1
2
2021
1682060054107_1843
1-6
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/download/10/17
http://journals.mehkaa.com/index.php/negotiations/article/view/10
History Historiographer Historian Civilization and Culture Urdu Literary Histories Creativity Research Critique Researcher Phonetics Religion
تلخیص
تواریخ کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ تاریخ سیاسی ہو، ثقافتی ہو یا ادبی ہو ایک سماجی اور معاشرتی مطالعہ ہوتی ہے۔ تواریخ لکھنے والوں کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ اگر غیرجانب دار نہ ہوں یا صاحبِ بصیرت نہ ہوں تو مستقبل میں بہت سی غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اس لیے ہمیشہ تاریخ لکھنے والے کو غیر جانب دار، صاحبِ بصیرت اور مشاہدے کی قوت والا ہونا چاہیے۔ تواریخ نگاری میں لکھنے والے کی تحقیقی اور تنقیدی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ایک تاریخ نگار محقق نہیں تو وہ حقیقت کو پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اسی طرح ایک تاریخ نگار تنقیدی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ بھی حقائق کا جائزہ لینے میں کوتاہی کر سکتا ہے۔ اس لیے ہمیشہ جب بھی کسی تاریخ کو اہمیت ملی، تاریخ نگار کی وجہ سے ملی۔ تواریخ لکھنے والے بے شمارہیں لیکن ان میں چند ایک کو قبولیت عام کا درجہ ملا۔ ہمیشہ تاریخ میں سماجیات کا جب جائزہ لیا جاتا ہے تو ایک عہد کا کلچر اور ثقافت اُبھرکر سامنے آجاتے ہیں۔ اس لیے تاریخ نگار نہ صرف واقعات کو قلم بند کرتا ہے بلکہ وہ ثقافت و کلچر کی بھی بے لاگ نقشہ کشی کرتا ہے۔ ادبیات کی تاریخ تو خصوصاً کلچر و ثقافت کو بیان کرتی ہے۔ اُردو ادب کا ایک مخصوص کلچر اور تہذیب ہے۔ برصغیر پاک و ہند میں مختلف کلچر اور مختلف تہذیب کے اثرات ملتے ہیں۔ ادبیاتِ اُردو شمال، جنوب، مغرب اور مشرق میں یکساں پھیلا جہاں مختلف علاقائی اور لسانی اعتبار سے مختلف تہذیبیں تھیں۔ ہر شاعر اور تخلیق کار اپنے اپنے علاقے کے کلچر کو بیان کرتا تھا۔ جب تہذیب و کلچر دل کے جذبات میں جذب ہوتے ہیں اور الفاظ کا جامہ پہنتے ہیں تووہ تخلیق بن جاتے ہیں۔ گویا تخلیق کی تاریخ بیان کرنا بھی ادبیات کی تاریخ بیان کرنے کے مترادف ہے۔ بے شک ادبیات تخلیق کا نام ہے لیکن تاریخ نگاری کو بھی ادبیات سے خارج نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایک مؤرخ جب تاریخ بیان کرتا ہے تو وہ تخلیقی ادب کو بھی بیان کرتا ہے ورنہ تاریخ ادھوری رہ جاتی ہے۔ تواریخِ ادبیات اُردو کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تواریخ کا ادبیاتِ اُردو کے فروغ میں ایک اہم کردار ہے۔ اگر تواریخ کو نکال دیا جائے تو ادبیاتِ اُردو کی تفہیم ناممکن ہو جائے گی۔ تواریخ لکھنے والے بھی ادبیات کے فروغ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ادبیات کی تاریخ نگاری کا آغاز "آبِ حیات" سے شروع ہوتا ہے جو محمد حسین آزاد کی معرکة الآرا کتاب ہے۔ جس میں پہلی دفعہ اُردو ادب کے محفوظ تذکروں کو موضوع بنایا گیا۔ محمد حسین آزاد ایک ہمہ جہت قلم کار تھے۔ محقق اور تخلیق کار کی حیثیت سے ان کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ ڈاکٹر سلیم اختر ان کی کتاب کے حوالے سے لکھتے ہیں: "آزاد کی اصل شہرت 'آبِ حیات' (۱۸۸۸ء) کی وجہ سے ہے۔ نہ صرف اسلوب کی رنگینی، الفاظ کے فنکارانہ استعمال اور عبارت کے شاعرانہ حسن کی وجہ سے ہے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ پہلی کتاب ہے جس نے تذکروں کی فہرست ساز تنقیدی روایات سے انحراف کیا"1
ڈاکٹر سلیم اختر کی رائے سے معلوم ہوتا ہے کہ "آبِ حیات" پہلی کتاب ہے کہ جس میں تنقیدی صلاحیتوں سے بھی کام لیا گیا۔ گویا اس کتاب میں پہلی مرتبہ تحقیقی کے ساتھ تنقیدی بصیرت کا استعمال ہوا اور جب تنقید سے کام لیا جاتا ہے تو صرف وہ تاریخ واقعات کا بیان نہیں رہتی بلکہ سماج و کلچر کو بھی بیان کیا جاتا ہے۔ ادب میں بیان ہونے والے موضوعات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ موضوعات کا تعلق معاشرے سے ہوتا ہے۔ "آب حیات"کو گو بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ "تاریخ ادب" کی اِسے پہلی کتاب قرار دیا جاتا ہے مگر اِسے باقاعدہ تاریخ قرار نہیں دیا جاتا کیونکہ اِس میں جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ تحقیقی سے زیادہ تخلیقی اور تنقیدی ہے کیونکہ محمد حسین آزاد نے شعرا کے حالات کم اور اُن کے شعری نمونے زیادہ دیئے ہیں، وہ بھی اپنے من پسند شعراءکے دیئے ہیں، گویا جانب داری کا بھی احساس ہوتا ہے حالانکہ تحقیق میں جانب داری معیوب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اِن کی کتاب میں غالب سے زیادہ ذوق کو اہمیت دی گئی ہے۔ اس کتاب کو تذکرہ میں ایک ترقی یافتہ صورت قرار دیا جا سکتا ہے۔ادبی تاریخ نگاری کا باقاعدہ آغاز بیسویں صدی میں ہوا ۔ رام بابو سکسینہ کی تاریخ ادب اُردو کا شمار ابتدائی تاریخوں میں ہوتا ہے۔ رام بابو سکسینہ نے اپنی کتاب "تاریخ ادب اُردو" میں مولوی عبدالحق اور حکیم سید شمس اﷲ قادری کی کوششوں کو بہت سراہا ہے۔اس حوالے سے لکھتے ہیں:"محققین زبان اور ریسرچ اسکالروں نے بحرِ تحقیق میں غوطہ زنی کر کے دکن کی قدیم نثر کے بہت سے نمونے دستیاب کیے ہیں۔یہ کارروائی ہنوز جاری ہے اور اُمید کی جاتی ہے کہ بہت عرصہ نہیں گزرے گا کہ کافی مواد ایک مکمل اور معتبر تاریخ نثر اُردو میں تیاری کے لیے فراہم ہو جائے گی۔ ایسے محقق ہمارے نزدیک مولوی عبدالحق اور حکیم سید شمس اﷲ قادری ہیں جن کی کوششیں اس بارے میں بہت تحسین اور آفرین کے لائق ہیں جہاں تک کہ قدیم ترین نمونے اس وقت تک دریافت ہوئے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ نثر اُردو کی تاریخ آٹھویں صدی ہجری سے شروع ہوتی ہے"2 مصنف موصوف کے نزدیک محققین نے اب تک بہت سے کام کر لیے ہیں اور بہت سی کتب دریافت کر لی ہیں لیکن ابھی بہت کچھ دریافت کرنا باقی ہے۔ رام بابو سکسینہ نے کہانی کے انداز میں اُردو ادب کی تاریخ لکھی ہے جسے بہت سراہا گیا ہے۔ وہ اپنی کتاب "تاریخ ادب اُردو" میں میروسودا کی شاعری اور ان کے دور کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں لکھتے ہیں: "یہ دور اُردو شاعری کی ترقی کے سب سے بڑا دور ہے۔ اسی میں شاعری کو معراج ترقی حاصل ہوئی۔ اس میں میر حسن، درد ، سودا اور میر اسے صاحب کمال پیدا ہوئے جن کے نام اس وقت تک روشن ہیں بلکہ جب تک زبانِ اُردو دنیا میں رہے گی وہ کبھی نہیں مٹ سکتے۔ یہ کامل استاد اپنے فن میں بے نظیر و بے مثال گزرے ہیں اور اپنا کلام آئندہ نسلوں کے واسطے ایک بے مثل کسوٹی چھوڑ گئے ہیں"3 مندرجہ بالا اقتباس میں رام بابو سکسینہ میرو سودا کی شاعری اور ان کے دور کو اہمیت دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ دور اُردو شاعری کی ترقی کا سب سے بڑا دور ہے اور اسی دور میں شاعری کو بام عروج حاصل ہوا۔ تاریخ نگاری میں مولانا عبدالسلام ندوی کی کتاب "شعر الہند"، رام بابو سکسینہ کی کتاب "تاریخ ادبِ اُردو"، احسن مارہروی کی کتاب"نمونہ منشورات"، شیخ محمد اکرام کی "موجِ کوثر"، عین الحق فرید کوٹی کی کتاب "اُردو زبان کی قدیم تاریخ"بہت اہم کتب ہیں جن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ادبیاتِ اُردو کے فروغ میں ان کتب نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ خصوصاً عین الحق فرید کوٹی کی کتاب "اُردو زبان کی قدیم تاریخ" بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کے حوالے سے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ لکھتے ہیں:"اس کتاب کا موضوع جتنا وسیع ہے اتنا ہی پیچیدہ ہے اور ان کے اکثر پہلو ہنوز تشنہ تحقیق ہیں لیکن تحقیق کا یہی تقاضا ہے کہ مختلف مسائل کو علمی شواہد خواہ قیاسی دلائل سے زیرِ بحث لائے جائیں۔ مزید بحث و نظر کے لیے راہیں کھل جاتی ہیں۔ فاضل مصنف کی یہ کوشش اسی مسلک کی علم بردار ہے ........ مصنف نے جو کچھ لکھا ہے کھلے ذہن سے لکھا ہے اور وہ علمی تحقیق کی روشنی میں ابتدائی خیالات کو بدل دینے کے قائل ہیں" 4
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ عین الحق فرید کوٹی کی تاریخ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے اُن کے نزدیک جانب داری کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ اگر تاریخ میں اپنے نقطہ نظر کو بیان کیا جائے تو وہ بہت ہی مناسب ہے مگر اُس کے لیے شواہد معروضی ہونے چاہئیں یا پھر اِس طرح کے شواہد ہونے چاہئیں جو حقائق پر پورے اُترتے ہوں یا عقل کو متاثر کرتے ہوں جبکہ عین الحق فریدکوٹی ایسا کم کرتے ہیں۔ البتہ اِس تاریخ سے ادب فہمی کے دروازے وا ہوتے ہیں۔
ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ عین الحق فرید کوٹی نے بحث کے نئے دروازے کھولے ہیں گویا تحقیق میں تنقید کا عنصر شامل کیا ہے۔ ویسے بھی اس کتاب کے ابواب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب تہذیب و کلچر کو بیان کرتی ہے جو ادب کا حصّہ ہے۔ مثلاً اس کتاب کا بابِ اوّل لسانیات کی تاریخ اور باب دہم وادی سندھ کی زبان پر یونانی اثرات بتاتے ہیں کہ یہ کتاب محض تاریخ نگاری کا حصّہ نہیں ہے بلکہ اس کتاب سے ادبیات ِ اُردو کے فروغ کی راہیں بھی کھلتی ہیں۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق کی کتاب "اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام" بہت اہمیت کی حامل کتاب ہے۔ اگرچہ یہ ایک مختصر سی کتاب ہے تاہم اس کتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ فروغِ ادبیاتِ اُردو میں صوفیا کا ایک اہم کردار تھا۔ ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ صوفیا ءنے کس طرح اپنے جذبات و احساسات گو شعر کے ذریعے بیان کیا اور یوں ان کے جذبات و احساسات آج ادبیاتِ اُردو کی بنیاد ہیں۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے اُردو کے فروغ کے لیے بہت کام کیا ہے۔ لسانیات کے ساتھ ساتھ تاریخ کو بھی بیان کیا ہے۔ اِن کی کتاب "اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاءکرام کا کام" اپنی اہمیت کی منفرد اور اہمیت کی حامل کتاب ہے تاہم فروغِ اُردو میں صوفیا ءنے جو کردار ادا کیا ہے وہ اس کتاب کا موضوع ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیا ءکرام نے نہ صرف مادری زبان میں مذہب کو پھیلایا بلکہ اُردو کو بھی اپنی تبلیغ کا ذریعہ بنایا کیونکہ اُردو وہ واحد زبان تھی جو ہر زبان بولنے والا بول سکتا تھا۔ اُردو کے فروغ میں اِن صوفیا ءکا کردار مثالی ہے۔ اس لیے یہ کتاب بہت اہمیت رکھتی ہے۔صوفیا ءکی ان خدمات کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھتے ہیں:"صوفیائے کرام برِ عظیم کے مختلف علاقوں میں رشد و ہدایت کی روشنی پھیلا رہے تھے۔ بابا فرید الدین گنج شکر ملتان کے رہنے والے ہیں، شیخ حمید الدین ناگوری وسطی ہند کے، بو علی قلندر پنجاب و ہریانہ کے، شیخ شرف الدین یحییٰ منیری بہارو بنگال کے، امیرخسرو دہلی کے اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی اودھ کے جو پنجاب میں تھا" 5
ڈاکٹر جمیل جالبی نے صوفیا ءکے حوالے سے جو معلومات دی ہیں وہ بتاتی ہیں کہ صوفیاءنے مختلف علاقوں میں رُشد و ہدایت کے چراغ روشن کیے اور فروغِ اُردو میں بھی اہم کردار ادا کیا کیونکہ ان صوفیا کی رابطے کی زبان اُردو تھی۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اپنی اس کتاب میں صوفیا ءکی انہی خدمات کو بیان کیا ہے گویا معلوم ہوا کہ تواریخِ ادب اُردو نے فروغِ ادب میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ تواریخِ ادب اُردو کا جائزہ لیں تو "موجِ کوثر"بھی بڑی اہم کتاب ہے جسے شیخ محمد اکرام نے تحریر کیا۔ "موجِ کوثر"شیخ محمد اکرام کی اہم کتاب ہے جس میں مصنف نے گو صوفیاء کے تبلیغ کے کردار کو بیان کیا ہے مگر اِن کا ذریعہ تبلیغ کیا تھا؟ زبان کیا تھی اور اسلوب کیا تھا؟ وہ انہوں نے اِس کتاب میں بیان کیا ہے جس طرح صوفیا ءنے اُردو کو فائدہ پہنچایا ہے شاید ہی ہمارے اُردو دان نے پہنچایا ہو۔ درحقیقت فصیح زبان وہ ہوتی ہے جو روزمرّہ میں استعمال ہوتی ہے۔صوفیاء عوام کے ساتھ، اُن کی زبان میں بات کرتے تھے۔ ڈاکٹر مولوی عبدالحق نے اِس کتاب کے لیے سخت محنت کی تھی۔ کتاب بھی وہی اعلیٰ ہوتی ہے جو تحقیق سے مکمل کی جائے۔ ڈاکٹرمولوی عبدالحق نہ صرف اُردو سے عشق کرتے تھے بلکہ ایک خالص محقق بھی تھے اور اِن کی یہ کتاب ایک شاہکار کتاب ہے۔"موجِ کوثر"کے حوالے سے شیخ محمد اکرام لکھتے ہیں:"کتاب (موجِ کوثر) سلسلہ کوثر کی تیسری اور آخری کڑی ہے۔ اس میں انیسویں صدی کے آغاز سے قیامِ پاکستان تک کی اہم مذہبی، فکری اور قومی تحریکوں اور رہنماؤں کا ذکر ہے۔ سیاسی لحاظ سے ڈیڑھ سو سال (۱۸۰۰ءتا ۱۹۴۷ء) کا یہ زمانہ محکومیت کا دور تھا۔ ۱۸۵۷ءکی ناکام جنگِ آزادی کے بعد مسلمانوں کی حالت ہر لحاظ سے انتہائی پستی کو پہنچ گئی تھی لیکن قوم میں ابھی جان باقی تھی۔ اﷲ کا ایک بندہ اٹھا اور اپنی ہمت ،معاملہ فہمی اور چالیس سال کی مسلسل جدوجہد سے حالات کا نقشہ بدل دیا ........ یہ نتیجہ خیز کوششیں سیاسیات تک محدود نہ تھیں، علمی، ادبی بلکہ مذہبی اور دینی معاملات میں بھی قوم نے نئی سربلندیاں حاصل کیں۔ اُردو نثر کا اصل آغاز اس زمانے میں ہوا۔ اُردو شاعری میں ایک خوش گوار ، صحت مند انقلاب آیا"6
اس اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ شیخ محمد اکرام کی کتاب محض واقعات کا بیان نہیں ہے بلکہ اس کتاب میں مذہبی، فکری اور قومی تحریکوں کا بھی ذکر ہے جو ادب کا مواد ہوا کرتی ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر سید عبداﷲ کی کتاب "اُردو ادب "ایک اہم کتاب ہے۔ یہ کتاب اُردو ادب ۱۸۵۸ءتا۱۹۶۶ءتک کی تقریباً سو سالہ ادب کی تاریخ ہے۔ ڈاکٹر وحید قریشی "اردو ادب" کے حوالے سے دیباچہ میں لکھتے ہیں:"سنہ ستاون اُردو ادب کی تاریخ میں ایک انقلاب آفرین موڑ شمار کیا جاتا تھا۔اگرچہ مغربی اثرات اور نئے طرز احساس کی پرچھائیاں اس سے کچھ پہلے اُردو ادب پر نظر آنے لگی تھیں لیکن اس سیاسی پیکار کے بعد ان کے نقوش کچھ زیادہ گہرے ہونے لگے۔ سرسید اور ان کے رفقاءنے نئے حالات کے ساتھ مفاہمت کا درس دیا۔ انھوں نے زندگی کے علاوہ ادب میں بھی ایک ٹھہراؤکی کیفیت پیدا کر دی تھی۔"7ڈاکٹر سید عبداﷲ کی کتاب پر ڈاکٹر وحید قریشی کا تبصرہ بہت جامع اور جچا تلا ہے۔ اس کتاب کا پہلا باب ۱۸۵۷ءسے جنگ عظیم اوّل تک کا ہے اور دوسرا باب جنگ عظیم اوّل کے بعد ۱۹۱۴ءسے ۱۹۳۶ءتک ہے۔ مصنف دوسرے باب میں اُردو زبان کی تاریخ اور ادبی تنقید کے حوالے سے لکھتے ہیں:"اس دور کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں اُردو زبان کی ابتداءاور ارتقاءکے متعلق خاصی تحقیق ہوئی۔ جنگ عظیم سے پہلے تاریخ ادب کے موضوع پر ہمارا کل سرمایہ "آب حیات" (آزاد) یا چند متفرق رسالوں تک محدود تھا۔ ۱۹۱۶ءاور۱۹۳۰ءکے درمیان چند کتابیں اور بھی شائع ہوئیں۔ غالباً شعرالعجم کے تخیل سے متاثر ہو کر دارالمصنفین نے سب سے پہلے گل رعنا اور شہر الہند شائع کی۔ اوّل الذکر مولانا عبدالحئی کی اور دوسری مولانا عبدالسلام ندوی کی تصنیف ہے" 8
مندرجہ بالا اقتباس میں ڈاکٹر سید عبداﷲ نے بتایا ہے کہ جنگ عظیم اوّل کے بعد کے دور میں اُردو زبان کی ابتداءاور ارتقا ءکے متعلق خاصی تحقیق ہوئی، اسی طرح تواریخ ادبیات اُردو کے فروغ میں ڈاکٹر سلیم اختر کا اہم نام ہے۔ وہ نقاد اور محقق ہیں۔ وہ ادبی تاریخ کے ان چند نامور مورخین میں شامل ہیں جنھوں نے تواریخِ ادبیات اُردو میں اپنا حصّہ شامل کیا۔ ان کی کتاب "اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ" بہت اہمیت کی حامل ہیں ۔ صوفیائے کرام نے اُردو کی ابتدائی نشوونما میں جو کردار ادا کیا اس کی نشان دہی مولوی عبدالحق نے اپنی مختصر کتاب "اُردو کی ابتدائی نشوونما میں صوفیاءکرام کا کام" میں وضاحت کی ہے۔ مولوی عبدالحق کی اس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر سلیم اختر اپنی کتاب "اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ" میں رقم طراز ہیں: "صوفیاءکو محض جنوبی ہند سے ہی مخصوص نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہندوستان بھر میں وہ تبلیغ کے ساتھ ساتھ اُردو زبان کی مقبولیت اور ادب کی ترقی کا باعث بھی بنے۔ چنانچہ مولوی عبدالحق کی تالیف 'اُردو کی نشوونما میں صوفیائے کرام کا کام' کے مطالعہ سے اس امر کا اندازہ لگانا دشوار نہیں" 9
مولوی عبدالحق نے زیادہ تر اُردو زبان کی خدمت کی۔ اُردو زبان کے لیے اپنا گھر بار قربان کر دیا۔ ساری عمر اُردو کے لیے وقف کر دی۔ جنوبی ہند کا ادبی سرمایہ منظر عام پر لا کر اُردو زبان کی تاریخ میں مزید اضافہ کیا۔ تاہم ان کی یہ کتاب بھی اپنی نوعیت کی منفرد اور اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کتاب سے نہ صرف صوفیاءکی کاوشوں پر نظر پڑتی ہے بلکہ اُردو ادب کی پیش رفت بھی سامنے آتی ہے۔ مولوی عبدالحق نے ثابت کیا ہے کہ صوفیائے کرام نے اپنی تبلیغ کے لیے جس زبان کو وسیلہ بنایا وہ اُردو تھی اور ان کی وجہ سے یہ زبان رابطے کی زبان بنی۔اسی طرح ڈاکٹر تبسم کا شمیری کی کتاب "اُردو ادب کی تاریخ"تاریخ نگاری کے حوالے سے لکھی گئی ایک اہم کتاب ہے۔
اشاعت اور زمانے کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر تبسم کاشمیری کی یہ کتاب تمام تواریخ سے عمر میں بہت چھوٹی ہے لیکن اس میں تحقیق اور تنقید کی آمیزش کا بغور اور غیر جانب دارانہ اندازہ لگایا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اُردو ادب کی تاریخ کی اشد ضرورت تھی۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری کے مطابق اچھے ادبی مؤرخ کو ادبی تاریخ اور سماجی علوم کے مابین باہمی عمل پرگہری نظر رکھنی چاہیے۔ اس حوالے سے کہتے ہیں: "دور حاضر میں ادبی تاریخ کو ایک وسیع زمانی تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسے محض ادب کے محدود شعبہ سے بہرحال آزاد ہونا چاہئے اس لیے ادبی تاریخ کے مؤرخ کی بصیرت سیاسی، سماجی یا واقعاتی تاریخ کے مؤرخ سے زیادہ ہونی چاہئے۔ سماجیات کا مؤرخ اپنے محدود دائرہ کار میں سمیٹتا ہوا تاریخ کا سفر کرتا ہے جب کہ ادبی مؤرخ تاریخ کے تمام دھاروں اور شعبوں پربہ یک وقت نظر ڈالتا ہوا آگے بڑھتا ہے"10
مصنف نے کہا ہے کہ مؤرخ کو کس انداز میں تاریخ لکھنی چاہیے اور سماجیات کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشیری نے اپنی کتاب میں آغازسے لے کر ۷۵۸۱ء تک کی ادبی تاریخ کا احاطہ کیا ہے۔ انہوں نے پہلی دفعہ روایتی تاریخ نگاری سے ہٹ کر کوئی بات کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے شاید بعض مؤرخین اس پر اعتراض بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے صرف معلومات پر اکتفا نہیں کیا بلکہ ساتھ ساتھ تجربہ بھی کیاہے جو ادب کے قاری اور محقق کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوا ہے۔ ڈاکٹر تبسم کاشمیری لکھتے ہیں: "ادبی تاریخ ماضی کی بازیافت ہے۔ اس کا اہم مقصد گئے گزرے زمانوں کو زندہ کرنا ہے۔ ادبی مؤرخ ماضی کے اندھیرے منظر وں میں سفر کرتا ہے۔ خوابیدہ داستانوں کو بیدار کرتا ہے۔ گرد میں دبی ہوئی دستاویزات کو جھاڑتا ہے اور ان دستاویزات کے اوراق پر ماضی کے نام ور کرداروں سے متعارف ہوتا ہے اور ان سے مکالمہ کرتا ہے۔ آہستہ آہستہ وہ تاریخ کے ان کرداروں سے مانوس ہوتا جاتا ہے اور اس کی دوستی ان لوگوں سے بڑھتی جاتی ہے۔ ادبی مؤرخ کوحال سے سفر کرتے ہوئے ماضی کے ان زمانوں تک جانا پڑتا ہے کہ جن زمانوں میں یہ ادبی کردار زندہ تھے اور اپنے تخلیقی عمل سے اپنے عہد کو متاثر کر رہے تھے"11
ڈاکٹر موصوف کے نزدیک ادبی مورخ کا کام ساکن اور مردہ چیزوں کو اس طرح پیش کرنا ہوتا ہے کہ وہ متحرک اور زندہ ہو جائیں۔ یوں تو پوری تواریخ کا جائزہ لیں تو ڈاکٹر جمیل جالبی کی "تاریخ ادب اُردو" کی حیثیت مسلّمہ ہے لیکن وہ بھی علاقائی نظریات کا حوالہ دیئے بغیر آگے نہیں بڑھتے اس سے یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ زبان کے علاقائی بنیادوں پر ابتداءکے تمام نظریات کسی نہ کسی حد تک درست ہیں اور ان کی مخالفت کرنے والے نقاد محض پسند و نا پسند کے جال میں الجھے ہوئے ہیں کیونکہ جمیل جالبی نے جو فیصلہ دیا ہے۔ وہ بھی اہمیت سے خالی نہیں ، لکھتے ہیں:"اس زبان کا مولد ہر وہ علاقہ ہے جہاں" مختلف الزبان" لوگ آپس میں مل جل رہے ہیں۔ ملنے جلنے کا یہ عمل خواہ پنجاب و سندھ میں ہورہا ہو یا دہلی، شمالی ہندوستان ، دکن اور گجرات میں یہ زبان ہر زبان سے مل کر شیرو شکر ہوجاتی ہے"12
زبان اُردو کس طرح پھیلی اور کہاں کہاں پھیلی۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے یعنی پورا نقشہ کھینچ دیا یہ دور تاریخ ادب اُردو کا سنہری دور ہے کیونکہ اُردو کی ارتقائی صورتِ حال سامنے آتی ہے۔اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تواریخ نگاری کا فروغِ ادبیات اُردو میں ایک اہم کردار رہا ہے جن کا ذکر اگر تواریخ میں نہ ہوتا تو ادبیات کی تفہیم بہت مشکل ہو جاتی یوں تو پوری تواریخ کا جائزہ لیں تو ایک طویل مقالہ وجود میں آسکتا ہے جو پی ایچ ڈی سطح کا بھی ہو سکتا ہے تاہم ہم اختصار سے بھی جائزہ لیں توڈاکٹر جمیل جالبی کی "تاریخ ادب اُردو"تک یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ادبیات اُردو کے فروغ میں تواریخ ِ ادبیات نے بنیادی کردار ادا کیا ہے۔ ڈاکٹر جمیل جالبی کی کتاب "تاریخ ادب اُردو" میں ادوار اور زمانی اعتبار سے ادب، ثقافت اور مذہب کا جس انداز سے جائزہ لیا گیا ہے شاید ہی دیگر کسی کتاب میں لیا گیا ہو گا۔ اِن کی کتاب ادب کی تمام تواریخ سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ اِن کا مطالعہ پچھلی تمام کتب تاریخ اور اگلی تمام کتب تواریخ سے بے نیاز کر دیتا ہے۔
٭٭٭
1 ڈاکٹرسلیم اختر ، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ (لاہور :سنگِ میل پبلی کیشنز ، 2013ء )، 334۔
2 رام بابو سکسینہ،تاریخ ادب اُردو، مرزا محمد عسکری، مترجم (لاہور : علمی کتاب خانہ، س۔مء)،356۔
3 ایضاً، ص70۔
4عین الحق فرید کوٹی ، اُردو زبان کی قدیم تاریخ(لاہور :ارسلان پبلی کیشنز ، 1972ء )، 14۔
5ڈاکٹر جمیل جالبی ، تاریخِ ادب اُردو (لاہور :مجلس ترقی ادب، 1984ء )، 41۔
6 شیخ محمد اکرام ، موجِ کوثر(لاہور :ادارہ ثقافتِ اسلامیہ، 1963ء )، 5۔
7 ڈاکٹر عبداللہ ، اُردو ادب، ۱۸۵۷ءتا ۱۹۶۶ء (لاہور :مکتبہ خیابان ادب، 1967ء )، 1۔
8ایضاً، ص121۔
9 ڈاکٹرسلیم اختر ، اُردو ادب کی مختصر ترین تاریخ (لاہور :سنگِ میل پبلی کیشنز ، 2013ء )، 139۔
10ڈاکٹرتبسم کاشمیری ، اُردو ادب کی تاریخ (لاہور :سنگِ میل پبلی کیشنز ، 2009ء)، 10۔
11 ایضاً ،ص 11۔
12ڈاکٹرجمیل جالبی ، تاریخِ ادب اُردو (لاہور :مجلس ترقی ادب ، 2008ء)،586-587۔
Article Title | Authors | Vol Info | Year |
Article Title | Authors | Vol Info | Year |