1
2
2017
1682060040263_769
57-82
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/4/4
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/4
اسلام جس معاشرے کی تشکیل کرنا چاہتا ہے وہ اخلاق حسنہ سے مزین معاشرہ ہے۔وہ اپنے ماننے والوں کو اخلاق عالیہ کا خوگر بنانا چاہتا ہے۔ جس معاشرے میں اسلام نے جنم لیا وہ اخلاقی لحاظ سے ایک پست معاشرہ تھا۔جہاں چوری ، ڈاکہ زنی اور لوٹ مار بہادری کی علامت سمجھے جاتے تھے۔ جہاں بے حیائی اور ظلم کو غلط نہ سمجھا جاتا تھا۔لیکن اسلام نے جس معاشرے کو پروان چڑھایا وہ ایک ایسا معاشرہ تھا جس میں تمام اعلیٰ اخلاق پائے جاتے تھے۔نبی کریم ﷺ کے اخلاق عالیہ کا یہ عالم تھا کہ غیر تک آپ کو صادق اور امین قرار دیتے تھے۔ آپ ﷺ کے ہاتھوں جن لوگوں نے پرورش پائی ان کا اخلاق اس قدر اعلی تھا کہ اپنے اور پرائے سب ان کے اعلیٰ اخلاق کی گواہی دیا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ جنھو ں نے مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت میں اہم کردار کیا انھوں نے اخلاقی لحاظ سے بھی مسلمان خواتین کی تربیت کی ۔ ان کے اندر موجود تمام رزائل اخلاق کو ختم کرکے اخلاق حسنہ اجاگر کرنے کی کوشش کی۔خود حضرت عائشہ کی سیرت مبارکہ بھی اخلاق حسنہ کا پرتو تھی۔
اخلاق کا معنی و مفہوم :
جہاں تک اخلاق کے معنی و مفہوم کا تعلق ہے تو لسان العرب میں اس کی تعریف یوں کی گئی ہے ۔" لفظ اخلاق دراصل عربی کا لفظ ہے جس کا مادہ خ-ل-ق ہے۔ اس کے لفظی معنی عادت ، طبیعت،مروت ، اور خصلت کے ہیں[1]
اسی طرح مفردات القرآن میں ہے کہ :
اخلاق کے معنی قویٰ، باطنہ، اور عادات و خصائل تحریر کیے گئے ہیں[2]
التعریف میں اخلاق کت تعریف یوں بیان ہوئی ہے:
الخلق عبارۃ ھیۃ للنفس راسخۃ تصدر عنہا الافعال بسھولۃ ویسر من غیر حاجۃ الی فکر رویۃ۔[3]
"نفس کی ایسی پختہ حالت سے عبارت ہے جس کے باعث افعال بہت سہولت کے ساتھ بغیر غورو فکر کے سرذد ہوں "۔
جہاں تک اخلاق کے اصطلاحی معنی کا تعلق ہے تو اسلامی انسائیکلو پیڈیا میں اس کی تعریف یو ں بیان ہوئی ہے:
اسی طرح احمد قطب الدین "اسلام کا نظریہ حیات" میں اس کی تعریف کچھ یوں بیان کرتے ہیں:
قرآن پاک میں بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے اور آپ ﷺ کے اخلاق کو بلند ترین درجہ پر فائز قرار دیا گیا ہے : جیسا کہ ارشاد باری ہے:
وَاِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِيْمٍ [6]
"بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین درجہ پر فائز ہیں۔"
انگریزی میں اخلاق کے متبادل جو لفظ استعمال ہوتا ہے وہ "Ethics " ہے ۔ اور اس کا مفہو م کچھ یوں ہے:
اخلاق عالیہ اور خواتین کی تعلیم وتربیت:
اخلا ق کی دو اقسام ہیں فضائل اخلاق اور رزائل اخلاق ، اخلاق عالیہ میں حق گوئی، دیانت داری، نرمی، ظلم سے پرہیز ، صبر ، تقویٰ ، پرہیز گاری ، ایفائے عہد حسن سلوک ، خوش گفتاری ، شکر ، توکل ،خدا خوفی ،احسان اور انصاف پسندی وغیرہ شامل ہیں۔ جبکہ رزائل اخلاق میں جھوٹ ،چوری، غیبت ، ظلم، بددیانتی ، ناشکری، بدکرداری، وعدہ خلافی، بدزبانی، بےصبری وغیرہ شامل ہیں۔ حضرت عائشہ کی ذات مبارکہ ان تمام صفات سے عاری تھی جن کو رزائل اخلاق کہا جاتا ہے۔جبکہ اخلاق عالیہ آپ کی ذات مبارکہ میں کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں جس شخص کی ہمراہی سے نوازا تھا اس کا اخلاق سب سے اعلیٰ تھا ۔ جس کے اعلیٰ اخلاق کی ضمانت خود قرآن دیا کرتا تھا[10] نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نے حضرت عائشہ کی ذات مبارکہ میں ان تمام اخلاق حسنہ کو جمع کر دیا تھا جو کہ خود نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ میں موجود تھے۔ لہذا حضرت عائشہ نہ صرف اخلاق عالیہ کا ایک اعلی نمونہ تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ اخلاق عالیہ مسلمان مردوں اور خصوصا خواتین کے اندر بھی اجاگر کرنے کی کوشش کی۔جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ایک روایت میں بیان ہوتا ہے :
حضرت عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ اپنے لیے اچھی سیرت کی دعا کیا کرتے تھے جیسا کہ حدیث میں بیان ہوتا ہے :
حضرت عائشہ سمجھتی تھیں کہ اچھے اخلاق ایک مومن عورت کے لیے بہت زیادہ ضروری ہیں۔اگر کسی کا اخلاق اچھا ہوتو وہ اس اچھے اخلاق کے بل پر بہت بلند درجات حاصل کر سکتی ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آپ ارشاد فرماتی تھیں:
حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ کے اخلاق اور ان کا رویہ اس قدر اچھاتھا کہ انھوں نے کبھی کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی تھی پھر چاہے وہ کوئی کم مرتبہ شخص یا آپ کا غلام اور لونڈی ہی کیوں نہ ہوتے ۔نہ ہی آپ ﷺ کسی سے اپنی ذات کے لیے بدلہ لیا کرتے تھے ۔
حضرت عائشہ اچھے اخلاق پر اس قدر زور دیا کرتی تھیں کہ آپ مسلمان خواتین کو نصیحت کیا کرتی تھیں کہ وہ کسی بھی حالت میں اخلاق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں یہاں تک کہ اگر چہ وہ نہایت دکھ اور تکلیف کی حالت میں ہی کیوں نہ ہوں۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ انھیں ایسا کرنے سے منع فرمایا کرتے تھے۔ جیساکہ ایک روایت میں بیان ہوتا ہے :
نرمی کا حکم :
حضرت عائشہ نہ صرف خود نرم خو تھیں بلکہ وہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتی تھیں۔وہ چاہتی تھیں کہ مسلمان خواتین اپنے مزاج سے سختی کو ختم کر دیں، کیونکہ سختی انسان نہ صرف انسانوں کے مابین دوری پیدا کرتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ تکلیف کا باعث بھی بنتی ہے
اسی طرح حضرت عائشہ سے مروی ایک اور روایت کچھ یوں ہے:
حضرت عائشہ نرمی کے حق میں اس لیے بھی تھیں کہ وہ جانتی تھیں کہ اللہ کے رسول ﷺ اس بات کی دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ جو میری امت کے ساتھ سختی کرے تو بھی اس کے ساتھ سختی کر اور نرمی کرنے والے کے ساتھ نرمی کا معاملہ رکھ۔جیساکہ ایک روایت میں کچھ یوں بیان ہوتا ہے:
صلہ رحمی کی تاکید :
صلہ رحمی اخلاق عالیہ کی ہی ایک قسم ہے ۔عربی میں قرابت کا حق ادا کرنے کو وصل رحم ) رحم ملانا( اور قرابت کا حق ادا نہ کرنے کو قطع رحم) رحم کا ٹنا(کہتے ہیں۔
رحم مادری ہی تعلقات قرابت کی جڑ ہے یہ رحم خالق فطرت کی باندھی ہوئی گرہ ہے جو متفرق انسانی ہستیوں کو خاص دست قدرت سے باندھ کر ایک کر دیتی ہے اور جس کا توڑنا انسان کی قوت سے باہر ہے ۔ اس لیے ان کے حقوق کی نگہداشت بھی انسانوں پر سب سے زیادہ ضروری ہے ۔ آنحضرت ﷺ نے حدیث میں وضاحت کی رحم )شکم مادر کا نام ہے ( ۔ رحمان اللہ سے مشتق ہے اسلئے محبت والے خدا نے رحم کو خطاب کر کے فرمایا:
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت کے دوران اس بات کاخاص خیال رکھتی تھیں کہ ان کے اندر صلہ رحمی پیدا ہو ۔وہ انھیں نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد بھی سنایا کرتی تھیں۔حضرت عائشہ سے مروی ہے:
حضرت عائشہ خود بھی صلہ رحمی کو اختیار کیا کرتی تھیں۔ آپ اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں سے بہت اچھی طرح پیش آتی تھیں ان کی خاطر تواضع کیا کرتی تھیں اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتی تھیں۔جیساکہ عبداللہ بن زبیر سے مروی ایک روایت میں بیان ہوتا ہے:
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو بھی صلہ رحمی کی ترغیب دیا کرتی تھیں۔ ان کے پیش نظر نبی کریم ﷺ کا ارشاد رہتا تھا کہ نبی کریم ﷺ اس کا حکم دیتے تھے اور فرماتے تھے کہ جو صلہ رحمی کرتا ہے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ تعلق کو جوڑے رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ اپنا تعلق استوار رکھتے ہیں۔جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
"سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رشتہ داری عرش
اسی طرح حضرت عائشہ فرماتی تھیں کہ صلہ رحمی ، حسن اخلاق انسان کی عمر میں اضافے اور برکت کا سبب بنتی ہے۔اورجو لوگ نرمی اختیار کرتے ہیں انھیں دنیا اور آخرت کی بھلائی نصیب ہوا کرتی ہے۔جیسا کہ روایت میں بیان ہوتا ہے :
والدین کے ساتھ حسن سلوک:
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں ۔کیونکہ ایسا کرنے والے انسان دنیا و آخرت دونوں میں کامیا ب ہو جاتا ہے ۔جیسا کہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قرآن کریم کی تلاوت کی آواز سنائی دی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ مجھے بتایا گیا کہ یہ حارثہ بن نعمان ہیں ، تمہارے نیک لوگ اسی طرح کے ہوتے ہیں دراصل وہ اپنی والدہ کے ساتھ بڑا اچھا سلوک کرتے تھے۔[22]
والدین کے ساتھ ساتھ اولاد کے ساتھ اچھا سلو ک کرنا بھی انسان کے لیے بہت ضروری ہے۔ جو والدین اپنی ذات پر اپنی اولاد کو ترجیح دیتے ہیں ان کی اس صلہ رحمی کی بدولت اللہ تعالی انھیں اپنے عذاب سے دور کر دیتا ہے یعنی ان کا یہ عمل ان کے لیے جہنم سے آڑ بن جایا کرتا ہے۔کیونکہ حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک عورت ان کے پاس آئی اس کے ساتھ اس کی دو بیٹیاں بھی تھیں۔ انہوں نے اس عورت کو ایک کھجور دی اس نے اس کھجور کے دو ٹکڑے کر کے ان دو بچیوں میں اسے تقسیم کر دیا۔ اور خود کچھ نہ کھایا۔ حضرت عائشہ نے نبی کریم ﷺ سے اس کا تذکرہ کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جس شخص کی ان بچیوں سے آزمائش کی جائے اور وہ ان کے ساتھ حسن سلوک کرے تو یہ اس کے لیے جہنم سے آڑ بن جائیں گی۔[23] لہذا حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو تلقین کیا کرتی تھیں کہ وہ اپنی اولادکے ساتھ اچھا سلوک کریں ۔
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک مسکین عورت اپنی دو بچیوں کو اٹھائے میرے پاس آئی میں نے اسے تین کھجوریں دیں اس نے ان میں سے ہر بچی کو ایک ایک کھجور دی اور ایک کھجور خود کھانے کے لیے اپنے منہ کی طرف بڑھائی لیکن اسی وقت اس کی بچیوں نے اس سے مزید کھجور مانگی تو اس نے اسی کھجور کو دو حصوں میں تقسیم کرکے انھیں دے دیا ۔مجھے اس واقعے پر بڑا تعجب ہوا میں نے نبی ﷺ سے بھی اس واقعے کا تذکرہ کیا تو نبی ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کے لیے اس بناء پر جنت واجب کر دی اور اسے جہنم سے آزاد کر دیا۔[24]
حضرت عائشہ صرف رشتہ داروں کے ساتھ ہی اچھا سلوک کرنے کی تلقین نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ دیگر لوگوں کے ساتھ بھی اچھے سلوک کا حکم دیتی تھیں۔ خاص طور پر ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔حضرت عائشہ سے مروی ہے:
اسلام دوسروں کے ساتھ بھلاسلوک کرنے اور ان کاحق ادا کرنے کا حکم دیتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ احسان کے رشتے میں بند ھ جائیں ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں نہ کہ ایک دوسرے پر ظلم کریں ۔حضرت عائشہ بھی مسلمان خواتین کو ایک دوسرے کے ساتھ نیک او ربھلا سلوک کرنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ احسان کا معاملہ کریں ۔اگر کوئی ہم پر احسان کرے تو ہم اس کے احسان کا بدلہ احسان سے ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر ہم یوں نہ کر پائیں تو پھر ہمیں چاہیے کہ کم از کم ہم اس انسان کو اچھے لفظوں میں یاد کریں جس نے ہم پر احسان کیا ہو۔جیساکہ روایت میں بیان ہوتا ہے:
تحائف دینا فروغ محبت کا ذریعہ:
تحفہ دینے اورلینے سے محبت میں اضافہ ہوتا ہے اسلام جو کہ نفرت اور بغض کی بجائے صلہ رحمی اور پیار و محبت ، امن و اتفاق کا داعی ہے وہ یہ چاہتا ہےکہ اس کے ماننے والوں کے درمیان محبت پروان چڑھے۔ حضرت عائشہ ہدیات کو محبت کے فروغ کا ایک ذریعہ سمجھتی تھیں اور نبی کریم ﷺ کے ارشاد کی روشنی میں اس کو قبول فرما لیا کرتی تھیں ۔ روایت میں بیان ہوتا ہے:
اسی طرح حضرت عائشہ صرف اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہی حسن سلوک کی تلقین نہیں کیا کرتی تھیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنے اور ان کے حقوق کی نگہداشت کا بھی حکم دیتی تھیں۔آ پ فرمایا کرتی تھیں کہ اگر کوئی کسی یتیم یا مسکین عورت یا بچی سے نکاح کرنا چاہتا ہو تو وہ صرف اسی صورت نکاح کر سکتا ہے جب وہ ان کے مہر پورے ادا کرے اور ان کے ساتھ انصاف کرنے کا ارادہ اور سکت رکھتاہے۔ روایت میں بیان ہوتا ہے:
دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھنا اور بوقت ضرورت انھیں اپنی اشیا کو استعمال کرنے دینا بھی اخلاق حسنہ کا ہی ایک جزو ہے۔حضرت عائشہ کی سیرت مبارکہ جو کہ مسلمان خواتین کے لیے عملی نمونہ ہے اس میں ہم کو یہ بات بھی ملتی ہے کہ حضرت عائشہ اپنی چیزیں دوسروں کو دے دیا کرتی تھیں تاکہ وہ اسے استعمال کر لیں۔ ان کے پاس ایک بہت عمدہ اور بیش قیمت کرتہ تھا جس کو اس زمانہ میں دلہنیں مستعار لیا کرتیں تھیں اپنی بارات کے دن پہننے کے لیے۔[29]
ایثار و قربانی:
حضرت عائشہ کا خواتین کی اخلاقی تعلیم و تربیت کا ایک اہم پہلو یہ بھی تھا کہ آپ انھیں دوسروں کو خود پر ترجیح دینے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ حضرت عائشہ کا اپنا طرز عمل بھی ایسا ہی تھا کہ وہ دوسروں کو خود پر ترجیح دیتی تھیں چاہے وہ چیز انھیں کتنی ہی عزیز کیوں نہ ہو۔جب حضرت عمر فاروق کو زخمی کر دیا گیا تو انھوں نے حضرت عائشہ سے ان کے حجرہ مبارک میں نبی کریم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیق کے ساتھ دفن ہونے کی اجازت مانگی ۔ حضرت عائشہ کی اگرچہ اس جگہ دفن ہونے کی شدید خواہش تھی پھر بھی انھوں نے حضرت عمر فاروق کو خود پر ترجیح دی اور انھیں اس جگہ دفن ہونے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ حدیث مبارکہ میں بیان ہوتا ہے:
مساوات و برابری بھی اخلاق عالیہ کا جزو ہیں۔ یہ ظلم و زیادتی اور اقربا پرستی کی ضد ہیں۔ اسلام جس معاشرے کو تشکیل دینا چاہتا ہے مساوات اور برابری اس کا لازمی جزو ہیں۔ حضرت عائشہ بھی مسلمان خواتین کو برابری اور مساوات کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ کسی کو بھی اس کے معاشرتی رتبے کی بناء پر درجہ عطا نہیں کیا کرتے تھے بلکہ ان کی نظر میں سب برابر ہوتے تھے۔ یہ مساوات اور برابری صرف معاشرتی نہیں تھی بلکہ قانونی بھی تھی اوراسلامی معاشرے میں قانون کی نظر میں سب برابر ہوتے تھے۔ اس لیے وہ مسلمان خواتین کو نبی کریم ﷺ سے منسوب ایک واقعہ سنایا کرتی تھیں جو کہ قانون مساوات کی ایک بڑی اچھی مثال تھی۔وہ فرماتی ہیں:
حضرت عائشہ خوف خدا کی شدت اورکسر نفسی کا ایک بہترین نمونہ تھیں۔ یہاں تک کہ جب حضرت عائشہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہو ئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی ، کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذ مہ داری سے سبکدوش ہو جاتی۔[32]
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو تقوی اور پرہیز گاری اختیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ وہ سمجھتی تھیں کہ دنیا کی زندگی چند روزہ ہے لہذا یہاں کی آسائشوں کے حصول میں جت جانے کی بجائے ہمیں خدا ، اس کے رسول ﷺ اور آخرت کو دنیاوی آسائشوں پر ترجیح دینا چاہیے ۔ بذات خود حضرت عائشہ کا اپنا عمل بھی یہی تھا۔ آ پ نے نہایت سادہ زندگی بسر کی تھی۔کھانا بہت سادہ ہوا کرتا تھا۔ بلکہ اکثر یوں ہوتا کہ گھر میں کھانے کو کچھ موجود نہ ہوتا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بعض اوقات ہم پر کئی کئی مہینے اس حال میں گزر جاتے کہ نبی کریم ﷺ کے کسی گھر میں آگ نہیں جلتی تھی، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا خالہ جان: پھر آپ لوگ کس طرح گزارہ کرتے تھے؟ انھوں نے کہا دو سیاہ چیزوں یعنی پانی اور کھجور۔[33]
اسی طرح حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ اس ذات کی قسم جس نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا ، نبی کریم ﷺ نے کبھی چھلنی نہیں دیکھی اور کبھی چھنے ہوئے آٹے کی روٹی نہیں کھائی، بعثت سے لے کر وصال تک یہی حالت رہی، عروہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا آپ لوگ جو کی روٹی بغیر چھانے کس طرح کھا لیتے تھے؟ انھوں نے فرمایا: ہم لوگ اف کہتے جاتے تھے تکلیف کے ساتھ حلق سے اتارتے تھے یا صرف منہ سے پھونک مار لیا کرتےتھے۔[34]
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو سادہ طرز زندگی اختیار کرنے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ وہ انھیں مال و اسباب اور زیورات جمع کرنے کی بجائے اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اور اپنی زندگی کو نہایت سادہ طریقے سے گزارنے کا حکم دیا کرتی تھیں۔ جیسا کہ ایک روایت ہے کہ حضرت عائشہ نے فرمایا کہ مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہ ! اگر تم مجھ سے ملنا چاہتی ہو تو تم دنیا پر مسافر کے توشے کی مانند قناعت کرو اور امراء کی مجلسوں میں نہ اٹھو بیٹھو اور کپڑوں کو جب تک ان میں پیوند کام دیتے ہیں پرانا نہ سمجھو۔[35]
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ نے سونا پہننے سے منع فرمایا تو ہم نے عرض کیا ، یا رسول اللہ ﷺ ! کیا ہم تھوڑا سا سونا لے کر اس میں مشک نہ ملا لیا کریں نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اسے چاندی کے ساتھ کیوں نہیں ملاتی، پھرے اسے زعفران کے ساتھ خلط ملط کر لیا کرو، جس سے وہ چاندی بھی سونے کی طرح ہو جائے گی۔[36]
یہاں تک کہ نبی کریم ﷺ نے بحکم الہٰی اپنی ازواج مطہرات کو دنیاوی آسائشوں کو پیش کش کی اور انھیں دنیاوی آسائشوں یا فقر وفاقہ کے ساتھ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے ساتھ میں سے کسی ایک شے کو چن لینے کا حکم دیا ۔جب حضرت عائشہ کے سامنے نبی کریم ﷺ نے یہ پیشکش رکھی تو انھوں نے فورا بلاتاخیر اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو چن لیا ۔یعنی آپ نے دنیاوی آسائشوں پر اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور فقر و فاقہ کو ترجیح دی۔ جیساکہ روایت میں بیان ہوتا ہے:
"ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا ، کہا ہم کو شعیب نے خبر دی ، ان سے زہری نے بیان کیا ، کہا کہ مجھے ابوسلمہ
جس قدر اخلاق فاضلہ کی افزائش ضروری ہے اسی قدر رزائل اخلاق سے اجتناب بھی اہم ہے ۔حضرت عائشہ مسلمان خواتین کی تعلیم وتربیت اس طرح کیا کرتی تھیں کہ ان کے اندر نہ صرف اعلیٰ اخلاقی صفات پیدا ہوں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اخلاقی عوارض سے بھی بچیں ۔حضرت عائشہ نے مسلمان خواتین کو بدگوئی سے بچنے کا حکم دیا ۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک شخص نے اندر آنے کی اجازت چاہی ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دیکھ کر فرمایا کہ برا ہے فلاں قبیلہ کا بھائی ۔ یا ( آپ نے فرمایا ) کہ برا ہے فلاں قبیلہ کا بیٹا ۔ پھر جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آبیٹھا تو آپ اس کے ساتھ بہت خوش خلقی کے ساتھ پیش آئے ۔ وہ شخص جب چلا گیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ سے عرض کیایا رسول اللہ ! جب آپ نے اسے دیکھا تھا تو اس کے متعلق یہ کلمات فرمائے تھے ، جب آپ اس سے ملے تو بہت ہی خندہ پیشانی سے
ملے ۔ آنحضرت نے فرمایا اے عائشہ ! تم نے مجھے بدگو کب پایا ۔ اللہ کے یہاں قیامت کے دن وہ لوگ بدترین ہوں گے جن کےشر کے ڈر سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں ۔[39]
عفو و درگزر کا حکم :
حضرت عائشہ مسلمانوں کو تلقین کیا کرتی تھیں کہ وہ ایک دوسرے سے بدلہ لینے کی بجائے ایک دوسرے کو معاف کرنا سیکھیں اور صبر و تحمل سے کام لیں۔ دوسروں کی خطاؤں اور لغزشوں کو نظر انداز کر دیا کریں۔ آپ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے اپنے کسی خادم یا کسی بیوی کو کبھی نہیں مارا اور اپنے ہاتھ سے کسی پر ضرب نہیں لگائی الا یہ کہ راہ خدا میں جہاد کر رہے ہوں۔ نبی کریم ﷺ کی شان میں کوئی بھی گستاخی ہو تی تو نبی کریم ﷺ اس آدمی سے کبھی انتقا م نہیں لیتے تھے البتہ اگر محارم خداوندی کو پامال کیا جاتا تو اللہ کے لیے انتقام لیا کرتے تھے۔[40]
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کو اس بات کی تلقین کیا کرتی تھیں کہ دوسروں کے ساتھ ہر حال میں اچھا سلوک کیا جائے ۔یہاں تک کہ اگر وہ آپ کے ساتھ برا سلوک کریں تو بھی ان سے جواب میں اچھا سلوک کرے ۔کیونکہ حضرت عائشہ کی سیرت کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اگر کوئی رشتے دار آ پ کے ساتھ برا سلوک کرتا تو بھی حضرت عائشہ اس حق میں نہیں تھیں کہ اس کے ساتھ جوابا برا سلوک کیا جائے بلکہ وہ فرماتی تھیں کہ اللہ کاحکم یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کے سلوک کو جاری رکھا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔جب حضرت عائشہ پر بہتان لگایا گیا تھا تو اس وقت قبیح فعل میں جو لوگ شریک تھے ان میں سے ایک سامع بن مسطح بھی تھا جو کہ حضرت ابوبکر صدیق کا رشتہ دار تھا اور حضرت ابو بکر صدیق اس کی کفالت کیا کرتے تھے۔ اس واقعہ کے بعد حضرت ابو بکر صدیق نے ارادہ کیا کہ وہ اب مزید ان کی مدد نہیں کریں گے۔ تو اس پر بطور تنبیہ وحی کا نزول ہوا۔حضرت عائشہ فرماتی ہیں :
حضرت عائشہ جھگڑے کو سخت ناپسند کیا کرتی تھیں ۔ ۔ آپ فرماتی تھیں کہ نبی کریم نے جھگڑالو شخص کو مبغوض قرار دیا ہے۔جیساکہ بیان ہوتا ہے:
حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : "سب سے مبغوض آدمی وہ ہے جو نہایت جھگڑالو ہو"۔[42]روایت میں بیان ہوتا ہے :
اسی طرح حضرت عائشہ نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے ، الا یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ ہو، شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرنا، اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہو جانا، یا کسی شخص کو قتل کرنا جس کے بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے۔[44]
حضرت عائشہ مسلمان خواتین کی تعلیم وتربیت اس طرح سے کیا کرتی تھیں کہ ان کے اندر احسان اور صلہ رحمی کی عادات فروغ پائیں او روہ ظلم اور بددیانتی سے بچیں۔ وہ ان کو ظلم و زبردستی کرنے سے منع کرتی تھیں اور ان کے
سامنے ظالم کی مذمت بیان کیاکرتی تھی۔ جیساکہ آپ سے مروی ایک روایت میں بیان ہوتا ہے:
جس طرح غرور و تکبر اخلاق فاضلہ کی علامات ہیں اسی طرح خود ستائی سے پرہیزاخلاق عالیہ کا حصہ ہیں۔ حضرت عائشہ مسلمان خواتین کی تعلیم و تر بیت کرتے ہوئے انھیں اس بات کی تلقین کیا کرتی تھیں کہ وہ خود ستائی سے پرہیز کریں ۔خود حضرت عائشہ کا طرز عمل یہ تھا کہ وہ اپنی تعریف کو بالکل پسند نہیں کرتی تھیں یہاں تک کہ اگر کوئی اور آپ کی تعریف کرتا تو آپ اس کو ناپسندفرماتی تھیں:
حضرت عائشہ حر ص و طمع سے بچنے کی تلقین کیا کرتی تھیں ۔مال کی حرص وہ اخلاقی برائی ہے جو انسان کو دیگر کئی برائیوں میں مبتلاکر سکتی ہے لہذا حضرت عائشہ تلقین کیا کرتی تھیں کہ اس سے بچا جائے۔اور مال کو اللہ کی راہ میں خرچ کیا جائے۔
نبی کریم ﷺ گھر میں داخل ہوتے وقت فرماتے تھے کہ اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی تلاش میں رہے گا اور اس کا منہ مٹی کے علاوہ اور کسی چیز سے نہیں بھر سکتا۔ہم نے تو مال بنایا ہی اس لیے تھا کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ دی جائے۔[47]
حضرت عائشہ غیبت اور دوسروں کی عیب جوئی سے نہ صرف خود بھی بچتی تھیں بلکہ دیگر خواتین کو بھی اس سے بچنے کی تلقین کیا کرتی تھیں۔ ان کے نزدیک غیبت کرنے کے ساتھ کسی دوسرے کی نقل اتارنا یا اس کے عیب کو موضوع بحث بنانا بھی غیر اخلاقی حرکت تھی اور نبی کریم ﷺ نے اس نے سختی سے منع فرمایا تھا ۔جیساکہ روایت میں بیان ہوتا ہے : حضرت عائشہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم ﷺ کی موجودگی میں کسی مرد یا عورت کی نقل اتارنے لگی تو نبی ﷺ نے فرمایا : اگر مجھے اس سے بھی زیادہ کوئی چیز بدلے میں ملے تو پھر بھی میں کسی کی نقل نہ اتاروں ، اور نہ اسے پسند کروں ۔( میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ! صفیہ اتنی سی ہے اور یہ کہہ کر ہاتھ سے اس کے ٹھگنے ہونے کا اشارہ کیا ،تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم نے ایسا کلمہ کہا ہے جسے اگر سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا بھی رنگ بدل جائے۔[48]
جھوٹ رزائل اخلاق کی جڑ ہے اور انسان کو دیگر برائیوں میں مبتلا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔اس لیے حضرت عائشہ اس نے نہ صرف خود پرہیز کرتی تھیں بلکہ مسلمان خواتین کی تعلیم وتربیت بھی اسی نہج پر کرتی تھیں کہ وہ اس سے باز رہیں ۔ حضرت عائشہ فرمایا کرتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ کے صحابہ کے نزدیک جھوٹ سے زیادہ کوئی عادت بری نہ تھی، بعض اوقات اگر کوئی آدمی نبی ﷺ کے سامنے جھوٹ بولتا تو یہ چیز اسے مستقل ملامت کرتی رہتی تھی حتی کہ پتہ چلتا کہ اس نے اس سے توبہ کر لی ہے۔[49]
یہاں تک کسی ایسی چیز کے بارے میں غلط بیانی کرنا جو انسان کے پاس موجود نہ ہو مگر وہ اسے اپنی ملکیت میں ظاہر کرے آپ کےنزدیک ایک ایسا جھوٹ تھا جو درحقیقت دو جھوٹوں کے برابر درجہ رکھتا ہو۔حدیث میں بیان ہوتا ہے :
عصر حاضر کی عورت کی اخلاقی تربیت سیرت عائشہ کی روشنی میں
اگر اسلامی تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جیسے مسلمان مردوں کی اخلاقی حالت اس قدر اعلیٰ تھی کہ دوسری اقوام ان کے اخلاق و کردار سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرتی رہی ہیں وہیں مسلمان خواتین بھی اخلاق و کردار کے لحاظ سے بلند ترین درجات پر فائز تھیں دوسرے لفظوں میں یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ان کا اخلاق و کردار بھی اس قابل تھا کہ معاشرے کے لیے مثال بنتا بلکہ ماں کی حیثیت سے اس کا اعلیٰ اخلاق و کردار مسلمان مردوں کی اعلی اخلاقی و کرداری حالت کا بھی ضامن تھا ۔ جہاں تک عصر حاضر کی عورت کی اخلاقی حالت کا تعلق ہے تو وہ بھی نہایت دگرگوں ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو اخلاق حسنہ کی ترغیب دیتا ہے۔ انھیں بات چیت اورمعاملات میں نرمی کی ہدایت کرتا ہے۔ جھوٹ سے بچنے اور سچ بولنے کی تلقین کرتا ہے۔ ایک دوسرے کی حق تلفی اور ظلم و ستم سے منع کرتا ہے ۔عدل سے کام لینے اور انصاف کرنے کا حکم دیتا ہے ۔غیبت اور چغل خوری سے منع فرماتا ہے۔ لڑائی جھگڑے اور تلخ کلامی کا سدباب کرنے کا حکم دیتا ہے۔ ظلم و ستم سے منع فرما کر احسان کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رواداری و اخوت و بھائی چارے کو اپنانے کا کہتا ہے ۔لیکن آج معاملہ کچھ اور ر خ اختیار کر چکا ہے۔ جیسے زندگی کے دیگر شعبوں میں مسلمانوں نے اسلام کے سنہری اصولوں کو پس پشت ڈال رکھا ہے وہی معاملہ اخلاق کے حوالے سے بھی جاری ہے۔ آج امت مسلمہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہے جس میں مسلمان مرد و خواتین دونوں ہی کی اخلاقی حالت زوال پذیر ہے۔ آج ان کے اقوال کے اندر سچ سے زیادہ جھوٹ کی آمیزش ہے ۔ آج ان کا رویہ نرمی و ملائمت کی بجائے ترشی و تلخی لیے ہوئے ہوتا ہے۔ کیا خواتین اور کیا مرد دونوں اصناف ہی اخلاق مذمومہ کو اپنائے ہوئے ہیں۔
اگر ہم عصر حاضر کی مسلمان خواتین کی بات کریں تو ان کی اخلاقی حالت میں جو غالب رجحان پایا جاتا ہے وہ اسلام کے زریں اخلاقی اصولوں سے بہت مختلف اور متضاد ہے۔ اسلام خواتین کو نرمی و برداشت کا حکم دیتا ہے لیکن موجود دور میں خواتین کے اندر تحمل و برداشت کا مادہ بہت کم ہو چکاہے۔ دائرہ اسلام میں شامل خواتین کی اکثریت اب سچ کی بجائے جھوٹ کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہے۔ ایفائے عہد اور دیانت داری کی بجائے بددیانتی اور وعدہ خلافی کو اپنی زندگیوں میں شامل کیے ہوئے ہے۔ گھریلو جھگڑوں کی کثرت اور نا چاقی اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج کی عورت بھائی چارہ اور اخوت کی بجائے ناچاقی اور نفرت کو اپنائے ہوئے ہے۔ غیبت جسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا گیا تھا آج کے دور کی مسلما ن عورتوں کی اکثریت اس سے عار محسوس نہیں کرتی ۔یہاں تک کہ وہ اس بات سےبھی آگاہ نہیں ہوتیں کہ ان کا کونسا عمل اور قول غیبت و چغلی کے ضمن میں شمار ہو رہا ہے۔ شوہر اور بیوی کے درمیان جھگڑوں کی بہتات ، ساس و بہو ، بھابھی اور نندوں کے درمیان تنازعات روز مرہ معمولات میں شامل ہو چکے ہیں۔ دوسروں کی دل آزاری کو عیب کی بجائے خوبی سمجھا جاتا ہے۔ دوسروں کی حق تلفی گناہ نہیں کامیابی خیال کی جاتی ہے ۔ساس کا بیٹے کو بہو کے خلاف بد ظن کرنا اور بہو کا شوہر کو ماں اور بہنوں کے خلاف بھڑکانا ایسے اخلاقی عیوب ہیں جن کی اگرچہ عصر حاضر میں بہتات ہے مگر ان کو کوئی برا نہیں جانتا ۔
چھوٹی چھوٹی باتوں پر بلاوجہ غلط بیانی کرنا، جو چیز پاس نہ ہو اس کے بارے میں دکھاوا کرنا ، نازیبا الفاظ کا استعمال کرنا ، ایک دوسرے کی غیر موجودگی میں برائی کرنا ، عیوب کو بیان کرنا عام ہو چکاہے ۔کسی کی پردہ پوشی یا اصلاح کرنا اب مناسب نہیں سمجھا جاتا۔بلکہ اب دوسروں کے عیوب کو اچھالا جاتا ہے اور ان کے کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر امن و سکون سے رہنا اب محال ہو چکا ہے۔ ایک دوسرے کے محاسن سے زیادہ عیوب پر نظر رکھنے کا نتیجہ یہ ہے کہ انسان نہ صرف رزائل اخلاق میں مبتلا ہو رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ باہمی محبت و ہم آہنگی کا بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔ آج کی عورت جو کہ اپنے معیار زندگی میں بہتری لانا چاہتی ہے اور اپنی معاشرتی ومعاشی حالت میں مثبت تبدیلی کی خواہش رکھتی ہے ، اس کو پورا کرنے کی خاطر وہ نہ صرف اپنے اہل خانہ کو دھوکہ دہی ، بددیانتی اور رشوت جیسے اخلاقی عوارض میں مبتلا کر رہی ہے بلکہ وہ خود بھی وہ دکھاوے اور جھوٹ کاشکار ہو رہی ہے۔
اسلام ہم کو دوسروں کے ساتھ نیکی اور بھلائی کا حکم دیتا ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے:
حضرت عائشہ کی سیرت پاک عصر حاضر کی مسلمان خواتین کی اخلاقی تربیت کے لیے بلاشبہ ایک رول ماڈل کا کردار ادا کر سکتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی صحبت نے آپ کے اندر ان تمام اخلاق عالیہ کو جنم دے دیا تھا جن کی اسلام اپنے ماننے والی خواتین اور مرد دونوں سے توقع رکھتا ہے۔حضرت عائشہ کے ذات مبارکہ میں وہ تمام اخلاق عالیہ رچ بس چکے تھے جو کہ ایک مومن کی علامت قرار دیئے جا سکتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کو دنیا میں جس شخص کی ہمراہی سے نوازا تھا اس کا اخلاق سب سے اعلیٰ تھا ۔ جس کے اعلیٰ اخلاق کی ضمانت خود قرآن دیا کرتا تھا۔[52] نبی اکرم ﷺ کے ساتھ نے حضرت عائشہ کی ذات مبارکہ میں ان تمام اخلاق حسنہ کو جمع کر دیا تھا جو کہ خود نبی کریم ﷺ کی ذات مبارکہ میں موجود تھے۔ کیونکہ حضرت عائشہ کے سامنے نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد موجود تھا کہ :
المختصر حضرت عائشہ نہ صرف خود اخلاق عالیہ کے بلند درجے کی حامل خاتون تھیں بلکہ انھوں نے دیگر مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت بھی اس نہج پر کرنے کی کوشش کی جس سے ان کے اندر تمام اچھی عادات کو فروغ دیا جا سکے اور رزائل اخلاق کو ختم کیا جاسکے۔حضرت عائشہ نے نہ صرف وعظ و نصیحت کے ذریعے خواتین کی اخلاقی تربیت کرنے کی کوشش کی بلکہ اپنے آپ کو بطور نمونہ کے پیش کیا۔ حضرت عائشہ اخلاص کا پیکر تھیں اور خوش خلقی کا مظہر، آپ کے اوصاف کا بیان اپنے اور پرائے سب کرتے تھے۔ آپ نے لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کو روا رکھا یہی وجہ تھی کہ آپ کی سوتنیں تک آپ کی اچھائیاں بیان کیا کرتی تھیں۔ دوسروں کی تکلیف کا احساس آپ میں موجود تھا جس کی وجہ سے آپ غرباء و فقراء کی دل کھول کر مدد کیا کرتی تھیں۔ اپنے رشتہ داروں اور ہمسائیوں کے ساتھ بھی اچھا سلو ک روا رکھتی تھیں ان کو ہدیات بھیجتی رہتی تھیں۔ آپ نے دنیا عیش و عشرت کو آخروی زندگی پر ترجیح دینے کی تلقین کی اور خود بھی ساری زندگی یہی کیا اور نہایت سادہ زندگی گزاری۔آپ جھوٹ اور نانصافی سے بچنے کی تلقین کیا کرتی تھیں ۔اللہ کی رحمت کی ہمیشہ طلبگار رہا کرتی تھیں۔
حوالہ جات
- ↑
: افریقی، ابن منطور، لسان العرب، بیروت : دارلکتب العلمیہ،2006، 8/ 317
- ↑ : اصفہانی ،راغب ، امام، مفردات القرآن ،بیروت : دار الکتب ،س۔ن ، 1/ 166
- ↑
الجرجانی ، شریف ، الشریف علی بن محمد ،ایران : انتشارات ناصر خسرو ، ۱۳۰۶ھ ،الطبۃ الا و لی ، ص 45
- ↑
: محمد قاسم ، اسلامی انسائیکلوپیڈیا، ناشر تاجران، لاہور، 1998ء، 1 /166
- ↑
: احمد قطب الدین، اسلام کا نظریہ حیات،فیصل ناشران ، لاہور، 2001ء: 161
- ↑
: القلم 68: 4
- ↑ : Macmilan English Dictionary.Malayasia: good reads, 2003.470
- ↑
شبلی نعمانی ، سیرت النبی ، لاہور: ناشران وتاجران ،س،ن ، ۱/ ۳۶۱
- ↑
ایضاً ۱
- ↑
: القلم 68: 4
- ↑
: حنبل، احمد بن ، المسند، لاہور: مکتبہ الرحمانیہ ،س۔ن ،رقم الحدیث: 25184
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 25735
- ↑
:ایضا،رقم الحدیث: 25102
- ↑
: ایضا، رقم الحدیث: 24687
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24811
- ↑
: ایضا، رقم الحدیث: 24841
- ↑
: بخاری ،محمد بن اسماعیل ،الجامع الصحیح ،کراچی ،قدیمی کتب خانہ لاہور ، کتاب الادب ، باب من وصل وصلہ رقم الحدیث ۵۶۴۳ ، ۵/ ۲۲۳۲
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24840
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح،کتاب المناقب ، باب مناقب قریش ،رقم الحدیث: 3505، 3/1291
- ↑
مسلم ،الجامعالصحیح ، کتاب البر والصلۃ والاداب، باب صلۃ الرحم و تحریم قطیعتھا، رقم الحدیث: 2555
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 25773
- ↑
: ایضا، رقم الحدیث: 25697
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، ، رقم الحدیث: 24556
- ↑
: ایضا،رقم الحدیث: 25118
- ↑
: مسلم ،الجامعالصحیح ،کتاب البر والصلۃ والاداب ،باب الوصیۃ بالجار والاحسان الیہ، رقم الحدیث: 2624
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 25100
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح،کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا،باب المکافاۃ فی الھبۃ،رقم الحدیث: 2585،2/913
- ↑
:بخاری ، الجامع الصحیح ،کتاب الشرکۃ ، باب شرکۃ الیتیم واھل المیراث ،رقم الحدیث: 2494،2/883
- ↑
:ایضا،کتاب الھبۃ وفضلھا والتحریض علیھا،باب الاستعارۃ للعروس عند النباء،رقم الحدیث: 2628، 2/926
- ↑
:بخاری، الجامع الصحیح،کتاب اصحاب النبی ﷺ،باب قصہ البیعۃ والانفاق علی عثمان بن عفان و فیہ مقتل عمر بن الخطاب،رقم الحدیث: 3700،3/1353
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح، کتاب فضل الصحابہ ،باب ذکر اسامہ بن زید،رقم الحدیث: 3733،3/1366
- ↑
: ابن سعد، ابوعبداللہ (230ھ)، الطبقا ت الکبری ،کراچی :دارالاشات،8/ 66
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24924
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند ، رقم الحدیث: 24925
- ↑
: ابن سعد، ابوعبداللہ (230ھ)، الطبقات الکبری،8/ 67
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24548
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح،کتاب التفسیر القرآن،با قولہ(یایھا النبی قل لازواجک ان کنتن۔۔۔الایۃ ، رقم الحدیث: 4785،4/1796
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24615
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح،کتاب الاخلاق، باب لم یکن النبی فاحشاء و لا فتفشاء ، رقم الحدیث: 6032، 5/2244
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24535
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح،کتاب الشھادات ، باب تعدیل النساء بعضھن بعضا،رقم الحدیث: 2661، 2/945
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند،رقم الحدیث: 24781
- ↑
: بخاری، الجامع الصحیح،کتاب التفسیر القرآن،باب و ھوالدالخصام( البقرہ204)، رقم الحدیث: 4523، 4/1644
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24808
- ↑
: بخاری ، الجامع الصحیح،کتاب المظالم والغصب ،باب اثم من ظلم شیئا من الارض،رقم الحدیث: 2453، 2/866
- ↑
: بخاری ، الجامع الصحیح،کتاب التفسیر القرآن،باب و لولا اذ سمعتموہ۔۔۔الایۃ ، رقم الحدیث: 4753،4/1779
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 24780
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند، رقم الحدیث: 25477
- ↑
: ایضا، رقم الحدیث: 25698
- ↑
:احمد بن حنبل، المسند ، رقم الحدیث: 25854
- ↑
:المائدہ 5: 2
- ↑
: القلم 68: 4
- ↑
: احمد بن حنبل، المسند،رقم الحدیث: 25184
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |