3
2
2019
1682060040263_993
79-100
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/download/30/28
http://www.alilmjournal-gcwus.com/index.php/al-ilm/article/view/30
Plebian uplift UMMAHATUL-MOMINEEN'S reole Equality Code of ethic
تعاون کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اسلام نے مال کے انفاق پر زور دے کر اور اس کے اجرو ثواب کا ذکر کر کے اس کی اہمیت کو نمایاں کیا ہے۔ اس کے نزدیک انسان کے مال میں معاشرہ کے نادار، بے کس اور وسائل سے محروم افراد کا حق ہے۔ اس حق کو ادا کرنے کی وہ ترغیب دیتا ہے۔ازواج مطہرات اس حوالہ سے بھی امت کے لئے نمونہ ہیں۔اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ اشیاء یعنی دولت میں سے غریبوں کی مدد کرنا کارِ خیر ہے اور بہت ثواب کا کام ہے۔
i۔انفاق فی سبیل اللہ:
اسلام امن و سلامتی، اصلاح و فلاح ، انفاق فی سبیل اللہ اور غربت کے خاتمہ کا دین ہے۔ جس کا پیغام اور نظامِ فلاح معاشرہ اور اصلاحِ انسانیت ہے۔
مَن ذَا الَّذِی یُقرِضُ اللَّہَ قَرضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ وَلَہُ أَجرٌ کَرِیمٌ ([2])
کر رکھی تھیں جو انھیں خفیہ طور پر بھجوا دیتی تھیں۔ ([7])
"ایک دن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روزے سے تھیں اور گھر میں ایک روٹی کے سوا کچھ نہ تھا۔ اسی حالت میں ایک مسکین نے سوال کیا۔ تو انہوں نے لونڈی سے کہا کہ وہ روٹی اس کو دے دو لونڈی نے کہا آپ رضی اللہ عنہا روزہ افطار کس چیز سے کریں گی؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس کو دے دو۔ شام ہوئی تو کسی نے بکری کا گوشت بھیجوا دیا۔ لونڈی کو بلا کر کہا لے کھا! یہ تیری روٹی سے بہتر ہے"([10])
الباقی کے کرم سے باقی بن جاتا ہے۔ اور فانی کی صفت اس مال سے فنا ہو جاتی ہے اس لیے وہ دل کھول کر
اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتیں تھیں۔ اور اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرتے وقت وہ چیز کی کمی کو پیشِ خاطر نہ لاتیں جیسا کہ:
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک عورت آئی ۔ جس کے ساتھ اس کی دوبیٹیاں بھی تھیں تو انہوں نے اس کو تین کھجوریں دیں اس عورت نے ایک ایک کھجور ہر بیٹی کو دی اور تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کر کے ان میں بانٹ دیئے پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت ﷺ کے پاس گئیں اور ماجرا بیان کیا"([12])
"حضرت اُمِّ ذرہ کہتی ہیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک لاکھ درہم آئے انہوں نے اسی وقت وہ سارے تقسیم کر دیئے اس دن ان کا روزہ تھا۔ میں نے ان سے کہا آپ رضی اللہ عنہا نے اتنا خرچ کیا ہے تو کیا آپ اپنے لیے اتنا بھی نہیں کر سکتیں کہ افطار کے لیے ایک درہم کا گوشت منگوا لیتیں؟ انہوں نے کہا
(مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میرا روزہ ہے) اگر تم پہلے یاد کرا دیتی تو میں گوشت منگوا لیتی" ([13])
بلکہ ازواج مطہرات کا ممتاز جوہر ان کی طبعی فیاضی اور کشادہ دستی تھی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی درج
ذیل روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ ازواج ِمطہرات دوسروں کی حاجت روائی کی کس حد تک طالب تھیں۔
عن عائشہ رضی اللہ عنہا انھا کانت تدان فقیل لھا مالک و للدین فقالت ان رسول اللہ قال ما من عبد کانت لہ نیۃ فی اداء دینہ الا کان لہ من اللہ عزوجل عون فانا التمس ذلک العون( [16])
"اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اکثر مقروض رہتی تھیں ادھر اُدھر سے قرض لیتی اور لوگوں کی حاجات پوری فرماتی تھیں۔ لوگوں نے عرض کی آپ رضی اللہ عنہا کو قرض لینے کی کیا ضرورت ہے؟ فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو آدمی قرض ادا کرنے کی نیت سے قرض لیتا ہے تو اللہ پاک اس کی اعانت فرماتا ہے اور میں اللہ پاک کی اس اعانت ہی کی متلاشی ہوں"
"ایک مرتبہ ایک معمولی حیثیت کا سائل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں آیا آپ رضی اللہ عنہا نے اسے روٹی کا ٹکڑا دیا جسے لے کر وہ چلا گیا۔ اس کے بعد ایک اور سائل آیا جو صاف ستھرے کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ اور کسی قدرعزت دار معلوم ہوتا تھا۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے اس کے رتبے کا خیال فرماتے ہوئے اس سائل کو بٹھا کر کھانا کھلایا اور پھر رخصت کر دیا۔ لوگوں نے آپ رضی اللہ عنہا سے عرض کی کہ ان دونوں آدمیوں کے درمیان دو قسم کا برتاؤ کیوں کیا گیا؟ فقالت قال رسول اللہ ﷺ انزلو الناس منازلھم یعنی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں کے ساتھ ان کے حسبِ حیثیت معاملہ کیا کرو"([17])
ان مسکینا استطعم عائشہ ازواج النبی و بین یدیھا عنب فقالت الانسان خذحبۃ
فاعطیہ ایاھا، جفعل ینظر الیھا و یعجب فقالت عائشہ اتعجب کم تری من ھذہ
الحبۃ من مثقال ذرۃ؟([18])
"ایک مسکین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کھانے کو کچھ مانگا اس وقت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے انگور رکھے ہوئے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ایک آدمی سے فرمایا کہ انگور کا ایک دانہ لے کر اس کو دے دو۔ وہ شخص (انگور کے دانے کی طرف)حیرت سے دیکھنے لگا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کیا تمہیں تعجب ہو رہا ہے؟ اس دانے میں تمہیں کتنے ذرے دکھائی دے رہے ہیں؟"
پھر آپ رضی اللہ عنہا نے اس آیت مبارکہ کو پڑھا:
فَمَن یَعمَل مِثقَالَ ذَرَّۃٍ خَیرًا یَرَہُ([19]) "جس نے ذرہ برابر نیکی بھی کی ہو گی وہ اسے دیکھ لے گا"
وزن اور اپنی ایک قدر رکھتی ہے۔
اخرج ابن سعد بسند صحیح عن محمد بن سیرین ان عمر بعث الی سودہ بغرار تہ من دراھم فقالت ما ھذہ؟ قالوا دراھم قالت فی غرارۃ مثل التسر فقر قتھا([21])
"ابن سعد صحیح سند سے بحوالہ محمد بن سیرین روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے پاس درھم کی ایک تھیلی بھیجی ۔ قاصد سے آپ رضی اللہ عنہا نے یہ پوچھا یہ کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا یہ درہم ہیں۔ کہنے لگیں کھجوروں کی طرح اتنے زیادہ درہم۔ پھر انہیں تقسیم کر
دیا"
تھیں، اسی وجہ سے انہیں ”ماوٰی المساکین“ کہا جانے لگا۔
"برۃ فرماتی ہیں کہ سیدنا فاروق اعظم نے وظائف تقسیم فرمائے تو سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا نے خیال فرمایا کہ یہ مال تمام ازواج کا ہے لیکن انہیں بتایا گیا کہ یہ مال صرف آپ کے لیے ہے آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا سبحان اللہ! پھر اپنے اور اس مال کے درمیان ایک پردہ ڈال دیا۔ (تا کہ وہ مال نظر بھی نہ آئے) حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے برزہ کو حکم دیا یہ مال ایک طرف رکھ کر اس پر کپٹرا ڈال دو"
ثم قالت لی: ادخلی یدک فا قبضنی منہ، قبضہ فاذھبی بھا الی بنی فلاں و بنی فلاں من احل رحمھا و ایتامھا حتی بقیت منہ بقیۃ تحت الثوب([23])
"پھر باندی کو فرمایا اس کپڑے کے نیچے سے مٹھی بھر کر فلاں یتیم کو دے آؤ۔ فلاں ضرورتمند کو مٹھی بھر کر دے آؤ۔ جب اس طرح وہ مال تقسیم ہوتا رہا اور تھوڑا رہ گیا تو برزہ نے عرض کی اے اُم المومنین! اللہ پاک آپ کی مغفرت فرمائے اس مال میں آخر ہمارا بھی تو کچھ حق ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا ۔ اس کپڑے کے نیچے جو باقی ہے وہ سب تم لے لو برزہ کہتی ہیں جب میں کپڑا اٹھا کر دیکھا تو اس کے نیچے ۸۵(پچاسی) ہزار درہم تھے۔ جب سب مال تقسیم ہو چکا تو حضرت زینب نے دعا مانگی اے اللہ اس سال کے بعد عمر کا وظیفہ مجھے نہ پائے"
ازواج ِمطہرات میں حضرت زینب رضی اللہ عنہا کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کماتی اور اللہ کی
راہ میں خرچ کر دیتی تھیں۔
"زینب رضی اللہ عنہا ہاتھ کی کاریگر تھیں۔ وہ رنگسازی اور سلائی کا کام کرتی تھیں اور جو حاصل ہوتا’’و تصدق‘‘ اسے اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیتی تھیں" ([24])
سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی سخاوت کے متعلق ایک روایت ہے کہ:
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک دن رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات نے فرمایا ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ ﷺ سے ملے گی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:"الطو لکن یدا" جس کے ہاتھ تم میں سے لمبے ہیں وہ مجھ سے ملنے میں تم سب سے سبقت لے جانے والی ہے اس کے بعد ازواج مطہرات نے بانس کا ٹکڑا لے کر اپنے اپنے ہاتھوں کو ناپنا شروع کر دیا۔ تا کہ جانیں کہ کس کے ہاتھ لمبے ہیں۔ حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے ہاتھ لمبے تھے لیکن جب رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے وفات پائی تو ہم نے جانا کہ درازی سے"کانت اسرعنا الحوقا بہ، کانت تحب الصدقہ"([25]) مراد صدقہ و خیرات کی کثرت ہے وہ بہت زیادہ صدقہ و خیرات(انفاق فی سبیل اللہ) کرتی تھیں۔“
قالت عائشہ و لم ار امراء ۃ منھا و اکثر صدقۃ وا وصل للرحم و ابذل لنفسھا فی کل شئیِِ یتقرب بہ الی اللہ عزوجل من زینب ([26])
"سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے ان سے بڑھ کر بہت زیادہ صدقہ کرنے والی، زیادہ صلہ رحمی کرنے والی خاتون نہیں دیکھی۔ اللہ عزوجل کی قربت حاصل کرنے کے لیے میں نے زینب رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نا دیکھا"
"عن القاسم بن محمد قال قالت زینب حسین حضرتھا الوفاۃ انی قد اعددت کفنی وان عمر سیبعث الی بکفن فتصدقوا با حدھما"([27])
"ابو القاسم سے روایت ہے کہ جب حضرت زینب کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا کفن تیار کر رکھا ہے اگر عمر بھی میرے لیئے کفن بھیج دیں تو دونوں میں سے ایک صدقہ کر دینا"
ii۔مظلوموں اور یتیموں کی کفالت
اسلام دین کامل ہے یہ تمام انسانوں کے درمیان تعلقات کی نوعیت ان کے درجات اور مراتب کی پوری رعایت کرتا ہے اور ان کے حقوق کا تعین کرتا ہے۔ قرابتداروں سے محبت انسان کا فطری تقاضا ہے اور ان کی خدمت اخلاقی فرض لیکن اسلام "الخلق عیال" کہہ کر خدمت اور حسن سلوک کا دائرہ عالمگیر سطح تک لے جاتا ہے۔ سورۃ نساء میں اسی خدمت کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے۔ اللہ پاک کا ارشاد ہے:
انکار کر دیا تھا۔
معاونت کی اور اس کا حکم دیا ۔ اللہ پاک نے فرمایا:
وَالسَّائِلِینَ وَفِی الرِّقَاب([30]) "اور سوال کرنے والوں کو دو اور غلاموں کو آزاد کرنے میں خرچ کرو"
مظلوموں اور یتیموں کی کفالت پر زور دیتے ہوئے فرمایا:
وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَأً فَتَحرِیرُ رَقَبَۃٍ مُؤمِنَۃٍ وَدِیَۃٌ مُسَلَّمَۃٌ إِلَی أَہلِہِ إِلَّا أَن یَصَّدَّقُو([31])
"اور وہ جو کسی مسلمان کو نادانستہ قتل کرے تو اس پر ایک مملوک مسلمان آزاد کرنا ہے اور خون بہا، مقتول کے لوگوں کو سپرد کی جائے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں"
اخبر نا مالک عن عبدالرحمن بن القاسم عن ابیہ ان عائشہ کانت تلی بنات اخیھا یا میٰ فی حجرہ([32])
"مالک بن عبدالرحمن اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی محمد بن ابی
بکر کی لڑکیاں یتیم ہو گئیں۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ان کی پرورش فرماتی تھیں"
بھی کرتی تھیں۔ اور اس کو ضائع ہونے بچاتی تھیں۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نہ صرف خود یتیموں کی
پرورش کرتی تھیں بلکہ اُن کا مال لوگوں کو تجارت کے لیے دے دیتی تھیں۔ تاکہ بعد میں وہ معاشرے کے مفید شہری ثابت ہوں۔
ان عائشہ رضی اللہ عنہا زوج النبی کانت تعطی اموال الیتامیٰ الذین فی حجر ھا من یتجرلم فیھا([33])
"حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جن یتیموں کی پرورش کرتی تھیں۔ ان کے مال لوگوں کو دے دیتی تھیں کہ تجارت کے ذریعہ اس کو ترقی دیں"
عن مال عن عبدالرحمن بن القسم، عنہ ابیہ انہ قال کانت عائشہ تلینی، واخالی تیمین فی حجر ھا([34])
"قاسم بن محمد نے فرمایا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا میری اور میری دو یتیم بہنوں کی پرورش کرتی تھیں"
"حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں اور ان کی بیماری لمبی ہو گئی اس دوران ایک شخص مدینہ طیبہ آیا جو علاج معالجہ کرتا تھا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے اس شخص کے پا س گئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے درد کے بارے میں اس سے پوچھا اس نے کہا اللہ کی قسم ! تم اس سحر زدہ خاتون کی بات کر رہے ہو اس نے یہ بھی کہا کہ اس عورت پر اس کی کسی لونڈی نے جادو کیا ہے۔ (جب لونڈی سے پوچھا گیا تو) اس نے کہا ہاں! میں نے چاہا تھا کہ آپ مر جائیں تو میں آزاد ہو جاؤں۔ راوی کہتے ہیں کہ وہ لونڈی دراصل مدبرہ تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ نے فرمایا کہ اس لونڈی کو عرب میں سب سے سخت مالکوں کے ہاتھوں بیچ دو۔ اور اس سے حاصل ہونے والی قیمت کو اسی جیسی
لونڈی خرید نے میں لگا دو" ([35])
المومنین سیدہ صفیۃ رضی اللہ عنہا بنتِ حُییَیّ (۰۰۰۔ ۶۷۰م) ([36]) نہایت خدا ترس تھیں، غلاموں اور
لونڈیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتی تھیں۔
"ام المومنین سیدہ صفیۃ رضی اللہ عنہا کی ایک لونڈی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے شکایت کی کہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا اب بھی یوم السبت کو اچھا سمجھتی اور یہودیوں کے ساتھ صلہ رحمی کرتی ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ نے جب سے مجھے جمعہ عطا فرمایا ہے میں نے سبت کو کبھی بھی پسند نہیں کیا۔ رہے یہودی تو ان سے میرے قرابت کے تعلقات ہیں اور ان کو میں ضرور دیتی ہوں اس کے بعد لونڈی سے پوچھا کہ کیا تم نے میری شکایت کی؟ اس نے کہا ہاں مجھے شیطان نے بہکا یا تھا۔ سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا نے اسے سزا دینے کی بجائے آزاد کر دیا" ([37])
"زینب بنت حجش نے کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا وہ جس پر بھی قدرت رکھتی تھیں اللہ کی راہ میں صدقہ کر دیا کرتی تھیں ’’و کانت ماوی المساکین‘‘یعنی مساکین کی جائے پناہ تھیں"([38])
وکانت الرسول محبۃ وکان ستکثر منھا وکانت صالحۃ صوامۃ، قوامۃ صنا عا تصدق بذلک کلۃِ علی المساکین([39])
"سیدہ اُمِّ سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ زینب بنت جحش رسول اللہ ﷺ کو بہت زیادہ پسند تھیں آپ
زیادہ وقت ان کو دیا کرتے تھے وہ بڑی نیک، روزہ دار اور عبادت گزار خاتون تھیں وہ اپنے ہاتھ سے کمائی کرتی اور مساکین پر خرچ کرتی تھیں"
وھی التی بقل لھا اُم المساکین لکثیرۃ صدقا تھا علیھم و بدھا لھم واحسانھا الیھم([42])
"یہی ہیں جنہیں مساکین پر کثرت سے صدقہ کرنے، ان کے ساتھ نیکی کرنے اور حسن سلوک سے پیش آنے کی وجہ سے "اُم المساکین" کہا جاتا تھا"
iii۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر
ولتکن منکم اُمۃ یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینھون عن المنکر و اولئیک ھم المفلحون([46])
"اور تم میں سے کچھ لوگ ہوں جو لوگوں کو خیر کی طرف بلائیں اور اچھی باتوں کا حکم کریں اور بری باتوں سے روکیں اور یہی لوگ فلاح پانے والے ھیں"
لا تزال امتی بخیر ما امرو بالمعروف، ونھوا عن المنکر و تعاونوا علی البر([47])
" جب تک میری اُمت اچھائی اور نیک کام کرے گی اور برائی سے روکے گی اور نیکی پر ایک دوسرے کی مدد کرے گی اس وقت تک میری اُمت سے خیر ختم نہیں ہوگا"
ازواج مطہرات نہ صرف خود بلکہ دوسروں کو بھی نہایت محتاط رویہ اختیار کرنے کا درس دیتی تھیں۔ کہ ایسا
نہ ہو کہ انجانے میں کوئی گناہ یا ظلم و زیادتی کا ارتکاب ہو جائے۔
"ابو سلمہ بن عبدالرحمن ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس زمین کا ایک جھگڑا لے کر حاضر ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے فرمایا: اے ابو سلمہ! زمین چھوڑ دو کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص ایک بالشت بھر زمین بھی کسی سے ظلماََ لیتا ہے اللہ پاک قیامت کے دن اس کے گلے میں سات زمینوں کا وہ حصہ طوق بنا کر ڈالے گا"([48])
موجزن دکھائی دیتا ہے۔روایت ہے کہ:
عن المنکر میں خاص دلچسپی لیتی تھیں۔ انہوں نے ہر مفید دروازے پر دستک دی اور نہایت نرالا اور منفرد انداز اختیار کیا۔
"عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھا وہاں سے ایک آدمی گزرا جسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے پر شراب پینے کی وجہ سے مارا جا رہا تھا۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ نے آہٹ سنی تو پوچھا کیا ماجرا ہے ؟ میں نے بتایا کہ ایک آدمی کو شراب کے نشے مین مدہوش پکڑ لیا گیا ہے، اسے مارا جا رہا ہے۔ انھوں نے فرمایا سبحان اللہ میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ جو شخص بدکاری کرتا ہے وہ بدکاری کرتے وقت مومن نہیں رہتا جو شخص چوری کرتا ہے وہ چوری کرتے وقت مومن نہیں رہتا اور جو شخص کوئی قیمتی چیز جس کی طرف لوگ سر اُٹھا کر دیکھتے ہوں لوٹتا ہے وہ
لوٹتے وقت مومن نہیں رہتا اس لیے تم ان کاموں سے بچو"([49])
ازواج مطہرات اُمت کے افراد کو غیر اخلاقی حرکتوں سے بچنے کی بھی تلقین کی تا کہ وہ اخلاق سئیہ سے دور ہوں۔ غربت کے خاتمہ کاوہ جذبہ ہے جو انسان کو حیوانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ ازواج مطہرات نے نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کے بھی کئی معاملات میں ان کی اصلاح و رہنمائی کی ہے۔ اُمت کی ہر ممکن طریقے سے رہنمائی فرماتیں اگر کوئی شرماتا تو اسے پیار سے سمجھاتی اور اس کی حوصلہ افزائی فرماتی کہ وہ اپنا مسئلہ پیش خدمت کر دیتا تھا۔ اصلاح اس طریقے سے کرتی تھیں ۔ تاکہ کسی کی دل آزاری بھی نہ ہو۔ درج ذیل روایت اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی معاملہ فہمی اور پُر تاثیر بیان کو ظاہر کرتی ہے۔
"عمرہ بن غالب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں عمار اور اشتر حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عمار نے کہا اماں جان اسلام علیکم ! سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا سلام اس پر جو ہدایت کی پیروی کرے۔ عمار نے دوتین مرتبہ انہیں سلام کیا اور پھر کہا لہذا آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ کو یہ بات نا پسند ہو۔ انہوں نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ عمار نے بتایا کہ یہ اشتر ہے انہوں نے فرمایا تم وہی ہو جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی اشتر نے کہا جی ہاں میں نے ہی اس کا ارادہ کیا تھا اور اس نے بھی یہی ارادہ کر رکھا تھا۔ انہوں نے فرمایا اگر تم ایسا کرتے تو کبھی کامیاب نہ ہوتے۔ اے عمار تم نے یا میں نے نبی پاک ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون بہا جائز نہیں الّا یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ ہو۔ شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے۔ اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہو جانا یا کسی شخص کو قتل کرنا جس کے بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے۔“ ([50])
"حضرت عبداللہ بن عمر سے لوگوں نے پوچھا کہ آپ ﷺ نے عمرہ کتنی بار کیا جواب دیا چار دفعہ میں
سے ایک رجب میں کیا۔ عروہ نے پکار کر کہا خالہ جان آپ نہیں سنتیں؟ فرمایا کیا کہتے ہیں؟ عرض کی کہتے ہیں کہ آپ ﷺ نے چار عمرے کیے جس میں سے ایک رجب میں کیا۔ فرمایا خدا ابو عبدالرحمن (عبداللہ بن عمر کی کنیت تھی) پر رحم فرمائے آپ ﷺ نے کوئی عمرہ ایسا نہیں کیا جس میں وہ شریک نہ رہی ہوں"([51])
سوچ اور فکر کی اصلاح:
مانا بلکہ عملی مثالیں بھی پیش کیں۔
وکان رضیعا لعائشہ قال: دخلت علی عائشہ وھی تغیط نقبۃ لھا، قلت یا
امالمومنین: الیس قد اوسع اللہ عزوجل قالت لا جدید لمن لا خلق([52])
"ایک مرتبہ ایک شخص سیدہ عائشہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ تو آپؓ نے اس سے فرمایا ذرا ٹھہرو میں اپنا نقاب سی لوں۔ اس نے کہا ، اگر میں اس بارے میں لوگوں کو بتا دوں تو لوگ آپ رضی اللہ عنہا کو بخیل سمجھیں گے آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا جو لوگ پرانا کپڑا نہیں پہنتے ان کو آخرت میں نیا کپڑا نصیب نہیں ہوگا"
تلقین کرتی تھیں۔
عن علقمہ بن ابی علقمہ عن امہ عن عائشہ انۃ بلغھا ان اھل بیت فی دارھا کانوا سکانا فیھا عندھم نرد۔ فارسلت الیھم، لئن لم تخرجو ھا لا خر جنکم من داری۔ وانسکرت ذلک علیھم ([53])
"حضرت علقمہ بن ابی علقمہ اپنی والدہ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدہ عائشہ کو اطلاع ہوئی کہ ان کے گھر میں جو کرایہ دار تھے وہ شطرنج کھیلا کرتے تھے۔ سیدہ عائشہ کو ان کی یہ حرکت اس قدر نا گوار گذری کہ انہیں کہلا بھیجا ۔ اگر تم اس حرکت سے باز نہ آئے تو تمہیں گھر سے نکلوا دوں گی"
باہمی اعانت:
تھیں آپؓ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں نہایت پر زور طریقہ سے ان کی سفارش کرتی تھیں ۔ایک بار
ان کی خدمت میں ایک عورت سبز دوپٹہ اوڑھ کر آئی اور جسم کھول کر دکھایا کہ شوہر نے اسقدر مار اہے کہ جسم پر نیل پڑ گئے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے کہا کہ مسلمان عورتیں جو مصیبت برداشت کر رہی ہیں ہم نے ویسی مصیبت نہیں دیکھی، دیکھئے اس کا چمڑاا س کے دوپٹے سے زیادہ سبز ہو گیا ہے۔ فرمایا: والنساء ینصر بعضھن بعضا ([55]) غرض یہ کہ اُس دور کی تمام خواتین ایک دوسری کی مدد کرتی تھیں۔ اور تسلی و تشفی دیتی تھیں۔ گھریلو معاملات میں اس وقت بہت پیچیدگی پائی جاتی ہے جب رہن سہن انتہائی پر تکلف ہو عیش و عشرت کا ہر سامان میسر ہو اور خواہشات لا محدود ہوں لیکن اگر خواہشات کو محدود رکھا جائے اور رہن سہن میں سادگی پائی جائے تو پھر گھر کے انتظام میں بہت آسانی رہتی ہے۔ ازواج مطہرات اور اُن کے گھر کا رہن سہن انتہائی سادہ تھا، نہ کوئی آرائش تھی اور نہ زیبائش۔ توکل و قناعت کا سہارا تھا، گھر کے معاملات بھی سادہ تھے اور ان میں کوئی پیچیدگی نہ پائی جاتی تھی۔
ہمسائیوں کی خدمت:
عن عائشہ عن النبی قال مازال یوصینی جبرائیل بالجار حتی ظننت انہ سیورثہ([57])
"سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل ہمیشہ پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے۔ حتی کہ میں نے گمان کیا کہ وہ ہمسائے کو وارث بنا دیں گے"
تھیں۔ اس سے معاشرے میں اخوت ، ہمدردی، باہمی محبت و الفت، عفو ودرگزر، رواداری اور صبروتحمل جیسی اقدار پیدا ہوتی ہیں۔ مگر سیدہ عائشہ کی ذہنی استعداد کا اندازہ درج ذیل واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے:
عن عائشہ قالت قلت یا رسول ان لی جارین فالیٰ ایھما اُھدی قال الٰی اقر بھما منک بابا([58])
"سیدہ عائشہؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ میرے ہمسائے ہیں ان میں سے کس کے پاس ہدیہ بھیجوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا دروازہ تمہارے گھر سے قریب ہے"
ظاہر ہو اکہ جس کا دروازہ گھر سے قریب ہو وہ زیادہ حسن سلوک کا مستحق ہے امہات المومنین
ہمسائیوں کے ساتھ تحفے تحائف کا تبادلہ بھی کرتی تھیں۔
حوالہ جات
- ↑
۔ الحدید57: 7
- ↑
۔ ایضا، ۱۱
- ↑
۔ مسلم بن حجاج، القشیری ،الجامع الصحیح،باب صدقۃ، رقم الحدیث:۵۸۸۳، :۲
- ↑
۔ الزرکلیی، خیرالدین، الاعلام، (لاشہرالرجال والنساء من العرب والمستعربین والمتتٰرقین) ,دارالعلم للملایین, , بیروت (لبنان)، ۲ :۳۰۲
- ↑
۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، کتاب النساء وکنا ھن، باب الخاء،:۸۱۸
- ↑
۔ ایضاً
- ↑
۔ طبری، جعفر محمد بن جریر، علامہ، تاریخ الامم الملوک تاریخ طبری،۱: ۴۳
- ↑
۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، کتاب النساء وکناھن، باب العین،: ۸۴۶
- ↑
۔ طبقات ابن سعد ،جزء نساء ، نفیس اکیڈمی ،کراچی، ۸: ۸۱
- ↑
۔ مالک بن انس، امام، المؤطا، دارالفکر،بیروت، س ن، کتاب الزکوٰۃ، باب الترغیب الصدقہ، رقم الحدیث:۲۸۳
- ↑
۔ الدھر،۷۶: ۸
- ↑
۔ الجامع الصحیح ، کتاب الزکوٰۃ، باب اتقوالنار وَلَو بِشِقً تَمْرَۃٍ، حدیث: ۱۴۱۸
- ↑
۔ ابن سعد: طبقات ابن سعد، ۸: ۹۲
- ↑
۔ ایضاً،:۹۱
- ↑
۔ ابنِ الجوزي، صفۃ الصفوۃ، دار صادر، بیروت ، ۲ :۲۹* انساب الاشراف، ج:۱، ص:۴۱۸،۴۱۹
- ↑
۔ احمد بن حنبل، ابو عبد اللہ احمد بن محمد، المسند،۶ :۹۹
- ↑
۔ ابو داؤد سلیمان بن اشعت، امام، ،السنن ، کتاب الادب، کتب خانہ نور محمد،کراچی، ۱۳۴۹ھ ، رقم الحدیث:۱۴۱۵
- ↑
۔ کاندھلوی، یوسف، حیاۃ الصحابہ، باب انفاق فی سبیل اللہ،۴ :۱۷۵
- ↑
۔ الزلزال، ۹۹ :۷
- ↑
۔ الزرکلی، خیرالدین، الاعلام قاموس ، ۳ :۱۴۵
- ↑
۔ عسقلانی ،علامہ ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ۴ :۳۳۹
- ↑
۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب، کتاب النساء وکناھن، باب الزاي،:۸۳۱۔۸۳۲
- ↑
۔ کاندھلوی، یوسف، حیاۃ الصحابہ، لاہور: نشریات الاسلام، س۔ن، ۲ :۲۳۵
- ↑
۔ الجامع الصحیح، کتاب النکاح، باب عذب من رأی امرأۃ ، حدیث: ۱۴۰۳
- ↑
۔ الجامع الصحیح ، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ، رقم حدیث:۱۴۲۰
- ↑
۔ الترمذی ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، جامع الترمذی، کتاب عشرۃ النساء، باب حب الرجل بعض نساۂٖ، رقم الحدیث:۳۹۴۴
- ↑
۔ عسقلانی،علامہ ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ۴ :۱۳۴
- ↑
۔ النساء،۴: ۳۶
- ↑
۔ بخاری، محمد بن اسمٰعیل، الجامع الصحیح ، کتاب العتق، رقم الحدیث:۱۵۹۷
- ↑
۔ البقرہ،۲: ۱۷۷
- ↑
۔ النسآء،۴: ۹۲
- ↑
۔ مالک بن انس، امام، المؤطا، کتاب الزکوٰۃ، باب الزکوٰۃ فیہ من الحلی ولتبرولعنبر،:۱۶۵
- ↑
۔ ایضاً:باب زکوٰۃ اموال الیتیمی والتجارۃ لہم فیہا، حدیث:۱۶۳
- ↑
۔ ایضاً: حدیث: ۱۶۳
- ↑
۔ ایضاً: کتاب العتق، رقم الحدیث: ۳۵۷
- ↑
۔ الزِرکلي، خیرالدین، اعلام،:۳
- ↑
۔ القرطبی، یوسف بن عبداللہ بن محمد بن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ ، ۴ :۴۲۷
- ↑
۔ الذہبی، شمس الدین محمد بن احمد بن عثمان، علامہ، سیراعلام النبلاء، ۲ :۲۱۲
- ↑
۔ عسقلانی،علامہ ابن حجر، الاصابہ فی تمیز الصحابہ، ۴ :۳۱۴
- ↑
۔ ایضاً، ۴ :۳۱۵
- ↑
۔ ابن عبدالبر، الاستیعاب فی معرفۃ الأصحاب،:۱، کتاب النساء وکناھن، باب الزاي،:۸۳۱۔۸۳۲ * الزرکلي، خیرالدین،۶۶:۳
- ↑
۔ ابن کثیر، علامہ، عمادالدین، البدایہ والنھایہ،مکتبہ قدوسیہ،لاہور، ۱۴۰۴ھ، ۴ :۹۰
- ↑
۔ الزرکلي، خیرالدین، الاعلام، بیروت: دارالعلم للملایین،۷ :۲۵۹
- ↑
۔ الصحیح المسلم، کتاب الزھد، باب فضل الاحسان لی الارملۃ والیتیم والمسکین، ۸ :۹،حدیث:۶۰۰۵
- ↑
۔ بخاری، محمد بن اسمعیل، امام، الجامع الصحیح کتاب الزکوٰۃ، باب الصدقہ علی الیتیمی، رقم الحدیث: ۱۳۷۵
- ↑
۔ آل عمران،۳: ۱۰۴
- ↑
۔ احمد بن حنبل، امام، المسند، ۶ :۴۲۸
- ↑
۔ ایضاً:ص:۴۲۸
- ↑
۔ احمد بن حنبل، امام، المسند، ۶ :۲۹۳
- ↑
۔ ایضاً، ۶ :۲۷۱
- ↑
۔ الجامع الصحیح ، کتاب العمرۃ، باب کم اعتمر النبی، رقم الحدیث: ۱۶۵۳
- ↑
۔ ایضاً
- ↑
۔ ایضاً
- ↑
۔ ترمذی، ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ، الجامع الترمذی، کتاب اللباس، باب کپڑے میں پیوند لگانا، ۱ :۸۵۲
- ↑
۔ بخاری، محمد بن اسمعیل، امام، ادب المفرد، سانگلہ ہل:المکتبہ الاثریہ، س ن،:۳۲۷
- ↑
۔ الصحیح المسلم، کتاب السلام، باب ارادف المراۃ الاجنبیہ اذا رعیت فی الطریق، حدیث:۹۶۲
- ↑
۔ الجامع الصحیح ، کتاب اللباس الثیاب الخضر، حدیث: ۲۶۹
- ↑
۔ الترمذی کتاب الفتن، حدیث:۳۵۱۶
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Volume 3 Issue 2 | 2019 | ||
Article Title | Authors | Vol Info | Year |