3
2
2019
1682060040263_506
27-55
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/27/25
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/27
Relationship science Islam Islam and science religion and science
اسلام اور سائنس میں موافقت یا مخالفت کا موضوع موجودہ دور کا اہم مسئلہ ہے ۔ علمی حلقوں میں اس کے متعلق مختلف نقطہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ۔[1] اس مقالےمیں اسلام اور سائنس کے مابین تعلق کی نوعیت سے بحث کی گئی ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ ان کا آپس میں کیاتعلق ہے؟
مذہب اور سائنس میں کشمکش کاتاریخی جائزہ
پہلا سبب: مغربی دنیا کی مخالفت
مذہب اور سائنس کے درمیان معاندانہ رویے کی ایک بڑی وجہ اہل مغرب کا مادی طرز فکرہے جس کے لوازم میں سے ہے کہ قدرت کی نشانیوں سے عبرت حاصل کرنے اور خالق کی طرف متوجہ ہونے کی بجائے اسکی نشانیوں کا مذاق اڑایا جائے ۔موریس بکائیے مغرب کے اس رویے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "انسان علم کی شاہراہ پر جیسے جیسے آگے قدم بڑھاتا ہے' خصوصا انتہائی چھوٹی اشیاء کے بارے میں' اس کی معلومات میں جو اضافہ ہوتا ہے اس سے ایک خالق کے وجود کی تائید میں دلائل زیادہ قوت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں۔ ان حقائق سے دوچار ہونے کے بعد بجائے اسکے کہ انسان میں عجزکی صفت پیدا ہو اس میں گھمنڈ پیدا ہو جاتا ہے۔ وہ خدا کے تصور کا اسہتزاء کرنے لگتا ہے اور اس طرح سے وہ کسی بھی ایسی چیزکو جو اس کو عشق و نشاط سے علیحدہ کر دے، کچلتا ہوا آگے بڑھنے لگتا ہے۔ یہ اس مادہ پرست سماج کا وہ مثالی پیکر ہے جو اس وقت مغرب میں نشوونما پا رہا ہے"۔[11]
دوسرا سبب: اہل اسلام کی مخالفت
واقف نہ تھے) نے یہ غلط تصور قائم کر لیاکہ جو فلسفہ مدرسے میں پڑھایا جاتا ہے وہ قرآن و حدیث سے
ماخوذ ہے۔ مدرسے کے روائتی انداز [12]کی وجہ سے انہوں نے اس حقیقت کوجاننا کبھی ضروری ہی نہیں سمجھا کہ یہ حقیقت میں یونانی فلسفہ ہے۔ اور اس فلسفے کے بعض تصورات سائنسئ نظریات کے خلاف ہیں۔اس غلط تصور کا کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب بھی سائنس کی کوئی نئی ایجاد ان کے سامنے آئی جو یونانی فلسفہ کے مخالف تھی تو انہوں نے سمجھاکہ یہ نظریہ اسلام کے خلاف ہےجوکہ ایک بالکل غلط معیار تھا۔ اور اس طرح کی فکر کو اپنانا غلط سوچ اور اصلیت سے بے خبری کی بنا پر تھا۔[13]
اسلام دنیا کا واحد مذہب ہے جس نے عقل پر پہرے بٹھانے کی بجائےعالمِ ارض و سما میں غورو فکر کرنے اورتسخیر کائنات کو بندہ مومن کی بنیادی صفات میں سے شمار کیا ہے قرآن کریم میں بے شمار ایسی آیات پائی جاتی ہیں جن میں لیل ونہار کی گردش، آسمان وزمین کی تخلیق، سمندروں میں کشتیوں کے چلنے اور ہواؤں کے آنے جانے میں بھرپور انداز میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔خالد خان خلجی اسلام اور سائنس کے تعلق پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں" قرآن کریم باربار ملکوت السموات و الارض میں غور وفکر ،تدبر اور تسخیر کی تاکید کرتا ہے علم اور حکمت کے حصول پر اسلام کا زور اور وسیع النظری دیکھ کر سائنس بھی اسلام کی مخالف نہیں بلکہ مظہر اسلام اور خادم اسلام ہے جوں جوں دنیا میں ترقی ہو گی سائنس اور حکمت اسلام کو منکشف کرتا رہے گا"۔ [14]موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ " قرآن جہاں ہمیں سائنس کو ترقی دینے کی دعوت دیتا ہے وہاں خود اس میں قدرتی حوادث سے متعلق بہت سے مشاہدات و شواہد ملتے ہیں اور اس میں ایسی تشریحی تفصیلات موجود ہیں جو جدید سائنسی مواد سے کلی طور پر مطابقت رکھتی ہیں۔ یہودی، عیسائی تنزیل میں ایسی کوئی بات نہیں۔[15]
اسلام کے قوانین انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور سائنسی قوانین فطرت کی دریافت کا نام ہے جو کائنات میں غیر متبدل شکل میں محفوظ ہیں لہذا ہر سائنسِ حقیقت اور صداقت، دین فطرت کا عین تقاضا ہے اسکی ضد اور مخالف نہیں یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال میں مسلمانوں نے اسلام کے اس عطا کردہ تصور کے تحت نہ کسی سائنسی دریافت کی مخالفت کی اور نہ کسی سائنسی حقیقت کی دریافت پر کسی ایک فردکو سزا دی گئی۔ مسلم سائنس دانوں نے سائنس کے حقائق معلوم کیے اور ایجادات بھی کیں اور یورپ نے ان سے سائنس سیکھی لیکن نہ انکی مخالفت کی گئی اور نہ سائنس دانی کی وجہ سے مسلم سائنسدانوں کے اسلامی عقائد میں فرق آیا یہ امر واضح دلیل ہے کہ سائنس اور اسلام میں توافق ہے تخالف نہیں البتہ مسلم سائنسدانوں اور ان کے شاگرد یورپی سائنسدانوں کے بنیادی اصول میں فرق تھا جس کی وجہ سے اسلامی سائنس ان خرابیوں سے محفوظ رہی جو موجودہ یورپی سائنس کو لاحق ہوئیں۔[16]
موریس بکائیے لکھتے ہیں کہ"اسلام کے نقطہ نظر سے مذہب اور سائنس کی حیثیت ہمیشہ دو جڑواں بہنوں کی سی رہی ہے۔شروع ہی سے اسلامی تمدن کے دور عروج میں سائنس نے حیرت انگیز ترقی کی ہے۔جس سے نشاۃ ثانیہ سے قبل خودمغرب نے بھی استفادہ کیا ہے موجودہ سائنسی معلومات نے قرآن کریم کی آیات پر جو روشنی ڈالی ہے اس سے صحیفوں اور سائنس کے درمیان مقابلہ کے لیے فہم و ادراک کی ایک نئی راہ نکل آئی ہے۔ پہلے یہ آیتیں ان معلومات کے عدم حصول کی بناء پر مبہم تھیں جو ان کی توضیح و تشریح میں ممد و معاون ہوسکتی ہیں"۔ [17]مولانا مودودی مذہب اور سائنس میں امتزاج کو اسلام کے وقار اور عالمگیریت کے خلاف نہیں سمجھتے ہیں۔ان کے نزدیک اسلام سائنس کو درست سمت میں لے جانے کے لیے ھادی کا کردار ادا کرتا ہے۔ لکھتے ہیں کہ " ہم مذہب اور سائنس کے امتزاج کو بے معنی سمجھتے ہیں۔ ہمارے نزدیک تو حقیقی مذہب وہ ہے جو سائنس کی روح، اسکی رہنما طاقت بن جائے۔ اسلام درحقیقت ایساہی مذہب ہے اور آج اسکو سائنس کی روح بننے سے اگر کوئی چیز روکے ہوئے ہے تو وہ اس کا اپنا اندرونی نقص نہیں ہے بلکہ اس کے علم برداروں کی غفلت اور موجودہ سائنس کے علم برداروں کا جہل اور جاہلانہ تعصب ہے۔ یہ دو اسباب دور ہو جائیں، پھر یہ سائنس کے قالب میں جانہی بن کر رہے گا"۔ [18]"سائنس کی ترقی اسلام کی صداقت پر مہر ثبت کرتی ہے ایسی کوئی ترقی نہیں جس کا اسلام میں ذکر نہیں۔ اسلام کے سوا ہر مذہب سائنس سے متصادم و خائف ہے حق کبھی خائف یا مسخ نہیں ہو سکتا"۔[19]
علوم انسانی کے ارتقائی مراحل کی طرف نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ سائنسی ایجادات اور نمایاں سائنسی کارناموں کے میدان میں مسلمان سب سے پیش پیش رہے ہیں۔ ڈاکٹر غلام قادر لون لکھتے ہیں کہ علوم شرعیہ کی نشرواشاعت میں مسلمانوں نے جس جانفشانی، عرق ریزی، اور دیدہ وری کا مظاہرہ کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے مگر یہ ان کا دینی فریضہ تھا جس کی پشت پر خدمت دین کا جذبہ بھی کار فرما رہا ہے۔حیرت اس پر ہے کہ مسلمانوں نے دنیاوی علوم میں بھی اسی دیدہ وری، تحقیق و تفتیش اور ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے جو علوم دینیہ کےلیے خاص تھی۔ تاریخ، جغرافیہ، حیاتیات، کیمسٹری، فزکس، طب اور ہئیت اور ریاضی جیسے علوم میں مسلمانوں کے شاندار کارناموں کو پڑھ کر عقل چکرا جاتی ہے۔ [20]جارج سارٹن (George Sarton)مسلمانوں کے دسویں صدی کے نصف اول کے کارناموں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "بنی نوع انسان کا اہم کام مسلمانوں نے سرانجام دیا ۔ سب سے بڑا فلسفی الفارابی مسلمان تھا، سب سے بڑے ریاضی دان ابو کامل اور ابراہیم بن سنان مسلمان تھے ۔سب سے بڑا جغرافیہ دان اور قاموسی المسعودی مسلمان تھا اور سب سے بڑا مورخ الطبری بھی مسلمان ہی تھا"۔ [21]آرنلڈ ٹائن بی(Arnold Toynbee) ابن خلدون کو یوں خراج تحسین پیش کرتا ہے کہ جہاں تک فلسفہ تاریخ کا تعلق ہے عربی ادب جس عظیم آدمی کے نام سے روشن ہے وہ ابن خلدون ہے ، عیسائی دنیا اس کی نظیر نہیں پیش کر سکتی حتی کہ افلاطون، ارسطو وغیر ہ بھی اس خصوص میں اس کے ہم پلہ نہ تھے۔[22]
اسلام اور سائنس میں ہم آہنگی کے متعلق سائنسدانوں کی آراء
ذیل میں چند ایک سائنسدانوں کی اسلام کے متعلق آراء کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اسلام اور سائنس میں تعلق کا بآسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے۔*
-
فرانس کے مشہور شہنشاہ اور ہیرو جرنیل نپولین بونا پارٹ نے کہا تھا"وہ وقت دور نہیں جب میں دنیا کے تمام تعلیم یافتہ ، داناو مہذب انسانوں کو قرآن کی صداقتوں پر دوبارہ جمع کروں گا۔ قرآن وہ واحد الہامی کتاب ہے جس کی تعلیمات میں وہ صداقت ہے جو دنیا کو مسرت سے ہم کنار کرسکتی ہے"۔
-
ڈاکٹر بینا ٹسیٹ، جن کا تعلق پیر س سے ہے، 1935ء میں مسلمان ہوئے ا ور اسلامی نام علی
*
-
ڈاکٹر لی آن۔ ایم۔اے، پی۔ ایچ۔ڈی، ایل۔ ایل۔ڈی برطانیہ کا ایک سائنسدان تھا۔ اسلام قبول کرنے کے بعد اپنا نام ہارون مصطفی رکھا، کہتا ہے۔"اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسکی بنیاد عقل پر رکھی گئی ہے۔عقل انسانی دماغ کی ایک اہم قوت ہے جسے کلیسا خاطر میں نہیں لاتا لیکن اسلام کا یہ حکم ہے کہ کسی بات کو قبول کرنے سے پہلے اسے عقل کے پیمانے پر پرکھو۔ اسلام اور صداقت دو مترادف الفاظ ہیں اور کوئی شخص عقل کی مدد کے بغیر صداقت تک نہیں پہنچ سکتا"۔[25]
-
ڈاکٹر مارقس ایک جرمن صحافی تھا اور اسلام لانے کے بعد حامد مارقس کہلانے لگا، لکھتا ہے " اوّلا میں اس اخلاقی و روحانی انقلاب سے متاثر ہوا جو اسلام نے پیدا کیا دوم اس حقیقت سے کہ اسلامی تعلیمات سائنس کی جدید تحقیقات سے متصادم نہیں"۔[26]
-
موریس بکائیے لکھتے ہیں" کسی بشر کے لیے جو ساتویں صدی عیسوی میں بقید حیات ہو ' قرآن
اسلامی تعلیمات اور سائنسی نظریات میں تضاد کا علمی جائزہ
*
ٹورانٹو یونیورسٹی میں شعبہ اٹانومی کے پروفیسرڈاکٹر کیتھ ایل مور (Dr. Keith L.Moore) لکھتے ہیں:
“The verse 9 of surah 32 tells us that the faculties of hearing, seeing, and feeling are bestowed upon us in this order. Embryologists confirm that this is exactly the order of development of special senses. Moore further confirms that the primordial of the internal ears appear before the beginning of the eyes, and that the brain, which is the site of understanding, differentiates last”.[35]
"سورۃ السجدہ کی آیت نمبر 9 اس بات کی وضاحت کرتی ہے کہ مخصوص حس سامعہ، حس باصرہ اور حس لامسہ بالترتیب نمو پاتی ہیں ۔ایمبرالوجی کے ماہرین کے مطابق انسانی حواس مذکورہ ترتیب سے ہی وجود میں آتے ہیں پروفیسر مور تصدیق کرتے ہیں کہ کانوں کے اندرونی عضویات آنکھوں کی ابتدا سے
پہلے ظاہر ہوتے ہیں پھر دماغ (سمجھنےکی صلاحیت) اسے ممتاز کرتی ہے"۔
“The realization that the human embryo develops in stages was not discussed and illustrated until the 15th century. After the microscope was discovered in the 17th century by Leuven Hook, descriptions were made of the early stages of the chick embryo. The staging of human embryos was not described until the 20th century. Streeter (d.1941) developed the first system of staging which has now been replaced by a more accurate system proposed by O'Rahilly (d.1972)”. [36]
"حیاتیاتی نشوونما کی مرحلہ وار تخلیق کےمتعلق پندھرویں صدی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی ۔بطن مادر میں انسان کے حیاتیاتی نشوونما کے یہ مدارج معلوم کرنے کا باقاعدہ سائنسی نظام سب سے پہلے 1941ء میں سٹریٹر (Streeter)نے ایجاد کیا جو بعد ازاں 1972ء میں O, Rahilly کے تجویز کردہ نظام کے ذریعےزیادہ بہتر اور صحیح شکل میں بدلا گیا اور اب اکیسویں صدی کے آغاز تک یہ نظام مرحلہ وار تحقیق کے بعد بھرپور مستحکم ہو چکا ہے" مگر قرآن مجید کا ان مدارج کو اس ترتیب سے بیا ن کرنا ایک ناقابل انکار معجزہ ہے جس کی جدید سائنس بھی معترف ہے۔
مندرجہ بالا سائنسی تحقیقات سے واضح ہوتا ہے کہ سائنسی نظریات نہ صرف قرآن کی تصدیق کرتے ہیں بلکہ سائنسی تحقیقات کے لیے قرآن رہنما کا کردار ادا کرتا ہوا نظر آتاہے۔*
قرآن کریم کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں صرف آفاق کے مشاہدے کے ضمن میں کم و بیش سات سو آیات نازل ہوئی ہیں اور بے شمار سماوی حقائق سے استشہاد کیا گیا ہے۔[37] مظاہر فطرت میں غوروفکر اور تسخیر کائنات کے متعلق چند آیات بطور نمونہ ذیل میں پیش کی جاتی ہیں:
اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِىْ تَجْرِيْ فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنَ السَّمَاۗءِ مِنْ مَّاۗءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ كُلِّ دَاۗبَّةٍ ۠ وَّتَـصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَاۗءِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ
لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ[38]
"آسمانوں اور زمین کی پیدائش، رات دن کا ہیر پھیر، کشتیوں کا لوگوں کو نفع دینے والی چیزوں کو
لئے ہوئے سمندروں میں چلنا، آسمان سے پانی اتار کر، مرده زمین کو زنده کردینا، اس میں ہر قسم کے جانوروں کو پھیلا دینا، ہواؤں کے رخ بدلنا، اور بادل، جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں، ان میں عقلمندوں کے لئے قدرت الٰہی کی نشانیاں ہیں"
اَللّٰهُ الَّذِيْ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا ثُمَّ اسْتَوٰى عَلَي الْعَرْشِ وَسَخَّرَ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ۭ كُلٌّ يَّجْرِيْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّى[39]
"اللہ وه ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند کر رکھا ہے کہ تم اسے دیکھ رہے ہو۔ پھر وه عرش پر قرار پکڑے ہوئے ہے، اسی نے سورج اور چاند کو ماتحتی میں لگا رکھا ہے۔ ہر ایک میعاد معین پر گشت کر رہا ہے"
وَسَخَّــرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاۗىِٕـبَيْنِ ۚ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّهَارَ[40]
"اسی نے تمہارے لیے سورج چاند کو مسخر کردیا ہے کہ برابر ہی چل رہے ہیں اور رات دن کو بھی تمہارے کام میں لگا رکھا ہے"
وَهُوَ الَّذِيْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْكُلُوْا مِنْهُ لَحْمًا طَرِيًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْهُ حِلْيَةً تَلْبَسُوْنَهَا ۚ وَتَرَى الْفُلْكَ مَوَاخِرَ فِيْهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهٖ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ[41]
"اور دریا بھی اسی نے تمہارے بس میں کر دیے ہیں کہ تم اس میں سے (نکلا ہوا) تازه گوشت کھاؤ اور اس میں سے اپنے پہننے کے زیورات نکال سکو اور تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس میں پانی چیرتی ہوئی (چلتی) ہیں اور اس لیے بھی کہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور ہوسکتا ہے کہ تم شکر گزاری بھی کرو"
اَلَمْ يَرَوْا اِلَى الطَّيْرِ مُسَخَّرٰتٍ فِيْ جَوِّ السَّمَاۗءِ ۭ مَا يُمْسِكُهُنَّ اِلَّا اللّٰهُ ۭ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يُّؤْمِنُوْنَ[42]
اِنَّ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَاٰيٰتٍ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ[46]
"آسمانوں اور زمین میں ایمان داروں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں"
ضمن میں کس طرح قرآنی حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔
کائنات کی وسعت پذیری: قرآن اور جدید سائنس کے تناظر میں
بیسویں صدی کے شروع تک کائنات کے جمود کا نظریہ قائم تھا یہاں تک کہ 1915ءمیں جب آئن سٹائن نے اپنا نظریہ اضافت پیش کیا تو اسے نظریہ جمود پر اس قدر یقین تھا کہ اس نے اس نظریے کے متوازی مشہور عالم تخلیقیاتی مستقل(Cosmological Constant) کو متعارف کرواتے ہوئے اپنے نظرئیےمیں ممکنہ حد تک تبدیلی کر دی۔1922ء میں روسی ماہر طبیعات اور ریاضی دان الیگزنڈر فرائڈ مین (Alexander Friedman)نے پہلی بار کائنات کی وسعت پذیری کا نظریہ پیش کیا جسے 1929ء میں ایڈون ہبل نے سائنسی بنیادوں پر پروان چڑھایا یوں مرحلہ وار سائنسی تحقیقات کے بعد بالآخر 1965ء میں دو امریکی ماہرین طبیعات (آرنو پنزیاس اور رابرٹ ولسن ) [48]نے اسے ثابت کر دیا۔
نظام ِ شمسی میں سائنسی تحقیقات اور قرآنی نظریہ
نظام شمسی میں سائنس کے ارتقائی مراحل سے گزرنے کے بعد جو نتائج برآمد ہوتے ہیں وہ
کسطرح قرآنی حقائق سے مطابقت رکھتے ہیں ذیل میں ملاحظہ ہوں۔*
-
فیثا غورث وہ پہلا شخص ہے جس نے یہ نظریہ قائم کیا کہ سورج ساکن ہے جبکہ زمین اس کے گرد گردش کرتی ہے۔ تقریبا ایک سو سال تک اس نظریے کا دور دورہ رہا جو بعد میں ختم ہو گیا۔
-
فیثا غورث کے بعد بطلیموس نے دوبارہ سے زمین کے ساکن ہونے اور سورج کا اس کے گرد گردش کرنے کا نظریہ پیش کیا جس کو زبردست پذیرائی ملی ۔یہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا بلکہ بطلیموس نے ارسطو کے نظریے ہی کو فروغ دیا تھا۔ بطلیموس نے زمین کے گرد سورج کی حرکت سے لوگوں کو عملی طور پر آگاہ کیا۔ سکونِ زمین کا نظریہ بطلیموس کے نام سے مشہور ہوا۔ اُس نےاس نظریے کی وضاحت اپنی کتاب "المجسطی " (Almagest) میں کروائی۔ اس کے خیال میں زمین کائنات کا مرکز ہے اور تما م سیارے زمین کے گرد گھوم رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے مدار میں بھی کسی ان دیکھی طاقت کے گرد گھوم رہے ہیں۔بطلیموس کا یہ نظریہ سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں خاصا مقبول رہا اور عیسائی مذہب کے حصے کے طور پر متعارف رہا۔
-
اسلامی اندلس کے نامور سائنسدان ابو اسحق ابراہیم بن یحیی زرقالی قرطبی (Arzachel) نے بطلیموس کے نظریے کو دلائل و براہین کے ساتھ رد کر کے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ بطلیموسی نظریہ تقریبا ایک ہزار سال سےعیسائی دنیا میں عقیدے کی حیثیت اختیا ر کر چکا تھا۔زرقالی نے 1080 ء میں سورج اور زمین دونوں کے محو حرکت ہونے کا نظریہ پیش کیا۔ اس تھیوری کے مطابق زمین اور سورج دونوں میں سے کوئی بھی مرکز کائنا ت نہیں ہےاور
-
زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔
-
کوپر نیکس (1473ء سے 1543ء ) نے سولہویں صدی کے آغاز میں بطلیموس کے نظریے کو باطل قرار دے دیا۔ بطلیموسی نظریہ چونکہ عیسائیت میں عقید ے کی شکل اختیا ر کر چکا تھا اس لیے اس کے باطل ہونے سے عیسائی دنیا میں بہت بڑا دھچکا لگا۔
-
ٹیکو براہی نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج اور چاند دونو ں زمین کے گرد حرکت کر رہے ہیں جبکہ باقی پانچوں سیارے سورج کے گرد گردش کر رہے ہیں۔ یوں سولہویں صدی میں سائنس ایک دفعہ پھر خطا ء کی طرف چل پڑی۔ٹیکو براہی کا یہ نظریہ بطلیموس اور کوپر نیکس کے نظریے کا بے تکا اجتماع تھا۔
-
اٹلی کے سائنسدان گلیلیو نے 1609 ءمیں دور بین ایجاد کر کے کائنات کا مشاہدہ کیا تو ماضی کے تما م نظریات یکے بعد دیگرے مسترد ہو گئے ۔ کوپر نیکس کا نظریہ قدرے درست تھا۔
-
گلیلیو کے بعد جوہانز کیپلر نے ٹیکو براہی کے نظریا ت کا مشاہدہ کیا اس نے کوپر نیکس کے نظریے میں موجود سقم دور کر کے اس کو درست قرار دے دیا۔ یہ وہی نظریہ تھا جو 1080 ء میں قرطبہ کے مسلمان سائنسدان زرقالی نے پیش کیا تھا۔
-
سترھویں صدی کےوسط میں سر آئزک نیوٹن نے یہ نظریہ پیش کیا کہ سورج ساکن ہے اور
تمام سیارے سورج کے گرد چکر لگا رہے ہیں۔ نیوٹن نے باقی ساری کائنات کو بھی ناقابل تبدیل
قرار دیا۔*
یہ نظریہ قرآن حکیم کی عکاسی کرتا ہے تا ہم اس نظریے میں بھی چند اصلاحات کی ضرورت ہے۔ [53]قرآن کریم اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ کرتا ہے
وَكُلٌّ فِيْ فَلَكٍ يَّسْبَحُوْنَ [54]
"اور سب کے سب آسمان میں تیرتے پھرتے ہیں"
مرج البحرین پرفرانسیسی سائنسدان کی تحقیق
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ يَلْتَقِيٰنِ ۔ بَيْنَهُمَا بَرْزَخٌ لَّا يَبْغِيٰنِ [56]
"اس نے دو دریا جاری کر دیے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ان دونوں میں ایک آڑ ہے
کہ اس سے بڑھ نہیں سکتے"
تسخیر ماہتاب اور قرآنی پیشین گوئی
Space Agency)کے تحت تین سائنسدانوں کےہاتھوں تسخیر ماہتاب کا کارنامہ انجام پذیر ہو جس کی شہادت قرآن نے چودہ سو سال پہلے دے دی تھی۔ [58]قرآن کریم نے تسخیر ماہتاب کی طرف یوں اشارہ کیا ہے
*
اسلام کی وہ تعلیمات جن کا تعلق ماوراء العقل امورسے ہے اور جن پر ہمیشہ سے غیر مسلموں کی طرف سے اعتراضات کی بوچھاڑ ہوتی رہی ہے وہ زمان و مکان سے تعلق رکھتی ہیں۔20 ویں صدی تک ان تعلیمات کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک رات میں سات آسمانوں کی سیر کر لی جائے اور عرصہ دراز تک بغیر کچھ کھائے پئے انسان زندہ رہ سکے لیکن آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت نے اس معمے کو بھی حل کردیا اور اب اسکو سمجھنے میں کوئی دشواری نہیں ہے کہ زمان اور مکان کی حیثیت مطلق نہیں ہے بلکہ یہ اضافی حیثیت رکھتے ہیں۔ ذیل میں مافوق العقل واقعات کے ذکر سے پہلےنظریہ اضافیت
کی وضاحت کی جاتی ہے تاکہ ان واقعات کےمتعلق سائنسی توجیہات کو بہتر طورپر سمجھا جاسکے۔
- نظریہ اضافت
نیوٹن (1642ء تا 1727ء) سے پہلے زمان و مکان دونوں کو مطلق سمجھا جاتا تھا ۔ نیوٹن نے اپنے نظریات میں مکان کی مطلق حیثیت کو تو رد کر دیا تھا مگر زما ن کی اضافی حیثیت کے بارے میں وہ کوئی رائے قائم نہ کرسکا۔ بیسویں صدی میں آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافیت میں مکان کے ساتھ زمان کو بھی اضافی قرار دے دیا اور یوں انسانی علوم کے سفر ارتقاء میں اس مادی کائنات کا ہر ذرہ اضافی قرار پایا۔ موجودہ دور میں خود فزکس ہی کے قوانین اس تمام عالم پست و بالا کو اضافی اور حادث ثا بت کر چکے ہیں۔[61]
سٹیفن ہاکنگ زمان ومکان کے متعلق اپنی شہرہ آفاق تصنیف “A Brief History of Time”میں لکھتا ہے کہ " ہمیں تسلیم کرنا ہو گا کہ مکان ، زمان سے مکمل طور پر الگ اور آزاد نہیں ہے بلکہ وہ اس سے مل کر ایک اور شے بناتا ہے جسے مکان زمان (Space-Time) کہتے ہیں"چنانچہ مکان زمان کی حیثیت کے پیش نظر کہیں وقت مسلسل پھیلا ہوا دکھائی دیتا ہے تو کہیں وہ سکڑ کر محض چند ثانیوں میں سمٹ آتا ہےگویا اس کی مطلق حیثیت جدید نظریات کی رو سے دور کہیں پیچھے رہ گئی ہے نظریہ اضافیت کے مطابق مطلق وقت کچھ معانی نہیں رکھتا ہر فرد اور شے کے لیے وقت کا ایک الگ پیمانہ ہے جس کا انحصار اس حقیقت پر ہوتا ہے کہ وہ کس مکان میں کس طریقے سے محو حرکت ہے ۔یہاں آ کر زمان و مکان کی انفرادی حیثیت ہی ختم ہو جاتی ہےاور وہ باہم مل کر زمان مکان کو تشکیل دیتے ہیں۔[62]
قرآن کریم میں قیامت کے دن کی بابت مختلف آیات وارد ہوئی ہیں جو اضافیت زمان و مکان کی تشریح کرتی ہوتی دکھائی دیتی ہیں کہ ایک ہی مکان میں کچھ لوگوں کے لیے وقت اتنی سرعت سے گزار دیا جائے گا کہ ان کو پلک جھپکنے کی مقدار محسوس ہو گا جبکہ باقی لوگوں کے لیے وہ ہزاروں سال تک محیط ہو
جائے گا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
وَمَآ اَمْرُ السَّاعَةِ اِلَّا كَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْ هُوَ اَقْرَبُ[63]
"اور قیامت کا امر تو ایسا ہی ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا، بلکہ اس سے بھی زیاده قریب "
" ہاں البتہ آپ کے رب کے نزدیک ایک دن تمہاری گنتی کے اعتبار سے ایک ہزار سال کا ہے"
"جس کی طرف فرشتے اور روح چڑھتے ہیں ایک دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کی ہے"
علامہ شمس الحق افغانی زمان و مکان کے متعلق رقمطراز ہیں کہ "قدیم اور جدید فلاسفہ اس بات پر متفق ہیں کہ حرکت کی تیزی اور سرعت کے لیے کوئی حد مقرر نہیں ہےجس زمانے میں جس قدر حرکت ممکن ہے اسی زمانے میں وہی حرکت اس زمانے کے کروڑویں حصے میں بھی ممکن ہے۔۔۔البتہ ایسی تیز حرکت مشاہدہ میں نہ ہونے کی وجہ سے تعجب انگیز ضرور ہے جیسے قدیم زمانے میں تیز رفتار میزائل کا تصور حیرت انگیز تھا۔ [66]ہارون یحیی وقت کو ادراک سے تعبیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ "چونکہ وقت صرف ادراکات پر مشتمل ہے اس لیے یہ اضافی ہے اور یہ کلی طور پر ادراک کرنے والے پر منحصر ہے"۔[67]
مذکورہ بالا سائنسی نظریا ت کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا دشوار نہیں ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ایک فرد پر وقت اپنی مقررہ رفتار کے ساتھ گزر جائے اور دوسرے فرد پر ایک ہی مکان میں وقت اپنی رفتار بدل دے۔جدید سائنس اس امر کی صداقت کی گواہی دے چکی ہے کہ زمان اور مکان کی مطلق حیثیت کوئی معنی نہیں رکھتی۔ اسی قانون کے پیش نظر معراج کی رات حضور ﷺ کے لیے وقت کو طول دے دیاگیا، اصحاب کہف اور عزیر ؑکےلیے طویل عرصے کو ایسے گزاردیا کہ جب وہ بیدار ہوئے تو ان کو ایک یوم یا یوم کا بعض حصہ محسوس ہوا۔یہی اصول ہمیں حضرت آصف بن برخیہ کے تخت کو چند ثانیوں میں دربار سلیمانی میں پیش کردینےمیں کارفرما نظر آتا ہے۔ *
اسلامی تعلیمات میں ایسے واقعات جن کی توجیہہ کرنے سے عقل انسانی عاجز ہے، کو کرامت اور معجزہ کے نام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اللہ رب العزت بعض اوقات اپنی قدرت کاملہ کے باعث ایسے واقعات کا ظہور فرماتا ہے جن کو دیکھ کر عقل انسانی ورطہ حیرت میں مبتلا ہو جاتی ہے لیکن اہل ایمان کے لیے ایسی نشانیاں ان کے ایمان میں اضافے کا سبب بنتی ہیں ۔ قرآن کریم میں اصحاب کہف کا واقعہ، حضرت عزیرؑ کا سو سال تک سوئے رہنا اور دوبارہ جی اٹھنا، سلیمان ؑ کے درباری کا ملکہ سبا کا تخت آن واحد میں دربار میں حاضر کردینااور حضورﷺ کاایک ہی رات میں معراج کرنا ایسے واقعات ہیں جن پر غیر مسلم ہمیشہ شک ہی میں مبتلا رہے ہیں۔
اگرچہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں ان واقعات کی توجیہہ کافی آسان ہو گئی ہے تاہم جدید سائنس سے چند ایسے شواھد پیش کیے جاتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلامیتعلیمات نہ صرف حقیقت پر مبنی ہیں بلکہ تحقیق کے نئے باب کھولنے میں بھی ممدو معاون ہیں۔
جدید جینیاتی سائنس کے مطابق انسان اب سمندری پودوں اور پھولوں کی مانند ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ جینیاتی سائنس کے ماہر پروفیسر ٹام کرگ کا کہنا ہے " بعض حیوانا ت ایسے ہیں جن پر گزرتے ہوئے وقت کا کوئی اثر نہیں ہوتا سمندر کی تہوں میں پائے جانے والے پھول جو گل لالہ سے مشابہت رکھتے ہیں ایسی ہی غیر فانی مخلوق میں شمار ہوتے ہیں اور ایک صدی کا طویل عرصہ گزارنے کے باوجود ان پھولوں کی تازگی اور شگفتگی میں قطعا کوئی فرق نہیں آتا وہ آج بھی ویسے ہی ترو تازہ ہیں جیسے انہیں ابھی ابھی سمندر کی تہوں سے چنا گیا ہو اسی طرح انسان کے جسم میں بعض ایسے خلیوں کا سراغ لگا لیا گیا ہے جو فنا کی دست و برد سے محفوظ رہ سکتے ہیں ۔انسانی خصیوں اور بیضوں میں موجودیہ خلیے کبھی فنا نہیں ہوتے۔ ۔ ۔مزید لکھتے ہیں کہ انسانی ڈی این اے میں موجود جینز کاہمارے غیر فانی ہونے سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے۔ سمندری پھولوں کی مانند یہ جینز انسانوں میں بھی موجود ہوتے ہیں تا ہم ان کے بر عکس انسانی جسم میں غیر فانی جینز اس کے تولیدی خلیوں تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن ہر انسانی خلیے میں در حقیقت یہ جینز موجود ہوتے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ وہ بیدار اور متحرک نہیں ہوتے چنانچہ جس دن جینیاتی ماہرین یہ جان لیں گے کہ ان خفیہ اور غیر متحرک جینز کو کیسے اور کیوں کر بیدار اور فعال کیا جا سکتا ہے اس دن ہم عمر جاودانی کا سر بستہ راز پا لیں گے۔"
فرانسیسی سائنسدان چارلس ایڈورڈ براؤن سیکوریڈ کے خیال میں انسان ہمیشہ جوان رہ سکتا ہے اگر وہ بعض جانوروں کے خصیوں سے حاصل کردہ ٹیکے لگاتا رہے، وی آنا ایک نامور سائنسدان کا خیال ہے کہ ایک خاص طریقہ اختیار کر کے ریڑھ کی ہڈی میں ایک خاص تجربہ کے بعد انسانی جسم میں اتنے جنسی ہارمون خود بخود پیدا ہو سکتے ہیں کہ انسان کبھی بوڑھا نہ ہو گا ڈاکٹر وردنوف نے لوگوں کو تازہ دم اور جوان رکھنے کے لیے بندروں کے جسم کے بعض حصوں اور غدودوں کو انسانی اجسام میں آپریشن کے بعد لگا دینے سے انسان کو جوان بنا دیا تھا بعض امریکی سائنسدانوں اور ڈاکٹروں نے بھی اس طریقہ کا ر کو اپنایا اور خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ۔
اصحاب کہف اور حضرت عزیر ؑ کا اتنے عرصے تک بغیر خوراک اور پانی کے زندہ رہنے کو غیر مسلموں نے ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنا یا ہے لیکن جدید سائنس نے اب یہ ثابت کردیا ہے کہ یہ ممکن ہے کہ انسان عرصہ دراز تک کچھ بھی نہ کھائے اور زندگی کے شب و روز بسر کرتا رہے۔ اس دار فانی میں درجنوں ایسے افراد گزرے ہیں جو عرصہ دراز تک کچھ کھائے پئے بغیر زندہ رہے ۔ان میں مسلمان بھی تھےاور غیر مسلم بھی ۔ ذیل میں چند غیر مسلموں کے ایسے ہی واقعات نقل کیے جاتے ہیں کہ جنہوں نے عرصہ
دراز تک کچھ نہ کھایا اور زندہ بھی رہے۔
1۔ کونرس روتھ جرمنی کا ایک شہر ہے اس شہر کی ایک خاتون تھرسیانو مان اس بات کو عجیب
نہیں سمجھتیں کہ انہوں نے 1927 سے عرصہ دراز تک کچھ نہیں کھایا صرف شرکت عشائیہ ربانی کے وقت وہ ایک پتلا سا کاغذی توست کھا لیتی تھیں اس کے سوا اس طویل عرصے میں ایک سبیل بھی ان کے منہ میں اڑ کر نہیں گئی۔
2۔ کچھ نہ کھانے والوں میں سے تھریسا نامی خاتون بہت مشہور ہے اور ہزاروں لاکھوں آدمی ان کی زیارت کے لیے آتے رہتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ میرا کچھ نہ کھانا برت یا روزہ نہیں ہے اس لیےکہ مجھے بالکل بھوک نہیں لگتی۔اس عجیب و غریب خاتوں کے متعلق بہت سی کتابیں لکھی گی ہیں پچھلی جنگ عظیم کے دوران انہوں نے راشن کارڈ بھی نہیں لیاتھا اور یہ کہہ دیا تھا کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں پچھلے دس سال کے اندر انہوں نے اپنا معائنہ کرنے والوں کو نہیں روکا۔ مسٹر سرجن ایونس نے اپنی مشہور کتاب "بھوتوں کی کھوج" میں اس کا ذکر کیا ہے۔
3۔ بروک لن نیویارک کی ایک خاتون ماتی ریچن تھیں وہ اپنے زمانے کے بے خوراک زندہ رہنے والوں میں سب سے زیادہ مشہور تھیں اور اس کی تائید ان کے ڈاکٹر بھی کرتے تھے بلکہ ڈاکٹر تو ان کے متعلق یہاں تک کہتےتھے کہ 1864 میں دس ہفتے تک وہ بغیر سانس لیے زندہ رہیں ان کے متعلق یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں سے دیکھے بغیر کتاب پڑھ لیتی تھیں۔
4۔ایک خاتون ایو فلچن تھیں جنکے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ 1597 سے 1621 تک صرف گلاب کے پھولوں کی خوشبو سونگھ کر زندہ رہیں کہتے ہیں کہ انہون نے 1594 میں دعا کی تھی اے خدا مجھے بھوک کے تقاضوں سے نجات دے اور خوراک کی عادت کو ترک کرتے کرتے انہیں تین سال لگ گئے۔ فلچن کا ایک موی مجسمہ المیسٹرڈیم میں رکھا ہوا ہے ۔[71]
میکانیکی اور تیکنیکی ترقی نے انسان کو ایک ایسے دور میں داخل کر دیا ہے جہاں تحقیق و جستجو کا میدان روز بروز وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا جارہاہے۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بہت سنجیدہ مسائل پید اہورہے ہیں۔ ۔ ۔نئی ایجادات نے عقل انسانی کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ نوجوان نسل کے سامنے مادی ترقی کا ایک سحر انگیز اور پر کشش ماحول پیدا ہو گیا ہے جس میں مذہب اور دین کی باتیں فرسودہ اور بے سود دکھائی دینے لگی ہیں۔ اس مادہ پرستی کے ماحول نے مسلمانوں کو اسلام اور اسکے تقاضوں سے دور کر دیا ہے اور ان کے دنیوی اور دینی تقاضوں کے درمیان ایک وسیع خلیج حائل کر دی ہے۔ ان حالات کے پیش نظر اگر ہم نے ایمان اور اسکے تقاضوں کو واضح اور قابل فہم انداز میں پیش نہ کیا تو اس داخلی انتشار کے باعث مسلمانوں کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں مزید محدود اور مسدود ہو کر رہ جائیں گی اور ہماری دینی اور دنیوی دونوں طرح کی محرومیاں مزید بڑھتی چلی جائیں گی"۔[73]اس صورت حال کے پیش نظر مسلم امہ کے دانشوروں کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ عصر حاضر کے تقاضوں کو اچھی طرح سمجھیں اورجس طرح ہمارے اسلاف نے اسلام پر یونانی فلسفے اور منطق کے حملے کوروکنے کے لیے علم کلام ایجاد کیا تھا اور عقائد اسلامیہ کا داخلی اور خارجی فتنوں سے دفاع کیاتھا اسی طرح موجودہ دور کے فتنہ مادیت کو روکنے کے لیےمستقل بنیادوں پرسائنسی علوم کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوں۔ اس سلسلے میں اہم ترین کام مادیت اور روحانیت کے درمیان اعتدال اور توازن قائم کرنا اور قرآن کریم کو علمی اورعملی بنیادوں پر ہر دور میں تمام علوم و فنون کے لیے مستند مصدر کی حیثیت کے طور پر متعارف کروانا ہے۔یہی وہ راز ہے کہ جس کے ذریعے بھٹکی ہوئی اور سکون کی متلاشی انسانیت دنیا کے اندر امن کی زندگی گزار سکتی ہے۔ اس کے لیے ضرور ی ہے کہ قرآن کریم میں سائنسی طرز فکر کا جو رجحان 19 ویں صدی سے پنپ رہا ہے اسکو مزید آگے بڑھایا جائے اور سائنسی تحقیقات کے ذریعے دنیا کے سامنے واضح کر دیا جائے کہ اسلام نہ صرف سائنسی انداز فکر کی دعوت دیتا ہے بلکہ سائنس کے لیے پیشوا کا کردار ادا کرتے ہوئے تحقیقات کے نئے باب بھی کھولتاہے۔ مزید یہ کہ یورپ کی سائنس جس سمت رواں دواں ہے اس راستے میں سوائے حیرت، اضطراب، ہیجان اور نفسانی خواہشات کے کچھ اور نہیں ہے جس کا لازمی نتیجہ ظلم و استبداد اور امن عالم کی تباہی ہے۔
حوالہ جات
- ↑
مذہب اور سائنس میں تعلق کے متعلق عام طور پر دو بنیادی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ جن میں سے ایک موافقت اور دوسرا مخالفت کا ہے۔ (تا ہم) ڈاکٹر یحیٰ خالدنے، بسطامی محمد خير کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے مذہب اور سائنس کے تعلق کو چار گروہوں یعنی مؤيدین (Advocates) ، جدت پسند (Modernists)، مخالفین (Rejectionists) اور معتدلین (Moderates)میں تقسیم کیا ہے۔ طنطاوی اور مصطفی المراغی کو مذہب و سائنس کی تائیدکرنے والوں (Advocates) میں شمار کیا جاسکتا ہے جبکہ جدت پسند(Modernists) جو کہ مذہب کی تشریح سائنس اور سائنسی ترقی کے تناظر میں کرتے ہیں، میں سر سید احمد خان کا نام قابل ذکر ہے ۔ ڈاکٹر یحیٰ خالد بیان کرتے ہیں کہ بنت الشاطی (عائشہ عبدالرحمان) اور محمود شلتوت نے بھی سائنسی تفاسیر پر تنقید کی ہے جبکہ انہوں نے محمد البہی اور حسن البنا کو معتدل رویہ رکھنے والوں (Moderates) میں سے شمار کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی اور ڈاکٹر محمد عبدالتواب حامد کے مطابق مخالفین (Rejectionists) میں ابو اسحاق شاطبی کا نام سر فہرست ہے۔ امین الخولی، محمد عزت دروزہ، صبحی صالح، محمد حسین الذھبی اورسید قطب نے قرآن کی روشنی میں سائنسی تعلیمات کا رد کیاہےجبکہ دوسری طرف الغزالی، محمد بن عمر الرازی، طاہر بن عاشور، اور طنطاوی نے کچھ حدود و قیود کے ساتھ سائنسی تشریحات کی تائید کی ہے۔(تفصیل کے لیے درج ذیل مقالہ ملاحظہ ہو)
Muhammad Ashfaq (2005), Study of Scientific, Metaphysical and Aesthetic Aspects of Sūrah Al-Rahmān, MS Thesis from HITEC University Taxila, Pp. 7-8
- ↑
پرویز امیر علی ہود بھائی، مسلمان اور سائنس،مشعل بکس آر۔بی۔5، سیکنڈ فلور،عوامی کمپلیکس، عثمان بلاک، نیوگارڈن ٹاؤن، لاہور، 2002، ص 44
- ↑
مودودی،سید ابو الاعلیٰ(۱۴۰۶ھ)،تنقیحات، نوید حفیظ پرنٹر زلاہور، 2013ء، ص 11
- ↑
الازھری،پیرکرم شاہ، ضیاء النبی، ضیاءالقرآن پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ،لاہور، 1999ء ،30: 1
- ↑
طاہر القادری ، ڈاکٹر ،اسلام اور جدید سائنس ، منہاج القرآن پرنٹرز ، لاہور، 2001ء، ص 67
- ↑
محمد قطب،شبہات حول الاسلام (ترجمہ: اسلام اور جدید ذہن کے شبہات)، مترجم محمد سلیم کیانی، البدر پبلی کیشنز 23۔ راحت مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2013ء ص 11
- ↑
ابوالاعلیٰ موودودی، تنقیحات، نوید حفیظ پرنٹر زلاہور، 2013ء، ص 10
- ↑
ایضا، ص 11
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص68
- ↑
طارق اقبال سوہدری ، سائنس قرآن کے حضور میں، نشریات اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 35
- ↑
موریس بوکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی، آواز اشاعت گھر، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،ص۔ 143
- ↑
مدارس اسلامیہ میں علوم عقلیہ اور علوم آلیہ کو بھی اس طرح پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے کہ ان میں غور و فکر ، تنقید اور اختلاف رائے سے قطع نظر من وعن تسلیم کر لیا جاتاہے۔
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، منہاج القرآن پرنٹرز ، لاہور، 2001ء، ص70
- ↑
خالد خان خلجی، انسان اسلام اور سائنس، ادارہ روحانی سائنس، کوئٹہ، 2004ء، مقدمہ: ص 7
- ↑
موریس بوکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی، آواز اشاعت گھر، الکریم مارکیٹ اردو بازار لاہور،ص۔ 141
- ↑
علامہ شمس الحق افغانی، سائنس اور اسلام، مکتبۃ الحسن 29/9 لال چوک عبدالکریم روڈ قلعہ گوجر سنگھ ، لاہور، 1985ء، ص 24
- ↑
موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی،ص۔ 22
- ↑
سید ابو الاعلیٰ موودودی، تنقیحات، ص۔ 10، 11
- ↑
خالد خان خلجی، انسان اسلام اور سائنس، ص 1
- ↑
ڈاکٹر غلام قادر لون، مسلمانوں کے سائنسی کارنامے، مکتبہ معارف اسلامی، منصورہ ملتان روڈ لاہور، 1999، ص 22
- ↑ George Sarton (1927 Reprint 1953), Introduction of the History of science, - Baltimore, Vol. 1,Pp. 624
- ↑
اردو دائرہ معارف اسلامیہ، دانش گاہ لاہور، پاکستان، طبع اول،1: 503- 508
- ↑
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 43-44
- ↑
شاہد محمود ملک، انکشافات حق، الحق سٹاکسٹ، کوٹلی،آزاد کشمیر، ص 175-176
- ↑
ایضا، ص 228
- ↑
ایضا، ص 229
- ↑
موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس، مترجم ثناء الحق صدیقی ،ص 152
- ↑
محمد رفیع الدین، ڈاکٹر ، قرآن اور علم جدید یعنی احیائے حکمت دین، مقدمہ ازمظفر حسین، اسلامی اکادمی - 17، اردو بازار، لاہور، 1986ء، ص 3
- ↑
موریس بکائیے، بائبل، قرآن اور سائنس،مترجم: ثناء الحق صدیقی، ص۔240
- ↑
ایضا، ص ۔ 247
- ↑
الانبیاء، 21: 30
- ↑
ذاکر نائک، ڈاکٹر، بائبل اور قرآن جدید سائنس کی روشنی میں، مترجم: سید امتیاز احمد، دارالنوادر، الحمد مارکیٹ اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 122
- ↑
سورۃ المومنون،23: 12-14
- ↑
سورۃ السجدہ،32 : 9
- ↑ . Dr. Ibrahim B. Syed, Attitude of a Muslim Scholar at Human Embryology,- [Presented at the Islamic Attitude and Practice in Science Seminar, Organized by the International Institute for Islamic Thought, Washington, D.C. February 28-March 1, 1987.]
- ↑ . Keith L. Moore, A Scientist's Interpretation of References to Embryology in the Qur'an, The Journal of the Islamic Medical Association, Vol.18, Jan-June 1986, Pp.15-16
- ↑
ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1983ء ص 12
- ↑
سورۃ البقرۃ،2: 164
- ↑
سورۃ الرعد،13 : 2
- ↑
سورۃ ابراہیم،14 : 33
- ↑
سورۃ النحل،16: 14
- ↑
سورۃ النحل،16: 79
- ↑
سورۃ لقمان،31: 20
- ↑
سورۃ فصلت،41: 53
- ↑
سورة آل عمران،3: 191
- ↑
سورة الجاثية،45 : 3
- ↑
ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، ص 12
- ↑
یہ دونوں سائنسدان امریکہ کی ریاست نیوجرسی میں واقع "بیل فون لیبارٹریز" میں کام کرتے تھے ، جنہیں 1978ء میں نوبل پرائز بھی عطاکیا گیا.
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص446-448
- ↑
سورۃ الفاطر،35: 1
- ↑
سورۃ الذاریات،51: 47
- ↑
سورۃ النحل،16 : 8
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص242- 249
- ↑
سورۃ یسین،36: 40
- ↑ . Halūk Nūr Bāqī, (2005 Qur’āni Ayāt aur Sa’insī Haqā’iq (Qur’ānic Verses and Scientific Facts) translated by Feroz Shah, Aligarh Publisher, Lahore, Pp. page 55-56 See also Huseyn HilmiIsık,( 2012 )Why they Become Muslims, Hakikat Kitabvi Publications, Pp. 46-47, http://www.hakikatkitabevi.com
- ↑
سورۃ الرحمن،55 : 19-20
- ↑
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 44
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص222
- ↑
سورۃ انشقاق،84 : 18-20
- ↑
طارق اقبال سوہدری ، سائنس قرآن کے حضور میں، نشریات اردو بازار لاہور، 2007ء، ص 92
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، ص384
- ↑
ایضا، ص 358-359
- ↑
سورۃ النحل16,: 77
- ↑
سورۃ الحج،22: 47
- ↑
سورۃ المعارج،70 : 4
- ↑
شمس الحق افغانی، سائنس اور اسلام، مکتبۃ الحسن 29/9 لال چوک عبدالکریم روڈ قلعہ گوجر سنگھ ، لاہور، 1985ء، ص 200
- ↑
ہارون یحییٰ، کائنات، نظریہ وقت اور تقدیر، اداراہ اسلامیات، لاہور، 2002ء، ص 66
- ↑
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، علی پرنٹر رشید روڈ، لاہور، 2004ء، ص 309-310
- ↑
ابن عساکر، تاريخ دمشق، 20: 25
- ↑
عرفان محمود برق، قادیانیت اسلام اور سائنس کے کٹہرے میں، ص 335
- ↑
ایضا، ص 314-315
- ↑
ڈاکٹر طاہر القادری ،اسلام اور جدید سائنس ، 2001ء، ص262
- ↑
ڈاکٹر اسرار احمد، مطالعہ فطرت اور ایمان، مرکزی انجمن خدام القرآن، لاہور، 1983ء ص 12
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |