:23،33
- ↑ مالك بن انس، الموطا، كتاب الأقضيۃ، باب القضاء فی المَرْفِق،حدیث 1424،الامارات العربیہ المتحدۃ، موسسۃ زید بن سلطان النہیان، 2004ء۔البانى نے اسےصحيح حدیث کہا ہے۔
- ↑ المائدۃ،۵: ۳۱؛ الأنعام،۶: ۱۴۱
- ↑ الاسراء،۱۷: ۲۶۔۲۷