2
2
2018
1682060040263_959
82-97
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/98/78
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/98
اخلاق اور معیشت دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے بلکہ اسلامی معاشرے میں اخلاق کا زندگی کے ہر شعبے کےساتھ گہرا تعلق ہے کیونکہ انسان کی اخلاقی حالت بہتر ہونے کی وجہ سے وہ ہر جگہ پر مقبول ہوتا ہے ہر انسان اس سے مل کر خوش ہوتا ہے وہ جس جگہ بھی جاتا ہے اسے اس کے چاہنے والے مل جاتے ہیں وہ بات کرتاہے تو لوگ اسکی بات کوغور سے سنتے ہیں وہ بات خواہ دین کی ہو یا دنیا کی وہ سیاست کی بات ہو یا معیشت کی ۔اس اعتبار سے اگر دیکھا جائےتو اخلاقیات کا معاشی سرگرمیوں میں بھر پور کردار ہوتا ہے۔ اسی طرح معاشی سرگرمیاں بھی معاشرے کے اخلاق پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ قرآن کریم نے مال اور اولاد کو آزمائش قرار دیا ہے۔ پس کثرت مال وبال جان ہو سکتا ہے اور مال و دولت کی کمی بھی انسان کے لئے فتنے اور ابتلا کا پیش خیمہ بن سکتی ہےاس اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو اس ریسرچ میں دو پہلووں کا جائزہ لیا گیا ہے ایک تو یہ کہ کس طرح سے معیشت اور اخلاق دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔
بعثت لاتمم مکارم الاخلاق [1]"مجھے اس لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے کہ میں اخلاقیات کی تکمیل کر دوں"
اسی وجہ سے اسلام نے اخلاق کو عقیدے کے ساتھ متصل کر دیا اور فرمایا :من کان یومن باللہ والیوم الاخر فلیکرم ضیفہ ، من کان یومن باللہ والیوم الاخرفلا یوذی جارہ من کان یومن باللہ والیوم الاخرفلیقل خیرا او لیصمت[2]
"جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو تکلیف نہ پہنچائے جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ یا تو اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے"
اسی طرح اخلاقیات کو عبادات سے بھی متصل کر دیا فرمایا:رب قائم لیس لہ من قیامہ الا السھر و رب صائم لیس لہ من صیامہ الا الجوع[3]
"ممکن ہے کہ کسی کو رات کے قیام سے سوائے جاگنے کے کچھ بھی نا ملے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کسی روزہ رکھنے والے کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ بھی نہ ملے"
اخلاق کی اہمیت کو اور مزید واضح کر کے بیان فرمایا :
"جو شخص جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہیں چھوڑتا اللہ تعالی کواس کے کھانا اور پینا چھوڑدینے کا محتاج نہیں ہے"
اسی طرح اسلام نے معاملات کو بھی اخلاق سے جوڑدیا ہے جیسا کہ صدق و امانت ،عدل و احسان ، نیکی اور رحمت ۔
اسلام نے مسلمان کی زندگی کی سرگرمیاں اخلاق سے جوڑ دی ہیں ۔ا سلام میں علم و اخلاق ، سیات و اخلاق ،اقتصاد و اخلاق ،جنگ و اخلاق سب کو لازم و ملزوم قرار دیا ہے ۔حتی کہ اسلام نے اخلاق کو عام انسانی اقدار کے ساتھ بھی لازم رکھا جس میں تمام مذاہب بلکہ پوری انسانیت شامل ہے جیسے فکری آزادی ،عزت نفس ،عدل و انصاف، اعتدال، حقوق انسانی کا احترام ،مساوات ،کمزوروں پر رحم کرنا ۔
درج ذیل بحث اسلامی اقتصاد میں اخلاق کا کردار ہے اس کی اہمیت ،عظمت اور اثرات ،پیداوار میں اس کے انتشار میں اس لحاظ سے اسلامی اقتصاد دوسرے تمام نظام اقتصاد جو اسلام کے علاوہ متداول ہیں ان سے ممتاز کرتا ہے کیونکہ یہ صرف اقتصاد نہیں اخلاق بھی ہے۔
جب ہم معاشی سرگرمیوں کو اسلامی نقطہ نظر سے دیکھتے ہیں تو اعلی اقدار کی مندرجہ ذیل جہات نظر آتی ہیں:
۱۔ ربانی معیشت اور اخلاقی اقدار ۲۔ اخلاقی معیشت ۳۔ذرائع پیداوار میں اعلی اخلاقی اقدار ۴۔ پیداوار کے استعمال اور اخراجات میں اعلی اخلاقی اقدار
ان چار اعلی اقدار کے رسد طلب اور تقسیم و توزیع پر بڑے گہرے آثار اور ثمرات مرتب ہوتے ہیں، اس سے قبل کہ ہم طلب اور رسد کی طرف جائیں ان چار اعلی اقدار کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔
۱۔ ربانی معیشت اور اخلاقی اقدار:
اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں :
يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا وَّلَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّيْطٰنِ ۭ اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِيْنٌ ﱠ۵[5]
“لوگو ! زمین کی چیزوں میں سے حلال اور پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر مت چلو، بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن "
اللہ تعالی نے واضح فرما دیاکہ اس زمین میں بہت کچھ پایا جاتا ہے لیکن ہر خوبصورت اور لذید چیز تمہارے لئے نہیں بلکہ وہی چیزیں آپ استعمال کر سکتے ہیں جو آپ پر حرام نہیں کی گئی اور جو حرام ہیں وہ بے شک کتنی ہی زیادہ خوبصورت لذید ،سائنسی علوم سے تائید یافتہ کچھ بھی ہو وہ آپ کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ۔
اس کے ساتھ ساتھ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ یہ شریعت محمد ی ﷺ آخری شریعت ہے جو حلال کر دیا گیا قیامت تک وہی حلال ہو گا اور جو حرام کر دیا گیا قیامت تک وہی حرام ہو گا کسی انتظار یا گنجائش کی ضرورت نہیں کہ شاید حضرت سیدنا محمد ﷺ کے علاوہ کوئی اور آکر کوئی کمی یا زیادتی کر سکے گا بالکل نہیں بلکہ سیرت مصطفی ﷺ ہی مسلمانوں کے لئے پہلی اور آخری سیڑھی ہے جس کے ذریعے سے وہ اللہ تعالی کی ذات اقدس کا قرب حاصل کر سکتے ہیں یہی اسوہ حسنہ ہے جس پر عمل کر کے دین و دنیا کی کامیابیاں و کامرانیاں ان کے قدم چوم سکتی ہیں ۔
یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ جو نظام زندگی حضور ﷺ نے دیا ہے وہ شامل و کامل ہے ، جامع و مانع ہے کسی قسم کی کمی اور زیادتی سے مبرا ہے ،متوازن و معتدل ہے جس میں عبادات بھی ہیں جو انسان کو اللہ کا قرب دلاتی ہیں ۔اس میں اخلاق بھی ہیں جو نفس انسانی کو پاک کرتے ہیں اس میں قوانین بھی ہیں جو حلال وحرام کی پہچان کرواتے ہیں اور عدل و انصاف کی فضا بھی قائم کرتے ہیں ۔انسان کی انفرادی زندگی کو اجتماعی زندگی سے جوڑتے ہیں ،مساوات حقوق فرائض کا تعین کرتے ہیں اسی طرح اس میں سزائیں بھی ہیں جن نے ذریعےاللہ کی حدود اور لوگوں کے حقوق کی حفاظت کی جاتی ہے ۔ شریعت محمدی ﷺ کے ان روشن روشن اور اجلے اجلے پہلووں کی طرف دیکھا جائے تو حضور ﷺ کے لایا ہوامعاشی نظام اپنی ایک خاص اہمیت اختیار کر جاتا ہے کیونکہ اس دنیا میں باقی جتنے بھی معاشی نظام ہیں وہ اخلاقیات اور اعلی اقدار سے یکسر خالی نظر آتے ہیں ان تمام نظاموں میں روٹی سب سے بڑا ہدف ہے اور اس کا محور و مرکز پیٹ کی بھوک اورنفس کی شہوت ہے معیشت ان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے ان کا سارے کا سارا علم معیشت کے گرد گھوم رہا ہے ۔ان دونوں قسم کے معاشی نظاموں میں بڑا فرق یہی ہے کہ حضور ﷺ نے خود ہی زندگی کا بہترین نمونہ پیش کر کے دنیا کو دکھا دیا کہ دیکھو معاشی سر گرمیاں زندگی گزارنے کا وسیلہ ضرور ہیں لیکن زندگی کا مقصد نہیں ہیں ۔ان مادی وسائل کو ضرورت کے مطابق استعمال کرنا سیکھیں ورنہ
کہیں ایسا نہ ہو کی یہ والی بات پوری ہو جائے اور قبر و آخرت میں ندامت و شر مندگی اور عذاب و عقاب کے شدید ترین مراحل سے گزرنا پڑ جائے ۔آقا کریمﷺ کا ارشاد ہے :لا یبلغ عبد درجۃ المتقین حتی یدع مالا باس بہ حذرا مما بہ باس[7]
اللہ کا بندہ اس وقت تک متقین کے درجے تک نہیں پہنچ سکتا جب وہ احتیاط کرتے ہوئے ایسا کام چھوڑ دے جو ممنوع تو نہ ہو مگر اس کے کرنے سے کسی ممنوع کام کی طرف میلان ہو جانے کا خطرہ ہو۔
ایک انتہائی اہم بات جو عام مسلمان اپنی معاشی سر گرمیوں میں جس کا خیال نہیں رکھتا وہ یہ ہے کہ اس کے لئے کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے وہ مال کہاں سے اور کیسے کما رہا ہے اور کہاں اور کیسے خرچ کر رہا ہے کیونکہ حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال اسلام کی نظر میں حلال نہیں ہے اگرچہ وہ حلال چیزوں پر ہی خر چ کیا جائے ۔مثلا سود کا پیسہ بے شک دینی مدرسے پر ہی کیوں نہ خرچ کیا جائے ،یتیموں کی بہبود،حفظ قرآن ،غریب مریضوں کے علاج میں ہی کیوں نہ صرف کیا جائے ، اسلام اس کو انفاق فی سبیل اللہ کے دائرے سے خارج کرتا ہے کیونکہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا :
ان اللہ طیب ولا یقبل الا الطیب[8]"اللہ تعالی پاک ہے اور وہ پاک چیزوں کو ہی پسند کرتا ہے"
اسلامی معیشت میں ربانی اقدار کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ انسان اللہ کے مال میں خلیفہ ہے کیونکہ وہ تمام قوتیں جن کے ذریعے مال کمایا گیا وہ تمام وسائل جن سے مال حاصل کیا گیا سب کے سب اللہ تعالی کے عطا کردہ ہیں اس لئے جو مال حاصل کیا گیا وہ انسان کا اپنا ذاتی نہیں ہو سکتا بلکہ وہ بھی اللہ ہی کا ہے اس کو انسان اسی طرح خر چ کر سکتا ہے جس طرح اللہ تعالی نے اسے حکم دیا ہے ۔یہ بھی تھا کہ جن کپڑوں میں ہم نے گناہ کیے ہیں وہ ہمارے جسم پر نہیں ہونے چاہیے لیکن حضور ﷺ نے کعبہ مشرفہ کو جب پاک کرنا چاہا حکم خداوندی نازل ہوا فرمایا
"اے ایمان والو! مشرک ناپاک ہیں اس سال کے بعد یہ مسجد حرام کے قریب نہ جائیں اور اگر تم اس بات سے ڈرتے ہو کہ تم غریب ہو جائو گے اللہ نے چاہا تو تمہیں اپنے فضل سے غنی کر دے گا ،بے شک اللہ تعالی جاننے والا اور حکمت والا ہے "
تاریخ اسلام کا یہ ایک بہت ہی نازک موڑ تھا کیونکہ مشرکین مکہ کو ننگے ہو کر طواف کرنے سے کافی آمدنی ہوتی تھی لیکن چونکہ جس عمل سے آمدنی ہو رہی تھی وہ غلط تھا ،ناپاک تھا اسلئے حضور ﷺ نے اس بیش قیمت آمدنی کم ہونے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امیر حج حضر ت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس ہجرت کے نویں سال میں بھیجا تاکہ وہ لوگوں میں اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی ننگا ہو کر اللہ کے گھر کا طواف کرے گا:
"اس سال کے بعد نہ تو کوئی مشرک حج نہیں کرے گا اور نہ ہی کوئی ننگے بدن بیت اللہ کا طواف کرے گا"
اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیاحت کے شعبے سے مال جمع کرنے کے لئے شراب کو حلال اور حرام کاموں کو حلال مثلا رقص و سرودکی محافل کا انعقاد ،بیرون ممالک کے وفود کے لئے خوبصورت عورتوں کا انتظام جو انہیں رفاقت دیں اور استقبال کریں ،یہ سب حرام کاموں میں شمار ہوتا ہے اور ان کے ذریعے سے جتنا مال بھی حاصل کیا جائے گا وہ حرام مال کی فہرست میں آئے گا ۔
اخلاقی معیشت :
اسلامی نظام معیشت کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ صرف معیشت نہیں ہے بلکہ اخلاق ومعیشت کا حسین امتزاج ہے اور اس میں عام طور پر جو باریک نقطہ لوگوں کی سمجھ سے بالا تر رہتا ہے وہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کے مطابق اعلی اخلاق اقدار کی کوئی اہمیت نہیں مال جمع کرنے کے عمل میں مال کماؤ اگرچہ اعلی اخلاقی کردار کو پاؤں تلے روند ہی کیوں نہ ڈالا جائے کوئی فرق نہیں پڑتا ،معاشی نظام سےا خلاقی نظام دور رہے گا ۔یہاں سے سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ اسلامی معاشی نظام متصادم ہو جاتا ہے کیونکہ اسلامی معاشی نظام میں نظام معیشت نظام الخالق سے جدا نہیں ہے اسی طرح دین سیاست سے جدا نہیں ہے دین کی اخلاق تعلیمات اسلام کے نظام زندگی پر محیط ہیں ۔اسلام دین و دنیا کا حسین امتزاج ہے اور اپنے ماننے والوں کو اسی توازن کی تعلیم دیتا ہے کہ نہ تو وہ دنیا چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر لیں اور نہ ہی وہ دین چھوڑ کر صرف معاشی سر گرمیوں میں ہی مصروف رہ کر اس دنیا سے رخصت ہو جائے ۔کیونکہ مسلمان اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے دیئے ہوئے ایمان و اخلاق کا پابند ہے ۔غیر مسلم کی طرح آزاد نہیں ہے کہ جو وہ سوچے کر گزرے یا اسے اپنا قانون بنا لے اور اس پر ہی عمل کرنا شروع کر دے جیسا کہ ہم جنس پرستی کا قانون مغربی ممالک میں صرف لوگوں کی اپنی ذاتی خواہش کی بنیاد پر بنا دیا گیا ہے اور سب کو آزادی دے دی گئی ہے کہ سب لوگ ایسا کر سکتے ہیں جس عورت کا دل کرے کسی عورت سے جنسی تعلقات قائم کرے جس مرد کا دل چاہے کہ کسی مرد سے جنسی تعلقات قائم کرے کوئی پابندی نہیں ۔اسلامی نظام زندگی میں ایسا ممکن نہیں ہے۔
اسی لیے اسلام نے لہوولعب و کاروبار تجارت اور اللہ کے ذکر کو ایک جگہ ذکرکیا ہےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں :
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ جب اللہ تعالی کی ذات اقدس انسان کو مال کثیر اور طرح طرح کی نعمتیں عطا فرماتا ہے تو پھر یہ انسان اپنی حدود سے نکل کر شیطان کی پیروی کرنا شروع کر دیتا ہے اور اللہ کی ذات اقدس کی نافرمانیاں اور خلاف ورزیاں کرنے لگتا ہے اسی خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اے انسانو اس زمین میں سے جو حلال اور پاک ہے صرف وہی استعمال کرو اور شیطانی اعمال کی طرف نہ مصروف ہو جاؤ کہ جو قوتیں تمہیں اللہ تعالی کی ذات عطا فرمائے اور انہیں قوتوں سے تم اس کی نافرمانیاں کرنا شروع کر دو تو یہ کتنے بڑے ظلم کی بات ہے ۔
تواگر ان تمام احادیث مبارکہ اور آیات کریمہ کا بنظر غائر مطالعہ کیا جائے تو نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ دنیاکی جتنی زیادہ نعمتیں ہیں اگر اعتدال کے ساتھ استعمال کی جائیں تو انسان کے لیے راحت و سکون کا سبب بنتی ہیں جب ہمارے دل میں یہ بات راسخ ہو جائے گی کہ یہ مال ہمارا نہیں ہے اللہ تعالی کا ہے تو ہمارے لئے اللہ کے راستے میں خرچ کرنا آسان ہو جائے گا ۔
فعن انس بن مالک رضی اللہ عنہ آی رجل من تمیم رسول اللہ ﷺفقالیارسولاللہﷺانی ذومال کثیر و ذو اھل و مال و حاضرہ فاخبرنی کیف اصنع و کیف انفق فقال رسول اللہ ﷺ تصل اقربائک و تعرف حق المسکین و الجار و السائل[22]
فرمایا کہ اپنے رشتےداروں کا خیال رکھو اور تمھیں پتہ ہونا چاہیے کہ مسکین کا حق کیا ہے ہمسائے کا حق کیا ہے اور سوالی کا حق کیا ہے۔
اگر اللہ کی دی ہوئی نعمتیں توازن کے ساتھ استعمال کی جائٰیں تو فائدہ دےسکتی ہیں اور اگر افراط و تفریط اور غیر متوازن طریقے سے ان کو استعمال کیا جائے تو یہی خوبصورت نعمتیں انسان کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہیں اور اللہ تعالی کے نزدیک بھی وہی انسان زیادہ عزت والا ہے جو نیک و پرہیز گار ہے خواہ وہ غریب و مسکین ہی کیوں نہ ہو ۔حدیث پاک میں آتا ہے جو کہ بخاری شریف میں وارد ہوئی ہے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے پاس سے ایک شخص گزرا تو آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے شخص سے پوچھا آپ کی اس کے بارے میں کیا رائے ہے تو اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ تو بڑے امیر او ر اعلیٰ خاندان سے ہے جس لڑکی کا ہاتھ مانگے اسی سے ہی منگنی ہو جائے اور اگر کسی کی سفارش کرے تو پوری ہو جائے اور اگر بات کرے تو سب لوگ بڑی توجہ سے اس کی بات سنیں پھر ایک دوسرا شخص گزرا تو آپ ﷺ نے فرمایا اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے تو اس نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ یہ تو مسلمانوں میں سے غریب ترین آدمی ہے اگر یہ کسی لڑکی کا رشتہ مانگے تو کبھی بھی اس کو نہ ملے اگر کسی کی سفارش کرے تو کبھی بھی پوری نہ ہو اور اگر کوئی بات کہے تو کوئی بھی اس کی بات غور سے نہ سکے پھر نبی پاک ﷺ نے ارشاد فرمایا:
۳۔ذرائع پیداوار میں اعلی اخلاقی اقدار :
"اور ہم نے ہی لوہا زمین پر اتارا جس میں شدید سختی ہے اور لوگوں کے لئے اس میں بہت سے فوائد رکھ دیے ہیں "
مندرجہ بالا تمام آیات کو پڑھنے والا قاری ممکن ہے اس سوال کے جواب کا منتظر ہوان آیات میں اخلاقیات کہاں ہیں ،جوابا عرض ہے کہ قرآن اگر ان سب پیداواری شعبوں کا ذکر کر رہا ہے تو اس کے پیچھے کوئی منطق ہے اور وہ ہے اللہ کی ذات پر ایمان ۔اللہ کی نشانیاں دیکھ کر ان پیدواری اشیا کو استعمال کر کے اللہ کی ذات اقدس پر ایمان لانا اور حضور ﷺ کی سیرت ِ طیبہ اسی نقطے کے ارد گرد گھومتی نظر آتی ہے کہ کس طرح لوگوں کو اللہ کی مخلوقات کے عجائب وغرائب کی یاد دلا کر اللہ تعالی کی ذات عالیہ کے سامنے ان کے سر جھکانے کی کوشش کی جائے ۔یہی اخلاق ہے ،یہی اعلی اقدار ہیں کیونکہ جب انسان اللہ کی ذات کے قریب ہو جاتا ہے تو مخلوق خدا کے حقوق کا خیال رکھتا ہے اگر اللہ پاک سے انسان دور ہو جائے تو وہ انسانیت سے دور اور حیوانیت سے زیادہ قریب ہو جاتا ہے جیسا کہ ہم آج کل کے معاشروں کی حالت دیکھ رہے ہیں کہ نظام معیشت میں ایمان و اخلاق کے عنصر کی عدم موجودگی سے لوگ ایک دوسرے کو پیسے کی بنیاد پر قتل کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔بھائی بھائی کی ۔بیٹا باپ کی جان لے لیتا ہے صرف اس لئے کہ اسے بہت بڑی جائیداد یا کاروبار تجارت مل جائے گا کیونکہ وہ اللہ کی ذات کو بھول چکا ہوتا ہے اس کے سامنے صرف مادی فوائد ہی رقص کر رہے ہوتے ہیں ۔روحانی اور ایمانی اور اخلاقی فوائد سے وہ کوسوں دور زندگی گزار رہا ہوتا ہے اس لئے نہ اس کی اپنی زندگی میں سکون ہوتا ہے اور نہ ارد گرد کے لوگوں کو سکون کی زندگی جینے دیتا ہے ۔
تم میں سے کوئی کسی ایک پر صبح طلو ع ہو پھر وہ اپنی پیٹھ پر لکڑیاں لاد کر لائے اور پھر اس میں سے صدقہ کرے اورلوگوں سے وہ بے نیاز ہو جائے یہ اس کے لئے بہتر ہے کہ وہ کسی آدمی سے سوال کرے ( یعنی کسی آدمی کے آگے ہاتھ پھیلائے ) وہ آدمی اس کو کوئی چیز دے یا نہ دے اور یہ اس لئے کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔
کعب بن عجرہ سے روایت ہے کہ اس نے کہا کہ حضور ﷺ صحا بہ کے ساتھ ایک شخص کے پاس سے گزرے جس کی معاشی سر گرمیاں تیز تھیں صحابہ نے عرض کیا یار سول اللہ ﷺاگر یہ شخص اللہ کے راستے میں جہاد کر رہا ہوتا تو کیسا ہوتا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا اگر وہ اپنے چھوٹے بچوں کی روزی کمانے کے لئے نکلا ہے تو وہ جہاد پر ہے یعنی اللہ کے راستے میں ہے اور اگر وہ اپنے بوڑھے والدین کے لئے روزی کمانے نکلا ہے تو بھی اللہ کے راستے میں ہے ۔اگر وہ اپنے نفس کی عفت و پاکیزگی کو بر قرار رکھنے کے لئے روزی کمانے نکلا ہے تو بھی اللہ کے راستے میں ہے اور اگر وہ دکھاوے اور فخر کرنے کے لیے مال اکٹھا کرنے نکلا ہے تو وہ شیطان کے راستے پر ہے[34]
۴۔ پیداوار کے استعمال اور اخراجات میں اعلی اخلاقی اقدار
#
دنیا کے اکثر معیشت دان اس بات پر تو بہت زور دیتے ہیں کہ پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے لیکن کسی بھی چیز کی زیادہ پیدا وار کسی قوم کی پاکیزہ زندگی کی ضمانت نہیں دیتی مثال کے طور پر اگر کوئی ملک اپنے وسائل کا نصف یا تیسرا حصہ صرف نشہ آور چیزوں کی پیدا وار پر خرچ کر رہا ہو جس سے انسانی جسم آہستہ آہستہ کھوکھلا ہو جاتا ہے تو نتیجہ یہ نکلا کہ پیدا وار کی زیادتی کے ساتھ اگر اس کا استعمال بہتر نہیں بنایا جاتا تو ممکن ہے کہ وہ پیداوار کی زیادتی مجموعی طور پر قوم کی تباہی کا سبب بن جائے ۔اسی طرح یہ بھی خطرناک بات ہو سکتی ہے کہ پیداوار تو زیادہ ہو لیکن لوگ اس کو استعمال کرنا چھوڑ دیں اگرچہ وہ حلال ہی کیوں نہ ہو تو اس صورت میں بھی مجموعی طور پر قوم نقصان اٹھا سکتی ہے ۔اسی لئے اسلام نے ایک طرف حلال پیداوار کے اضافے سے نہیں روکا تو دوسری طرف پیداوار کے استعمال پر بھی حوصلہ افزائی کی ہے اس کو بھی کم ہونے سے روکا ہے
#
انسان بڑی محنت سے کماتا ہے لیکن اگر خرچ کرنے میں اعتدال سے کام نہ لے تو بہت سے غیرضروری کاموں پر زیادہ سرمایہ خرچ کر دے گا اور کئی ضروری کام رہ جائیں گے جن کے لئے سرمایہ نہیں بچے گا ۔دین محمدیﷺ نے اخراجات کے شعبے میں بھی ہمیں اعلی اخلاقی اقدار سے نوازا ہے .
خلاصہ بحث
اس بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ پیغمبر اسلام کی سیرت طیبہ جہاں ایک مکمل نظام معیشت عطا کرتی ہے وہاں اس نظام معیشت کو بلا حدود و قیود او ر مطلق العنان نہیں چھوڑ دیتی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اعلی اخلاقی اقدار کو بھی داخل کر دیتی ہے تاکہ اس کے مضر اثرات کا ساتھ ساتھ ہی علاج ہوتا رہے اور جن بے ضابطگیوں اور بے ترتیبیوں کے نقصانات کسی قوم کو بعد میں اٹھانے پڑیں اخلاقیات کے کردار کو معاشی سر گرمیوں میں نمایاں کر کے قوم کو ان نقصانات سے محفوظ بنا دیا جائے۔
حوالہ جات
- ↑
۱۔ القضاعي،أبو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون ،المصري (المتوفى: 454هـ) مسند الشهاب،محقق: حمدي بن عبد المجيد السلفي ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت طبعة:دوم، 1407 – 1986،:192
- ↑
۔ ابن ماجه ، أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ)،السنن،تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد - محمَّد كامل قره بللي - عَبد اللّطيف حرز الله ناشر: دار الرسالة العالمية بيروت طبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009،:637۔
- ↑
ابن خُزَيمة أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري (المتوفى: 311هـ)الصحیح، تحقيق:ڈاکٹرمحمد مصطفى الأعظمي ناشر: المكتب الإسلامي طبعة: سوم 1424 هـ - 2003 م ،:569۔
- ↑
ابن خُزَيمةأبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري (المتوفى: 311هـ) الصحیح ، تحقيق :ڈاکٹر محمد مصطفى الأعظمي،ناشر: المكتب الإسلاميطبعة: سوم، 1424 هـ - 2003 ،:958۔
- ↑
البقرة،۲: ۱۶۸
- ↑
التکاثر،۱۰۲: ۱۔۲
- ↑
ابن خُزَيمة،أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة بن المغيرة بن صالح بن بكر السلمي النيسابوري (المتوفى: 311هـ) الصحيح،تحقيق :ڈاکٹر محمد مصطفى الأعظمي،ناشر: المكتب الإسلامي طبعة: سوم، 1424 هـ - 2003 ،:958۔
- ↑
احمد بن حنبل ،ابو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)المسند،تحقيق: أحمد محمد شاكرناشر: دار الحديث – القاهرةطبعة: الأولى، 1416 هـ - 1995 م،:285
- ↑
سورۃ التوبہ۹، :۲۸
- ↑
أبو داود سليمان بن الأشعث بن إسحاق بن بشير بن شداد بن عمرو الأزدي السِّجِسْتاني (المتوفى: 275هـ) السنن،تحقیق: شعَيب الأرنؤوط - محَمَّد كامِل قره بللي ناشر: دار الرسالة العالميةالطبعة: اول 1430 هـ - 2009 م ،:318
- ↑
الجمعۃ،۶۲ :۹
- ↑
الجمعہ،۶۲ :۱۱
- ↑
البقرہ، ۲: ۱۶۸
- ↑
بخاری، بن إسماعيل بن إبراهيم بن المغيرة البخاري، أبو عبد الله (المتوفى: 256هـ)الادب المفرد،تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقيناشر: دار البشائر الإسلامية – بيروت طبعة: سوم، 1409 -1989،:299
- ↑
ابن ماجة ،ابو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ)السنن،تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد - محمَّد كامل قره بللي - عَبد اللّطيف حرز الله ناشر: دار الرسالة العالميةطبعة: اول، 1430 هـ - 2009 ،: 70
- ↑
ابن الاثير، امجد الدين بو السعادات المبارك بن محمد الجزري (المتوفى : 606هـ) جامع الأصول في أحاديث الرسول،تحقيق : عبد القادر الأرنؤوط،ناشر : مكتبة الحلواني - مطبعة الملاح - مكتبة دار البيان طبعة : اول،: 340
- ↑
الهيثمي، أبو الحسن نور الدين علي بن أبي بكر بن سليمان ا (المتوفى: 807هـ) موارد الظمآن إلى زوائد ابن حبان : 94،تحقيق: حسين سليم أسد الدّاراني - عبده علي الكوشك ،ناشر: دار الثقافة العربية، دمشقطبعة: اول، (1411 - 1412 هـ) = (1990 م -1992 م)
- ↑
ابن ماجه ،ابو عبد الله محمد بن يزيد القزويني (المتوفى: 273هـ) السنن ،تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد - محمَّد كامل قره بللي - عَبد اللّطيف حرز الله ناشر: دار الرسالة العالميةطبعة: الأولى، 1430 هـ - 2009 م ،: 251
- ↑
البانی،ابوعبد الرحمن محمد ناصر الدين، بن الحاج نوح بن نجاتي بن آدم، الأشقودري (المتوفى: 1420هـ) مُخْتَصَر صَحِيحُ الإِمَامِ البُخَارِي،ناشر: مكتَبة المَعارف للنَّشْر والتوزيع، الرياضطبعة: اول، 1422 هـ - 2002 م،:128
- ↑
الانفال،۸:۲۸
- ↑
السبا،۳۴:۔۳۷
- ↑
احمدبن حنبل ،ابو عبد الله أحمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)المسند،محقق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، اشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركيناشر: مؤسسة الرسالة الطبعة: الأولى، 1421 هـ - 2001 م ،:386
- ↑
البقرہ،۲:۲۱۵
- ↑
ایضا
- ↑
البقرہ،۲:۲۱۹
- ↑
ابن ماجة أبو عبد الله محمد بن يزيد القزويني، وماجة اسم أبيه يزيد (المتوفى: 273هـ)السنن،تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي ناشر: دار إحياء الكتب العربية - فيصل عيسى البابي الحلبي مصر،:1379
- ↑
ابراھیم،۱۴: ۳۲
- ↑
النحل،۱۶:۵
- ↑
النحل،۱۶:۱۰
- ↑
النحل، ۱۶:۱۴
- ↑
الحدید،۵۷:۲۵
- ↑
القضاعی،ا بو عبد الله محمد بن سلامة بن جعفر بن علي بن حكمون المصري (المتوفى: 454هـ) مسند الشهاب،تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي ناشر: مؤسسة الرسالة – بيروت طبعة:دوم، 1407 – 1986،:149
- ↑
احمدبن حنبل، ابو عبد الله احمد بن محمد بن حنبل بن هلال بن أسد الشيباني (المتوفى: 241هـ)المسند، تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، إشراف: د عبد الله بن عبد المحسن التركي الناشر: مؤسسة الرسالة الطبعة: الأولى، 1421 هـ - 2001 م،:135
- ↑
ابو بكر احمد بن الحسين بن علي بیھقی،علاء الدين علي بن عثمان المارديني الشهير بابن التركماني ، السنن الكبرى ،ناشر : مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آبادطبعة : طبعة اولـ 1344 ه ،:25
- ↑
الاعراف،۷:۳۲
- ↑
النسا ،۴:۳۹
- ↑
الفرقان، ۲۵: ۶۷
- ↑
ابوبكر أحمد بن الحسين بن علي بیھقی ا علاء الدين علي بن عثمان المارديني الشهير بابن التركماني ،السنن الکبریٰ،ناشر : مجلس دائرة المعارف النظامية الكائنة في الهند ببلدة حيدر آبادطبعة : طبعة اولـ 1344 ھ،:25
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |