2
2
2018
1682060040263_510
154-165
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/101/86
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/101
احمد بن السید زینی احمد بن عثمان الحسنی الہاشمی القرشی المکی الشافعی ۱۲۳۱ھ میں مکۃالمکرمہ میں پیدا ہوئے اور ۱۳۰۴ھ میں مدینہ منورہ میں وفات پائی۔ تاریخ وفات پہ تمام تذکرہ نگار متفق ہیں جبکہ تاریخ پیدائش بعض نے ۱۳۳۲ھ اور کچھ حضرات نے ۱۳۳۳ھ لکھی ہے۔ ان کا تعلق بیت الدحلان سے تھا جو کہ مکۃ المکرمہ میں ہے اور علم و فضل اور نسب کے اعتبار سے حجاز میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ احمد بن زینی دحلان مفتی ، مؤرخ اور فقیہ تھے ان کو رئیس العلماء، شیخ علماء الحجازفی عصره، فریدالعصر، شیخ الخطباءاورامام الحرمین و عمدة الافاضل جیسے القابات سے نوازا گیا۔ علوم شریعت، تاریخ ، نحو، ریاضی ، تصوف اور سیرت سمیت بہت سے موضوعات پر متعدد کتب کے مصنف ہیں لیکن ان کی اصل وجہ شہرت ان کی کتاب ’’السیرۃ النبویۃ‘‘ ہے۔ ۱؎
السیرۃ النبویۃ لزینی دحلان کا شمار تیرھویں صدی ہجری کی اہم کتب سیرت میں ہوتا ہے زینی دحلان نے متقدمین و متاخرین سے اخذ و استفادہ کرتے ہوئے ان کی پیروی میں اپنی کتاب کو سیرت کے روایتی طرز بیان کے ساتھ ساتھ فقہی مسائل،بصائر وحکماور کلامی مسائل وغیرہسے آراستہ کیا ہے۔ مصنف نے مقدمہ کتاب میں اپنے ماخذ و مصادر کا تذکرہ کرتے ہوئے اس کتاب کو بنیادی طور پر ایک تلخیص قرار دیا ہے۔۲؎
احمد بن زینی دحلان فقہ سے خاص شغف رکھتے تھے مفتی مکۃ المکرمہ تھے اس لیے ان کے اس مزاج کا رنگ "السیرۃ النبویۃ" میں بھی نظر آتا ہے۔ مصنف نے وقائع سیرت سے فقہی مسائل اور دروس و حکم اخذ کرتے ہوئےقاری کے لیے مزید دلچسپی کا سامان پیدا کیا ہے۔ مصنف نے انبیاء سابقین اور آپﷺ کے آباؤ اجداد کی زبان سے آپﷺ کی شان و عظمت کے ذکر سے آغاز کیا ہے اور آپﷺ کی پیدائش پر خوارق عادت چیزوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مکی و مدنی زندگی کے تمام اہم واقعات سے تعرض کیا ہے نیز غزوات و سرایا، مکاتیب و معاہدات ، وفودعرب اور آخر میں آپ ﷺ کے معجزات ، شمائل و خصائص و وجوب اطاعت و محبت جیسے عنوانات سے بھی بحث کی گئی ہے۔
واقعات سیرت کے ضمن میں فقہی احکام کے اخذ و استنباط کے اسلوب و منھج کی جھلک مقدمہ کتاب سے ہی نظر آتی ہے جہاں مصنف عربوں کے فضائل بیان کرتے ہوئے بعض علماء کے اس فتویٰ کو نقل کرتے ہیں کہ جس نے عربوں کو برا بھلا کہا وہ واجب القتل ہے۔۳؎ مختلف واقعات سیرت کے تذکرہ میں متعدد اور متنوع احکام کا استخراج کیاگیاہےمثلاً آپﷺ کے یوم پیدائش پر خوشی کے اظہار کا جواز اور سنت سے اس کا ثبوت ، آپﷺ کے والدین کے ایمان اور جس شخص کو دعوت (اسلام) نہ پہنچی ہو اس کی نجات کا مسئلہ، کفار کے مقتولین بدر کو کنویں میں پھینکنا اور حربی کے دفن کے واجب نہ ہونے کا جواز، بدر کے قیدیوں کا معاملہ اور عہد نبوی ﷺمیں اجتہاد کا جواز،بنت رسولﷺ حضرت زینبؓ کی حضرت ابوالعاص ؓبن ربیع کے پاس واپسی اور مشرکین سے حرمت نکاح کا مسئلہ، اہل بدر کے اسماء اور ذکر سے توسل حاصل کرنے کا جواز، بدر کی شکست کے بعد ابوسفیان کی بدلہ لینے تک جنابت سے غسل نہ کرنے کی قسم کے ضمن میں غسل جنابت کا مسئلہ، حضرت علیؓ کی حضرت فاطمہؓ سے شادی اور نکاح میں وکالت اور غائب شخص کے نکاح کا معاملہ، قتل صبر کے وقت حضرت خبیبؓ کی دورکعت نماز کےسنت ہونے کا جواز، اموال بنی نضیر کی حیثیت، حضرت عائشہؓ پر نزول برأت کے بعد تہمت لگانے کی سزا، قصہ ثمامہ بن اثال سے مستنبطہ مسائل ۴ ؎ واقعات غزوہ الغابہ سے مسائل کا استنباط ، سریہ عبداللہ بن عتیک اور ابورافع کے قتل کے واقعہ سے احکام کا استنباط ، قصہ عکل و عرینہ اور اونٹوں کے دودھ اور پیشاب سے علاج کرنے کا جواز، حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کا قبل ازاسلام مشرکین کو قتل کرنا اور اس حوالے سے حالت امن میں دھوکہ سے کفار کا مال چھیننے کی ممانعت کا مسئلہ، سریہ عمرو بن العاصؓ اور فاضل پر مفضول شخص کی امارت کا مسئلہ ، غزوہ حنین میں آپﷺ کا لباس حرب پہننا اور اس سے اسباب اختیار کرنے کے جواز کا مسئلہ اور غزوہ حنین کو شکست کہنے والے شخص سے مطالبۂ توبہ اور ایسے شخص کی سزا کا معاملہ جیسے مسائل زیر بحث لائے گئے ہیں ۔علاوہ ازیں آپﷺ کے شمائل و خصائل کے تذکرہ میں بھی کہیں کہیں فقہی مسائل پر بات کی گئی ہے۔
(۱)حضورﷺ کے والدین کے ایمان لانے یا نہ لانے کا مسئلہ ایک کلامی مسئلہ ہے مگر مصنف نے یہاں کلامی اور فقہی انداز اختیار کرتے ہوئے اس مسئلہ کو موضوع بحث بنایا ہے اور اس نقطۂ نظر کو اپنایا ہے کہ چونکہ آپﷺ کے والدین کی وفات زمانہ فترت میں ہوئی ہے اور زمانہ فترت کے بارے میں حکم یہ ہے کہ جو شخص اس عرصہ میں وفات پاگیا وہ ناجی ہے کیونکہ اس تک دعوت ہی نہیں پہنچی مصنف کے اس نقطہ نظر کی بنیاد ، جس کا انہوں نے تذکرہ بھی کیا ہے، جلال الدین السیوطی (م ۹۱۱ھ) کی اختیار کردہ رائے پر ہے۔ جلال الدین السیوطی کے مطابق اصولیین میں سے اشاعرہ اور فقہاء میں سے شافعیہ اس چیز کے قائل ہیں کہ جس کو دعوت نہ پہنچی ہو وہ ناجی فوت ہوتا ہے۔ شافعی فقہاء اور اصولیین اشاعرہ میں اس حوالے سے کوئی اختلاف نہیں۔امام شافعیؒ سے اس حوالے سے کتاب الام اور المختصر میں نص و ارد ہوئی ہے،تمام
اصحاب نے ان کی اس حوالے سے پیروی کی ہے اور کسی نے بھی اختلاف کی طرف اشارہ نہیں کیا اور اس پر انہوں نےبہت سی آیات سے استدلال کیا ہے جیسا کہ"وما کنامعذبین حتی نبعث رسولاً"۵؎
صاحب السیرۃ النبویۃ احمد بن زینی دحلان مزید لکھتے ہیں کہ یہ ایک فقہی مسئلہ ہے جو کہ کتب فقہ میں مقرر ہے اور قاعدہ اصولیہ کی فروع میں سے ایک فرع ہے اور وہ قاعدہ اصولیہ یہ ہے کہ "شکرالمنعم واجب بالسمع لابالعقل"۶؎ اور اس قاعدہ کا مرجع قاعدہ کلامیہ ہے کہ "التحسین والتقبیح بالعقلیان"ہے۷؎ اور پھر "من لم تبلغه الدعوۃ" والا مسئلہ ایک اصولی قاعدے کی طرف لوٹتا ہے جو یہ ہےکہ "ان الغافللایکلف"۸؎ اور یہ قاعدہ اللہ تعالیٰ کے فرمان "أن لم یک ربک مھلک القری بظلم وأھلھاغافلون" (الانعام:۱۳۱)کی روشنی میں اصولی طور پر درست ہے۔ ۹؎
مصنف نے علماء کے اس اختلاف کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ جس کو دعوت نہ پہنچی ہواسے کس نام سے پکاریں گے۔ بعض کے نزدیک اسے ناجی، کچھ کے نزدیک اہل الفترۃ اور بعض کے نزدیک مسلم کہیں گے۔ ۱۰؎
(۲)غزوہ بدر میں آپﷺمشرکین کی لاشوں کے پاس کھڑے ہو کران سے مخاطب ہو ئے اور ان پر حسرت ویاس کا اظہار کرتے ہوئے ان کی کرتوتوں اور ان کے انجام کا تذکرہ کیا اور پھر ان مشرکین کی لاشوں کو ایک کنویں میں ڈالنے کا حکم دیا۔ زینی دحلان نے اس واقعہ سے یہ حکم اخذ کیا ہے کہ آپﷺ کے اس فعل (یعنی ان کی لاشوں کو کنویں میں ڈلوانا) میں اس بات کی دلیل ہے کہ حربی کو دفن کرنا واجب نہیں بلکہ اس کی لاش پر اغراء الکلام بھی جائز ہے ۱۱؎ اصحاب بدر کی فضیلت و عظمت کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے آپﷺ کے بیان کردہ الٰہی قول"إعملواماشئتم فقدغفرت لکم"۱۲؎کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ مستقبل میں گناہوں سے محفوظ رہنے کے لیے کنایہ ہے اس میں گناہوں کی اباحت کی دلیل نہیں ہے۱۳؎ نیز مصنف نے یہاں بعض علماء کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اہل بدر کے ناموں کی تلاوت کرنا، ان کے ذریعہ سے توسل کرنا اور ان کو لکھ کر اٹھانا یا گھروں میں لٹکانا جائز ہے اور یہ دشمنوں کی چالوں اور ظالموں کے ظلم سے حفاظت نیز نصرت اور فتح و سلامتی کا سبب ہے۔ ۱۴؎
(۳)ابورافع سلام بن أبی الحقیق اکابر مجرمین یہود میں سے تھا جس نے اپنی حرکتوں اور مال و دولت ہر لحاظ سے مسلمانوں کی مخالفت کی۔ غزوہ ٔاحزاب میں مدینہ کا محاصرہ کرنے والی قوتوں کے پیچھے بنیادی کردار اسی شخص کا تھا۔ قبیلہ اوس کے کعب بن اشرف کے قتل کے بعد قبیلہ خزرج کے کچھ لوگوں نے رسول اﷲﷺ سے ابو رافع کے قتل کی اجازت لی۔ یہ لوگ اس کے قلعے کی طرف بڑھے۔حضرت عبداللہ ؓبن عتیک حیلے بہانے سے اس کے قلعہ میں گھس گئے اور اپنی آواز بدل کر یہود کی زبان استعمال کرتے ہوئے دھوکے سے ابورافع کو قتل کر دیا، ابو رافع کے کمرہ میں اندھیرا تھا لہٰذا عبداللہ ؓبن عتیک نے آواز سے اندازہ کرتے ہوئے اس پر وار کیا اور اس کا کام تمام کردیا نیزاس کی موت کی تصدیق کرنے کے لیے اس کے قلعہ میں چھپ کر بیٹھ گئے اور مرغ کی اذان کے وقت جب ایک شخص نے قلعہ کی دیوار پر چڑھ کر ابورافع کی موت کا اعلان کیا تو پھروہاں سےنکلے ۔صاحب السیرۃ النبویۃ اس واقعہ سے احکام و فوائد کا استنباط کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
و فی ھذہ القصۃ من الفوائد جوازاغتیال المشرک الذی بلغتہ الدعوۃ، وأسر و قتل من اعان علیہﷺبیدہ أو مالہ أولسانہ، و جواز التجسس علی أھل الحرب و تطلب غرتھم و الأخذبالشدۃ فی محاربتھم، و ایہام القول للمصلحۃوتعرض القلیل من المسلمین علیٰ للکثیر من المشرکین و الحکم بالدلیل۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و العلامۃ لاستدلال ابن عتیک علی أبی رافع بصوتہ واعتمادہ علیٰ صوت الناعی بموتہ۔۱۵؎
(۱)یعنی جس مشرک تک دعوت پہنچ چکی ہو اور وہ پھر بھی کفر پر اصرار کیے بیٹھا ہو تو اسے دھوکے سے قتل کرنا جائز ہے۔
(۲)جو شخص نبی کریمﷺ کے خلاف اپنے ہاتھ ، مال اور زبان سے (مشرکوں اور اعداءِ اسلام کی) مدد کرے اسے قتل کیا جا سکتا ہے۔
(۳)اہل حرب کا تجسس کیا جا سکتا ہے اور ان کی غفلت کے اوقات ڈھونڈنا درست ہے۔
(۴)مشرکین کے ساتھ جنگ میں شدت اختیار کرنا یا سختی برتنا جائز ہے۔
(۵)مصلحت کی خاطر مبہم بات کہنا جائز ہے۔
(۶)تھوڑی تعداد کے مسلمان زیادہ تعداد کے مشرکین سے لڑسکتے ہیں۔
(۷)دلیل اور علامت کے ساتھ فیصلہ کرنا جائز ہے جس طرح کہ حضرت عبداللہ بن عتیک نے ابورافع کی آواز پر فیصلہ کیا (اور اندھیرے میں اس کی جگہ کا اندازہ لگاتے ہوئے اس پر وارکیا) اور موت کی خبر دینے والے کی آواز پر اعتماد کرتے ہوئے اس کی موت کی خبر کا یقین کیا۔
(۴)صلح حدیبیہ میں عروہ بن مسعود کے ساتھ نبی کریمﷺ کے مذاکرات کے موقعہ پر حضرت مغیرہ بن شعبہ ہاتھ میں تلوار لیےاورمغفر پہنے آپﷺ کی پشت پر کھڑے تھے۔ جب عروہ بن مسعود آپﷺ کی ریش مبارک کی طرف ہاتھ بڑھاتا۱۶؎ تو مغیرہ بن شعبہؓ تلوار کے دستے سے اس کے ہاتھ پر مارتے اور کہتے "اپنا ہاتھ پیچھے ہٹا"۱۷؎ مصنف نے حافظ ابن حجر کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس میں اس بات کا جواز ہے کہ امیر کی حفاظت اور دشمن کی دست درازی سے محفوظ رکھنے کے لیے امیر کے سر پر تلوار لے کر کھڑا ہوا جا سکتا ہے اور یہ اس ممانعت سے متعارض نہیں جس میں بیٹھے ہوئے شخص کے پاس تعظیماًکھڑا ہونے سے روکا گیا ہے ۔۱۸؎
(۵)غزوہ الغابہ یاغزوہ ذی قرد میں عبدالرحمن بن عیینہ بن حصن فزاری نےاپنی قوم کےکچھ لوگوں کے ساتھ نبی کریمﷺ کے اونٹوں پر حملہ کیا اور انہیں ہانک کرلے گیا حضرت سلمہ بن اکوع کو اس حادثہ کا پتہ چلا تو انہوں نے بلند آواز سے اعلان کر کے اہل مدینہ کو متنبہ کر دیا اور خود ڈاکؤوں کے تعاقب میں نکلے اور ان سے شدید لڑائی کرتے ہوئے اونٹ چھڑوا لیے۔ سلمہ بن اکوع نے دشمن کے سامنے اپنی بہادری و شجاعت کی تعریف خود کی(خذھا و أنا ابن الأکوع- الیوم یوم الرضع)۔ جب نبی کریمﷺ پہنچے تو وہ ان لوگوں سے تمام اونٹ چھڑوا چکے تھے۔ آپﷺ نےحضرت سلمہ بن اکوع ؓ کو اپنی اونٹنی پر پیچھے بٹھا لیا اور ان کے بارے میں فرمایا "خیر رجالتنا الیوم سلمہ"۱۹؎ (آج ہمارے پیادوں میں سب سے بہتر سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔)
مصنف نے اس واقعہ کا تذکرہ کرنے کے بعد اس سے درج ذیل احکام اخذ کیے ہیں:
(۱)اس واقعہ میں اس بات کا جواز ہے کہ جنگ میں شدت اختیار کی جا سکتی ہے۔
(۲)بلند آواز کے ساتھ لوگوں کو متنبہ کیا جا سکتا ہے۔
(۳)بہادر شخص دشمن پر رعب ڈالنے کے لیے اپنی ذات کی خودتعریف کر سکتا ہے۔
(۴)بہادر شخص کے لیے ثناء کا استعمال اور اس کی ذات میں جو بھی خوبیاں ہوں ان کی تعریف اور اعتراف کرنا جائز ہے خصوصاً اچھے کارناموں کے موقع پر،اور اس کا محل (موقع) وہ ہے جب وہ (بہادر) فتنے میں پڑنے سے محفوظ ہو۔ (یعنی یہ خوف نہ ہوکہ تعریف کرنے سے وہ پھول جائے گا) ۲۰؎
(۶)مصنف نے روایت بیان کی ہے کہ فتح خیبر کے بعد حضرت جعفر بن ابی طالب سولہ (۱۶) اصحابؓ کے ساتھ حبشہ سے تشریف لائے نبی کریمﷺ نے ان کا استقبال کیا، حضرت جعفرؓ کی پیشانی کو چوما ،ان سے معانقہ کیا اور ان کے لیے کھڑے ہوئے ،پھر آپﷺ نے فرمایا کہ میں نہیں جانتا کہ آج مجھے زیادہ کس بات کی خوشی ہے خیبر کے فتح ہونے کی یا (حضرت) جعفرؓ کے آنے کی ،پھر آپﷺ نے حضرت جعفر کے لیے فرمایا کہ تو صورت و سیرت میں میرے جیسا ہے ۔آپﷺ کے اس خطاب کی لذت سے حضرت جعفرؓ نے رقص کیا اور نبی کریمﷺ نے اس کا انکار نہیں کیا ۔۲۱؎
اس روایت کو بیان کرنے کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ صوفیہ حضرات محافل ذکر و سماع میں جب وجد کی لذت سے آشنا ہو کر رقص کرتے ہیں تو ان کے رقص کی دلیل اسی روایت کو بنایا گیا ہے۔ ۲۲؎
(۷)مصنف نے واقعات سیرت میں سے بعض واقعات کی حکمت پر بھی روشنی ڈالی ہے مثلاً آپﷺ کی بکریاں چرانے کی حکمت، ہجرت مدینہ میں پنہاں حکمت، غزوہ احد کی آزمائش میں حکمت، شرائط صلح حدیبیہ اور اس میں مضمر حکمتیں وغیرہ۔
"والحکمۃ فی ھجرۃ الی المدینۃ ان تتشرف بہ الأزمنۃ والأمکنۃ والاشخاص لا أنہ یتشرف بہا فلو بقی بمکۃ لکان یتوھم أنہ قد تشرف بہا لأن شرفھا قد سبق بالخلیل واسمعیل۔ علیھما الصلاۃ والسلام۔ فأمرہ بالھجرۃ الی المدینۃفلما ھاجر الیھا تشرفت بہ لحلولہ"۔۲۳؎
واقعات سیرت سے اخذ و استنباط کے سلسلے میں امام سہیلی کی الروض الانف کے ساتھ ساتھ زیادہ انحصار ابن حجر عسقلانی کی فتح الباری پر کیا گیا ہے جیسا کہ غسل جنابت کا مسئلہ امام سہیلی کی الروض الانف سے نقل کیا گیا ہے ۲۴؎ قصہ ثمامہ بن اثال ۲۵؎ ،سریہ عبداللہ بن عتیک،۲۶؎ غزوۃ الغابہ ۲۷؎، صلح حدیبیہ۲۸؎ ،قصہ عکل و عرینہ ۲۹؎سے مسائل حافظ ابن حجرکی فتح الباری کی روشنی میں اخذ کیے گئے ہیں۔ حضرت عائشہ پر تہمت کی سزا وغیرہ کا بیان قاضی عیاض کی کتاب الشفاء، امام سہیلی کی الروض الانف اور جلال الدین السیوطی کی الخصائص الکبری سے نقل کیا گیا ہے۔ روایات کے بیان میں کہیں کہیں تو سند اور کتاب کے نام کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ اکثرمقامات پر ایسا اہتمام نہیں کیا گیا ۔ روایات، روایات میں تطبیق دینے کی کوشش بھی کی گئی ہے مثلاً وفد ثقیف میں ایک مجذوم شخص کے سلسلے میں وارد ہونے والی معارض روایات کے سلسلہ میں مصنف نے اچھی تطبیق دی ہے جوکہ درج ذیل ہے۔
وفد ثقیف ۹ھ میں نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا ۔انہوں نے آپﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ ان میں ایک مجذوم شخص بھی تھا مصنف کے مطابق آپﷺنے اس کو کہلوا بھیجا کہ تیری بیعت ہو گئی ۔ پس توواپس لوٹ جا ۳۰؎ جبکہ ایک مرفوع روایت میں ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ مجذوم شخص کی طرف زیادہ دیر (مسلسل) نہ دیکھو ۳۱؎اور اسی طرح ایک روایت یہ بھی ہے کہ آپﷺ نے مجذوم سے کلام کیا جب کہ آپﷺ اور اس کے درمیان ایک نیزہ یا دو نیزوں کا فاصلہ تھا ۳۲؎ مصنف کے مطابق آپﷺ کا یہ ارشاد اورعمل آپﷺ کے اس قول "لاعدوی ولاطیرۃ"۳۳؎سے متعارض ہے جبکہ بعض روایات میں ایسا بھی ہے کہ آپﷺ نے مجذوم کے ساتھ کھانا کھایا ،اس کا ہاتھ پکڑا اور پیالہ میں اس کے ہاتھ کے ساتھ ہاتھ رکھا اور فرمایا کہ اللہ کے نام کے ساتھ کھاؤ ،اللہ پر بھروسہ کرو اور اس پر توکل کرو ۳۴؎۔ان تمام روایات اور تعارض کو بیان کرنے کے بعد زینی دحلان لکھتے ہیں کہ میں اس تعارض کا جواب یہ دوں گا کہ جہاں تک مجذوم سے اجتناب کے حکم کا تعلق ہے تو وہ میری رہنمائی کے لیے ہے لہٰذا آپﷺ کا مجذوم کے ساتھ کھانا کھانا قوی الایمان شخص کے لیے ہے اور اس سے اجتناب کا حکم ضعیف الایمان شخص کے لیے ہے آپﷺ نے دونوں صورتیں براہ راست اختیار کیں تاکہ آپﷺ کی اقتداء کی جائے اور قوی الایمان شخص توکل اور اللہ پر پختہ یقین کے ساتھ ایسا کرے اور ضعیف الایمان آدمی پرہیز اور احتیاط کو مدنظر رکھتے ہوئے اس سے دور رہے۔۳۵
فقہی احکام کی تائید میں مصنف نے اصولی بحثوں سے بھی مدد لی ہے مصنف کے اس اسلوب کی جھلک دعوت نہ پہنچنے والے شخص کی نجات کے مسئلہ میں دیکھی جا سکتی ہے ۔کمزور روایات سے بھی استدلال کیا گیا ہے۔ رقص صوفیہ کی دلیل میں پیش کردہ روایت اس کی واضح مثال ہے ۔مصادر و مراجع کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو مصنف نے مراجع ومصادر کا تذکرہ اپنے مقدمہ کتاب میں کیا ہے اور اپنی کتاب کو سیرۃ ابن ہشام، کتاب الشفاء و شروح الشفاء ، المواھب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، السیرۃ الشامیہ،السیرۃ الحلبیہ اور ابن سید الناس کی عیون الاثر و غیرہ کا ملخص قرار دیا ہے مجموعی طور پر اگر دیکھا جائے تو احمد بن زینی دحلان کی "السیرۃ النبویۃ"متقدمین و متاخرین کی کتبِ سیرت کا نچوڑ ہونے کی حیثیت سے ایک اہم مرجع سیرت کی حیثیت رکھتی ہے۔ سیرت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ اس کا بنیادی وصف اور امتیاز ہے۔ وقائع سیرت سے مسائل واحکام کا استنباط و استخراج مصنف کے فقہی مزاج و ذوق کا آئینہ دار ہے ۔
حوالہ جات
۱۔احمد بن زینی دحلان کےتفصیلی حالات زندگی کے لیے رجوع کیجئے:۔
(i)ابن العظم، جمیل بن مصطفی بن محمد ،حافظ، السرالمصؤن ذیل علی کشف الظنون، بیروت ،دارالفکر، ۱۴۲۳ھ؍۲۰۰۲ء۔: ۱۴۸
(iv)البغدادی، اسماعیل پاشا(م۱۳۳۹ھ)، ھدیۃ العارفین اسماء المؤلفین وآثار المصنفین، بیروت، دارالعلوم الحدیثیۃ، ۱۹۵۵ء،۵:۱۹۱
(v)کحالہ، عمر رضا(م۱۴۰۸ھ)، معجم المؤلفین، بیروت ، داراحیاء التراث العربی ۔(س ن)،۱:۲۲۹۔۲۳۰
(vi)الزرکلی ، خیر الدین، الأعلام، بیروت ،دارالعلم للملایین ۔۱۹۸۴ء،۱:۲۹۔۱۳۰
۲۔لکھتے ہیں:"وھذہ الکتب ھی أصح الکتب المؤلفۃ فی ھذا الشأن، فأحببت أن الخص ما احتوت علیہ من سیرتہﷺ…… لأني رأیتھا منتشرۃ فی تلک الکتب مخلوطۃ بمباحث" دیکھئے: (دحلان، احمد بن زینی(م۱۳۰۴ھ)، السیرۃ النبویۃ ، بیروت، دارالفکر، ۱۴۲۱ھ؍ ۲۰۰۱ ء۔۱؍۱۱)
۳۔دحلان، السیرۃ النبویۃ ، ۱:۱۳
۴۔بنوبکر بن کلاب کے ایک قبیلہ بنو قرطاء پر حملہ سے واپسی کے موقع پر محمد بن مسلمہ کی قیادت میں لشکر نے بنو حنیفہ کے سردار ثمامہ بن اثال کو قید کیا اور مسجد نبوی میں باندھ دیا جو کہ بعد میں نبی اکرمﷺ کے رویہ سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گیا ۔ مصنف نے اس سے مندرجہ ذیل مسائل اخذ کیے ہیں۔
(i)کافر کو مسجد میں باندھا جا سکتا ہے۔(ii)کافرقیدی کو بلا معاوضہ چھوڑا جا سکتا ہے۔(iii)اسلام قبول کرتے وقت غسل کرنا چاہیے۔(iv)اگر قیدیوں میں سے کسی کے بارے میں امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائے گا تو اس سے نرمی روا رکھی جائے۔(v)کفار کے علاقے میں اسلامی دستے بھیجے جا سکتے ہیں(vi) جو کافر بھی ملے اسے قید کیا جا سکتا ہے اس کے بعد امیر کو اختیار ہے کہ وہ چاہے تو اسے قتل کر دے چاہے اس پر احسان کر کے چھوڑ دے۔(دیکھیے، دحلان، السیرۃ النبویۃ،۲؍۳۱۹۔۳۲۰؍اکمال المعلم ۶؍۹۷؍ فتح الباری ۱:۵۵۶۔)
۵۔دحلان، السیرۃ النبویۃ,۱؍۲۹؍السیوطی ، جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر(م۹۱۱ھ)، الحاوی للفتاوی ، بیروت ،دارالکتاب العربی، (س ن ) ، ۲؍۴۰۲؍ الخطیب شربینی(۹۷۷ھ)، السراج المنیر،بیروت، داراحیاء التراث العربی، ۱۴۲۵ھ؍۲۰۰۴ء،۳:۴۱۶
۶۔السبکی، تاج الدین عبد الوھاب بن علی بن عبد الکافی(م۷۷۱ھ)،الإبھاج فی شرح المنہاج، بیروت، دار الکتب العلمیہ،۱۴۰۴ھ،۱؍۱۳۸؍ الغزالی، المستصفی۱:۶۱
۷۔ابن تیمیہ، مجموع الفتاوی ۸؍۴۲۸؍ ابن قیم الجوزیہ(م۷۵۱ھ) مدارج السالکین، بیروت، دارالکتاب العربی، ۱۴۲۵ھ؍۲۰۰۴ء، :۱۷۶؍ الشہزانی، عایض بن عبداللہ بن عبدالعزیز، التحسین والتقبیح العقلیان واثرھمافی مسائل الفقہ، الریاض ، دارکنوزا شبیلیا ،۱۴۲۹ھ؍۲۰۰۸ء، ۱؍۳۰۹۔۳۱۹
۸۔الغزالی، محمد بن محمد ابوحامد، امام (۵۰۵ھ)، المستصفی من علم الاصول وبذیلہ فواتح الرحموت بشرح مسلم الثبوت ،قم، منشورات الرضی ۔۱۳۰۲ء،۱:۸۴
۹۔دحلان ،السیرۃ النبویۃ، ۱:۶۹
۱۰۔ایضاً
۱۱۔ایضاً، ۱:۳۹۲؍شرح النووی ۱۲:۱۵۳
۱۲۔ایضاً، ۱؍۴۱۳؍ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ، ۴؍۴۱؍صحیح البخاری، کتاب الجھاد والسیر، باب الجاسوس،رقم الحدیث۔۲۸۴۵
۱۳۔لکھتے ہیں:وقیل أن ذلک کنایۃ عن الحفظ من الوقوع في المستقبل …… فلیس فیہ اباحۃ الذنوب ولا الاغراء علیھا۔ دیکھئے:(دحلان، السیرۃ النبویۃ ۱؍۴۱۳)
۱۴۔ایضاً، ۱:۴۱۴
۱۵۔ایضاً، ۲:۱۶۶؍ فتح الباری ۷:۳۴۵
۱۶۔اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ وہ جس سے بات کرتے ، خاص طور پر چاپلوسی کرتے وقت ،اس کی داڑھی پکڑ لیتے،اور زیادہ تریہ طریقہ ہم مرتبہ لوگوں میں تھا لیکن حضورﷺ عروہ سے نرمی برتتے ہوئے اس کی تالیف قلب کے لیے چشم پوشی کرتے رہے اور حضرت مغیرہؓ حضورﷺ کی جلالت و عظمت اور تعظیم کے لیے اسے (عروہ بن مسعودکو) منع کر رہے تھے۔ (دیکھیئے:فتح الباری ۵؍۳۴۹؍سبل الھدی والرشاد ۵؍۷۹)
۱۷۔ابن ہشام، السیرۃ النبویۃ ۔۳:۳۲۷
۱۸۔دحلان، السیرۃ النبویۃ، ۲:۱۸۰؍فتح الباری ۵:۳۴۰؍شرح النووی ۱۲:۹۳
۱۹۔دحلان، السیرۃ النبویہ، ۲:۱۵۴؍فتح الباری،۷:۴۶۳
۲۰۔ایضاً،۲:۱۵۴؍ فتح الباری،۷:۴۶۳
۲۱۔دحلان، السیرۃ النبویۃ ، ۲:۲۱۹؍السیرۃ الحلبیۃ۳:۷۲
۲۲۔جہاں تک اس روایت کا تعلق ہے تو مصنف نے اس روایت کو بغیر کسی سند اور بغیر کسی کتاب کا حوالہ دیئے نقل کیا ہے یہ حدیث امام بیہقی کی" دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعہ"میں موجود ہے امام بیہقی نے لکھا ہے کہ "فی اسنادہ الی الثوری من لا یعرف" (بیہقی،احمد بن الحسین، ابوبکر(۴۶۸ھ)،دلائل النبوۃ و معرفۃ احوال صاحب الشریعۃ، بیروت، دارالکتب العلمیہ،۱۴۰۵ھ۱۹۸۵ء، ۴؍۲۴۶) علاوہ ازیں طبرانی کی المعجم الاوسط میں بھی اسے نقل کیا گیا ہے۔( المعجم الاوسط للطبرانی ۔۵؍۵۳)لیکن مذکورہ بالا روایت میں ’’حجل‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے ’’رقص‘‘ کے الفاظ کہیں مذکور نہیں۔جہاں تک حجل کے معنی کا تعلق ہے تو اس کے معنی بیان کرتے ہوئے صاحب لسان العرب نے لکھا ہے کہ "ان یرفع رجلاً ویقفز علی الاخری من الفرح "(لسان العرب ۔۱۱؍۱۴۳) نیز الخوجلی عورتوں کی ایسی چال کو بھی کہتے ہیں جس میں ناز و ادا ہو ۔(لسان العرب۔۱۱؍۲۰۰) ابن قیم اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں کہ اگر یہ روایت درست بھی ہے تو اس میں دباب اور تکسر (ناز و ادا سے چلنا) کی مشابہت اختیار کرنے اور چال میں تحنث(زنانہ پن ؍ہیجڑا پن)اختیار کرنےکے جواز پر کوئی حجت نہیں کیونکہ یہ رسول اﷲﷺ کی ہدایت کے منافی ہے البتہ اس بات کا امکان ہے کہ حضرت جعفرؓ کا مذکورہ بالا انداز (چال) حبشیوں کے اپنے بڑوں کی تعظیم کی عادت (وعرف) پر مبنی ہو جیسا کہ ترکوں کے ہاں"الجوک" بجانا پس حضرت جعفرؓ اس عادت کے مطابق چلے اور انہوں نے تو اسے ایک مرتبہ کیا تھا پھر طرز اسلام و طریقہ اسلام کی خاطر اسے چھوڑ دیا۔ لہٰذا یہ قفز و تکسر اور تثنیی وتحنث کہاں سے ہو گیا ۔(زاد المعاد ۔۳؍۲۹۶) امام زینی دحلان نے اسے امام سیوطی کی الحاوی للفتاوی سے نقل کیا ہے اور امام سیوطی نے بنیادی طور پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے اس روایت سے استدلال کیا ہے اور اس کے جواز کی طرف گئے ہیں۔(السیوطی، الحاوی للفتاویٰ، ۲؍۴۴۵)(رقص کے جواز و عدم جواز کے حوالے سے دیگر روایات کا حوالہ بھی دیا جاتا ہے ۔لہٰذا یہ مسئلہ مختلف مکاتب فکر کے ہاں مختلف فیہ ہے، یہاں جواز یا عدم جواز ثابت کرنے کی بحث مقصو دنہیں صرف مندرجہ بالا روایت کی استنادی حیثیت اور اس سے استنباط کے حوالے سے بحث کی گئی ہے)دیکھئے: حافظ محمد نعیم، ڈاکٹر ،سیرت حلبیہ میں فقہ السیرۃ کے اُسلوب کا مطالعہ، افکار، کراچی، جلد۲، شمارہ۲،دسمبر۲۰۱۸ء، ص۳۶،۴۳
۲۳۔المواھب اللدنیہ ۱:۲۸۷-۲۸۸/دحلان، السیرۃ النبویہ،۱: ۳۰۵
۲۴۔دحلان، السیرۃا لنبویۃ۲؍۱۶؍السھیلی ، عبدالرحمن بن عبدالملک بن أ حمد بن أبی الحسن، الخثمعی ( ۵۸۱ھ) الروض الانف فی تفسیر السیرۃ النبویۃلابن ھشام، القاھرہ، دارالحدیث۔ ۱۴۲۹ھ ۳:۴۳۵
۲۵۔دحلان، السیرۃا لنبویۃ ، ۲:۱۴۸؍ فتح الباری۔۱:۵۵۶
۲۶۔دحلان، السیرۃا لنبویۃ ، ۲:۱۶۶؍فتح الباری۔۷:۳۴۵
۲۷۔دحلان، السیرۃا لنبویۃ۲:۱۵۴؍فتح الباری۔۷:۴۶۳؍ شرح النووی ۱۲:۱۸۲
۲۸۔دحلان، السیرۃا لنبویۃ ، ۲:۱۸۰؍فتح الباری۔۵:۳۴۰
۲۹۔(i)دحلان، السیرۃا لنبویۃ ، ۲:۱۰۸
(ii)کتاب الشفاء، ۲:۱۸۴
(iii)الروض الانف ،۴:۴۲
(iv)السیوطی، عبدالرحمن بن أبی بکر(م۹۱۱ھ)،الخصائص الکبری، مکہ المکرمۃ، دارالباز (س ن)۲:۲۳۹۔۲۰۲
۳۰۔مسند الامام احمد بن حنبل، رقم الحدیث ، ۱۹۴۷۴ء،۴:۳۹۰
۳۱۔ایضاً، رقم الحدیث ،۲۰۷۵،۱:۲۳۳
۳۲۔الہیثمی ، نور الدین علی بن ابی بکر (م۸۰۷ھ) ،مجمع الزوائد و منبع الفوائد، بیروت ، دارالکتاب العربی، ۱۹۶۷ء، ۵:۱۰۱
۳۳۔مسند الامام احمد بن حنبل، رقم الحدیث،۷۰۷۰ ،۲:۲۲
۳۴۔سنن ابوداؤد، کتاب الطب ، باب فی الطیرۃ، رقم الحدیث، ۳۹۲۷؍سنن الترمذی، ابواب الاطعمۃ، باب ماجاء فی الاکل مع المجذوم، رقم الحدیث،۱۸۱۷
۳۵۔دحلان، السیرۃ النبویۃ، ۳؍۱۸؍ السیرۃ الحلبیۃ،۳؍۳۰۴؍فتح الباری ۱۰؍۱۵۹؍شرح النووی ۱۴؍۲۲۸؍ زادالمعاد ۴:۱۴۰
٭مجذوم شخص کے ساتھ کھانا کھانے یا اس سے اجتناب کرنے کی روایات میں تعارض کی بناء پر بعض حضرات نے ان روایات میں ناسخ و منسوخ کا تعین کیا ہے۔ (اس حوالے سے دیکھیئے: ابن شاہین، عمر بن احمد بن عثمان، أبی حفص(۳۸۵ھ)، ناسخ الحدیث و منسوخہ، بیروت، دارالکتب العلمیۃ، ۱۴۲۰ھ؍۱۹۹۹ء۔ :۵۱۷۔۵۲۱
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |